Surat Hood

Surah: 11

Verse: 12

سورة هود

فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿ؕ۱۲﴾

Then would you possibly leave [out] some of what is revealed to you, or is your breast constrained by it because they say, "Why has there not been sent down to him a treasure or come with him an angel?" But you are only a warner. And Allah is Disposer of all things.

پس شاید کہ آپ اس وحی کے کسی حصے کو چھوڑ دینے والے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے اور اس سے آپ کا دل تنگ ہے ، صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترا؟ یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی آتا ، سن لیجئے! آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں اور ہرچیز کا ذمہ دار اللہ تعالٰی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger grieving by the Statements of the Polytheists, and His Gratification Allah says; فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَأيِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاء مَعَهُ مَلَكٌ .... So perchance you may give up a part of what is revealed unto you, and that your breast feels straitened for it because they say, "Why has not a treasure been sent down unto him, or an angel come with him!" This statement of Allah, the Exalted, to His Messenger comforted the worries that the polytheists were causing him due to their statements directed towards him. This is just as Allah says about them, وَقَالُواْ مَا لِهَـذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِى فِى الاٌّسْوَاقِ لَوْلا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيراً أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّـلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلً مَّسْحُوراً And they say: "Why does this Messenger eat food, and walk about in the markets. Why is not an angel sent down to him to be a warner with him!" Or; "(why) has not a treasure been granted to him, or why has he not a garden whereof he may eat!" And the wrongdoers say: "You follow none but a man bewitched." (25:7-8) Thus, Allah commanded His Messenger and guided him to not let these statements of theirs grieve his heart. Allah directed him to not let these statements prevent him, or deter him from calling them to Allah, both day and night. This is as Allah said, وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ Indeed, We know that your breast is straitened at what they say. (15:97) Allah says in this verse, فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَأيِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ ... So perchance you may give up a part of what is revealed unto you, and that your breast feels straitened for it because they say... The meaning here is that he (the Prophet) may be compelled to give up the Message due to what they (the polytheists) say about him. However, Allah goes on to explain: ... إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ... But you are only a warner. "You (Muhammad) are only a warner and you have an example in your brothers of the Messengers who came before you. For verily, the previous Messengers were rejected and harmed, yet they were patient until the help of Allah came to them." ... وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ And Allah is a Guardian over all things. An Explanation concerning the Miracle of the Qur'an Then Allah says; أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

کافروں کی تنقید کی پراہ نہ کریں کافروں کی زبان پر جو آتا وہی طعنہ بازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں اسلیے اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر کو دلاسا اور تسلی دیتا ہے کہ آپ نہ اس سے کام میں سستی کریں ، نہ تنگ دل ہوں یہ تو ان کا شیوہ ہے ۔ کبھی وہ کہتے ہیں اگر یہ رسول ہے تو کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ بازاوں میں کیوں آتا جاتا ہے؟ اس کی ہم نوائی میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر؟ اسے کوئی خزانہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ اس کے کھانے کو کوئی خاص باغ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو اس کے پیچھے چل رہے ہو ۔ جس پر جادو کر دیا گیا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر آپ ملول خاطر نہ ہوں ، آزردہ دل نہ ہوں ، اپنے کام سے نہ رکئے ، انہیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجئے ، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیئے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی تکلیف دہ باتیں آپ کو بری لگتی ہیں ، آپ توجہ بھی نہ کیجئے ۔ ایسا نہ ہو آپ مایوس ہوجائیں یا تنگ دل ہو کر بیٹھ جائیں کہ یہ آوازے کستے ، پھبتیاں اڑاتے ہیں ۔ اپنے سے پہلے کے رسولوں کو دیکھئے سب جھٹلائے گئے ستائے گئے اور صابر و ثابت قدم رہے یہاں تک اللہ کی مدد آپہنچی ۔ پھر قرآن کا معجزہ بیان فرمایا کہ اس جیسا قرآن لانا تو کہاں؟ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی ساری دنیا مل کر بنا کر نہیں لا سکتی اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ جیسی اس کی ذات مثال سے پاک ، ویسے ہی اس کی صفتین بھی بےمثال ۔ اس کے کام جیسا مخلوق کا کلام ہو یہ ناممکن ہے ۔ اللہ کی ذات اس سے بلند بالا پاک اور منفرد ہے معبود اور رب صرف وہی ہے ۔ جب تم سے یہی نہیں ہو سکتا اور اب تک نہیں ہو سکا تو یقین کر لو کہ تم اس کے بنانے سے عاجز ہو اور دراصل یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کا علم ، اس کے حکم احکام اور اسکی روک ٹوک اسی کلام میں ہیں اور ساتھ ہی مان لو کہ معبود برحق صرف وہی ہے بس آؤ اسلام کے جھنڈے تلے کھڑے ہو جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 مشرکین نبی کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا، یا اس کی طرف سے کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ' ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں ' ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ سورة الحجر اس آیت میں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں ممکن ہے آپ وہ انھیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے، وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] آپ قریش مکہ کے معبودوں کو نہ کوئی گالی دیتے تھے اور نہ ہی انھیں برا بھلا کہتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اسی بات پر مشرکین چڑ جاتے تھے کیونکہ اس بات کو وہ اپنے معبودوں کی بھی توہین تصور کرتے تھے اپنی بھی اور اپنے آباؤ اجداد کی بھی۔ اس بات کا کوئی معقول جواب تو ان کے پاس تھا نہیں اس کے بجائے وہ یہ کرتے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑانے لگتے، کبھی تکذیب کرتے اور کبھی کچھ اعتراضات یا مطالبے شروع کردیتے ممکن ہے ان کی مسلسل اس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ انھیں ایسی آیات سنانے کا کیا فائدہ ہے جبکہ وہ ایمان لانے کے بجائے الٹا چڑ جاتے ہیں اور پھبتیاں کسنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان باتوں سے آپ کو رنجیدہ خاطر اور تنگ دل نہ ہونا چاہیے جو وحی آپ پر نازل ہو رہی ہے آپ انھیں سنا دیا کریں۔ آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان سے خود نمٹ لے گا۔ قریش کی معجزہ طلبیاں :۔ قریش مکہ کے اعتراضات یا مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تم پر اللہ کی طرف سے کوئی خزانہ بھی نازل ہونا چاہیے تھا جس سے تمہاری مالی حالت بہتر ہوجاتی اور اس مادی قوت کے بل بوتے پر ہی تم لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے یا کوئی فرشتہ ہی تمہارے ساتھ موجود رہنا چاہیے تھا جس سے تمہیں روحانی طاقت بھی حاصل ہوجاتی اور لوگوں کو بھی تمہاری نبوت کا یقین ہوجاتا اور وہ تم پر ایمان لے آتے جب ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں میسر نہیں تو ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں ؟ آپ کافروں کی ان باتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ معجزے دکھلانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں اور انھیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ رہی معجزے کی بات تو معجزے دکھلانا اللہ کا کام ہے جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ ۔۔ : کفار ہر وقت کوئی نہ کوئی معجزہ لانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ چلیے آپ احد پہاڑ ہی سونے کا بنا دیجیے، یا کوئی فرشتہ ہی ساتھ لے آئیے۔ ان کی عجیب و غریب فرمائشوں کا ذکر سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) اور سورة فرقان (٧، ٨) میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے۔ ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آ کر آپ پریشان اور غم زدہ نہ ہوجائیں، بلکہ شرک کی مذمت کے لیے اور توحید کے اثبات کے لیے جو بھی وحی آئے آپ کسی بھی کمی بیشی کے بغیر ان تک پہنچاتے رہیں۔ یہ نہ ہو کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی اور شرک کی مذمت ہے۔ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ : یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کیے بغیر آپ اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہیں۔ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے، ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو آپ کو ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپ پر سیکٹروں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت اور حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا، آپ کو ان چیزوں سے کیا غرض ؟ ہر چیز کا نگران وہ خود ہے۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کا جو حکم آئے بےدھڑک ان کو سناتے رہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (12) has been revealed about a particular event. What happened was that the Mushriks of Makkah placed a host of de¬mands before the Holy Prophet One of these was, ` our idols have been maligned in this Qur&an, therefore, we cannot believe in it. So, you should either bring some other Qur&an, or improve it by making alterations in it:;i ائْتِ بِقُرْ‌آنٍ غَيْرِ‌ هَـٰذَا أَوْ بَدِّلْ (Bring a Qur&an other than this, or change it - Yunus, 10:15) &. (Al-Baghawi, Mazhari) Another demand they came up with was, ` we are to believe in your prophesy only when some treasure, like the treasures of the kings of the world, is sent down for you and which you dole out to everyone around. Or that some angel descends from the heavens and hangs out with you everywhere testifying that you were a Messenger of Allah in all certainty.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) felt the pinch of these absurd, even disrespectfully audacious demands in his heart. The reason was that he was mercy for all the worlds. It was not possible for him to leave them to their fate and take out the hope that they might someday be¬lieve from his heart. Nor was it possible for him to fulfill their absurd demands. To begin with, these demands were based on bland irration¬ality. If idols, idol-worship and things like that are not called what they are, what would become of right guidance and how would it be done? And then this brain wave of demanding a treasure from a prophet was a loud miss-match with his mission. They had simply tak¬en the station of a prophet on the analogy of the status of a king. Similarly, it is not the practice of Allah Ta&ala that He would create condi¬tions under which people were materially compelled to start professing the Faith. Otherwise, the whole world is within His power and control. Who could dare profess a belief, and act according to it, against the will of Allah Ta` ala? But, it is in His infinite wisdom that He has made this world a place of test. No material means are used here to compel people to do something good or to abstain from something bad. Cer¬tainly, what is done here is through Scriptures and Apostles. Lines are drawn between virtue and vice. Good and bad are separated. The outcome of each is explained. That is how people are invited and exhorted to do what is right and abstain from what is evil. And if some angel were to be miraculously attached to a prophet to attest to the veracity of his word, it would have posed problems. When no one believed it, he would have faced cash punishment on the spot. In that case, this would have been a modality of compelling people to believe. This kind of belief would have not been believing without seeing which is the es¬sence of belief and faith, nor would there be any choice left for man to make which is the essence of his deed. As for the demands of those people, they were, no doubt, absurd and audacious. But, there is another aspect to it. The very act of making such demands proved that these people were grossly unaware of the status and reality of a mes¬senger and prophet of Allah. They saw no difference between Allah and His Messenger. They even took the messenger to be absolutely powerful like Allah, therefore, they demanded that he should do for them what could not be done by anyone other than Allah. In brief, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) became very sad because of such demands, this verse was revealed to comfort him and to revitalize his thinking. Addressing him first, it was said: Would you - surrendering to the pressure of these people - leave out some part of the Qur&an, sent by Allah, which they do not like, such as a part where it talks about the utter helplessness of idols? Would you, then, still be disturbed in the face of such demands? The introduction of the state¬ment in verse 12 with the word: aW (la&allaka: Is it then expected of you) does not mean that something like that could be expected of him actually. Instead, the purpose is to establish that he was free from such things. He would not leave out any part of the Qur&an in consider¬ation of their insistence, nor does he have to be sad, concerned and straitened over their demands. The reason is that he has been sent from Allah as nadhir, as one who warns people against what is harm¬ful for them, then, Allah takes care of the rest for He is powerful over everything. Nadhir has been mentioned here particularly because those being addressed were kafirs, and kafirs deserve nothing but warning against the consequences of their deeds. Otherwise, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not simply nadhir, one who warns, he is bashir too, one who announces glad tidings for people who do good deeds. In addition to what has been said here about the mission of a nadhir, we should understand that, in reality, nadhir is a person who warns out of love and affection against what is evil and harmful. Therefore, in a way, the sense of bashir, a giver of glad tidings, is included in the sense of nadhir, a giver of warning.

