Surat ul Maoon
Surah: 107
Verse: 4
سورة الماعون
فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۴﴾
So woe to those who pray
ان نمازیوں کے لئے افسوس ( اور ویل نامی جہنم کی جگہ ) ہے ۔
فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۴﴾
So woe to those who pray
ان نمازیوں کے لئے افسوس ( اور ویل نامی جہنم کی جگہ ) ہے ۔
(فویل للمصلین…:” ساھون “” سھا یسھو سھواً “ (ن) (غافل ہونا) سے اسم فاعل ” ساہ “ (بروزن قاض) جمع ہے۔ ” یرآء ون “” راء ی یر ا ء ی مراعاۃ و ریاء “ ( ) مفاعلہ) سے فعل مضارع جمع مذکر غائب ہے، دکھاوا کرنا۔ آیات کی باہمی مناسبت یہ ہے کہپ ہلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو کھلم کھلا قیامت کو جھٹلاتے اور اس کا انکار کرتے تھے اور ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل سے قیامت کو نہیں مانتے۔ یہ منافقین تھے جو آخرت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے، مگر اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے انہیں پڑھنا پڑھتی تھی ۔ حقیقت میں وہ اپنی نماز سے غافل تھے، یہ غفلت کئی طرح سے تھی :(١) طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) عنہماکا قول نقل فرمایا ہے کہ ان نمازیوں سے مراد منافقین ہیں جو صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے تھے، یعنی لوگوں کے سامنے ہوتے تو پڑھ لیتے ورنہ چھوڑ ہی دیتے۔ (٢) اور پڑھتے بھی تو وقت ضائع کر کے پڑھتے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(تلک صلاۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فنفرھا اربعالاً یذکر اللہ فیھا الا قلیلاً ) (مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب استجباب التکبر بالعصر : ٦٢٢)” یہ نماز منفاق کی نماز ہے کہ وہ بٹیھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگے مارتا ہے، اس میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ “ (٣) ان کا نماز ادا کرنے کا انداز بتاتا تھا ہ انہیں اپنی نماز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نماز کے متعلق فرمایا :(ان المنفقین یخدعون اللہ وھو خادعھم واذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی یرآء ون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلاً (النسائ : ١٣٢)” بیشک منافق لوگ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ وہ (اللہ) ان کو دھوکا دینے والا ہے اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے، مگر بہت کم۔ “ (٤) نماز میں بھول تو مخلص مسلمان سے بھی ہوسکتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ہوگئی تھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا تھا، مگر نماز ہی سے بھول ہوجائے، یہ نفاق ہے۔ اس لئے ” ھم فی صلاتھم ساھون “ (ان سے ان کی نماز میں بھول ہوجاتی ہے) ي ہیں فرمایا : بلکہ فرمایا :(ھم عن صلاتھم ساھون) یعنی وہ اپنی نماز ہی سے بھولے ہئے ہیں، انہیں خیال ہی نہیں کہ ہمیں نمازپڑھنی ہے، پڑھتے ہیں تو یاد ہی نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، نہ خشوع ہے نہ خضوع، ڈاڑھی اور پکڑوں سے کھیل رہے ہیں، جمائیاں لے رہے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، غرض ساری نماز پڑھ جاتے ہیں مگر کچھ پتا نہیں کہ کیا پڑھا ؟
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ ٤ ۙ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔
آیت ٤ ‘ ٥{ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ - الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ ۔ } ” تو بربادی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے ‘ جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے زمانے تک مشرکین عرب کے ہاں نماز کا تصور موجود تھا لیکن اس کی عملی شکل بالکل مسخ ہوچکی تھی ۔ جیسا کہ سورة الانفال کی اس آیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے : { وَمَا کَانَ صَلاَتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلاَّ مُکَآئً وَّتَصْدِیَۃًط } (آیت ٣٥) ” اور نہیں ہے ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سوائے سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا “۔ ظاہر ہے جو لوگ برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اس طواف کو سب سے اعلیٰ طواف سمجھتے تھے ‘ ان کے لیے تو نماز میں سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا بھی ایک مقدس عمل اور حصول ثواب کا بہت بڑا ذریعہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں نماز کی ظاہری شکل آج تک اپنی اصلی حالت میں جوں کی توں قائم ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا اور پھر حکم دیا : (صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ) (١) کہ تم لوگ نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کا وہ طریقہ اور عملی نمونہ جو صحابہ (رض) کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے ‘ آج ہم اس پر تو کاربند ہیں لیکن بدقسمتی سے نماز کی اصل روح سے ہم بالکل غافل ہوچکے ہیں ۔ نماز کی اصل روح تو نمازی کا خضوع و خشوع اور یہ احساس ہے کہ وہ کس کے سامنے کھڑا ہے اور کس کے حضور کھڑے ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ جیسا عہد و پیمان باندھ رہا ہے ۔ بہرحال آج ہماری نمازیں اس روح سے خالی ہو کر محض ایک ” رسم “ کی ادائیگی کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں (الاماشاء اللہ) ۔ اقبال نے اپنے خصوصی انداز میں مسلمانوں کی اس زبوں حالی کی تصویر انہیں بار بار دکھائی ہے : ؎ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی (رض) نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین ِغزالی نہ رہی ! اور ؎ نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تو ُ باقی نہیں ہے !
