Surat Hood

Surah: 11

Verse: 15

سورة هود

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ﴿۱۵﴾

Whoever desires the life of this world and its adornments - We fully repay them for their deeds therein, and they therein will not be deprived.

جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال ( کا بدلہ ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Whoever wants the Worldly Life, then He will have no Share of the Hereafter Allah, the Exalted, says, مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الاخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ

ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے ۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی ۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لے نماز پڑھے ، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے ۔...  حضرت انس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بیان ہے یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری اور اور مجاہد کہتے ہیں ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے ۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے ۔ قرآن کریم کی ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ ) 17- الإسراء:18 ) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں ۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے ۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایمان دار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں ۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے ۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20؀ ) 42- الشورى:20 ) جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بےنصیب رہ جاتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا۔۔ : یہ دو آیات کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں ہے : ( َيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ) ” ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لیے صدقہ و خیرات وغیرہ اور نیک عمل کرت... ے ہیں، جن کا تعلق رفاہ عامہ سے ہے، انھیں ان کاموں کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا دے دیا جاتا ہے، لیکن یہ بدلہ ملنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) [ بنی إسرائیل : ١٨ ] ” جو شخص اس جلدی والی (دنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لیے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا۔ “ اسی معنی کی ایک اور آیت سورة شوریٰ (٢٠) میں بھی ہے۔ کفار کو دنیا میں کسی نیکی کا فائدہ آخرت میں عذاب کم ہونے کی صورت میں تو ہوسکتا ہے، لیکن ان کا آگ سے نکلنا کسی صورت ممکن نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سفارش کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف ہوگی، مگر وہ آگ سے نکل نہیں سکے گا۔ اسی طرح آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر میں زیادتی اور کمی کی وجہ سے جہنم میں کفار کے عذاب میں کمی بیشی ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) [ النساء : ١٤٥ ] ” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ “ نیکی کی کمی بیشی کی وجہ سے جنت کے درجات اور بدی کی کمی بیشی کی وجہ سے جہنم کے درکات میں فرق ہوگا۔ البتہ کفار کی کوئی نیکی انھیں جہنم سے نہیں نکال سکے گی، کیونکہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے۔ دیکھیے سورة حجر کی دوسری آیت کی تفسیر۔ علمائے تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریا کار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چناچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَجُلٌ اسْتُشْھِدَ فَأُتِيَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعْمَتَہٗ فَعَرَفَھَا، قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا، قَالَ قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتَّی اسْتُشْھِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لَأَنْ یُّقَالَ جَرِيْءٌ فَقَدْ قِیْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِي النَّارِ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب من قاتل للریاء۔۔ : ١٩٠٥ ] ” قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ انھیں پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” تو نے ان کے لیے کیا کیا ؟ “ وہ کہے گا : ” یا اللہ ! میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” تو نے جھوٹ کہا، تو نے محض اس لیے جنگ کی تھی کہ لوگ تجھے بہادر کہیں، چناچہ تجھے یہ داد مل گئی۔ “ پھر حکم ہوگا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ “ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریا کار قاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ واضح رہے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو ” لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ “ (ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں) کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لیے تو دائمی جہنم ہے، مگر مسلمان گناہ گار سزا کے بعد جہنم سے نکل بھی آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کر دے گا، اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary When warnings of punishment were given to opponents of Islam, they referred to the charities they contributed to and the social welfare work they did. With this testimonial of good deeds in their hands, why would they be punished? It is interesting that, in our time too, there are a lot of unaware Muslims who seem to be suffering from the same doubt. They look at disbelieving non-Muslim... s who impart a good im¬age of their outward deeds and morals, are active in social work, give out in charities, and make roads, bridges, hospitals, free drinking wa¬ter counters. This view leads them to hold the opinion that they were better than Muslims. This has been answered in the first (15) of the three verses cited above. In gist, the answer is that every deed, in order to be accepted as a source of salvation in the Hereafter, must fulfill the first condition of absolute sincerity - that this deed should have been done for the sake of Allah. And the only valid way of doing it for Allah is that it is done in accordance with the way taught and shown in practice by His Mes¬senger. A person who simply does not believe in Allah and His Messenger is a person the sum total of whose deeds and morals is a skele¬ton without soul. It may look handsome (even slim) but because it has no soul or spirit, it has no weight or effect in the home of the Here-after. Yes, the contribution of such a person in the mortal world