Surat Hood

Surah: 11

Verse: 16

سورة هود

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ ۫ ۖوَ حَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶﴾

Those are the ones for whom there is not in the Hereafter but the Fire. And lost is what they did therein, and worthless is what they used to do.

ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Whosoever desires the life of the world and its glitter, to them We shall pay in full (the wages of) their deeds therein, and they will have no diminution therein. They are those for whom there is nothing in the Hereafter but Fire, and vain are the deeds they did therein. And of no effect is that which they used to do. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said concerning this verse, "Verily those who show off, will be given their reward for their good deeds in this life. This will be so that they are not wronged, even the amount equivalent to the size of the speck on a date-stone." Ibn Abbas continued saying, "Therefore, whoever does a good deed seeking to acquire worldly gain - like fasting, prayer, or standing for prayer at night - and he does so in order to acquire worldly benefit, then Allah says, `Give him the reward of that which he sought in the worldly life,' and his deed that he did is wasted because he was only seeking the life of this world. In the Hereafter he will be of the losers." A similar narration has been reported from Mujahid, Ad-Dahhak and many others. Anas bin Malik and Al-Hasan both said, "This verse was revealed concerning the Jews and the Christians." Mujahid and others said, "This verse was revealed concerning the people who perform deeds to be seen." Qatadah said, "Whoever's concern, intention and goal is this worldly life, then Allah will reward him for his good deeds in this life. Then, when reaches the next life, he will not have any good deeds that will be rewarded. However, concerning the believer, he will be rewarded for his good deeds in this life and in the Hereafter as well." Allah, the Exalted, says, مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَـجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَأءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَـهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الاٌّخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُوْمِنٌ فَأُولَـيِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا كُلًّ نُّمِدُّ هَـوُلاءِ وَهَـوُلاءِ مِنْ عَطَأءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَأءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلٌّخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَـتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلً Whoever desires the quick-passing (transitory enjoyment of this world), We readily grant him what We will for whom We like. Then, afterwards, We have appointed for him Hell; he will burn therein disgraced and rejected. And whoever desires the Hereafter and strives for it, with the necessary effort due for it while he is a believer - then such are the ones whose striving shall be appreciated. On each - these as well as those - We bestow from the bounties of your Lord. And the bounties of your Lord can never be forbidden. See how We prefer one above another, and verily, the Hereafter will be greater in degrees and greater in intricacy. (17:18-21) Allah, the Exalted, says, مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الاٌّخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِى حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُوْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِى الاٌّخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ Whosoever desires the reward of the Hereafter, We give him increase in his reward, and whosoever desires the reward of this world, We give him thereof, and he has no portion in the Hereafter. (42:20)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 ان دو آیات کے بارے میں بعض کا خیال ہے اس میں اہل ریا کار کا ذکر ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک طالبان دنیا کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیادار بھی بعض اچھے عمل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی جزا انھیں دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو قرآن مجید سورة بنی اسرائیل آیات 18، 21 (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا 19؀ كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا 20؀ اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21؀) 17 ۔ الاسراء :18 تا 21) اور سور، شوریٰ آیت 20 (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20؀) 42 ۔ الشوری :20) میں بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] دنیا میں نیک اعمال بجالانے والے کافروں کو اخروی عذاب کیوں ہوگا ؟ آیت نمبر ١٥ اور ١٦ کے مخاطب صرف کافر نہیں بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو نیکی کا کام صرف دنیا کے حصول کے لیے کیا جائے گا اس کا پورا پورا ثمرہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کچھ اجر نہ ہوگا بلکہ اسے دوزخ کا عذاب بھی ہوگا یہاں ہم اس کی چند مثالیں پیش کریں گے مثلاً ایک کافر اپنے کاروبار میں جھوٹ & فریب اور دغا بازی سے پرہیز کرتا ہے اور دیانت داری سے کام لیتا ہے تو اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو تو وہ یقینا حاصل ہوگا اور اگر یہی کام ایک مسلمان کرتا ہے اور جھوٹ & فریب اور دغابازی سے اس لئے پرہیز کرتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا آخرت میں اللہ کی فرمانبرداری کا اجر بھی ملے گا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنا گھر بناتے وقت مسجد کی طرف کھڑکی رکھی۔ آپ نے اسے پوچھا کہ یہ کھڑکی یہاں کس خیال سے رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا اس لیے کہ ہوا کی آمدورفت رہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت کرلیتے کہ ادھر سے اذان کی آواز آئے گی تو تمہیں اس کا ثواب بھی مل جاتا اور ہوا کی آمد و رفت تو بہرحال ہونا ہی تھی۔ اس کی دوسری مثال مسلم کی وہ حدیث ہے جو ریا کاری کے باب سے متعلق ہے کہ قیامت کے دن ایک ریا کار اور دنیا دار عالم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے پوچھے گا کہ تم نے دنیا میں کیا نیک عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے تیری خاطرخود دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو تم نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ تمہیں بڑا عالم کہا جائے وہ دنیا میں تمہیں کہا جاچکا اور تم اپنے کام کا پورا بدلہ لے چکے اب میرے پاس تمہارے لیے کوئی اجر نہیں پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے۔ اسی طرح ریا کار سخی اور مجاہد سے بھی یہی سوال و جواب اور یہی سلوک ہوگا۔ ( مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ مَنْ قَاتَلَ للرَّ یَاءِ وَالسُّمْعَۃِ اِسْتَحَقَّ النَّارَ ) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کافر اس دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اپنا کاروبار دیانت داری سے کرتا ہے اسلام دشمن سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیتا تو یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسے دنیا میں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ مل جائے اور آخرت میں کچھ نہ ملے مگر دوزخ کا عذاب کس جرم کی پاداش میں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سزا کے لیے بنیادی جرم ہی دوسرا ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہ لانا ایسے شخص کو نہ کسی کام میں اللہ کی رضا مطلوب ہوتی ہے نہ ہی وہ اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ حدود اللہ کا خیال رکھ سکتا ہے بلکہ ایک ایمان لانے والے اور نہ لانے والے دونوں کی زندگی کی راہیں ہی جداجدا ہوجاتی ہیں آگ کا عذاب اسے ان دوسرے جرائم کی پاداش میں ہوگا۔ کفار مکہ ایک یہ حجت بھی پیش کیا کرتے تھے کہ ہم مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں یتیموں کی پرورش کرتے ہیں، بھوکوں کی خبرگیری کرتے ہیں راستوں پر کنوئیں کھدواتے ہیں سایہ دار درخت لگاتے ہیں اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں جن کا مقبول ہونا بھی ثابت ہے کہ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں اولاد اور مال میں برکت اور امن اور تندرستی نصیب ہوتی ہے تو ہمیں یہی بات کافی ہے اس کے بعد قرآن کے اتباع کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے ؟ اس آیت میں اللہ نے کافروں کی اسی حجت کا جواب دیا ہے ان نیک کاموں کا ہم فی الواقع انھیں دنیا میں اچھا بدلہ دے دیتے ہیں۔ رہا آخرت کا معاملہ تو نہ آخرت پر ان کا اعتقاد ہے اور نہ ہی آخرت میں بدلہ لینے کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں۔ لہذا انھیں ان کاموں کا آخرت میں کچھ بدلہ نہیں ملے گا اور عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (17) presents the high ground the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the purely sincere believers with him occupy. This is in sharp contrast to those the sum total of whose knowledge and the end of whose quest is restricted to worldly life only - so that the whole world could see that these two groups could not be equal. After having focused on this phenomena, it has been stated that the mission and message of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a prophet and messenger of Allah is open to mankind right through the Last Day of Qiyamah. Then, it has been stressed that anyone who does not believe in him will be considered, irrespective of what one does, astray and Hell-bound. In the first sentence, it was asked: Can a denier of the Qur&an be equal to the one who adheres to the Qur&an that has come from his Lord? And along with it there is a witness present within it, while a witness earlier to this is the Book of Musa A.L that was sent to be followed and to be mercy for people?

