Surat ul Kausar
Surah: 108
Verse: 1
سورة الکوثر
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾
Indeed, We have granted you, [O Muhammad], al-Kawthar.
یقیناً ہم نے تجھے ( حوض ) کوثر ( اور بہت کچھ ) دیا ہے ۔
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾
Indeed, We have granted you, [O Muhammad], al-Kawthar.
یقیناً ہم نے تجھے ( حوض ) کوثر ( اور بہت کچھ ) دیا ہے ۔
Muslim, Abu Dawud and An-Nasa'i, all recorded from Anas that he said, "While we were with the Messenger of Allah in the Masjid, he dozed off into a slumber. Then he lifted his head smiling. We said, `O Messenger of Allah! What has caused you to laugh' He said, Verily, a Surah was just revealed to me. Then he recited, إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِيَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ Verily, We have granted you Al-Kawthar. Therefore turn in prayer to your Lord and sacrifice. For he who hates you, he will be cut off. Then he said, Do you all know what is Al-Kawthar? We said, `Allah and His Messenger know best.' He said, فَإِنَّهُ نَهَرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ هُوَ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ انِيَتُهُ عَدَدُ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ فَيُخْتَلَجُ الْعَبْدُ مِنْهُمْ فَأَقُولُ رَبِّ إِنَّهُ مِنْ أُمَّتِي فَيَقُولُ إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثَ بَعْدَك Verily, it is a river that my Lord, the Mighty and Majestic, has promised me and it has abundant goodness. It is a pond where my Ummah will be brought to on the Day of Judgement. Its containers are as numerous as the stars in the sky. Then a servant of Allah from among them will be (prevented from it) and I will say: "O Lord! Verily, he is from my Ummah (followers)." Then He (Allah) will say: "Verily, you do not know what he introduced (or innovated) after you." This is the wording of Muslim. Ahmad recorded this Hadith from Muhammad bin Fudayl, who reported from Al-Mukhtar bin Fulful, who reported it from Anas bin Malik. Imam Ahmad also recorded from Anas that the Messenger of Allah said, دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِنَهْرٍ حَافَتَاهُ خِيَامُ اللُّوْلُوِ فَضَرَبْتُ بِيَدِي إِلَى مَا يَجْرِي فِيهِ الْمَاءُ فَإِذَا مِسْكٌ أَذْفَرُ قُلْتُ مَاهَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللهُ عَزَّ وَجَل I entered Paradise and I came to a river whose banks had tents made of pearls. So I thrust my hand into its flowing water and found that it was the strongest (smell) of musk. So I asked, "O Jibril! What is this" He replied, "This is Al-Kawthar which Allah, the Mighty and Majestic has given you." Al-Bukhari recorded this in his Sahih, and so did Muslim, on the authority of Anas bin Malik. In their version Anas said, "When the Prophet was taken up to the heaven, he said, أَتَيْتُ عَلَى نَهْرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّوْلُوِ الْمُجَوَّفِ فَقُلْتُ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَر I came to a river whose banks had domes of hollowed pearl. I said: "O Jibril! What is this" He replied: "This is Al-Kawthar." This is the wording of Al-Bukhari. Ahmad recorded from Anas that a man said, "O Messenger of Allah! What is Al-Kawthar?" He replied, هُوَ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ أَعْطَانِيهِ رَبِّي لَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ فِيهِ طُيُورٌ أَعْنَاقُهَا كَأَعْنَاقِ الْجُزُر It is a river in Paradise which my Lord has given me. It is whiter than milk and sweeter than honey. There are birds in it whose necks are (long) like carrots. Umar said, "O Messenger of Allah! Verily, they (the birds) will be beautiful." The Prophet replied, اكِلُهَا أَنْعَمُ مِنْهَا يَا عُمَر The one who eats them (i.e., the people of Paradise) will be more beautiful than them, O `Umar. Al-Bukhari recorded from Sa`id bin Jubayr that Ibn Abbas said about Al-Kawthar, "It is the good which Allah gave to him (the Prophet)." Abu Bishr said, "I said to Sa`id bin Jubayr, `Verily, people are claiming that it is a river in Paradise."' Sa`id replied, `The river which is in Paradise is part of the goodness which Allah gave him."' Al-Bukhari also recorded from Sa`id bin Jubayr that Ibn Abbas said, "Al-Kawthar is the abundant goodness." This explanation includes the river and other things as well. Because the word Al-Kawthar comes from the word Kathrah (abundance) and it (Al-Kawthar) linguistically means an abundance of goodness. So from this goodness is the river (in Paradise). Imam Ahmad recorded from Ibn Umar that the Messenger of Allah said, الْكَوْثَرُ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ وَالْمَاءُ يَجْرِي عَلَى اللُّوْلُوِ وَمَاوُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَل Al-Kawthar is a river in Paradise whose banks are of gold and it runs over pearls. Its water is whiter than milk and sweeter than honey. This Hadith was recorded in this manner by At-Tirmidhi, Ibn Majah, Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." Then Allah says, فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
شہد سے زیادہ میٹھی اور دودھ سے زیادہ سفید نہر: مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غنودگی سی طاری ہو گئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا یا لوگوں کے اس سوال پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے مسکرائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس پوری سورت کی تلاوت کی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئیگی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائیگا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے نسائی کی حدیث میں ہے یہ واقعہ مسجد میں گذرا اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے مسند کی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں اور روایت میں ہے کہ معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کونسی نہر ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو دے رکھی ہے اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورہ اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے آپ نے فرمایا کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں ( ابن جریر ) اور روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا ( مسند احمد ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے ایک منقطع سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو واللہ اعلم صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائی ہے ابو بشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو حضرت سعید نے فرمایا وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں ۔ اور بھی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو ۔ کوثر ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے عکرمہ فرماتے ہیں نبوت ، قرآن ، ثواب ، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سندا مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوثرجنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالی اسے جزو جسم بنائے اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کر چکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی حضرت ابو عمارہ نے کہا تھا آپ نے فرمایا ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہو چکی ہے بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پر شوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصا نفل فرض نماز اور قربانی اسی وحدہ لا شریک لہ کے نام کی کرتے رہو جیسے فرمایا ( قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ۙ ) 6- الانعام:162 ) مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو اور جگہ ہے ( وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ ١٢١ۧ ) 6- الانعام:121 ) جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو فسق ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد وانحر سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے حضرت شعبی رحمۃ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں حضرت ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع الیدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری تو آپ نے فرمایا اے جبرئیل وانحر سے مراد کیا ہے جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے تو حضرت جبرئیل نے فرمایا اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنا ہے یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وانحر سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو ابن ابی حاتم یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد نحر سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول مقبول صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کر لیا اس کی قربانی نہیں ہوئی ابو بردہ بن نیار رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہوگی آپ نے فرمایا بس وہ تو کھانے کا گوشت ہو گیا صحابی نے کہا اچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہو گا آپ نے فرمایا ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بے برکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائیگا اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابو معیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکے میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے حضرت عطا فرماتے ہیں ابو لہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ یدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کٹ گئی ( صلی اللہ علیہ وسلم و بارک ) اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی ابتر کے معنی ہیں تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مر جاتے تو کہتے ہیں ابتر حضور علیہ السلام کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ ابتر وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا حاشاو کلا اللہ تعالی آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالاباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کر دی گئی ہے آپ کا پیار اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہیگا بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہیگی اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بے حد و بکثرت بھیجتا رہے آمین الحمداللہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورہ کوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ وللہ الحمدوالمنہ ۔
1۔ 1 کوثر، کثرت سے ہے اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر نے " خیر کثیر " کے مفہوم کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں ایسا عموم ہے کہ جس مییں دوسرے معانی بھی آجاتے ہیں۔ مثلاً صحیح حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ اس سے ایک نہر مراد ہے جو جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی جائے گی۔ اس طرح بعض حدیث میں مصداق حوض بتایا گیا ہے، جس سے اہل ایمان جنت میں جانے سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک سے پانی پئیں گے۔ اس حوض میں بھی پانی اسی جنت والی نہر سے آ رہا ہوگا۔ اسی طرح دنیا کی فتوحات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع و دوام ذکر اور آخرت کا اجر وثواب، سب ہی چیزیں " خیر کثیر " میں آجاتی ہیں۔ (ابن کثیر)
[١] کوثر کے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو :۔ کَوْثَر۔ کَثُرَ سے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اہل لغت نے اس کا معنی خیر کثیر لکھا ہے اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ کو عطا کی گئی۔ چناچہ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو اونگھ آگئی۔ اٹھے تو تبسم فرمایا۔ اور تبسم کی وجہ یہ بتائی کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی۔ پھر یہی سورت کوثر پڑھی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا :&& اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں && فرمایا : وہ ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے بہشت میں دی ہے۔ نیز اس سلسلے میں درج ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کے قصہ میں فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے تھے۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ نہر کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا : && یہ کوثر ہے && (جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابو عبیدہ نے سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا کہ && کوثر سے کیا مراد ہے ؟ && انہوں نے کہا :&& کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں وہاں ستاروں کی تعداد جتنے آبخورے رکھے ہیں۔ (حوالہ ایضاً ) ٣۔ سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : کوثر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی۔ ابو بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر (رض) سے کہا کہ :&& لوگ تو کہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے && سعید نے جواب دیا کہ : && جنت والی نہر بھی اس بھلائی میں داخل ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عنایت فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کے دن میدان محشر میں عطا کیا جائے گا۔ جس دن سب لوگ پیاس سے انتہائی بےتاب ہوں گے اور ہر شخص العطش العطش پکار رہا ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حوض پر بیٹھ کر اہل ایمان کو پانی پلائیں گے اور جس خوش قسمت کو اس حوض کوثر کا پانی میسر آجائے گا اسے قیامت کا سارا دن پھر پیاس نہیں لگے گی اور اس سلسلے میں اتنی احادیث صحیحہ وارد ہیں جو تواتر کو پہنچتی ہیں۔ اوپر جو کچھ ذکر ہوا اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت دی گئی اور قرآن جیسی عظیم نعمت دی گئی جس نے ایک وحشی اور اجڈ قوم کی ٢٣ سال کے مختصر عرصہ میں کایا پلٹ کے رکھ دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بلند کیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مشن کو اپنے جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ عرب میں کفر و شرک کا کلی طور پر استیصال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کی ایک ایسی جماعت چھوڑی جو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام دنیا پر چھاگئی۔
