Surat Hood

Surah: 11

Verse: 21

سورة هود

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۲۱﴾

Those are the ones who will have lost themselves, and lost from them is what they used to invent.

یہی ہیں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا اور وہ سب کچھ ان سے کھو گیا ، جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ ... They are those who have lost their own selves, They lost themselves, meaning that they be made to enter a blazing Fire, where they will be punished, and its torment will not be lifted from them for even the blinking of an eye. This is as Allah said, كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا Whenever it abates, We shall increase for them the fierceness of the Fire. (17:97) Concerning the statement, ... وَضَلَّ عَنْهُم ... and eluded them, meaning that it has left them. ... مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ that which they invented. besides Allah, such as rivals and idols. Yet, these things did not avail them in the slightest. In fact, these things actually caused them great harm. This is as Allah says, وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And when mankind are gathered, they will become their enemies and will deny their worshipping. (46:6) Allah says, إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الاٌّسْبَابُ When those who were followed disown those who followed (them), and they see the torment, then all their relations will be cut off from them. (2:166) Likewise, there are many other verses that prove this loss of theirs and their destruction. For this reason Allah says, لااَ جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الااخِرَةِ هُمُ الااَخْسَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦ ٢] یہاں افتراء پردازیوں سے مراد وہی سستی نجات کے عقیدے ہیں کہ مثلاً اگر ہم فلاں بزرگ کی بیعت میں منسلک ہوجائیں گے تو وہ ہمیں اللہ کی گرفت اور باز پرس سے بچا لیں گے اور ایسی بہت سی حکایات آج بھی اولیاء کے تذکروں میں موجود ہیں۔ جب اس قسم کے لوگ قیامت کی ہولناکیوں اور اللہ تعالیٰ کے دربار عدالت اور شہادتوں کی بنا پر تحقیق جرائم کا نقشہ دیکھیں گے تو ایسے سب عقائد از خود ان کے ذہن سے محو ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ۔۔ : یعنی جھوٹے دعوے سب گم ہوگئے، اللہ کی گرفت آنے پر دنیا میں کوئی داتا، کوئی دستگیران کی مدد کو نہیں پہنچا اور اس میں شک نہیں کہ آخرت میں بھی یہی سب سے زیادہ خسارے والے ہوں گے، کیونکہ جن کو یہ سمجھ کر پکارتے تھے کہ وہ ہمیں بچائیں گے انھیں اپنی پڑی ہوگی۔ وہ سب ان سے غائب ہوجائیں گے، اگر سامنے ہوئے بھی تو ان سے بری ہونے کا اعلان کریں گے، بلکہ ان کے دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورة احقاف (٥، ٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ٢١ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٢) اور جو جھوٹے معبود انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ تراش رکھے تھے وہ ان کے دور ہوگئے اور اپنے اندر مصروف ہوگئے اور لازمی بات ہے کہ آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں نہ ملنے کے باعث سب سے زیادہ نقصان میں یہی لوگ ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) تب انہیں اپنے جھوٹے معبود اور سفارشی ‘ من گھڑت عقائد و نظریات اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازیوں میں سے کچھ بھی نہیں سوجھے گا۔ یہ سب کچھ پادر ہوا ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. All their conjectures regarding God, the universe and their own selves will prove to be absolutely baseless in the Next Life. Similarly, the notions they entertained about the help and support they would receive from those they considered to be either their deities, or their intercessors with God, or their patrons will prove to be false. Likewise, it will become obvious that all their notions about the After-life were utterly untrue.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :26 یعنی وہ سب نظریات پادر ہوا ہو گئے جو انہوں نے خدا اور کائنات اور اپنی ہستی کے متعلق گھڑ رکھے تھے ، اور وہ سب بھروسے بھی جھوٹے ثابت ہوئے جو انہوں نے اپنے معبودوں اور سفارشیوں اور سرپرستوں پر رکھے تھے ، اور وہ قیاسات بھی غلط نکلے جو انہوں نے زندگی بعد موت کے بارے میں قائم کیے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

