Surat Hood

Surah: 11

Verse: 123

سورة هود

وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُ الۡاَمۡرُ کُلُّہٗ فَاعۡبُدۡہُ وَ تَوَکَّلۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾٪  10

And to Allah belong the unseen [aspects] of the heavens and the earth and to Him will be returned the matter, all of it, so worship Him and rely upon Him. And your Lord is not unaware of that which you do.

زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالٰی ہی کو ہے تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے ، پس تجھے اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالٰی بے خبر نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah, the Exalted, informs that He is the All-Knower of the unseen of the Heavens and the Earth and that unto Him is the final return. Allah says; وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الاَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ... And to Allah belongs the Ghayb of the heavens and the earth, and to Him return all affairs (for decision). So worship Him and put your trust in Him. He explains that everyone who does a deed, He will give them their deed (reward for it) on the Day of Reckoning. Unto Him belongs the creation and the command. Then He, the Exalted, commands that He should be worshipped and relied upon, for verily, He is sufficient for whoever trusts and turns to Him. Concerning His statement, ... وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ And your Lord is not unaware of what you do. This means, `The lies (of the disbelievers) against you O Muhammad are not hidden from Him. He is the All-Knower of the conditions of His creatures and He will give them the perfect recompense for their deeds in this life and the Hereafter. He will aid you (Muhammad) and His party over the disbelievers in this life and in the Hereafter.' This is the end of the Tafsir of Surah Hud, and all praises and thanks are due to Allah.

علم غیب اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے آسمان و زمین کے ہر غیب کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ عزوجل ہی ہے ۔ اسی کی سب کو عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ جو بھی اس پر بھروسہ رکھے وہ اس کے لیے کافی ہے ۔ حضرت کعب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تورات کا خاتمہ بھی انہیں آیتوں پر ہے اللہ تعالیٰ مخلوق میں سے کسی کے کسی عمل سے بےخبر نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ : سب کو اسی کے پاس جانا ہے، پھر وہی ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۝ ٠ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ١٢٣ۧ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٣) اور بندوں سے جو چیزیں پوشیدہ ہیں اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور بندوں کے سب امور آخرت میں اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے لہذا سی کی اطاعت کیجیے اور اس پر بھروسہ رکھیے اور آپ کا رب ان کی نافرمانیوں سے بیخبر نہیں یا یہ کہ ان کے اعمال کی سزا سے وہ فروگزاشت کرنے والے نہیں جس طرح کہ وہ ان سے غافل نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

117. God is cognizant of all that is being done by the two panics engaged in the encounter between belief and unbelief. It is simply inconceivable that there should be chaos and disorder in God's realm. For God's realm is not the realm of a negligent, heedless sovereign who is unaware of what is going on, However, since God is Wise and Forbearing, He does not resort to punishing people hastily. However, justice is eventually meted out and those who deserve punishment are ultimately punished. Thus, all those who are engaged in the effort to bring about reform, should feel reassured that their efforts will not be wasted. On the other hand, there are also those who are engaged in making and perpetuating mischief, who have focused all their efforts on brutally persecuting reformers and suppressing their reform efforts. Such people should know that all their evil deeds are known to God, and that they will be made to pay very dearly for these misdeeds.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :117 یعنی کفر واسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے ۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیر نگر چوپٹ راجہ کی مصداق نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شہ بے خبر کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو ۔ یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے ۔ جو لوگ اصلاح کی کوشش کر رہے وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہونگی ۔ اور وہ لوگ بھی جو فساد کرنے اور اسے برپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں ، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم وستم توڑ رہے ہیں ، اور جنہوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے ، انہیں خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مسنگ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ سب کو اسی کے پاس جانا ہے پھر وہی ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس فرمان میں ایک طرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور دوسری طرف داعی حق کے لیے تسلی ہے کہ جو خدمت وہ سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ انجام کار اور صلہ اس کی جناب میں موجود ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دل چھوٹا کرنے اور مخالفین کی مخالفت کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت یعنی اس کی یاد میں مگن رہیں اور اس کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں۔ آپ کا رب نہ آپ کی بےمثال محنت واخلاص سے غافل ہے اور نہ ہی حق کے منکروں اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی سازشوں اور شرارتوں سے بیخبر ہے۔ توکل کا معنی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق ومالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کرے۔ جو اپنے رب پر بھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی ‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ (وَمَنْ یَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمرِہٖ قَد جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیءٍ قَدرًا) [ الطلاق : ٣] ” جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے اللہ کافی ہے۔ اللہ اپنا حکم نافذ کرکے رہتا ہے اس نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ “ (وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ) [ یوسف : ٦٧] ” اس پر ہی بھر وسہ کرنے والوں کو اعتماد کرنا چاہیے۔ “ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے۔ کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل ہی نہیں اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جب اپنے جواں سال بیٹوں کو شہرمصر کی طرف روانہ کیا تو اس وقت کچھ ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں شہر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ میری طرف سے یہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ انجام کار تو اللہ ہی کے اختیار میں ہوا کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہے۔ ٢۔ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی دسترس میں ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کیا جائے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ھود : ١٢٣) ٢۔ جب کسی کام کا عزم کرو تو اللہ پر توکل کرو۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کو کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٤۔ مومنوں کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ : ١٠) ٥۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٦۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی نصیحت کی گئی۔ (النمل : ٧٩) ٧۔ حضرت نوح نے فرمایا میں نے اللہ پر توکل کیا ہے تم اپنی تدبیریں اور شریک جمع کرکے زورلگالو۔ (یونس : ٧١) ٨۔ حضرت ہود نے فرمایا میں نے اپنے اللہ پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ (ہود : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ (123:12) ّآسمانون اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قضبہ قدرت میں ہےٗ ۔ ان تمام امور کے آخری فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ اے پیغمبر تمہارے معاملات اور اہل ایمان کے تمام معاملات اور ان کو گون کے معاملات جو ایمان نہیں لاتے اور تمام موجودہ مخلوقات کے معاملات اور اہل ایمان کے تمام معاملات ۔ اور ان لوگوں کے معاملات جو ایمان نہیں لاتے اور تمام موجوسہ مخلوقات کے معاملات اور تمام آنے والے مخلوقات کے معاملات سب کے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (١١ : ١٢٣) اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ پس اے نبی ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ، جو کچھ تم لوگ کررہے ہو ، تیرا رب اس سے بیخبر نہیں ہے ٗٗ ۔ چونکہ تمام امور اسی کی طرف برائے فیصلہ لوٹتے ہیں اس لیے وہی اس قابل ہے کہ اس کی بندگی جائے ۔ وہی اس قابل ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے ، کیونکہ وہی ولی ہے وہی جانتا ہے کہ کس کی کیا ضرورت ہے اور وہ ہر خیر اور شر سے واقف ہے ۔ اس کے ہاں کسی کی جزائ ضائع نہیں ہوتی اور کوئی سزا سے بچ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔ وہ تمہارے کسی عمل سے غافل نہیں ہے ۔ غرض اس سورت کا آغاز بھی عبادت انابت الی اللہ اور آخر کار رجوع الی اللہ کے مضمون سے ہوا ، تو اس کا خاتمہ بھی توحید ، عبادت توبہ انابت اور آخرکار اللہ کی طرف لوٹنے کے مضامین پر ہوا جبکہ ان مضامین کی وضاحت اس پوری کائنات کے مطالعے ار تاریک انسانی کے مطالعے کے ذریعے کی گئی ۔ اسی طرح قرآن کریم کا فنی حسن کلام کے آغاز و انجام میں یگانگت پیدا کردیتا ہے اور قرآن کریم کے تمام قصص ، مضامین اور ان کا فکری رخ باہم متناسب بن جاتے ہیں اور اگر یہ قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں بیشمار فکری تضادات موجودہوتے ۔ جو شخص اس سورت میں بات کی روانی ، بلکہ تمام مکی قرآن کریم کے کلام کا ہدف معلوم کرنے کی کوشش کرے تو اسے آسانی کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس پورے کلام میں ایک لائن اختیار کی گئی ۔ اس لائن پر پورا کلام آگے بڑھ رہا ہے بلکہ یہ لائن اس کلام کا محور ہے اور پورا کلام اس محور اور موضوع کے گردگھوم رہا ہے ۔ تمام خطوط اس مرکزی نکتے پر آکر ملتے ہیں اور اس کے تمام ریشے اس محور کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ یہ محور نظریہ حیات اور اس قصورحیات کا محور اور موضوع ہے جس کے اردگرد کلام گھوم رہا ہے ۔ وہ کیا ہے ، یہ کہ قرآن انسان کے لیے ایک مکمل نظام زندگی تجویز کرتا ہے اور اس کا قیام چاہتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ ہم اس مرکزی لائن ، اس محور اور اس عمود پر قدرے بحث کریں ۔ اس کا اظہار اس پوری سورت میں اچھی طرح ہوتا ہے ۔ بعض نکتے تو ہم بیان بھی کر آئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس تبصرے میں ربط قائم کرنے کے لیے ان کو دربارہ یہاں لے لیں ۔ ایک نہایت ہی اہم حقیقت اس پوری سورت میں بیان کی گئی ۔ اس سورت کی ابتدائی تمہیدی آیات میں بھی ، اس سورت کے قصص میں بھی جن میں پوری سورت اور پوری تاریخ انسانی کی لائن دی گئی ہے ۔ اور اس سورت کی اختتامی آیات میں بھی جہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ مشرکین کو صاف صاف بتادیں کہ وہ آخری نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں ، وہ حقیقت ہے کیا ؟ اس پوری سورت میں جس اہم مسئلے کو لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگ صرف اللہ کی ّّعبادت ٗٗکرو اور اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی ّّعبادت ٗٗکرو ، اور یہ کہ عبادت ہی دراصل پورے نظام زندگی یعنی ّّدین ٌٗکانام ہے ۔ اور ہر قسم کی سزا کی دھمکی اور ہر قسم کی جزائ کے وعدے اور حشر کے دن کا حساب و کتاب اور ثواب عقاب سب کے سب اسی بنیادی عقیدے اور اصول پر مبنی ہیں جیسا کہ ہم نے سورت کے مقدمے میں بھی کہا کہ ّّعبادت ٗٗصرف اللہ کی کرو۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قرآن نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے کیا منہاج اختیار کیا ہے اور اس منہاج کی اہمیت کیا ہے ؟ صرف اللہ کی ّّعبادتٗٗ کرنے کو قرآن کریم جن صیغوں اور طریقوں میں ادا کیا ہے ایک ان میں سے یہ ہے کہ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُه (٥٠) ّّاے برادران قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہےٗٗ ۔ اور دوسرا طریقہ ہے۔ أَلا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (٢) ّّاللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے نذیر اور بشیر ہوں ٗٗ ۔ ان دونوں اندارہائے تعبیر میں فرق یہ ہے کہ ایک امر ہے اور دوسرے میں نہیں ہے ۔ کیا مثبت امر اور منفی اور ممانعتی انداز تعبیر میں کوئی فرق ہے یا ایک ہی مفہوم ہے ؟ پہلے انداز تعبیر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسکے سوا کوئی قابل پرسش قدر ہی نہیں ہے اور دوسرے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیر اللہ بندگی نہ کرو ۔ دوسرا مفہوم پہلے مفہوم کا تقاضا ہے ۔ پہلا مفہوم تو ثابت مفہوم ، ہے اور صراحت کے ساتھ حکم ہے اور دوسرا مفہوم اسکا لازمی نتیجہ ہے ۔ لیکن اللہ نے صرف پہلے انداز یعنی مثبت حکم ہی پر اکتفانہ کیا بلکہ دوسرے الٰہوں کی بندگی سے بھی صراحت کے ساتھ ممانعت کردی حالانکہ اگر دوسرا منفی مفہوم کو مستقلا بیان کیا جاتا تو بھی وہ پہلے مثبت حکم کا لازمی تقاضا تھا۔ پھر ایک ہی بات کو مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے کیوں بیان کیا گیا اس لیے کہ اللہ کے ہاں یہ بات نہایت ہی اہم ہے اور اس اہمیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر اکتفائ نہیں کیا کہ نہی عبادت الٰہی کے منطوق کا لازمی نتیجہ ہے اس لیے اس کے تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس اہمیت پیش نظر اسے منفی صیغوں سے بھی بیان کیا گیا۔ مثبت اور منفی عبادت میں توحید کے عقیدے کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو ، یہ مثبت اور منفی انداز بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض اوقات انسانیت پر ایسے حالات آجاتے ہیں کہ انسان خدائے بزرگ و برتر کے وجود کے بھی قائل ہوتے ہیں لیکن وہ اللہ کے ساتھ ساتھ دوسری شخصیات اور الٰہوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کی بھی عبادت کرتے ہیں ۔ یوں لوگ درحقیقت شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ صرف اس وجہ سے عقیدہ توحید کو امرونہی اور بیک وقت مثبت ومنفی انداز میں بیان کیا گیا تاکہ ایک حکم دوسرے کے مئوید اور مئوکد ہو اور تاکہ عقیدہ توحید کے اندر کوئی جھول اور کوئی سوراخ نہ رہے ۔ جس سے شرک اندر آسکے ۔ یہ انداز تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر وہرایا گیا ہے ۔ اس کے چند نمونے اس سورت سے نیز دوسری سورتوں سے قابل ملاحظہ ہیں : الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (١) أَلا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (٢) یہ کتاب ہے جس کی آیات کو محکم بنایا گیا پھر ان کو مفصل کیا گیا ، اس ذات کی طرف سے جو حکیم اور خبیر ہے ، یہ کہ نہ عبادت کرو ماسوائے اللہ کے ، میں تمہارے لیے اس کی جانب سے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں “۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ (٢٥) أَنْ لا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ (٢٦) ” بیشک ہم نے بھیجا نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف ، اس نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا ڈرانے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرہ۔ تمہارے بارے میں عذاب الیم سے ڈرتا ہوں “ ‘۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلا مُفْتَرُونَ (٥٠) ” اور عاد کی طرف ان کا بھائی ہو ، اس نے کہا اے برادر ان قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی الٰہ نہیں ہے ، تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں “۔ وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ 51؀ ” اور اللہ نے کہا ، دو الٰہہ نہ بناؤ یہ حقیقت ہے کہ الٰہ صرف ایک ہے ، بس مجھ ہی سے ڈرو “۔ مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 67؀ ” ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے “۔ ” میں اپنے چہرے کو یکسو ہو کر اس ذات کی طرف پھیر تا ہوں جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں “۔ توحید اور اس کی حقیقت کے بیان میں یہ اندازباربار قرآن میں آتا ہے اور اس مفہوم میں کوئی شک نہیں رہتا۔ اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اس عقیدے کی اہمیت اور عظمت کیا ہے ۔ اور یہ انداز اس لیے کیا گیا ہے کہ اس عقیدے کے ضمنی تقاضون اور ضمنی مفہومات کو بھی واضح اور منصوص طریقے سے لایا جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلوق کو اچھی طرح جانتے تھے اور اللہ نے اس طرح اس انسان کے مفاد میں ضروری سمجھا کہ عقیدہ تو حید کے کسی بھی پہلو میں کوئی اجمال اور کوئی جھول نہ رہے ۔ اور اللہ تو حکمت بلیغہ کا مالک ہے ، وہ اپنی مخلوق کی کمزوریوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور نہایت ہی باریک بین اور خبردار ہے ۔ اب ہم لفظ ” عبادت “ کے اصطلاحی معنی پر غور کرتے ہیں ۔ یہ لفظ اس سورت اور پورے قرآن مجید میں بار بار استعمال ہوا ہے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ قرآن کریم بار بار کیوں اس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی اور کی عباد نہ کرو ۔ اور یہ کہ اس لفظ کو مثبت اور منفی صیغوں میں تاکید بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے قبل قصہ ہود اور ان کی قوم کے ساتھ حضرت ہود کے مکالمے کے ضمن میں ہم نے ” العبادۃ “ “ کے مفہوم کو اچھی طرح واضح کیا ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ اس نکتے کو قرآن کریم کیوں بار بار لاتا ہے اور یہ کہ اس نکتے پر کس طرح انسانی تاریخ میں انبیاء اور مصلحین نے زور دیا ہے ؟ اور اس راہ میں انہوں نے کیا کیا مشکلات پر داشت کی ہیں لیکن اس تشریح کے علاوہ یہاں ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مفہوم کے بارے چند اور جھلکیاں یہاں دے دیں۔ عبادت کا یہ مفہوم کہ اسکا اخلاق ان مراسم پر ہوتا ہے جو اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہوتے ہیں اور یہ مفہوم بمقابلہ ان معاملات کے ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ نزول قرآن کے وقت مروج نہ تھے ۔ عبادات ومعاملات دو الگ اصطلاحات بعد میں درج ہوئی ہیں ۔ اسلام کے عہد اول اور دور نزول قرآن میں یہ تفریق نہ تھی۔ اس سے قبل ہم اپنی کتاب (خصائص التصور الاسلامی ومقوماتہ ) میں اس کے بارے میں تفصیلات دی ہیں ۔ مناسب ہے یہاں چند فقرے نقل کردیں۔ ” انسانی اعمال اور سرگرمیوں کی یہ تقسم کہ اس کا ایک حصہ ” عبادات “ پر مشتمل ہے اور دوسراحصہ معاملات پر مشتمل ہے ۔ اسلامی تاریخ کا اس دور سے متعلق ہے جس میں فقہ کی تدوین ہوئی ۔ ابتداء میں اس تقسیم کی غرض وغایت صرف علوم ومضامین کی فنی ترتیب وتدوین تھی۔ جس طرح کسی فن کی کتابوں کی ترتیب وتدوین میں ہوتارہتا ہے ۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ محض اس فنی تقسیم کی وجہ سے اسلامی تصورات اور نظریات میں بہت ہی برے نتائج پیدا ہوئے۔ اور اس تصوراتی اور نظریاتی کجی کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی عملی زندگی پر بھی برا اثر مرتب ہوا۔ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوگیا صرف وہی اعمال عبادت ہیں جن کا تعلق خدا کی پرستش کے مراسم سے ہے اور فقہی تقسیم کے مطابق دوسری سرگرمیاں جن کو فقہ میں ” معاملات “ “ کے عنوان سے بیان کیا گیا ۔ ان پر عبادت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ بات اسلامی تصورحیات کے مطابق اصل بات سے انحراف ہے ۔ اور اس کی بےراہ روی کی وجہ سے مسلمانوں کی پوری زندگی میں انحراف پیدا ہوگیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعمال میں سے کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس پر لفظ عبادت کا اطلاق نہ ہوتا ہو بلکہ اسلامی نظام حیات کا ہرجزواول سے لے کر آخر تک عبادت الٰہی کے لیے ہے ۔ غرض اسلامی نظام کے اجزاء یعنی نظام حکومت وسیاست ، اقتصادی نظام ، اسلام کا قانون جرائم اور اسلام کا سول لاء ، اسلام کا عائلی قانون اور تمام دوسرے قوانین درحقیقت عبادات ہیں ۔ اور یہ تمام قوانین لفظ عبادت کے مفہوم کو بروئے کا لانے کے لئے وضع ہوئے ہیں۔ لیکن انسان کی تمام سرگرمیاں اسلامی نظام کے مطابق اور لفظ عبادت کی تعریف میں تب آئیں گی جب وہ قرآن وسنت اور اسلامی شریعت کے مطابق ہوں۔ اس طرح کہ ایک مسلمان اللہ وعدہ کو الٰہ اور خدا سمجھے ۔ صرف اس کی بندگی اور عبادت کا اقرار کرے۔ اور پوری زندگی اس نظام کے مطابق عملاً بسر کرے۔ اور یہی تخلیق انسان اور تخلیق کائنات کی اصل غرض وغایت ہے ، اگر ایسا نہ ہوگا تو انسان اسلامی نظام کی اسکیم سے خارج ہوگا اور وہ دین اسلام کے اندر تصورنہ ہوگا۔ وہ مضامین اور شعبے جن کے لئے فقہاء ” عبادات “ استعمال کیا ہے ، اگر ان پر غور کیا جائے اور قرآن کریم میں ان کے بارے میں جو احکام دیئے گئے ہیں ، ان کو پڑھائے جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ شعبے اور مضامین قرآن نے ان شعبوں اور مضامین سے علیحدہ نہیں پیش کیے جن پر فقہاء نے لفظ معاملات کا اطلاق کیا ہے بلکہ دونوں قسم کے احکام قرآن اور سنت میں ایک ہی سیاق کلام میں باہم مربوط آتے ہیں اور ان کا ذکر اس طرح ہوا کہ دونوں ہی خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور خدا کی بندگی اور عبادات کے مفہوم میں آتے ہیں جس کے لیے اللہ نے زمین و آسمان اور جن وانس کو پیدا کیا ہے اور یہی مفہوم ہے لا الٰہ الا اللہ اور توحید کا ہے۔ تاریخ اسلام میں ازمنہ متاخرہ میں اس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ اگر وہ عبادات کے حصے پر عمل پیراہوں اور عبادات احکام خداوندی کے مطابق سرانجام دیں اور اگر معاملات میں وہ کسی دوسرے نظام کے پیرو ہوں اور معاملات میں وہ اللہ کے بجائے کسی اور ذریعے اور ماخذ سے ہدایات لیں تو بھی وہ مسلمان ہوسکتے ہیں ، حالانکہ قانون سازی اور زندگی کی ضابطہ بندی کے دوسرے نظام اللہ کے احکام خلاف ورزی کیوں نہ کررہے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے یہ ان کی خالص خوش فہمی ہے ۔ اسلام کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسلامی نظام کے حصے بخرے کیے جاسکتے ہیں ۔ اسلام کو اس انداز اور اس نہج پر جو بھی تقسیم کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارک ہوگا اور اس کا اس دین سے کوئی تعلق نہ ہوگا ۔ یہ ہے وہ عظیم حققت جس کی فکر ہر مسلمان کو کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اسلام کو حقیقی اسلام بنائے۔ بشرطیکہ وہ اللہ کے اس مقصد کو پورا کرنا چاہئے جس کے لیے اللہ نے اس کی تخلیق کی ہے۔ یہ ہیں وہ چند مقصدی فقرے جو ہم نے اپنی کتاب خصائص التصور اسلامی سے نقل کیے ۔ ان فقروں پر ہم صرف چند کلمات کا اضافہ ہی کریں گے ۔ جو ہم اس سے پہلے اس پارے میں مفصل بیان بھی کردیئے ہیں کہ جن عربوں کے سامنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یلا الہ الا اللہ کی دعوت پیش کی اور کہا تھا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے کہ وہ عرب اس لفظ کو صرف پرستش کے معنی میں نہ بولتے تھے اور نہ ان کو فقہاء کی تقسیم عبادات و معاملات کا علم تھا بلکہ مکہ میں جب یہ حکم آیا کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو تو اس وقت اسلامی عبادات ابھی تک فرض ہی نہ تھیں۔ بلکہ ان کے نزدیک عبادت کا مفہوم یہ تھا کہ پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں دے دو اور اپنی پوری زندگی کو غیر اللہ کی اطاعت میں سے نکال دو اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عدی ابن حاتم سے احبار وریان کے بارے میں فرمایا بلی انہم ْْ ہاں اہوں نے ان (اہل کتاب) کے لیے حرام کو حلال کیا اور حلال کو حرام کیا۔ اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ یہ تھی ان کی جانب سے ان کی عبادت ۔ اور مراسم عبودیت پر فظ عبادت کا اطلاق یوں ہوا کہ یہ بھی عبادت کا ایک جزء ہیں اور انسانی زند کی کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہیں لیکن لفظ عبادت کا پورا مفہوم و مدلول صرف ان مراسم میں منحصر نہیں ہے۔ اس سے قبل ہم اسی بارے میں یہ بات کہہ آئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اگر عبادت سے مراد صرف مراسم عبادت ہی ہوتے تو پھر رسولوں اور رسالتوں کی سرے سے ضرروت ہی نہ پڑتی ، اور رسولوں نے انسانی تاریخ میں اقامت دین کے لیے جو ان تھک کوششیں اور مساعی کیں ان سرے سے ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اور پوری انسانی تاریخ میں اہل ایمان نے جو عظیم قربانیاں دیں ان کی ضرورت بھی نہ تھی ، حقیقت یہ ہے کہ یہ عظیم قربانیاں محض اس لیے دی گئیں کہ لوگوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی اور اطاعت سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت میں داخل کیا جائے اور ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں اللہ کی حاکمیت ہو اور لوگ دنیا و آخرت دونوں کے معاملات میں اللہ کے مطیع ہوں۔ صرف اللہ کی حاکمیت اور صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کرنا ہی ایک ایسا مقصد اور جامع و مانع توحید ہے جس کے لیے رسالتوں کا طویل سلسلہ جاری کیا گیا۔ اور اس کے لیے تاریخ میں عظیم جدوجہد کی گئی اسی راہ میں اس قدر قربانیاں دی کئیں اور مشقتیں برداشت کی گئیں اور یہ کام اس لیے نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کہ سی اس یک ضرورت تھی ، بلکہ اس لیے کہ اس کے سوا انسان کی زندگی نہ درست ہوسکتی ہے ، نہ انسان معززوبلند ہوسکتا ہے اور نہ اس کا رہن سہن ایک اسنان کے لائق ہوسکتا ہے۔ یہ کام صرف اس ہمہ جہت اور ہمہ گیر عقیدہ توحید کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ ایسا عقیدہ جس کی گرفت میں انسان کی پوری زندگی ہو “۔ جہاں ہم نے مذکورہ بالا اقتباس دیا تھا ، وہاں ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آخر میں ہم اس موضوع پر طویل بحث کریں گے۔ لہذا ہم یہاں انسانی زندگی پر عقیدہ توحید کے اثرات کے بارے میں قدرے بحث کرتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر انسان عقیدہ توحید کو اس کے اس جامع و مانع اور مکمل مفہوم کے ساتھ قبول کرلے تو اس کا اس کی ذاتی زندگی کی حد تک کیا اثر ہوگا ، اس کی فطری ضروریات ، اس کیمادی وجود ، اس کے تصورات اور پھر ان تصورات کی وجہ سے اس کی عملی زندگی پر کیا اثر ہوگا۔ ” یہ تصور اور یہ سوچ اپنی پوری عمومیت کے ساتھ جب تمام امور حیات کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے تو یہ تصور انسانی زندگی سے اس کے ہر پہلو سے مخاطب ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی تمام دلچسپیوں ، اس کی تمام ضروریات ، اور اس کے تمام رجحانات کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور ان کے رخ کو صرف ایک سمت کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اب اس کا معاملہ صرف اسی سمت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ انسان سب کچھ اسی جہت سے طلب کرتا ہے۔ انسان اپنی ہر چیز کے ساتھ اسی طرف آگے بڑھتا ہے ، اس کی امیدیں بھی اسی سمت سے وابستہ ہوتی ہیں اور اس کے اندیشے بھی اسی سے ہوتے ہیں ، وہ صرف اس سمت کی رضاجوئی کا طلبگار ہوتا ہوتا اور اسی کے غضب سے استغفار کرتا ہے۔ اس کے لیے کہ یہی سرکار ہر چیز کی مالک و خالق ہے ، اور وہی پوری کائنات کی مدبر ہے۔ ۔ ” یہ تصور انسانی شخصیت کا رخ ایک ہی مرجع اور منبع کی طرف موڑیتا ہے۔ اسی مصدر سے انسان حقائق و تصورات اخذ کرتا ہے ، اسی سے اپنے پیمانے اور اقدار لیتا ہے ، اس سے اصول و قوانین حاصل کرتا ہے۔ ہر سوال کا جواب وہ وہیں سے لیتا ہے ، اور انسان اور اس کائنات کے حوالے سے جو سوالات بھی اس کے ذہن میں اٹھتے ہیں ان کا حل وہ اسی مصدر اور مرجع سے پاتا ہے “۔ اب انسان کی شخصیت ایک مجتمع شخصیت ہوتی ہے۔ اس کا شعور ، اس کا طرز عمل ، اس کے جذبات و میلانات ، ان کا تعلق عقیدے سے ہو یا نظام زندگی سے نصرتو اعانت سے ہو یا ہدایت اخذ کرنے سے ہو ، زندگی سے متعلق یا آخرت سے متعلق ہو ، زندگی کی جدوجہد اور تحریک سے ہو یا صحت اور رزق سے متعلق ہو ، دنیاوی امر یا اخروی امر سے یہ تمام امور باہم مجتمع ہوجاتے ہیں ، اب ان میں کوئی تفریق اور جدائی نہیں رہتی اور ان امور میں انسانی شخصیت مختلف راستے اختیار نہیں کرتی اور نہ ہی مختلف اسالیب پر چلتی ہے “۔ ” انسانی شخصیت جب اس نہج پر متحد و مجتمع ہوجاتی ہے۔ تو یہ اس کے بہت ہی اچھے دن ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ وحدت کی حالت میں ہوتی اور سچائی کہ پہلی صفت یہ ہے کہ اس کے اندر وحدت ہوتی ہے ، وہ ایک ہوتی ہے ، اس لئے کہ جب حق تعالیٰ ایک ہے تو حق بھی ایک ہوتا ہے ، بلکہ اس پوری کائنات میں یہ وحدت اور یگانگت ایک اہم حقیقت ہے ، اگرچہ مظاہر ، اشکال اور حالات مختلف ہوں۔ انسان اپنی مختلف صلاحیتوں اور رنگون اور شکلوں کے باوجود اصل میں ایک ہے۔ توحید اور وحدت دراصل انسانی وجود کا اصل مدعا ہے۔ انسان جب بھی اور جہاں بھی اپنی حقیقت کی تلاش میں نکلے گا ، اپنی عادات اور شکلوں کے اختلاف کے باجود اس کی حقیقت ایک ہی ہوگی۔ “۔ ” جب یہ انسانی شخصیت ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ وہ حالات ہر میدان میں ” حقیقت “ اور اس کیت ساتھ ہم آہنگ ہوں تو اس وقت شخصیت اپنے عروج پر ہوتی ہے وہ اس پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس کی ذات اور اس کائنات کے درمیاں کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہوتا جس کے اندر وہ رہتی ہے۔ اس شخصیت اور اس کائنات دونوں کے درمیان ایک ہی حقیقت موثر ہوتی ہے۔ جب انسانی شخصیت اس عظیم کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر چلتی ہے تو اس ہم آہنگی کے نتیجے میں دنیا میں عظیم انقلابات برپا ہوتے ہیں اور عظیم ادوار وجود میں آتے ہیں۔ “ ” مثلاً جب مسلمانوں کی پہلی جماعت اپنی شخصیت کے اعتبار سے اس مقام حقیقت تک پہنچ گئی تو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر دور رس تبدیلیاں کیں اور اس نے تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے اور خود انسانی شخصیت اور سوچ کے دھارے بدل گئے “۔ ” اور آئندہ بھی جب کوئی ایسی جماعت اور اس قسم کی مجتمع شخصیت والے لوگ دنیا میں پیدا ہوئے تو انسانیت اور تاریخ پر ایسے ہی گہرے اثرات چھوڑیں گے اور ایسے افراد اور ایسی جماعت ضرور پیدا ہوگی انشاء اللہ ۔ اگرچہ ملت اسلامیہ کے دشمن ایسی جماعت وجود میں آجاتی ہے تو اس کے اندر ایسی قوت ہوتی ہے جس کا مقابلہ رکاوٹ نہیں کرسکتی کیونکہ ایسی جماعت کی قوت فطرت اور کائنات کی قوت سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور انسانی قوتوں اور کائناتی قوتوں کا مرجع و مبداء ایک ہوتا ہے۔ “۔ ” اس توحید اور وحدت کا فائدہ صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کا ایمانی تصور درست ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ تصحیح اور درستی بذات خود بہت اہم ہے کیونکہ پوری انسانی زندگی کی عمات اس تصحیح پر قائم اور استوار ہوتی ہے ، لیکن اس سے زیادہ اس عقیدے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید انسان کے اندر حسن ذوق پیدا کردیتا ہے۔ انسان زندگی کو بڑی خوبی سے گزارتا ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے درمیان ہم آہنگی اور تناسق پیدا ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس ہمہ گیر توحید کے نتیجے میں انسانی زندگی کا ہر بڑا چھوٹا پہلو ، اور ہر بڑا چھوٹا عمل عبادت بن جاتا ہے۔ جب انسان اللہ وحدہ کو اپنا حاکم اور رب قرار دیتا ہے اور زند کی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں فقط اس کی بندگی کرتا ہے ، تو انسان انسانیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے ، یہی وہ مقام ہے جس کے تمام پہلوؤں پر فقط رسول اللہ فائز ہوئے ہیں۔ یہ مقام ، مقام وحی اور اسراء ہے۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (١) ” بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والے بن جائیں “۔ اور دوسری جگہ ہے : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (١) ” پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی رات کے وقت مسجد حرام سے مسجداقصیٰ تک جس کے ماحول کو ہم بابرکت بنایا ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک اللہ سمیع وبصیر ہے “۔ اب ہم بندگی کی توحید کو حاکم اور رب سمجھتے ہوئے اس کی تکمیل بندگی اختیار کرنے کا ایک دوسرا فائدہ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں ، اور یہ نتاتے ہیں انسانی زندگی اور غلامی سے نکل آتا ہے ، اور ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے ، جس میں ایک انسان ، انسان کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے ۔ انسان ایک مکمل آزادی حاصل کرلینے کے بعد ایک باعزت مقام بھی حاصل کرلیتا ہے ، یہ آزادی اور یہ شرف انسان کو سی بھی غیر اسلامی اور جاہلی نظام میں حاصل نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ ان دوسرے نظاموں میں انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے ، اور انسانوں پر انسان کی حاکمیت کے رنگ ڈھنگ اگرچہ مختلف ہوتے ہیں ، بعض اوقات انسان ذہناً دوسروں کا غلام ہوتا ہے ، بعض اوقات وہ غیروں کے سامنے سجدے بھی کرتا ہے ، بعض اوقات وہ دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے ضوابط میں بندھا ہوا ہوتا ہے ، غلامی کی یہ مختلف اقسام ہیں اور نوعیت ایک ہی جیسی ہے کہ ان میں انسان ، انسان کے تابع اور ماتحت ہوتا ہے ۔ کسی نہ کسی طرح ہو بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ کسی قانون اور ضابطے کے پابند نہ ہوں ، اگر وہ اللہ کے قوانین اور ضابطوں کے پابند نہ ہوئے تو ظاہر ہے کہ کسی اور کے قانون کے پابند ہوں گے ، یوں وہ دوسرے انسانوں کی غلامی میں پڑجائیں گے ۔ جب بھی انسان غیر اللہ کی غلامی میں گرفتار ہوجائے تو یہ ہر وقت غیر اللہ کی خواہشات اور مرضی کا غلام ہوتا ہے اور اس غلامی کی وجہ سے انسانیت کے مقام سے گر کر حیوانیت کے مرتبے تک جاپہنچتا ہے۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الأنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ (١٢) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ متاع دنیا سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح مویشی کھاتے ہیں ۔ آگ ان کے لیے جائے آرام ہے “۔ انسان کے لئے اس سے بڑا خسارہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی انسانیت کھوبیٹھے اور جونہی ایک انسان صرف اللہ کی حاکمیت اور غلامی سے نکلتا ہے وہ پہلے تو اپنی خواہشات اور شہوات کا غلام بن جاتا ہے ، اور یوں وہ حیوانوں کے مرتبے تک جاگرتا ہے ۔ جو صرف اپنی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی میں مبتلا ہوجات ہے ، اس کے بعد ایسے انسان پھر حکام اور رؤسا کے غلام بن جاتے ہیں ، یوں کہ یہ حکام اور رؤسا ان کو ایسے قوانین کے شکنجے میں کس دیتے ہیں ، جو انہوں نے خود اپنے مفاد میں بنائے ہوتے ہیں اور یہ قوانین صرف بنانے والون کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں یہ قانون ساز بعض اوقات ایک بادشاہ اور ڈکٹیٹر کی شکل میں ہوتے ہیں بعض اوقات ایک حاکم طبقے کی صورت میں ہوتے ہیں ، بعض اوقات ایک حکمران نسل کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان تمام نظاموں میں موجود ہوتی ہے جو اللہ کی ہدایات سے ماخوذ نہیں ہوتے یعنی جو اللہ کی شریعت سے ماخوذ نہیں ہوتے۔ انسان کی طرف سے انسان کی غلامی ، یہ صرف حکام رؤسا اور قنون سازوں تک ہی محدود نہیں ہوتی ۔ یہ غلامی بظاہر ان طبقات تک ۔۔۔۔۔۔۔ نظر آتی ہے ، بلکہ اس طرح ہر انسان بعض دوسری خفیہ قوتون کا بھی غلام ہوتا ہے ۔ بعض اوقات یہ دوسری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقوتوں سے بھی زیادہ قوی ہوتی ہیں ۔ مثلاً رسم و رواج اور لباس تک میں انسان جکڑا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو ترقی پسند ظاہر کرکے اپنے مفادات کے لئے رسومات و لباس وضع کرتے ہیں ۔ یہ لوازمات لباس میں ، گاڑیوں میں بڑی بڑی کوٹھیوں کی شکل میں ، مناظر کی شکل میں اور پھر مخصوص محفلوں کی شکل میں لوگوں پر عائد کئے جاتے ہیں۔ کوئی جاہلیت پرست مرد یا عورت ان ناجائز طور ہر فرض کردہ لوازمات سے نکل نہیں سکتی ۔ بلکہ ان جاہلی رسومات ولوازمات کے گرفتار ان کے دائرے پر ہمیشہ بند اور محدود رہتے ہیں۔ آج انسان جس طرح ان لوازمات اور رسومات کی اندھی پابندی کرتے ہیں اگر وہ اس قسم کی پابندی اللہ کے چند احکام ہی کی کرتے ہیں تو وہ زاہد شب زندہ دار کا مقام تک جاپہنچتے ۔ یہ اندھی غلامی نہیں ہے ، تو اور کیا ہے ، غیر اللہ کی حاکمیت اگر یہ نہیں ہے تو اور کیا ہوگی کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کے رائج کئے ہوئے فیشن کا بھی غلام ہو۔ بعض اوقات ایک شریف انسان ایک عورت کو دیکھتا ہے کہ وہ ایسا لباس پہنی ہوئی ہے کہ اس سے اس کا رنگ ڈھنگ نظر آتا ہے ۔ یہ لباس نہ اسکی چکل و صورت کے مناسب ہوتا ہے اور نہ اس کی جسمانی ساخت کے مناسب ہوتا ہے اور پھر یہ عورت ایسے اطوار اور ایسی ادائیں اختیار کرتی ہے کہ جس کی جانب ہر طرف سے اشارے ہوتے ہیں اور وہ ایک مذاق بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ لیکن فیشن ہاوسز کی قوت قاہرہ ان لوگون کو مجبور کرتی ہے کہ لوگ ان کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کو اس ذلت میں مبتلا کریں ۔ اس طرح کہ یہ لوگ طاقت نہیں رکھتے کہ اس کا انکار کردیں ، جبکہ ان کا پورا ماحول اس غلامی میں گرفتار ہوتا ہے۔ یہ اگر غلامی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ یہ فیشن ہاؤسز اگر حاکم اور رب نہیں تو اور کیا ہیں ؟ جب لوگ اللہ کی بندگی سے نکلتے ہیں اور غیر اللہ کی بندگی اور غلامی اختیار کرتے ہیں تو وہ کئی قسم کی ذلالتوں میں گرفتار ہوتے ہیں ۔ فیشن کی مذکورہ بالا ذلت تو ان میں سے ایک ہے ، اسی طرح امراء اور رؤسا کی حاکمیت بھی وہ واحد مکروہ صورت نہیں ہے جس میں لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں ، جب انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور ایک بندہ بندے کی غلامی کررہا ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اور خرابیاں ہیں جو ایسے معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس بات سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے ، صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنے اور صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنے اور صرف اللہ کو رب اور حاکم مان لینے کے اثرات انسان کی روح ، اس کی عزت اور اس کی ثروت پر کس قدر دور رس ہوتے ہیں۔ جب ایک انسان ، انسان کا غلام ہوجائے تو اس کے اخلاق ، اس کی عزت اور اس کی دولت محفوظ نہیں رہنی چاہئے غیر اللہ کی بندگی کی نوعیت جو بھی ہو ، غیر اللہ کی قانون سازی کے میدان میں ہو ، یا رسم و رواج کی شکل میں یا غلط اعتقادات اور تصورات کی صورت میں ہو۔ مثلاً اگر کوئی اعتقادات ، خیالات اور نصورات اور نظریات میں غیر اللہ کا غلام ہوجائے تو وہ ہم پرستی ، قصے کہانیوں اور خرافات میں یقین کرتا ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی بت پرستی کی جاہلیت کا غلبہ ہے ، وہ اس غلط سوچ کی غلامی کے نتیجے میں ہے ایسی گمراہیوں میں عوام مختلف قسم کے اوہام کا شکار ہوتے ہیں‏ ۔ اور ان سے ڈر کر وہ وہمی خداؤں کے درباروں میں نذر ونیاز گراز تے ہیں اور چڑھا وئے چرھاتے ہیں اور قربانیاں بھی دیتے ہیں ۔ بعض اوقات اولاد اور انسانون کی قربانیاں بھی دیتے ہیں اور یہ محض فاسد اور ناکارہ خیالات کی غلامی کیوجہ سے ہوتا ایسے معاشروں میں لوگ محض وہم و گمان کے خود تراشیدہ خداؤں سے ڈرتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ کاہنوں اور پجاریوں سے بھی ڈرتے ہیں ، جو ان کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کا تعلق ان خداؤں سے ہے ۔ ایسے معاشروں میں لوگ جنوں اور بلاؤں سے بھی ڈرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی قدر کرتے ہیں جو یہ باور کرادیں کہ ان کے قبضے میں جن ہیں۔ پھر وہ ایسے بتوں اور آستانوں کے مجاور مذہبی پیشواؤں کی اطاعت کرتے ہیں اور ایسے معاشروں کے تمام لوگ ڈرپوک ، کم ہمت ہوتے ہیں اور ہر وقت ڈرے سہمے ہوتے ہیں ، اور ہر وقت ایک خوف انہیں لاحق ہوتا ہے ۔ اور اسطرح تمام انسانی قوتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ ایک متوسط گھر انا اوسط درجے کی آمدنی رکھنے والا ، تیل ، خوشبو اور سرخی پوڈر ہر ایک بڑی رقم صرف کرتا ہے ۔ بالوں کو سنوارنے اور ان کے بنانے ہر وہ ایک بری رقم خرچ کرتا ہے ۔ پھر بدلتے ہوئے فیشوں کا ساتھ دینے کے لئے ہر سال نئے نئے جوڑے خریدتا ہے ۔ ان جوڑوں کے ساتھ ان کے ہم رنگ بوٹ اور دوسرے ملبوسات بھی فراہم کرتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ ان خداؤں کی اتباع میں ہوتا ہے جو پس پردہ بیٹھ کر یہ فیشن گھڑتے ہیں ۔ تفتیش کرنے سے معلوم ہوگا کہ ایک متوسط آمدنی والا گھرانہ اپنی کل آمدنی کا نصف حصہ فیشن اور رسم و رواج پر خرچ کردیتا ہے۔ فیشن اور سرخی پوڈر کے پیچھے بین الاقوامی یہودیت کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس نے تمام انسانوں کو فیشن کے جال مین پھنسایا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی بین الاقوامی کمپنیاں چلتی ہیں۔ اور یہ کمپنیان لوگوں کے مال اور ان کی آبرو اور ناموس پر ڈاکے ڈالتی ہیں اور وہ مجبور محض ہیں۔ اب سب سے آخر میں دیکھیں جب انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور آقا انسان کے لئے قانون بناتا ہے تو غلام انسان کو کس قدر قربانی دینا پڑتی ہے اور اللہ کی غلامی اختیار کرنے میں انسان کو کس قدر قربانی دینا نہیں پڑتی ہے معلوم ہوگا کہ انسان کو غیر اللہ کی گلامی میں زیادہ مالی اور جانی قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ، وطن کا بت ، قوم کا بت ، طبقات کا بت ، پیداوار اور ان کے علوہ دوسرے بت جنہوں نے الوہیت کا درجہ اختیار کررکھا ہے اور جو اس جہاں میں ان مصنوعی بتوں پر ڈھول بجائے جاتے ہیں اور جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور پھر ان کے بندوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان بتوں کے نام پر جانی اور مالی قربانیاں دیں اور وہ دیتے ہیں ، بلاترود دیتے ہیں۔ اگر وہ نہیں دیتے تو ان پر اس قدر معاشرتی دباؤہوتا ہے کہ انہیں غدار سمجھا جاتا ہے اور ان کی توہین ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے مال اور آبر و اور ان بتوں میں سے کسی بت کا مقابلہ ہو تو مال وآبرو کو ان بتوں پر قربان کردیا جاتا ہے اور ان مصنوعی بتوں کو اس قدر اونچا مقام دیا جاتا ہے کہ ان کے آستانوں پر کوں بہایا جاتا ہے اور اس پوری اسکیم کے پیچھے ان ارباب من دون اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔ وہ تمام قربانیاں جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے دی جاتی ہیں ، اور اس کے لئے کہ اس کرۃ ارض پر صرف اللہ کی بندگی جائے اور اس لیے کہ لوگوں کو بتوں اور طاغور کی غلام سے نجات دالائی جائے اور اس لئے کہ انسان کو اس مرتبہ بلند تک اٹھا دیاجائے اور اس بلند افق تک پہنچادیا جائے جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے یہ تمام قربانیاں ان قربانیوں سے بہت کم ہیں جو بعض لوگ انسانوں پر انسانوں کی خدائی کا نظام قائم کرنے لے لئے دیتے ہیں ۔ گر کم نہیں تو اس کے برابر ضرور ہیں جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے سے کتراتے ہیں اور اس میں شہادت ، جان ، مال اور اولاد کی قربانی دین سے ڈرتے ہیں ، ان کو ذرا یہ سوچنا چاہئے کہ غیر اللہ کی غلامی کی صورت میں انہیں اس سے کہیں زیادہ قربانیاں دینی ہوں گی ۔ بلکہ غیر اللہ کے لئے انہیں جان ومال کے علاوہ عزت وآبرو کی قربانی بھی دینی ہوگی۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

102:۔ اس آخری آیت میں سورت کے تمام دعو وں کا بالاجمال اعادہ ہے وَلِلّٰہِ غیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ ۔ یہ دوسرے دعوے کا اعادہ ہے۔ عالم الغیب اور قادر و متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فَاعْبُدْہُ : اعادہ دعوی اولی جب عالم الغیب اور قادر و متصرف وہی ہے تو صرف اسی کی عبادت کرو اور انہیں صبر و استقامت سے برداشت کرو۔ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ اعادہ دعوی رابعہ۔ اے مشرکین تم محض ضد وعناد کی وجہ سے نہیں مانتے ہو اور الٹا طعنے دیتے ہو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور تمہیں ان کی پوری پوری سزا دے گا۔ سورة ہود میں آیت توحید اور اس کی خصوصیات۔ 1 ۔ اَلّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللہَ ۔ تا۔ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ۔ نفی شرک فی التصرف 2 ۔ اَلَا اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ ۔ تا۔ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔ نفی شرک فی العلم۔ 3 ۔ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللہَ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ (رکوع 3) ۔ اعلان توحید از نوح علیہ السلام۔ 4 ۔ وَلَا اَقُوْلُ لَکُمْ ۔ تا۔ وَ لَا اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَکٌ (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی التصروالعلم۔ 5 ۔ قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا۔ تا۔ وَمَا اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۔ نفی تصراز نوح (علیہ السلام) ۔ 6 ۔ وَنَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ ۔ تا۔ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ (رکوع 4) ۔ نفی اختیار و تصرف و نفی شفاعت قہری از حضرت نوح (علیہ السلام) ۔ یہ اس سورت کی خصوصیت ہے۔ 7 ۔ تِلْکَ مِنْ اَنْبَا ءِ الْغَیْبِ ۔ تا۔ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ (رکوع 4) ۔ نفی علم غیب و حاضر و ناظر از نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ 8 ۔ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اِلَّا اللہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (رکوع 5) اعلانِ توحید از حضرت ہود علیہ السلام۔ 9 ۔ قَالُوْا یٰھُوْد مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ ۔ تا۔ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْءٍ (رکوع 5، 6) حضرت ہود (علیہ السلام) پر قوم کے مطاعن۔ 10 ۔ وَلَمَّا جَاءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا ھُوْداً ۔ تا۔ مِنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ (رکوع 6) حضرت ہود (علیہ السلام) بھی بچنے میں اللہ کے محتاج ہیں۔ 11 ۔ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (رکوع 6) ۔ اعلان تحید از حضرت صالح علیہ السلام۔ 12 ۔ قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْکُنْتَ ۔ تا۔ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) پر قوم کا نیا طعن۔ 13 ۔ نَکِرَھُمْ اَوجَسَ مِنْھُمْ (رکوع 7) ۔ نفی علم غیب از حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ 14 ۔ وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوْطاً ۔ تا۔ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ۔ نفی علم غیب از حضرت لوط علیہ السلام۔ 15:۔ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (رکوع 8) ۔ اعلان توحید از حضرت شعیب علیہ السلام۔ 16 ۔ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ ۔ تا۔ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) پر بےجا طعن۔ 17 ۔ ذٰلِکَ ِمِنْ اَنْبَاءِ الْقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیْکَ مِنْھَا قَائِمٌ وَّ حَصِیْدٌ (رکوع 9) دلیل صداقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 18 ۔ فَمَا اَغْنَتْ عَنْھُمْ اٰلِہَتُمْ ۔ تا۔ غَیْرَ تَتْبِیْب۔ نفی نصرف از معبودان باطلہ۔ 19 ۔ فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ ۔ تا۔ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ (رکوع 9) ۔ معبودانِ باطلہ کی عبادت کا باطل ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ 20 ۔ وَلِلّٰہِ غَیْبُ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ تا۔ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (رکوع 10) ۔ عالم الغیب اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ سورة ہود ختم ہوئی J

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi