Surat Hood

Surah: 11

Verse: 108

سورة هود

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ سُعِدُوۡا فَفِی الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ ﴿۱۰۸﴾

And as for those who were [destined to be] prosperous, they will be in Paradise, abiding therein as long as the heavens and the earth endure, except what your Lord should will - a bestowal uninterrupted.

لیکن جو نیک بخت کئے گئے وہ جنت میں ہونگے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی رہے مگر جو تیرا پروردگار چاہے یہ بے انتہا بخشش ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Condition of the Happy People and their Destination Allah, the Exalted, says, وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ ... And those who are blessed. These are the followers of the Messengers. ... فَفِي الْجَنَّةِ ... they will be in Paradise, This means that their final abode will be Paradise. ... خَالِدِينَ فِيهَا ... abiding therein for all the time, This means that they will remain there forever. ... مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالاَرْضُ إِلاَّ مَا شَاء رَبُّكَ ... that the heavens and the earth endure, except as your Lord wills: The meaning of the exception that is made here is that the condition of eternal pleasure that they will experience therein is something that is not mandatory by itself. Rather, it is something that is dependent upon the will of Allah. Unto Him belongs the favor of immortality upon them. For this reason they are inspired to glorify and praise Him, just as they are inspired to breathe. Ad-Dahhak and Al-Hasan Al-Basri both said, "It is about the right of the disobedient people of Tawhid who were in the Fire and then brought out of it." Then Allah finished this statement by saying, ... عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ a gift without an end. This means that it will never be cut off. This has been mentioned by Mujahid, Ibn Abbas, Abu Al-Aliyah and others. This has been mentioned so that the suspicious person will not doubt after the mention of the will of Allah. Someone may think that the mention of Allah's will here means that the pleasure of Paradise may end or change. To the contrary, it has been decreed that this pleasure will truly be forever and will never end. Likewise, Allah has clarified here that the eternal torment of the people of the Fire in Hell also is due to His will. He explains that He punishes them due to His justness and wisdom. This is why He says, إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (Verily, your Lord is the doer of whatsoever He intends). Similarly, Allah says, لااَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْـَلُونَ He cannot be questioned as to what He does, while they will be questioned. (21:23) Here, Allah soothes the hearts and affirms the intent, by His saying, عَطَأءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ a gift without an end.) It has been recorded in the Two Sahihs that the Messenger of Allah said, يُوتَى بِالْمَوْتِ فِي صُورَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُذْبَحُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَ مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَ مَوْت Death will be brought in the form of a handsome ram (on the Day of Judgement) and it will be slaughtered between Paradise and the Hellfire. Then, it will be said, "O people of Paradise! Eternity and no death! O people of Hellfire! Eternity and no death!" In the Sahih it is recorded that the Messenger of Allah said, فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَ تَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَ تَهْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَ تَسْقَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَ تَبْأَسُوا أَبَدًا It will be said, `O people of Paradise, verily you will live and you will never die. You will remain young and you will never grow old. You will remain healthy and you will never become ill. You will be happy and you will never grieve.