(١) انا اعطینک الکوثر :” الکوثر “” کثرۃ “ سے ” فوعل “ کا وزن ہے جو مبالغے کا معنی دے رہا ہے، بےانتہا کثرت۔ یعنی دشمن تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے پاس کچھ نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپ کو بےانتہا دیا ہے۔” الکوثر “ میں وہ ساری خیر کثیر شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی، مثلاً اسلام، نبوت، الخاق حسنہ، بہترین تابع دار امت، جنت اور دوسری نعتیں جو شمار نہیں ہوسکتیں۔ لغت کے لحاظ سے ” اکلوثر “ کا معنی یہی ہے ، البتہ بہت سی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محشر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حوض عطا کرے گا اس کا نام بیھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوثر بتایا۔ اس لحاظ سے یہ تفسیر مقدم ہے، مگر ترجیح کی ضرورت تب ہے جب دونوں تفسیروں میں تعارض ہو، جو یہاں ہے ہی نہیں۔ چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ سعید بن جبیر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہا نہوں نے ” الکوثر “ کے متعلق فرمایا :” اس سے مراد وہ خیر ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی۔ “ راوی کہتا ہے کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے ؟ تو سعید (رح) نے کہا :” جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اس خیر میں شامل ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی۔ “ (بخاری التفسیر، سورة :(انا اعطیناک الکوثر): ٣٩٦٦) (٢) نہر کوثر جنت میں ہے اور حوض کوثر محشر کے میدان میں ہوگا، بعض اوقات اس پر بھی نہر کوثر کا لفظ آتا ہے، کیونکہ اس حوض میں بھی جنت کے دو پرنالوں سے پانی گر رہا ہوگا۔ گویا حوض کا اصل بھی جنت والی نہر کوثر ہے۔ (فتح الباری) انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بینما انا اسیر فی الجنۃ اذا انا بنھر حافتاہ قباب الدر المجوف، قلت ما ھذا یا جبریل ! ؟ قال ھذا الکوثر الذی اعطاک ربک فاذا طیبہ او طیبہ مسک ادفر) (بخاری، الرفاق، باب فی البعوض : ٦٥٨١)” میں جنت میں چلا جا رہا تھا تو اچانک ایک نہر آگئی جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے کہا :” اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ “ تو انہوں نے فرمائی :” یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ “ پھر دیکھا تو اس کی خوشبو یا مٹی مہکنے والی کستوری کی طرح تھی۔ ‘ (٣) حوض کو ثم میدان محشر میں ہے، جہں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کا استقبال کریں گے اور انہیں پانی پلائیں گے۔ حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حوض کوثر کی روایات تیس (٣٠) سے زیادہ صحابہ سے آئی ہیں، جن میں سے بیس (٢٠) صحابہ کی احادیث صحیحین میں ہیں، باقی دوسری کتابوں میں ہیں۔ ان کی نقل صحیح ہے اور ان کے راوی مشہور ہیں۔ (دیکھیے فتح لاباری، کتاب الرقاق، باب الحوض) (٤) ابو ذر (رض) عنہماحوض کوثر میں جنت کے پرنالوں کا گرنا اور حوض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے عر کی : ” اے اللہ کے رسول ! حوض کے برتن کیسے ہوں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والذی نفس محمد بیدہ لا نیتہ اکثر من عدد نجوم السماء وکوا کبھا ، الا فی اللیلۃ المظلمۃ المصحیۃ ، آنیۃ الجنۃ من شرب منھا لم یظلما اخرما علیہ، یشخب فیہ میزابان من الجنۃ من شرب منہ لم یظما عرضہ مثل طولہ ما بین عمان الی ایلہ ماوہ اشد بیاضا من اللبن واحلی من العسل) (مسلم، الفضائل، باب اثبات حوض نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصفاتہ : ٢٣٠٠)” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! اس کے برتن آسمان کے ت اورں سے زیادہ ہیں، یاد رکھو ! تارے بھی اس رات کے جو تاریک ہو اور بادل کے بغیر ہو۔ جنت کے برتن ایسے ہیں کہ جو ان سے پیے گا کبیھ پیاسا نہ ہوگا، اس وقت کے آخر تک جو اس پر گزرے گا۔ اس حوض میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں، جو اس سے پیے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا، اس کا عرض اس کے طول کے برابر ہے، جتنا عمان سے ایلہ تک فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ “ (٥) کوثر کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے، مشہور امام فقہ ابن جنی نے آیت :(ان شانئک ھوالابتر) کی مناسبت سے ” الکوثر “ کا معنی ” ذریۃ کثیرۃ “ (کثیر اولاد) کیا ہے۔ کفار قریشا ور آپ سے دشمنی رکھنے والے کہتے تھے کہ آپ ” ابتر “ (بےاولاد) ہیں، فوت ہوگئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہم نے آپ کو کوثر یعنی اولاد کثیر عطا فرمائی۔ مراد اولاد فاطمہ ہے، کیونکہ بیٹی کی اولاد بھی قرآن کی رو سے اولاد ہے، جیساک ہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ومن ذریتہ داؤد وسلیمن) (الانعام : ٨٣)” اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو (ہدایت دی) ۔ “ اس کے بعد کئی پیغمبروں کا نام لے کر فرمایا :(وزکریا ویحیی و عیسیٰ والیاس) (الانعام : ٨٥)” یعنی اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے زکریا، یحییٰ ، عیسیٰ اور ال یاس کو بھی ہدیات دی۔ “ معلوم ہوا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، حالانکہ ان کا باپ بالا تفاق تھا ہی نہیں، بلکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹی مریم کی اولاد ہیں۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی بیٹی کی اولاد بھی اس کی اولاد ہوتی ہے۔ (قاسمی) یہ معنی یعنی اولاد کثیر بھی ” اکلوثر “ کے اس معنی میں شامل ہے جو ابن عباس (رض) عنہمانے کیا ہے، یعنی خیر کثیر اور اس کی ” الابتر “ کے ساتھ مناسبت بھی ہے۔
Cause of Revelation It is reported by Ibn Abi Hatim (رح) ، on the authority of Suddi, and by Baihaqi, in Dala&il-un- Nubuwwah, on the authority of Muhammad Ibn Ali Ibn Husain (رض) ، that the Arabs used to taunt and revile people who have lost their male issues. They used to refer to such a person as &abtar&, meaning &having no male offspring or no male issue&. In keeping with this social evil, when the young son of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، namely Qasim passed away, some leaders of Quraish, especially ` As Ibn Wh&il, started taunting the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) telling the people that they no longer need to bother about him, because he had no sons to carry on his name and that he would be forgotten after his death; he is &abtar&, that is, his lineage is cut off. On this occasion, the Surah was revealed. [ Baghawi, Ibn Kathir, Mazhari ]. According to some narratives, Ka&b Ibn Ashraf, a Jew of Madinah, came to Makkah and the Quraish asked him: You are the leader of the people. What do you think about this young man who claims that he is better than us (in religion), while we are the people who serve the pilgrims; we are the custodians of Ka&bah and supply water to the pilgrims.|" He replied: |"You are better than him.|" This Surah was revealed on that occasion. [ Ibn Kathir cites this incident from Bazzar with an authentic chain of narrators; and Mazhari says that Muslim also transmitted the incident ]. According to these narrations, this Surah was sent down when the unbelievers of Makkah taunted the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) because he had lost all his male issues, and called him &abtar& or insulted him for some other reason. The present Surah gives an answer to the taunts of the unbelievers, and maintains that there is no justification for calling the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) an &abtar& only because he had no male child alive, not only because his lineal offspring will remain till the Day of Judgment, though from his daughters, but he was destined to be the spiritual father of a multitude of sons in all ages to the end of time, sons who were to be far more faithful, obedient and loving than the sons of any father, and they will outnumber the followers of all the Prophets (علیہم السلام) that came before him. The Surah has also dismissed the statement of Ka&b Ibn Ashraf, and highlights the great honor and respect given to him by Allah. The River or Fountain of Kauthar Verse [ 108:1]إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ([ 0 Prophet,] surely, We have given you Al-Kauthar [ a river in Paradise ].) The word &Al-Kauthar& literally means &abundant goodness&. Imam Bukhari (رح) has recorded on the authority of Said Ibn Jubair (رض) that Ibn ` Abbas (رض) said about &al-Kauthar&: &It is the abundant goodness that Allah gave to him [ Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] &. A special pupil of Ibn ` Abbas (رض) said: |"I asked Said Ibn Jubair (رض) that people claim that it is a river in Paradise.|" Said Ibn Jubair (رض) replied that the river in Paradise is part of the goodness that Allah gave him. Therefore, Mujahid interprets that it is the abundant goodness of this world, as well as of the next world. This explanation includes the river in Paradise and other things as well. The following Hadith is recorded in Bukhari, Muslim, Abu Dawud and Nasa&i رحمۃ اللہ علیہم from Sayyidna Anas (رض) that he said: بینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بین اظھرنا فی المسجد اذ اغفی اغفاء ۃً ، ثم رفع رأسہ متبسّمّاً ۔ قلنا : ما اضحکک یا رسول اللہ ؟ قال : لقد انزلت علیّ آنفاً سورة فقرأ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم انّا اعطینٰکَ الکوثر الخ ثم قال : اتدرون ما الکوثر ؟ قلنا : اللہ و رسولہ اعلم ۔ قال : فانّہ نھرٌ وعدنیہ ربّی عزوجل علیہ خیر کثیر ۔ وھا حوض ترد علیہ امّتی یوم القیامۃ ۔ آنیتہ عدد نجوم فی السّماء ۔ فیحتلج العبد منھم ۔ فاقول : ربّ انّہ من امتی فیقول : انّک لا تدری ما احدث بعدک ۔ |"While we were with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the mosque, he went into some kind of slumber or doziness. Then he lifted his head smiling. We asked: &0 Messenger of Allah! What has caused you to smile?& He replied: &A Surah has just been revealed to me.& Then he recited Bismillah and Surah Al-Kauthar. Then he asked: &Do you know what is Al-Kauthar?& We replied: &Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) know best,& He said: &It is a river that my Lord, the Mighty and Majestic, has promised me and it has abundant goodness. It is a fountain where my Ummah will come on the Day of Judgment. Its containers are as numerous as the stars in the sky. Then a servant of Allah from among them will be prevented from it, and I will say: &0 Lord! Verily, he is from my Ummah [ followers.] &Then Allah will say: &You do not know what he introduced [ or innovated ] after you.& This is the wording of Muslim. Ibn Kathir, having cited this Tradition, writes further: و قد ورد فی صفۃ الحوض یوم القیامۃ انّہ یشخب فیہ میزابان من السّماء من نھر الکوثر و ان آنیتہ عدد نجوم السّماء۔ |"It is reported regarding the description of the fountain on the Day of Judgment that two channels will lead from the sky to supply the fountain with the water of Kauthar. It will have more cups than the stars in the sky.|" The Tradition cited above clarifies many points. [ 1] It indicates the cause of the revelation of Surah Al-Kauthar. [ 2] It gives its authentic interpretation, that is, &abundant goodness& and that it includes the fountain of Kauthar which will quench the thirst of the Prophet&s followers on the Day of Judgment. [ 3] The actual river of Kauthar is in Paradise, and the fountain of Kauthar will be on the Plain of Gathering. Two channels will flow from the river of Paradise into the fountain of Gathering, augmenting its supply of water. [ 4] It reconciles the narratives that tell us that the believers will arrive at the fountain of Kauthar before their entry into Paradise. [ 5] Some people will be turned away from the fountain, because they later on turned away from Islam, or they were not Muslims at all, but expressed their Islam only hypocritically. Their hypocrisy was exposed after the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Allah knows best! There are Traditions that describe the cleanness and sweetness of water of Kauthar, and that its banks are adorned with pearls. These qualities cannot be compared with anything in this world. If the revelation of Surah Al-Kauthar is in response to the taunting of the heathens who called him &abtar& because he had lost his sons, as explained earlier, this Surah comforts him. They used to say that when he would pass away, there shall be none to take his name on account of having no male offspring and his activities will cease. This Surah tells him that he has been granted Al-Kauthar and completely dismisses the reproach of his enemies, in that his lineage does not stop here in this world, but his spiritual lineage will continue till the Day of Gathering. His spiritual sons and daughters will outnumber the Ummahs of the previous Prophets. They will also enjoy the greatest respect and honor.
