Surat Hood

Surah: 11

Verse: 31

سورة هود

وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ لَنۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۚ ۖ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۱﴾

And I do not tell you that I have the depositories [containing the provision] of Allah or that I know the unseen, nor do I tell you that I am an angel, nor do I say of those upon whom your eyes look down that Allah will never grant them any good. Allah is most knowing of what is within their souls. Indeed, I would then be among the wrongdoers."

میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ ( سنو! ) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالٰی کوئی نعمت دے گا ہی نہیں ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells what Nuh said to his people; وَلاَ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَايِنُ اللّهِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلاَ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُوْتِيَهُمُ اللّهُ خَيْرًا اللّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ And I do not say to you that with me are the treasures of Allah, nor that I know the Ghayb; nor do I say I am an angel, and I do not say of those whom your eyes look down upon that Allah will not bestow any good on them. Allah knows what is in their inner selves. In that case, I should, indeed be one of the wrongdoers. Nuh is informing them that he is a Messenger from Allah, calling to the worship of Allah alone, without any partners and he is doing this by the permission of Allah. At the same time, he is not asking them for any reward for this work. He invites whomever he meets, whether of nobility or low class. Therefore, whoever responds favorably, then he has achieved salvation. He also explains that he has no power to manipulate the hidden treasures of Allah, nor does he have any knowledge of the Unseen, except what Allah has allowed him to know. Likewise, he is not an angel, rather, he is merely a human Messenger aided with miracles. Nuh goes on to say, "I do not say about these people whom you (disbelievers) detest and look down upon, that Allah will not reward them for their deeds. Allah knows best what is in their souls. If they are believers in their hearts, as their condition appears to be outwardly, then they will have a good reward. If anyone behaves evilly with them after they have believed, then he is a wrongdoer who speaks what he has no knowledge of.

میرا پیغام اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے آپ فرماتے ہیں میں صرف رسول اللہ ہوں ، اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور توحید کی طرف اس کے فرمان کے مطابق تم سب کو بلاتا ہوں ۔ اس سے میری مراد تم سے مال سمیٹنا نہیں ۔ ہر بڑے چھوٹے کے لیے میری دعوت عام ہے جو قبول کرے گا نجات پائے گا ۔ اللہ کے خزانوں کے ہیر پھیر کی مجھ میں قدرت نہیں ۔ میں غیب نہیں جانتا ہاں جو بات اللہ مجھے معلوم کرادے معلوم ہو جاتی ہے ۔ میں فرشتہ ہو نے کا دعویدار نہیں ہوں ۔ بلکہ ایک انسان ہوں جس کی تائید اللہ کی طرف سے معجزوں سے ہو رہی ہے ۔ جنہیں تم رذیل اور ذلیل سمجھ رہے ہو ۔ میں تو اس کا قائل نہیں کہ انہیں اللہ کے ہاں ان کی نیکیوں کا بدلہ نہیں ملے گا ۔ ان کے باطن کا حال بھی مجھے معلوم نہیں اللہ ہی کو اس کا علم ہے ۔ اگر ظاہر کی طرح باطن میں بھی ایماندار ہیں تو انہیں اللہ کے ہاں ضرور نیکیاں ملیں گی جو ان کے انجام کی برائی کو کہے اس نے ظلم کیا اور جہالت کی بات کہی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لئے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔ 31۔ 2 کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] جاہلانہ معیار صداقت کی تردید :۔ جاہل قسم کے منکرین حق کے نزدیک کسی نبی کی صداقت کے معیار عجیب قسم کے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ اس سے خرق عادت واقعات یعنی معجزات کا اکثر صدور ہوتا ہو وہ مٹی پر نظر التفات کرے تو وہ سونا بن جائے وہ یہ بھی بتاسکے کہ فلاں چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی اسے طالب دنیا بھی نہ ہونا چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہو اور نکاح وغیرہ بھی کرے بلکہ اسے دنیا سے دلچسپی نہ ہونا چاہیے۔ اس آیت میں اسی جاہلانہ معیار صداقت کی تردید کی گئی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کی زبان سے کفار کے ایسے مطالبات کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا گیا ہے کہ میرا ایسی باتوں کا ہرگز کچھ دعویٰ نہیں ہے میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں کہ میں مٹی یا پتھر پر نظر کرم ڈالوں تو وہ سونا بن جائے میں غیب بھی نہیں جانتا کہ میں تمہیں بتلا سکوں کہ اس وقت تمہارے دل میں کیا خیال آرہا ہے یا فلاں چوری فلاں شخص نے فلاں وقت کی تھی اور اس طریقہ سے کی تھی اور اب چوری کا مال فلاں جگہ پر چھپایا ہوا ہے میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ میں فرشتہ ہوں کہ مجھے کھانے پینے کی احتیاج نہ ہو یا دوسرے بشری حوائج سے مبرا ہوں۔ نیز جن لوگوں کو تم حقیر سمجھ رہے ہو میں ان کے مستقبل کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتا البتہ جس راہ پر یہ گامزن ہیں اس بات کی توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں علم و حکمت اور دوسری بھلائیوں سے نوازے گا مگر یہ بات میں دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا۔ واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کے معیار ہم نے بھی بزرگان دین سے متعلق وابستہ کر رکھے ہیں حالانکہ جو لوگ دعویٰ کے ساتھ انھیں دکھلاتے ہیں وہ شعبدہ باز تو ہوسکتے ہیں اللہ کے ولی نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ۔۔ : یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظر آتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے برتر نہیں پاتے۔ اس پر نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں، نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں، یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت بخشی ہے۔ میرا یہ دعویٰ ناقابل تردید ہے، اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کرلو۔ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ ۔۔ : ” تَزْدَرِيْٓ“ اس کا مادہ ” زری “ ہے، ” زَرَیْتُ عَلَیْہِ “ میں نے اس پر عیب لگایا۔ باب افتعال میں جا کر افتعال کی تاء کو دال کے ساتھ بدلنے سے ” اِزْدَرَی یَزْدَرِیْ اِزْدِرَاءً “ بن گیا، جس کا معنی حقیر جاننا ہے۔ (قاموس) یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمہیں خوش کرنے کے لیے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ چیزیں (اللہ کے خزانوں کا مالک ہونا، عالم الغیب ہونا، فرشتہ ہونا) نبوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں کہ ان کے بغیر نبوت نہیں مل سکتی اور نہ ان چیزوں کے کسی شخص کے پاس نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر خیر سے خالی ہے اور جو شخص مال دار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کردیتا ہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (روح المعانی) اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اگر ان کے دلوں میں ایمان اور اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے، تم اور میں مل کر بھی انھیں اس اجر سے محروم نہیں کرسکتے۔ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی اگر میں انھیں خواہ مخواہ ذلیل قرار دوں۔ یہ اشارہ ہے کہ تم انھیں رذالے کہنے میں ظالم ہو، یا یہ کہ اگر میں خزائنِ الٰہی کو جمع کرنے یا غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کروں تو میں ظالموں میں سے ہوں گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Reported in the fifth verse (31) there is an address that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) gave before his people to announce some matters of princi¬ple after he had heard their objections. In this address it has been stressed that the mission of a prophet and messenger does not depend on things they think are necessary for it. For instance, first it was said: وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ (And I do not say to you that with me are the treasures of Allah). This carries a refuta¬tion of their idea that someone coming from Allah as His messenger should have brought treasures with him giving it out to everyone freely. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) put it out clearly that the mission of prophets has nothing to do with involving people into the mess of worldly enjoy¬ments. What for would they need all those treasures? It is also possible that the statement may be refuting the false thought nursed by some people that Allah has given all powers to prophets, even to Auliya&. Assuming this, it is surmised that they have the treasures of Allah&s power in their hands and that they decide whom to give and whom not to give. So, this declaration of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) makes it clear that Allah Ta&ala has not entrusted the to¬tal control of the treasures of His power not even with any prophet, not to say much about the Auliya& or men of Allah. However, when they pray or wish, Allah Ta&ala does answer their prayers and fulfills their wishes with His infinite power. Secondly, it was said: وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (nor do I have the knowledge of the unseen). Another false idea these people harbored was that a person who is a rasul of Allah Ta&-al-a should also be the one who knows what is unseen (` alim al-ghayb). This sentence clarifies that the mission of a prophet and messenger needs no knowledge of the unseen, and why should it when the knowledge of the unseen is an exclusive attribute of Allah Ta&-al-a which no prophet or angel can share with Him. However, Allah Ta&-al-a does inform whomever He wills from out of His prophets about the secrets of the unseen as much as He wills. But, because of this, it is not correct to call them ` alim al-ghayb (possessor of the knowledge of the unseen) - because, it is not in their power to find out something in the domain of the unseen at their choice. Thirdly, it was said: وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ (nor do I say that I am an angel). Here we have a refutation of their idea that a ras ul should be some angel.

پانچویں آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سب اعتراضات سننے کے بعد ان کو کچھ اصول ہدایات دینے کے لئے ارشاد فرمائی، جس میں بتلایا گیا ہے کہ نبوت و رسالت کیلئے وہ چیزیں ضروری نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہیں۔ مثلاً پہلے فرمایا (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ، یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے ہاتھ میں ہیں، اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آئے ہیں تو ان کے ہاتھ میں خزانے ہونے چاہئیں جن سے لوگوں کو داد و دہش کرتے رہیں، نوح (علیہ السلام) نے بتلایا کہ انبیاء کی بعثت کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو متاع دنیا میں الجھائیں، اس لئے خزانوں سے ان کا کیا کام۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہو جو بعض لوگ سمجھا کرتے ہیں کہ اللہ نے انبیاء کو بلکہ اولیاء کو بھی مکمل اختیارات دے دیئے ہیں، اللہ کی قدرت کے خزانے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں تو نوح (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے خزانوں کا مکمل اختیار کسی نبی کو بھی سپرد نہیں کیا، اولیاء کا تو کیا ذکر ہے، البتہ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور خواہشیں اپنی قدرت سے پوری فرماتے ہیں۔ دوسرے فرمایا (آیت) وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، ان جاہلوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا رسول ہو وہ عالم الغیب بھی ہونا چاہئے، اس جملہ میں واضح کردیا کہ نبوت و رسالت علم غیب کی مقتضی نہیں اور کیسے ہوتی جبکہ علم غیب حق تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جس میں کوئی نبی یا فرشتہ شریک نہیں ہوسکتا، ہاں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں غیب کے اسرار پر مطلع کردیتے ہیں مگر اس کی وجہ سے ان کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہوتا کیونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ جس غیب کو چاہیں معلوم کرلیں۔ تیسری بات یہ فرمائی (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ، یعنی میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اس میں ان کے اس خیال کی تردید ہوگئی کہ رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَہُمُ اللہُ خَيْرًا۝ ٠ۭ اَللہُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝ ٠ۚۖ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٣١ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے زری زَرَيْتُ عليه : عبته، وأَزْرَيْتُ به : قصّرت به، وکذلک ازْدَرَيْتُ ، وأصله : افتعلت قال : وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، أي : تستقلّهم، تقدیره : تَزْدَرِيهِمْ أعينكم، أي : تستقلّهم وتستهين بهم . ( ز ر ی ) زریت علیہ کے معنی کسی پر عیب لگانے کے ہیں اور ازریت بہ وازدریت ( افتعال ) کے معنی ہیں کسی کو حقیر اور بےوقعت گرد اننا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31]( جنہیں ) تمہاری نظریں حقیر دیکھتی ہیں ۔ یہ اصل میں تذدریھم اعنکم ہے یعنی اس کا مفعول محذوف ہے اور معنی یہ ہے کہ تم انہیں نظر حقارت سے دیکھتے ہو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور میں اس بات کا بھی دعوی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کے تمام خزانوں کی چابیاں میری پاس ہیں، اور نہ غیب کی باتیں جاننے کا میں دعوے دار ہوں کہ کب عذاب نازل ہوگا اور نہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ اور جو لوگ تمہاری نگاہوں میں کم تر ہیں اور تمہیں وہ جچتے نہیں میں ان کی بابت یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ تصدیق ایمان کے بدلے میں ان کو عزت واکرام نہ دے گا، ان کے دلوں میں جو تصدیق ہے اس کو اللہ تعالیٰ ہی اچھی طرح جاتنا ہے تو اگر میں ان کو اپنے سے دور کردوں تو خود کو بہت ہی نقصان پہنچاؤں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ) میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ اللہ کے خزانوں پر میرا اختیار ہے۔ یہ وہی بات ہے جو ہم سورة الانعام آیت ٥٠ میں محمد رسول اللہ کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں۔ (وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا) کیا معلوم اللہ کے ہاں وہ بہت محبوب ہوں ‘ اللہ انہیں بہت بلند مراتب عطا کرے اور اخروی زندگی میں (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) (الواقعہ ) کا مستحق ٹھہرائے۔ (اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اپنے ایمان کے دعوے میں کتنا مخلص ہے اور کس کے دل میں اللہ کے لیے کتنی محبت ہے۔ اگر میں تمہارے طعنوں سے تنگ آکر ان اہل ایمان کو اپنے پاس سے اٹھا دوں تو میرا شمار ظالموں میں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. This is a rejoinder to the Prophet Noah's opponents. His opponents tried to discredit him by saying that he appeared to them to be merely an ordinary human being just like any one of them. In response to this Noah acknowledges that he is indeed nothing more than a human being, and that he has never claimed to be anything other than that. Hence, any attack on him on the grounds that he was merely a human being was pointless. Noah (peace be on him), like other Prophets, had claimed no more than what God had intimated to him about the Straight Way comprising right beliefs and sound principles of behaviour. His people were free to test him in regard to that claim. It was strange, however, that they asked him about a matter which lay beyond the ken of human perception, something which he had never claimed to know They also made strange demands of him which suggested that he possessed the keys to God's treasures. They even taunted him on the grounds that like other human beings he also ate and drank and walked around. All this was meaningless for Noah (peace be on him) had never claimed to he an angel and that as such he could dispense with necessary physical and biological requirements. All that Noah (peace be on him) had claimed was that he possessed the knowledge needed to guide human beings in matters of belief, moral conduct, and social behaviour. Now, what sense did it make to ask such a person what gender a cow's calf would be? By what stretch of the imagination can one establish a nexus between the pregnancy of a cow and sound principles of individual and social conduct? (See also Towards Understanding the Qur'an, vol. II, al-An'am 6, nn. 31-2, pp. 234-5.)

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :37 یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو ۔ اس پر حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں ، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو ۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے ۔ اس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کر لو ۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو ، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں ، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں ، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ جس آدمی نے عقائد ، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے ان چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو ، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پڑیا ۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصول اخلاق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے! ( ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حاشیہ نمبر ۳۱ ، ۳۲ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یہ اس جاہلانہ خیال کی تردید ہے کہ اللہ کے کسی پیغمبر یا مقرب بندے کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں، اور اسے غیب کی ساری باتوں کا علم ہونا چاہئے، یا اُسے اِنسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہئے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے واضح فرما دیا کہ کسی نبی یا اللہ کے کسی ولی کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ دُنیا کے خزانے لوگوں میں تقسیم کرے، یا غیب کی ہر بات بتائے۔ اس کا مقصد تو لوگوں کے عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہوتا ہے۔ اُس کی ساری تعلیمات اسی مقصد کے گرد گھومتی ہیں، لہٰذا اس سے اس قسم کی توقعات رکھنا نری جہالت ہے۔ اس طرح اس آیت میں اُن لوگوں کی ہدایت کا بڑا سامان ہے جو بزرگوں کے پاس اپنے دُنیوی مقاصد کے لئے جاتے ہیں، اور انہیں دُنیوی اور تکوینی اُمور میں اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں مستقبل کی ہر بات بتا دیا کریں گے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا اتنا برگزیدہ پیغمبر ان باتوں کو اپنے اختیار سے باہر قرار دے رہا ہے تو کون ہے جو ان اختیارات کا دعویٰ کرسکے؟ اور حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھیوں کے بارے میں کافروں نے جو کہا تھا کہ یہ حقیر لوگ ہیں، اور دِل سے ایمان نہیں لائے، اُس کا آگے یہ جواب دیا ہے کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ دِل سے ایمان نہیں لائے اور اﷲ تعالیٰ انہیں کوئی بھلائی یعنی ثواب نہیں دے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ اوپر کی آیت میں جو نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہا تھا کہ اپنے اوپر ہم تمہاری کوئی فضیلت نہیں دیکھتے اور تم ہم سے زیادہ عزت دار نہیں ہو یہ اسی کا جواب نوح (علیہ السلام) نے ان کو دیا کہ خدا کے خزانے میرے قبضہ میں نہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں نہ کوئی فرشتہ ہوں جو تم میری فضیلت سمجھو میری فضیلت تو خدا کی طرف سے یہ ہے کہ اس نے مجھے معجزے عنایت کئے ہیں اور جن لوگوں نے میری پیروی اختیار کی ہے تم ان کو ذلیل و خوار سمجھتے ہو اگر ان کا باطن ویسا ہی ہے جیسا ظاہر ہے تو چاہے کوئی کتنا ہی ان کو برا کہے حقیر سمجھے مگر خدا کے نزدیک ان کا بڑا مرتبہ ہے۔ خدا تو ان کے دل کی باتوں کو جانتا ہے آخرت میں اچھے سے اچھا ان کو بدلہ دے گا اور جو لوگ ان کو برا سمجھتے ہیں وہ بڑا ظلم کرتے ہیں بےسمجھے بوجھے ناحق ان کی برائی اور مذمت کرتے ہیں اور تمہارے کہنے سے اگر میں بھی ان کے ساتھ برا برتاؤ کروں اور اپنے پاس سے ان کو نکال دوں تو میں بھی ظالم ٹھہروں گا۔ { ولا اقول لکم عندی خزائن اللہ } کا تعلق { و یا قوم لآ اسئلکم علیہ مالا } سے ہے مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پہنچا دینے پر نہ تو میں تم سے کچھ مزدوری مانگتا ہوں نہ میں تم کو یہ لالچ دیتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں تم میری پیروی کرو گے تو میں تم کو بہت کچھ دے کر نہال کر دوں گا۔ { ولا اعلم الغیب } اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی نہیں کہتا کہ آئندہ کا تمہارا ہر طرح کا بھلا برا میرے ہاتھ میں ہے کیوں کہ آئندہ کی بھلائی برائی ایک غیب کی بات ہے جو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو معلوم نہیں اس میں بتوں سے بھلائی برائی کی امید کی نوح (علیہ السلام) نے گویا جڑ کاٹی ہے۔{ ما نراک الا بشرا مثلنا (١١: ٢٧)} جو قوم نوح نے کہا تھا اس کا جواب نوح (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ میں بھی اپنے آپ کو فرشتہ نہیں کہتا باقی آیت کا مطبلب انہی غریب دینداروں کے حق میں یہ ہے کہ ان کے دل کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن ظاہر میں وہ دیندار ہیں اس لئے ان کے حق میں یہ غیب کی بات نہیں کہہ سکتا ہوں کہ ان لوگوں کی دینداری اوپر ہی ہے اس لئے بارگاہ الٰہی سے ان لوگوں کو کچھ بھلائی نہیں پہنچ سکتی کس لئے کہ اگر اٹکل سے میں ایسی بات کہوں گا تو یہ میری بےانصافی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا { ولکل امری مانوی } ١ ؎ مطلب یہ ہے کہ شرعی کاموں میں دل کا ارادہ اور نیت اصل ہے اوپر سے دل سے دنیا کے دکھاوے جو کام کیا جاوے گا وہ بیکار ہے اور جو خالص عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے کیا جاوے گا وہ عقبی کے اجر کے قابل ہے مگر یہ دل کے ارادے اور نیت کا حال سوا اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں چناچہ طبرانی اور مسند بزار کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جب سر بمہر لوگوں کے اعمال نامے کھولے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعضے عملوں کو نامقبول فرمائے گا اس پر فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ظاہری طور پر تو ان عملوں میں کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ فرماوے گا انسان کے دل کا حال سوائے میرے اور کسی کو معلوم نہیں مجھ کو خوب معلوم ہے کہ یہ عمل خالص نیت سے نہیں کئے گئے۔ ٢ ؎ نوح (علیہ السلام) کے جواب کے آخری ٹکڑے کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٢ ج ١ باب کیف کان بدء الوحی الخ۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد سوم ص ٧٥۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:31) تزدری۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ ازدراء (افتعال) سے زری مادہ (باب افتعال میں ت کود سے بدلا گیا ہے) تمہاری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ (جنہیں تمہاری نظریں) حقیر اور بےوقعت دیکھتی ہیں۔ یہ اصل میں تزدریہم اعینکم تھا۔ (یعنی مفعول محذوف ہے) بمعنی تم انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو۔ زری علی۔ کسی پر عیب لگانا۔ لن یؤتیہم اللہ خیرا۔ کہ اللہ ان کو بھلائی نہیں دیگا۔ اجر نہیں دے گا۔ انی اذا لمن الظالمین۔ ای ان قلت شیئا من ذلک انی اذا لمن الظالمین (اگر میں کوئی ایسی بات کہوں تو میں ظالموں میں سے ہوجاؤں گا)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظرآتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے زیادہ نہیں پاتے۔ اس پر حضرت نوح فرماتے ہیں کہ وہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں نہ میرے پاس اللہ کے خزانے میں نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے اپنے سیدھے راستے کی مھے ہدایت بخشی ہے میرا یہ دعویٰ ناقابلِ تردید ہے۔ اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کرلو۔ (از وحیدی) ۔ 13 ۔ یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمہیں خوش کرنے کے لئے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کا وجود اولازم نبوت میں سے نہیں ہے کہ ان کے بغیر نبوت مل ہی نہیں سکتی اور نہ ان اوصاف کا عدم ہی خیر سے مانع ہے کہ جو شخص مالدار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ قادرِ کریم ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کردیتا ہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (از روح۔ وحیدی) ۔ 14 ۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان و اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے۔ تم اور میں مل کر بھی انہیں اس اجر سے محروم نہیں کرسکتے۔ (از وحیدی) ۔ 15 ۔ یعنی اگر میں انہیں خواہ مخواہ ذلیل قراردوں۔ اشارہ ہے کہ تم ان کو رذالے کہنے میں ظالم ہو یا یہ کہ اگر میں خزائن الٰہی کو جمع کرنے، غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرون تو۔۔۔۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 31 تا 34 خزائن (خزانے) تزدری (تم حقیر، ذلیل سمجھتے ہو) اعین (عین) آنکھیں لن یوتی (وہ ہرگز نہ دے گا) انفس (نفس) ، جانیں) جادلت (تو جھگڑ چکا) جدال (جدل) جھگڑے ، بحثیں معجزین (عاجز کرنے والا، بےبس کرنے والا) نصحی (میری نصیحت) یغوی (وہ بھٹکاتا ہے) تشریح : آیت نمبر 31 تا 34 گزشتہ آیات میں حضرت نوح کا واقعہ ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ایک طویل عرصہ تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش فرمائی ۔ حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو چالیس سال کی عمر میں خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس وقت سے لے کر ساڑھے نو سو سال تک آپ مسلسل دین اسلام کی وضاحت و تبلیغ فرماتے رہے لیکن دنیا پرست ان کا کہنا ماننے کے بجائے ان کو اور ان کے ماننے والوں کو ہر طرح بےحقیقت سمجھتے رہے اور ہر طرح اعتراضات کا سہارا لے کر نافرمانیوں پر نافرمانی کرتے چلے گئے۔ حضرت نوح نے ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ تم جن صاحبان ایمان کو معمولی اور گھٹیا سمجھتے ہو وہ درحقیقت اللہ پر ایمان لانے والے ہیں اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کرنے والے ہیں ایسے مومن و مخلص بندوں کو اگر میں اپنے پاس سے دور کروں گا یا تمہاری طرح ان کو ذلیل و خوار سمجھوں گا تو یہ نہ صرف انتہائی ظلم اور زیادتی ہوگی بلکہ کل قیامت میں مجھے اس کا جواب دینا ہوگا اور وہاں مجھے اللہ کے قہر سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ فرمایا کہ میرا کام اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے اور بس، میں نہ تو غیب کے خزانوں کا مالک ہوں نہ عالم الغیب ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جس نبی کو جتنا غیب کا علم عطا فرمانا چاہے فرما دیتا ہے لیکن ” عالم الغیب و الشھادہ “ صرف اللہ کی ذات ہے۔ فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جن صاحبان ایمان کو تم ذلیل و خوار سمجھتے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کوئی خیر اور بھلائی عطا نہیں فرمائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے وہ بندوں کی ہر کیفیت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اگر میں نے زیادتی کی تو میں ان ظالموں کی صف میں کھڑا ہوجاؤں گا جن کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ہر طرح سمجھنے کی کوشش کی مگر ان کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی۔ ان تمام سچائیوں کو سن کر کہنے لگے کہ نوح ہم تمہاری باتیں سن سن کر تنگ آ چکے ہیں اگر واقعی ہم بدعمل لوگ ہیں اور تم کہتے ہو کہ اگر ہم نے تمہاری اطاعت نہ کی تو اللہ کا عذاب ہم پر آ کر رہے گا تو اے نوح اب تم اس عذاب کو لے کر آ جائو تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ یہ سن کر حضرت نوح کا وہی پیغمبرانہ جواب تھا جو ہر نبی نے اپنی قوم کی ضد اور ہٹ دھرمی کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہم نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا اب اگر اللہ رب العزت تم پر عذاب نازل فرمانے کا فیصلہ فرمائیں گے تو تم سب مل کر بھی اس عذاب کو اپنے اوپر سے ٹال نہ سکو گے۔ میں نے تمہیں ہر طرح باخبر کردیا۔ میں نے ہر طرح تمہاری بھلائی چاہی اب اگر تم اس مقام تک پہنچ چکے ہو جہاں اللہ بھی دلوں پر مہر لگا دیتا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ ایک من گھڑت اور میری طرف سے بنائی ہوئی کوئی بات ہے تو اس کی ذمہ داری میرے اوپر عائد ہوتی ہے۔ لیکن میں ان باتوں کا ذمہ دار نہیں ہوں اور میں اللہ کا مجرم نہیں ہوں۔ یہ تو حضرت نوح کی تبلیغ اور ان کی قوم کا انداز فکر تھا بالکل اسی طرح ضد اور ہٹ دھرمی پر وہ لوگ بھی قائم تھے جن کفار مکہ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ ان کفار عرب کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ تو اللہ کی رحمت اور اس کا کرم ہے کہ ان کو سمجھانے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرم مزاج اور رحمتہ اللعالمین ہیں جو ان کی گستاخیوں کو برداشت فرما رہے ہیں لیکن اگر کہیں ہمارے محبوب نبی کی زبان مبارک سے ایک لفظ بھی نکل گیا تو پھر ان کفار کی نجات اور عذاب الٰہی سے بچنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ بےدلیل دعوی کرنا گناہ کی بات ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو چوتھا جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کو فقط اتنی دعوت دی تھی کہ اے لوگو ! اللہ ہی سب کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ لہٰذا ادھر ادھر کے واسطے چھوڑ کر براہ راست صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ مگر قوم نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر اعتراضات کیے اور ان سے مختلف قسم کے مطالبات کرنے شروع کردیئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے بالترتیب یہ جواب دیئے : ١۔ اے میری قوم ! اللہ نے مجھے اپنی رحمت کے ساتھ منتخب فرماکر حق کے ٹھوس اور واضح دلائل دیئے ہیں۔ اگر تم جان بوجھ کر انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں ہدایت کو کس طرح تم پر مسلط کرسکتا ہوں۔ ٢۔ اے میری قوم کے لوگو ! نہ تم سے اس کام کا معاوضہ طلب کرتا ہوں اور نہ ہی تمہارے کہنے پر صاحب ایمان لوگوں کو اپنے سے دور کرسکتا ہوں۔ ٣۔ اے میری قوم ! اگر میں مخلص اور نیک لوگوں کو تمہاری وجہ سے اپنے آپ سے دور کردوں تو اس جرم پر اللہ تعالیٰ کے سامنے میری کون مدد کرسکتا ہے ؟ باطل پرست لوگوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو الجھانے کے لیے وہ باتیں کرتے ہیں۔ جن کا حق والوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور ان باتوں کا سب سے پہلے نشانہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مقدس شخصیات کو بنایا گیا، عجب بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہی ہوگئی تھی۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر مذکورہ بالا اعتراضات کے ساتھ یہ مطالبات کیے گئے جن کے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ جوابات دیئے : ١۔ اے میری قوم ! میں نے یہ کب دعویٰ کیا تھا کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک ہوں اور تم میری نبوت کو تسلیم کرو میں تمہارے لیے شہد کی نہریں بہادوں گا۔ خزانوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنی تقسیم کے مطابق جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ ٢۔ اے میری قوم : میں نے کبھی غیب دانی کا دعویٰ نہیں کیا۔ غیب کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور نبی نہیں جانتا کسی کو کوئی خبر نہیں کی چند لمحوں کے بعد کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ٣۔ اے قوم ! تم مجھ پر یہ بھی اعتراض کرتے ہو میں شکل و صورت اور انسانی حاجات کے حوالے سے تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جس طرح تمہارے ایک دوسرے کے ساتھ رشتے ناطے ہیں۔ اسی طرح میرا بھی تمہارے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول منتخب کیا ہے۔ لہٰذا میں فقط اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اس لیے مجھ سے یہ امید رکھنا کہ میں فرشتہ بن جاؤں ایک بشر کے لیے یہ ممکن نہیں اور نہ ہی میں نے فرشتہ ہونے کا کبھی دعویٰ کیا ہے۔ ٤۔ اے لوگو ! میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جنہیں تم اپنے سے کم تر سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں کسی خیر سے نہیں نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اخلاص کو جانتا ہے۔ اگر میں تمہارے مطالبہ پر انہیں اپنے آپ سے دور کردوں۔ تو یقیناً میں اس وقت ظالموں میں شمارہوں گا۔ جیسا کہ اس سے پہلے آیت نمبر ٢٧ کی تفسیر میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ منکرین حق نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ کہہ کر مطالبہ کیا تھا کہ اے نوح ! تیرے ماننے والے سماجی زندگی کے اعتبار سے ادنیٰ لوگ ہیں اگر ہم سے ایمان لانے کی توقع رکھتے ہو تو ان کو اپنے آپ سے دور کردو جس کا نوح (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تھا کہ میں نیک لوگوں کو اپنے آپ سے کس طرح دور کرسکتا ہوں ؟ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی جواب دیا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ انہیں خیر سے نہیں نوازے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایمانداروں کو خیر سے نہ نوازنے کا کفار کا عقیدہ دو طرح سے تھا۔ ایک تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ دین کے حوالے سے کاروبار میں جس طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں اس طرح یہ کبھی بھی دنیا میں خوشحالی اور ترقی نہیں پاسکتے۔ دوسرا اس لیے کہتے تھے کہ جس طرح ہم ایمانداروں کے مقابلے میں دنیا میں بہتر ہیں اور آخرت میں بھی ان سے بہتر ہوں گے۔ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس دنیا کے خزانے نہیں تھے۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرشتہ نہیں تھے۔ ٤۔ دنیا دار نیک لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ٥۔ دلوں کی کیفیت جاننے والاصرف ایک اللہ ہے۔ ٦۔ دین والوں کو حقیر جاننے والا ظالم ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود : ٣١) ٢۔ آپ فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٣۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٤۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے سامنے اپنی شخصیت اور رسالت کی حقیقت نہایت ہی واضح طور پر رکھتے ہیں۔ بالکل سادہ اور غیر مصنوعی حقائق کی شکل میں۔ رسول کی شخصیت اور منصب رسالت کو دنیا کی کھوٹی قدروں سے بالکل الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ حقیقت کو سمجھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ اللہ کے ہاں حقیقی قدریں کیا ہیں تاکہ ان کے سامنے دنیا کی ظاہری قدریں الگ ہوجائیں اور حقیقی قدریں صاف اور ستھری ہوکر واضح ہوجائیں تاکہ رسول اور رسالت اپنی اصلی شکل میں ، بغیر کسی ملمع کاری کے ان کے سامنے ہوں چاہے وہ قبول کریں یا نہ کریں۔ چناچہ کہا جاتا ہے : وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ : " اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں " اس لیے میں نہ دولت مندی کا دعوی کرتا ہوں اور نہ یہ قدرت رکھتا ہوں کہ تمہیں دولت مند بنا دوں۔ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ : " نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں "۔ تاکہ میں کسی ایسی قوت کا دعوی کروں جو عام انسانوں کے پاس نہیں ہے ، ماسوائے تعلق رسالت کے۔ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ: " نہ میرا دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں "۔ تاکہ میں عام انسانوں کے مقابلے میں کسی بلند تر جھوٹی صفت کا دعوی کروں اور تمہاری نظروں میں ، میں بلند تر ہوجاؤں اور اپنی قیادت اور سیادت تم سے منوا سکوں۔ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا : " اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں ، انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی "۔ تاکہ اس طرح میں سوسائٹی کے ان مستکبرین کو راضی کرسکوں یا اس طرح میں تمہاری دنیاوی سطحی اقدار اور عارضی رسومات کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاؤں۔ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : " ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے " ان لوگوں کی حقیقت کا حال بھی اللہ ہی جانتا ہے۔ میں ان کے ساتھ ان کے ظاہری حالات کے مطابق ہی اچھا معاملہ کرسکتا ہوں اور ان کا ظاہری حال اس بات کا مستحق ہے کہ میں ان کی قدر کروں اور یہ امید رکھوں کہ اللہ ان کا انجام اچھا کرے گا۔ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : " اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا "۔ اگر مذکورہ بالا دعوں میں سے کوئی دعوی بھی میں نے کیا۔ اس صورت میں ، گویا میں سچائی کے ساتھ ظلم کروں گا حالانکہ مجھے حکم یہ دیا گیا ہے کہ میں سچائی کی تبلیغ کروں اور میں اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مستحق ٹھہرا کر خود اپنے اوپر بھی ظلم کروں گا اور لوگوں کے ساتھ بھی ظلم کروں گا کیونکہ میں ان کو وہ مقام دوں گا جو انہیں اللہ نے نہیں دیا ہے۔ اس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی ذات اور اپنے منصب رسالت سے ان جھوٹی اقدار کو جھاڑ دیتے ہیں جو ان کی قوم نے تصور رسول اور تصور رسالت کے ساتھ وابستہ کر رکھی تھیں۔ اور اپنی قوم کے سامنے رسول اور رسالت کو اپنے حقیقی روپ میں پیش فرماتے ہیں اور ان تمام سطحی اور جعلی تصورات سے ان حقائق کو پاک کرکے پیش فرماتے ہیں کیونکہ کسی بھی حقیقت کو مصنوعی رنگ و روغن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ سچائی کو اپنے حقیقی روپ میں اپنی حقیقی قوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور نہایت ہی محبت بھری اپیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اگر ان کی قسمت میں کچھ لکھا ہے تو اپنا حصہ وصول کرلیں۔ غرض حضرت نوح کی دعوت میں نہ ہیر پھیر ہے ، نہ کوئی کھوٹ ہے ، نہ کوئی بناوٹ ہے ، نہ کسی حقیقی قدر قدر کی قربانی ہے۔ سیدھی سادی بات اپنے حقیقی روپ میں وہ پیش فرماتے ہیں۔ آپ اللہ کے سوا کسی اور کی رضامندی نہیں چاہتے اور پوری انسانی تاریخ کو دعوت پیش کرنے کا ایک نمونہ دیتے ہیں کہ سچائی کو اپنے حقیقی روپ میں پیش کرو ، بغیر کسی ہیر پھیر کے ، بغیر اس کے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی رضامندی مطلوب ہو۔ البتہ نہایت ہی ترغیبی اسلوب میں ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

وہ لوگ نبی کے اندر غیب دانی کی صفت بھی دیکھنا چاہتے تھے حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی صاف فرما دیا کہ (وَلاَ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ) (میں غیب نہیں جانتا) اور غیب کا جاننا بھی ان امور میں سے نہیں ہے جن کی بنیاد پر نبوت دی جاتی۔ یہ جو انہوں نے کہا تھا کہ ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھ رہے ہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نبی ہوتے تو ہماری طرح سے کیوں ہوتے ‘ بشری صفات سے خالی ہوتے تمہارے اندر فرشتوں جیسی صفات ہوتیں ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کا بھی جواب دے دیا اور فرمایا (وَلَا اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَکٌ) (میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں) نبی ہونے کے لئے نہ فرشتہ ہونا ضروری ہے۔ نہ بشریت موانع نبوت میں سے ہے ‘ جو چیزیں لوازم نبوت میں سے نہیں ہیں ان کے ذریعے میرے دعوائے نبوت کو کیوں پرکھتے ہو ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) پر جو لوگ ایمان لے آئے تھے منکرین ان کو حقیر بھی جانتے تھے اور یوں بھی کہتے تھے کہ یہ لوگ یوں ہی بےسمجھے سرسری طور پر تمہارے ساتھ لگ لیے ہیں دل سے آپ پر ایمان نہیں لائے ‘ اس کے جواب میں فرمایا (وَلَا اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًا) (کہ تمہاری نظریں جن بےسرمایہ مسکین لوگوں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں اور ان کے بارے میں تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ یہ دل سے ایمان نہیں لائے میں ان کے بارے میں تمہاری موافقت نہیں کرسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ انہیں کوئی خیر نہیں دے گا) میں تو انہیں مؤمن سمجھتا ہوں ان کا ظاہر اچھا ہے اللہ سے ان کے لئے خیرو ثواب کی امید رکھتا ہوں۔ ایمان کا تعلق مال و دولت سے نہیں ہے بلکہ اخلاص کے ساتھ دل سے قبول کرنے سے ہے۔ (اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ اَنْفُسِھِمْ ) (اللہ کو خوب معلوم ہے کہ جو ان کے دلوں میں ہے) وہ اپنے علم کے مطابق جزا دے گا (اِنِّیْ اِذًا لَّمِنَ الظّٰمِیْنَ ) (اگر میں ان کے بارے میں ایسی بات کہہ دوں کہ اللہ انہیں ثواب عطا نہ فرمائے گا تو میں ظالموں میں سے ہوجاؤں گا) اس میں ان پر بھی ظلم ہوگا کہ ان کا مرتبہ گھٹانے کی بات کردی اور اپنی جان پر بھی ظلم ہوگا کہ جو بات کہنے کی نہ تھی وہ کہہ دی۔ دنیاوی مال اور عہدہ عند اللہ مقبول ہونے کی دلیل نہیں : اہل دنیا کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جس کے پاس دنیا دیکھتے ہیں اسی کو بڑا سمجھتے ہیں ‘ جس کے پاس دولت نہ ہو اسے حقیر جانتے ہیں۔ خواہ وہ اپنے ایمان اور اخلاص اور اخلاق حسنہ اور علم وعمل کے اعتبار سے کتنا ہی بلند ہو ‘ اصل بڑائی تو ایمان اور اخلاق کی ہے دنیافانی ہے پیسہ آنے جانے والی چیز ہے اس سے کسی انسان میں شرافت اور بلندی نہیں آتی چونکہ مالداروں میں اپنی دنیا اور مال کا گھمنڈ ہوتا ہے اور باوجود یکہ ان کے اخلاق پست ہوتے ہیں تکبر میں بد مست ہوتے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو اونچا سمجھتے ہیں ان کا یہ غرور اور مال ‘ ملک انہیں حق نہیں قبول کرنے دیتا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) جب اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتے تھے تو عموماً پہلے غریب لوگ ان پر ایمان لے آتے تھے۔ مالداروں کے غرور کا کا یہ حال تھا کہ ان کے نزدیک معیار حق خود ان کی ذات تھی وہ کہتے تھے کہ جسے ہم قبول کرلیں وہی حق ہے کوئی غریب آدمی اگر حق قبول کرلیتا ہے تو کہتے تھے کہ یہ اس لئے حق نہیں کہ ہم نے قبول نہیں کیا۔ (کما ذکر اللہ تعالیٰ ) (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِلَیْہِ ) (سورۂ الاحقاف رکوع ٢) جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یوں کہا کہ تمہارے ساتھ گھٹیا لوگ لگ لئے ہیں دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں بھی یہ طعن کرتی رہی ہیں۔ جب حضرت خاتم النّبیین سیدنا الانبیاء والمرسلین ( علیہ السلام) نے ایمان کی دعوت دی جس کی ابتداء مکہ معظمہ میں ہوئی تھی تو سردار ان قریش نے اولاً اسلام قبول نہیں کیا اور برابر مخالفت کرتے رہے حتیٰ کہ ان میں سے ستر آدمی غزوہ بدر میں مقتول ہوگئے۔ جو لوگ غلام تھے پردیسی تھے بےپیسہ والے تھے ابتداء میں وہی لوگ اسلام کی طرف بڑھے جن میں حضرت بلال ‘ حضرت عمار بن یاسر ‘ حضرت خباب اور حضرت صہیب رومی (رض) تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قیصر کو دعوت اسلام کا خط بھیجا تو وہ اسے بیت المقدس میں ملا اس نے دریافت کیا کہ یہاں عربوں میں سے کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں یا نہیں ؟ اس وقت وہاں کفار قریش کی ایک جماعت تجارت کے لئے پہنچی ہوئی تھی ‘ قیصر نے ان لوگوں کو بلایا اور ابو سفیان (رض) کو مخاطب کر کے بہت سی باتیں پوچھیں (اس وقت وہ مسلمان نہیں تھے) ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جنہوں نے مجھے یہ خط لکھا ہے اور نبوت کا دعویٰ کیا ہے بڑے بڑے لوگ ان کا اتباع کرتے ہیں یا کم حیثیت کے لوگ ؟ اس پر ابو سفیان نے کہا کہ کم حیثیت کے لوگ ان کا اتباع کرتے ہیں) اس پر قیصر نے کہا کہ اللہ کے رسولوں کے پچھلے چلنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں (یعنی عموماً شروع میں یہی لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اتباع کرتے ہیں) قیصر نے یہ بھی پوچھا کہ ان کے دین کے قبول کرنے کے بعد کیا کوئی شخص مرتد بھی ہوجاتا ہے ؟ اس پر ابو سفیان نے کہا کہ ایسا نہیں ! یہ سن کر قیصر نے کہا جب ایمان کی بشاشت دلوں میں رچ جاتی ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے (یعنی بشاشت ایمانیہ حاصل ہونے کے بعد کوئی شخص اسلام سے نہیں پھرتا) یہ تو پرانی باتیں ہیں لیکن تاریخ اپنے کو دہراتی ہے آج بھی امیروں وزیروں اور مال داروں میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن قرآن حدیث پڑھنے والوں کو اور مدرسوں کے طلباء کو اماموں کو اور مؤذنوں کو اور غریب نمازیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے کو بلند اور برتر سمجھتے ہیں اپنے فسق وفجور پر نظر نہیں موت کی فکر نہیں اور صالحین پر پھبتیاں کستے ہیں۔ ھداھم اللّٰہ تعالیٰ الی ما یحب ویرضٰی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32: یہ تین سوالات مقدرہ کے جوابات ہیں۔ مشرکین کہتے اگر نوح (علیہ السلام) سچا پیغمبر ہے تو اس کے پاس دولت کے خزانے کیوں نہیں اور وہ غیب کی خبریں اور پوشیدہ امور ہمیں کیوں نہ بتاتا نیز وہ بشر ہے اور کھاتا پیتا ہے۔ جواب دیا بیشک اللہ کے خزانوں کا میں مالک نہیں ہوں میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں اور میرا کام تبلیغ وانذار ہے اور نہ میں عالم الغیب ہوں کہ جو بات چاہوں اور جب چاہوں جان لو اور نہ میں فرشتہ اور مافوق البشر ہونے کا مدعی ہوں۔ بلکہ میں بشر اور انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے کمال انسانیت کے بلند ترین مقام (نبوت) پر سرفراز فرمایا ہے۔ یا یہ جمہ معترضہ ہے اور سوالات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی تمام باتیں جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں اور جو غریب مسلمان تمہاری نگاہ میں حقیر ہیں اور جن کے اخلاص پر تم کو شبہ ہے ان کے متعلق تمہاری طرح یہ بھی نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز کوئی بھلائی اور ثواب نہیں دے گا ان کے دل میں جو کچھ ہے اس کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے اگر میں ایسی کوئی بات کہوں تو یقینا میں اس وقت بےانصافوں میں سے ہوجائوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وے جو کہتے تھے کہ تم میں ہم آپ سے برائی نہیں دیکھتے سو فرمایا کہ میں فرشتہ نہیں غیب کی خبر نہیں رکھتا اللہ کے خزانے میرے ہاتھ میں نہیں اور وہ جو اللہ نے مہر کی ہے مجھ پر وہ تمہاری آنکھ سے چھپی ہے 12 خلاصہ یہ کہ جس کو تم بڑائی سمجھتے ہو وہ میرے پاس نہیں اور جو حقیقی بڑائی ہے وہ تم کو دکھائی نہیں دیتی۔