Surat Hood

Surah: 11

Verse: 13

سورة هود

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾

Or do they say, "He invented it"? Say, "Then bring ten surahs like it that have been invented and call upon [for assistance] whomever you can besides Allah , if you should be truthful."

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے ۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or they say, "He forged it." Say: "Bring you then ten forged Surahs like unto it, and call whomsoever you can, other than Allah, if you speak the truth!" Allah, the Exalted, explains the miracle of the Qur'an, and that no one is able to produce its like, or even bring ten chapters, or one chapter like it. The reason for this is that the Speech of the Lord of all that exists is not like the speech of the created beings, just as His attributes are not like the attributes of the creation. Nothing resembles His existence. Exalted is He, the Most Holy, and the Sublime. There is no deity worthy of worship except He and there is no true Lord other than He. Then Allah goes on to say,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے چلینج دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بنایا ہوا قرآن ہے، تو اس کی نظیر پیش کر کے دکھا دو ، اور تم جس کی چاہو، مدد حاصل کرلو، لیکن تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے۔ فرمایا " قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا " 17 ۔ الاسراء :88) (اعلان کر دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا مشکل ہے، گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چلنج دیا کہ پورا قرآن بنا کر پیش نہیں کرسکتے تو دس سورتیں ہی بنا کر پیش کردو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر چیلنچ دیا کہ چلو ایک سورت بنا کر پیش کرو جیسا کہ سورة یونس کی آیت نمبر 39 اور سورة بقرہ کے آغاز میں فرمایا (تفسیر ابن کثیر، زیر بحث آیت سورة یونس) اور اس بنا پر آخری چیلنچ یہ ہوسکتا ہے کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا کر پیش کردو۔ " فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ 34؀ۭ" 52 ۔ الطور :34) مگر ترتیب نزول سے چیلنج کی اس ترتیب کی تائید نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم با الصواب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] قرآن جیسی سورت بنا لانے کا چیلنج :۔ قریش مکہ کا آپ کی نبوت سے انکار کے معاملہ میں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے کہاں ؟ یہ تو تمہارا اپنا تصنیف کردہ ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں چیلنج کیا کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کے دکھا دو ۔ واضح رہے کہ یہاں تو کفار سے دس سورتیں بنا کر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ سورة یونس کی آیت نمبر ٣٧، ٣٨ میں صرف ایک سورت بنا لانے کا مطالبہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سورة یونس، سورة ہود کے بعد نازل ہوئی تھی اسی طرح سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ میں بھی صرف ایک ہی سورت بنا لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ سورة ہود اور سورة یونس کے بعد نازل ہوئی۔ یہ دونوں سورتیں مکی ہیں جبکہ سورة بقرہ مدنی سورتوں میں سے پہلی سورت ہے اور قرآن جیسی سورت بنا لانے کے چیلنج اور قرآن کی امتیازی خصوصیات کی تفصیل کے لیے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ ۔۔ : یعنی اگر تمہیں اس قرآن کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے میں شک و شبہ ہے تو تم سب جمع ہو کر اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کرو۔ واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مرتبہ اہل عرب کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سورة بنی اسرائیل (٨٨) اور سورة طور (٣٤) میں پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہاں سورة ہود میں دس سورتوں کا چیلنج کیا گیا ہے۔ پھر سورة یونس اور بقرہ میں ایک سورت کا۔ لیکن اہل عرب پورا قرآن یا دس سورتیں تو کیا ایک سورت بھی بنا کر پیش نہ کرسکے۔ یہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ (ابن کثیر) یاد رہے کہ قرآن مجید کا معجز ہونا، یعنی اس جیسی ایک سورت کی تصنیف بھی ناممکن ہونے کی وجہ قرآن مجید کی بیشمار خوبیاں ہیں، جو مخلوق کی بساط سے باہر ہیں۔ مسلم علماء نے اس پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن کا عنوان ہی ” اعجاز القرآن “ (ازباقلانی، صالح بن عبد العزیز وغیرہ) یا اس سے ملتا جلتا ہے۔ ان خوبیوں میں اس کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ اس کے انداز بیان کا اللہ کی شان کے مطابق جلال و جمال، اس کی کسی پیش گوئی یا خبر کا غلط نہ ہونا، اس کی آیات کا ایک دوسرے سے ٹکرانے سے پاک ہونا اور اس کی جامعیت وغیرہ بھی شامل ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the cited verses, the Mushriks had demanded the kind of mira¬cles they chose. Verses that follow tell them that they already have a miracle, the miracle of the Qur&an shown at the hands of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) before them, a miracle even they could not deny. Now if they were demanding these miracles honestly, only to determine the veracity of the messenger of Allah, then, their demand stands accepted (and the miracle is on). And if this demand is simply to gratify their hostility, the showing of miracles demanded by them would remain redundant, for who could expect from such hostile peo¬ple that they would embrace Islam, even after having seen those mira¬cles. So, the essential point is that the Holy Qur&an is a clear miracle that cannot be denied. A refutation of the false doubts engineered by Mushriks and Kafirs in it has been made in the next two verses (13, 14): These people say that the Prophet of Islam has himself made up the Qur&an - it is no book of Allah. In answer, it was said: If you really think so, that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) can make a Qur&an like this, all by himself, then, you too, better come up with only ten Surahs like that. And it is not necessary ei¬ther that these ten Surahs have to be made by any one person. Instead, let everyone in the world join forces and come up with it. And when they fail to make even ten Surahs, then, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was to tell them: Now the reality stands out loud and clear, for had this Qur&an been the word of some human being, other human be¬ings could have also been able to make something like this. And that they all fail to do so is a strong proof of the fact that this Qur&an has been revealed only with the knowledge of Allah in which there is no room for the least increase or decrease and that it is beyond human power. At this place, the Holy Qur&an has said that they should come up with ten Surahs like it. And in another verse it was also said: ` Then, bring a Sarah the like of this - al-Baqarah, 2:23.&