خلاصہ تفسیر بیشک ہم نے آپ کو کوثر (جنت کی ایک حوض کا نام بھی ہے اور ہر خیر کثیر بھی اس میں شامل ہے) عطا فرمائی ہے (جس میں دنیا و آخرت کی ہر خیر و بھلائی شامل ہے دنیا میں دین اسلام کی بقاء و ترقی اور آخرت میں جنت کے درجات عالیہ سب داخل ہیں) سو (ان نعمتوں کے شکر میں) آپ اپنے پر ورگدار کی نماز پڑھئے (کیونکہ سب سے بڑی نعمت کے شکر میں سب سے بڑی عبادت چاہئے اور وہ نماز ہے) اور تکمیل شکر کے لئے جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت یعنی اسی کے نام کی) قربانی کیجئے (جیسا دوسری آیتوں میں عموماً نماز کے ساتھ زکوة کا حکم ہے اس میں زکوة کے بجائے قربانی کا ذکر شاید اس لئے اختیار کیا گیا کہ قربانی میں مالی عبادت ہونے کے علاوہ مشرکین اور مشرکانہ رسوم کی عملی مخالفت بھی ہے کیونکہ مشرکین بتوں کے نام کی قربانی کیا کرتے تھے۔ آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے قاسم کی بچپن میں وفات پر بعض مشرکین نے جو یہ طعنہ دیا تھا کہ ان کی نسل نہ چلے گی اور ان کے دین کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا، اس کا جواب ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ بےنام و نشان نہیں ہیں بلکہ) بالیقین آپ کا دشمن ہی بےنام و نشان ہے (خواہ ظاہری نسل اس دشمن کی چلے یا نہ چلے لیکن دنیا میں اس کا ذکر خیر باقی نہیں رہے گا۔ بخلاف آپ کے کہ آپ کی امت اور آپ کی یاد نیک نامی، محبت و اعتضاد کے ساتھ بای رہے گی اور یہ سب نعمتیں لفظ کوثر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اگر پسری اولاد کی نسل نہ ہو نہ سہی، جو نسل سے مقصود ہے وہ آپ کو حاصل ہے یہاں تک کہ دنیا سے گزر کر آخرت تک بھی، اور دشمن اس سے محروم ہے۔ ) معارف و مسائل شان نزول :۔ ابن ابی حاتم نے سدی سے اور بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت محمد بن علی بن حسین سے نقل کیا ہے کہ جس شخص کی اولاد ذکور مر جائے اس کو عرب ابتر کہا کرتے تھے یعنی مقطوع النسل جس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے قاسم یا ابراہیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تو کفار مکہ آپ کو ابتر کہہ کر طعنہ دینے لگے ایسا کہنے والوں میں عاص بن وائل کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے اس کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جاتا تو کہتا تھا کہ ان کی بات چھوڑو یہ کچھ فکر کرنے کی چیز نہیں کیونکہ وہ ابتر (مقطوع النسل) ہیں جب ان کا انتقال ہوجائے گا ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا، اس پو سورة کوثر نازل ہوئی (رواہ البغوی، ابن کثیر و مظہری) اور بعض روایات میں ہے کہ کعب بن اشرف یہودی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ آیا تو قریش مکہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ اس نوجوان کو نہیں دیکھتے جو کہتا ہے کہ وہ ہم سب سے (دین کے اعتبار سے) بہتر ہے حالانکہ ہم حجاج کی خدمت کرنے والے اور بیت اللہ کی حفاظت کرنے والے اور لوگوں کو پانی پلانے والے ہیں۔ کعب نے یہ سن کر کہا کہ نہیں تم لوگ اس سے بہتر ہو، اس پر سورة کوثر نازل ہوئی (ذکرہ ابن کثیر عن البزار باسنا (صحیح و قدر واہ مسلم قالہ مظہری) خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسری اولاد نہ رہنے کے سبب ابتر ہونے کے طعنے دیتے تھے یا دوسری وجوہ سے آپ کی شان میں گستاخی کرتے تھے ان کے جواب میں سورة کوثر نازل ہوئی ہے جس میں ان کے طعنوں کا جواب بھی ہے کہ صرف اولاد نرینہ کے نہ رہنے سے آپ کو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر کہنے والے حقائق سے بیخبر ہیں۔ آپ کی نسل نسبی بھی انشاء اللہ دنیا میں تاقیامت باقی رہے گی اگرچہ دختری اولاد سے ہو اور نسل معنوی یعنی آپ پر ایمان لانے والے مسلمان جو درحقیقت نبی کی اولاد معنوی ہوتے ہیں وہ تو اس کثرت سے ہوں گے کہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں سے بھی بڑھ جائیں گے اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ کے نزدیک مقبول اور مکرم و معظم ہونا بھی مذکور ہے جس سے کعب بن اشرف کے قول کی تردید ہوجاتی ہے۔ یہ سب مضمون سورة کی تیسری آیت میں آیا ہے۔ انا اعطینک الکثور، امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں وایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ” کوثر وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ “ ابن عباس کے خاص شاگرد سعید بن خبیر سے کسی نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوثر جنت کی ایک نہ کا نام ہے تے تو سعید بن جبیر نے جواب دیا کہ (ابن عباس کا قول اس کے منافی نہیں بلکہ) وہ نہر جنت جس کا نام کوثر ہے وہ بھی اس خیر کثیر میں داخل ہے اسی لئے امام تفسیر مجاہد نے کوثر کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ دنیا و آخرت دونوں کی خیر کثیر ہے، اس میں جنت کی خاص نہر کوثر بھی داخل ہے۔ حوض کوثر :۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔ مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔ ایک روز جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں ہمارے درمیان تھے اچانک آپ پر ایک قسم کی نیند یا بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہوئی پھر ہنستے ہوئے آپ نے سر مبارک اٹھایا، ہم نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے، تو فرمایا کہ مجھ پر اسی وقت ایک سورت نازل ہوئی ہے پھر آپ نے بسم اللہ کے ساتھ سورة کوثر پڑھی، پھر فرمایا تم جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے ہم نے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم، آپ نے فرمایا یہ ایک نہر جنت ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے جس میں خیر کثیر ہے اور وہ حوض ہے جس پر میری امت قیاتم کے روز پانی پینے کے لئے آئے گی اس کے پانی پینے کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے اس وقت بعض لوگوں کو فرشتے حوض سے ہٹا دینگے تو میں کہوں گا کہ میرے پروردگار یہ تو میری امت میں ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ آپ نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد کیا نیا دین اختیار کیا ہے۔ ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے مزید لکھا ہے، حوض کی صفت میں روایات حدیث میں آیا ہے کہ اس میں دو پر نالے آسمان سے کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ اس حدیث سے سورة کوثر کا سبب نزول بھی معلوم ہوا اور لفظ کوثر کی صحیح تفسیر بھی یعنی خیر کثیر، اور یہ بھی کہ اس خیر کثیر میں و حوض کوثر بھی شامل ہے جو قیامت میں امت محمدیہ کو سیراب کریگی۔ نیز اس روایت نے یہ بھی واضح کردیا کہ اصل نہر کوثر جنت میں ہے اور یہ حوض کوثر میدان حشر میں ہوگی اس میں دو پرنالوں کے ذریعہ نہر کوثر کا پانی ڈالا جائیگا۔ اس میں ان روایات کی بھی تطبیق ہوگئی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حوض کوثر پر امت کا درود دخول جنت سے پہلے ہوگا اور اس حدیث میں جو بعض لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا دینے کا ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بعد میں اسلام سے پھرگئے یا پہلے ہی سے مسلمان نہیں تھے مگر منافقانہ اظہار اسلام کرتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کا نفاق کھل گیا، واللہ اعلم احادیث صحیحہ میں حوض کوثر کے پانی کی صفائی اور شیرینی اور اس کے کناروں کا جواہرات سے مرصع ہونے کے متعلق ایسے اوصاف مذکور ہیں کہ دنیا میں ان کا کسی چیز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس سورة کا نزول اگر کفار کے طعنوں کے دفاع میں ہو جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ آپ کی اولاد نرینہ فوت ہوجانے کی وجہ سے وہ آپ کو ابتر مقطوع النسل قرار دے کر کہا کرتے تھے کہ ان کا کام چند روزہ ہے پھر کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا تو اس سورة میں آپ کو کوثر عطا فرمانے کا ذکر جس میں حوض کوثر بھی شامل ہے ان طعنہ زنوں کی مکمل تردید ہے کہ ان کی نسل و نسب صرف یہی نہیں کہ دنیا کی عمر تک چلے گی بلکہان کی روحانی اولاد کا رشتہ محشر میں بھی محسوس ہوگا جہاں وہ تعداد میں بھی تمام امتوں سے زیادہ ہوں گے اور ان کا اعزازو اکرام بھی سب سے زیادہ ہوگا۔
اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ١ ۭ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ كَوْثَرَ وقوله : إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ [ الکوثر/ 1] قيل : هو نهر في الجنّة يتشعّب عنه الأنهار، وقیل : بل هو الخیر العظیم الذي أعطاه النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، وقد يقال للرّجل السّخيّ : كَوْثَرٌ ، ويقال : تَكَوْثَرَ الشیءُ : كَثُرَ كَثْرَةً متناهية، قال الشاعر : وقد ثار نقع الموت حتی تکوثرا ۔ اور آیت : ۔ إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ [ الکوثر/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے اور بعض نے خیر کثیر مراد لی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو عطا کی اور سخی آدمی کو کوثر کہا جاتا ہے تکو ثر الشئی کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 370 ) وقد ثار نقع الموت حتی تکوثرا موت کا غبار اٹھا ۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ ہوگیا ۔ (1) الکوثر جنت کی ایک نہر اور حوض کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر عطا کی ہے۔ ( عن انس مرفوعا۔ مسلم) (2) حضرت ابن عمر (رض) کی مرفوع روایت سے ثابت ہے کہ جنت کے ایک حوض کا نام ہے۔ ( معالم التنزیل) (3) اس سے مراد قرآن ہے۔ ( حسن بصری) (4) اس سے مراد قرآن اور نبوت ہے۔ ( عکرمہ) (5) اس سے مراد عام خیر کثیر ہے۔ ( سعید بن جبیر از ابن عباس (رض) اہل لغت نے لکھا ہے کہ کوثر ۔ کثرۃ سے بنا ہے جیسے نوفل ۔ نفل سے جو چیز تعداد میں کثیر اور مرتبے میں باعظمت ہو اس کو اہل عرب کوثر کہتے ہیں۔ صاحب معجم القرآن نے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے۔ علامہ نیشاپوری (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔ اس آیت میں گوناگوں مبالغہ ہے :۔ ابتداء ان سے کی گئی ہے جو تاکید پر دلالت کرتا ہے پھر ضمیر جمع استعمال کی گئی ہے ۔ جو تعظیم کا مفہوم دیتی ہے۔ نیز یہاں اعطاء کا استعمال ہوا ہے ایتاء کا نہیں اور اعطاء میں ملکیت پائی جاتی ہے ایتاء میں یہ مفہوم نہیں پایا جاتا۔ پھر یہاں ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو تحقیق پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی کام ہوگیا۔ ( ضیاء القرآن) علماء تفسیر نے الکوثر کی تفسیر میں متعدد اقوال ذکر کئے ہیں چند ایک یہ ہیں :۔ (1) کوثر سے مراد جنت کی وہ نہر ہے کہ جس سے جنت کی ساری نہریں نکلتی ہیں ۔ ( ابن عمر (رض) (2) کوثر اس حوض کا نام ہے جو میدان حشر میں ہوگا جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ (3) اس سے مراد نبوت ہے۔ (4) اس سے مراد قرآن شریف ہے۔ (5) اس سے مراد دین اسلام ہے۔ (6) اس سے مراد صحابہ کرام کی کثرت ہے۔ (7) اس سے مراد رفع ذکر ہے۔ (8) اس سے مراد مقام محمود ہے۔ (9) اس سے مراد خیر کثیر ہے۔ ( ابن عباس) (10) امام جعفر صادق کے نزدیک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کا نور ہے ( اقتباس از ضیاء القرآن)
(1 ۔ 3) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ہے اور قرآن بھی اسی میں سے ہے یا یہ کہ حوض کوثر عطا کی ہے تو اس شکریہ میں نماز پڑھیے اور اپنے سینہ کو قبلہ کی طرف کیجیے یا یہ کہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیے یا یہ کہ رکوع اور سجود کامل طور پر کیجیے تاکہ آپ کا سینہ مبارک ظاہر ہوجائے یا یہ کہ عید الضحیٰ کی نماز پڑھیے اور قربانی ذبح کیجیے۔ آپ کا دشمن یعنی عاص بن وائل ہمہ قسم کی بھلائی اہل و عیال اور مال و دولت سے بےنام و نشان ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا کوئی ذکر کرنے والا نہیں اور آپ کے کمالات ذکر ہو کر رہیں گے۔ ہوا یہ کہ جب حضور کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تو اس وقت ان لوگوں نے آپ کو یہ طعنہ دیا تھا کہ آپ بےنام و نشان ہیں۔ شان نزول : ان شانئک ھو الابتر بزاز نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ کعب بن اشرف مکہ آیا تو قریش نے اس سے کہا کہ تو ان لوگوں کا سردار ہے کیا اسے بےدین کو نہیں دیکھتا جو اپنی قوم سے علاحدہ ہوگیا اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے حالاں کہ ہم حج والے سقایہ اور سدانہ والے ہیں تو کعب نے کہا تم ان سے بہتر ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی بھیجی تو قریش نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے کٹ گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے کہ قریش کہا کرتے تھے کہ جب کسی کے لڑکے مرجائیں و وہ بےنام و نشان ہوجاتا ہے چناچہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو عاص بن وائل نے کہا محمد بےنام و نشان ہوگئے۔ اور بیہقی نے دلائل میں محمد بن علی سے اسی طرح روایت کیا ہے اور آپ کے صاحبزادے کا نام قاسم بیان کیا ہے۔ اور مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ کہ اس نے کہا تھا کہ میں محمد پر عیب لگانے والا ہوں۔ اور طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ ابو ایوب سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو مشرکین ایک دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اس بےدین کا سلسلہ نسب کٹ گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر سے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ حدیبیہ کے دن نازل ہوئی جبریل امین آپ کے پاس آئے اور حکم دیا کہ قربانی کرو اور نماز پڑھو چناچہ آپ نے عید کا خطبہ دیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور پھر اونٹ کو ذبح کیا۔ امام سیوطی کہتے ہیں کہ یہ روایت بہت ہی غریب ہے۔ سمرہ بن عطیہ سے روایت کیا گیا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط کہا کرتا تھا کہ حضور کا کوئی لڑکا باقی نہیں رہے گا اور وہ ان کی نسل کٹی ہوئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ابن منذر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم انتقال فرما گئے تو قریش کہنے لگے کہ حضور کا سلسلہ نسل ختم ہوگیا تو اس چیز سے آپ کو افسوس ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ انا اعطینک الکوثر۔
آیت ١ { اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ۔ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔ “ الکوثر : کثرت سے ماخوذ ہے ‘ اس کا وزن فَوْعَلْ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جاسکے۔ چناچہ اس کا ترجمہ ” خیر کثیر “ کیا گیا ہے۔ ” الکوثر “ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے حوض کوثر مراد ہے ‘ جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ لیکن درحقیقت وہ بھی ” خیر کثیر “ ہی میں شامل ہے۔ ” خیر کثیر “ کی وضاحت سے متعلق بھی تفاسیر میں لگ بھگ پچیس تیس اقوال ملتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے خیرکثیر کی سب سے بڑی مثال خود قرآن مجید ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال حکمت بھی ہے۔ ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اعلیٰ ترین درجے میں حکمت بھی عطا ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } (البقرۃ : ٢٦٩) ” وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ‘ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا “۔ مزید برآں جنت کی نہر کوثر ‘ نبوت کے فیوض و برکات ‘ دین اسلام ‘ صحابہ کرام کی کثرت ‘ رفع ذکر اور مقام محمود کو ” کوثر “ کا مصداق سمجھا دیا گیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو وہ سب کچھ عطا کردیا اور کثرت کے ساتھ عطا کردیا جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور جو نوع انسانی کے لیے ُ طرئہ امتیاز بن سکتا ہے۔