has benefited people. At least in terms of its outward form, what he had done was good, therefore, Allah, the Lord Almighty has, in considera¬tion of His supreme equity and justice, not allowed this deed to go to waste totally. Instead, things were arranged in terms of the objectives the doers of these deeds had before them. If they had worked for recog¬nition in society or an image as philanthropist, man of charity, good-will or distinction, or had simply aspired for health and material wealth and comfort, Allah Ta` ala lets them have all this right here in this world. They had no concept of the Hereafter. They had never cared to think of salvation there, nor their deeds, being without the es¬sential spirit, could have qualified them to become deserving of it. Therefore, no return waits for them there, against their deeds, while the added burden of disbelief and disobedience will keep them in Hell. This was a gist of what was said in the first verse. Now, we can have a look at some of the words used there. It was said that a person who kept striving for the life of this world and its embellishments gets from Allah the full return for his or her deeds right here in this world. For them, nothing is cut short in Dun¬ya. These are the kind of men and women for whom there is nothing in Akhirah (Hereafter), except the Hell. It is noteworthy at this point that the expression opted for in the Qur&an is: مَن کَانَ یُریدُ (those who have been intending) which bypasses something brief like: مَن اَرَادَ (those who wanted). The Qur&anic expression denotes continuity and carries the sense of ` kept striving for& as trans-lated a little earlier. This tells us that it is the condition of people who never wanted to have anything out of what they did but the good of this world. They just never bothered to worry about what would hap-pen in the life to come. As for the person who feels concerned about the Hereafter and does what would bring salvation there and, along with it aims and plans to have his share from the world, then, it is not in¬cluded in the purview of this verse. Is this verse related to kafirs or Muslims or to both Muslims and kafirs? Major authorities in Tafsir differ about it. The words in the last sentence of the verse - for whom there is nothing in the Hereafter except the fire of Hell - seem to suggest that it is related to kafirs, because a Muslim, no matter how sinning, would ultimately go to Paradise after having undergone the punishment of sins. Therefore, Dahhak and other commentators have interpreted it as related to kafirs only. Some commentators have said that it refers to Muslims who, through their good deeds, aim to acquire only the comfort, wealth and recognition from this worldly life. In other words, they do their good deeds with the sole intention of having comfort and recognition in the world they live in. And the sentence we are talking about would thus mean that, until they undergo the punishment of their evil deeds, they would have nothing except the fire of Hell. However, the weightier and clearer approach is to take this verse as relating to people who do their good deeds only with the intention of acquiring worldly benefits, such as wealth, health and recognition. Those who do so may be kafirs or disbelievers who do not believe in the Hereafter from the very outset. Or, they may be Muslims who believe in the Hereafter theoretically but do not apply their belief to what they do practically. In fact, they would keep all concerns of their life exclu¬sively attached to worldly benefits and interests. From among the ear_ ly commentators, Mujahid, Maimun ibn Mihran and Sayyidna Mu’ awiyah (رض) have gone by this view. This meaning is also supported by the well-known Hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : اِنَّما الاَعمال بِالنِّیَات (Actions are [ judged ] according to Inten¬tions). What one intends to have by his action gets exactly that. Whoever intends to have Dunya (worldly benefits) gets Dunya. Whoev¬er intends to have Ahhirah gets Akhirah. Whoever intends to have both gets both. That all actions depend on intention is a principle approved of in every community and religion. (Qurtubi) Therefore, says a Hadith, those who devoted themselves to acts of worship in the mortal world to look respectable before others will be brought forth on the day of Qiyamah. It would be said to them: ` you said your prayers, gave in charity, fought in Jihad, recited the Qur&an, but you did all that with the intention that you should be known as devotees to prayers, givers in charity, veteran warriors of Jihad and great reciters of Qur&an. Now you have had what you wanted to have. The honors you were looking for have already come to you in the mor¬tal world. Now, there is no return for your deeds here. And these peo¬ple will be the first to be thrown into the Hell.& While reporting this Hadith, Sayyidna Abu Hurairah (رض) broke into tears and said, ` the verse of the Qur&an: مَن كَانَ يُرِ‌يدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا (Those who have been intending (to achieve) the worldly life and its beauty –11:15 ) confirms this Hadith. Sahih Muslim reports on the authority of Sayyidna Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` Allah Ta` ala does no injustice to anyone. For the good deed a believer does, he gets some return for it in the mortal world while gets the real reward in the Hereafter. As for a kafir (since he does not bother about what would happen to him in the Hereafter), his account is cleared within his life in the mortal world. The return for his good deeds, if any, is given to him in the form of worldly wealth, recognition, health and comfort - until comes the time when he reaches the stage of the Hereafter where he is left with nothing that could bring any return there. It appears in Tafsir Mazhari that, though a believer looks forward to having prosperity in the mortal world as well, but his intention to have the best of the Hereafter remains on top of everything. Therefore, he gets what he does in the mortal world only to the measure of his needs. However, he does get the larger return and reward in the Here-after. Sayyidna ` Umar (رض) عنہ once visited the home of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) When he saw virtually nothing in the house but a few things here and there, he said to him: ` please pray that Allah Ta` ala blesses your Ummah too with extended material means. We see Persia and Byzantine. They are very prosperous in this world although they do not worship Allah Ta` ala.