انبیاء کے فرماں بردار اور جنت رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے ۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا ۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی مگر جو اللہ چاہے یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اسکے ارادے پر ہے بقول ضحاک و حسن یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہو گا ۔ نہ گھٹے گا یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں ۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے ۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے موت کو چت کبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لئے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔ 108۔ 2 غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّۃِ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ۝ ٠ ۭ عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ۝ ١٠٨ سعد السَّعْدُ والسَّعَادَةُ : معاونة الأمور الإلهية للإنسان علی نيل الخیر، ويضادّه الشّقاوة، وأعظم السّعادات الجنّة، فلذلک قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود/ 108] ، وقال : فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود/ 105] ، ( س ع د ) السعد والسعادۃ ( خوش نصیبی ) کے معنی ہیں حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لئے ممدا ور معاون ہونا ۔ اس کی ضد شقاوۃ ( بدبختی ) ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا ہے : وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود/ 108] اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں ( داخل کئے جائیں گے ۔ اور فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود/ 105] پھر ان مٰن سے کچھ بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ) جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ جذ الجَذُّ : کسر الشیء وتفتیته، ويقال لحجارة الذهب المکسورة ولفتات الذهب : جذاذ، ومنه قوله تعالی: فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء/ 58] ، عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود/ 108] ، أي : غير مقطوع عنهم ولا محترم وقیل : ما عليه جذّة، أي : متقطع من الثیاب . ( ج ذ ذ) الجذو ( ن ) کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں اور پتھر یا سونے کے ریزوں کو جذاذ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء/ 58] پھلان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا ۔ عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود/ 108] یہ ( خدا کی ) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۔ محاورہ ہے ۔ یعنی اس کے بدن پر چیتھڑا بھی نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) اور رہ گئے وہ لوگ جو سعید ہیں، وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جیسا کہ آسمان و زمین پیدایش کے وقت سے لے کر اب تک موجود ہیں، تاہم اگر اللہ ہی کو منظور ہو کہ وہ اہل سعادت کو نکال کر اہل شقاوت میں داخل کردے کیوں کہ اس کا فرمان ہے کہ جس چیز کو وہ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ سعادت کے زمرہ سے نکال کر شقاوت کے زمرہ میں داخل کردے۔ آیت کریمہ کا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک جنت کے آسمان و زمین باقی رہیں گے البتہ اگر آپ کے رب ہی کو منظور ہو کہ وہ دخول جنت سے پہلے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے دوزخ میں داخل فرمائے پھر دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردے تو اب دخول جنت کے بعد ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ) ان آیات میں جنت اور جہنم کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس میں جنت کے لیے (عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ) کے الفاظ اضافی طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ اس طرح کے لفظی فرق و تفاوت کا جب علماء و مفسرین باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ان سے بڑے بڑے فلسفیانہ نکات پیدا ہوتے ہیں۔ چناچہ جنت اور جہنم کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عربی دونوں نے ایک رائے پیش کی ہے جو اہل سنت کے عام اجماعی عقیدے سے مختلف ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان اگرچہ بڑا نظریاتی بعد ہے (امام ابن تیمیہ بعض اوقات شیخ محی الدین ابن عربی پر تنقید کرتے ہوئے بہت سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں) مگر اس رائے میں دونوں کا اتفاق ہے کہ جنت تو ابدی ہے مگر جہنم ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا ‘ چاہے وہ ارب ہا سال کے بعد آئے ‘ جب جہنم ختم کردی جائے گی۔ اس کے برعکس اہل سنت کا اجماعی عقیدہ یہی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں ابدی ہیں۔ واللہ اعلم !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109. A person's permanent stay in Paradise is equally not contingent upon some higher law that would compel God to facilitate this. On the contrary, people will be able to stay there permanently only by dint of God's grace and mercy. If God were to act otherwise, He obviously has both the power and the authority to do so.