1 The full meaning of the word kauthar, as used here, cannot perhaps be expressed in one word in any language of the world. This is an intensive form of the noun kathrat which literally means abundance, but the context in which it has been used does not give the meaning of mere abundance but abundance of good, of spiritual benefits and blessings, and of such abundance which is unbounded and limitless, and it dces not imply any one good or benefit or blessing but abundance of countless benefits and blessings. Have a look again at the background of this Surah given in the Introduction. The enemies thought that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) had been completely ruined: he was cut off from the community and had become utterly helpless and powerless; his trade was ruined; his male children who could perpetuate his name were dead; the message that he presented was such that except for a handful of the people no one in entire Arabia, not to speak of Makkah, was prepared to listen to it therefore, failure and disappointment would be his lot as long as he lived and there would be no one in posterity to remember him when he died. Under such conditions when Allah said: "We have granted you the Kauthar," it by itself gave the meaning: Your foolish opponents think that you are ruined and deprived of the good things that .you enjoyed before Prophethood, but the fact is that We have favoured you with unbounded good and countless blessings." This included the matchless moral qualities which the Holy Prophet was blessed with; this included the great blessings of Prophethood and the Qur'an, the knowledge and wisdom that were granted to him; this included the blessing of Tauhid and also of such a system of life, whose simple and intelligible, rational and natural, and comprehensive principles had the potential to spread throughout the world and of continuing to spread for ever afarwards. This also included the blessing of the exaltation of renown because of which the holy Prophet's blessed name continues to be exalted throughout the world since 1400 years and will continue to be so exalted till Resurrection. This also included the blessing that by his preaching eventually such a world-wide community came into being, which became the standard-bearer of Truth in the world for ever, which can claim to have produced the greatest number of the pious, virtuous and noble charactered rnen in any one nation, and which even when corrupted and deprived has the highest good in it as against every other nation of the world. This also included the blessing that the Holy Prophet during his very lifetime witnessed his invitation and message attaining to the highest success and the preparation of a community which had the power to dominate the world. This also included the blessing that although on his being deprived of the male offspring the enemies thought he would be lost to posterity, yet Allah not only blessed him with the spiritual offspring in the form of Muslims, who will continue to exalt his name in the world till Resurrection but also granted him from his one daughter, Hadrat Fatimah, the natural progeny, who have spread throughout world and whose only mark of distinction and pride is that they trace their descent from him. These are the blessings which the people have seen and witnessed as to how abundantly Allah has blessed His Holy prophet within the world. In addition, Kauthar also implies two udtrr great blessings which Allah will bestow on him in the Hereafter. We had no means of knowing these; therefore the Holy Prophet (upon whom be peace) himself gave us news of them, and told us that Kauthar also implied them. First, the Fountain of Kauthar, which he will be granted on the Resurrection Day in the Plain of Assembly; second, the River Kauthar, which he will be granted in Paradise. About both such a large number of the Ahadith have been reported from him through such a large number of the reporters that there remains no doubt about their authenticity. What the Holy Prophet said about the fountain of Kauthar is as follows: (1) This Fountain will be granted to him on the Resurrection Day when there will be the cry of al- atash, al- atash (thirst, thirst!) on every side. The Holy Prophet's community will gather together before him at it and will be watered thereby. He himself will be the first to arrive at it and will be occupying the central position. He has said: "This is a Fountain at which my Ummah will assemble on the Resurrection Day." (Muslim: KItab as- Salat Abu Da'ud: Kitab as-Sunnah) . "I shall have arrived at the Fountain before you. " (Bukhari: Kitab ar-Riqaq and Kitab al-Fitan; Muslim: Kitab a!-Fida and Kitab at-Taharah; lbn Majah,: Kitab al Manasik and Kitab az-Zuhd. Musnad Ahmad: Marwiyyat `Abdullah bin Mas'ud `Abdullah bin `Abbas, Abu Hurairah. "I shall be there before you and shall bear witness on you, and by God, I am seeing my Fountain even at this time." (Bukhari: Kitab al-jana-iz Kitab al-Maghazi, Kitab ar-Riqaq) . Addressing an assembly of the Ansar, the Holy Prophet once said: "After me you will meet with selfishness and nepotism, endure it patiently until you meet me at the Fountain. " (Bukhari: kitab Manaqib al-Ansar and Kitab al-Maghazi; Muslim: Kitab al-Iman; Tirmidhi:Kitab al-Fitan) . "I shall be near the middle of the Fountain on the Resurrection Day." Muslim: Kitab al-Fada'il) . Hadrat Abu Barzah Aslami was asked: "Have you heard something about the Fountain from the Holy Prophet? He replied: Not once, or twice, or thrice, or four or five times, but over and over again. May Allah deprive of its water the one who be lies it." (Abu Da'ud: Kitab as-Sunnah) . "Ubaidullah bin Ziyad thought that the traditions about the Fountain were false; so much so that he belied all the traditions reported by Hadrat Abu Barzah Aslami, Bara' bin 'Azib and `A'idh bin 'Amr. At last, Abu Sabrah brought out a writing which he had written down after hearing it from Hadrat `Abdullah bin 'Amr bin al-`As, and it contained this saying of the Holy Prophet: "Beware! your place of meeting me will be my Fountain." (Musnad Ahmad: Marwiyyat 'Abdullah bin 'Amr bin al-'As) . (2) Different dimensions of the Fountain have been given in different traditions, but according to a large number of the traditions it will extend from Aylah (the present Israeli seaport of Ilat) to Sana'a of Yaman, or from Aylah to Adan, or from 'Amman to `Adan in length, and from Aylah to Juhfah (a place between Jeddah and Rabigh) in breadth. (Bukhari: Kitab ar-Riqaq; Abu Da'ud at Tayalisi: Hadith No. 995; Musnad Ahmad: Marwiyyat Abu Bakr Siddiq and `Abdullah bin `Umar; Muslim: Kasab al-Taharah and Kitab al-Fads il; Tirmidhi Abwab Sifat al-Qiyamah; Ibn Majah: Kitab az-Zuhd) . From this it appears that on the Resurrection Day the present Red Sea itself will be turned into the Fountain of Kauthar. And the correct knowledge is only with Allah! (3) About this Fountain the Holy Prophet hes told us that water will be supplied to it from the River Kauthar of Paradise (which is being mentioned below) . "Two channels from Paradise will flow into it and supply water to it." (Muslim: Kitab al-Fada il) . According to another tradition: "A canal from the River Kauthar of Paradise will be opened towards this Fountain. " (Musnad Ahmad Marwiyyat `Abdullah bin Mas`ud) . (4) According to the description of it given by the Holy Prophet its water will be whiter than milk (according to other traditions whiter than silver, and according to still others, whiter than snow) , cooler than snow, sweeter than honey; the earth of its bed will be more fragrant than musk; the water jugs set at it will be as numerous as the stars in the sky; the one who drinks from it would never thirst; and the one who is deprived of it will never have his thirst satisfied. These things with a little variation in wording have been reported in numerous Ahadith (Bukhari: Kitab ar-Rigaq; Muslim: Kitab at-Taharah and Kitab al-Fada'il; Musnad Ahmad: Marwiyyat Ibn Mas`ud, Ibn `Umar, `Abdullah bin 'Amr bin al-`As; Tirmidhi: Abwab Sifat al-Qiyanmah: Ibn Majah: Kitab az-Zuhd; Abu Da'ud: Tayalisi, Ahadith No. 995, 2135) . (5) Concerning it the Holy Prophet warned the people of his time again and again, saying: "after me those from among you who would effect changes in my Way, will be removed from the Fountain and will be disallowed to approach it. I shall say: they are my companions, but it will be said: "Don't you know what they did after you? Then I too shall discard them and tell them to keep away." This subject too has been expressed in many traditions. (Bukhari: Kitab ar-Rigaq, Kitab al-Fitan; Muslim: Kitab al-Tahara and Kitab al-Fada'it Musnad Ahmad: Marwiyyat !bn Mas`ud, Abu Hurairah; Ibn Majah: Kitab al-Manasik. The Hadith which Ibn Majah has related in this connection contains very pathetic words. The Holy Prophet said: "Beware! I shall have arrived at the Fountain before you and shall pride myself by your means upon the greater numbers of my Ummah as against other ummahas Do not at that time cause my face to be blackened. Beware: I shall have some people released, and some people shall be separated from me. I shall say: O my Lord, they are my companions. He will reply: Don't you know what innovations they introduced after you?" According to Ibn Majah, these words were said by the Holy Prophet (upon whom be peace) in his Sermon at `Arafat. (6) Likewise, the Holy Prophet has also warned the Muslims coming after him till Resurrection, saying: "Whoever from among you will swerve from my Way and effect changes in it, will be removed from the Fountain. I shall say: O Lord, they belong to me, they are the people of my Ummah. In response it will be said: Don't you know what changes they effected after you and then turned back on their heels? Then I too shall turn them away and shall not allow them to approach the Fountain. " Many traditions on this subject are found in the Hadith. (Bukhari: Kitab al-Musaqat, Kitab ar-Rigaq, Kitab al-Fitan; Muslim: Kitab at-Taharah. Katab as-Salat, Kitab al-Fada il; Ibn Majah: Kitab az-Zuhd; Musnad Ahmad: Marwiyyat Ibn `Abbas) . Traditions about this Fountain have been related by more than 50 companions, and the earliest scholars generally have taken it to mean the Fountain of Kauthar. Imam Bukhari has named the last chapter of his Kitab ar-Rigaq as Babun fil hawd wa qual-Allahu inna a `tainak al-Kauthar, and in a tradition from Hadrat Anas there is the explanation that the Holy Prophet said about Kauthar: "It is a Fountain at which my Ummah shall alight. " The River Kauthar which the Holy Prophet (upon whom be peace) shall be granted in Paradise, also has been mentioned in a large number of the traditions cf Hadith. Many traditions have been related on the authority of Hadrat Anas in which he says (and in some he explains that he is reporting the exact words of the Holy Prophet himself) that on the occasion of mi'raj; the Holy Prophet was taken round Paradise and shown a river on the banks of which there were vaults of pearls or precious stones carved from within; the earth of its bed was of the strong scented musk. He asked Gabriel, or the angel who took him round, what it was. He replied that it was the River Kauthar, which Allah had granted him. (Musnad Ahmad, Bukhari, Muslim, Abu Da'ud, Tirmidhi, Abu Da'ud Tayalisi, Ibn Jarir) Again, according to Hadrat Anas, the Holy Prophet was asked (or a person asked him) : "What is the Kauthar?' He replied; "It is a River which Allah has granted me in Paradise. Its earth is musk: its water is whiter than milk and sweeter than honey " (Musnad Ahmad, Tirmidhi, lbn Jarir; according to another tradition of Musnad Ahmad, describing the merits of the River Kauthar the Holy Prophet said that at its bottom there are pearls instead of pebbles. Ibn `Umar says that the Holy Prophet said: "The Kauthar is a river in Paradise the banks of which are golden; it flows on pearls and diamonds (i.e. its bed has diamonds instead of pebbles) ; its earth smells sweeter than musk; its water is whiter than milk (or snow) , cooler than snow and sweeter than honey." (Musnad Ahmad, Tirmidhi, Ibn Majah, Ibn Abi Hatim, Darimi, Abu Da'ud Tayalisi, Ibn al-Mundhir, Ibn Marduyah, Ibn Abi Shaibah) . Usamah bin Zaid says that the Holy Prophet once went to visit Hadrat Usamah; he was not at home; his wife entertained him and during the conversation said "My husband has told me that you have been granted a river in Paradise, which is called the Kauthar." The Holy Prophet replied "Yes, and its bed is of rubies and corals and emeralds and pearls" (Ibn Jarir, Ibn Marduyah. Though the sanad of this tradition is weak, the presence of a large number of traditions dealing with this subject strengthens it) . Besides these marfu traditions, a great many sayings of the Companions and their successors have been related in the Hadith to the effect that the Kauthar implies a river in Paradise. These traditions describe its qualities as have been mentioned above. For instance, the sayings of Hadrat 'Abdullah bin `Umar, Hadrat `Abdullah bin `Abbas, Hadrat Anas bin Malik, Hadrat `A'ishah, Mujahid and Abul `Aliysh are found in Musnad Ahmad, Bukhari, Tirmidhi, Nasa'i'; and the books of Ibn Marduyah, Ibn Jarir, Ibn Abi Shaibah and other traditionists.