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was reclining on a pillow behind his waist. When he heard these words of Sayyidna ` Umar (رض) he sat up straight and said, ` O ` Umar, you are still lost in those thoughts. As for these people, they are the ones who have been given the return of their good deeds right here in this world.& (Mazhari) Jami` Tirmidhi and the Musnad of Ahmad report on the authority of Sayyidna Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` Whoever intends to have (the best of) the Hereafter through his deeds, Allah Ta` ala makes his heart need-free in this world. He (Himself) takes care of what he must have, and (the desire of) the world comes to him all humbled. And whoever intends to have (the best of) the present world, Allah Ta’ ala makes want and need stand before him to the effect that they can never shake them off. There is no end to his needs because he is constantly being driven by worldly greed. No soon¬er does one need gets fulfilled, another gaping need stands before him. Countless concerns gang upon him but what he gets is what Allah Ta&ala has written for him. Regarding what has been said in this verse: ` those who aimed for worldly life are fully recompensed for their deeds within this world,& someone may raise a doubt. It could be said that there are many peo¬ple who, despite aiming and striving to have worldly benefits, fail to achieve their objective even in this world and, on occasions, they would get just about nothing. The answer is that, in this verse, the Qur&an has dealt with the subject briefly. Details appear in the following verse of Surah al-Isra& (Banu Isra&i1) where it was said: مَّن كَانَ يُرِ‌يدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِ‌يدُ (whoever keeps aspiring for the immediate, We shall give soon what We will to whom We will). It means whoever keeps aiming for nothing but worldly life, Allah gives it to him right here within the world, but this giving is restricted by two conditions. Firstly, He gives as much as He wants. It is not necessary to let them have what matches their desires. Secondly, He gives only to a person it is appropriate to give him according to His wisdom. Giving to everyone is not necessary.  Show more

خلاصہ تفسیر جو شخص ( اپنے اعمال خیر سے) محض حیات دنیوی ( کی منفعت) اور اس کی رونق ( حاصل کرنا) چاہتا ہے ( جیسے شہرت و نیک نامی و جاہ اور ثواب آخرت حاصل کرنے کی اس کی نیت نہ ہو) تو ہم ان لوگوں کے ( ان) اعمال ( کی جزا) ان کو دنیا ہی میں پورے طور سے بھگتا دیتے ہیں اور ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ... ہوتی ( یعنی دنیا ہی میں ان کے اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت و فراغ عیش و کثرت اموال و اولاد عنایت کردیا جاتا ہے جب کہ ان کے اعمال کا اثر ان کے اضداد پر غالب ہو اور اگر اضداد غالب ہوں تو پھر یہ اثر نہیں مرتب ہوتا، یہ تو دنیا میں ہوا رہا آخرت میں، سو) یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ ( ثواب وغیرہ) نہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ آخرت میں سب ( کا سب) ناکارہ ( ثابت) ہوگا اور ( واقع میں تو) جو کچھ کر رہے ہیں وہ ( اب بھی) بےاثر ہے ( بوجہ فساد نیت کے مگر صورت ظاہری کے اعتبار سے ثابت سمجھا جاتا ہے آخرت میں یہ ثبوت بھی زائل ہوجاوے گا) کیا منکر قرآن ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جو قرآن پر قائم ہو جو کہ اس کے رب کی طرف سے آیا ہے اور اس ( قرآن) کے ساتھ ایک گواہ تو اسی میں موجود ہے ( یعنی اس کا معجزہ ہونا جو کہ دلیل عقلی ہے) اور ( ایک) اس سے پہلے ( یعنی) موسیٰ ( علیہ السلام) کی کتاب ( یعنی توریت اس کے ساتھ شہادت کے لئے موجود) ہے جو کہ ( احکام بتلانے کے اعتبار سے) امام ہے اور ( احکام پر جو ثمرہ وثواب ملے گا اس کے اعتبار سے وہ کتاب سبب) رحمت ہے ( اور یہ دلیل نقلی ہے، غرض قرآن کے صدق و صحت کے لئے عقلی اور نقلی دونوں دلیلیں موجود ہیں پس ان ہی دلائل کے سبب سے) ایسے لوگ (جن کا ذکر ہوا کہ وہ صاحب بیّنہ ہیں) اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور ( کافر کا یہ حال ہے کہ) جو شخص دوسرے فرقوں میں سے اس قرآن کا انکار کرے گا تو دوزخ اس کے وعدہ کی جگہ ہے ( پھر منکر قرآن مصدق قرآن کے برابر کب ہوا) سو ( اے مخاطب) تم قرآن کی طرف سے شک میں مت پڑنا بلا شک و شبہ وہ سچی کتاب ہے تمہارے رب کے پاس سے ( آئی ہے) لیکن ( باوجود ان دلائل کے غضب ہے کہ) بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے۔ معارف و مسائل مخالفین اسلام کو جب عذاب کی وعیدیں سنائی جاتیں تو وہ اپنی خیرات و صدقات اور خدمت خلق و رفا عام کے کاموں کو سند میں پیش کرتے تھے کہ ہم ایسے نیک کام کرتے ہیں پھر ہم کو عذاب کیسا ؟ اور آج تو بہت ناواقف مسلمان بھی اس شبہ میں گرفتار نظر آتے ہیں کہ جو کافر ظاہری اعمال و اخلاق درست رکھتے ہیں، خلق خدا کی خدمت اور خیرات و صدقات کرتے ہیں، سڑکیں پل شفا خانے، پانی کی سبیلیں بناتے اور چلاتے ہیں ان کو مسلمانوں سے اچھا جانتے ہیں، مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ ہر عمل کے مقبول اور باعث نجات آخرت ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کے لئے کیا گیا ہو، اور اللہ کے لئے کرنا وہی معتبر ہے جو اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقہ پر کیا گیا ہو، جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہی نہیں رکھتا اس کے تمام اعمال و اخلاق ایک بےروح ڈھانچہ ہے جس کی شکل و صورت تو اچھی بھی ہے مگر روح نہ ہونے کی وجہ سے دار آخرت میں اس کا کوئی وزن اور اثر نہیں، البتہ دنیا میں چونکہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ظاہری صورت کے اعتبار سے وہ نیک عمل ہے اس لئے اللہ جل شانہ نے اپنے کمال عدل و انصاف کی بناء پر اس عمل کو بھی بالکل ضائع نہیں قرار دیا بلکہ اس کے کرنے والے کے پیش نظر جو مقصد تھا کہ دنیا میں اس کی عزت ہو لوگ اس کو سخی کریم، بڑا آدمی سمجھیں، دنیا کی دولت، تندرستی اور راحت نصیب ہو، اللہ تعالیٰ اس کو یہ سب کچھ دنیا میں دیدیتے ہیں، آخرت کا تصور اور وہاں کی نجات اس کے پیش نظر ہی نہ تھی اور نہ اس کا بےروح عمل وہاں کی نعمتوں کی قیمت بن سکتا تھا اس لئے ان اعمال کا وہاں کچھ عوض نہ ملے گا اور کفر و معصیت کی وجہ سے جہنم میں رہے گا، یہ خلاصہ مضمون ہے پہلی آیت کا، اب اس کے الفاظ کو دیکھئے۔ ارشاد ہے کہ جو شخص صرف دنیا کی زندگی اور اس کی رونق ہی کا ارادہ کرتا رہا تو ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں پورا دیدیتے ہیں، ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ قرآن میں اس جگہ مَن اَرَادَ کا مختصر لفظ چھوڑ کر مَنْ كَانَ يُرِيْدُ کا لفظ اختیار فرمایا ہے جو دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے جس کا ترجمہ ارادہ کرتا رہا، کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ حال صرف ایسے لوگوں کا ہے جو شخص آخرت کی فکر اور وہاں کی نجات کے لئے عمل کرتا ہے پھر اس کے ساتھ کچھ دنیا کا بھی ارادہ کرلے تو وہ اس میں داخل نہیں۔ ائمہ تفسیر کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ آیت کفار کے حق میں آئی ہے یا مسلمانوں کے یا مسلم و کافر دونوں سے متعلق ہے ؟ آیت کے آخری جملہ میں جو الفاظ آئے ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے بجز دوزخ کے کچھ نہیں، اس سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار ہی کے متعلق ہے کیونکہ مسلمان کتنا ہی گناہگار ہو، گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار جنت میں جائے گا، اسی لئے ضحاک وغیرہ مفسرین نے اس کو کفار ہی کے متعلق قرار دیا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو اپنے نیک اعمال سے صرف دنیا کی بھلائی، راحت، دولت، عزت کے طلبگار ہیں، نیک عمل اسی نیت سے کرتے ہیں کہ دنیا میں عزت و راحت ملے، اور مذکورہ جملہ کا مطلب یہ ہے جب تک اپنے اعمال بد کی سزا نہ بھگت لیں گے اس وقت تک ان کو بجز دوزخ کے کچھ نہ ملے گا۔ اور زیادہ راجح اور واضح بات یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اعمال صالح کو صرف دنیا کے فوائد دولت، عزت، صحت وغیرہ کی نیت سے کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے والے کافر ہوں جو آخرت کے قائل ہی نہیں، یا مسلمان ہوں جو زبان سے آخرت کے قائل ہیں مگر عمل میں اس کی فکر نہیں رکھتے، بلکہ ساری فکر دنیا ہی کے فوائد سے وابستہ رکھتے ہیں، حضرات مفسرین میں سے مجاہد، میمون بن مہران، معاویہ (رض) نے اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشہور حدیث انما الاعمال بالنیات سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے کہ جو شخص اپنے عمل میں جس چیز کی نیت کرتا ہے، اس کو وہی ملتی ہے، جو دنیا کی نیت کرتا ہے اس کو دنیا ملتی ہے، جو آخرت کی نیت کرتا ہے آخرت ملتی ہے، جو دونوں کی نیت کرتا ہے اس کو دونوں ملتی ہیں، تمام اعمال کا مدار نیت پر ہونا ایک ایسا اصول ہے جو ہر ملت و مذہب میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ( قرطبی) ۔ اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز ان لوگوں کو لایا جائے گا جو دنیا میں عبادت اس لئے کرتے تھے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزت ہو، ان سے کہا جائے گا کہ تم نے نماز پڑھی، صدقہ خیرات کیا، جہاد کیا، قرآن کی تلاوت کی مگر یہ سب اس نیت سے کیا کہ تم نمازی اور سخی اور غازی اور قاری کہلاؤ تو جو تم چاہتے تھے وہ تمہیں مل گیا، دنیا میں تمہیں یہ خطابات مل چکے اب یہاں تمہارے ان اعمال کا کوئی بدلہ نہیں اور سب سے پہلے جہنم میں ان لوگوں کو ڈالا جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ یہ حدیث نقل کرکے رو پڑے اور فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا سے اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں بروایت انس منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتے، مومن جو نیک کام کرتا ہے اس کو دنیا میں بھی کچھ بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں ثواب ملتا ہے، اور کافر ( چونکہ آخرت کی فکر ہی نہیں رکھتا اس لئے اس) کا حساب دنیا ہی میں بھگتا دیا جاتا ہے، اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں دنیا کی دولت، عزت، صحت، راحت اس کو دے دیجاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا جس کا معاوضہ وہاں پائے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ مومن اگرچہ دنیا کی فلاح کا بھی خواہش مند ہوتا ہے مگر آخرت کا ارادہ غالب رہتا ہے اس لئے اس کو دنیا میں بقدر ضرورت ہی ملتا ہے اور بڑا معاوضہ آخرت میں پاتا ہے۔ حضرت فاروق اعظم ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر حاضر ہوئے تو سارے گھر میں چند گنی چنی چیزوں کے سوا کچھ نہ دیکھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو بھی دنیا کی وسعت عطا فرماویں، کیونکہ ہم فارس و روم کو دیکھتے ہیں وہ دنیا میں بڑی وسعت اور فراخی میں ہیں حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ سے کمر لگائے ہوئے تھے، حضرت عمر کے یہ الفاظ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا : اے عمر ! تم اب تک اسی خیال میں پڑے ہو، یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے۔ ( مظہری) ۔ جامع ترمذی اور مسند احمد میں بروایت انس منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کی نیت اپنے اعمال میں طلب آخرت کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کے دل کو غنی کردیتے ہیں اور اس کی ضروریات کو پورا فرما دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے، اور جس شخص کی نیت طلب دنیا کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ محتاجی اس کے سامنے کردیتے ہیں کہ اس کی حاجت کبھی پوری ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہوس دنیا اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ایک حاجت پوری ہونے سے پہلے دوسری حاجت سامنے آجاتی ہے اور بیشمار فکریں اس کو لگ جاتی ہیں اور ملتا صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ آیت مذکورہ میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ دنیا کا ارادہ کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ باوجود دنیا کا ارادہ کرنے اور کوشش کرنے کے دنیا میں بھی ان کا مطلب پورا نہیں ہوتا اور بعض دفعہ کچھ بھی نہیں ملتا، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت میں اس جگہ اجمال ہے اس کی پوری تفصیل سورة اسراء کی اس آیت میں ہے، جس میں فرمایا (آیت) مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ، یعنی جو شخص دنیا ہی کا ارادہ کر رہتا ہے ہم اس کو دنیا ہی میں نقد دیدیتے ہیں مگر یہ دنیا دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، اول یہ کہ جس قدر دنیا چاہیں اتنا ہی دیتے ہیں ان کی مانگ اور طلب کے برابر دنیا ضروری نہیں، دوسرے یہ کہ صرف اسی شخص کو دیتے ہیں جس کو دنیا بتقاضائے حکمت مناسب سمجھتے ہیں ہر ایک کو دینا ضروری نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۝ ١٥ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ ب... ِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے بخس البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا . ( ب خ س ) البخس ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

