Surat Hood

Surah: 11

Verse: 1

سورة هود

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾

Alif, Lam, Ra. [This is] a Book whose verses are perfected and then presented in detail from [one who is] Wise and Acquainted.

الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an and its Call to (worship) Allah Alone Allah says: الَر ... Alif Lam Ra. A discussion concerning the letters of the alphabet (which appear at the beginning of some chapters of the Qur'an) has already preceded at the beginning of Surah Al-Baqarah. That discussion is sufficient without any need for repetition here. ... كِتَابٌ .... (This is) a Book, (referring Quran). Concerning Allah's statement, ... أُحْكِمَتْ ايَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ ... The Ayat whereof are perfect and then explained in detail This means perfect in its wording, detailed in its meaning. Thus, it is complete in its form and its meaning. This interpretation was reported from Mujahid and Qatadah, and Ibn Jarir (At-Tabari) preferred it. Concerning the meaning of Allah's statement, ... مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ from One (Allah), Who is All-Wise, Well-Acquainted. This means that it (the Qur'an) is from Allah, Who is Most Wise in His statements and His Laws, and Most Aware of the final outcome of matters.

تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورہ بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے ۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے ۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے ۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے ۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے ۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں ، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں ۔ زیادہ قریب والے پہلے ، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا ۔ پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ۔ قرآن کریم نے ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97؀ ) 16- النحل:97 ) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے ، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا ، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی ۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا ۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہو گئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں ۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں ۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے ۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے ، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام ، مخلوق کی نئی پیدائش ، سب اس کے قبضے میں ہے ۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

اس سورت میں بھی ان قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بنیں اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرح مٹ گئیں یا اوراق تاریخ پر عبرت کا نمونہ بنی موجود ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا بات ہے آپ بوڑھے سے نظر آتے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة ہود، واقعہ، عم یتسآءلون، اور اذالشمس کورت وغیرہ نے بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) 1۔ 1 یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔ 1۔ 2 پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔ 1۔ 3 یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] محکم آیات کا مفہوم :۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض دوسری متشابہ۔ لغوی لحاظ سے تو محکم ہر اس چیز کو کہا جاسکتا ہے جسے حکمت، دانائی اور تجربہ سے اس کو ساخت میں مضبوط بنادیا گیا ہو جیسے ارشاد باری ہے (ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 52؀ۙ ) 22 ۔ الحج :52) اور جب محکم کے مقابلے میں متشابہ کا لفظ آئے تو محکم کا معنی ایسی آیات ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو بالفاظ دیگر اس کے معنی بالکل واضح ہوں جن کی کوئی اور تاویل نہ ہوسکتی ہو یعنی قرآن کی آیات محکم ہیں اور ان کی حکمت اور تفصیل بعض دوسرے مقامات پر دوسری آیات میں بیان کردی گئی ہے مثلاً لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی شریعتوں میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر مختلف اوقات میں اس کی تفصیلات نازل ہوتی رہی ہیں لیکن وہ سب اس حقیقت کو مزید مستحکم و مضبوط بناتی چلی جاتی ہیں اور ان میں کہیں بھی اختلاف یا تضاد واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی کسی حکیم اور خبیر ہستی سے نازل شدہ ہے۔ بعض مفسرین آیات کو محکم بنانے سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ایسی ہیں جن میں عقل سلیم اگر غور و فکر کرے تو کوئی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا اور وہ ہر معیار پر پوری اترتی ہیں وہ ماضی کے حالات سے متعلق ہوں یا آئندہ کے متعلق پیشین گوئیاں ہوں اور وہ احکام سے متعلق ہوں جو تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملکی تک نیز عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ تک پھیلے ہوئے ہوں اور زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اثبات توحید کے دلائل ہوں اور ان میں سے جن احکام کی اس دنیا میں تجربہ کی کسوٹی پر جانچ کی جاسکتی ہے وہ سچ اور درست ہی ثابت ہوتے ہیں ایسے اخبار اور ایسے احکام بھی قرآن میں جابجا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً مذکور ہوئے ہیں اور ایسی تمام آیات میں کسی نقص، خرابی یا اختلاف کا نہ ہونا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کسی حکیم وخبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سورة ہود الرا دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے) کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا بہت اثر ہوا، چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَدْ شِبْتَ ، قَالَ شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ ) وَ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الواقعۃ : ٣٢٩٧۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ٩٥٥ ] ” یا رسول اللہ ! آپ بوڑھے ہوگئے۔ “ فرمایا : ” مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کردیا۔ “ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ : یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جاسکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہوجائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔ ثُمَّ فُصِّلَتْ : تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بیحد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ ” فصلت “ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا : (صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٨٨ ] ” اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ “ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہوگی ؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Surah Hud is among the Surahs that describe the coming of several kinds of mass punishments triggered by Divine displeasure as well as the horrendous happenings of the fateful day of Judgment and its outcome in the form of individual reward and punishment, all in a manner that is unique. For this reason, when a few strands of hair in the blessed beard of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had turned visibly grey, Sayyidna Abu Bakr (رض) expressed his concern by saying: ` Ya Ras ulallah, you have become old.& He said: ` Yes, Surah Hud has made me old.& There are reports which also add Surah al-Waqi` ah, al-Mursalat, ` Amma Yatasa&alun (an-Naba& ) and at-Takwir with Surah Hud. (Reported by a1-Hakim and Tirmidhi) The sense articulated through the Hadith given above was to highlight that such was the awe and terror inspired by the mention of these happenings that it caused the emergence of the signs of old age. The first verse of the Surah opens with the letters: الر (alif lam, ra). These are isolated letters the meaning of which is a secret between Al¬lah Ta` ala and His Rasul (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Others have not been informed about it. Rather, they have been prohibited from even worrying about it. After that, about the Holy Qur&an it was said that it was a book the verses of which are made ` muhkam& (firm). The word: مُحکَم (muhkam) is from: اِحکَام (ihkam) which means such a correct balancing of meaningful speech as would not leave the probability of any error or disorder in word or meaning. Based on this definition, the making of these verses ` muhkam,& firm or established would mean that Allah Ta` ala has made these verses such as do not admit of any likelihood and probability of any error in words, or disorder in meanings, or defect, or falsity. (Qurtubi) And Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said that ` muhkam& (firm) at this place stands in contrast to &mansukh& (abrogated). And the sense is that Allah Ta` ala has made the verses of the Qur&an as a whole firm, non-abrogated - that is, the way earlier Books, Torah, Injil etc. were abrogated after the revelation of the Qur&an. But, after the revelation of this Book, since the very chain of the coming of prophets and revelations came to an end, therefore, this Book will not be abrogated until the last day of Qiyamah. (Qurtubi) As for the abrogation of some verses of the Qur&an through the Qur&an itself, it is not contrary to this. In the same verse, given there was another standing feature of the Qur&an: ثُمَّ فُصِّلَتْ (thumma fussilat) that is, ` then these verses were elabo¬rated&. The real meaning of tafsil or elaboration is to separate two things and make them distinct from each other. For this reason, differ¬ent sections in ordinary (Arabic) books bear the heading of &Fasl&. At this place, the elaboration of verses could also mean that the verses concerning beliefs, acts of worship, dealings, social living, morals etc., have been separated from each other and described clearly. And it could also mean that, as far as Allah Ta` ala&s will is con¬cerned, the entire Qur&an had already been embedded in the Preserved Tablet اَلَّوحَ اِلمَحفُوظ (al-lawh al-mahfuz). But, later it was revealed bit by bit in many installments as necessitated under different conditions prevail¬ing among peoples and countries, so that its preservation could become easy and acting in accordance with it also turns out to be functionally convenient. After that, it was said: مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌ that is, all these verses have come from a Sacred Being who is absolutely and simultaneously Wise and Aware. In other words, there are so many considerations of wis¬dom ingrained in everything that issues forth from Him. It is impossi¬ble for human beings to encompass them all. Then He is fully aware of every particle, present now or to be present in the future, of this multi-faceted universe. He knows all states of their existence as it is and as it will be and releases His commands keeping all this in sight. This is not like what human beings do. No matter how intelligent, smart and experienced they may be, their reason and vision are still cordoned by a limited frame of reference. Their experience is the product of what is around them. And this, mostly, proves to be unsuccessful, even wrong, especially when it concerns what would happen in the future under different times and conditions. (Interestingly enough, the observations of the commentator apply to what we now know as the intellectual phenomena of Futurology with its pundits, fellow travelers and dabblers all over the world, including Pakistan! tr).