آیات مذکورہ میں مشرکین کی طرف سے خاص قسم کے معجزات کا مطالبہ تھا، اگلی آیتوں میں ان کو اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرآن ایک ایسا معجزہ تمہارے سامنے آچکا ہے جس کے معجزہ ہونے کا تم بھی انکار نہیں کرسکتے، تو اگر یہ معجزات کا مطالبہ نیک نیتی سے رسول کی سچی حقانیت معلوم کرنے کے لئے ہے تو وہ پورا ہوچکا اور اگر محض عناد کے لئے ہے تو اگر تمہارے مطلوبہ معجزات بھی دکھلا دیئے جائیں تو اہل عناد سے کیا توقع ہے کہ ان کو دیکھ کر بھی وہ اسلام قبول کریں گے، بہرحال قرآن کریم کا واضح معجزہ ہونا ناقابل انکار ہے۔ اس پر مشرکین و کفار کی طرف سے جو غلط شبہات پیدا کئے گئے ان کی تردید اگلی دو آیتوں میں اس طرح کی گئی ہے کہ یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنا لیا ہے اللہ کا کلام نہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تمہارا ایسا ہی خیال ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا قرآن خود بنا سکتے ہیں تو تم بھی اس جیسی صرف دس سورتیں ہی بنا کر دکھلا دو ، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ دس سورتیں کوئی ایک ہی آدمی بنائے بلکہ دنیا جہان کے لوگ سب مل کر بھی بنا لائیں، اور جب وہ دس سورتیں بنانے سے بھی عاجز ہوں تو آپ فرما دیجئے کہ اب تو حقیقت واضح ہوگئی کیونکہ اگر یہ قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا تو دوسرے انسان بھی اس جیسا کلام بنا سکتے، اور سب کا عاجز ہونا اس کی قوی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کے علم سے نازل ہوا ہے جس میں کسی ادنی کمی بیشی کی گنجائش نہیں اور انسانی طاقت سے برتر ہے۔ قرآن کریم نے اس جگہ دس سورتیں مقابلہ میں بنا کر لانے کا ارشاد فرمایا ہے اور دوسری ایک آیت میں یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ ایک ہی سورت اس جیسی بنا لاؤ ؟