طلب دنیا یا عقبی کی چاہت قول یاری ہے من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا وھم فیھا لا یبخسون اولیک الذین لیس لھم فی الاخرۃ الا النار جو لوگ بس اسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ۔ ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئ... ی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص دنیا کی خاطر کوئی عمل کرے گا آخرت میں اس کے لیے اس عمل کے ثواب کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے من کان یرید حرث الاخرۃ نزدلہ فی حرثد و من کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہوتا ہے ہم اس کو کھیتی میں اور اضافہ کرتے ہیں اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا طلب ہوتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی انہی معنوں میں روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا بشرا متی بالسناء والمتمکن فی الارض فمن عمل منھم عملا ً للدنیا لم یکن لہ فی الاخرۃ نصیب ۔ میری امت کو اس دنیا میں چمک اٹھنے اور غلبہ پانے کی بشارت ہو ، ان میں سے جو شخص دنیا کی خاطر کوئی عمل کرے گا آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایسا عمل جو صرف تقرب الٰہی اور عبادت کے طور پر سر انجام دیا جاتا ہے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اجرت دنیا کا حصہ اور اس سے تعلق رکھنے والا فائدہ ہے، اس بنا پر اگر اجرت لے لی جائے گی تو وہ عمل تقرب الٰہی اور عبادت کے دائرہ سے نکل جائے گا کتاب و سنت کا یہی مقتضی ہے ۔ قول باری توف الیھم اعمالھم کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ اول یہ کہ اگر کوئی کافر صلہ رحمی کرتا ہے یا کسی سائل کو کچھ دے دیتا ہے یا کسی مصیبت زدہ پر ترس رکھاتا ہے یا اسی قسم کا کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں اس کے عمل کا بدلہ اسے دے دیتا ہے ۔ بدلے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے رزق میں وسعت پیدا کردی جاتی ہے ، دنیاوی نعمتوں سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے یا دنیاوی مصیبتیں اس سے دور کردی جاتی ہیں ۔ مجاہد اور ضحاک سے یہ تفسیر مروی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مال غنیمت میں حصہ لینے کی خاطر جنگ میں شریک ہوگا ۔ آخرت کا ثواب اس کے مد نظر نہیں ہوگا وہ مال غنیمت میں اپنے حصے کا مستحق قرار پائے گا اور اسے اس کا حصہ مل جائے گا ، اس صورت میں آیت منافقین کی کیفیت بیان کرے گی ۔ اگر یہ دوسری تاویل اختیار کی جائے تو پھر آیت کی اس بات پر دلالت ہوگئی کہ کافر اگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ میں شریک ہوگا تو اسے مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا ، نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ کافروں کے خلاف جنگ میں کافروں سے مدد لینا جائز ہے ۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے اس لیے کہ غلبہ حاصل ہونے کی صورت میں اسلام کا حکم ان پر غالب ہوگا، کفر کا حکم غالب نہیں آئے گا ، اس لیے اگر یہ لوگ جنگ میں شریک ہوں گے تو مال غنیمت میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دیا جائے گا تا ہم آیت میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ جنگ میں شریک ہو کر ایک کافر جس بدلے کا مستحق ہوگا وہ مال غنیمت کا ایک سہم یعنی مجاہدین کو ملنے والے حصوں کی طرح ایک حصہ ہوگا یا تھوڑا بہت مال ہوگا ۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) جو شخص اپنے اعمال سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ فرض کیے ہیں محض حیات دنیوی اور اس کی رونق حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم ان کے ان اعمال کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے اعمال کے ثواب میں دنیا میں کچھ کمی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا ) جن لوگوں کا مقصد حیات ہی دنیوی مال و متاع کو حاصل کرنا ہو اور اسی کے لیے وہ رات دن دوڑ دھوپ میں لگے ہوں تو : (نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ ) ان لوگوں کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہ... ے ‘ اور انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں دنیوی زندگی کو حسین و دلکش بنانے کے لیے ہی صرف کردی ہیں۔ ان کی ساری منصوبہ بندی اسی دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے ہے۔ چناچہ ان کی اونچی اونچی عمارات بھی بن گئی ہیں ‘ کاروبار بھی خوب وسیع ہوگئے ہیں ‘ ہر قسم کا سامان آسائش بھی ان کی دسترس میں ہے ‘ عیش و عشرت کے مواقع بھی حسب خواہش انہیں میسر ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. What prompted this Qur'anic remark is the fact that the kind of people who rejected the message of the Qur'an both in the time of the Prophet (peace be on him) and subsequently have one major characteristic in common - they are all steeped in worldliness. Many of the arguments which they advance in order to reject the Qur'an are probably after-thoughts, merely rationalized excuses for not acce... pting the truth. What lies at the root of these people's rejection is the hypothesis that everything other than this world and its gains are worthless, and that everyone should have the fullest opportunity to seize the optimum portion of worldly benefits.  Show more

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :15 اس سلسلہ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں ۔ جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہی... ں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں ۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شئے قابل قدر نہیں ہے ، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: کافر لوگ جو آخرت پر تو ایمان نہیں رکھتے، اور جو کچھ کرتے ہیں، دنیا ہی کی خاطر کرتے ہیں، ان کی نیکیوں، مثلا صدقہ خیرات وغیرہ کا صلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی نیکی معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کوئی نیک کام صرف دنیوی...  شہرت یا دولت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے کرے تو اسے دنیا میں تو وہ شہرت یا دولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس نیکی کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا۔ بلکہ واجب عبادتوں میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے الٹا گناہ ہوتا ہے۔ آخرت میں وہی نیکی معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کی گئی ہو۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ انس بن مالک (رض) اور حسن بصری کی روایت سے اگرچہ یہ آیت کافروں کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن مجاہد بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے یہ کہا ہے کہ آیت کا حکم ریا کاروں کو بھی شامل ہے اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہیں کہ کافر اور منافق یا مسلمان ریا کار جو کچھ عمل نیک دنیا میں کرتے ہیں ... اس کا بدلہ ان کو یہیں دنیا میں مل جاوے گا اور آخر میں ان کو بلا عمل جانا اور عذاب بھگتنا پڑے گا۔ مجاہد نے تیس دفعہ سارا قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے تفسیر سیکھنے کی غرض سے پڑہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا جو مرتبہ تفسیر کے باب میں ہے وہ کئی جگہ اوپر بیان ہوچکا ہے اس واسطے مجاہد کا قول جو اس آیت کی تفسیر اور شان نزول ہے وہ زیادہ معتبر ہے بلکہ سفیان ثوری نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تفسیر کے باب میں جب مجاہد کا قول آجاوے تو دوسرے کسی کی روایت کی پھر ضرورت نہیں اس واسطے امام بخاری نے بخاری کی کتاب التفسیر میں جس قدر مجاہد کے قول پر بھروسہ کیا ہے مجاہد کے ہم عصر اور لوگوں کی روایت پر نہیں کیا غرض بعضے مفسروں نے مجاہد کے قول کو اپنی تفسیروں میں ضعیف قول کی طرح جو نقل کیا ہے یا مجاہد کے قول کو نقل کر کے اس پر اعتراض جو کیا ہے وہ خود ایک ضعیف بات ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان ریا کاروں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ جن لوگوں کے دکھانے کے لئے تم نے دنیا میں نیک کام کئے تھے وہی تم کو ان کاموں کا بدلہ دیویں گے ١ ؎ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایسے عمل بالکل بیکار ہیں اس حدیث سے مجاہد کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے اس لئے کہ جن لوگوں کا ذکر آیت میں ہے ان لوگوں کی شان میں آگے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے نیک عمل بیکار ہیں حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ان لوگوں میں ریا کار مسلمان بھی داخل ہیں اور یہی مطلب مجاہد کی روایت کا ہے۔ اب دونوں آیتوں اور حدیث کو ملا کر حاصل مطلب یہ ہوا کہ کافر اور منافق تو عقبے کی سزا و جزا کے منکر ہیں اور مسلمان ریا کار اگرچہ عقبیٰ کی سزا و جزا کے قائل ہیں لیکن ان کے بعضے نیک عمل عقبیٰ کی جزا کے خیال سے نہیں بلکہ دنیا کے دکھاوے کے خیال سے ہوتے ہیں اس لئے کافر اور منافقوں کے سب نیک عمل اور ریا کار مسلمانوں کے فقط دنیا کے دکھاوے کے عمل عقبیٰ کی جزا کے حساب سے یہ سب بیکار ہیں منافقوں سے مقصود یہاں اعتقادی منافق ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ظاہری مسلمان اور باطنی کافر تھے۔ عملی منافق مثلاً نماز میں سستی کرنے والے یا لڑائی جھگڑے کے وقت گالی منہ سے نکالنے والے آیتوں کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٦ باب الریاء والسمعۃ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:15) نوف۔ وفی یوفی توفیۃ (باب تفعیل) پورا پورا دینا۔ نوف اصل میں نوفی تھا جواب شرط ہونے کے سبب ی ساقط ہوگئی آیۃ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الدنیا ہے۔ لایبخسون۔ مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب بخس سے اور وہ دنیا میں گھاٹے میں نہیں رکھے جائیں گے۔ اگر ھا ضمیر کا مرجع اعمال کا بدلہ ہے۔ تو ... ترجمہ ہوگا ان کے اعمال کے عوض میں کمی نہیں کی جائے گی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 15 تا 16 یرید (وہ چاہتا ہے) زینتھا (اس کی زیب وزینت) نوف (ہم پورا دیں گے) لابیخسون (وہ کمی نہ کئے جائیں گے) حبط (ضائع ہوگیا) صنعوا (جو انہوں نے بتایا تھا) بطل (بیکار، فضول) تشریح : آیت نمبر 15 تا 16 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” تمام اعمال کا دارو مد... ار نیتوں پر ہے “ اس کی نیت جس طرح کی ہوگی اللہ کا معاملہ بھی اس کے مطابق ہوگا ۔ اگر ایک شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہوئے وہ اعمال سر انجام دیتا ہے جن کی زبردست فضیلتیں بیان کی گئی ہیں لیکن ان اعمال سے اس کا مقصد محض دکھاوا، شہرت اور دنیا کی بےحقیقت دولت اور مال و زر کا حصول ہو تو وہ اس شخص کے دنیاوی زندگی میں عزت و شہرت صحت و تندرستی اور خوش حالی کا ذریعہ بن جائیں گے لیکن آخرت میں اس کا دامن خالی ہوگا کیونکہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی نہ ہو بلکہ ریا کاری ہو اس کا صلہ دنیا ہی میں دیدیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح طریقے پر سامنے آجاتی ہے کہ جب ایمان عمل صالح اور اعلیٰ ترین اعمال کے باوجود محض ریاکاری کی وجہ سے ایسے شخص کا انجام اتنا بھیانک ہے تو وہ لوگ جو نیکی اور بھلائی کے کام صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کاموں کا مقصد محض دنیاداری ہے تو اس کا صلہ آخرت میں ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کو اس کی نیکیوں کا بدلہ بغیر کسی کمی کے اسی دنیا میں دیدیا جائے گا۔ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث جس کو حضرت انس نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین ایسے اصحاب کا ذکر کیا ہے صجو ایمان لانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کو بہت پسند ہیں، جہاد ، علم قرآن اور سخاوت) جب ایک مجاہد کو پھر ایک عالم کو پھر ایک سخی آدمی کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سب کی زبان پر ہوگا کہ ہم نے جہاد کیا ہم نے علم دین کو پھیلایا اور ہم نے سخاوت سے غریبوں کا بھلا کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تھا تاکہ لوگ تمہیں مجاہد، عالم اور سخی داتا کہیں۔ تمہیں لوگوں کی تعریف اور جو انہوں نے عزت کی ہے وہ دنیا میں صلہ کے طور پر مل چکی ہے۔ اب آخرت میں تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔ پھر ایک کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا کہ اس سے ان کی نیت دنیاداری تھی تو جن کی نیکیوں کی بنیاد یہی دنیا داری ہو ان کی نجات اور آخرت میں صلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی بات کو زیر مطالعہ آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص بھی دنیا کی زندگی اس کی زیب وزینت مانگے گا اس کو اس کے نیک اعمال کے بدلے میں نہ صرف بہت کچھ دیا جائے گا بلکہ کسی طرح کی کمی نہ کی جائے لیکن ان کا صلہ اور بدلہ اسی دنیا میں دیدیا جائے گا اور آخرت میں سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہ ہوگا اور وہ تمام کام جو انہوں نے دنیا داری کے لئے کئے تھے آخرت کی زندگی میں بیکار اور فضول بن کر رہ جائیں گے۔ ان آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو کام ایمان لانے کے بعد کئے جاتے ہیں اگر نیت صحیح ہو تو اس کا بدلہ دنیا میں اور آخرت دونوں میں عطا کیا جاتا ہے۔ لیکن جن اعمال کی بنیاد میں ایمان نہ ہو اس کا بدلہ اسی دنیا میں بھگتا دیا جاتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی دنیا میں ہی ان اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت وفراغ عیش و کثرت اموال اولا عنایت کردیا جاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگ دنیا کے مفاد اور اس کی زیب وزینت کے لیے حقائق کو ٹھکراتے ہیں جس بنا پر دنیا کی حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس نیت کے ساتھ کسی کام کے لیے کوشش کرے گا اسے اس کی نیت اور کوشش کے مطابق صلہ دے گا۔ اگر کوئی آدمی صرف دنیا اور اس کی اچھی...  شہرت کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اسے دنیا میں نیک نامی مل جائے گی۔ اگر وہ دنیا اور آخرت کے لیے کوشاں ہے تو اسے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی کوشش سے کئی گنازیادہ صلہ دیا جائے گا۔ دونوں قسم کے لوگوں کے بدلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہاں اسی اصول کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا اور اس کی آسایش وزیبایش یعنی اس کی ترقی کے لیے کوشش کرے گا۔ اس کے صلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ چناچہ مختلف مذاہب اوراقوام کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی اپنی قوم اور نظریہ کے لیے جس جس انداز میں محنت اور قربانیاں پیش کیں۔ اسی قدر ہی وہ لوگ اپنی اپنی قوم کے ہیرو ٹھہرے۔ جنہیں لوگ اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ گنگارام، میو اور لیڈی ولنگٹن نے لاہور میں ہسپتال بنائے۔ تو انہیں سرکاری خطاب دیا گیا اور آج تک لوگ انہیں اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے برے الفاظ میں ان کا نام نہیں لیا۔ یہ شہرت اور نیک نامی اللہ تعالیٰ کے اسی اصول اور فرمان کا نتیجہ ہے کہ جو کوئی دنیا کے لیے اچھی کوشش کرے گا اس کی کوشش کے صلہ میں کوئی کمی نہیں رہنے دی جائے گی۔ اِلّا یہ کہ اس نے یہ کام اپنی قوم اور ملک کے لیے خلوص کے ساتھ کیا ہو۔ اس کے ساتھ وضاحت فرمادی کہ آخرت میں آگ کے سوا یہ کچھ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ دنیا کی خاطرکوشش کرنے والا انسان آخرت کی جوابدہی پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس لیے انہیں آخرت میں آگ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ انہوں نے دنیافانی کے لیے محنت کی دنیا بالآخر ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا دنیا کے خاتمہ کے ساتھ ہی ان کے کارنامے اور ان کی شہرت ختم ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ آخرت کی جزا اور اللہ تعالیٰ کے مالک یوم الدین ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے انھیں قیامت کے دن کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عقیدہ آخرت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے عدل و انصاف کے ساتھ ہے۔ اس لیے آخرت کا منکر بیک وقت اسلام کے دو بنیادی عقائد کا انکار کرتا ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْءَٓتِی یَوْمَ الدِّیْنِ ) [ رواہ مسلم : باب الدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے یہ اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔ “ مسائل ١۔ دنیا دار لوگوں کو دنیا میں ہی بدلہ دیا جاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کے اجر میں کمی نہیں کرتا۔ ٣۔ صرف دنیا کے خواہش مند کو آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ٤۔ کفار کے اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا صلہ دیتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا اچھاصلہ دیتا ہے۔ (النجم : ٢٥) ٢۔ ہم ان کے اعمال کی جزا پوری دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے۔ (ہود : ١٥) ٣۔ اللہ ان کی نیکی کا صلہ اچھائی کی صورت میں دے گا۔ (النجم : ٣١) ٤۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر : ٣٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا : ٤) ٦۔ جو صبر کرتے رہے ہم ان کو بہترین صلہ عطا کریں گے۔ (النحل : ٩٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس دنیا میں جو لوگ بھی جدوجہد کرتے ہیں وہ اس کا ثمرہ پاتے ہیں۔ اب بات اس کے نصب العین پر موقوف ہے۔ بعض لوگوں کی نظر اعلی مقاصد اور بلند افق پر ہوتی ہے۔ اور بعض لوگ صرف اپنے قدموں پر نظر رکھتے ہٰں اور دنیا کے قریب اور محدود مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کے کروفر کے متلاشی ہ... وتے ہیں تو وہ صرف اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کو ان کے عمل کا نتیجہ اس دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اور پھر وہ اس سے نفع اٹھاتے ہیں جس طرح ان کی مرضی ہوتی ہے۔ لیکن آخرت میں ان کا حصہ صرف آگ ہوتی ہے کیونکہ ایسے شخص نے آخرت کے لیے کچھ کمائی نہیں کی اور نہ آخرت کو اس نے اہمیت دی۔ اس لیے وہ دنیا میں جو بھی اچھا عمل کرے گا ، اس کی جزاء اسے یہاں ہی مل جائے گی اور آخرت میں وہ عمل باطل ہوگا۔ وہاں اس کے اعمال کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ آخرت میں ایسے لوگوں کے اعمال حبط ہوں گے۔ یعنی اس طرح جس طرح کسی مویشی کو زہر آلود گھاس پھلا دیتی ہے جبکہ در حقیقت وہ بیمار ہوتا ہے ، موٹا نہیں ہوتا اور اس کا یہ موٹاپا موجب ہلاکت ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہمیں بہت سے افراد اور اقوام نظر آتے ہیں جو رات دن اس دنیا کے لیے کام کرتے ہیں اور ان کو ان کی جدوجہد کے ثمرات بھی ملتے ہیں۔ ان کی دنیا نہایت ہی ترقی یافتہ اور فلاح یافتہ ہوتی ہے ، اور اس طرح پھولی ہوتی ہے جس طرح بیمار جانور۔ لہذا ہمیں ایسے لوگوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی پوچھنا چاہیے کہ کیوں ؟ کیونکہ زمین میں یہی قانون الہی ہے کہ : مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ " جو شخص حیات دنیا اور اس کی زینت کا طلبگار ہے اس دنیا میں ہم اس کے اعمال کا ثمر پورا پورا دیں گے اور ان کا کچھ نقصان نہ کیا جائے گا " لیکن اللہ کی اس سنت کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کے نتائج کو یقین مانتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھولنا نہ چاہئے کہ ایک شخص دنیا کے لیے کام کرتے ہوئے بھی آخرت پر نظر رکھ سکتا ہے اور دنیا کی جدوجہد کے دوران بھی آخرت کے لیے کام کرسکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس کی دنیا بھی اچھی اور مزین ہو اور دنیا میں بھی کوئی کمی نہ ہو اور آخرت میں بھی کوئی کمی نہ ہو اور آخرت میں بھی کامیاب ہو حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے لیے کام کرنا ، دنیا کے لیے کام کرنے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتا بلکہ دنیا کا کام بھی آخرت کے لیے کام ہے بشرطیکہ توجہ الی اللہ قائم ہو اور اگر ایک انسان دنیا کی جدوجہد میں اللہ کو یاد رکھے تو اس کی جدوجہد میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں مزید برکت ہوتی ہے۔ اس کی کمائی پاکیزہ اور ستری ہوتی ہے اور دنیا کے ساتھ آخرت بھی اسے ملتی ہے۔ الا یہ کہ جو شخص دنیا میں حرام خواہشات کی پیروی کرے ناجائز شہوات نہ صرف یہ کہ آخرت میں مردود ہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ پسندیدہ نہیں ہیں۔ اس کا تجربہ مغربی اقوام کو ان کی نفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہوچکا ہے اور انسانی تاریخ کا جن لوگوں نے مطالعہ کیا ہے وہ بھی اچھی طرح ان نتائج تک پہنچ چکے ہیں۔ اب سیاق کلام اس رویے کی طرف مڑجاتا ہے ، جو مشرکین نے رسول اللہ کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حضور کی سچائی منجانب اللہ ہے اور پھر یہ قرآن بھی حضور کی رسالت اور حقانیت پر گواہ ہے۔ اور یہ کہ حضور مرسل من جانب اللہ ہیں اور اس پر حضرت موسیٰ کی کتاب بھی گواہ ہے۔ چناچہ رسول اللہ اور آپ کی دعوت کے بارے میں تمام براہین اور دلائل بیان کیے جاتے ہیں۔ اس طرح حضور کی تالیف قلب مقصود ہے۔ نیز آپ کے ساتھ جو مختصر جماعت اس عظیم مقصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی ڈھارس بندھانا بھی پیش نظر ہے۔ اور مخالفین اور کفار کو ان کے انجام بد سے ڈرانا بھی مطلوب ہے کہ اگر انہوں نے روش نہ بدلی تو انجام آگ ہے۔ ان کو قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس میں وہ شرمندگی ، بےعزتی اور ذلت کا شکار ہیں ، محض اس لیے کہ انہوں نے دنیا میں کبر اور غرور کا رویہ اختیار کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ جواب ڈینگیں مار رہے ہیں۔ قیامت میں کس قدر ذلیل و خوار اور عاجز ہوں گے اور اللہ کے عذاب سے بچ نکلنے کا کوئی موقعہ نہ ہوگا اور نہ ان کا کوئی ولی اور مددگار ہوگا۔ لاجرم انہم فی الاخرۃ ھم الاخسرون (یہ لازمی بات ہے کہ آخرت میں یہی لوگ سخت خسارے میں ہوں گے) چناچہ اب (اگلی آیات میں) کفار اور مومنین کے درمیان ایک مشاہداتی موزانہ کیا جاتا ہے اور دونوں کے درمیان فرق کو نمایاں کی ا جاتا ہے کہ دونوں کا حال اور مآل کس قدر مختلف ہے۔ ذرا غور سے پڑھیے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے آخرت میں کوئی ثواب نہ ملے گا ان آیات میں اول تو ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کے طالب ہیں دنیا ہی ان کا مقصود ہے اور دنیا کو مقصود بنا لینے کی وجہ سے آخرت کے طلب گار نہیں وہ ایمان لانے کے روا دار نہیں ‘ دنیا اور دنیا کی زینت ہی ان کے نزدیک سب سے ... بڑی چیز ہے ایسے لوگ جو کچھ ایسے اعمال کرلیتے ہیں جو نیکی کے دائرے میں آسکتے ہیں مثلاً صلۂ رحمی یا فقراء و مساکین پر خرچ کرنا وغیرہ ‘ دنیا ہی میں ان کا بدلہ دے دیا جائے گا ‘ اور جب یہ اعمال آخرت میں حبط ہوجائیں گے یعنی ان کے عوض کچھ نہ ملے گا۔ اور دنیا داری کے اصول پر جو کام کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان میں ہماری کامیابی ہے وہ بھی وہاں بےفائدہ اور ناکارہ ثابت ہوں گے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کسی مؤمن کی ایک نیکی کے عوض میں بھی کمی نہ فرمائے گا اس کی وجہ سے دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے اور آخرت میں بھی دے گا لیکن کافر نے جو نیکیاں کیں جن میں اللہ کی رضا کا دھیان رکھا ان نیکیوں کے عوض اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہ ہوگی۔ جس پر اسے ثواب دیا جائے۔ (رواہ مسلم) کافر جو دنیا میں کچھ ایسے عمل کرتے ہیں جو نیکی کی فہرست میں آسکتے ہیں مثلاً مریضوں کا مفت علاج کردیا۔ شفا خانے بنوا دئیے ‘ سڑکیں تیار کردیں پانی کی سبیلیں لگا دیں ان کی وجہ سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں آخرت میں ان چیزوں کا ثواب ملے گا بلکہ مسلمانوں کی زبان سے جو یہ سنتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں اسے آخرت میں دائمی عذاب ہوگا تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کو مانتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لئے ایسے ایسے کام کرتے ہیں پھر ہمیں عذاب کیوں ہوگا ؟ ان لوگوں کو واضح طور پر بتادیا کہ دنیا میں جو نیک عمل ہیں ان کا بدلہ تمہیں دنیا ہی میں دے دیا جائے گا اور کفر اور معصیت کی وجہ سے تمہارے لئے عذاب ہی عذاب ہے۔ ایک جاہلانہ اعتراض کا جواب : اس سے بہت سے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کا بھی جواب ہوگیا کہ کافر تو مزے اڑاتے ہیں اور ہم تکلیف میں ہیں ‘ اول تو نہ سارے مسلمان تکلیف میں ہیں اور نہ سارے کافر راحت میں ہیں دوسرے کافر کو آخرت میں آرام ملتا ہی نہیں اس کے اعمال کا بدلہ یہیں دیا جا رہا ہے اور تمہارے اعمال کا بدلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔ پھر جو تکلیفیں ہیں ان پر بھی ثواب ملے گا پھر کس چیز کا واویلا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے قانون کو سمجھو ‘ کافروں کو دیکھ کر کیوں رال ٹپکاتے ہو ‘ بعض جاہل کہہ دیتے ہیں جو بجلی گرتی ہے وہ مسلمان ہی کے آشیانہ کو تلاش کرتی ہے اور بعض جاہل کہتے ہیں کہ غیروں کے لئے محلات اور قصور اور مسلمانوں سے صرف وعدہ حور یہ گمراہی کی باتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے قانون پر اعتراض ہے ‘ قصداً اعتراض کرے تو کفر عائد ہوجاتا ہے ‘ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حاضر ہوئے اس وقت آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ کے نیچے کوئی بچھونا نہیں تھا اور آپ کے جسم میں چٹائی کی بناوٹ کے نشان پڑگئے تھے اور تکیہ بھی چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ سے دعا کیجئے تاکہ وہ آپ کی امت کو مالی وسعت عطا فرما دے۔ کیونکہ فارس و روم کے لوگوں کو مالی وسعت دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے تم ابھی تک ان ہی خیالات میں مبتلا ہو ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مرغوب چیزیں انہیں دنیا میں دے دی گئی ہیں۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ کیا تم لوگ اس پر راضی نہیں ہو کہ مرغوب چیزیں ان کے لئے دنیا میں ہوں اور ہمارے لئے آخرت میں ہوں۔ (رواہ البخاری کما فی المشکوٰۃ ص ٤٤٧)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19: زجر مع تخویف اکروی یعنی دنیا میں ان کی روزی میں کمی نہیں کی جاتی جیسا کہ سورة بنی اسرائیل رکوع 2 میں وارد ہے مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ الایۃ مگر آخرت میں ان کے لیے جہنم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ انہوں نے ثواب آخر کے لیے کیا ہی کچھ نہیں۔ مَاصَنَعُوْا میں ما سے مشرکانہ اعمال بےک... ار اور رائیگاں ثابت ہوں گے وہ فی نفسہ باطل ہیں کیونکہ ان کی بنیاد عقیدہ باطلہ پر ہے یا ما سے مراد اعمال صالحہ ہیں جو اغراض دنیویہ کی خاطر کیے گئے چونکہ مقصود غیر اللہ ہے اس لیے ایسے اعمال باطل اور بےنتیجہ ہوں گے یعنی وبطل ما عملوا فی الدنیا من اعمال البر (وَبَاطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) لانہ لغیر اللہ (خازن ج 3 ص 223) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 جو لوگ اپنے نیک اعمال کے صلہ میں محض دنیا کی زندگی کا نفع اور حیات دنیو ی کی رونق اور بہار چاہتے ہیں تو ہم ان کے اعمال کا صلہ ان کو دنیا ہی میں پورا پورا دے دیتے ہیں اور دنیا میں ان کی حق تلفی اور ان کے لئے کمی نہیں کی جاتی اور ان کو دنیا میں کچھ نقصان نہیں یعنی بعض لوگ اچھے اور بھلے کام کرتے ہیں...  مگر ان کا مقصدآخرت کا اجر وثواب نہیں ہوتا بلکہ دنیا کی شہرت اور طلب جاہ اور دنیا میں مال کی کثرت وغیرہ کے لئے بھلے کام کرتا ہے تو ہم ان کی یہ خواہشات دنیا میں پوری کردیتے ہیں بشرطیکہ بھلے اعمال زیادہ ہوں اور اگر بھلے کام کم ہوں اور برے کام زیادہ ہوں تو پھر ایسا اثر مرتب نہیں ہوتا البتہ بھلے کام زیادہ ہوں اور نیت آخرت کی نہ ہو تو ان اعمال کا صلہ اور ان کی جزا یہیں مل جاتی ہے اور اس صلہ میں کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ بھرپور ملتا ہے۔  Show more