دوسری آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین مخلصین کا حال ان لوگوں کے مقابلہ میں پیش کیا گیا جن کا مبلغ علم اور منتہائے مقصود صرف دنیا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ دو گروہ برابر نہیں ہوسکتے، پھر ان کا یہ حال بیان کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا تمام عالم انسان کے لئے قیامت تک عام ہونا، اور جو شخص آپ پر ایمان نہ لائے خواہ اعمال کچھ بھی کرے اس کا گمراہ اور جہنمی ہونا بیان فرمایا ہے۔ پہلے جملہ میں فرمایا کہ کیا منکر قرآن ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جو قرآن پر قائم ہو جو کہ اس کے رب کی طرف سے آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک گواہ تو اسی میں موجود ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ ہے جو قابل اقتداء اور لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھجی گئی تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۝ ٠ ۡ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْہَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٦ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) یہ لوگ جو دنیا میں اللہ کے سوا جھوٹے معبودوں کے لیے نیکیاں کرتے ہیں وہ سب نیکیاں آخرت میں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی اور آخرت میں ان کو ان کے اعمال کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا جو انہوں نے دنیا میں کیے تھے کیوں کہ انہوں نے یہ نیکیاں غیر اللہ کے لیے کی تھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ) ان کی ساری محنت اور بھاگ دوڑ اسی دنیا کے لیے تھی ‘ لہٰذا ہم نے ان کی محنت کا صلہ اسی دنیا میں دے کر ان کا حساب چکا دیا ہے ۔ (وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) روز محشر انہیں معلوم ہوگا کہ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا اور جس کے لیے اپنی تمام تر استعدادات اور صلاحیتیں صرف کیں وہ سب ملیامیٹ ہوچکا ہے ‘ اور اگر انہوں نے اپنے دل کو بہلانے کے لیے کوئی جھوٹی سچی نیکی کی ہوگی تو وہ بھی بےبنیاد ثابت ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. Those who keep their attention focused on this world and its benefits will reap worldly benefits in proportion to their efforts. However, since such people have not been concerned with, nor did they direct their efforts to achieving success and well-being in the Hereafter, there is no reason to suppose that their efforts, aimed merely at achieving worldly benefits, will also embrace the benefits of the Hereafter. A person can expect that his action in this world will be of some benefit to him in the Next Life only if he has engaged himself in tasks which are beneficial in the Next Life as well. This can be illustrated by example. A person wants to have a stately mansion to live in and to that end he adopts the means that are ordinarily adopted for its construction. Now, if he has adopted the requisite means he will indeed have a stately mansion. Even if such a person happens to be an unbeliever, this fact will not prevent the mansion from being constructed. However, when such a person breathes his last, he will have to leave behind that mansion and its belongings and will be able to take nothing of it to the Next World. Now, if he has not taken the necessary steps to obtain a mansion in the Next World, he will simply not obtain any such mansion there. Only those who performed deeds which, according to God's Law, would make him deserve a mansion in the Next World will be able to have it. One might be inclined to say: "This line of argument at best leads to the conclusion that such a person who cares only for this world, should be denied a mansion in the Next World. But does that also call for consigning him, in the Next World, to Hell-Fire?' On this point the Qur'an explains on more than one occasion that all those who work in total disregard of the Hereafter necessarily engage in acts which lead them to end up in a heap of Fire in the Next Life rather than in a mansion in Paradise. (See, for instance, Yunus 10, n. 12.)