چوتھی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مختلف قسم کی فرمائشیں پیش کیں ایک یہ کہ اس قرآن میں ہمارے بتوں کو برا کہا گیا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے، اس لئے یا تو آپ کوئی دوسرا قرآن لائیں یا اسی میں بدل کر ترمیم کردیں، ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ ( بغوی، مظہری) دوسرے یہ کہ ہم آپ کے رسول ہونے پر جب یقین کریں کہ یا تو دنیا کے بادشاہوں کی طرح آپ پر کوئی خزانہ نازل ہوجائے جس سے سب کو بخشش کریں، یا پھر کوئی فرشتہ آسمان سے آجائے وہ آپ کے ساتھ یہ تصدیق کرتا پھرے کہ بیشک یہ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی لغو و بیہودہ فرمائشوں سے دل تنگ ہوئے، کیونکہ رحمۃ للعالمین سے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ان کے ایمان لانے کی فکر کو دل سے نکال دیں، اور نہ یہ ممکن تھا کہ ان کی بےہودہ فرمائشوں کو پورا کریں، کیونکہ اول تو یہ فرمائشیں نری بےعقلی پر مبنی ہیں، بت اور بت پرستی اور دوسری بری چیزوں کو برا نہ کہا جائے تو ہدایت کیسے ہو اور خزانہ کا نبوت کے ساتھ کیا جوڑ، ان لوگوں نے نبوت کو بادشاہت پر قیاس کرلیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں کہ ایسی حالت پیدا کردیں کہ لوگ ایمان لانے پر مادی طور سے مجبور ہوجائیں، ورنہ سارا جہاں اس کے قبضہ قدرت میں ہے کسی کی کیا مجال تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل رکھ سکتا، مگر اس نے اپنی حکمت بالغہ سے اس دنیا کو دار الامتحان بنایا ہے، یہاں کسی نیکی پر عمل یا بدی سے پرہیز پر مادی اسباب کے ذریعہ کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا البتہ آسمانی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ نیک و بد اور اچھے برے کا امتیاز اور ان کے نتائج بتلا کر نیکی پر عمل اور بدی سے پرہیز پر آمادہ کیا جاتا ہے، اگر رسول کے ساتھ معجزانہ طور پر کوئی فرشتہ اس کے قول کی تصدیق کے لئے مامور ہوتا اور جب کوئی نہ مانتا تو اسی وقت اس کو نقد عذاب کا سامنا ہوتا تو یہ ایمان پر مجبور کرنے کی ایک صورت ہوتی نہ اس میں ایمان بالغیب رہتا جو ایمان کی اصل روح ہے اور نہ انسان کا اپنا کوئی اختیار رہتا جو اس کے عمل کی روح ہے اور علاوہ اس کے کہ ان کی فرمائشیں لغو اور بےہودہ تھیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی فرمائشیں کرنا خود اس کی دلیل تھی کہ یہ لوگ رسول و نبی کی حقیقت کو نہیں پہچانتے، رسول اور خدا میں کوئی فرق نہیں کرتے، رسول کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق سمجھتے ہیں اسی لئے اس سے ایسے کاموں کی فرمائش کرتے ہیں جو اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ غرض رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایسی فرمائشوں سے سخت دلگیر اور دل تنگ ہوگئے تو آپ کی تسلی اور ان کے خیالات کی اصلاح کے لئے یہ آیت نازل ہوئی، جس میں پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا گیا کہ کیا آپ ان کے کہنے سے مجبور ہو کر اللہ کے بھیجے ہوئے قرآن کا کوئی حصہ چھوڑ دیں گے جس سے یہ لوگ ناخوش ہوتے ہیں، مثلا جس میں بتوں کی مجبوری و بےکسی اور کسی چیز پر قادر نہ ہونے کا بیان ہے، اور کیا آپ ان کی ایسی فرمائشوں سے دل تنگ ہوجائیں گے، یہاں لفظ لَعَلَّكَ سے اس مضمون کو تعبیر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع آپ کے بارے میں ایسا گمان ہوسکتا تھا، بلکہ مقصود آپ کا ان چیزوں سے بری ہونا بیان کرنا ہے کہ آپ نہ قرآن کا کوئی حصہ ان کی رعایت سے چھوڑ سکتے ہیں اور نہ آپ کو ان کی فرمائشوں سے دل تنگی ہونی چاہئے، کیونکہ آپ تو اللہ کی طرف سے نذیر یعنی ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں اور سب کاموں کو سرانجام دینا تو اللہ ہی کی قدرت میں ہے، ڈرانے والے کی تخصیص مخاطب کی خصوصیت کی وجہ سے کی گئی کیونکہ یہ کافر تو ڈرانے ہی کے مستحق ہیں ورنہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے نذیر یعنی ڈرانے والے ہیں ایسے ہی بشیر یعنی نیک لوگوں کو خوشخبری سنانے والے بھی ہیں، اس کے علاوہ نذیر درحقیقت اس ڈرانے والے کو کہتے ہیں جو شفقت و محبت کی بنا پر خراب اور مضر چیزوں سے ڈرائے، اس لئے نذیر کے مفہوم میں بشیر کا مفہوم بھی ایک حیثیت سے شامل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِہٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَہٗ مَلَكٌ۝ ٠ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۝ ١٢ ۭ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے ضيق الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] ( ض ی ق ) الضیق والضیق کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ كنز الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] أي : مال عظیم . ( ک ن ز ) الکنز ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم میں جو تبلیغ رسالت اور ان کفار کے معبودوں کی تردید اور برائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سو شاید ان کے مذاق سے تنگ آکر آپ اس کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ اور ان امور کے پورا کرنے میں آپ کا دل کفار مکہ کی اس بات سے تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آسمان سے کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا تاکہ آپ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزارتے یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا جو ان کی نبوت کی گواہی دیتا، آپ تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ڈرانے والے پیغمبر ہیں اور ان کی باتوں اور ان کو عذاب دینے پر پورا اختیار رکھنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ ہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَهٗ مَلَكٌ ۭ ) یہ مضمون اس سے پہلے بڑی وضاحت کے ساتھ سورة الانعام میں آچکا ہے لیکن زیر مطالعہ گروپ کی مکی سورتوں میں بھی جا بجا مشرکین کی ایسی باتوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں گروپس میں شامل یہ تمام مکی سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ یہاں مکی سورتوں کی ترتیب مصحف کے بارے میں ایک اہم نکتہ سمجھ لیں۔ رسول اللہ کے قیام مکہ کے بارہ سال کے عرصے کو اگر چار چار سال کے تین حصوں میں تقسیم کریں تو پہلے حصے یعنی پہلے چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئیں وہ قرآن مجید کے آخری دو گروپوں میں شامل ہیں ‘ یعنی سورة قٓ سے لے کر آخر تک۔ درمیانی چار سال کے دوران نازل ہونے والی سورتیں درمیانی گروپوں میں شامل ہیں اور آخری چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ شروع کے دو گروپوں میں شامل ہیں۔ ایک گروپ میں سورة الانعام اور سورة الاعراف جبکہ اس دوسرے گروپ میں سورة یونس تا سورة المؤمنون (اس میں صرف ایک استثناء ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا) ۔ (اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ) اس دور کی سورتوں میں مختلف انداز میں بار بار حضور کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا فرض منصبی یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو خبردار کردیں۔ اس کے بعد تمام معاملات اللہ کے حوالے ہیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ ایمان یا ہدایت کی توفیق کسے دینی ہے اور کسے نہیں دینی۔ کوئی معجزہ دکھانا ہے یا نہیں نافرمانوں کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب ان پر عذاب بھیجنا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. In order to fully understand the verse one should take mental note of the circumstantial background of its revelation. At the time this verse was revealed, Makka was the centre of the Quraysh who had a preponderant influence over the whole of Arabia because of their religious prestige, wealth, trade, and political power. At the very moment when the Quraysh were at the zenith of their power and authority, a Makkan - the Prophet - stood up and vehemently denounced the religion of which they were custodians as a bundle of ignorance and error. He also condemned the social system of which they were standard-bearers, calling it rotten to the core. He also warned them of an impending punishment from God. He emphasized that the only way to avert this punishment was to accept the true faith and righteous order of life which he had expounded to them on God's behalf. The only thing which this man had to make people believe he had been appointed by God to communicate His message, was the purity of his character and the utter reasonableness of his teaching. In addition, there was apparently nothing in the milieu except the deep-rooted wrongs which had corrupted the religious, moral and social life of the Quraysh that would suggest that God's punishment was close at hand. On the contrary, all portents indicated that the Makkans enjoyed God's plenteous favours and of the deities which they worshipped. Thus, apparently they had every reason to believe that they were on the right path. If, under such circumstances, someone in the manner of the Prophet (peace be on him) were to strongly denounce the prevalent way of life, it was hardly surprising that all except a very few right-thinking people who had access to the truth would become his inveterate enemies. This enmity found its expression in a myriad of forms. Some people sought to suppress the Prophet (peace be on him) by resorting to harsh methods of repression. Others tried to undermine his position by false accusations and vicious propaganda. Some discouraged him with their bigoted indifference and frowning, while others resorted to jests, pranks, taunts, and ridicule in order to dismiss his message as absurd. It is clear that such a hostile attitude would have been heart-breaking for the Prophet (peace be on him). This would have been especially so since the hostility persisted for several years. It is under these trying circumstances that God consoled the Prophet (peace be on him). He comforted him by saying that it is people of low mettle who turn boastful in prosperity and become downcast and despondent in adversity. A worthy person in God's sight pursues righteousness with patience and courage. Hence, the Prophet (peace be on him) should not be shaken by the bigoted opposition, the aversion, the ridicule and mockery, and the foolish objections which he was subjected to by the unbelievers. On the contrary, he should have no hesitation, despite all the opposition he faced, in calling people to the truth revealed by God. In fact, he should not even permit a moment's reluctance in proclaiming the truth for fear that he would be ridiculed for propagating those teachings. Nor should he shrink from performing his duty to preach because some of those teachings would be too unpalatable for his people even to hear. For the main task of the Prophet (peace be on him) was to continuously state the truth, uncompromisingly and fearlessly, and regardless of those who accepted it and those who did not. Once this duty had been performed, it was pointless worrying whether it would be of any effect. In that regard, the Prophet (peace be on him) ought to place his reliance entirely on God.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :13 اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے ۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار ، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے ۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے ، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے ، خدا کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اس مذہب حق اور اس نظام صالح کو قبول کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں ۔ اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو ۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا ( اور ان کے عقیدے کے مطابق ) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا ، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے ۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اڑا کر ، آوازے اور پھبتیاں کس کر ، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے ۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے ، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے ، ظاہر ہے ۔ بس یہی صورت حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور برے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے ۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پامردی کے ساتھ چلنے والا ہو ۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بے رخی سے ، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے ۔ جو صداقت تم پر بذریعہ وحی منکشف کی گئی ہے اسکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعا کوئی باک نہ ہو ۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، تم جسے حق پاتے ہو اسے بےکم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو ہمارا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں رہے گا۔ اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ جو وحی آپ پر نازل کی جا رہی ہے، اس کا کوئی حصہ آپ ان لوگوں کو راضی کرنے کے لیے چھوڑ بیٹھیں۔ لہذا ان کی ایسی باتوں سے آپ زیادہ رنجیدہ نہ ہوں، کیونکہ آپ کا کام تو یہ ہے کہ انہیں حقیقت سے آگاہ فرما دیں اس کے بعد یہ لوگ مانیں، یا نہ مانیں، یہ آپ کی نہیں، خود ان کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ لوگ جو فرمائشیں کر رہے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ نازل ہو، تو بھلا نبوت کا خزانے سے کیا تعلق ہے؟ تمام تر اختیار اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ اپنی حکمت کے تحت فیصلہ فرماتا ہے کہ کونسی فرمائش پوری کرنی چاہئے اور کونسی نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ترجمہ بعض مفسرین کے اس قول پر مبنی ہے۔ قیل : ان لعل ھنا لیست للترجی بل للتعبید۔ وقیل انھا للاستفہام الانکار۔ (روح المعانی ج :12 ص : 307، 706)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ اس آیت کی شان نزول اور اس آیت کے معنے بیان کرنے سے پہلے ایک تمثیل بیان کی جاتی ہے اس تمثیل کے سمجھ لینے کے بعد اس آیت کا مطلب اور اس آیت کی شان نزول دونوں خوب سمجھ میں آجاویں گے وہ تمثیل یہ ہے کہ فرض کیا جاوے کہ ایک شخص زید اہل حرفت ہے اور اس نے بڑی محنت سے بہت دنوں میں ایک کام سیکھا اور اب اس کی عمر بھی اس قابل نہیں کہ وہ دوسرا کوئی کام سیکھ سکے اور خاندان اور برادری کے وتیرہ اور عادت سے یہ ممکن بھی نہیں کہ زید دوسرا کام کرسکے۔ ایسی حالت میں زید اپنا کام کرتے کرتے اپنے کام میں کچھ دقتیں پا کر اپنے کسی دوست سے ان دقتوں کو بیان کرے اور زید کا دوست فہمائش کے طور پر زید سے یہ کہے کہ کیا تم ان دقتوں کے سبب سے اپنے کام کو چھوڑ دو گے۔ اس فہمائش سے زید کے دوست کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زید کا اپنے کام کو چھوڑ دینے کا ارادہ ہے کیوں کہ یہ تو زید کے دوست کو خوب معلوم ہے کہ زید سے یہ کام چھوٹ نہیں سکتا بلکہ زید کے دوست کی فہمائش کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام تو تم سے چھوٹنا ممکن نہیں ہے پھر جو دقتیں اس کام میں پیش آتی ہیں ان کو جھیلو اور کام کرو اسی طرح تسکین کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ جب کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن شریف کے حق میں طرح طرح کی باتیں بناتے تھے کہ اس قرآن میں سے ہمارے بتوں کی مذمت کا ذکر نکال ڈالو کبھی اور کچھ اسی قسم کی باتیں کرتے تھے کہ قرآن خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنالیا ہے اللہ کا کلام ہوتا تو ہمارے روبرو آسمان سے فرشتہ اس کی تصدیق کو آتا کبھی کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوتے تو ایسے حال کیوں رہتے ان کے حکم میں ضرور دنیا بھر کا خزانہ ہوتا اب مطلب آیت کا یہ ہے کہ نبی اللہ کے یہ تو ممکن نہیں کہ ان کفار مکہ کی ایسی باتیں بنانے پر تم ان کی مخالف طبیعت آیتوں کو ان کو سنانا چھوڑ دو کیونکہ کل نبی اس بات سے معصوم پیدا کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ کا ہر طرح کا حکم صاف صاف بغیر اپنی کسی ذاتی تصرف کے امت کو پہنچا دیویں اس لئے جب تک اللہ تعالیٰ تم کو قوت دیوے اور ان کافروں کو زیر کرے ان کی باتوں کا کچھ خیال نہ کرو اور اپنا کام کئے جاؤ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تسکین کے بعد اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیتوں میں کافروں کی اس بات کا جواب دیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن خود بنا لیا ہے حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ اگر ایسا کلام انسان سے بنایا جانا ممکن ہے تو تم کو اجازت ہے کہ تم اکیلے یا اپنے جھوٹے معبودوں سے مدد لے کر اس طرح کا کچھ کلام بنا کر پیش کرو اور اگر تمہارے جھوٹے معبود تم کو اس کام میں کچھ مدد نہ دیں تو جان لو کہ یہ کلام اسی سچے معبود کا ہے جو اپنی ذات اپنی صفات اپنے کلام میں سب سے نرالا ہے سو اس کے بعضے مفسروں نے اس آیت کے معنے جو بیان کئے ہیں وہ نبی معصوم کی شان کے بالکل مخالف ہیں۔ اس لئے صحیح معنے یہی ہیں جو بیان کئے گئے ہیں کیونکہ یہ وہ معنے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر کی آیت { ولقد نعکم انک یضیق صدرک بما یقولون (١٥: ٩٧)} میں فرمائے ہیں۔ جب قرآن کی تفسیر قرآن میں ہے تو اس سے بڑھ کر اور کون سی تفسیر ہوسکتی ہے اس سورة الحجر کی آیت میں فقط اتنا ذکر ہے کہ مشرکین مکہ کی بیہودہ باتوں کے سبب سے اللہ کے رسول رنجیدہ خاطر رہتے تھے بعضے مفسروں کے قول کے موافق اس رنجیدہ خاطری کے ساتھ اگر اللہ کے رسول کا یہ ارادہ بھی ہوتا کہ بتوں کی مذمت کی آیتوں کو مشرکین مکہ سے چند روز پوشیدہ رکھا جاوے تو خفگی کے طور پر اس مکی سورت میں اس کا ذکر بھی ضرور ہوتا ترمذی ابوداؤد وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) حضرت عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی روایتیں گزر چکی ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص دین کی کسی بات کو جان بوجھ کر پوشیدہ رکھے گا۔ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جاوے گی۔ ١ ؎ اس معتبر حدیث سے بھی اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے جو اوپر تمثیل دے کر بیان کی گئی کیوں کہ اللہ کے رسول نے جس بات سے امت کے علماء کو ڈرایا ہے یہ ممکن نہیں کہ اللہ کے رسول خود اپنے لئے اس بات کو روا رکھیں کس لئے کہ انبیاء کے دل میں اللہ کا خوف بہ نسبت امت کے بہت زیادہ ہوتا ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ بہ نسبت تم لوگوں کے میں اللہ سے زیادہ ڈرتا ہوں ٢ ؎ { واللّٰہ علی کل شئی وکیل } کا یہ مطلب ہے کہ اے رسول اللہ کے تمہارے ذمہ فقط اللہ کے حکم کا پہنچا دینا ہے پھر اس حکم کے ماننے والوں کی جزا اور نہ ماننے والوں کی سزا یہ سب اللہ کے ذمہ ہے۔ ١ ؎ مشکوۃ ص ٣٤ کتاب العلم۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٧ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:12) لعلک۔ لعل اور ک پر مشتمل ہے۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر ہے اور لعل حرف مشابہ بفعل ہے۔ حرف عامل ہے اسم کو نصب دیتا ہے اور خبر کو رفع۔ ان یا ان۔ کان لیت لکن لعل۔ ناصب اسم اندرافع درخبر ضدما ولا۔ امید و خوف پر دلالت کرنے کیلئے آتا ہے۔ (1) امید کا رجوع کبھی متکلم کی طرف ہوتا ہے ۔ جیسے لعلنا نتبع السحرۃ (26:40) فرعون کی قوم والوں نے کہا ” ہم کو امید ہے کہ (اگر وہ جیت گئے تو) ہم جادوگروں کی پیروی کریں گے “۔ یہاں امید کا رجوع خود یہ کلام کرنے والوں کی طرف تھا۔ (2) کبھی مخاطب کو امید دلانے اور امیدوار رکھنے کے لئے آتا ہے اس وقت امید کا رجوع مخاطب کی طرف آتا ہے کیونکہ امید و بیم کی کیفیت مخاطب کے دل سے متعلق ہے مثلاً لعلہ یتذکراویخشی (20:42) شاید وہ غور کرلے یا ڈرجائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاؤ اس سے کہو کہ ہم اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ امید لے کر جاؤ کہ ” شاید و ہ غور کرے یا ڈر جائے “۔ یہاں امید دلانے کا تعلق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) سے ہے۔ (3) کبھی امدی کا تعلق نہ متکلم سے ہوتا ہے اور نہ مخاطب سے بلکہ کسی تیسرے شخص غائب سے ہوتا ہے۔ جیسے فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک (آیۃ ہذا 11:12) اگر تمہارے متعلق یہ گمان کرتے ہیں کہ مد شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو ۔ یہاں یہ امید کی کیفیت لوگوں کے دلوں میں ہے لعل حرف مشبہ بفعل ہے اور ہ۔ ک۔ نا۔ ہم اس کا اسم۔ لعل۔ کا حرف جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطعیت آجاتی ہے۔ اس بناء پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی لینا صحیح نہیں ہے۔ لعل طمع اور اشفاق (ڈرتے ہوئے چاہیے) امید اور خوف۔ بیم ورجاء کے معنی ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لعلہ۔ شاید وہ۔ لعلک۔ شاید تم۔ لعلنا شاید ہم وغیرہ۔ وضائق بہ۔ ضائق تنگ ہونے والا۔ ضیق سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ۔ الضیق کے معنی تنگی کے ہیں۔ یہ سعۃ کی ضد ہے وضائق بہ صدرک اس خیال سے تمہارا دل تنگ ہو۔ اس کا عطف تارک پر ہے۔ وکیل۔ نگہبان۔ نگران۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ ان آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن وتشنیع سے تنگ آکر کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں بلکہ مشرک کی مذمت اور توحید کے اثبات کے متعلق جو وحی بھی آئے اسے بلا کم وکاست ان تک پہنچاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی ہے۔ (ابن کثیر) ۔ 1 ۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عذاب سے ڈرانے ولا بنا کر بھیجا ہے لہذا بلو خوف لومۃ لائم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فریضہ کو سرانجام دیتے ہیں۔ (از وحیدی) ۔ 2 ۔ یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سینکڑوں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت و حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان چیزوں سے کیا غرض۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کا جو حکم آئے بےدھڑک ان کو مناتے رہیں۔ (کذا فی الوحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 12 تا 14 لعلک (شاید کہ آپ) تارک (چھوڑنے والا) ضائق (تنگ ہونے والا) کنز (خزانہ) ملک (فرشتہ) عشر سور (دس سورتیں) مفتریت (گھڑی گئیں) استطعتم (تم میں طاقت ہو، استطاعت ہو) لم یستجیبوا (انہوں نے جواب نہ دیا) اعلموا (تم جان لو) مسلمون (فرماں بردار، گردن جھکانے والے ) تشریح : آیت نمبر 12 تا 14 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے اس لئے مبعوث فرمایا تھا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو اس صراط مستقیم کی طرف دعوت دیں جن میں ان کی حقیقی کامیابی اور بھلائی ہے۔ جب آپ اللہ کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش فرماتے تو کفار و مشرکین چاروں سے آپ کو عاجز و بےبس کرنے کے لئے طرح طرح کے اعتراضات کرتے تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تو اس پیغام کو پہنچانا چھوڑ دیں یا کم از کم اس میں نرمی کا رویہ اختیار فرمائیں جس میں ان کی بت پرست اور جاہلانہ رسموں پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کی طرف سے بد اعمالیوں اور کفر و شرک میں مبتلا لوگوں کو ان کے برے انجام اور نیک راہوں پر چلنے والوں کے لئے آخرت کی تمام بھلائیوں کی خوش خبری دینے والے بنا کر (بشیر و نذیر) بھیجے گئے ہیں۔ آپ اپنے فرض منصبی کو پورا کیجیے اور اللہ کے دین اور اصولوں میں کسی طرح کی نرمی اختیار نہ کیجیے۔ کفار و مشرکین آپ کو جھٹلانے ، طعنے دینے، مذاق اڑانے اور ہر طرح پریشان کرنے اور بہت سے فضول مطالبات سے رنجیدہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔ کبھی وہ کہتے۔ 1) ہم اسلامی تعلیمات کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس میں ہمارے بتوں اور رسموں کو برا کہا گیا ہے۔ 2) فرمائش کرتے کہ یا تو کوئی دوسرا قرآن لے آئیں یا اس میں ایسی ترمیم کردیں جس میں ہمارے بتوں اور رسموں کو برا نہ کہا گیا ہو۔ 3) کبھی کہتے کہ ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا جو ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتا تو ہم یقین کرلیتے۔ 4) کبھی کہتے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ کے پاس مال و دولت کے خزانے کیوں نہیں ہیں اگر آپ احد کے پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا کردیں تو ہم یقین کرلیں گے۔ غرضیکہ یہ اور اسی طرح کے بہت سے طعنے دیتے تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاجز و بےبس ہو کر رہ جائیں اور آپ کو اتنا ستایا جائے اور پریشان کیا جائے کہ آخر کار آپ دین کے اصولوں میں نرمی اختیار فرما لیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کفار عرب کو ایک دفعہ پھر یہ بتا دیا ہے کہ یہ قرآن اور اس کی تعلیمات حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سے نہیں گھڑ لیں کہ لوگوں کے دبائو میں آ کر پہلے کہی گئی باتوں کو چھوڑ کر دین کیا صولوں میں ترمیم کردیں بلکہ یہ اس کا کلام ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کو ہدایت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی کی ذمہ داری ہے۔ انبیاء کرام کا کام حق و صداقت کی راہوں کو کھول کر پیش کرنا ہے تاکہ ہر شخص کے سامنے ہر اچھے اور برے کام کا انجام آجائے ۔ آگے اس کا اپنا فصلہ ہے کہ وہ کس راستے کو اختیار کرتا ہے۔ اگر کوئی جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم اور بد نصیبی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ اسی فیصلے پر اس کا انجام ہوگا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کو کہئے دیجیے اللہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ رہی یہ بات کو قرآن کریم کو نعوذ باللہ آپ نے گھڑ لیا ہے تو فرمایا کہ ان سے کہہ دیجیے کہ تم بھی اہل زبان ہو بلکہ تمہیں تو اپنی زبان دانی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ اپنے مقابلے میں دوسروں کو گونگا کہتے ہو۔ فرمایا کہ اس قرآن کے سامنے سب عاجز و بےبس ہو کر کیوں رہ گئے ہو ؟ فرمایا کہ قرآن تو ایک عظیم اور بہت بڑی کتاب ہے تم اور تمہارے سارے مددگار مل کر قرآن جیسی دس سورتیں بنا کر کیوں نہیں لے آتے۔ اگر تم ایک سورت بھی بنا کر نہیں لاسکتے تو ان احمقانہ اور جاہلانہ باتوں میں پھنس کر اپنی آخرت کو کیوں تباہ کر رہے ہو۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر یہ لوگ اللہ کے اس کھلے چیلنج کو قبول نہیں کرتے اور اس کا جواب نہیں دیتے تو پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے پورے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے اور وہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے قابل نہیں ہے۔ ان کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اللہ و رسول کے سامنے اپنی گردن جھکا دیں اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کا طریقہ اختیار کریں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صبر کا اجروثواب ذکر کرنے کے بعدرسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور اطمینان دلایا گیا ہے۔ جس میں بالواسطہ صبر کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےپناہ اخلاص اور انتھک محنت کے ساتھ صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے کہ جس راہ پر تم چلے جا رہے ہو یہ تمہیں تباہی کے گھاٹ اتار دے گا۔ لیکن لوگ سمجھنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر مختلف قسم کے الزامات اور آپ سے الٹے سیدھے مطالبات کرتے۔ ان مطالبات میں یہ مطالبے بھی تھے کہ تم کیسے رسول ہو کہ نہ تیری تائید اور حمایت کے لیے فرشتہ بھیجا گیا اور نہ ہی تجھے خوشحالی حاصل ہے۔ تیرے پاس تو کثیر مال ہونا چاہیے تھا۔ اس کے جواب میں ایک طرف رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ اے نبی ! آپ کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے اعمال کے انجام سے متنبہ فرمائیں۔ ہم نے آپ کو چوکیدار مقرر نہیں کیا۔ لہٰذا ! نہ آپ کو دل تنگ کرنا چاہیے اور نہ ہی وحی میں سے کچھ حصہ چھوڑنے کا خیال آنا چاہیے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ ایسا کرنے کے لیے سوچتے تھے۔ بلکہ اس سے آپ کے دل کی پریشانی اور غم بیان کرنا مقصود اور تسلی دینا مطلوب ہے، جس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ کیا آپ ایسے الزامات اور اعتراضات سے پریشان ہو کر وحی کا کچھ حصہ چھوڑ دیں گے ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی بات کا المائدۃ آیت ٦٧ میں یوں حکم دیا : ” اے رسول جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا یقیناً اللہ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “ دوسری طرف کفار کو سمجھایا گیا کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے۔ تو تمہارے انجام کا فیصلہ موقع پر ہی کردیا جاتا۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو بھی عرصہ دراز تک مہلت دیے رکھتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف کس قدر بےاصول اور سفلی مزاج تھے کہ وہ بیک موقع اور زبان ایک طرف یہ مطالبہ کرتے کہ آپ کی تائید میں ایک فرشتہ کی ڈیوٹی ہونی چاہیے تھی۔ دوسری طرف کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیتے اور اسی زبان سے یہ الزام دیتے کہ آپ پر جادو ہوچکا ہے۔ ایسے بےاصول اور بدزبان لوگوں کے بارے میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کی بجائے فقط اتناہی فرمائیں کہ میں رسول ہوں چوکیدار نہیں۔ مسائل ١۔ وحی میں سے کوئی بات چھوڑدینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہ تھا۔ ٢۔ کفار نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خزانہ اترنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ کفار آپ کے ساتھ فرشتے کی تائید کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کارساز ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی، مبلغ ہوتا ہے نہ کہ چوکیدار : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٢۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٣۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٤۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨) ٥۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس : ١٧) ٦۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو کو توال نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ : ٢١۔ ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کی مخلوقات میں سے جو لوگ سنن الہیہ سے واقف نہیں ہوتے ، اللہ کی حکمت تخلیق سے وہ بےبہرہ ہوتے ہیں۔ وہ کم فہم ، غافل ، مایوس ، متکبر اور جھوٹی باتوں پر فخر کرنے والے ہوتے ہیں جن کو معلوم نہیں ہے کہ رسولوں کے بھیجنے کی حکمت کیا ہوتی ہے اور پھر یہ کہ رسول انسانوں میں سے کیوں بھیجے گئے ہیں اس قسم کے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خود رسول فرشتہ کیوں نہیں ہے یا اس کے ساتھ فرشتہ مامور کیوں نہیں ہے ؟ یہ لوگ رسول اور رسالت کے مقام سے اس قدر بیخبر ہوتے ہیں کہ رسول کے لیے مالدار ہونا ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہ لوگ جھوٹے عقائد میں گم رہتے ہیں اور یہ لوگ تکذیب کے لیے اس قسم کے بھونڈے جواز تلاش کرتے ہیں۔ لہذا آپ متاثر نہ ہوں۔ ۔۔ لعل کا مفہوم یہاں استفہامی ہے۔ اگرچہ خالص استفہامی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نفس انسانی سے شاید متوقع یہی ہے کہ ایسے حالات میں وہ تنگ دل ہوجائے اور اس کام ہی کو چھوڑ دے۔ کیونکہ لوگ جہالت اور عناد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور اس قسم کی بوگس اور لا یعنی تجاویز پیش کر رہے ہیں ، جن کو رسالت کے مزاج اور اس کی عمل نوعیت اور منصب کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس صورت حالات کے بارے میں ایک متبادل اور ناقابل عمل صورت پیش کرکے سوال کرتا ہے کہ حالات گو برے ہیں لیکن آپ ان میں کیا اپنی دعوت اور ما انزل اللہ کا کچھ چھوڑ سکتے ہیں ، شاید کہ وہ اس جاہلیت اور بغض وعناد کا مظاہر نہ کریں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ آپ ان باتوں کو تو چھوڑ نہیں سکتے۔ انما انت نذیر (آپ تو خبر دار کرنے والے ہیں) آپ کے فرائض تو یہی ہیں کہ آپ پورا پورا پیغام پہنچا کر لوگوں کو ڈرائیں۔ اور ڈرانا اس لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں کہ انہیں ڈارنا ضروری ہے لہذا آپ اپنے فرائض سر انجام دیتے چلے جائیں۔ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۔ آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔ اللہ ہی ان سب کا ذمہ دار ہے اور وہ اپنی سنت کے مطابق جس طرح چاہے گا ، انہیں پھیر دے گا۔ اور اس کے بعد جو کچھ وہ کمائیں گے اس کی جزاء و سزا دے گا۔ آپ ان کے ذمہ دار یا حوالہ دار نہیں ہیں۔ نہ آپ ان کے کفر کے ذمہ دار ہیں اور ایمان کے۔ آپ تو فقط نذیر ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تحریک کس قدر مشکل حالات سے گزر رہی تھی اور اس دور میں آپ کے دل پر کس قدر بوجھ تھا۔ خصوصاً جبکہ تحریک کے حامی اور مددگار اور خاندانی معاون فوت ہوگئے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر پریشانی کا غلبہ تھا۔ اور مسلمانوں کی قلیل تعداد مشکلات میں گھری ہوئی تھی اور ہر طرف مایوسی کے باد چھائے ہوئے تھے۔ اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ کس قدر مشکل حالات تھے اور ان حالات میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی جانب سے کس قدر تسلی اور اطمینان دلایا جا رہا تھا اور آپ کے اعصاب کو کس قدر سکون اور تازگی عطا ہو رہی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین کو چیلنج کہ قرآن جیسی دس سورتیں بنا کر لائیں شروع سورت میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی اور اس کی صفت قدرت صفت رازقیت اور صفت خالقیت کو بیان فرمایا پھر بعث بعد الموت کے منکرین کی تردید فرمائی۔ پھر انسان کا مزاج بتایا کہ وہ نعمتوں کے چلے جانے پر ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ اور نعمتیں ملنے پر شیخی بگھارتا ہے اور فخر و غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ انسان کی یہ صفات آخرت پر ایمان نہیں لانے دیتی ہیں اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ توحید کی بھی دعوت دی اور آخرت پر ایمان لانے کا بھی حکم فرمایا لیکن یہ لوگ نہ اللہ کے رسول کو مانتے تھے اور نہ اللہ کی کتاب پر ایمان لاتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے لئے انہوں نے یہ بات نکالی تھی کہ یہ کیسے رسول ہیں نہ کوئی خزانہ ان کو دیا گیا اور نہ ان کے ساتھ کوئی فرشتہ آیا جو ان کی تصدیق کرتا ان باتوں کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھ ہوتا تھا اور قلبی اذیت پہنچتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ تنگدلی کی وجہ سے بعض ان چیزوں کو چھوڑ تو نہ بیٹھیں گے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہیں اور وہ کافروں کو ناگوار ہیں اور چونکہ آپ ایسا نہیں کرسکتے لہٰذا تنگ دل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر فرمایا (اِنَّمَا اَنْتَ نَذِیْرٌ) (آپ صرف ڈرانے والے ہیں) اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ آپ نے اللہ کی بات پہنچا دی ‘ آپ کی ذمہ داری اتنی ہی ہے۔ (وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ) (اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا اختیار ہے) یہ لوگ جو معجزات کی فرمائش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق معجزات ظاہر فرمائے یا ظاہر نہ فرمائے ‘ جو معجزات سامنے ہیں وہ کیا کم ہیں جسے ماننا نہیں وہ فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی نہ مانے گا ‘ ان کے سامنے جو معجزات موجود ہیں ان میں قرآن مجید بہت بڑا معجزہ ہے اس قرآن کے بارے میں کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سے بنا لیا ہے ‘ آپ ان سے فرما دیجئے کہ تم اس جیسی دس سورتیں اپنی بنائی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اور اس کے مقابلہ میں پیش کرو اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بنایا ہوا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تم ہی میں سے ایک فرد ہیں جنہوں نے کسی سے کچھ بھی نہیں پڑھا تم فصحاء بلغاء ہو تو قرآن جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور دو چار دس افراد نہیں جس جس کو بھی چاہو اس کام کے لئے بلا لو اور اپنے ساتھ لگا لو یہ بہت بڑا چیلنج ہے جسے آج تک کوئی بھی قبول نہیں کرسکا۔ جس کے سامنے بات آئی ہر ایک اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ‘ پہلے دس سورتیں بنانے کا چیلنج کیا گیا تھا پھر ایک سورت بنا کر لانے کے لئے فرمایا گیا کسی سے کچھ نہ ہوسکا درحقیقت قرآن بہت بڑا معجزہ ہے اور دائمی معجزہ ہے۔ آخر میں فرمایا (فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ ) (الایۃ) جن جن کو قرآن جیسی سورت بنانے کی دعوت دو ۔ وہ جتنے بھی ہوں جہاں بھی ہوں اگر وہ تمہاری بات کو قبول نہ کریں اور اس بارے میں تمہاری مدد کے لئے کھڑے نہ ہوں (تو سمجھ لو کہ تمہارا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنا لیا ہے) (فَاعْلَمُوْا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَاَنْ لَّا اِلٰہَ الاَّ ھُوَ ) سو تم جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ نازل ہوا ہے اور یہ بھی جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) حقیقت ثابت اور واضح ہونے کے بعد اسلام میں داخل ہوتے ہو یا نہیں ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15: تیسرا دعوی : مایوحی کی تبلیغ میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ یہ تیسرے دعوے کا بیان ہے اگر مسئلہ توحید بیان کرنے پر مشرکین طرح طرح کے طعن اور اعتراض کریں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچانے کی کوشش کریں مثلًا وہ کہیں کہ اگر یہ پیغمبر خدا ہے تو اس کے پاس دولت دنیا کے خزانے کیوں نہیں یا اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں آیا جو لوگوں میں اس کی صداقت کا اعلان کرتا پھرے۔ ایسا نہ ہو خہ ان کی باتوں سے آپ تنگدل اور آزردہ خاطر ہو کر مَا یُوْحیٰ اِلَیْکَ (مسئلہ توحید) کے بعض پہلوؤں کو بیان ہی نہ کریں۔ آپ ان کے مطاعن و اعتراضات کی پرواہ نہ کریں اور مسئلہ کھول کر بیان کریں۔ اِنَّمَا انْتَ نَذِیْرٌ : آپ کی ذمہ داری اور ڈیوٹی صرف تبلیغ و انذار ہے اگر وہ نہیں مانتے تو ان کو سزا دینا اللہ کا کام ہے۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ: کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال سے باخبر ہے یعنی لیس علیک الانذار بما یوحی الیک ولا علیک شیء ان ردوا وافترحوا او قالوا ائت بقران غیر ھذا فما بالک تترک بقولھم (وَکِیْل) یحفظ ما یقولون فیجازیھم (مظہری ج 5 ص 72) ۔ 16: اَنْ مصدریہ ہے اور اس سے پہلے حرف جار مقدر ہے اور وہ ضَآئِقٌ کے متعلق ہے ای من ان یقولوا او لان یقولوا یا اس سے پہلے مضاف محذوف ہے اَیْ کَرَاھِیِّۃ اَنْ یَّقُوْلُوْا (قرطبی ج 9 ص 12) اس صورت میں وہ ضائق کا مفعول لہ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 سو شاید جو احکام آپ کی جانب وحی کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں کیا ان میں سے آپ بعض احکام کی تبلیغ کو چھوڑ دیناچاہتے ہیں اور آپ کا دل کافروں کی اس بات سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہے تو اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوا اے پیغمبر آپ تو ان کفار کو صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر شئی پر مختار کار اور پورا اختیار رکھنے والا تو اللہ ہی ہے یعنی کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کفار کی باتوں سے تنگ ہوکر احکام کی تبلیغ یا احکام کے کچھ حصے کی تبلیغ ترک کردیں تو آپ ایسا نہیں کرسکتے پھر ان کے لغو اعتراضات سے تنگ دل نہ ہوا کیجئے کوئی فرشتہ ان کے ہمراہ کیوں نہیں نازل ہوا یعنی ایسا فرشتہ جس کو ہم بھی دیکھتے اور ہماری اس سے بات چیت ہوتی آپ کام ڈرانا ہے یعنی آپ کا جو کام ہے وہ کیجئے خزانہ کا اتارنا یا فرشتے کا ان کو دکھانا ان باتوں سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