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝ ٠ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١٣ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) بلکہ مکہ کے کافر تو نعوذ باللہ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے اور پھر ہمارے پاس لے کر آئے ہیں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے جواب میں کہہ دیجیے کہ تم بھی قرآن کریم جیسی دس سورتیں ذرا بنا کرلے آؤ جیسا کہ سورة بقرہ آل عمران، نساء مائدہ، انعام، اعراف، انفال، توبہ، یونس اور ہود ہیں۔ اور اپنے تمام معبودوں سے بھی اس بات میں مدد طلب کرلو اگر تم سچے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو اپنے پاس سے بنایا، چناچہ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ ) مشرکین کو یہ چیلنج مختلف درجوں میں بار بار دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے انہیں کہا گیا تھا کہ اس جیسا قرآن تم بھی بنا کر دکھاؤ (بنی اسرائیل : ٨٨) ۔ یہاں دوسرے درجے میں ١٠ سورتوں کا چیلنج دیا گیا۔ پھر اس کے بعد برسبیل تنزل صرف ایک سورت بناکر لانے کو کہا گیا ‘ جس کا تذکرہ سورة یونس (آیت ٣٨) میں بھی ہے اور سورة البقرۃ (آیت ٢٣) میں بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: شروع میں ان کو دس سورتیں قرآن جیسی بنا کر لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔ بعد میں اس چیلنج کو مزید آسان کردیا گیا، اور سورۂ بقرہ (23:2) اور سورۂ یونس (38:10) میں صرف ایک سورت بنا کر لانے کو کہا گیا۔ مگر مشرکینِ عرب جو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی چیلنج کو قبول نہ کرسکا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٤۔ اوپر گزرا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار جھٹلاتے تھے اور طعن کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو کہ تمہیں خدا نے بھیجا ہے تو اس سے کہو وہ آسمان سے تم کو خزانہ بھیج دے اور یہ بھی کہتے تھے کہ تمہارے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے آنا چاہیے تھا جو تمہارے رسول ہونے کی تصدیق کرتا اس پر اللہ پاک نے اپنے رسول کی تسلی کی کہ تم ان مشرکوں کی باتوں پر نہ جاؤ تم سے پہلے بھی رسولوں کو لوگوں نے جھٹلایا ہے تم تو ڈرانے کے واسطے آئے ہو اس لئے تم اپنا کام کئے جاؤ خدا ہر شئی کا نگہبان ہے جو کچھ یہ لوگ بکتے ہیں سب وہ سنتا ہے وقت مقررہ پر ان لوگوں کو اس جھٹلانے کی حقیقت معلوم ہوجاوے گی اب ان آیتوں میں فرمایا یہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود یہ قرآن بنا کر لائے ہیں تو تم ان سے کہو اس کی سی دس سورتیں تم بھی بنا کر لاؤ تمہاری شاعری اور سب زبان دانی اور فصاحت و بلاغت دیکھی جائے اور اکیلے نہ بنا سکو تو جس سے جی چاہے مدد لو پھر اگر بنا کر نہ لائیں تو تم جان لو کہ یہ عاجز ہوگئے اور ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قرآن خدا نے اپنے علم خاص سے اتارا ہے اور وہ ایسا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور جب قرآن کلام الٰہی ٹھہر جاوے تو ان لوگوں کو اس کی پابندی میں پھر کیا عذر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے۔ ١ ؎ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے جن لوگوں کی قسمت میں ہدایت لکھی تھی ان کے دل پر قرآن نے ایسا ہی اثر کیا جیسا اثر اچھی زمین میں مینہ کے پانی کا ہوتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں ہدایت سے محروم قرار پاچکے تھے قرآن کی نصیحت ان کے حق میں ایسی ہی رائیگاں گئی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اور اس طرح کے لوگ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے مرتے دم تک ایسے ہی منکر رہے جس طرح کے انکار کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٨۔ باب فضل من علم و علم