خسروا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ فعل لازم۔ نقصان اٹھانا۔ گمراہ ہونا۔ ہلاک ہونا (باب سمع) خسروا انفسھم۔ انہوں نے خود نقصان اٹھایا۔ ضل عنہم۔ ان کو چھوڑ گئے۔ ان سے گم ہوگئے۔ (یعنی وہ جھوٹے بت جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔ اور جو اپنے معبودان باطل سے انہوں نے موہوم امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ سب کہیں بھی نظر نہ آئیں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی جھوٹے دعوے آخرت میں گم ہوگئے۔ مثلاً یہ جو کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہ بت یا بزرگ یا پیرو مرشد۔ خدا سے ہماری سفارش کریں گے اور ہم اس کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ (کذافی الوحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ " یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا " یہ بہت ہی عظیم اور تباہ کن خسارہ ہے ، اس لیے کہ اس کاروبار میں جو شخص خسارہ اٹھائے کوئی دوسرا شخص اس کی امداد نہیں کرسکتا۔ اس قسم کے لوگوں نے خسارہ اٹھا کر اپنی دنیا میں بھی ضائع کردی ، یہاں انہوں نے اپنے انسانی شرف کو بھی گنوایا۔ کیونکہ انسان کو یہاں شرف صرف اسلامی نظام زندگی کے ذریعے مل سکتا ہے اور انہوں نے آخرت بھی گنوا دی کیونکہ انہوں نے آخرت کا انکار کیا جس کی وجہ سے اخروی عذاب ان کے انتظار میں ہے۔ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ " اور وہ سب کچھ ان سے کھو گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا " دنیا میں انہوں نے جھوٹے خدا بنا رکھے تھے وہ سب غائب۔ اب کوئی بھی کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ سب ناپید اور گم ہوگئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ ) (کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں کا خسارہ کر بیٹھے) دنیاوی تجارت میں تو لوگوں کو اموال کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن ان کی تجارت ایسی برباد ہوئی کہ انہیں اپنی جانوں ہی کا خسارہ ہوگیا ‘ انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور آخرت کے بدلے دنیا لے لی اور اس طرح اپنی جانوں ہی کو گنوا بیٹھے۔ اگر کسی کے دل میں یہ سوال اٹھے کہ خسارہ تو جب ہوتا ہے جب جانیں ختم ہوجاتیں اور ان کا وجود ہی نہ رہتا لیکن کافر کی جان دنیا میں بھی موجود ہے اور آخرت میں بھی موجود رہے گی پھر بھی جان کا خسارہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کافر دوزخ میں جائے گا جو وہ موت سے بھی بدتر ہے جو جان برابر ہمیشہ کے لئے عذاب میں ہے وہ جان ہلاک بھی ہے اور برباد بھی ہے اور جان کہنے کے لائق بھی نہیں اسی لئے تو فرمایا (ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْییٰ ) (پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ زندہ رہے گا) پھر فرمایا (وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (اور ان سے وہ سب کچھ گم ہوگیا جو وہ جھوٹ باندھا کرتے تھے) یعنی معبود ان باطلہ کی سفارش کا جو گمان کر رکھا تھا۔ وہ جھوٹا خیال تھا اس نے کچھ کام نہ دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25: دنیا میں کوئی نیک عمل نہ کیا اور خوش فہمیوں میں مبتلا رہے اور جن مزعومہ معبودوں پر بھروسہ تھا وہ بھی کام نہ آئے اس لیے لا محالہ آخرت میں وہ سب سے بڑے نقصان و خسران میں رہیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کو تباہ و برباد کرلیا اور ان کی سب افرار پردازیاں ان سے گم اور غائب ہوگئیں یعنی نقصان ہی نقصان ہوا اور وہ معبود ان باطلہ کہ جن کی پرستش کیا کرتے تھے وہ سب کہیں غائب ہوگئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی وہ جھوٹے دعوے آخرت میں گم ہوگئے 12