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 1 کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لغوی معنی تو بے انتہا کثرت کے ہیں ، مگر جس موقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت ، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو افراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو ، اور اس سے مراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کی نہیں بلکہ بے شمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے ۔ دیباچے میں اس سورہ کا جو پس منظر ہم نے بیان کیا ہے اس پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال کر دیکھیے ۔ حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر حیثیت سے تباہ ہوچکے ہیں ، قوم سے کٹ کر بے یارو مددگار رہ گئے ۔ تجارت برباد ہوگئی ، اولاد نرینہ تھی جس سے آگے ان کا نام چل سکتا تھا ۔ وہ بھی وفات پاگئی ، بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گنے چنے آدمی چھوڑ کر مکہ تو درکنار پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا ۔ اس لیے ان کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دو چار ہیں اور جب وفات پاجائیں تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو ، اس حالت میں جب اللہ تعالی کی طرف سے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا تو اس سے خودبخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم برباد ہوگئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ ھی تم سے چھن گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتوں سے نواز دیا ہے ۔ اس میں اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضور کو بخشی گئیں ۔ اس میں نبوت اور قرآن اور علم اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئیں ۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے ، عام فہم ، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع و ہمہ گیر اصول تمام عالم میں پھیل جانے اور ہمیشہ پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اس میں رفع ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت حضور کا نام نامی چودہ سو برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہورہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کی دعوت سے بالآخر ایک ایسی عالمگیر امت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین حق کی علمبردار بن گئی ، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے ، اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضور نے اپنی آنکھوں سے اپنی حیات مبارکہ ہی میں اپنی دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہوگئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہوجانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا ، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے ، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو جو جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضور سے اس کا انتساب ہے ۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کسی فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد وہ دو مزید ایسی عظیم نعمتیں بھی ہیں جو آخرت میں اللہ تعالی آپ کو دینے والا ہے ۔ ان کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں ۔ ایک حوض کوثر جو قیامت کے روز میدان حشر میں آپ کو ملے گا ، دوسرے نہر کوثر جو جنت میں آپ کو عطا فرمائی جائے گی ، ان دونوں کے متعلق اس کثرت سے احادیث حضور سے منقول ہوئی ہیں اور اتنے کثیر راویوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ ان کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ حوض کوثر کے متعلق حضور نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہیں: ( ۱ ) یہ حوض قیامت کے روز آپ کو عطا ہوگا اور اس سخت وقت میں جبکہ ہر ایک العطش العطش کر رہا ہوگا ، آپ کی امت آپ کے پاس اس پر حاضر ہوگی ، اور اس سے سیراب ہوگی ۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے ۔ آپ کا ارشاد ہے ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیمۃ ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہوگی ۔ ( مسلم ، کتاب الصلوۃ ، ابو داؤد ، کتاب السنہ ) انا فرطکم علی الحوض ۔ میں تم سب سے پہلے اس پر پہنچا ہوا ہوں گا ( بخاری ، کتاب الرقاق اور کتاب الفتن ، مسلم ، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد ، مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، و ابوہریرہ ) انی فط لکم وانا شھید علیکم وانی واللہ لانظر الی حوضی الانہ ۔ میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں ، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔ ( بخاری ، کتاب الجنائز ، کتاب المغازی ، کتاب الرقاق ) انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا انکم ستلقون بعدی اثرۃ فاصبروا حتی تلقونی علی الحوض ۔ میرے بعد تم کو خود غرضیوں اور اقربا نوازیوں سے پالا پڑے گا ، اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آکر حوض پر ملو ۔ ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار وکتاب المغازی ، مسلم کتاب الامارہ ، ترمذی ، کتاب الفتن ) انا یوم القیامۃ عند عقر الحوض ۔ میں قیامت کے روز حوض کے وسط کے پاس ہوں گا ( مسلم ، کتاب الفضائل ) حضرت ابو برزہ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ، ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چار نہیں پانچ نہیں بار بار سنا ہے ، جو اس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی نصیب نہ کرے ( ابو داؤد ، کتاب السنہ ) عبید اللہ بن زیاد حوض کے بارے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تھا ، حتی کہ اس نے حضرت برزہ اسلمی ، براء بن عازب اور عائذ بن عمرو کی سب روایات کو جھٹلا دیا ۔ آخر کار ابو سبرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں حضور کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا ان موعدکم حوضی خبردار رہو ، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص ) ( ۲ ) اس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ ایلہ ( اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ ایلات ) سے یمن کے صنعا تک ، یا ایلہ سے عدن تک ، یا عمان سے عدن تک طویل ہوگا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا ایلہ سے جحفہ ( جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام ) تک کا فاصلہ ہے ۔ ( بخاری ، کتاب الرقاق ، ابوداؤد الطیالسی ، حدیث نمبر 995 ۔ مسند احمد ، مرویات ابوبکر صدیق و عبداللہ بن عمر ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ و کتاب الفضائل ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ ا سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوض کوثر میں تبدیل کردیا جائے گا ، واللہ اعلم بالصواب ۔ ( ۳ ) اس حوض کے متعلق حضور نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر ( جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) سے پانی لاکر ڈالا جائے گا ۔ یشخب فیہ میزابان من الجنۃ ، اور دوسری روایت میں ہے یغت فیہ میزابان یمدانہ من الجنۃ ، یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لاکر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی ۔ ( مسلم ، کتاب الفضائل ) ایک اور روایت میں ہے یفتح نھر من الکوثر الی الحوض ، جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض کی طرف کھول دی جائے گی ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ) ( ۴ ) اس کی کیفیت حضور نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے ( اور بعض روایات میں ہے چاندی سے اور بعض میں برف سے ) زیادہ سفید ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا ، اس کی تہہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی ، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں ، جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی ۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا ۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت احادیث میں منقول ہوئی ہیں ( بخاری ، کتاب الرقاق ۔ مسلم ، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود ، ابن عمر ، وعبداللہ بن عمرو بن العاص ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزھد ، ابو داؤد طیالسی ، حدیث 995 ۔ 2135 ) ( ۵ ) اس کے بارے میں حضور نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر انہیں نہ آنے دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب میں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو ۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے ( بخاری ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود و ابو ہریرہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک ۔ ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی دردناک الفاظ میں ہے ۔ اس میں حضور فرماتے ہیں الا وانی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجھی ، الا وانی مستنقذ اناسا و مستنقذ اناس منی فاقول یا رب اصیحابی ، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعدک ۔ خبردار رہو ، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا ۔ اس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا ، خبردار رہو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے ، میں کہوں گا کہ اے پروردگار یہ تو میرے صحابی ہیں ، وہ فرمائے گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضور نے عرفات کے خطبے میں فرمائے تھے ) ( ۶ ) اسی طرح حضور نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردو بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں ، میری امت کے لوگ ہیں ، جواب ملے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا ۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں ( بخاری ) کتاب المساقات ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الصلوۃ ، کتاب الفضائل ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ مسند احمد مرویات ابن عباس ) اس حوض کی روایات 50 سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں ، اور سلف نے بالعموم اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے ۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے باب فی الحوض و قول اللہ اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ اور حضرت انس کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضور نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امتی ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہوگی ۔ جنت میں کوثر نامی جو نہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے ۔ حضرت انس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں ( اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں ) کہ معراج کے موقع پر حضور کو جنت کی سیرا کرائی گئی اور اس موقع پر آپ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے قبے بنے ہوئے تھے ۔ اس کی تہ کی مٹی مشک اذفر کی تھی ۔ حضور نے جبریل سے یا اس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی ، پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالی نے عطا کی ہے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمزی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن جریر ) حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا ( یا ایک شخص نے پوچھا ) کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالی نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ اس کی مٹی خشک ہے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۔ ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن جریر ۔ مسند احمد کی ایک اور راویت میں ہے کہ حضور نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں ) ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں ، وہ موتیوں اور ہیروں پر بہ رہی ہے ( یعنی کنکریوں کی جگہ اس کی تہ میں یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں ) اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ، اس کا پانی دودھ سے ( یا برف سے ) زیادہ سفید ہے ، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابن ابی حاتم ، دارمی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ) اسامہ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حمزہ کے ہاں تشریف لے گئے ۔ وہ گھر پر نہ تھے ۔ ان کی اہلیہ نے حضور کی تواضع کی اور دوران گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس کا نام کوثر ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں ، اور اس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد اور موتیوں کی ہے ( ابن جریر ، ابن مردویہ ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے ) ان مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے بکثرت اقوال احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں وہ کوثر سے مراد جنت کی یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت انس بن مالک ، حضرت عائشہ ، مجاہد اور ابوالعالیہ ( رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ) کے اقوال مسند احمد ، بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن مردویہ ، ابن جریر ، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
1: ’’کوثر‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں ’’بہت زیادہ بھلائی ‘‘۔ اور کوثر جنت کی اس حوض کا نام بھی ہے جو حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے تصرف میں دی جائے گی، اور آپ کی امت کے لوگ اُس سے سیراب ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ اُس حوض پر رکھے ہوئے برتن اِتنے زیادہ ہوں گے جتنے آسمان کے ستارے۔ یہاں یہ لفظ اگر ’’بہت زیادہ بھلائی‘‘ کے معنیٰ میں لیا جائے تو اُس بھلائی میں حوضِ کوثر بھی داخل ہے۔