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:13) ام۔ کیا۔ افترہ۔ اس نے اس کو خود گھڑ لیا ہے۔ ماضی واحد مذکر غائب افتراء (افتعال) سے۔ افتری یفتری۔ فری مادہ۔ من گھڑت بات بنانا۔ عجب بات۔ عظیم بات۔ لقد جئت شیئا فریا (19:37) تم ایک عجیب شے لائی ہو۔ افترہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ما یوحی الیک کی طرف راجع ہے۔ (11:13) مفتریت۔ اسم مفعول جمع مؤنث۔ خود ساختہ۔ من گھرٹ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کا کلام ہونے میں شک و شبہ ہے تو تم سب جمع ہو کر اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کرو۔ واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مرتبہ عرب کی تحدی کی گئی ہے۔ سورة اسراء (آیت 88) میں پورے قرآن کے لئے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہاں سے سورتوں کے لئے تحدی کی گئی ہے اور سورة یونس (آیت 82) اور سورة بقرہ (آیت 32) میں ایک ہی سورة بنالانے کا چیلنج کیا گیا ہے۔ لیکن عرب پورا قرآن یا دس سورتیں تو کیا ایک سورة بھی بنا کر پیش نہ کرسکے۔ یہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ (ابن کثیر) ۔ واضح رہے کہ قرآن کا معجز ہونا جیسے اس کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہے اسی طور پر وہ اپنے اسلوبِ بیان ور تناقض پر مشتمل نہ ہونے کے اعتبار سے بھی معجز ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کی مزید ہرزہ سرائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید تسلی کے لیے کفار کو چیلنج کہ اس قرآن جیسی دس سورتیں بنالاؤ۔ انسان جب جان بوجھ کر ضد اور کفرکا راستہ اختیار کرلے۔ تو پھر اسے کسی دلیل سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی یہی حالت تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی آپ کو رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت اور دلائل کے مقابلے میں لاجواب ہوجاتے تو پھر قرآن مجید کی تکذیب کرتے۔ اس میں بھی ان کا موقف تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ ایک بار کہتے کہ یہ شخص اپنی طرف سے کلام بنا کر اللہ کے ذمہ لگاتا ہے۔ دوسری مرتبہ یہ کہتے کہ یہ روم کے فلاں شخص سے کلام سیکھ کر ہمارے سامنے قرآن کے نام سے پیش کرتا ہے۔ ان کے اس الزام کے جواب میں بالترتیب پانچ مرتبہ چیلنج دیا گیا۔ ١۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کے لائیں۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ دس آیات بناکر پیش کرو۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنالاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ پورا قرآن مجید نہیں تو اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ۔ (البقرۃ : ٢٣) اے گروہ کفار و مشرکین ! اس چیلنج کو قبول نہیں کرتے ہو تو جان جاؤ کہ اسے اس اللہ نے اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ جس کے سوا کوئی ایسا کلام نہیں بناسکتا کیونکہ وہی معبود برحق ہے ان سے پوچھو کہ کیا تم ماننے کے لیے تیارہو ؟ عیسائی ڈاکٹر کا اعتراف : فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈ ریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بیشک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلاشبہ جن حقائق و معارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک و شبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم و اعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 ء میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو روئے زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالا جماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ “ (فہم القرآن : جلد ١ ) مسائل ١۔ کفار رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے کہ آپ قرآن مجید خود بنا کرلے آتے ہیں۔ ٢۔ دنیا والے قرآن مجید کی مثل لانے سے قاصر ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا چیلنج : ١۔ اس جیسی کوئی آیت لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ جن اور انسان مل کر بھی اس جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٣۔ آپ فرمادیں کہ اللہ کے سوا سبھی کو بلا لو اور دس سورتیں اس جیسی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (ہود : ١٣) ٤۔ اس جیسی کوئی ایک سورة بنا لاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٥۔ قیامت تک قرآن کی مثل نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایک دوسری بات جسے وہ بار بار دہراتے چلے جاتے تھے ، یہ کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب کو اپنی جانب سے پیش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تم اس جیسی دس سورتیں تو بنا لاؤ اور اس مہم میں پورے جہاں سے مدد بھی لے لو۔ قدماء مفسرین نے کہا ہے یہ چیلنج علی الترتیب تھا۔ پہلے یہ تھا کہ اس قرآن جیسا قرآن لاؤ، پھر دس سورتوں کا چیلنج تھا ، آخر میں ایک سورت کا چیلنج دیا گیا۔ لیکن اس چیلنج کی اس مخصوص ترتیب پر کوئی منقول دلیل نہیں ہے۔ بظاہر دلیل اس کے خلاف ہے کیونکہ سورة یونس اس سورت سے پہلے نازل شدہ ہے اور اس میں ایک سورت کا چیلنج دیا گیا ہے اور زیر نظر سورت اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اور اس میں دس سورتوں کا چیلنج ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آیات کا نزول سورتوں کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کوئی آیت نازل ہوتی تھی لیکن اسے بعض اوقات تو سابقہ سورتوں میں رکھ دیا جاتا تھا اور بعض اوقات ایسی سورت میں جو اس آیت کے بعد نازل ہوئی تھی۔ وقت نزول کی مکمل طور پر نقلی دلیل پر موقوف ہے۔ اسباب نزول میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ سورة یونس سورة ہود کے بعد نازل ہوئی ہے اور اپنی جانب سے قیاسی حکم اس موضوع پر مقبول نہیں ہے۔ علامہ رشید رضا مرحوم نے دس سورتوں کے چیلنج کی ایک خاص وجہ بیان کرنے کی سعی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں طویل کوشش کی ہے (دیکھئے تفسیر منار ، ص 32 تا 41، ج 12) فرماتے ہیں کہ یہاں تحدی سے مراد قصص القرآن کا چیلنج ہے۔ تحقیق و تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ جن سورتوں میں طویل قصص نازل ہوئے ہیں ، سورت ہود کے نزول تک ان کی تعداد دس تھی ، چناچہ یہاں دس سورتوں کے لیے چیلنج دیا گیا ، کیونکہ ایک سورت کا چیلنج ان کے لیے دس سورتوں کے چیلنج سے زیادہ مشکل تھا۔ اس لیے کہ دس سورتوں میں بہرحال زیادہ قصے اور زیادہ اسالیب کلام تھے اور جن لوگوں کو یہ چیلنج دیا گیا تھا ، ان کو دس سورتوں جیسی نقل کی ضرورت تھی اگر وہ نقل کرتے۔ لیکن حقیقت تو خدا جانتا ہے ، یہ بات اس قدر مشکل نہیں ہے جس قدر انہوں نے مشکل بنا دی ہے کیونکہ چیلنج کے معاملے میں اعتراض کرنے والوں کے اعتراض اور حالات نزول دونوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ قرآن کریم عملی حالات کے پیش نظر نازل ہوتا رہا ہے اور ہر سورت اور آیت کے نزول کے وقت متعین صورت حالات ہوا کرتی تھی۔ اس لیے بعض حالات میں کہا گیا کہ قرآن جیسی کتاب لاؤ، بعض میں کہا گیا ، ایک سورت لاؤ اور بعض میں دس سورتوں کا مطالبہ ہوا۔ ان مطالبات میں ترتیب زمانی کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اصل مقصد چیلنج تھا کہ نفس قرآن جیسا کلام لاؤ۔ کل قرآن یا جزء یا ایک سورت وغیرہ۔ لہذا چیلنج قرآن جیسے کلام کے بارے میں تھا ، کسی خاص مقدار کی بات نہ تھی۔ اور مخالفین جو عاجز آئے تو وہ قرآن جیسے کلام سے عاجز آئے۔ یہ نہ تھا کہ وہ کوئی سورت نہ لا سکے ، لہذا اس موضوع پر کل اور جزء کا ذکر برابر ہے اور اس سلسلے میں ترتیب لازم نہیں ہے بلکہ بعض مخصوص حالات کی وجہ سے مقدار کا ذکر ہوا۔ یعنی اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کی نوعیت کے اعتبار سے یہ کہا گیا کہ ایک سورت ، دس سورتیں یا پورا قرآن لاؤ۔ یہ مخصوص حالات کیا تھے ؟ آج ہم ان کا تعین بہرحال نہیں کرسکتے۔ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (اور اللہ کے سوا جو جو (تمہارے معبود) ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔ اپنے شرکاء و خصماء کو بلاؤ، شعراء اور بلغاء کو بلاؤ، جنوں اور انسانوں سب کو بلاؤ اور اس چیلنج کو قبول کرو ، اور اپنی طرف سے بناوٹی دس سورتیں لاؤ۔ اگر تمہاری یہ دعوی سچا ہے کہ قرآن حضرت نبی کریم کی طرف سے بنایا گیا ہے اور اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17: یہ شکویٰ ہے۔ مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیش کردہ دعویٰ (کہ اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں) تو مانتے نہ تھے اور الٹا اکثر یہ الزام دہرایا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قرٓان اپنے پاس سے بنا کر خدا کی طرف منسوب کردیتا ہے اور یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ قُلْ فَاتُوْا الخ : یہ جواب شکوی ہے فرمایا آپ جواب میں کہہ دیں اگر میں ایسا قرآن بنا سکتا ہوں تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا کرلے آؤ کیونکہ تم بھی اہل لسان ہو اور دنیا تمہاری فصاحات وبلاگت کو لوہا مانتی ہے اور پھر اس کام میں اپنی مدد کے لیے اللہ کے ماسوی جس جس سے کام لے سکتے ہو اس کو بلالو اور اپنی اجتماعی طاقت سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرلو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 کیا یہ منکریوں کہتے ہیں کہ اس قرآن کریم کو پیغمبر نے خود ہی بنا لیا ہے آپ فرما دیجئے اگر میں نے بنا لیا ہے تو تم اس قرآن کریم جیسی دس سورتیں جو تمہاری بنائی ہوئی ہوں لے آئو اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس جس کو تم بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو یعنی اگر یہ خدا کا کلام نہیں اور محض میری من گھڑت ہے تو تم اس جیسی دس 10 سورتیں من گھڑت کرکے لے آئو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جس جس سے مدد حاصل کرسکتے ہو کرلو۔