8 The fa in fa-wail-ul -lil-musallin signifies that such was the condition ofthe open deniers of the Hereafter. One may then consider the condition of the hypocrites who are included among the praying ones (i e. Muslims) . Since, despite being Muslims they regard the Hereafter as a falsehood, one may note what path of ruin they are following. Though "musallin" means "the praying ones", in view of the context in which this word has been used and the characteristics of these people that follow, this word, in fact, does not have the meaning of "the praying ones" but of "the people of salat", i.e. of those included among Muslims.
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 8 فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ یہاں ف اس معنی میں ہے کہ کھلے کھلے منکرین آخرت کا حال تو یہ تھا جو ابھی تم نے سنا ، اب ذرا ان منافقوں کا حال بھی دیکھو جو نماز پڑھنے والے گروہ ، یعنی مسلمانوں میں شامل ہیں ۔ وہ چونکہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود آخرت کو جھوٹ سمجھتے ہیں ، اس لیے ذرا دیکھو کہ وہ اپنے لیے کس تباہی کا سامان کر رہے ہیں ۔ مُصَلِّيْنَ کے معنی تو نماز پڑھنے والوں کے ہیں ، لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آگے ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی درحقیقت نمازی ہونے کے نہیں بلکہ اہل صلوۃ ، یعنی مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے ہیں ۔
(107:4) فویل للمصلین : فویل مبتداء للمصلین اس کی خبر، ف ترتیب کے لئے ہے۔ یعنی ف کے ماقبل پر یہ نتیجہ مترتب ہوتا ہے کہ مصلین کے لئے ویل ہے۔ یا ف سببیہ ہے یعنی ما قبل ف مابعد ف کا سبب ہے۔ (لہم کی جگہ للمصلین فرمانے کی وجہ سے یہ ہے کہ پہلے مخلوق کے ساتھ معاملات کا ذکر تھا اور اب اس جگہ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر ہے) ویل۔ عذاب ، دوزخ کی ایک وادی کا نام۔ رسوائی، تباہی ، ہلاکت، شدت، عذاب۔ (ویل قرآن مجید میں 27 جگہ آیا ہے) مصلین تصلیۃ (تفعیل) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ نماز پڑھنے والے۔
4:۔ ” فویل “ تو ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت اور ویل ہے جو نماز کی حقیقت اور اس کے اصل مقصد سے غافل ہیں۔ عن ابن عباس ھو المصلی الذی ان صلی لم یرج لھا ثوابا وان ترکہا لم یخش علیہا عقابا (قرطبی ج 20 ص 211) ۔ ” الذین ھم یراءون “ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اور دنیوی مصلحتوں کے تحت نماز پڑھتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ کی رضاء مقصود نہیں ہوتی۔ ” ویمنعون الماعون “ الماعون، بالکل معمولی اور ادنی سی چیز مثلاً سوئی، پانی، نمک آگ وغیرہ۔ وھو الشیء القلیل (روح) اور وہ ایسے بد اخلاق ہیں کہ ایک حقیر سی چیز بھی کسی کو استعمال کے لیے نہیں دیتے۔ اس سورت میں جو اوصاف ذکر کیے گئے ہیں وہ منافقوں کے اوصاف ہیں۔ کو نہا فی المنافقین اشبہ وبھم اخلق لانہم جمعوا لا وصاف الثلاثۃ (قرطبی) ۔ ھذہ السورۃ فی ذکر المنافقین (کبیر)