Surat Hood

Surah: 11

Verse: 110

سورة هود

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۱۰﴾

And We had certainly given Moses the Scripture, but it came under disagreement. And if not for a word that preceded from your Lord, it would have been judged between them. And indeed they are, concerning the Qur'an, in disquieting doubt.

یقیناً ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب دی ۔ پھر اس میں اختلاف کیا گیا اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کر دیا جاتا ، انہیں تو اس میں سخت شبہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ... Indeed, We gave the Book to Musa, but differences arose therein, Allah mentions that He gave Musa the Book, but the people differed concerning it. Some believed in it and some disbelieved in it. Therefore, you, Muhammad, have an example in the Prophets who came before you. So do not grieve or be upset by their denial of you. ... وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ... and had it not been for a Word (Kalimah) that had gone forth before from your Lord, the case would have been judged between them, Ibn Jarir said, "If it were not that the punishment had already been delayed until an appointed time, then Allah would have decided the matter between you now. The word Kalimah carries the meaning that Allah will not punish anyone until the proof has been established against him and a Messenger has been sent to him." This is similar to Allah's statement, وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger (to give warning). (17:15) For verily, Allah says in other verse, وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُّسَمًّى فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ And had it not been for a Word that went forth before from your Lord, and a term determined, (their punishment) must necessarily have come (in this world). So bear patiently what they say. (20:129-130) ... وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ and indeed they are in grave doubt concerning it (this Qur'an). Then, Allah informs that He will gather the early generations and the later generations from all of the nations. He will then reward them based upon their deeds. If they did good deeds, their reward will be good, and if they did evil deeds, their reward will be bad. Allah says, وَإِنَّ كُـلًّ لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 یعنی کسی نے اس کتاب کو مانا اور کسی نے نہیں مانا۔ یہ نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا آیا ہے، کچھ لوگ ان پر ایمان لانے والے ہوتے اور دوسرے تکذیب کرنے والے۔ اس لئے آپ اپنی تکذیب سے نہ گھبرائیں۔ 110۔ 2 اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کے لئے عذاب کا ایک وقت مقرر کیا ہوا نہ ہوتا تو وہ انھیں فورا ہلاک کر ڈالتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں اختلاف کی صورتیں :۔ یعنی جس طرح آج قرآن کے بارے میں اختلاف کیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے، یہ پہلوں کی کہانیاں ہیں کوئی کہتا ہے، کہ یہ بیان کی جادوگری ہے کوئی کہتا ہے، کہ قرآن اس نبی کا تصنیف کردہ ہے، کوئی کہتا ہے، کہ یہ کسی دوسرے سے سیکھ کر یہ قرآن پیش کر رہا ہے اور ایک حق پرست گروہ اسے منزل من اللہ بھی سمجھتا ہے، اسی طرح تورات میں بھی اختلاف کیا گیا تھا اور لوگوں کا یہ جرم اتنا شدید ہے جس پر انھیں فوری طور پر ہلاک کیا جاسکتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت اور لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک مدت مقرر رکھی ہے اس لیے فوری طور پر نہ قوم موسیٰ ہلاک کی گئی تھی اور نہ آپ کی قوم کو ہلاک کیا جائے گا ان کے انکار کے باوجود اس کتاب میں ایسے بصیرت افروز دلائل ضرور موجود ہیں جنہوں نے ان کے دلوں میں اس کی سچائی کے متعلق شک ڈال کر انھیں بےچین کر رکھا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِ : سورة ہود واحد سورت ہے جس میں ایک ہی رسول کا ذکر دو بار ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہ ذکر ہوا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا تھا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جائیں، آیات اور سلطان مبین پیش کریں اور جیسا کہ سورة طٰہٰ میں ذکر ہے، اس سے مطالبہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو عذاب دینا چھوڑ دے اور انھیں آزادی دے کر میرے ساتھ بھیج دے۔ اگرچہ اس کے ساتھ توحید و رسالت کی دعوت بھی تھی، مگر وہ مسلمان ہی نہیں ہوا کہ اس کے لیے مفصل احکام نازل ہوتے۔ اس وقت تمام احکام زبانی تھے، تورات نازل نہیں ہوئی تھی، اس لیے ساتھ ہی اس کا انجام ذکر کردیا : (يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ) [ ہود : ٩٨ ] یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلتا ہوا انھیں جہنم میں لے جائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دوسری بعثت بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ چناچہ آزادی حاصل ہونے اور سمندر سے بخیریت نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے طور پر چالیس راتوں کا اعتکاف کروایا اور اس کے بعد انھیں تورات عطا فرمائی۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون یا اس کے سردار نہیں تھے، ان کے ساتھ بنی اسرائیل تھے یا فرعون کی قوم میں سے مصر سے آنے والے چند نوجوان۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ) کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (تورات) عطا فرمائی، مگر موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں اور اس کے بعد اس میں اختلاف کیا گیا۔ کسی نے تسلیم کیا، کسی نے انکار کردیا، یا کسی نے کچھ احکام مان لیے کچھ نہیں، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم پر ارض مقدس (شام) کے حصول کے لیے جہاد پر نکلنے سے بھی صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ دیکھیے سورة مائدہ (٢٤) پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان پر بہت سے دور آئے، کبھی غالب رہے، مثلاً یوشع بن نون (علیہ السلام) کا دور، داؤدو سلیمان (علیہ السلام) کا دور، کبھی مغلوب رہے، پھر آہستہ آہستہ انھوں نے اللہ کی کتاب میں ایسا اختلاف کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق بہتر (٧٢) گروہوں میں بٹ گئے۔ انھوں نے اپنی خواہشات کے مطابق کتاب اللہ کے معانی میں تحریف کی، غلط تاویلیں کیں، معانی بدلے، پھر الفاظ میں بھی تحریف کردی، جیسا کہ فرمایا : ( يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ) [ المائدۃ : ١٣ ] ” وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں۔ “ پھر اپنے احبارو رہبان (علماء و درویش) کو اللہ تعالیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔ ان کی فقہ اور ان کے اقوال و فتاویٰ کو یہ درجہ دیا کہ وہ حرام کو حلال کہتے تو حلال سمجھ لیتے، حلال کو حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے، فرمایا : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ) [ التوبۃ : ٣١ ] ” انھوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ “ ان کے دنیا پرست علماء اللہ کی کتاب لوگوں کو سناتے ہوئے زبانوں کو ایسا پیچ دیتے کہ لوگ سمجھیں یہ اللہ ہی کی کتاب سنا رہے ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی کتاب نہ ہوتی، پھر صاف دعویٰ کردیتے کہ یہ اللہ کی طرف سے شرع کا حکم ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا، فرمایا : (وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَ مِنَ الْكِتٰبِ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَمَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَيَـقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ) [ آل عمران : ٧٨ ] ” اور بیشک ان میں سے یقیناً کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب (پڑھنے) کے ساتھ اپنی زبانیں مروڑتے ہیں، تاکہ تم اسے کتاب میں سے سمجھو، حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں اور اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ “ پھر کچھ ایسے بدنصیب تھے جو اپنے ہاتھوں سے فتوے لکھ کر کہتے یہ اللہ کا حکم ہے، حالانکہ وہ سب کچھ انھوں نے اپنی کسی دنیوی خواہش کو پورا کرنے کے لیے لکھا ہوتا، اللہ کا حکم ہرگز نہ ہوتا اور جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھ دیتے، فرمایا : (فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْهِمْ ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ۭ فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ ) [ البقرۃ : ٧٩ ] ” پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں۔ پس ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔ “ ہاں کچھ لوگ صراط مستقیم پر قائم رہے۔ یہ وہ تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب اور سنت پر کسی تبدیلی یا تحریف کے بغیر قائم رہے۔ یہ نجات پانے والے تھے، مگر ان کے بہت سے لوگ اللہ کے احکام کے نافرمان ہوگئے اور اوپر مذکور ہیرا پھیریاں کرنے والے بن گئے، یا ایسی ہیرا پھیریاں کرنے والوں کے پیروکار بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( ۭمِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ ) [ المائدۃ : ٦٦ ] ” ان میں سے ایک جماعت درمیانے راستے والی ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ، برا ہے جو کر رہے ہیں۔ “ اس وقت یہ سارا نقشہ آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو ہماری امت مسلمہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ اوپر اہل سعادت اور اہل شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے تورات کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے جہاد کا حکم نہ تھا، اس لیے رسول کی نافرمانی پر آسمان سے عذاب اتر آتا تھا۔ فرعون کے غرق ہونے کے بعد جہاد کا حکم ہوا، اب یا تو کفار کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دیا جائے گا، جیسے فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ چناچہ یوشع بن نون، طالوت، داؤد اور سلیمان وغیرہم کے جہاد اس بات کی دلیل ہیں۔ اگر مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب نہ ہوا تو پھر آخرت کو ہوگا۔ اگر یہ بات طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان پر پہلی قوموں کی طرح عذاب آچکا ہوتا۔ ہاں محدود پیمانے پر اللہ تعالیٰ کی سزا کا تازیانہ اب بھی برس سکتا ہے، جیسا کہ ” اصحاب سبت “ پر برسا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہماری امت میں بھی ایسے واقعات پیش آئیں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ “ ( موضح) وَاِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ : بعض مفسرین نے اس کی تفسیر کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم تورات کے بارے میں ایک بےچین رکھنے والے شک میں مبتلا ہے، نہ اسے اس کے سچا ہونے کا یقین ہے نہ جھوٹا ہونے کا اور حق کا انکار کرنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کا دل اسے سچا مانتا ہے، مگر دنیاوی خواہشات اسے ماننے کی اجازت نہیں دیتیں، اسی تذبذب میں کفر ہی پر دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ بعض نے یہ تفسیر کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے ایمان نہ لانے والے قرآن کے متعلق بےچین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔ مگر پہلی تفسیر زیادہ درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ذکر موسیٰ (علیہ السلام) ، تورات اور ان کی قوم کا ہو رہا ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَلَوْ لَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّہُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مُرِيْبٍ۝ ١١٠ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ شكك الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما، والشَّكُّ : ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] ( ش ک ک ) الشک کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔ الشک : شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی تو کتاب موسیٰ میں لوگوں نے اختلاف کیا بعض اس کتاب پر ایمان لائے اور بعض نے اس کتاب کا انکار کیا، اور اگر آپ کی امت کے بارے میں تاخیر عذاب کی بات پہلے سے مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو ابھی تک ان کی ہلاکت ہوچکی ہوتی اور کب کا عذاب ان پر آچکا ہوتا اور یہ لوگ ابھی تک شک وشبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ ) یہ بات سورة الشوریٰ میں وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ ہر رسول کی امت اپنی الہامی کتاب کی وارث ہوتی ہے۔ پھر جب اس امت پر زوال آتا ہے تو اپنی اس کتاب کے بارے میں بھی ان کے ہاں شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں کہ واقعتا یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے بھی یا نہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

111. If people launch scurrilous attacks on the Qur'an, this is not altogether novel. The same happened before. When Moses (peace be on him) was granted the scripture, people raised a variety of objections against it. The Prophet Muhammad (peace be on him) should not, therefore, feel disheartened that his people rejected the teachings of the Qur'an despite their lucidity. 112. This is being said in order to comfort the Prophet (peace be on him) and his Companions. They are being asked to be patient and not to seek a hasty judgement from God concerning those who differ about the Qur'an. For God will soon come forth with His judgement. He has determined that this judgement will neither come a moment before, nor a moment after the expiry of the term. It is true human beings wish God's judgement to come hastily. As for God, He never judges hastily.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :111 یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج اس قرآن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں ، بلکہ اس سے پہلے جب موسی علیہ السلام کو کتاب دی گئی تھی تو اس کے بارے میں ایسی ہی مختلف رائے زنیاں کی گئی تھیں ، لہذا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم یہ دیکھ کر بددل اور شکستہ خاطر نہ ہو کہ ایسی سیدھی سیدھی اور صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں اور پھر بھی لوگ ان کو قبول نہیں کرتے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :112 یہ فقرہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کو مطمئن کرنے اور صبر دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کے لیے بے چین نہ ہو کہ جو لوگ اس قرآن کے بارے میں اختلافات کر رہے ہیں ان کا فیصلہ جلدی سے چکا دیا جائے ۔ اللہ تعالی پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ فیصلہ وقت مقرر سے پہلے نہ کیا جائے گا ۔ اور یہ کہ دنیا کے لوگ فیصلہ چاہنے میں جو جلد بازی کرتے ہیں ، اللہ فیصلہ کر دینے میں جلد بازی نہ کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:110) لولا کلمۃ سبقت من ربک۔ اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی بات طے نہ ہوچکی ہوتی۔ اس میں کلمۃ اللہ سے اس حکم ازلی کی طرف اشارہ ہے جس کی حکمت الٰہی مقتضی تھی اور یہ کہ کلمات الٰہیہ کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اور نہ ہی ان میں تغیر کی گنجائش ہوتی ہے۔ دوسری جگہ آیا ہے۔ ولولا کلمۃ سبقت من ربک الی اجل مسمی لقضی بینھم (42:14) اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہی ایک وقت مقررہ تک لے لئے یہ بات نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوگیا ہوتا۔ یہاں کلمہ کا اشارہ عذاب الٰہی کی طرف ہے جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیہا ہے کہ منکرین کو آخرت میں دیا جائے گا۔ لقضی بینھم۔ انکے درمیان فیصلہ ہوگیا تھا۔ تو ان کے درمیان معاملہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یعنی ان کو اسی دنیا میں عذاب دیدیا گیا ہوتا شک مریب۔ موصوف وصفت۔ ایسا شک کہ جس میں بیچینی اور خلجان ہو۔ مریب اسم فاعل۔ واحد مذکر ۔ ارایۃ (باب افعال) سے ہے۔ ریب مادہ۔ بےچین کرنے والا۔ متردد بنا دینے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی ان کی بت پرستی کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ۔4 ۔ اہل سعادت و شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آکر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپو پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدل اور کبیدہ خاطر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے توراۃ کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ (شوکانی) ۔ 5 ۔ یا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے رحمت میرے غصے پر غالب ہے تو اب تک ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں “ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ (از موضح) ۔ 6 ۔ یعنی سخت خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١٠ تا ١٢٣ اسراومعارف موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطافرمائی جو اللہ کا ذاتی کلام تھا اور کلام میں متکلم کی برکات کا بھرپورعکس ہوتا ہے ۔ چاہیئے یہ تھا کہ لوگ اس پہ جان نچھ اور کردیتے اور دلوں کو اس سے روشن اور سینوں کو آباد کرلیتے مگر لوگوں نے اپنے مزاج کے مطابق اس میں اختلاف کیا کسی نے اسے قبول تو کسی نے انکار کردیا کہ رب جلیل نے انسان کو شعور عطافرماکر فیصلے کا اختیار اسے بخش دیا ہے لہٰذایہ اس کی پسند ہے اگرچہ یہ بہت بڑاظلم ہے کہ اللہ کا پیغام آئے اور عاجز انسان جو اس کی مخلوق ہے اسی کا کھاتا ہے اسی کے پیغام کو ٹھکرادے لیکن اللہ نے فیصلے کی گھڑی مقرر کردی ہے کہ یوم حشرسب کا حساب چکا یا جائے گ اور نہ اس جرم پر تو فورا گرفت میں آجاتے اور فیصلہ کردیا جاتا ۔ یہ ایسے بدنصیب ہیں کہ انھیں قیامت کے واقع ہونے میں ہی شبہ ہے اور یہی شبہ تمام گمراہیوں کی اصل ہے ۔ مگر یہ وقت تو آنے والا ہے اور جب آئے گا تو تیرا پروردگار ان سب کو ان کے اعمال کا پوراپورا بدلہ دے گا جنہوں نے پہلے کفر کیا ان کو بھی اور جو آپ کو آپ کی تعلیمات کو اور قرآن کو جھٹلا رہے ہیں ان کو بھی کہ وہ ان سب کے کردار سے بخوبی واقف ہے ۔ فاستقم کما امرت۔۔۔۔۔۔ آپ بالکل سید ہے چلتے رہیئے جیسا آپ کو اللہ کا حکم ہے اور وہ لوگ بھی جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ توبہ نصیب ہوئی کہ آپ سب بھی عمل کرتے ہیں اللہ کریم ذاتی طور پر سب دیکھ رہے ہیں ۔ یہی وہ آیہ کریمہ ہے جس کے بارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ سورة ہود نے مجھے بوڑھا کردیا حضرت ابن عباس (رض) کے مطابق یہی حکم استقامت تھا جس کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا۔ استقامت استقامت کا مفہوم سیدھا کھڑا ہونے کا ہے کہ کسی طرف بھی معمولی ساجھکاؤبھی نہ ہو نہ صرف عمل کے اعتبار سے بلکہ حقیقی استقامت میلان قلبی کے اعتبار سے ہے اور اس سے مراد ہے کہ اللہ اور اس کے معین کردہ راستے پر اس خلوص اور محبت دل کی گہرائی اور پیار کی شدت سے چلے کہ اس کے خلاف چلنا گواراہی نہ رہے ۔ اس کے خلاف کی طلب مٹ جائے۔ اسی کو فنافی الرسول اور فنافی اللہ بھی حسب مراتب کہاجاتا ہے اور ان مراقبات کا حاصل بھی عملی زندگی کی یہ کیفیت ہے عالم میں تمام خرابی کی جڑ بھی استقامت سے ہٹنے سے ہی شروع ہوتی ہے خواہ افراط سے ہو یعنی اللہ کے فرمائے امور میں کچھ بڑھایا جائے یا تفریط سے کہ ان میں کچھ کمی کی جائے ۔ یہ کمی بیشی اللہ کی توحید اس کی ذات یا اس کی صفات میں کی جائے یا اس کی مقررکردہ حدود اور احکام میں کرنے والے گستاخانہ اعتبار سے کریں یا بڑے پیار اور نیک بنتی سے کریں دونوں طرح گمراہ قرار پائیں گے۔ اسی طرح انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے مدارج ان کی عظمت و محبت کی حدود اللہ کی طرف سے ارشاد فرمادی گئیں اب کوئی ان میں کمی کرے یا اضافہ کرکے اللہ کی صفات میں انھیں شریک ٹھہرانے لگے گمراہ ہوجائے گا۔ اسی لئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدعات سے بچنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی کہ انسان سمجھتا ہے یہ دین ہے اور اس عمل کرکے اللہ کو راضی کررہا ہوں مگر نتیجہ برعکس ہوتا ہے لہٰذاعقیدہ وعمل دونوں میں پوری تحقیق کرے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا فرمایا یا کیا ہے تو درست ورنہ کبھی اس کے قریب نہ پھٹکے ۔ یہ استقامت عقائد سے لے کرمعاملات اخلاقیات معاشیات اور سیاسیات تک ہر جگہ ضروری ہے جہاں بھی کوئی اس سے ادھر ادھر ہوگا نتائج خراب ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ مختلف مفسرین کرام نے یہاں متعددواقعات بھی نقل فرمائے ہیں مگر ہمارا مقصد مفہوم عرض کرنا ہے لہٰذایہاں درج نہیں کئے جا رہے۔ اور فرمایا ولا تطغوا یعنی استقامت کیا ہے ؟ اللہ کی مقررکردہ حدود سے نہ بڑھنا تمام امور میں اور ساتھ حکم دیا کہ اے لوگو ! ان کی طرف مت جھکوجو ظالم ہیں یعنی ان حدود کر توڑ رہے ہیں اگر ایسا کروگے تو تم بھی ان کے ساتھ دوزخ میں جھونک دیئے جاؤگے اور اللہ کو چھوڑ کر ظالموں سے دوستی تمہیں ہر طرح کی مدد سے بھی محروم کردے گی کہ جسے اللہ چھوڑ دے اس کا کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ظالموں کی طرف جھکاؤسے کیا مراد ہے ؟ ایسے لوگ جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے ان کی طرف ادنی سامیلان یا ان سے محبت یا ان سے مرعوب ہو کر ان کے پیچھے چلنا یا ان پر اعتماد یہ سب انسان کی تباہی کا باعث ہے بلکہ قاضی بیضاوی کا ارشاد تو یہ ہے کہ کفار جیسی شکل بنانا مثلا مونچھ ڈاڑھی کٹا کر ان جیسا بننا اور ان جیسا لباس پہننا فیشن اور رہن سہن کے اطواراپنانایہ سب پوری شدت سے منع ہیں اسی طرح ظالم حکمرانوں کے درپہ حببہ سائی دنیا کے فائدے کے لئے آخرت سے محرومی کا سبب ہے خصو صا علماء کے لئے تو تفسیر مظہری میں ہے کہ اس عالم سے بڑھ کر کوئی مبغوض نہیں جو دنیا کی خاطر کسی ظالم سے ملاقات کو جائے ۔ اہل کفرہی نہیں اہل بدعت سے بھی دلی میلان کو اس آیت میں پوری طرح ممنوع فرمادیا ہے اور سارے کا سارادین یہی ہے کہ حدود الٰہی کے اندر رہے اور توڑنے والوں سے کوئی دلی تعلق نہ رکھے۔ نیک عمل برائی کا اثرزائل کردیتا ہے بلکہ آپ دن کے ہر ہر پہلوپہ اللہ کو سجدے کریں نمازیں ادا کریں اور اپنا تعلق اس ذات کریم سے بڑھاتے چلے جائیں ۔ بھلاکسی دوسرے کی ضرورت کیا ہے جو اس کی راہ سے دورہو۔ اور قانون یہ ہے نیکی نہ صرف اللہ کا قرب عطا کرتی ہے بلکہ برائیوں کی بھی مٹا دیتی ہے ۔ یہی نیک عمل کی خصو صیت ہے کہ برائی کے زنگ اور سیاہی کو جو قلب پہ آجائے دورکرکے دل میں محبت الٰہی کے چراغ روشن کرتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں بہت بڑی بات ہے اور نیکی کے ساتھ صبرضروری ہے ۔ یہ غلط فہمی نہ رہے کہ نیک عمل کرنے سے دنیا کی کوئی پریشانی نہ آئے گی ۔ اگر ایسا ہوتاتو بھلا کون نیکی کو ترک کرتا ۔ نظام دنیا میں تو نیک بھی انہی حالات سے گزرتے ہیں جن سے دوسری مخلوق تنگی وفراخی صحت وبیماری اور دوستی ودشمنی سب گرم وسرد سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے دل پریشان نہیں ہوتے لہٰذا صبرضروری ہے کہ نیکی اور احسان کا بدلہ کبھی ضائع نہیں اور آخرکارنی کی ہی کامیابی کا زینہ بنتی ہے ۔ نیکی سے مراد نیک عمل کرنا اور فساد سے روکنا بھی ہے جو قومیں ہلاکت و بربادی سے دوچار ہوئیں ان میں بھی اگر کچھ لوگ ایسے نیک اور صالح ہوتے جو ان لوگوں کو برائی اور فساد سے روکتے تو وہ بھی تباہی سے بچ سکتے تھے ۔ تو ثابت ہوا کہ نیکی محض عبادت یاذکراذکارکانام نہیں بلکہ ان سب کے ساتھ خودنیک عمل کرنا اور دوسروں کو نیکی کی طرف یلانا اور ہر ممکن طریقے سے برائی سے روکنا ہے تاکہ اللہ کی مخلوق عذاب الٰہی سے بچ کر اس کی رحمت کو پاسکے۔ لیکن نیک لوگ بہت تھوڑی تعداد میں تھے وہ بدکاروں کو مقابلہ کرکے نہ روک سکے اور دعوت انھوں نے قبول نہ کی لہٰذا اپنی عیش و عشرت میں لگے رہے اور انجام کار تباہ ہوئے جبکہ وہ نیک لوگ جو قلیل تعداد میں تھے اللہ نے انھیں بچالیا اور محفوظ رہے کہ رب جلیل نیک اور صالح لوگوں کی بستی تباہ نہیں کرتے یہ تو انسانی مظالم ہیں تباہی کا سبب بنتے ہیں ۔ اللہ نے سب کو نیک کیوں نہ بنادیا ؟ رہی یہ بات کہ اللہ نے سب کو نیک کیوں نہ بنادیا ؟ تو اس میں شک نہیں کہ اللہ چاہتا تو ایسا بھی کرسکتا تھا اور یقینا ایسا ہی ہوتا مگر پھر انسان کے انسان ہونے کا کیا حاصل پھر تو وہ بھی فرشتے ہی کی ایک قسم بن جاتا اور فرشتہ اگرچہ ساری عمر اطاعت کرتا ہے مگر اس کے لئے ترقی نہیں کہ اسے فطرتا وہی کچھ کرنا ہے مگر انسان کو فہم وشعوربخشا پھر ایک طرف اپنا حسن و جمال اور قرب رکھا اور دوسری طرف عیش و عشرت کہ انسان خود فیصلہ کرے وہ کیا چاہتا ہے تو لوگوں نے اختلاف کیا کچھ نے اس کے جمال اور قرب پر ساری لذتیں قربان کردیں جبکہ دوسروں نے عیش و عشرت کو چنا اور اس کے جمال کو ٹھکرادیا۔ صرف وہ لوگ اس کے قرب کے انتخاب پر قائم رہ سکے جن پر اس نے رحم فرمایا کہ جب کوئی اس کے قرب کو پانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کی رحمت بڑھ کر اسے تھام لیتی ہے اور انسانیت کی تخلیق کا تو مقصد ہی یہی تھا کہ کوئی اپنی پسند سے مجھے چاہنے والابھی ہو اور میرے لئے جہان کو ٹھکرانے کی جرأت رکھتا ہو۔ ورنہ تو اللہ کو پہلے علم تھا اور اس نے بتادیا تھا کہ بہت سے جن اور بہت سے انسان اس عظیم مقصد میں ناکام ہوکر جہنم کا ایندھن بنیں گے اور میں دوزخ کو بھی جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا کہ ان کی اپنی پسند کا انجام یہی ہوگا۔ یہ انبیاء اور امتوں کے احوال تو اے حبیب ! آپ کو اس لئے سنائے جاتے ہیں کہ آپ کو تسلی رہے کہ قانون فطرت یہی ہے اور اللہ نے انسانوں کو اختیار بخشا ہے لہٰذا جب فیصلہ انسان کی پسند کا ہوگا تو یقینا اختلاف بھی ہوگا ۔ بھلاسب لوگ ایک فیصلے پہ جمع ہوسکتے ہیں ۔ اور یوں آپ کو تشفی ہو اور نافرمانوں کیلئے بھی آپ کا دل جو دکھ محسوس کرتا ہے اس میں کمی ہو اور ساتھ میں یہ فائدہ بھی ہے کہ محض حکایات کی بجائے لوگوں کے پاس حقائق پہنچیں جو ان کے لئے نصیحت کا باعث بنیں اور ایمان والے لوگ عبرت حاصل کریں نیز جو لوگ نہیں مان رہے انھیں کہہ دیجئے کہ تم جو چاہتے ہو کرتے رہوہم اپنا عمل اللہ کے حکم کے مطابق جاری رکھیں گے اور فیصلے کا انتظار کروہم بھی کر رہے ہیں انجام کارسب بات آجائے گی۔ کہ ارض وسماکے سارے بھید اللہ خوب جانتا ہے اور سب راز اس پہ عیاں ہیں اور سب امور بھی اسی کے دست قدرت میں ہیں یعنی جانتابھی ہے اور کر بھی سکتا ہے لہٰذا آپ صرف اسی کی عبادت کرتے رہیئے زندگی کا ہر کام عبادت ہے نافرمانی لہٰذا تقاضائے ایمان یہ ہے کہ ہر حال میں عبادت کئے جاؤ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس پہ بھروسہ ہو کہ اطاعت اور بندگی کا راز توکل میں ہے اگر امید اسی سے وابستہ ہوبھروسہ اسی پر ہو تو عبادت بھی اسی کی ہوگی اور آپ کا پروردگار آپ کے اعمال سے ہرگز غافل نہیں یعنی ذاتی طور پر مشاہدہ فرما رہا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 110 تا 113 اختلف (اختلاف کیا گیا) کلمۃ (حکم) سبقت (گذر گیا، گذر گئی) قضی (فیصلہ کردیا گیا) مریب (شبہ میں ڈالنے والا) کل (ہر ایک، سب کے سب) لیوفین (پورا کئے جائیں گے) استقم (سیدھا رہ) امرت (تجھے حکم دیا گیا ) تاب (متوجہ ہوا ، توبہ کی) لاتطغوا (نافرمانی نہ کرو) لاترکنوا (تم مائل نہ ہو) تمس (پہنچے گی ) اولیاء (ولی) ، دوست، حمایتی ) لاتنصرون (تم مدد نہ کئے جائو گے) تشریح :- آیت نمبر 110 تا 113 کفار و مشرکین اور مناقفین کو جب بھی موقع ملتا وہ دین اسلام اور نیب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک پر کیچڑ اچھالنے اور اسلام کی تعلیمات کو لوگوں کی نگاہوں میں بےوقعت اور بےقیمت بنانے میں کسر نہ چھوڑتے، کبھی مذاق اڑاتے، کبھی بےبنیاد پروپیگنڈا کرتے اور کبھی قرآن کریم کی بعض آیات کی تصدیق کرتے اور کبھی انکار ان باتوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو شدید ذہنی تکلیف پہنچتی تھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان ظالموں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور اللہ کے دین کو پہنچانے میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ یہ اسلام کے دشمن خود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ اس جگہ پر بھی اللہ تعالیٰ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں جو قرآن کریم میں اختلاف کر رہے ہیں یہ تو ان لوگوں کا وہ مزاج ہے جس پر یہ ہمیشہ سے چلے آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ کو توریت جیسی عظیم کتاب دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس میں بھی کجی اور ٹیڑھ پن تلاش کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فرمایا آج اگر یہ اسی روش پر چلتے ہوئے قرآن کریم میں اختلاف کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے۔ اللہ جب چاہے گا ان کے لئے فیصلہ کر دے گا لیکن اس اللہ نے ایک مدت مقرر کی ہوئی ہے جس میں ان کی جہالتوں کا ان کو بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ نے اگر یہ فیصلہ نہ کیا ہوا ہوتا تو ان کو وہ کسی بھی وقت تہس نہس کرسکتا تھا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خود اور وہ حضرات جنہوں نے کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرلی ہے اپنی جگہ پوری استقامت سے عمل کرتے رہیں اور ان کی طرف نہ دیکھئے جن کے لئے جہنم مقدر کردی گئی ہے اور ان کا بھیانک انجام ہے۔ اصلم میں مخالفت کے طوفانوں میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت اور کسب معاش میں اس طرح سے ڈٹ جانا کسی حال میں اس ڈگر سے نہ ہٹنا اور جم کر کفر، شرک ، منافقت اور بد دعات و خرافات کا مقابلہ کرنا نہیات مشکل کام ہے لیکن وہ لوگ جو ہر طرف سے منہ پھیر کر اللہ و رسول کی فرماں برداری میں حالات کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور بڑے سے بڑا لالچ اور تمنا ان کے پائے استقلال میں لرزش بھی پیدا نہیں کرتی تو وہی کامیاب و بامراد ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثاروں کو کفار و مشرکین نے ایسی ایسی تکلیفیں پہنچائیں اور ظلم و ستم کی انتہا کردی جن کے تصور سے روح بھی کانپ اٹھتی ہے لیکن ان کے قدموں میں ذرا بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ آج نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرم کی اسی استقامت نے دین اسلام کو دنیا کے ایک ایک کونے میں پہنچا دیا اور ان ہی کے صدقے میں آج ہم مسلمان ہیں۔ اگر وہ استقامت نہ دکھاتے تو صورتحال مختلف ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہی فرما رہے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے جاں نثار صبر و استقامت کے ساتھ حق و صداقت کیلئے ڈٹ جائیں، ان کفار کو اپنا کام کرنے دیں۔ انہوں نے نہ تو کل اللہ کے دین کو تسلیم کیا تھا اور نہ آج کریں گے۔ لیکن جو خوش نصیب ہیں وہ اسلام کی دولت سے ضرور مالا مال ہوں گے اور کفار و مشرکین اس دنیا میں اور آخرت میں سوائے برے انجام کے اور کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ کسی نے مانا کسی نے نہ مانا یہ کوئی آپ کے لیے نئی بات نہیں ہوئی پس آپ مغموم نہ ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : چند آیات پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے مقابلہ میں فرعون کا رد عمل اور اس کا انجام ذکر ہوا تھا اور اب پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر سورة ھود کا اختتام ہو رہا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کے معجزات کا انکار کیا تھا۔ فرعون سے آزادی ملنے کے بعد جب بنی اسرائیل کو تختیوں کی شکل میں مفصل کتاب عنایت کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر تورات کا انکار کیا کہ ہم اس وقت تک اس کے منجانب اللہ ہونے کا اقرار نہیں کریں گے۔ جب تک ہم براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل نہ کرلیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے۔ تب مجبور ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی۔ جس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے ستر (٧٠) نمائندوں کو لے کر کوہ طور پر گئے وہاں ان لوگوں کو ایک مختصر مدت کے لیے موت نے آلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجہ میں انہیں پھر زندگی عطا ہوئی تفصیل جاننے کیلئے الا عراف ١٥٥ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح ہی اہل مکہ اور یہود و نصاریٰ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اور بری طرح اس کتاب کے بارے میں ذہنی کشمکش کا شکار ہیں۔ آپ کا رب انہیں ان کے کردار کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ کیونکہ وہ ان کے فکر و عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مجرموں کی گرفت کا ایک اصول بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنے والے اور باغی، اللہ کی گرفت اور دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی سزا اور جزا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب یہ وقت پورا ہوجائے تو ہر کسی کو اس کے فکرو عمل کے مطابق دنیا میں ہی کچھ نہ کچھ جزا یا سزا مل جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رسی اللہ تعالیٰ اس قدر دراز کردیتا ہے انہیں دنیا میں کوئی خاص سزا نہیں ملتی۔ ایسے لوگوں کو ان کی موت کے بعد ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی۔ ٢۔ تورات کے بارے میں یہودیوں نے اختلاف کیا۔ ٣۔ کفار کتاب اللہ کے متعلق شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن جزا و سزا کا ایک وقت مقرر ہے : ١۔ تیرے پروردگار کی طرف سے اگر ایک بات پہلے سے مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (ھود : ١١٠) ٢۔ اگر تیرے پروردگار کی طرف سے پہلے سے بات مقرر نہ چکی ہوتی تو ان کے اختلافات کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (یونس : ١٩) ٣۔ اگر تیرے رب کے کلمات سبقت نہ لے چکے ہوتے تو ان لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ ( حم السجدۃ : ٤٥) ٤۔ تیرے رب کے کلمات اگر سبقت نہ لے جا چکے ہوتے تو ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا۔ (الشوریٰ : ١٤) ٥۔ اگر ایک بات کی تمہارے پروردگار کی طرف سے میعاد مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو عذاب لازم ہوجاتا۔ (طٰہٰ : ١٢٩) ٦۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٨١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيه (١١٠ : ١١) “ ہم اس سے پہلے موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کو کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا (جس طرح آج اس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے) ” قوم موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنی کتاب کے بارے میں بہت سے اختلافات کیے ، ان کے اعتقادات کیا سے کیا بن گئے اور وہ فرقے فرقے بن گئے۔ لیکن اللہ کی طرف سے حکم یہ تھا کہ ان کو تباہ نہ کیا جائے اور ان سے پورا پورا حساب قیامت کے دن لیا جائے۔ وَلَوْلا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ (١١٠ : ١١) “ اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصہل چکا دیا گیا ہوتا۔ ” اور اللہ کے اس کلمے اور فیصلے سے بھی پہلے اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا تھا کہ بنی اسرائیل کے مقدمے کو قیامت تک موخر کردیا جائے کیونکہ بنی اسرائیل اہل کتاب تھے اور تمام ایسے رسول جو اہل کتاب تھے ، ان کی امتوں کو قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی۔ کیونکہ کتاب اس بات پر دلیل تھی کہ ہدایت باقی ہے اور بعد کی نسلیں بھی ان پر اس طرح غور کرسکتی ہیں جس طرح انہوں نے غور کیا جن کی طرف نازل ہوئی تھی اور مادی معجزات اور خارق عادت امور کا معاملہ بالکل مختلف ہے کو ین کہ مادی معجزات کو صرف وہی لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے سامنے وہ معجزات ظاہر ہوئے لوگوں کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو ایمان لائیں اور یا پھر ہلاکت کے لیے تیار ہوجائیں۔ تورات اور انجیل دو مستقل کتابیں تھیں جو نزول قرآن تک لوگوں کے سامنے موجود تھیں۔ یہاں تک کہ قرآن مجید نازل ہوا۔ قرآن کریم نے تورات و انجیل کی تصدیق کی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ اب آخری کتاب ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور اب قیامت میں تمام انسانوں کا حساب و کتاب قرآنی احکام کی اساس پر ہوگا۔ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (١١٠ : ١١) “ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ” سے مراد یہ ہے کہ قوم موسیٰ اس کتاب کے بارے میں سخت خلجان میں ہے کیونکہ یہ کتاب موسیٰ ٰ (علیہ السلام) سے صدیوں بعد لکھی گئی اور اس کی آیات و مضامین کے بارے میں روایات میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا ، لہذا یہ کتاب قابل یقین نہ رہی۔ یہ درست ہے کہ عذاب موخر کردیا گیا ہے ، لیکن قیامت میں سب کو ان کے اعمال کی جزاء و سزا دی جائے گی اور یہ سزا ان لوگوں کو علیم وخبر دے گا جو ہر گز کسی چیز کو ضائع نہیں کرتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور توریت شریف کا تذکرہ ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کو استقامت پر رہنے کا حکم ان آیات میں اولاً موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ ہم نے انہیں کتاب دی تھی (یعنی توریت شریف) اس میں اختلاف کیا گیا کسی نے مانا کسی نے نہیں مانا اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں اگر لوگ اختلاف کر رہے ہیں کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا ‘ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آپ سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا موسیٰ (علیہ السلام) پر ہم نے کتاب نازل کی تو اسے بھی کسی نے مانا کسی نے نہیں مانا۔ پھر فرمایا (وَلَوْ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ ) (آپ کے رب کی طرف سے اگر پہلے سے ایک بات طے کی ہوئی نہ ہوتی تو اس کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق جو عذاب بھیجنے کی ایک اجل مقرر فرما رکھی ہے اگر اس کا تعین نہ کردیا گیا ہوتا تو جلدی عذاب بھیج کر ان کا فیصلہ کردیا جاتا اور معذب اور ہلاک ہوچکے ہوتے۔ (وَاِنَّھُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ ) (اور بلاشبہ یہ لوگ قرآن کی طرف سے بڑے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے تذبذب اور تردد میں ڈال رکھا ہے) ان کا وہی حال ہے جو ان لوگوں کا تھا جن کے لیے توریت شریف نازل کی گئی لہٰذا آپ رنج نہ کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

90:۔ یہ گویا سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال یہ کہ اگر قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے تو اس میں اختلاف کیوں کیا گیا سب نے کیوں نہیں مان لیا۔ جواب دیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات کو تو واقعی اللہ کا کلام مانتے ہو حالانکہ اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا بعض نے اس کو مانا بعض نے نہ مانا۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ بھی ہے اٰمن بہ قوم و کفر بہ قوم کما اختلف فی القران وھو تسلیة لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مدارک ج 2 ص 158) ۔ 91:۔ یہ سوال مقدرہ کا جواب ہے۔ مشرکین نے کہا اگر ہم نہیں مانتے تو ہمارا مواخذہ کیوں نہیں ہوتا۔ جواب دیا گیا مواخذہ اور عذاب کے لیے اجل مقرر ہے وہ اپنے وقت پر آئے گا اگر اس کے لیے وقت مقرر نہ ہوتا تو کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور وہ کبھی کے نیست و نابود کیے جا چکے ہوتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

110 اور ہم نے یقینا موسیٰ کو کتاب دی تھی سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی ایک بات پہلے سے مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو اب تک ان میں فیصلہ ہوچکا ہوتا اور یہ کافر اس کی طرف سے بڑے تردد انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں یعنی جس طرح قرآن کریم کے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف ہورہا ہے اسی طرح جن کو توریت دی گئی تھی ان کی امت نے بھی اختلاف کیا تھا اور اگر آپ کے پروردگار کی ایک بات پہلے سے طے شدہ نہ ہوتی کہ کامل اور فیصلہ کن عذاب آخرت ہی میں دیا جائے گا تو یہ جس بات میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ دنیا ہی میں کردیا جاتا اور یہ کفار مکہ اس عذاب کی جانب سے ایسے شک میں مبتلا ہیں کہ ان کو اطمینان ہی نہیں ہوتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کتاب دی تھی راہ بتانے کو لوگ اس کے سمجھنے میں اختلاف کرنے لگے اور لفظ آگے ہوچکا کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو 12