خلاصہ تفسیر الۗر ( کے معنی تو اللہ کو معلوم) یہ ( قرآن) ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں ( دلائل سے) محکم کی گئی ہیں پھر ( اس کے ساتھ) صاف صاف ( بھی) بیان کی گئی ہیں ( اور وہ کتاب ایسی ہے کہ) ایک حکیم باخبر ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے ( آئی ہے جس کا بڑا مقصد) یہ ( ہے) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ( ایمان نہ لانے پر عذاب سے) ڈرانے والا اور (ایمان لانے پر ثواب کی) بشارت دینے والا ہوں اور ( اس کتاب کے مقاصد میں سے) یہ ( بھی ہے) کہ تم لوگ اپنے گناہ ( شرک و کفر وغیرہ) اپنے رب سے معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ اور) پھر ( ایمان لا کر) اس کی طرف ( عبادت سے) متوجہ رہو ( یعنی عمل صالح کرو پس ایمان و عمل صالح کی برکت سے) وہ تم کو وقت مقررہ ( یعنی وقت موت) تک (دنیا میں) خوش عیشی دے گا اور (آخرت میں) ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ( یہ کہنا بھی بمنزلہ بشیر کے کہنے کے ہے) اور اگر ( ایمان لانے سے) تم لوگ اعراض ( ہی) کرتے رہے تو مجھ کو ( اس صورت میں) تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ( یہ کہنا بمنزلہ نذیر کے کہنے کے ہے، اور عذاب کو مستبعد مت سمجھو کیونکہ) تم ( سب) کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وہ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے ( پھر استبعاد کی کوئی وجہ نہیں البتہ اگر وہاں تمہاری حاضری نہ ہوتی یا نعوذ باللہ اس کو قدرت نہ ہوتی تو عذاب واقع نہ ہوتا پس ایسی ایسی حالت میں ایمان اور توحید سے اعراض نہ کرنا چاہئے، آگے علم الہٰی کا اثبات ہے، اور ایسا علم وقدرت دونوں دلیل توحید ہیں) یاد رکھو وہ لوگ دوہرا کئے دیتے ہیں اپنے سینوں کو ( اور اوپر سے کپڑا لپیٹ لیتے ہیں) تاکہ اپنی باتیں خدا سے چھپا سکیں ( یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میں جو باتیں کرتے ہیں تو اس ہیئت سے کرتے ہیں تاکہ کسی کو خبر نہ ہوجاوے اور جس کو اعقاد ہوگا کہ خدا کو ضرور خبر ہوتی ہے اور آپ کا صاحب وحی ہونا دلائل سے ثابت ہے، پس وہ اخفاء کی ایسی تدبیر کبھی نہ کرے گا کیونکہ ایسی تدبیر کرنا گویا بدلالت حال اللہ سے پوشیدہ رہنے کی کوشش کرنا ہے سو) یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت ( دوہرے ہوکر) اپنے کپڑے ( اپنے اوپر) لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چپکے باتیں کرتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر باتیں کرتے ہیں ( کیونکہ) بالیقین وہ ( تو) دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے ( تو زبان سے کہی ہوئی تو کیوں نہ جانے گا ) ۔ معارف و مسائل سورة ہود ان سورتوں میں سے ہے جن میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الہٰی اور مختلف قسم کے عذابوں کا اور پھر قیامت کے ہولناک واقعات اور جزاء و سزا کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ریش مبارک میں کچھ بال سفید ہوگئے تو حضرت صدیق اکبر نے بطور اظہار رنج کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ بوڑھے ہوگئے، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے سورة ھود نے بوڑھا کردیا، اور بعض روایات میں سورة ہود کے ساتھ سورة واقعہ اور مرسلات اور عم یتساءلون اور سورة تکویر کا بھی ذکر ہے۔ (رواہ الحاکم والترمذی) مطلب یہ تھا کہ ان واقعات کے خوف و دہشت کی وجہ سے بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوگئے) اس کی پہلی آیت کو الر سے شروع کیا گیا ہے، یہ ان حروف میں سے ہیں جن کی مراد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان راز ہے دوسروں کو اس پر مطلع نہیں کیا گیا، ان کو اس کی فکر میں پڑنے سے بھی روکا گیا ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم بنایا گیا ہے، لفظ محکم احکام سے بنا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کلام کو ایسا درست کیا جائے جس میں کسی لفظی اور معنوی غلطی یا فساد کا احتمال نہ رہے، اس بناء پر آیات کے محکم بنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ حق تعالیٰ نے ان آیات کو ایسا بنایا ہے کہ ان میں میں کسی لفظی غلطی یا معنوی فساد اور خلل یا باطل کا کوئی امکان و احتمال نہیں۔ ( قرطبی) اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ محکم اس جگہ منسوخ کے مقابلہ میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اس کتاب یعنی قرآن کی آیات کو اللہ تعالیٰ نے مجموعی حیثیت سے محکم غیر منسوخ بنایا ہے یعنی جس طرح پچھلی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ نزول قرآن کے بعد منسوخ ہوگئیں، اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد چونکہ سلسلہ نبوت و وحی ہی ختم ہوگیا اس لئے یہ کتاب تا قیامت منسوخ نہ ہوگی۔ ( قرطبی) اور قرآن کی بعض آیات کا خود قرآن ہی کے ذریعہ منسوخ ہوجانا اس کے منافی نہیں۔ اسی آیت میں قرآن کی دوسری شان یہ بتلائی گئی ثُمَّ فُصِّلَتْ یعنی پھر ان آیات کی تفصیل کی گئی، تفصیل کے اصلی معنی یہ ہیں کہ دو چیزوں کے درمیان فصل و امتیاز کیا جائے، اسی لئے عام کتابوں میں مختلف مضامین کو فصل فصل کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے، اس جگہ تفصیل آیات سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق وغیرہ مضامین کی آیات کو جدا جدا کر کے واضح بیان فرمایا گیا ہے۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو بیک وقت پورا لوح محفوظ میں ثبت کردیا گیا تھا مگر پھر مختلف قوموں اور ملکوں کے حالات و ضروریات کے تحت بہت سی قسطوں میں تھوڑا نازل فرمایا گیا تاکہ اس کا حفظ بھی آسان ہو اور ان پر تدریجی عمل بھی سہل ہوجائے۔ اس کے بعد فرمایا (آیت) مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ، یعنی یہ سب آیات ایک ایسی ہستی کی طرف سے آئی ہیں جو حکیم بھی ہے اور باخبر ہے، ان کے سب حالات موجودہ و آئندہ کو جانتا ہے ان سب پر نظر کرکے احکام نازل فرماتا ہے، انسانوں کی طرح نہیں کہ وہ کتنے ہی عقلمند، ہوشیار، تجربہ کار ہوں مگر ان کی عقل و دانش ایک محددو دائرہ میں گھری ہوئی اور ان کا تجربہ صرف اپنے گرد و پیش کی پیداوار ہوتا ہے جو بسا اوقات آئندہ زمانہ اور آئندہ حالات میں ناکام و غلط ثابت ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الۗرٰ۝ ٠ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۝ ١ ۙ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو احکمت ۔ ماضی مجہول ۔ واحد مؤنث غائب احکام سے۔ جس کے معنی مضبوط اور محکم کرنے کے ہیں۔ یوں پختہ اور استوار کرنا کہ اس میں کسی خلل اور نقص کا گمان تک نہ رہے۔ بمعنی مضبوط اور مستحکم بنا دی گئی ہیں۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات میں حلال و حرام اوامرو نواہی کا حکم دیا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا اور ان کو صاف صاف بھی بیان کیا گیا اور وہ کتاب ایک عالم باخبر کی طرف سے آئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ) اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید میں شروع شروع میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ حجم کے اعتبار سے تو چھوٹی ‘ لیکن بہت جامع اور گہرے مفہوم کی حامل ہیں ‘ جیسے کو زے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہو۔ مثلاً سورة العصر ‘ جس کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں : لَوْلَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاس یعنی ” اگر اس سورت کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو بھی یہ سورت لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی “۔ امام شافعی سورة العصر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں : لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ ” اگر لوگ اس سورت پر ہی تدبر کریں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے گی “۔ چناچہ قرآن مجید کی ابتدائی سورتیں اور آیات بہت محکم اور جامع ہیں اور بعد میں انہی کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اور اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. In keeping with the context, the word Kitab has here been rendered as 'Divine command'. The word Kitab in its Arabic usage denotes not only book or inscription, but also writ and command. There are several instances in the Qur'an of the use of the word in the latter sense. (See, for instance, al-Baqarah 2: 235, al-Ra'd 13: 38. The significance of 'command' is especially evident from the usage of k t b derivates in the passive tense: see al-Baqarah 2: 180, 183, 216, 246, etc. - Ed.) 2. The contents of this 'command' are firm and unalterable. In addition, the Qur'an is free from the verbosity of orators, the fanciful imagination of poets, the spellbinding rhetoric of litterateurs. Instead, the teachings of the Qur'an have been set forth with remarkable clarity and precision. Thus, in the Qur'anic text we do not find even a single word that is superfluous, nor a single word that is lacking. Moreover, the verses expound the teachings of the Qur'an in such a manner that they are at once elaborate and lucid.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :1 ”کتاب“ کا ترجمہ یہاں انداز بیان کی مناسبت سے ”فرمان“ کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :2 یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اٹل ہیں ۔ خوب جچی ٹلی ہیں ۔ نری لفاظی نہیں ہے خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے ۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو ۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں ، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے ۔ بیان الجھا ہوا ، گنجلک اور مبہم نہیں ہے ۔ ہر بات کو الگ الگ ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ پچھلی سورت میں عرض کیا گیا، ان حروف کو مقطعات کہتے ہیں، اور ان کے صحیح معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہیں 2: مضبوط کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ دلائل کے لحاظ سے مکمل ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤ الر بھی حروف مقطعات میں سے ہے جس کے معنے سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں معلوم جیسے الم وغیرہ چناچہ اس کی تفصیل سورة بقر اور سورة آل عمران میں گزر چکی ہے ان آیتوں میں اللہ پاک نے قرآن مجید کی تعریف بیان فرمائی ہے کہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی کل آیتیں شروع سے آخر تک بالکل مضبوط ہیں جیسے ایک دیوار کی بنیاد کہ کبھی اس میں ردو بدل ہونے والا نہیں ہے جیسے پہلی کتابیں توریت و انجیل وغیرہ کہ ایک کے بعد ایک منسوخ ہوتی گئیں پہلے یہ کتاب لوح محفوظ میں تھی پھر اللہ پاک نے اپنے سچے رسول پر تفصیل کے ساتھ اس کو نازل فرمایا اور حرام حلال کی تفصیل بتلادی جو قیامت تک قائم رہے گی فرمایا کہ تم لوگ سوائے خدا کے اور کسی کی بندگی نہ کرو۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوہ صفا پر جو مکہ میں ہے چڑھ گئے اور اپنے قبیلے قریش کے ہر رشتہ داروں میں سے پہلے نزدیک کے رشتہ داروں پھر دور کے رشتہ داروں کو پکارا جب سب جمع ہوگئے تو فرمایا اے قریش کے گروہ اگر میں تم کو اس بات کی خبر دوں کہ صبح کو ایک بہت بڑا لشکر جس میں بیشمار سوار اور پیادہ ہوں گے تم پر چڑھائی کرے گا تو تم مجھے سچا جانو گے ان سب نے ایک زبان ہو کر کہا ہم نے تمہاری کوئی بات جھوٹی نہیں دیکھی آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں ١ ؎ اور اس کے جنت کی خوشی سناتا ہوں کہ جو باتیں گزر چکیں اور جو کچھ تم پہلے کرچکے اسے استغفار کرو اور آئندہ کے لئے توبہ کرلو خدا اس کا نفع تمہیں دنیا میں بہت ہی اچھا دے گا تمہارے رزق بڑھائے گا عیش و آرام میں رکھے گا اور آخرت میں ہر شخص کے عمل کے موافق دس گنا فضل کرے گا۔ یہ حدیث (نذیر و بشیر) کی گویا تفسیر ہے ابن مسعود (رض) نے (یؤت کل ذی فضل فضلہ) کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص ایک برائی کرتا ہے اس کی ایک برائی لکھی جاتی ہے اور جو ایک نیکی کرتا ہے اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اگر اس نے کوئی برائی کی اور دنیا میں کوئی سزا اس پر کی گئی تو اس کی دس کی دس نیکیاں آخرت میں ملیں گی اور اگر دنیا میں کوئی سزا نہیں ہوئی تو ایک نیکی ان دس میں سے اس ایک بڑائی کا کفارہ بن جائے گی اور نو نیکیاں باقی رہیں گی۔ ٢ ؎ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ اگر تم شرک سے توبہ اور استغفار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ قیامت کے دن تم پر عذاب ہو کیوں کہ جب تم لوگ مرجاؤ گے تو پھر ایک دن خدا تمہیں زندہ کرے گا اور تمہارے اعمال کا پورا بدلہ دے گا وہ ہر شئے پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ چناچہ اپنی اسی قدرت کاملہ کے سبب سے اس نے تم کو نیست سے ہست کیا اب مرجانے کے بعد اگر تم ویسے ہی نیست ہوجاؤ گے تو پھر دوبارہ تمہیں نیست سے ہست کرنا اور نیک و بد کی جزا و سزا کا کرنا اس کی قدرت سے کسی طرح باہر نہیں ہے بغیر کسی سند کے تم جو اس کے منکر ہو یہ تمہاری نادانی ہے کیوں کہ جو کام ایک دفعہ ہوچکا پھر دوبارہ اس کے ہوجانے کا انکار کرنا کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا پہلی دفعہ پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر انسان نے دوسری دفعہ کی پیدائش کا جو انکار کیا اور اس انکار سے میرے کلام کو اس نے جھٹلایا یہ بات انسان کو مناسب نہ تھی ٣ ؎ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنی پہلی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر یہ منکریں حشر بغیر کسی سند کے حشر کا جو انکار کرتے ہیں یہ ان کی شان سے بعید ہے۔ ٣ ؎ مشکوۃ ٤٦٢ باب الائذا روالتحزیر۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٦ ج ٢۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٤٥٣ ج ١ کتاب بدء الخلق۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:1) الر۔ حرف مقطعات۔ ملاحظہ ہو۔ کتب۔ ای ہو کتب۔ کتاب خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ یہ وہ کتاب ہے۔ احکمت۔ ماضی مجہول ۔ واحد مؤنث غائب احکام سے۔ جس کے معنی مضبوط اور محکم کرنے کے ہیں۔ یوں پختہ اور استوار کرنا کہ اس میں کسی خلل اور نقص کا گمان تک نہ رہے۔ بمعنی مضبوط اور مستحکم بنادی گئی ہیں۔ فصلت۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب ۔ تفصیل (تفعیل) سے کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ لدن۔ ظرف مکان ہے۔ بمعنی طرف، پاس، عموماً اس سے پہلے من حرف جار آتا ہے جیسے قد بلغت من لدنی عذرا (18:76) تم کو میری طرف سے (اپنے ساتھ نہ رکھنے کا) عذر حاصل ہوگا۔ ربنا اتنا من لدنک رحمۃ (18:10) اے ہمارے رب ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما۔ وعلمنہ من لدنا علما (18:65) ہم نے اسے اپنے پاس سے علم بخشا تھا۔ من لدن حکیم خبیر۔ بڑے دانا اور باخبر (خدا) کی طرف سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی خوب پختہ اور اٹل ہیں جن میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہے اور نہ ہو۔ مجموعی اختیار سے۔ توراۃ انجیل کی طرح منسوخ ہیں اور پھر معارضہ سے بھی بالا ہیں۔ (کذافی الوحیدی) ۔ 4 ۔ یعنی نہایت واضح کہ کس آیت کے مفہوم میں ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ٨ اسرار و معارف الر حروف مقطعات ہیں جن کا علم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے یا جیسے رب چاہے سمجھ عطاکردے مگر تلاوت سب کے لئے ہے اور فائدہ بھی سب کو پہنچتا ہے۔ یہ ایسی بےمثال کتاب ہے کہ اس کی آیات محکم یعنی ناقابل تبدیل ہیں اگرچہ پہلے بھی آسمانی کتب نازل ہوتی رہیں مگر ان کی آیات اور احکام خاص قوموں یا ملکوں کے لئے اور خاص زمانوں کے لئے تھے جو بعد میں نزول قرآن سے بھی کلی طور پر منسوخ ہوگئے مگر یہ کتاب بیک وقت ساری انسانیت کے لئے تمام ملکوں کے لئے اور سب زمانوں کے لئے ہے اور اس کے احکام ہر دور اور ہر ملک میں قابل عمل بھی ہیں لہٰذا یہ ہمیشہ کے لئے ہے اور کسی بھی امر میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں چھوڑتی ایک ایک بات عقائد ہوں یا اعمال سیاسیات ہوں یا اخلاقیات معیشت ہو یا معاشرت کھول کھول کر بیان کرتی ہے ۔ اور کیوں نہ ہو جبکہ اس کے نازل کرنے والی ہستی ہی صاحب حکمت بھی ہے اور ہر بات اور ہر حال سے باخبر بھی نیز اس کے تمام احکام واخبار کا ماحصل یہ ہے کہ بندے کو خالق حقیقی سے آشنا کردے اور اس کا سر اللہ کے سوا کسی بھی دوسری چوکھٹ پہ نہ جھکے یہی برکات انسانوں تک پہنچانا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافریضہ رسالت ہے فرمایا انھیں بتادیجئے کہ بیشک اس کتاب میں یہ تمام کمالات موجود ہیں مگر یہ میرامنصب ہے کہ جن خطرات سے قبل ازوقت یہ کتاب آگاہ فرماتی ہے ان سے انسانوں کو آگاہ کروں اور جن امور پر اللہ کی خوشنودی کی خبردیتی ہے ان کی تفصیل نبی آدم کو سمجھاؤں۔ کتاب بغیررسول کے نافع نہیں لہٰذایہ بات واضح ہوگئی کہ کتاب بغیررسول کے نافع نہیں ہے اور جو لوگ قرآن کی تعبیر اپنی پسند سے کرتے ہیں اور اہل قرآن کہلاتے ہیں وہ حق پر نہیں اور میرامنصب یہ بھی ہے کہ تمہیں اللہ سے معافی طلب کرنے کی دعوت دوں تمہارے قلوب میں وہ جذبہ پیدا کروں کہ تم اس ذات کریم سے مغفرت طلب کرو اور آئندہ نافرمانی نہ کرنے کا عہد بھی کرو کہ توبہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی طور پر اصلاح پذیر ہونے کا نام ہے اس لئے کہ دوعالم کا آرام اللہ سے بخشش طلب کرنے اور توبہ کرنے پہ ملتا ہے انسان بہرحال انسان ہے خطاکا ہوجاناتو بعید نہیں مگر خطا کی بخشش طلب کرتا رہے اور گناہ کو پیشہ نہ بنالے تو استغفار کرنے والوں اور توبہ کرنے والوں کو اللہ دنیا کی زندگی میں بھی بہترین موقع اور رزق حسن عطافرماتے ہیں یعنی ایسے حالات عطافرماتے ہیں جن سے انھیں راحت و سکون نصیب ہو رزق حسن سے مفسرین کرام کے نزدیک وہ رزق ہے جو سکون و اطمینان بھی عطاکرے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی کے لئے ہے لہٰذاتاجین حیات نصیب ہوگا اور پھر موت اس سے محروم نہ کردے گی بلکہ ہر نیکی کرنے والا اپنے عمل کا بہترین اجرپائے گا یعنی استغفار اور توبہ گناہ سے بچنے اور نیکی پر عمل پیرا ہونے سے دنیا کی بہترین زندگی نصیب ہوتی ہے اور آخرت کے بہترین انعامات ۔ ساتھ یہ بھی فرمادیجئے کہ اگر تم لوگ روگردانی کروگے اور استغفار کی بجائے گناہ کا راستہ پسند کروگے تو مجھے ڈر ہے کہ تم روز قیامت جو بڑا اور اہم دن ہوگا گرفتار عذاب ہوجاؤکہ مسلسل گناہ انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے اور کفرہمیشہ کے عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہے اس لئے تمہیں اور تو کوئی راستہ نہیں مل سکتا لہٰذا ہر حال واپس اللہ کے حضور ہی جانا ہے اور وہ ہرچیز پہ قادر ہے کوئی شے اس کے احکام کے راستے کو روکنے کی سکت نہیں رکھتی۔ فلسفہ گناہ فرمایا سن اے حبیب ! یہ بدنصیب تیری اس بہترین خیرخواہی پر بھی تیرے دشمن ہو رہے ہیں اور جو بعض وعنادان کے سینوں میں بھرا ہے اس پر مختلف پردے ڈال کرچھپانے کی کوشش کرتے ہیں یہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ سے کیا چھپ سکتا ہے وہ تو پوشیدہ اور ظاہرسب کو جانتا ہے اور دلوں کے بھید اس کے علم میں موجود ہیں ۔ یہاں گناہ کا فلسفہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت میں کمی کو بتایا گیا ہے اور اگر یہی کمی بڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت تک چلی جائے توکفربن جاتی ہے ۔ ومامن دآبۃ۔ رہی امور دنیا کی مصروفیت اور طلب دنیا میں اللہ کی اطاعت سے گریز تو فرمایا ، یہ محض بدنصیبی ورنہ ہر جاندار کا رزق اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں جسے پیداتو کیا ہو مگر اس کی روزی کا اہتمام نہ فرمایا ہو خواہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ہے ۔ پرندے ہوں یا حیوانات درندے ہوں یا آبی جانور چھوٹے ہوں یا بڑے ہر ایک کی جب تک حیات مستعار مقرر ہے تب تک کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنا ، یہ اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے انسان تو ساری مخلوق میں اس کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے بھلا اس کے رزق کا اہتمام کیسے نہ ہوگا ؟ ہاں ! اپنی نادانی کے باعث یہ اللہ کی اطاعت چھوڑ کرنا جائزذرائع سے حصول زر میں مبتلا ہوکرتباہ ہوجاتا ہے ۔ اگر اطاعت سے باہرقدم نہ رکھتا تو بھی اپنا نصیبہ ضرورحاصل کرلیتا اور اللہ کریم نے ہرجاندارکورزق پہنچانے کا ایسا اہتمام فرمادیا ہے کہ وہ جہاں اور جس حال میں ہوتے ہیں وہ اس کی ضرورتوں اور حاجات کو بھی جانتا ہے بلکہ اس کا علم تو وسیع تر ہے اور یہ سب امور تو لوح محفوظ میں بھی درج ہیں اور ظاہر ہے کہ لوح محفوظ کے علوم کو اپنی تمام تروسعت کے باوجود علوم الٰہی سے تو کوئی نسبت نہیں ۔ بھلاوہ کیسے نہ جانے گا کہ اسی ذات قدیرنے تو ارض وسماکو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اس لئے نہیں کہ وہ ایک آن میں بنا نہیں سکتا تھا اس لئے کہ عالم کے ہر کام میں ایک ترتیب مقرر فرمادی جو انسانی زندگی کے لئے ضروری تھی زمینوں اور آسمانوں کی تخلیق سے بھی پہلے پانی تھا جس پر اس کا تخت موجود تھا ، اس کی سلطنت جاری وساری تھی اور پھر یہ نظام اس نے اسی لئے بنایا کہ تمہیں دیکھے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے یعنی عمل کا مدار محض کثرت تعداد پر نہیں بلکہ امتحان حسن عمل کا ہے کہ کون کس قدرخلوص اور محبت سے کوئی کام کرتا ہے اور یہ ایک دلی کیفیت ہے جسے احسان فرمایا گیا ہے کہ دل کی گہرائی سے اللہ کی اطاعت اور عبادت کی جائے ۔ آپ جب یہ خبردیتے ہیں کہ لوگو ! تمہیں موت کے بعد زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو کفار کی جہالت دیکھیں وہ کہتے ہیں یہ جادو ہے ۔ بھلا جادوتو دنیا کا مفاد حاصل کرنے کے لئے لوگ اپنا تے ہیں اخروی زندگی اور اس کے حالاتکابروقت بیان اور وہاں کی تباہی سے بچنے کا طریقہ بتانا کی سے جادو ہوسکتا ہے ۔ اور اگر ایک خاص وقت تک انھیں مہلت دی گئی یا موت تک اگر آخرت کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر واقعی عذاب ہونے ہیں تو ہوتے کیوں نہیں ؟ انھیں کس نے روک رکھا ہے ؟ فرمادیجئے کہ خوب جان لو ! جب عذاب کا وقت آجائے گا تو پھر اسے واقع ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور وہ یقینا آئے گا اور یہ جو کفار مذاق اڑاتے ہیں انھیں اس کا مزہ چکھنا پڑے گا اور ان کا مذاق ہی ان کے گلے میں مصیبت بن کر پڑے گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 احکمت (مضبوط کی گئی ہے) فصلت (کھول کھول کر بیان کی گئی) الاتعبدوا (یہ کہ تم عبادت نہ کرو گے) نذیر (برے انجام سے ڈرانے والا) بشیر (اچھے اعمال پر خوش خبری دینے والا) استغفروا (تم گناہوں کی معافی مانگو) تو بوا (تم توبہ کرو، توجہ کرو) یمتع (وہ سامان (زندگی) دے گا مسمی (مقرر ، متعین) یوت (وہ دے گا) ذی فضل (فضل والا، زیادہ کام کرنے والا) اخاف (میں ڈرتا ہوں) تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 سورئہ ھود کی ان چار آیات میں سمندر کو کو زے میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان آیات کی مختصر تشریح ملاحظہ کر لیجیے۔ 1) آلر اس سورت کا آغاز حروف مقطعات سے کیا گیا ہے۔ یعنی جن حروف کے معنی اور مراد کا علم اللہ رب العزت ہی کو ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے معانی اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیئے ہوں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے معافی نہیں بتائے۔ صحابہ کرام نے بھی ان حروف کے معانی نہیں پوچھے لہٰذا اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ان کے معنی اور مراد کیا ہیں۔ اس سے پہلے سورة بقرہ وغیرہ میں تفصیل سے بتا دیا گیا ہے۔ ان معلومات کی ذہن میں تازہ کرنے کے لئے اتنا سمجھل یجیے کہ حروف مقطعات قرآن کریم کی انتسل سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ کہیں یہ حروف ایک حرف ہیں کہیں دو تین، چار اور پانچ کا مجموعہ ہیں۔ بہرحال پانچ حروف سے زیادہ کا مجموعہ نہیں ہے۔ 2) کتاب احکمت ایتہ یعنی ان قرآنی آیات کو اللہ تعالیٰ نے نہایت مستحکم ، مضبوط جچی تلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا ہے۔ دنیا کے حالات کسی بھی رخ پر جائیں۔ کوئی بھی کروٹ لیں کائنات میں کتنی ہی بڑی سے بڑی تبدیلی آجائے۔ علم و تحقیق میں جتنی بھی ترقی ہوجائے لیکن قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں اور حقائق میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہمارا دور کمپیوٹر اور سائنسی ترقی کا دور ہے۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کمپیوٹر اور سائنس جنتی بھی ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں وہ ہر دن اسلام کیا صولوں کی سچائی کو کھولتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان سائنسی ترقیات سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی فکر تو ان مذہبوں کو ہونی چاہئے جن کی بنیاد مستحکم اور مضبوط سچائیوں پر نہیں ہے لیکن جس قرآن کریم کی بنیاد ان مستحکم بنیادوں پر ہے جو اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں تو انسان کے علم و تحقیق کو جوان ہونے دیجئے پھر دنیا کی ہر قوم قرآن کی سچائیوں کو ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ 3) لم فصلت من لدن حکمک خبیر ترجمہ : پھر ان آیات کو ایک حکمت اور خبر رکھنے والی ذات نے صاف صاف اور کھول کر بیان کردیا ہے۔ قرآن کریم کی ہزاروں خصوصیات میں سے ایک سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آیات اس قدر واضح اور کھلی ہوئی ہیں کہ جن میں گہرائی کے باوجود کوئی منطقی اور فلسفیانہ انداز نہیں ہے بلکہ اس قدر سادہ اور صاف صاف باتیں بتائی گئی ہیں جن کو ہر شخص نہایت آسانی اور سہولت سے سمجھ سکتا ہے اور ان کو ان آیات پر عمل کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ ایک تو واضح اور کھلی ہوئی آیات ہیں اور پھر اس ذات کی طرف سے ان آیات کو نازل کیا گیا ہے جس کی نگاہ سے کائنتا کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ وہی ذات ہر طرح کی حکمت و مصلحت سے بخوبی واقف ہے۔ 4) الا تعبدوا الا اللہ ترجمہ :- تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ اس حکیم وخبیر ذات کا پہلا حکم ی ہے کہ اللہ ہی سب کا پروردگار ہے وہی خلاق ومالک ہے اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کی جائے، کیونکہ انسان جب اس در سے اپنی پیشانی کو ہٹا کر کسی بھی غیر اللہ کے در پر اپنی ” جبین نیاز “ کو جھکاتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔ وہی معبود ہے اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے لہٰذا انسان کی عزت و عظمت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ سوائے اللہ کے کسی کے سامنے سر نیاز کو نہ جھکائے ورنہ اس کو ہر در پر اپنی پیشانی جھکانی پڑے گی۔ کسی شاعر نے اچھی بات کہی ہے۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات تمام انبیاء کرام صرف اسی پغیام کو لے کر آئے ہیں کہ انسان کی تباہی اس دن سے شروع ہوجاتی ہے جب وہ اللہ کی ذات صفات میں شرک کرتے ہوئے اپنی پیشانی کو دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے ۔ قرآن کریم میں تمام انبیاء کرام کی زبان سے یہی کہلوایا گیا ہے کہ اے لوگو ! تم ایک اللہ کو چھوڑ کر کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بات بھی اپنی اپنی قوم کو بتا دی تھی کہ اگر تم اللہ کے ساتھ شرک و کفر سے باز نہ آئے تو اللہ تمہاری بستیوں کو اور تمہاری ترقیات کو تہس نہس کر دے گا کیونکہ وہ ہر گناہ کو معاف کردیتا ہے لیکن شرک بہت بڑا گناہ ہے یہ وہ ظلم عظیم ہے جس کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی پغیام دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کے ہر انداز سے توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی وہی کامیاب و بامراد ہوئے۔ دنیا بھی ان کو ملی اور آخرت بھی ان کا مقدر بن گئی لیکن جنہوں نے کفر و شرک کو اپنا دین و ایمان بنا لیا اللہ تعالیٰ نے ان سے سب کچھ چھین کر دنیا اور آخرت کی بربادی ان کے لئے مقرر فرما دی۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت سارے عرب میں غیر اللہ کی عبادت و بندگی کا یہ حال تھا کہ بیت اللہ میں تین سو ساٹھ پتھروں کے بےجان بت رکھے ہوئے تھے جو ان کی مختلف تمناؤں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ فرمایا کہ اے مکہ کے لوگو ! اللہ کے گھر میں غیر اللہ کے بت۔ یہ کیا تماشا ہے۔ اس کو بیت اللہ بھی کہتے ہو اور غیروں سے مانگتے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ اللہ ہی سب کچھ ہے لیکن جب تک یہ بت اس کی بارگاہ میں ہماری سفارش نہ کردیں اس وقت تک اللہ ہماری بات نہیں سن سکتا۔ ان کا یہ بھی جواب ہوتا تھا کہ ہم ہی کیا ہمارے باپ داداے یہی کرتے آئے ہیں جن بارگاہوں اور آستانوں سے ہمارے باپ دادا سب کچھ حاصل کرتے رہے ہیں وہی ہمارے حاجت روا ہیں۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے۔ اگر تم ان سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ تمہارا انجام بھی وہی کرے گا جو تم سے پہلی قوموں کا کرچکا ہے۔ بہرحال سعادت مند روحیں آپ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ان لوگوں نے اللہ سے معافی مانگی اور وہ صحابیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگئے وہ ایسی عظمتوں کے پیکر بن گئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کی عظمت پر ناز کرتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہیں کیا انہوں نے اپنی دنیا میں خراب کرلی اور آخرت بھی۔ (5) اننی لکم منہ نذیر و بشیر ترجمہ،- بیشک میں تو اس کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا با کر بھیجا گیا ہوں۔ آیت کے اس ٹکڑے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سب سے یہ کہہ دیجئے کہ میں تو اس اللہ کی طرف سے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں جو اس ساری کائنات کا مالک ہے۔ میرا کام تو یہ ہے کہ میں تمہیں یہ بات بتا دوں کہ اگر تم نے اللہ کو ایک نہ مانا اور اس کی عبادت و بندگی سے منہ موڑا تو تمہارے ان اعمال کا اثر یہ ہوگا کہ تمہاری دنیا اور آخرت سب کچھ برباد ہو کر رہ جائے گی اور اگر تم نے اللہ کی عبادت و بندگی اختیار کرلی اور ہر طرح کے کفر و شرک سے توبہ کرلی تو دنیا بھی تمہاری ہے اور آخرت کا عیش و آرام بھی تمہیں دیا جائے گا۔ 6) وان استغفرواربکم ترجمہ :- تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگ لو۔ درحقیقت انسان کی کامیابی اس دن شروع ہوجاتی ہے جس دن اس کے اندر یہ احساس زندہ ہوجاتا ہے کہ وہ گناہوں کی جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے وہ اس کو تباہ و برباد کر دے گی۔ اس احساس کے ساتھ جب وہ اپنے پروردگار سے استغفار کرتا ہے۔ اپنے گناہوں سے معافی مانگتا ہے اور یہ طے کرلیتا ہے کہ میں اب ان گناہوں میں ملوث نہ ہوں گا تو اس سچی توبہ اور استغفار کے نتیجے میں اس کی دونوں جہانوں کی کامیابی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو انسان کا احساس ندامت بہت پسند ہے۔ جب وہ اس طرف قدم بڑھاتا ہے تو اللہ اس کو اپنی رحمت کے دامن میں پناہ عطا فرما دیتا ہے۔ 7) ثم تو بوالیہ ترجمہ،- پھر اسی کی طرف متوجہ رہو۔ جس کی طرف لوٹ کرجاتا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں پلٹ جانا یعنی جب انسان اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر پوری طرح اللہ کا ہو رہتا ہے تو پھر وہ اللہ کی تمام رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جب کوئی انسان اللہ سے توبہ کرتا ہے اسی کے سامنے جھکا رہتا ہے تو اللہ اس کے گناہوں کو اسی طرح معاف فرما دیتا ہے جیسے یہ آج ہی ” ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ “ آمین 8) یمتعکم متاعاً حسنا الی اجل مسمی و یوت کل ذی فضل فضلہ ترجمہ :- پھر وہ تمہیں ایک مقرر اور معین مدت تک بہترین سامان زندگی اور اس پر اپنا مزید فضل و کرم عطا فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس سے ماگنتا ہے تو پھر دنیا کی طلب اس کا مقصد نہیں ہوتی بلکہ آخرت کی کامیابی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کا نظام یہ ہے کہ وہ آخرت کے ساتھ ساتھ اس کی دنیا کو بھی اچھا کردیتا ہے اور یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ سکون قلب کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔ اگر وہ ایک طرف قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت کو ان کے پاؤں کی دھول بنا دیتا ہے تو دوسری طرف ان کو ایسے اطمینان قلب کی دولت عطا کردیتا ہے جو ان کو دنیا کے ہزاروں غموں سے اور لالچوں سے بےنیاز کردیتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس دولت کی کثرت ہو لیکن نہ تو اس کو سکون قلب ہو نہ بیوی بچوں کی خوشیاں نصیب ہوں تو وہ دولت کے ڈھیر اس کے کس کام کے۔ انسان ساری زندگی سکون حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرتا رہتا ہے اور وہی اس کو حاصل نہیں ہوتا تو پھر اس دولت سے تو وہ غربت اچھی جس میں کم از کم ذہنی فکری اور قلبی سکون تو نصیب ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بالکل وضاحت سے فرما دیا گیا ہے کہ سکون قلب صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد میں ہے اور کسی چیز میں سکون نہیں ہے۔ 9) وان تولوا فانی اخاف علیکم عذاب یوم کبیر ترجمہ :- اور اگر تم پلٹ گئے تو مجھے تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ و خوف ہے۔ یعنی اگر تم پھر اسی روشن زندگی پر پلٹ گئے تو پھر قیامت کے دن اس عذاب سے بچنانا ممکن ہوگا جو ایک بہت بڑا عذاب ثابت ہوگا۔ 10) الی اللہ مرجعکم دھو علی کل شئی قدیر ترجمہ،- اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہی وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یعنی انسان کی دارین کی کامیابی صرف اللہ کی طرف لوٹنے میں ہے۔ وہی ہر چیز پر پوری پوری قدرت کا ملہ رکھتا ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے اس رحیم و کریم اللہ کی طرف پلٹ جائے جو اس کا خالق ومالک ہے اور ہر نعمت دینے پر مکمل قدرت و طاقت رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة یونس اور ہود کا باہمی ربط (تفسیر): سورة یونس کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی حاکم ہے اور وہ بہترین حکم دینے والا ہے سورة ہود کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے احکام محکم اور تفصیلی ہیں۔ اآر۔ حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے بارے میں سورة البقرۃ کی ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے۔ کہ ان کا حقیقی معنی اور مفہوم۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تفصیل کے لیے سورة البقرۃ کی ابتدملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس کے احکام محکم ہیں جو پہلی کتابوں کی طرح منسوخ نہیں ہوسکتے۔ اس میں جامعیت کے ساتھ تفصیلات بھی ہیں تاکہ ہر دور کے تقاضے پورے ہوں اور لوگوں کو پیش آمدہ مسائل کا حل معلوم ہوسکے۔ ایسا اس لیے ہے کہ قرآن مجید کے احکام اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ہیں جو لوگوں کے جذبات اور حالات کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور اس کے ہر حکم میں حکمت موجود ہوتی ہے جو سچائی، دانائی اور علم کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ )[ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی قعر مذلت میں گرادے گا۔ “ (ےَقُوْلُ الرَّبُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَنْ شَغَلَہٗ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَسُؤَالِیْ أعْطَےْتُہٗ أفْضَلَ مَا أَعْطَیَ السَّاءِلِےْنَ ) [ رواہ الترمذی، باب فضائل القرآن ] ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے قرآن پاک کی تلاوت نے میرے اذکار اور مانگنے سے مصروف رکھا میں اسے سو ال کرنے والوں سے زیا دہ عطاکرونگا۔ “ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات عظمت وکبریائی اور خیرو برکت کے لحاظ سے یکتا اور تنہا ہے۔ ذکر واذ کار میں یہی حیثیت تلاوت قرآن مجید کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کو زندگی کا رہنما بنانے سے دنیا و آخرت کے مسائل اور دکھوں کا مداوا ہونے کی ضمانت مل جاتی ہے۔ اس کتاب مقدس سے انحراف اور بےاعتنائی پریشانیوں اور مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھنا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب عظیم کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کو عزت و عظمت سے نوازتا رہے گا اور اس کے چھوڑنے کی وجہ سے میری امت دنیا میں ہی ذلیل و خوار ہوجائے گی۔ مسائل ١۔ گمراہی اختیار کرنے والے کو گمراہی کا نقصان ہوگا۔ ٢۔ قرآن کریم کی آیات محکم ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق تفصیلات دی گئی ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ حکیم وخبیر کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے چند اوصاف : ١۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں اس میں احکام کی تفصیلات ہیں۔ (ہود : ١) ٢۔ قرآن مجید لا ریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے، رحمت اور نصیحت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کا ذریعہ ہے۔ (ابراہیم : ١) ٨۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث نصیحت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) ١٠۔ ہم نے ہی اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 99 ایک نظر میں یہ پہلا سبق ایک مقدمے کی شکل میں ہے اس کے بعد قصص کا حصہ اور آخر میں نتائج اور تبصرے تبصرے ہیں۔ اس تمہیدی حصے میں وہ تمام اساسی باتیں کہی گئیں ہیں جو اسلامی نظریہ حیات کی اساسی باتیں ہیں اور بنیادی حقائق ہیں۔ یعنی اطاعت اور بندگی صرف اللہ وحدلہ لا شریک کی ہوگی اور دین صرف اللہ کا ہوگا۔ اور یہ اعتقاد رکھنا لازم ہوگا کہ ایک دن ہم نے جزاء و سزا اور حساب و کتاب کے لیے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور یہ حساب و کتاب دنیا میں اچھے اور برے اعمال کی اساس پر ہوگا۔ کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اس ابتدائیہ میں اللہ کی معرفت اور اللہ کی صفات کو اس زاویہ سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات وصفات اس کائنات میں کس قدر موثر ہیں۔ نیز اس سبق میں ذات باری کی حقیقت اور اس کی حکمرانی ، انسان کی جانب سے اس کی بندگی اور اطاعت اور اس کے تقاضوں سے مومنین کو آگاہ کیا گیا ہے۔ اور انسان کی بندگی کے تقاضے یہ ہیں کہ جس طرح دنیا میں انسان اس کا بندہ ہوگا۔ اسی طرح آخرت میں بھی انسان اس کا بندہ ہوگا۔ اس مقدمے میں قیام رسالت اور حقیقت رسول پر بھی بحث ہے۔ اور رسول کو مخاطب کرکے انہیں تسلی دی گئی ہے کہ آپ کی دعوت کے مقابلے میں منکرین جس طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، چیلنج دے رہے ہیں اور بلا وجہ عناد کر رہے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے کہا مکہ میں پوری دعوتی تاریخ میں نبی اکرم کے لیے یہ مشکل ترین دور تھا اور مشرکین قرآن کو کلام الہی تسلیم نہ کرتے تھے۔ اس کے جواب میں مشرکین سے کہا گیا کہ اگر وہ اس قرآن کو کلام الہی تسلیم نہیں کرتے تو وہ اس جیسی دس سورتیں تو پیش کردیں ، جیسا کہ ان کا زعم تھا۔ اس طرح حضور کو تسلی دی گئی کہ وہ ہرگز اس قرآن جیسا کلام نہیں پیش کرسکتے۔ اس طرح ان لوگوں کے لیے یہ چیلنج باعث تسلی تھا ، جو ایمان لا چکے تھے۔ اس تسلی کے ساتھ منکرین حق کو دو ٹوک دھمکی بھی دی گئی ہے کہ وہ جس عذاب کے آجانے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں وہ بہت ہی دردناک ہے اور ان کا انتظار کر رہا ہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ جب دنیا میں ان پر کوئی معمولی تکلیف آجاتی ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ حالانکہ آخرت کے عذاب کے مقابلے میں دنیا کی ہر تکلیف معمولی ہے۔ اس دھمکی کو مناظر قیامت کے ایک منظر کی صورت میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مشرکین اور مکذبین اور ان کے شرکاء اور سفارشی قیامت کے دن ان کو کسی طرح بھی عذاب سے نہ بچا سکیں گے۔ جبکہ اہل ایمان جنتوں میں ہوں گے اور انعامات و اکرامات ان کا حصہ ہوگا۔ یہ منطر قرآن کے مخصوص انداز کے مطابق نہایت ہی مجسم اور مصور ہے اور چلتا پھرتا نظر آتا ہے اور قرآن کہتا ہے : ) مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأعْمَى وَالأصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلا أَفَلا تَذَكَّرُونَ (٢٤): (اور ان دو فریقوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک آدمی اندھا اور بہرا ہوا۔ دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا ہو ، کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم اس بات سے نصیحت نہیں پکڑتے ؟ " درس نمبر 99 تشریح آیات 1 تا 24: تفسیر آیات 1 تا 4: ان آیات میں درج ذیل حقائق بیان ہوئے جو دین اسلام کے بنیادی حقائق ہیں : ٭۔ وحی اور رسالت کا ثبوت ٭۔ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کا اثبات ٭۔ جو لوگ اس وحی اور ہدایت کی اتباع کریں گے دنیا اور آخرت میں ان کے لیے انعام ہوگا بشرطیکہ وہ اس ہدایت کو بطور نظام زندگی اپنائی۔ ٭۔ وہ لوگ جو اسے جھٹلائیں گے وہ مستوجب سزا ہوں گے۔ چاہے کوئی مطیع فرمان ہو یا منکر ہو ، اسے ایک دن اللہ کے سامن کھڑا ہونا ہوگا۔ ٭۔ اللہ کی قدرت اور سلطنت غیر محدود ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ال ر ، یہ مبتداء ہے اور اس کی خبر آگے پورا جملہ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب ایسے ہی حروف سے بنی ہے جو لوگوں کی دسترس میں ہیں اور یہ لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں ، اگر ان سے کہا جائے کہ ان حروف سے تم ایسی ہی کتاب بناؤ تو یہ عاجز رہ جاتے ہیں۔ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : " فرمان ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوتی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے " اس کی آیات محکم ہیں یعنی وہ مضبوط ترکیب رکھتی ہیں ، گہرا مفہوم رکھتی ہیں ، ان کا ہر حرف اور ہر حکم با مقصد ہے ، ہر مفہوم اور ہر ہدایت مطلوب اور بامقصد ہے۔ اس کا ہر اشارہ ایک ٹارگٹ کی طرف ہے اور یہ نہایت ہی ہم آہنگ اور مربوط ہیں ، تمام آیات کا نظر اور تصور ایک ہے۔ ان آیات کی پھر تفصیلات ہیں اور موضوع اور مطلب کے مطابق وہ منقسم ہیں اور ان کی تبویب کی گئی ہے اور ہر آیت کو اس کے لیے موزوں جگہ پر رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان آیات کو اس طرح مستحکم ترکیب اور نہایت ہی بلیغ مفہوم میں کس نے مرتب فرمایا ہے۔ تو یاد رہے کہ اللہ جل شانہ نے یہ کام خود کیا ہے ، آن آایت کی تشکیل و تسوید میں رسول اللہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ من لدن حکیم خبیر ہیں یہ کتاب اللہ کے احکام بتاتی ہے اور ان کی ضروری تفصیلات بھی دیتی ہے۔ اور یہ اسی طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور جس طرح ہمارے سامنے ہے۔ اس میں کوئی تغیر و تبدل کسی جگہ نہیں ہوا ہے۔ اور ان آیات میں کیا بنیادی نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تعلیمات کی اساس یہ کلمہ ہے۔ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ یعنی نظام زندگی اللہ کا ہو ، عبادت اللہ کی ہو اور اطاعت و حکمرانی اللہ کی ہو صرف اور صرف اللہ کی۔ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ ۔ (میں اس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی) یہ تصور رسالت ہے ہے اور رسالت کا بڑا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے انعام کی خوشخبری دے اور برے انجام سے ڈرائے۔ وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ (اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ) یعنی شرک و کفر اور نافرمانی کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹ آؤ اور توحید اور اسلامی نظام زندگی کو قبول کرلو۔ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ (تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا) یہ توبہ و استغفار کرنے والوں کے لیے جزا ہے۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ (لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ڈراوا ہے جو دعوت سے منہ موڑتے ہیں۔ الی اللہ مرجعکم (تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے) اس میں اس عقیدے کا اظہار ہے کہ آخر کار سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ وَھُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے) اور اس میں اللہ کی قدرت مطلقہ کا ذکر ہے۔ اور یہ کہ وہ ہر کام پر قادر ہے۔ یہ ہیں کتاب اللہ کے مقاصد اور اس کی آیات انہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ ہیں وہ بنیادی عقائد اور تصورات جن کے اوپر اسلامی نظام حیات کی عمارت کو اٹھایا گیا ہے۔ یہ بات ہر شخص کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر کوئی دین اور کوئی نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا اور کوئی تہذیب اور کلچر دنیا میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان اساسی سوالات کا جواب نہ دے۔ دنیا میں ہر فلسفے اور نظام فکر کو ان سوالات کا جواب دینا لازمی ہے۔ یہ عقیدہ کہ دنیا میں ہر قسم کی بندگی صرف اللہ وحدہ کی ہوگی ، ان تمام راستوں کو بند کردیتا ہے جن پر انسان جا کر انتشار کا شکار ہوتا ہے اور وہ نظریاتی اور فکری بےراہ روی میں مبتلا ہوتا ہے۔ انسانیت کو خام خیالی ، وہم پرستی اور کھوٹے نظریات اور جھوٹے خداؤں کی بندگی اور غلامی سے صرف اس صورت میں نجات دلائی جاسکتی ہے کہ اسے اللہ وحدہ کا غلام بنا دیا جائے۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ اور چیزیں ہم نے تجویز کر رکھی ہیں۔ جن کو ہم اللہ اور بندے کے درمیان رابطے کا مقام دیتے ہیں ، اور یہ لوگ روحانی طور پر لوگوں کو بد راہ کرتے ہیں ، کوئی لوگ اور ادارے ایسے ہیں جن کو ہم نے حاکم اور مقتدر اعلی تصور کرلیا ہے اور یہ لوگ انسانوں کی دنیاوی زندگی کو اپنی منشاء کے مطابق چلاتے ہیں۔ اور اللہ کی مختص ترین خصوصیات یعنی حاکمیت اور اقتدار اعلی کے اختیارات وہ خود اپنے لیے حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگوں کو ان کھوٹے اور جھوٹے خداؤں کا غلام بناتے ہیں جو شرک جلی ہے۔ دنیا میں جب تک عقیدہ توحید کو اس وسیع مفہوم میں نکھار کر قائم نہ کیا جائے گا اس وقت تک کوئی ایسا اجتماعی ، سیاسی ، اقتصادی ، اخلاقی ، قومی اور بین الاقوامی نظام قائم نہیں ہوسکتا جس میں انسان بعض دوسرے انسانوں کی خواہشات ، ان کی تاویلات اور ذاتی مقاصد کا آلہ کار بننے سے نجات پا سکے۔ ماسوائے قیام عقیدہ توحید کے ، انسان وہ آزادی اور شرف حاصل نہیں کرسکتا جو اللہ نے انسان کے لیے تجویز کیا ہے اور نہ انسان ذلت ، خوف اور بےچینی سے نجات پا سکتا ہے جس سے وہ ہمیشہ دوچار رہتا ہے عقیدہ توحید بھی صرف ان معنوں میں کہ اللہ کو رب ، معبود ، تکوینی حاکم و مدبر اور تشریعی حاکم و قانون ساز تسلیم کیا جائے اور اس دائرہ اختیار سے انسان کو بالکل بےدخل کردیا جائے اور انسان کا کوئی عمل و دخل ان امور میں نہ رہے ، صرف اس صورت میں مکمل عقیدہ توحید قائم ہوسکتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کے درمیان جو کمشک رہی ہے اور حق اور طاغوت کے درمیان تاریخی معرکہ آرائی اور مقابلہ اس موضوع پر نہیں رہا ہے کہ اللہ اس کائنات کا الہ اور رب ہے ، اور اس کائنات کو وہی اپنی تدبیر اور اپنے تکوینی قوانین کے ساتھ چلا رہا ہے بلکہ یہ معرکہ اور یہ اختلاف اس بات پر تھا کہ رب الناس کون ہو ؟ لوگوں پر نظام اور شریعت کس کی نافذ ہو ؟ اور لوگ کس کی اطاعت کریں اور کس کے احکام خصوصا سیاسی احکام قبول کریں ؟ اس دنیا کی طاغوتی قوتیں اللہ کے اس حق کو غصب کرکے لوگوں کی زندگیوں میں اپنے قوانین و فرامین نافذ کرتی رہیں اور اس طرح لوگوں کو اللہ کی حاکمیت سے نکال کر اپنی حاکمیت کے دائرے میں داخل کرتی رہی ہیں۔ تمام انبیاء تمام رسالتوں اور تمام اسلامی تحریکات کا اہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگوں کو ان طاغوتی قوتوں کے غصب کردہ اختیارات کے دائرے سے نکال کر اللہ کی حکومت ، اللہ کی بادشاہت اور اللہ کی حاکمیت میں داخل کیا جائے۔ اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز بادشاہ ہے۔ لوگوں کی نافرمانی اور سرکشی اس کی حکومت میں پرکاہ کی کمی بھی نہیں کرسکتی اور اگر تمام مخلوقت اس کی بندگی پر متفق ہوجائے اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلے تب بھی اللہ کی مملکت میں پرکاہ کا اضافہ نہیں ہوسکتا لیکن جب لوگ اللہ کے سوا کسی اور ذات یا ادارے کی حاکمیت کو قبول کرلیں تو خود وہ ذلیل و خوار اور غلام ہوجاتے ہیں۔ اور اگر وہ اللہ وحدہ کی سیاسی اور نظریاتی حاکمیت کو قبول کرلیں تو خود ان کے لے یہ بات باعث عز و شرف ہے۔ وہ غلامی کی جگہ آزادی اور پستیوں کی جگہ سربلندی حاصل کرلیتے ہیں کوئی انسان کسی انسان یا غیر انسان کا غلام نہیں رہتا۔ اللہ چونکہ اپنے بندوں کو معزز شرف اور سربلند دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ ان کو یہ عزت اور شرف عطا کریں۔ اور ان کو اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے نجات دیں۔ غرض اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام میں اگر کوئی بھلائی ہے تو وہ خود انسانوں کے لیے ہے اللہ تو تمام جہانوں سے غنی اور مستغنی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کو جس قدر معزز دیکھنا چاہتا ہے ، اور اسے جس سطح تک بلند کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس وقت تک بلند نہیں ہوسکتی جب تک تمام انسان اس بات کا عزم نہ کرلیں کہ وہ اپنے گلوں سے غیر اللہ کی غلامی کا جوا اتار کر پھینکیں گے کیونکہ غیر اللہ کی غلامی کا یہ پٹا انسان کے لیے باعث ذلت ہے ، چاہے اس کی صورت جو بھی ہو۔ دین صرف اللہ کے لیے تب ہوگا جب لوگ صرف اللہ وحدہ کو رب تسلیم کرلیں اور اللہ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ اللہ کا نظام ، اللہ کا دستور اور اللہ کے قوانین و فرامین کو اپنا لیں۔ یہ ہے وہ حقیقت جو اس سورت کے آغاز ہی میں منضبط کی گئی ہے : كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ۔ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ : فرمان ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوتی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ یہ ہے عبادت کا مفہوم جس طرح اسے عرب اچھی طرح سمجھتے تھے جن کی زبان میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اب دوسرا اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ کی اس حاکمیت کو قائم کس طرح کیا جائے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان رسالت کا اقرار کریں ، کیونکہ حاکمیت الہیہ کا یہ نظریہ اور نظام صرف اللہ نے پیش کیا ہے اور رسالت کو تسلیم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول جو کچھ دیتا ہے وہ من عنداللہ دیتا ہے۔ اگر کسی رسول کی تعلیمات کو من عنداللہ تسلیم نہ کیا جائے تو انسانی ضمیر میں ان تعلیمات کا جو تقدس اور احترام ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہتے کیونکہ اگر یہ تعلیمات کسی رسول اللہ کی جانب سے تصور ہوں تو رسول کا کوئی چاہے جس قدر بھی احترام کرے ، ان تعلیمات کی وہ قدر و قیمت انسان کے دل و دماغ میں جگہ نہیں پکڑتی اور نہ انسان چھوٹے بڑے معاملات میں ان تعلیمات کا احترام کرتا ہے جب انسان کے قلب و نظر میں یہ شعور جاگزیں ہوتا ہے کہ یہ تعلیمات اللہ کی طرف سے ہیں تو پھر یہ شعور ہر وقت انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اور انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ شعور ہی ہے جو متقیوں اور اطاعت شعاروں کو صراط مستقیم سے ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتا۔ نیز اقرار بالرسالت کے ذریعے ہی وہ سرچشمہ اور ضابطہ متعین ہوتا ہے جس سے انسان وہ تمام ہدایات اکخذ کرسکتا ہے جن کا تعلق اسلامی نظام اور دین سے ہے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے طاغوتی قوتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ از خود کوئی قانون اور ضابطہ اور نظریہ و عقیدہ گھڑ لیتی ہیں اور پھر کہتی ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے حالانکہ یہ سب کچھ انہوں نے از خود تصنیف کیا ہوتا ہے۔ ہر جاہلیت کی تاریخ یہ ہے کہ کچھ لوگ کھڑے ہوئے ، انہوں نے اپنے جانب سے کوئی قانون اور ضابطہ بنایا ، لوگوں کے لیے اقار اور رسم و رواج وضع کیے اور پھر کہا کہ یہ اللہ کی جانب سے ہیں۔ اللہ کے نام پر یہ انتشار تب ہی ختم ہوسکتا ہے کہ ایک رسول پر ایمان لا کر اس کے اقوال کو من جانب اللہ تسلیم کرلیا جائے۔ یہاں شرک سے استغفار اور توبہ کو اس لیے لایا گیا ہے کہ استغفار اس بات کی دلیل ہے کہ دل کے اندر احساس موجود ہے۔ وہ برائی کے خلاف فعال ہے اور اسے گناہ کا شعور ہے اور رجوع اور لوٹنے کی طرف مائل ہے۔ لیکن احساس و شعور کے ساتھ ساتھ حقیقی توبہ یہ ہے کہ انسان عملاً اس گناہ کو ترک بھی کردے اور برے اعمال کے مقابلے میں اچھے کاموں پر عمل پیرا بھی ہوجائے۔ ترک معاصی اور عمل صالح کے بغیر توبہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ توبہ کے لیے دو عملی علامات یہ ہیں۔ یہ دونوں شرطیں توبہ کی ترجمان ہوتی ہیں اور توبہ کا عملی وجود صرف ان دو صورتوں میں متحقق یہ ہوتا ہے اور صرف ایسی ہی توبہ کے بعد مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی یہ گمان رکھے کہ وہ شرک سے تائب ہوگیا اور اسلام میں داخل ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے بعد وہ عملاً اللہ کی اطاعت نہیں کرتا ، اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتا اور زندگی کی اقدار اور ترجیحات اسلام سے اخذ نہیں کرتا تو اس قسم کے زعم اور گمان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس اقرار کی تکذیب اس کا عمل کر رہا ہے کہ عملاً وہ طاغوتی قوتوں نظام کو قبول کرتا ہے۔ رسالت کا بنیادی ذریعہ دو چیزوں سے مرکب ہے۔ بشارت و نذارت ، نیکوں کے لیے اچھا اجر اور بروں کے لیے برا انجام دکھانا ، رسالت کا بنیادی کام ہے۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور انسانی نفسیات سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے ، اس لیے برے انجام سے ڈرانا اور اچھے انجام کی خوشخبری دینا انسان پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے اور اس کے اندر داعیہ عمل پیدا کرتا ہے۔ آخرت کی جواب دہی کا عقیدہ بھی ضروری اور حق ہے اور اس کے نتیجے میں اس زندگی کے بارے میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک بامقصد اور حکیمانہ زندگی ہے اور وہ بھلائی جس کی طرف تمام رسول دعوت دیتے چلے آئے ہیں وہ زندگی کا اصل مقصد اور مدعا ہے۔ لہذا انسان کو دعوت رسل کے قبول کرنے کا اجر ضرور ملے گا ، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر اس دنیا میں اسے کوئی صلہ نہ ملا تو آخرت میں ضرور ملے گا۔ جہاں اس زندگی کی تکمیل ہوگی۔ وہ لوگ جو اسلامی نظام سے کج روی اختیار کرتے ہیں اور اپنی زندگیون میں بےراہ روی اختیار کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو عذاب کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ فطرت سلیمہ سیدھی راہ پر چل نکلتی ہے اور وہ بےراہ روی اختیار نہیں کرتی۔ اور اگر وہ کبھی بےراہ روی پر چل نکلے تو توبہ کا دروازہ کھلا ہوتا ہے ، اس لیے یہ نہیں ہوتا کہ وہ نافرمانی میں ڈوب ہی جائے۔ توجہ اور رجوع الی اللہ کے نتیجے ہی میں انسان کی زندگی کا سدھار ہے۔ اور زندگی کا رخ خیر اور بھلائی کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ عقیدہ آخرت بذات خود آخرت کے اجر کا باعث نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ یہ عقیدہ انسان کو اس دنیا میں عمل پر آمادہ کرتا ہے اور اسے صالح اور پاکبازی کی زندگی پر قائم کرتا ہے۔ اور اس طرح انسان وہ زندگی حاسل کرلیتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ یہ طرز زندگی انسان کے لائق ہے اور اسی کے ذریعے انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوسکتا ہے۔ اسلام نے انسان کو جو تصور دیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے بطور خاص بنایا ہے۔ پھر اس کے اندر اپنی خاص روح پھونکی ہے اور اسے اپنی تمام مخلوقات پر ترجیح دی ہے۔ اور اس طرح اسے حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھایا ہے تاکہ اس کی زندگی کے مقاصد حیوانوں سے بلند ہوسکیں اور اس کے میلانات اور مقاصد محض حیوانی میلانات اور مقاصد سے ذرا برتر ہوجائیں۔ یہ وہ غرض وغایت ہے جس کی وجہ سے اس کتاب محکم میں عقیدہ توحید ، اسلامی نظام کے قیام و اطاعت ، عقیدہ رسالت اور اتباع رسول کے بعد یہ دعوت دی گئی ہے کہ لوگو ، شرک سے توبہ کرو اور اللہ کی طرف لوٹ آؤ یہی عمل صالح اور پاکیزہ زندگی کے قیام کی سبیل ہے۔ عمل صالح کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان کوئی اچھا عمل کرے اور بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر اس کرہ ارض پر اصلاح کے ہر مفہوم کے مطابق جدوجہد کی جائے ، اس زمین کی آبادی اور تعمیر کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جب کوئی قوم اصلاح کے اس مقام پر فائز ہوجائے تو پھر اسے یہ انعام دیا جاتا ہے۔ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ : " تو ایک مدت خاص تک تم کو سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا " اس دنیا میں متاع حسن کبھی تو نوعیت کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی کمیت کے اعتبار سے۔ اور آخرت میں تو نوعیت اور کمیت دونوں کے اعتبار سے ہوگا اور اس قدر ہوگا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ البتہ ہم چاہتے ہیں کہ اس دنیا کے متاع حسن پر کچھ بات کریں۔ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے پاکباز اور نیکوکار اور توبہ و استغفار کرنے والے ، اس دنیاوی زندگی میں بڑی تنگی اور ترشی سے جسم اور روح کا رشتہ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں ، حالانکہ ان آیات میں اللہ کی جانب سے متاع حسن کا صریح وعدہ ہے۔ یہ سوال ہم بیشمار لوگوں کی زبان سے سنتے ہیں۔ اس آیت میں جو معنویت پائی جاتی ہے۔ اسے سجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ زندگی کے ظاہری حالات سے ہٹ کر اور وسیع اور گہرے مفہوم کے مطابق سمجھنے کی سعی کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی ایک صالح نظام رائج کیا جائے ، جو ایمان باللہ کی اساس پر تشکیل پایا ہو ، جس میں اطاعت فرمانبرداری صرف اللہ کی ہو ، صرف اللہ کو اس میں شارع اور قانون ساز تسلیم کیا گیا ہو ، اور اس میں لوگ اچھے اعمال اور کردار کے مالک ہوں ، تو لامحالہ وہ سوسائٹی ترقی یافتہ ہوجاتی ہے ، اس میں زندگی کی سہولیات وافر ہوجاتی ہیں ، اور وہ سوسائٹی عمومی طور پر پاک و صاف زندگی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ ایسی سوسائٹی میں ہر فرد کو اس کی جدوجہد کے مطابق اجرت ملتی ہے۔ اس سوسائٹی کے افراد مطمئن ہوتے ہیں اور انہیں خوشحالی نصیب ہوجاتی ہے اور اس کے مقابلے میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی سوسائٹی میں صالح اور پاک طینت لوگ بڑی مشکل سے وقت گزار رہے ہیں اور وہ سازوسامان اور وسائل رزق کے اعتبار سے محروم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں تو لازماً صورت حال یہ ہوگی کہ اس سوسائٹی کی عمارت ایمان باللہ پر تعمیر نہ ہوگی اور اس کا نظام عادلانہ نہ ہوگا اور اس پوری سوسائٹی میں کسی بھی شخص کو اس کی جدوجہد کے مطابق معاوضہ نہ ملتا ہوگا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صالح اور نیکوکار لوگ اگر مالی وسائل اور رزق کے اعتبار سے تنگ و ترش زندگی بسر کر رہے ہوں بھی ، اور ان پر موجود سوسائٹی کی طرف سے مظالم بھی ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کا ہر طرف سے پیچھا کیا جا رہا ہو ، جیسا کہ مکہ کے مشرکین اس سورت کے نزول کے وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت پر مظالم ڈھا رہے تھے ، اور جس طرح ہر جاہلیت اسلام کے علم بردار داعیوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی سلوک کرتی رہتی ہے ، تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بات محض خیال یا دعوی ہی نہیں ہے ، کیونکہ تعلق باللہ ، اطمینان قلب اور آخرت کی جانب سے اطمینان اور اللہ کے فضل و کرم کی امید بھی درحقیقت بہتر سازوسامان ہے۔ اور جن لوگوں کی نظریں حسی اور مادی زندگی سے ذرا اونچی ہوتی ہیں۔ یہ روحانی دولت ان کے لیے زیادہ متاع حسن ہوتی ہے۔ ہم یہ بات اس لیے نہیں کہتے کہ جن لوگوں کو ان کی محنت کے مطابق اجرت اور متاع حسن عادلانہ اور منصفانہ طور پر نہیں ملتا وہ متاع حسن کی جدوجہد ترک کردیں۔ کیونکہ اسلام کبھی ظلم پر راضی نہیں ہوتا۔ اور اس قسم کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک مومن کبھی خاموش نہیں ہوسکتا ، ایک مومن فرد اور ایک مومن جماعت سے اسلام تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایسے حالات کو بدلنے کی سعی اور جدوجہد جاری رکھیں تاکہ نیکو کار اور صالح کارکن اپنی محنت کے مطابق متاع حسن حاصل کرسکیں۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک صالح فرد کو اپنے حقوق کا احساس کرنا چاہیے اور یہ صورت قبول نہ کرنا چاہیے کہ وہ عمل تو کرتا رہے ، محنت کرتا رہے لیکن اسے اس کا بدلہ اور مزدوری نہ ملے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں جن میں نیک اور خدا ترس لوگوں کو ان کے پورے پورے حقوق ملیں۔ وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ۔ (اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا ہو) ۔ بعض مفسرین نے اسے آخرت کے فضل سے مختص کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہے۔ جس طرح ہم نے المتاع الحسن کی تفسیر کی ہے۔ ہر صاحب فضیلت اپنی فضیلت کا اظہار کرتے ہی جزا پا لیتا ہے۔ اسے نفسیاتی اور شعوری خوشی نصیب ہوتی ہے۔ یہ فضل عملی ہو یا مالی۔ اگر فی سبیل اللہ ہو تو اس وقت جزا ملتی ہے۔ اس پر اللہ کی جانب سے جو جزاء ملے گی وہ فضل پر فضل ہوگا اور احسن الجزاء ہوگی۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ (اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) یہ قیامت کے دن کا عذاب ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یوم بدر کا عذاب ہے۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے کیونکہ یوم کبیر کا لفظ اگر مطلقاً بولا جائے تو اس سے مراد قیامت کا دن ہوتا ہے اور اس رائے کو تقویت اگلے فقرے سے ملتی ہے۔ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ (تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے) اگرچہ دنیا و آخرت دونوں میں مرع اللہ ہے اور ہر لمحہ اور ہر لحظہ انسان اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ لیکن قرآنی تعبیرات کی رو سے مراد اس دنیا کی زندگی کے بعد کی حالت ہے وَھُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ (اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے) اور یہ فقرہ بھی بتاتا ہے کہ اس یوم کبیر سے مراد یوم القیامت ہے کیونکہ اس میں لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا جسے مشرکین عرب مستبعد سمجھتے تھے ، اس لیے کہا گیا کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2: پہلا دعویٰ ۔ صرف اللہ ہی کو پکارو۔ یہ اصل مضمون کے لیے بمنزلہ تمہید ہے۔ کِتَابٌ مبتدا محذوف کی خبر ہے اي ھذا کتاب اور کتاب کی تنوین تعظیم کیلئے یہ عظیم الشان اور جلیل القدر کتاب ہے والتنوین فیه للتعظیم اي کتاب عظیم الشان جلیل القدر (روح ج 11 ص 203) ۔ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُهٗ ، کِتَابٌ کی پہلی صفت ہے۔ آیتوں کے محکم اور مضبوط ہونے سے مراد یہ ہے وہ باہمی تناقض سے محفوظ ہیں، حکمت اور نفس الامر کے خلاف ان میں کوئی بات نہیں اور فصاحت و بلاغ کے اعتبار سے وہ تمام لفظی اور معنوی خوبیوں سے آراستہ ہے (روح) ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں محکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تورات و انجیل کی طرح اس کے بعد کوئی ناسخ کتاب نہیں آئیگی۔ قال ابن عباس ای لم ینسخھا کتاب بخلاف التورۃ والانجیل (قرطبی ج 9 ص 2) ۔ 3: ثُمَّ تعقیب ذکری کیلئے ہے تراخی کے لیے نہیں۔ فُصِّلَتْ جدا جدا بیان کی گئی ہیں جس طرح جواہرات کے ہار میں خاص قسم کے آبدار موتی پرو کر اس کے حصے جدا جدا کیے جاتے ہیں اسی طرح قرآن مجید میں دلائل توحید، احکام، نصائح اور واقعات کو ذکر کیا گیا ہے کا لعقد المفصل بالفرائد التی تجعل بین اللآلی و وجہ جعلھا کذلک اشتمالھا علی دلائل التوحید و الاحکام والمواعظ والقصص (روح ج 11 ص 204) ۔ امام زجاج، ابن جریر، فراء اور کسائی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس میں مسئلہ توحید اور نفی شرک کی تفصیل کی گئی ہے اور اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ ، فُصِّلَتْ سے متعلق ہے۔ حوالے آگے آرہے ہیں۔ 4: یہ بھی کِتَابٌ کی صفت ہے یعنی یہ عظیم شان کتاب جو محکم اور مفصل ہے حکیم وخبیر کی طرف سے آئی ہے کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ کتاب کی یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا پرتو ہیں المعنی احکمھا حکیم وفصلھا ای بینھا وشرحھا خبیر عالم بکیفیات الامور ففی الایۃ اللف والنشر المرتب (روح ج 11 ص 205 وکذا فی الکبیر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 الر قف، یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں دلائل وبراہین سے محکم و مضبوط کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں وہ ایک صاحب حکمت با خبر کی جانب سے نازل ہوئی ہے۔ یعنی حچی تلی استوار اور محکم آیتیں جن میں نہ کوئی تناقص نہ حکمت اور نہ واقع کے خلاف پھر اسی کے ساتھ مفصل یہ نہیں کہ دلائل کی وجہ سے مغلق ہوگئی ہوں پھر ایسے حکم و باخبر کی جانب سے آئی ہے جس میں قیامت تک کے احوال و حوادثات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