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :16 یعنی جس کے پیش نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو ، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائیگا ۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو ۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا می آدمی کی سعی ان کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے ان تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں اس کے ساتھ متنقل ہو ۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی ان کاموں میں ہو جن سے قانون الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے ۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے ۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے ( اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے ) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازما و فطرۃ ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ اس سے اوپر کی آیت میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جو لوگ فقط دنیا کی عزت اور زینت کے لئے عمل کرتے ہیں ان کو اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے انہیں کی شان میں یہ آیت اتری ہے جس میں فرمایا ہے کہ ان کے عمل کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاوے گا باقی رہی آخرت تو وہاں ان کا کچھ حصہ نہیں ہے اگر ہے تو دوزخ ہے اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا ہے وہ سب مٹ جائے گا اور جتنے عمل ان کے ہیں وہ سب بیکار ہیں کیوں کہ ان کا ارادہ اس عمل سے طلب دنیا کا تھا آخرت کے واسطے انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا جو وہاں بھی جزا کے سزا وار ہوں۔ اعتقادی منافقوں کے حال میں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابن عمر (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافقوں کا حال دو ریوڑوں میں بہکی ہوئی بکری کا سا ہے کہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر ١ ؎ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ لوگ ظاہری مسلمان ہیں اور کافروں میں پورے کافر یہ حدیث اور محمود بن لبید (رض) کی اوپر کی حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ کافر اور منافقوں کے عقبیٰ کے انکار اور ریا کار مسلمانوں کے دنیا کے دکھاوے کے عمل عقبیٰ کی جزا کے حساب سے یہ سب بیکار ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٧ باب الکبائر و علامات النفاق۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:16) ھبط یحبط (سمع) اکارت گیا۔ ضائع ہوگیا۔ مٹ گیا۔ ماضٰ واحد مذکر غائب ۔ فیہا۔ ای فی الدنیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یہ آیتیں کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں کیونکہ بعد میں لیس لھم الا النار ہے کہ ان کے لئے آخرت میں آگ ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لئے صدقہ خیرات وغیرہ نیک عمل کرتے ہیں جن کا تعلق رفاہِ عامہ سے ہے انہیں ان کاموں کا بدلہ دنیا میں ہی پورا پورا دے دیا جاتا ہے لیکن یہ بدلہ ملنا مشئیت الٰہی پر موقوف ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔ عجلنا لہ ما نشاء لمن نرید ( سورة اسراء آیت 81) آخرت میں بعض کفار جیسے ابو طالب کے متعلق آیا ہے کہ اس کو ہلکا عذاب ہوگا تو یہ خاص طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نیکی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے۔ علما تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریاکار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چناچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا وہ کہے گا یا اللہ ! میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تم جھوٹے ہو تم نے محض اس لئے جنگ کی تھی کہ لوگ تمہیں بہادر کہیں چناچہ تمہیں یہ دلو مل گئی۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دو ۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریاکارقاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ (مسلم) ۔ واضح رے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو لیس لھم الا النار “ کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لئے تو دائمی جہنم ہے مگر مسلمان گنہگار۔ سزا کے بعد جہنم سے نکل آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کردے گا اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کفار کی نیت بجز دنیا کے کچھ نہیں ہوتی بلکہ ان میں جو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی نیت بجز دنیا کے کچھ نہ ہو اس آیت میں ان کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 سو یہ ایسے لوگ ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے بجز و دوزخ کے اور کچھ نہیں اور جو اعمال انہوں نے کئے وہ سب اکارت اور ناکارہ ہوگئے اور جو کچھ یہ کیا کرتے تھے وہ سب بیکار ثابت ہوگا یعنی یہ آگ منکروں کے لئے ابدی طورپر ہوگی اور مسلمان ریا کاروں کے لئے محدود اور معین وقت تک۔