١۔ ٣۔ معتبر سند سے مسند ٢ ؎ بزار میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کعب بن اشرف یہودی جب مکہ میں ایٓا تو قریش نے اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ کیا اس نے قریش کی خوشامد کے خیال سے جواب دیا کہ تمہارا دین قدیمی اور حق ہے اور آنحضرت کی شان میں یہ بھی کہا کہ ان کا کوئی بیٹا تو ہے نہیں۔ ان کی زندگی تک کا شور و غل ہے اور پھر ان کا کوئی نام بھی نہ لے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی کہ اے رسول اللہ کے جو تمہارا دشمن ہے وہی ابتر ہے۔ ابتر اس کو کہتے ہیں جس کی موت کے بعد کوئی لڑکا اس کا نہ رہے۔ کوثر ایک تو اس نہر کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہے یہ نہر جنت کے بیچوں بیچ میں ہے۔ معراج کی رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نہر کو دیکھ بھی لیا ہے دوسرے کوثر اس حوض کو بھی کہتے ہیں جو محشر کے میدان میں ہوگا اس حوض میں اس نہر کوثر سے پانی آئے گا اس لئے اس کو بھی کوثر کہتے ہیں حشر کے دن آفتاب کی گرمی اور دوزخ کی گرمی کے سبب سے پیاس بہت لگے گی اس لئے پل صراط پر گزرنے سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے فرمانبردار لوگوں کو پانی پلائیں گے۔ نہر اور حوض کے ذکر میں بہت سی صحیح ١ ؎ حدیثیں ہیں۔ فرقہ خارجہ اور فرقہ معتزلہ کے بعض لوگوں نے اس حوض کا انکار کیا ہے کیا عجب کہ اس کی سزا میں ایسے لوگوں کو اس دن اس حوض کا پانی نہ ملے اوپر جو حدیث گزر چکی ہے کہ حوض کثر پر سے چند آدمیوں کو فرشتے گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں گے وہ اسی میدان محشر کے حوض کا ذکر ہے کیونکہ نہر کوثر تو جنت کے بیچوں بیچ میں ہے۔ پل صراط کو طے کرکے وہاں وسط جنت میں جو کوئی پہنچ گیا اس کے پھر جنت میں سے گھسیٹ کر نکالنے اور دوزخ میں لے جانے کا کہیں حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تو خالدین فیھا ابدا کا حکم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جنت میں چلے گئے وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے ان کو وہاں سے کبھی نکالا نہ جائے گا یہ کعب بن اشرف یہودی وہی ہے کہ ہجرت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس کے قتل کا حکم دیا اور محمد بن مسلمہ وغیرہ صحابہ نے ٣ ھ میں اس کو قتل کیا اس کے قتل کا قصہ صحیح ٢ ؎ بخاری میں تفصیل سے ہے۔ اس کے قتل کے بعد اس کے کسی لڑکے کا اس کے پیچھے رہنے کا ذکر کہیں نہیں ہے غرض اس نے اللہ کے رسول کو جو ابتر کہا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود کتے کی موت مارا گیا۔ اور پھر اس کا کوئی نام لیوا دنیا میں باقی نہیں رہا اللہ کے رسول کا نام قیامت تک پانچوں وقت اذان میں پکارا جاتا ہے۔ محشر میں حوض کوثر اور جنت میں نہر کوثر اسی نام سے مشہور ہوں گے نماز کے تو اہل مکہ منکر تھے اور قربانی بتوں کے نام کی کیا کرتے تھے اور ہجرت سے پہلے سوائے نماز کے روزے زکوٰۃ حج کسی چیز کے فرض ہونے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے اس مکی سورة میں فقط نماز اور قربانی کا ذکر فرمایا تاکہ قریش کو ملت ابراہیمی کے موافق خاص اللہ کے آگے سر جھکانے اور اسی کے نام پر جانوروں کے ذبح کرنے کی تنبیہ ہوجائے قربانی اکثر سلف کے نزدیک سنت ہے اور بعضوں کے نزدیک قربانی واجب ہے اور یہی قول قوی معلوم ہوتا ہے۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری کتاب الحوض ص ٩٦٣ ج ٢ و مسلم شریف باب اثبات حوض نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٢٤٩ ج ٢۔ ) (٢ صحیح بخاری۔ باب قتل کعب بن اشرف ص ٥٧٦ ج ٢۔ )
(108:1) انا اعطینک الکوثر ۔ انا مبتدائ۔ اعطینک الکوثر اس کی خبر۔ اعطینا ماضی جمع متکلم اعطاء (افعال) مصدر سے۔ عطا کرنا۔ دینا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر، (مفعول اول اعطینا کا) الکوثر : مفعول ثانی اعطینا کا۔ ترجمہ :۔ تحقیق ہم نے آپ کو (اسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کوثر عطا کی۔ (1) الکوثر جنت کی ایک نہر اور حوض کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر عطا کی ہے۔ (عن انس مرفوعا۔ مسلم) (2) حضرت ابن عمر (رض) کی مرفوع روایت سے ثابت ہے کہ جنت کے ایک حوض کا نام ہے۔ (معالم التنزیل) (3) اس سے مراد قرآن ہے۔ (حسن بصری) (4) اس سے مراد قرآن اور نبوت ہے۔ (عکرمہ) (5) اس سے مراد عام خیر کثیر ہے۔ (سعید بن جبیر از ابن عباس (رض) اہل لغت نے لکھا ہے کہ کوثر ۔ کثرۃ سے بنا ہے جیسے نوفل ۔ نفل سے جو چیز تعداد میں کثیر اور مرتبے میں باعظمت ہو اس کو اہل عرب کوثر کہتے ہیں۔ صاحب معجم القرآن نے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے۔ علامہ نیشاپوری (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔ اس آیت میں گوناگوں مبالغہ ہے :۔ ابتداء ان سے کی گئی ہے جو تاکید پر دلالت کرتا ہے پھر ضمیر جمع استعمال کی گئی ہے ۔ جو تعظیم کا مفہوم دیتی ہے۔ نیز یہاں اعطاء کا استعمال ہوا ہے ایتاء کا نہیں اور اعطاء میں ملکیت پائی جاتی ہے ایتاء میں یہ مفہوم نہیں پایا جاتا۔ پھر یہاں ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو تحقیق پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی کام ہوگیا۔ (ضیاء القرآن) علماء تفسیر نے الکوثر کی تفسیر میں متعدد اقوال ذکر کئے ہیں چند ایک یہ ہیں :۔ (1) کوثر سے مراد جنت کی وہ نہر ہے کہ جس سے جنت کی ساری نہریں نکلتی ہیں ۔ (ابن عمر (رض) (2) کوثر اس حوض کا نام ہے جو میدان حشر میں ہوگا جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ (3) اس سے مراد نبوت ہے۔ (4) اس سے مراد قرآن شریف ہے۔ (5) اس سے مراد دین اسلام ہے۔ (6) اس سے مراد صحابہ کرام کی کثرت ہے۔ (7) اس سے مراد رفع ذکر ہے۔ (8) اس سے مراد مقام محمود ہے۔ (9) اس سے مراد خیر کثیر ہے۔ (ابن عباس) (10) امام جعفر صادق کے نزدیک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کا نور ہے (اقتباس از ضیاء القرآن)
سورة الکوثر۔ آیات ١ تا ٣۔ اسرار ومعارف۔ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمایا اگرچہ آخرت اور جنت میں ایک حوض کا نام بھی کوثر ہے مگر یہاں خیر کثیر بھی مراد ہے کل خیر صرف آپ کے پاس ہے اور آپ کا دامن چھوڑ کر کہیں بھی خیر کا تصور نہیں لہذا آپ اللہ کی عبادت و اطاعت کیجئے اور اس کی راہ میں قربانی کہ عرب میں اونٹ بہت پیارا تھا اور اس کی قربانی کو نحر کہتے ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ پوری زندگی کا نظام عبادت میں ڈھل جائے اور مال زور کی محبت اسکی راہ میں رکاوٹ نہ بنے بیشک آپ کے دشمنوں کانشان مٹ جائے گا مگر آپ کا نام نامی قیامت تک گونجتا رہے گا مشرکین نے طعنہ دیا تھا کہ آپ کی اولاد نرینہ نہیں آپ کا نام ختم ہوجائے گا تو فرمایا کہ تم اور تمہاری نسلیں ختم ہوجائیں گی جبکہ ان کی برکات ہمیشہ دلوں کو روشن اور سینوں کو منور کرتی رہیں گی اور ہمیشہ فضا آپ کے نام کی عظمت سے گونجتی رہے گی بیشک میدان حشر ہی کیوں نہ ہو کہ شفاعت کبری بھی آپ کا مقام ہے۔
لغات القرآن۔ اعطینا ۔ ہم نے عطا یا۔ الکوثر۔ خیر کثیر۔ حوض کوثر۔ صل۔ نماز پڑھ۔ انحر۔ قربانی کر۔ شان۔ دشمن۔ الابتر۔ دم کٹا۔ نامراد۔ تشریح : قریشی سردار اور مشرکین مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں اس قدر بےرحم، بد لحاظ اور پتھر دل ہوچکے تھے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاجزادے حضرت قاسم اور ان کے بعد دوسرے بیٹے حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوا تو آپ کو اس غم کے موقع پر تسلی اور دلاسہ دینے کے بجائے انہوں نے اس پر کھلم کھلا خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب ان کے ہاں صرف چار بیتیاں رہ گئی ہیں لیکن وہ اولاد نرینہ جن سے کسی شخص کی نسل چلا کرتی ہے اب باقی نہیں ہے لہٰذا کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ایسا شخص جو سب سے کٹ جائے۔ اولاد نرینہ باقی نہ رہے تو اس کو ” ابتر “ کہا کرتے تھے یعنی جو بہت جلد بےنام و نشان ہوجاے گا اور کوئی اس کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولاد کے غم سے نڈھال تھے۔ دوسری طرف قریشی سردار جو زیادہ تر آپ کے عزیز ہی تھے تسلی دینے کے بجائے طنز، مذاق اور دل توڑنے والی باتیں کر رہے تھے۔ ان دل شکن حالات میں آپ بہت رنجیدہ اور فکر مند تھے کہ اللہ نے آپ کو تسلی دینے کے لیئے سورة کوثر نازل فرمائی۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے۔ اتنے میں آپ پر ایک اونگھ جیسی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے۔ اتنے میں آپ پر ایک اونگھ جیسی کیفیت طاری ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے اپنے سر مبارک کو اٹھایا تو کچھ صحابہ کرام (رض) نے مسکرانے کا سبب پوچھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے میرے اوپر ایک سورت نازل فرمائی ہے اور پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم کرکے آپ نے سورة کوثر تلاوت فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ ” کوثر “ کیا ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ (مسلم ۔ مسند احمد، بیقہی) احادیث میں کوثر، حوض کوثر، نہر کوثر کا کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ شب معراج آپ کو نہر کوثر کی سیر کرائی گئی۔ اس موقع پر آپ نے دیکھا کہ اس نہر کے اندر تراشے ہوئے موتی اور ہیروں کے قبے بنے ہوئے ہیں۔ اس کی تہہ متی مشک اذفر جیسی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اتنی خوبصورت نہر کو دیکھا تو حضرت جبرئیل سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ نہر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ (مسنداحمد۔ بخاری۔ مسلم ۔ ابودائود۔ ترمذی۔ ابن جریر) ۔ اسی طرح کی ایک روایت حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے بھی کی گئی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں اور وہ موتیوں اور ہیروں پر بہہ رہی ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ (مسند احمد۔ ترمذی) ۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اس نہر کا پانی دودھ اور چاندی سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کی تہہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار، اس پر آسمان کے تاروں جتنے کو زے (برتن) رکھے ہوئے ہوں گے جو اس کے پانی کو پئے گا اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی اور جو اس سے محروم رہا وہ کبھی سیراب نہ ہوگا۔ نہر کوثر اور حوض کوثر کو جو تفصیلات ارشاد فرمائی گئی ہیں اس کے مطابق میدان حشر میں جہاں ہر طرف سخت گرمی اور شدید پیاس ہوگی اور لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہوں گے کہ میدان حشر میں ایک حوض یعنی تالاب قائم کی جائے گی جو اس قدر وسیع اور پھیلی ہوئی ہوگی جیسے ایلہ سے صنعا تک (بخاری۔ ترمذی) ۔ اس حوض کوثر میں جنت کی نہر کوثر سے دو نالیاں نکالی جائیں گی جن کے ذریعہ نہر کوثر کا پانی حوض کوثر میں جمع ہوگا۔ اس حوض کوثر پر سب سے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچیں گے اور اپنی امت کے پیاسوں کو حوض کوثر سے پانی پلائیں گے یقینا ان سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہ ہوگا کیونکہ حوض کوثر کا پانی پینے کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہ لگے گی۔ لیکن اس موقع پر کچھ وہ بدنصیب لوگ بھی ہوں گے جنہیں حوض کوثر پر آنے سے روک دیاجائے گا۔ اس کی تفصیل یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اس حوض کوثر سے وہ لوگ ہٹا دئیے جائیں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام کی تعلیمات سے پھرگئے تھے یا انہوں نے منافقت اختیار کر رکھی تھی۔ خلاصیہ یہ ہے کہ اللہ نے ان لوگوں سے جو کہتے تھے کہ آپ ابتر ( بےنام و نشان) ہوگئے ہیں ان سے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان تو یہ ہے کہ آپ کا فیض اس دنیا تک ہی نہیں بلکہ قیامت کے دن اس میدان میں بھی جاری رہے گا جب لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہوں گے۔ فرمایا ……: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک ہم نے آپ کو ” کوثر “ عطا فرمایا ہے۔ کوثر کے معنی ہیں ہر طرخ کی خیر، بھلائی، ہر ایک نعمت جو بہت کثرت سے ہو۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپکو اللہ نے قرآن کریم اور علم و حکت کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے۔ ہر جگہ آپ کا نام بلند کیا ہے۔ جہاں اللہ کا نام لیا جائے گا وہیں آپ کا نام بھی لیا جائے گا۔ آپ کی روحانی اولاد اس کثرت سے ہوگی کہ وہ دن رات آپ پر درودوسلام بھیج رہی ہوگی۔ آپ کے ہاتھوں ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ جماعت تیاری ہوگی جو دین اسلام کی دعوت کو ساری دنیا تک پہنچائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ ہے وہ کوثر خیر کثیر جس کا فیض صرف اس دنیا تک نہیں بلکہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ لہٰذا بےنام و نشان تو وہ لوگ ہوجائیں گے جو اللہ کے اور ناشکرے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج دنیا کے گوشے گوشے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بلند ہو رہا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ …… پھر آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور نحر (قربانی) کیجئے۔ علماء نے اس سے پانچ وقت کی نمازیں مراد لی ہیں یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پانچوں نمازوں کو ادا کیجئے۔ ہوسکتا ہے اس سے بقر عید کی نماز مراد ہو جس کے بعد قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چونکہ بدنی عبادات میں سب سے افضل نماز ہی ہے اور پھر مالی عبادات میں ” نحر “ کرنا ہے یعنی قربانی پیش کرنا ہے۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے جو آپ پر بےانتہا کرم کئے ہیں آپ کو ” خیر کثیر “ عطا فرمایا ہے اس نعمت کا شکر نماز اور قربانی کے ذریعہ پیش کیجئے۔ یہ وہ سنت ہے جس پر ساری امت عمل کرتی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک کرتی رہے گی۔ ……: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک آپ کا دشمن ہی بےنام و نشان ہوجائے گا۔ ابتر عربی میں کاٹنے، نامراد ہونے، ذرائع رسل و رسال سے محروم ہونے اور اولاد نرینہ سے محروم ہونے کو کہا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ لوگ جو آپ سے دشمنی کر رہے ہیں وہی اس طرح بےنام و نشان ہوجائیں گے کہ کوئی ان کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج وہ تمام دشمنان رسول دنیا سے اس طرح بےنام و نشان ہوچکے ہیں کہ خود ان کی اولادیں بھی ان کی طرف نسبت کرنے کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ آج اگر قرآن و حدیث میں ان کے نام و شنان کا ذکر نہ کیا جاتا تو لوگ ان کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوتے۔ اس کے برخلاف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی طرف نسبت کرنے میں ہر شخص ایک خاص فخر محسوس کرتا ہے۔ تو فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا نام تو ہمیشہ بلند رہے گا آپ کی روحانی اولاد قیامت تک آپ کے نام کرو شنی کرتی رہے گی لیکن آپ کی مخالفت کرنے والے بےنام و نشان ہو کر رہ جائیں گے۔
2۔ جس میں خیر دنیا یعنی بقاء دین و ترقی اسلام جو کہ موجب کثرت و اجر ہے و خیر آخرت یعنی مراتب قرب و درجات علیا سب داخل ہے، پھر اگر ایک بیٹا فوت ہوا اور اس پر مخالفین شماتت کرتے ہیں تو اس پر غم نہ کیجئے کیونکہ اس سے بڑھ کر آپ کو یہ دولتیں عطا فرمائی گئی ہیں۔
فہم القرآن ربط سورت : الماعون میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو نماز سے لاپرواہی کرتا ہے اور ضرورت مند کو استعمال کے لیے معمولی چیز بھی نہیں دیتا الکوثر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دے کر ہر شخص بالخصوص بخیل آدمی کو بتلایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت کی خیر کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ الکوثر کا شان نزول بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ مکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے بیٹے عبداللہ جن کو طاہر اور طیب بھی کہا جاتا ہے فوت ہوگئے اس کی موت پر ابولہب اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی اور کہا ” بَتِرَ مُحَمَّدٌ ھٰذِہِ الَّلیْلَۃَ “ کہ آج رات محمد دم کٹا ہوگیا ہے لہٰذا تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ جب خود فوت ہوگا تو اس کا نام اور کام بھی مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی کہ ہم نے آپ کو الکوثر سے سرفراز کیا ہے، آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھتے رہیں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ الکوثر کے نزول سے پہلے رب کریم نے رات اور صبح روشن کی قسم اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ آپ کو آپ کا رب اس قدر عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ (الضّحیٰ : ١ تا ٥) پھر یہ خوشخبری دی گئی کہ ہم نے اس دعوت کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا ہے اور آپ کا بوجھ ہلکا کردیا ہے اور ہم نے آپ کے نام اور کام کو سربلند کردیا ہے۔ (الانشراح : ١ تا ٤) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کو خیر کثیر کے ساتھ ذکر فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ ہم نے یقیناً آپ کو الکوثر عطا فرما دی ہے۔ الکوثر کا لفظ کثرت سے نکلا ہے اس لیے مفسرین نے اپنی اپنی لیاقت کے مطابق الکوثر کے مختلف مفہوم بیان کیے ہیں۔ لیکن سب سے جامع مفہوم مفسّرِ قرآن عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّہُ قَالَ فِی الْکَوْثَرِ ہُوَ الْخَیْرُ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ قَالَ أَبُو بِشْرٍ قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَإِنَّ النَّاسَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ سَعِیدٌ النَّہَرُ الَّذِی فِی الْجَنَّۃِ مِنَ الْخَیْرِ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ ) (رواہ البخاری : باب سورة إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ ) ” حضرت سعید بن جبیر، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کوثر کے بارے میں فرمایا یہ ایسی بھلائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی عطا کی ہے۔ (یعنی دنیا اور آخرت کی جو بھلائی آپ کو عطا کی گئی وہ کسی کو عطا نہیں ہوئی۔ ) اس مختصر سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیر کثیر کی خوشخبری سنانے کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ آپ کو دم کٹا کہنے والے ہی بےنام ونشان ہوجائیں گے۔ لوگوں نے اب تک اس حقیقت کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیا ہے اور قیامت تک دیکھتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام اور نام کو کس قدر قبولیت عامہ اور خیر و برکت کے ساتھ دوام بخشا ہے انشاء اللہ قیامت تک آپ کا نام اور کام بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔ لیکن آپ کے دشمن ابولہب اور ابوجہل کا اچھے طریقے سے نام لینے والا کوئی دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف آپ کے نام اور کام کو ہی شہرت دوام نہیں بخشی بلکہ آپ کے ساتھیوں کے نام اور کام کو بھی نیک نامی اور شہرت دوام کا شرف بخشا ہے۔ اس سورة مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الکوثر عطا فرمانے کے بعد حکم ہوا کہ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھا کریں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ایک داعی کو مخالفوں کے مذموم پراپیگنڈہ پر توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط رکھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کا مؤثر اور قریب ترین ذریعہ نماز ہے، اسے صحیح طریقے سے ادا کیا جائے تو آدمی کا دکھ فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔” النحر “ اونٹ کی قربانی کو بھی کہتے ہیں لیکن اس میں یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ دعوت کا راستہ قربانی مانگتا ہے اس لیے دعوت کا کام کرنے والے کو ہر وقت قربانی پیش کرنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ نماز میں انسان کا اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور قربانی کرنے سے انسان میں جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوتا اور لوگوں میں اس کا احترام بڑھتا ہے۔ اس کے صلے میں آخرت میں حوض کوثر کا پانی نصیب ہوگا اور دنیا میں اس کا دشمن ناکام ہوجائے گا۔ الکوثر : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا عُرِجَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی السَّمَاءِ قَالَ أَتَیْتُ عَلَی نَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَاب اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا فَقُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ ) (رواہ البخاری : باب سورة إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی، آپ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک نہر کے پاس سے ہوا جس کے دو کناروں کو لؤلؤ کے موتیوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہے میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَّتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَجْرَاہُ عَلَی الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْیَضُ مِنَ الثَّلْجِ ) (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّکَاثُرِ ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں۔ اس کا فرش یاقوت سے بنا ہوا ہے۔ اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ شفاف ہے۔ “ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تمہارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پانی پیئے گا اور جو اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ “ (عَنْ أَبِی ذَر (رض) قَال قالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ) (صحیح مسلم، بَابُ إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصِفَاتِہِ ) حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔۔۔ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا اور آخرت کی خیر کثیر کے ساتھ سرفراز فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوض کوثر عطا فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن کو ذلیل اور دم کٹا بنا دیا۔ ٤۔ ہر مسلمان کو اپنے رب کے حضور نماز پڑھنی اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر انعامات کی ایک جھلک : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے رؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم قرار دیا گیا ہے۔ (آل عمران : ١٦٤)
روایات میں آتا ہے کہ قریش کے اوباش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر وقت پیچھا کرتے تھے۔ آپ کی دعوت کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے تھے اور آپ کے ساتھ طنزومزاح کرتے رہتے تھے۔ اس طرح وہ بزعم خود عوام الناس کو آپ کی دعوت حق سننے سے باز رکھتے تھے جو آپ لے کر آئے تھے ۔ ان اوباشوں کے سرخیل عاص ابن وائل ، عقبہ ابن ابو معیط ، ابولہب ، ابوجہل وغیرہ تھے۔ یہ کہتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” ابتر “ ہیں ، یعنی ان کی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ ان میں بعض نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اسے چھوڑ دو ، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے ، جب یہ مرجائے گا تو یہ تحریک خود بخودختم ہوگی۔ عرب معاشرے میں چونکہ نرینہ اولاد کی بہت بڑی اہمیت تھی ، اس لئے ان کے ہاں پروپیگنڈے کی اس سازش کا کافی اثر تھا۔ آپ کے مخالف اور دشمن اس گھٹیا پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور آپ کے قلب مبارک پر اس کا بہرحال اثر ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ سورت نازل ہوئی کہ آپ کا غبار خاطر چھٹ جائے۔ آپ خوشی اور تازگی محسوس کریں اور آپ کو جو خیر کثیر دے کر بھیجا گیا تھا ، اس کی حقیقت اچھی طرح دلوں میں بیٹھ جائے ، اور یہ سمجھا دیاجائے کہ دراصل ” ابتر “ تو آپ کے دشمن ہیں اور وہ اس انجام تک پہنچنے والے ہیں کہ ان کی جڑ کٹ جائے اور ان کا نام ونشان مٹ جائے۔ انا اعطینک الکوثر (1:108) ” ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا ہے “۔ کوثر کثرت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بےحدوحساب اور یہ مفہوم اس کے بالکل برعکس ہے جس کو ہر احمق آپ کی طرف منسوب کرتا تھا یعنی ہم نے آپ کو جو کچھ دیا ہے وہ ایک عظیم لامحدود فیض ہے۔ یہ مسلسل جاری رہے گا اور اس کا سلسلہ کٹنے والا نہیں ہے ۔ جو شخص بھی غور کرے کہ وہ فیض کثیر کیا ہے ، جو اللہ نے اپنے نبی کو دیا تو وہ اسے پاسکتا ہے جس طرف بھی وہ نگاہ کرے اسے موجود پائے گا۔ سب سے پہلے آپ کو جو منصب رسالت دیا گیا وہ خیر کثیر ہے ، آپ کا عظیم سچائی سے رابطہ قائم ہوا۔ اس عظیم وجود سے آپ کارابطہ ہوگیا جس کے سوا کوئی موجود نہیں ہے یعنی ذات باری سے اور جس شخص کا تعلق ذات باری سے قائم ہوجائے وہ سب کچھ پالیتا ہے۔ پھر یہ خیر کثیر اس قرآن کی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پورا قرآن نہیں ، اس کی ایک ایک سورت خیر کثیر ہے اور ہر سورت ایک ایسا سرچشمہ ہے جس کے فیوض ختم نہیں ہوتے۔ پھر پورا عالم بالا آپ پر درود وسلام بھیجتا ہے اور ان لوگوں پر بھی درودو سلام بھیجتا ہے جو آپ پر درودوسلام بھیجتے ہیں۔ اس طرح آپ اسم مبارک اس پوری کائنات میں اللہ کے نام کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ پھر آپ کی سنت کی صورت میں بھی خیرکثیر موجود ہے اور یہ سنت اس جہاں کے اطراف واکناف میں زندہ جاوید ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کی سنت پر چل رہے ہیں ، لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کے پروانے ہیں اور قیامت تک کروڑوں انسان آپ پر درودوسلام بھیجتے رہیں گے۔ پھر یہ کوثر اس خیر کثیر کی شکل میں بھی موجود ہے جس سے یہ پوری دنیا فیض یاب ہوئی اور پوری انسانی تاریخ میں یہ فیوض جاری ہیں۔ چاہے ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو ، چاہے وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ لیکن اس سرچشمے کے اثرات ان پر پڑے اور کسی نہ کسی طرح وہ فیض یاب ہوئے۔ غرض یہ کوثر وہ خیر کثیر اور عظیم ہے جس کا شمار ممکن نہیں ہے۔ اور ہم اپنی کم مائیگی کے ساتھ اگر اس کا شمار کریں تو ہم اس کی قدروقیمت کو کم ہی کردیں گے۔ یہ درحقیقت ایک کوثر ہے اور اس کے فیوض کی انتہا نہیں ہے۔ اس کے علوم ومعارف کے لئے حدود وقیود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسے کوثر کہہ کر مجمل چھوڑ دیا اور ہر ” خیر “ اس کے دائرہ میں آجاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خیر۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ کوثر ایک نہر ہے جو جنت میں ہے۔ اور یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے تو حضرت ابن عباس (رض) نے اس بارے میں کہا کہ وہ نہر بھی منجملہ اس خیر کثیر میں سے ہے جو آپ کو دی گئی ہے۔ گویا یہ کوثر الکوثر کا ایک حصہ ہے۔ یہ نہایت ہی مناسب تطبیق ہے جو اس بارے میں کی جاسکتی ہے۔ فصل لربک وانحر (2:108) ” پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو “۔ اس خیر کثیر کے موکد تذکرے کے بعد ، جو مکہ میں تحریک اسلامی کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والوں اور دعوت اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے عل یالرغم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ اس خیرکثیر کے عطا کیے جانے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اللہ کا پہلا شکر یہ ہے کہ انسان بندگی میں اور تمام تقربات میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ ہو ، اور صرف اسی کو یاد کرے۔ نماز میں بھی اور قربانی میں بھی۔ نماز بھی خالص اللہ کے لئے ہو اور قربانی بھی خالص اللہ کے لئے ہو۔ فصل لربک وانحر (2:108) ” یعنی اللہ ہی کے لئے نماز پڑھو اور اللہ ہی کے نام کی قربانی کرو “۔ اور شرک کرنے والوں کے شر کی کی کوئی پرواہ نہ کرو ، اور اللہ کی بندگی کرو اور ان کے ساتھ شریک ہوکر کسی اور کی بندگی نہ کرو ، اور اللہ کی قربانی میں اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہ لو۔ قرآن کریم بار بار اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام ذبیحوں پر صرف اللہ کا نام لو ، اور یہ کہ جن ذبیحوں پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، وہ حرام ہیں اور ان کا کھانا حرام ہے اور جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ، ان کا کھانا بھی حرام ہے۔ یہ اس لئے کہ قرآن کریم انسانی زندگی کو ہر قسم کے شرک کے آثار اور شائبوں سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ صرف عقیدے سے شرک کو پاک کرنا مقصود اسلام نہیں ہے بلکہ قرآن انسان کی پوری زندگی سے شرک کی نفی کرتا ہے شرک کے تمام معانی اور تمام مفاہیم کے اعتبار سے اس کی نفی کرتا ہے ، اس لئے کہ یہ دین وحدت اور توحید کا دین ہے۔ اور اسکی توحید کا نظریہ ہر پہلو سے مکمل ہے۔ اس لئے یہ دین آخر دم تک شرک کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے تمام مظاہر سے اس کے نشان مٹاتا ہے۔ قرآن کریم اتنے دور تک شرک کا پیچھا کرتا ہے کہ اسے کسی کمین گاہ میں دم لینے نہیں دیتا۔ انسانی نفسیات ، انسانی ضمیر اور انسانی فکر سے اس کا صفایا کرتا ہے۔ اسلامی عبادات سے اسے مٹاتا ہے ۔ انسانی زندگی کے رسم و رواج سے اسے دور کرتا ہے اس لئے کہ زندگی ایک باہم پیوست کل (ایک نظام) ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے اور حصے بخرے نہیں کیے جاسکتے۔ اس لئے اسلام پوری انسانی زندگی کے شرک کے اثرات کو ختم کرتا ہے اور پوری زندگی کا رخ اللہ وحدہ کی طرف پھیردیتا ہے۔ اور اسے پوری طرح واضح ، صاف اور ستھرا بناتا ہے ، چاہے قربانیوں اور ذبیحوں کا مسئلہ ہو یا عبادات عقائد کا ہو یا رسول وتقالید کا۔ ان شانئک ................ الابتر (3:108) ” تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے “۔ پہلی آیت کا فیصلہ یہ تھا کہ آپ کی جڑ نہیں کٹی بلکہ آپ تو الکوثر کے مالک ہیں ، اور اس آیت میں شکاری اپنے جال میں پھنس جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتر نہیں بلکہ آپ کے دشمنوں کی جڑ کٹ چکی ہے اور جو لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں ان کا نامونشان مٹ جانے والا ہے۔ اور اللہ کی یہ دھمکی سچی ثابت ہوئی ، ان لوگوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ اس دنیا سے ان کا تذکرہ ہی ختم ہوگیا جبکہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بلند ہوا اور آپ کے مراتب پڑھتے ہی رہے۔ آج ڈیڑھ ہزار سال کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں کی گئی پیشن گوئی سچی ثابت ہوچکی ہے۔ اور اس آیت کا مصداق آج ایک واضح شکل میں ہمارے سامنے ہے جو ان لوگوں کے سامنے اس قدر واضح نہ تھا جنہوں نے ان آیات کو پہلی مرتبہ سنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان ، سچائی اور بھلائی کی جڑ کبھی نہیں کٹ سکتی۔ ان چیزوں کی جڑیں تو زمین میں گہری ہوتی ہیں۔ اور شاخیں آسمانوں کی فضا میں دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں بلکہ کفر ، باطل اور شر کی جڑکٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ بظاہر تروتازہ اور پھلا پھولا نظر آئے۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کا معیار انسانوں کے معیار سے مختلف ہے۔ انسانوں کی حایت یہ ہے کہ وہ دھوکہ کھاجاتے ہیں ۔ فریب میں آجاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے معیار دراصل حقائق کا تعین کرتے ہیں۔ اس سورت میں جو مثال دی گئی ہے ، یہ ہمارے لئے ایک دائمی اور لازوال مثال ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی ، وہ لوگ کہاں ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ گھٹیا زبان استعمال کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے عوام کو گمراہ کردیا ہے اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین ختم ہوگیا ہے۔ اس کا راستہ روک لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں ہیں۔ ان کا ذکر کہاں ہے ، ان کے آثار کہاں ہیں ، اس کے مقابلے میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کو وہ ابتر کہتے تھے ، ان کو تو ہر پہلو سے حظ وافر دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ دعوت الی اللہ ، سچائی اور بھلائی کی تحریک ختم ہوجائے اور اس کی جڑ کاٹ دی جائے۔ اور نہ اس تحریک کے داعی ابتر ہوسکتے ہیں اس لئے کہ اس تحریک کا محرک زندہ جاوید ، باقی ، لازوال اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ بلکہ کفر ، باطل اور شر ختم ہونے والے ہیں اور ان کے حاملین کا نشان بھی مٹنے والا ہے۔ اگرچہ کسی مختصر دور کے لئے یہ چیزیں مستحکم اور لازوال نظر آتی ہوں اور ان کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہوں۔ یہ ہے سچی بات جو اللہ فرماتا ہے ، اور سازشی اور مکار جو کچھ کہتے تھے وہ جھوٹ تھا اور جھوٹ ہے اور ہمیشہ جھوٹ رہے گا۔ ٭٭٭٭٭
یہ سورة الکوثر کا ترجمہ ہے بعض حضرات نے اسے مدنی سورت بتایا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس میں تین آیات ہیں اور تعداد آیات کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی سب سے چھوٹی سورت ہے۔ لفظ کوثر فوعل کے وزن پر ہے جس کا معنی خیر کثیر ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے اسی خیر کثیر میں سے نہر کوثر بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی۔ سورت کے سبب نزول کے بارے میں کئی روایات تفسیر کی کتابوں میں لکھی ہیں جنہیں انشاء اللہ تعالیٰ ہم آخری آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھیں گے۔ ارشاد فرمایا : ﴿ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ٠٠١﴾ (ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمایا) ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے نوازا، سید الانبیاء والرسل بنایا، قرآن عطا فرمایا، بہت بڑی امت آپ کے تابع بنائی۔ آپ کا دین سارے عالم اور ساری اقوام میں پھیلایا اور آخرت میں آپ کو بہت بڑی خیر سے نوازا۔ مقام محمود بھی عطا فرمایا۔ نہر کوثر بھی خیر کثیر میں ایک حصہ ہے۔ خیر کثیر اسی پر منحصر نہیں۔ احادیث شریفہ میں نہر کوثر کی بھی بہت عظیم صفات بیان فرمائی گئی ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں (شب معراج) میں جنت میں چل پھر رہا تھا اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہر ہے اس کے دونوں جانب موتیوں کے بنائے ہوئے ایسے قبے ہیں کہ موتیوں کو اندر سے تراش کر ایک ایک موتی کا ایک ایک قبہ بنا دیا گیا ہے۔ میں نے دریافت کیا اے جبرائیل یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ اس کے اندر کی مٹی بہت تیز خوشبودار مشک ہے۔ (رواہ البخاری) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میرے حوض کا طول اور عرض اتنا زیادہ ہے کہ اس کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لیے ایک ماہ کی مدت درکار ہے اور اس کے گوشے برابر ہیں۔ (یعنی طول و عرض دونوں برابر ہیں) اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ عمدہ ہے اور اس کے لوٹے اس قدر ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں، جو اس میں سے پیے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٨٧ از بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا حوض اس قدر عریض و طویل ہے کہ اس کی دو طرفوں کے درمیان اس فاصلہ سے بھی زیادہ فاصلہ ہے جو ایلہ سے عدن تک ہے۔ سچ جانو وہ برف سے زیادہ سفید اور اس شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو دودھ میں ملا ہوا ہو، اور اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں اور میں (دوسری امتوں کو) اپنے حوض پر آنے سے ہٹاؤں گا، جیسے (دنیا میں) کوئی شخص دوسرے کے اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس روز آپ ہم کو پہچانتے ہوں گے ؟ ارشاد فرمایا ہاں (ضرور پہچان لوں گا اس لیے کہ) تمہاری ایک علامت ہوگی جو کسی اور امت کی نہ ہوگی۔ اور وہ یہ کہ تم حوض پر میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے ا ثر سے تمہارے چہرے روشن ہوں گے اور ہاتھ پاؤں سفید ہوں گے۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ ٤٨٧ از مسلم) دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آسمان کے ستاروں کی تعداد میں حوض کے اندر سونے چاندی کے لوٹے نظر آ رہے ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٨٧ از مسلم) آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس حوض میں دو پرنالے گر رہے ہوں گے جو جنت (کی نہر) سے اس کے پانی میں اضافہ کر رہے ہوں گے، ایک پرنالہ سونے کا دوسرا چاندی کا ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہر کوثر جنت میں ہے۔ میدان قیامت میں اس میں سے ایک شاخ لائی جائے گی جس میں اوپر سے پانی آتا رہے گا اور اہل ایمان اس میں سے پیتے رہیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن اور عمان کے درمیان فاصلہ ہے (حوض کی وسعت کئی طرح ارشاد فرمائی ہے کہیں ایک ماہ کی مسافت کا فاصلہ اس کی طرفوں کے درمیان فرمایا کہیں ایلہ اور عدن کے درمیان فاصلہ سے بھی اس کی وسعت کو تشبیہ دی کہیں کچھ اور فرمایا۔ ان مثالوں کا مقصد حوض کی وسعت کو سمجھانا ہے۔ ناپی ہوئی مسافت بتانا مراد نہیں ہے۔ اہل مجلس کے لحاظ سے وہ مسافت اور فاصلہ ذکر فرمایا ہے جسے وہ سمجھ سکتے تھے۔ حاصل سب روایات کا یہ ہے کہ اس حوض کی مسافت سینکڑوں میل ہے) ۔ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور مشک سے بہتر اس کی خوشبو ہے۔ اس کے پیالے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ جو اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا۔ سب سے پہلے اس پر مہاجر فقراء آئیں گے۔ کسی نے (اہل مجلس میں سے) سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کا حال بتا دیجئے۔ ارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں (دنیا میں) جن کے سروں کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے (بھوک اور محنت و تھکن کے باعث) بدلے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے (بادشاہوں اور حاکموں) کے دروازے نہیں کھولے جاتے تھے اور عمدہ عورتیں ان کے نکاح میں نہیں دی جاتی تھیں، اور (ان کے معاملات کی خوبی کا یہ حال تھا کہ) ان کے ذمہ جو (کسی کا) حق ہوتا تھا سب چکا دیتے تھے اور ان کا حق جو (کسی پر) ہوتا تھا تو پورا نہ لیتے تھے (بلکہ تھوڑا بہت) چھوڑ دیتے تھے۔ (الترغیب والترہیب) یعنی دنیا میں ان کی بدحالی اور بےمائیگی کا یہ حال تھا کہ بال سدھارنے اور کپڑے صاف رکھنے کا مقدور بھی نہ تھا اور ظاہر کے سنوارنے کا ان کو ایسا خاص دھیان بھی نہ تھا نہ بناؤ سنگار کے چونچلوں میں وقت گزارتے، اور آخرت سے غفلت برتتے۔ ان کو دنیا میں افکار و مصائب ایسے درپیش رہتے تھے کہ چہروں پر ان کا اثر ظاہر تھا، اہل دنیا ان کو ایسا حقیر سمجھتے تھے کہ مجلسوں اور تقریبوں اور شاہی درباروں میں ان کو دعوت دے کر بلانا تو کیا معنی ان کے لیے ایسے مواقع میں دروازے ہی نہ کھولے جاتے تھے اور وہ عورتیں جو ناز و نعمت میں پلی تھیں ان خاصان خدا کے نکاحوں میں نہیں دی جاتی تھیں۔ مگر آخرت میں ان کا یہ اعزاز ہوگا کہ حوض کوثر پر سب سے پہلے پہنچیں گے، دوسرے لوگ ان کے بعد اس مقدس حوض سے پی سکیں گے۔ (بشرطیکہ اہل ایمان ہوں اور اس میں سے پینے کے لائق ہوں) ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے سامنے جب آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا گیا کہ حوض کوثر پر سب سے پہلے پہنچنے والے وہ لوگ ہوں کے جن کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور کپرے میلے رہتے تھے اور جن سے عمدہ عورتوں کے نکاح نہ کیے جاتے تھے اور جن کے لیے دروازے نہیں کھولے جاتے تھے تو اس ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سن کر (گھبرا گئے) اور بےساختہ فرمایا کہ میں تو ایسا نہیں ہوں، میرے نکاح میں عبد الملک کی بیٹی فاطمہ (شہزادی) ہے اور میرے لیے دروازے کھولے جاتے ہیں لا محالہ اب تو ایسا کروں گا کہ اس وقت تک سر کو نہ دھو وں گا جب تک بال بکھر نہ جایا کریں گے اور اپنے بدن کو اس وقت تک نہ دھو وں گا جب تک میلا نہ ہوجایا کرے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں حوض (کوثر) پر تمہارے پلانے کا انتظام کرنے کے لیے پہلے سے پہنچا ہوا ہوں گا۔ جو میرے پاس سے گزرے گا پی لے گا اور جو اس میں سے پی لے گا کبھی اسے پیاس نہیں لگے گی پھر فرمایا بہت سے لوگ میرے پاس سے گزریں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے، پھر میرے اور ان کے درمیان آڑ لگا دی جائے گی۔ میں کہوں گا کہ یہ میرے آدمی ہیں جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں نکال لی تھیں اس پر میں کہوں گا دور ہوں، دور ہوں، جنہوں نے میرے بعد دین کو بدل دیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) دین میں پچر لگانے والوں کا اس وقت کیسا برا حال ہوگا جبکہ قیامت کے دن پیاس سے بیتاب اور عاجز و بےکس ہوں گے اور حوض کوثر کے قریب پہنچ کر دھتکار دیئے جائیں گے، اور رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایجادات کا حال سن کر ” دور دور “ فرما کر پھٹکار دیں گے۔ قرآن و حدیث میں جو کچھ وارد ہوا ہے اسی پر چلنے میں بھلائی ہے کامیابی ہے لوگوں نے سینکڑوں بدعتیں نکال رکھی ہیں اور دین میں ادل بدل کر رکھا ہے جن سے ان کی دنیا بھی چلتی ہے اور نفس کو مزہ بھی آتا ہے اور مختلف علاقوں میں مختلف بدعتیں رواج پا گئی ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے تو الٹا سمجھانے والے ہی کو برا کہتے ہیں۔ ہم سیدھی اور موٹی سی ایک بات کہے دیتے ہیں کہ جو کوئی کام کرنا ہو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جیسے فرمایا اسی طرح کریں اور جس طرح آپ نے کیا اسی طرح عمل کریں اور اپنے پاس سے کوئی عمل تجویز نہ کریں۔ دنیا دار پیر فقیر یا علم کے جھوٹے دعویدار اگر کہیں کہ فلاں کام میں ثواب ہے اور اچھا ہے تو ان سے ثبوت مانگو اور پوچھو کہ بتاؤ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث شریف کی کس کتاب میں لکھا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرنا پسند تھا ؟
2:۔ ” انا اعطینک “ الکوثر بروزن فوعل، جو چیز عدد و قدر اور منزلت و منفعت میں کثیر ہو اسے کوثر کہا جاتا ہے۔ العرب تسمی کل شیئ کثیر فی العدد والقدر والخطر کو ثرا (قرطبی ج 20 ص 127) ۔ الکوثر سے مراد کے بارے میں مفسرین کے تقریبان پندرہ اقوال ہیں۔ سب سے زیادہ معروف قول دو ہیں۔ اول یہ کہ اس سے مراد حوض کوثر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوگا اور آپ اس سے اپنی امت کو سیراب کریں گے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا۔ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر کا ملنا متواترات میں سے ہے۔ دوم یہ کہ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو دین و دنیا کا کوثر ہے اور دین و دنیا کی خیر کثیر کا سر چشمہ ہے یا اس سے ہر وہ خیر و برکت اور ہر وہ نعمت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطاء فرمائی ہو۔ یہ قول حضرت عبداللہ بن عباس امام المفسرین سے منقول ہے۔ اور یہ قول حوض کوثر اور قرآن کو بطریق اولی شامل ہے۔ القول الخامس عشر ان المراد من الکوثر جمیع نعم اللہ علی محمد (علیہ السلام) وھو المنقول عن ابن عباس لان لفظ الکوثر یتنال الکثرۃ الکثیرۃ فلیس حمل الایۃ علی بعض ھذہ النعم اولی من حملہا علی الباقی فوجب حملہا علی الکل (کبیر) ۔ یہ سورت چونکہ مکیہ ہے اور اس کے نزول کے وقت ابھی نہ نزول قرآن کی تکمیل ہوئی تھی اور نہ بالعفعل حوض کوثر آپ کو ملا تھا اور نہ ابھی ہر نعمت اور خیر و برکت کا نزول ہی مکمل ہوا تھا اس لیے اعطیناک، حکمنا لک بالاعطاء پر محمول ہے۔