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :109 یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں ۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو ، یا کوئی دوسرا انسان ہو ، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو ، یا کوئی روح ہو ، جن ہو ، فرشتہ ہو ، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو ۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر ۔ بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ ان لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی ، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی ، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی ، عدالت خانوں میں بھی ، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی ، سیاست کے ایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی ، غرض ہر جگہ ان لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے ۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا ، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں! پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے ۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے ۔ بعض نادان لوگ ”شرک خفی“ کو ”شرک خفیف“ سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے ۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں ، پوشیدہ و مستور کے ہیں ۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھُا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کر تی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے ، اس سے تو دین توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے ۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیات ِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨۔ جس طرح وہاں اوپر بدبختوں کا حال بیان کیا یہاں نیک بختوں کا حال بیان فرمایا کہ جو لوگ نیک بخت ہیں رسولوں کی پیروں کی دین حق کو قبول کیا ان کے واسطے جنت ہے جب تک آسمان و زمین وہاں کے رہیں گے یہ لوگ جنت میں رہیں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ جنت ہی میں رہیں گے پھر وہاں سے نکلنا کیسا بلکہ ان پر ایسی بخشش ہوگی جس کی کوئی انتہا ہی نہیں صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کل مخلوقات کا حساب و کتاب ہوجائے گا اور جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جاویں گے تو موت بلائی جائے گی وہ ایک بھیڑ کی صورت میں آئے گی۔ اس کو ذبح کر کے کہا جائے گا کہ اے جنت والو اب موت نہیں ہے اب تم ہمیشہ جنت میں رہو اور اے دوزخ والو اب موت نہیں ہے تم ہمیشہ دوزخ میں ١ ؎ رہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی حدیثوں کے موافق جب تمام کلمہ گو دوزخ سے نکل کر جنت میں جا چکیں گے اس وقت موت کو ذبح کیا جاوے گا کیوں کہ صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری (رض) کی شفاعت کے باب میں جو ایک بڑی حدیث ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سب شفاعتوں کے ختم ہوجانے کے بعد جن دوزخیوں کو اللہ تعالیٰ اپنی لپ بھر کر دوزخ سے نکالے گا وہ مر کر کوئلہ ہوجاویں گے اور نہر حیات میں ڈالنے سے زندہ ہوجاویں گے اور پھر جنت میں داخل ٢ ؎ جاویں گے۔ چناچہ صحیح مسلم کی ابو سعید خدری (رض) کی حدیث میں ان لوگوں کے مرجانے کا صاف ذکر آیا ٣ ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی حدیثوں میں اور عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث میں کچھ مخالفت نہیں ہے اوپر کی حدیثیں شفاعت کے وقت کی ہیں اور عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث میں موت کے ذبح کئے جانے اور دوزخیوں کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا ذکر ہے وہ سب شفاعتوں کے ختم ہوجانے کے بعد کا ہے۔ غرض عبد اللہ بن عمر (رض) کی اس حدیث سے معتزلی فرقہ کا یہ مطلب کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ گنہگار کلمہ گو ابھی دوزخ میں ہی ہوں گے اور اس حالت میں موت کو ذبح کیا جا کر دوزخیوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنے کا حکم ہوجاوے گا کیوں کہ یہ مطلب انس بن مالک (رض) کی اوپر کی صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث کے بر خلاف ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی گنہگار کلمہ گو ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے ٤ ؎ گا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٩ ج ٢ باب صفتۃ الجنتہ والنار۔ ٢ ؎ صححذ بخاری ص ١١٠٧ ج ٢ باب وجوہ یوئمنذ فاخرۃ الی ربہا ناظرۃ۔ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ١٠٤ ج ١ باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ١١٠ ج ١ باب اثبات الشفاعۃ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:108) سعدوا۔ سعد سے ماضی مجہول جمع مذکر غائب وہ نیک بخت بنائے گئے۔ (باب فتح) سعد (باب فتح) کے معنی نیک بخت کرنا۔ میں اہل لغت نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے آیۃ ہذا سے استدلال کرتے ہوئے ان معنوں کو جائز رکھا ہے لیکن محققین اہل لغت نے اس سے انکار کیا ہے ان کا بیان ہے کہ ان معنی میں عرب کا محاورہ اسعدہ اللہ (اللہ اس کو نیک بخت کرے) ہے۔ اور یہ کہ سعادۃ۔ شقاوۃ کی طرح لازم ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے کہ یہ لغت قیاس سے خارج ہے ۔ یا یہ باب فعل فعلتہ سے ہوگی یعنی لازم بھی اور متعدی بھی۔ جیسے کہ غاض وہ گھٹ گیا۔ اور غضتہ میں نے اس کا گھٹا دیا۔ اسی طرح سعد وہ نیک بخت ہوا۔ اور سعدتہ میں نے اس کو نیک بخت کیا۔ لیکن لغت الفرائد الدریہ اور لغت المنجد میں سعد (باب سمع) اور سعد کا مصدر سعارۃ لکھا ہے۔ بمعنی نیک بخت ہونا۔ خوش نصیب ہونا۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ۔ وذکران الفراء حکی ان ھذیلا تقول : سعدہ اللہ بمعنی اسعدہ۔ یعنی قبیلہ ہذیل کے لوگ سعد کو بمعنی اسعد بولتے ہیں یعنی بطور فعل متعدی لیتے ہیں۔ پس سعدوا (بصورت فعل مجہول) کے معنی ہوں گے۔ وہ نیک بخت بنائے گئے۔ بصورت فعل لازم ۔ جو نیک بخت ہیں۔ عطائ۔ عطاء بخشش۔ عطیہ۔ انعام ۔ صلہ۔ اس کی جمع اعطیۃ اور اعطیات ہے۔ عطاء اعطاء سے اسم ہے اس کی اصل عطاء تھی (کیونکہ اس کا مادہ عطو ہے) مگر اہل عرب کا دستور ہے کہ جب الف کے بعد واؤ اور یاء آتے ہیں تو ان کو ہمزہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے رد ای سے ردائ۔ عطاء یہاں بطور مصدر استعمال ہوا ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے اعطوا ۔ عطاء اور حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ غیر مجذود۔ مجذوذ۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ جذ مصدر۔ باب نصر۔ منقطع ۔ غیر مجذوذ غیر منقطع۔ دوامی۔ لازوال ۔ الجذ کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں۔ اور پتھر یا سونے کے ریزوں کو جذاذ کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن میں آیا ہے۔ فجعلہم جذاذا (21: 158) پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ دونوں آیتوں میں استثنا کا تعلق گہگار اہل توحید سے ہے۔ اوپر کی آیت میں مطلب یہ ہوگا کہ موحد مومن گنہگار جب اپنی سزا بھگت لیں گے تو انہیں دوزخ سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ جمہور صحابہ (رض) وتابعین (رح) سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے۔ گو بعض نے اس سے دوزخ کے بالآخر فنا ہوجانے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلہ میں ایک حدیث ضعیف اور کچھ غریب اقوال بھی نقل کئے ہیں مگر یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے جن میں جہنمیوں کے متعلق ” خالدین “ اور ” ابدا “ کے الفاظ مذکور ہیں۔ دوسری آیت میں اہل جنت کے متعلق بھی ” الاماشاء ربک “ کا تعلق اصحاب معاصی کے ساتھ ہے۔ یعنی جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے تاہم کچھ لوگ مشیٔت الٰہی کے تحت دوزخ سے نکال کر جنت میں لائے جائیں گے۔ گویا وہ ہمیشہ جنتیں نہ رہے مگر جنت میں داخل ہونے کے بعد چونکہ کوئی بھی اسے نہیں نکلے گا اس لئے آخر میں ” عطاء غیر مجذوذ “ فرمادیا اور دوزخ سے کچھ لوگ نکال کر جنت میں لائے جائیں گے اس لئے اس کے آخر میں ” ان رب فعال لما یرید “ فرمایا۔ (کذافی الروح) ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اپنے فوائد میں لکھتے ہیں : اس کے یعنی آیت (مادامت السموات والارض الا ماشاء ربک) کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رہیں گے آگے میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں مگر جتنا اور چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں گے آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین اس جہاں کا یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کردے لیکن چاہ چکا کہ موقوف ن ہو۔ اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے میں اور بندے کے کہ بندہ گوہ ہمیشہ ہے ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو فنا کردے۔ (موضح 9 ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے بعدنیک لوگوں کا تذکرہ اور ان کا انعام۔ ایک طرف جہنمی اپنے برے عقیدہ اور گھناؤ نے اعمال کی سزا پاتے ہوئے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں گدھے کی طرح آوازیں نکال رہے ہوں گے۔ دوسری طرف صحیح عقیدہ رکھنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والے سعادت مند حضرات، اللہ تعالیٰ کی میزبانی اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے رب کے شکریہ کے ترانے گا رہے ہوں گے۔ جب یہ لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو اظہار تشکر کے طور پر برملا اعتراف کریں گے کہ ہمارے رب نے ہمارے ساتھ دنیا میں جو وعدے کیے تھے۔ ان سے ہم کئی گنا زیادہ پا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں قیام اور آرام کرو گے۔ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نہ ختم ہونے والی عطا اور جزا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہاں پھر ” اِلَّامَاشَآءَ رَبُّکَ “ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ” مَا شَآءَ “ کا معنی عربی میں سَوَاءٌ کا بھی آتا ہے یعنی کسی چیز کے برابر ہونا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قیامت برپا ہونے کے بعد نئے زمین و آسمان کو دوام اور ہمیشگی ہوگی اسی طرح جنتیوں کا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ قیام ہوگا۔ (عَنْ جَاِبٍر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِ یَاْ کُلُوْنَ فِیْھَاوَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ قَالُوْا فَمَا بَال الطَّعَامِ قَالَ جُشَآءٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ یُلْھَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْھَمُوْنَ النَّفَسَ ) [ رواہ مسلم : باب فی صفات الجنۃ ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‘ جنتی لوگ جنت میں خوب کھائیں پیئیں گے، نہ تھوکیں گے ‘ نہ پیشاب کریں گے ‘ نہ رفع حاجت کریں گے اور نہ ہی ناک بہائیں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا تو پھر کھانے کا فضلہ کیا ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کھانے کا فضلہ ڈکار سے ختم ہوجائے گا ان کا پسینہ کستوری کا طرح ہوگا۔ اہل جنت کے دل میں سبحان اللہ ‘ الحمد للہ کا الہام کیا جائیگا جیسے تمہاری سانس جاری رہتی ہے۔ “ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًااَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَتُنْجِنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیُرْفَعُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَمَا اُعْطُوْا شَیْءًا اَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّھِمْ ثُمَّ تَلَا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ)[ رواہ مسلم : باب اثبات رؤیۃ المؤمنین ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کسی نعمت کو چاہتے ہو ‘ جو میں تمہیں عطا کروں۔ جنتی عرض کریں گے ‘ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا ؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور دوزخ سے ہمیں نہیں بچایا ہے ؟ آپ نے فرمایا ‘ تب پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ تمام جنتی رب العزت کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی ‘ جو پر ور دگار کی زیارت سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔ “ مسائل ١۔ نیکو کار جنت میں جائیں گے۔ ٢۔ سعادت مند ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٣۔ جنتیوں پر اللہ کی عطا ہمیشہ جاری رہے گی۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا جنت میں قیام اور آرام ہمیشہ کے لیے ہوگا : ١۔ نیک لوگ جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور جو کچھ اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ختم نہ ہوگا۔ (ھود : ١٠٨) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (الفتح : ١٧) ٣۔ ایمان والے اور عمل صالح کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (البقرۃ : ٨٢) ٤۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( النساء : ٥٧) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ (النساء : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

88:۔ یہ بشارت اخروی ہے۔ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اور اِلَّا مَاشَاءَ رَبُّکَ کی تفسیر مذکورہ بالا بیان کے مطابق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 اور رہے وہ لوگ جو نیک اور سعادت مند ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور اس میں جب تک آسمان و زمین قائم ہیں ہمیشہ ہمیں رہیں گے مگر ہاں جس کو آپ کا رب چاہے تو اور بات ہے یہ خدا کا ایسا عطیہ ہے جو کبھی سطح نہیں ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس میں دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ رہیں گے آگ میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں مگر جتنا اور چاہے تیرا رب وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین میں اس جہان کا یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کر دے لیکن چاہ چکا کہ موقوف نہ ہو اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے اور بندے کے کہ بندہ گوہمیشہ رہے پر ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو دفنا کردے 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ اگر دنیا کے زمین و آسمان مراد ہے تو مطلب یہ ہے کہ اس مدت تک دوزخی دوزخ میں اور جنتی جنت میں رہیں گے اگر تیرا رب چاہے تو اس مدت کو اور بڑھا دے اور اگر آسمان وز مین آخرت کے مراد ہیں تو مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ رہیں گے مگر تیرا رب چاہے تو موقوف کردے اور عذاب کو ختم کردے لیکن چونکہ دوام کا وعدہ ہے اس لئے ایسا ہوگا نہیں نہ دوزخی دوزخ سے نکلیں گے نہ اہل جنت جنت سے۔ آیت میں مشیت کا اعلان ہے کہ تیرا رب جو چاہتا ہے کرسکتا ہے سب چیزیں تحت القدرت ہیں کسی معیاد کا گھٹانا یا بڑھانا سب قدرت میں ہے مگر ایسا ہوگا نہیں ہوگا وہی جو فرمادیا ہے البتہ فنا اور بقا قدرت کے ماتحت ضرور ہیں فافہم و تدبر