Surat Hood

Surah: 11

Verse: 32

سورة هود

قَالُوۡا یٰنُوۡحُ قَدۡ جٰدَلۡتَنَا فَاَکۡثَرۡتَ جِدَالَنَا فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۳۲﴾

They said, "O Noah, you have disputed us and been frequent in dispute of us. So bring us what you threaten us, if you should be of the truthful."

قوم کے لوگوں نے ) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی ۔ اور خوب بحث کر لی اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ اگر تو سچوں میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People's Request of Nuh to bring the Torment and His Response to Them Allah, the Exalted, informs that the people of Nuh sought to hasten Allah's vengeance, torment, anger and the trial (His punishment). This is based on their saying, قَالُواْ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا ... They said: "O Nuh! You have disputed with us and much have you prolonged the dispute with us..." They meant by this, "You (Nuh) have argued with us long enough, and we are still not going to follow you." ... فَأْتَنِا بِمَا تَعِدُنَا ... now bring upon us what you threaten us with, What he (Nuh) promised is referring to the vengeance and torment (from Allah). They were actually saying, "Supplicate against us however you wish, and let whatever you have supplicated come to us." ... إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللّهُ إِن شَاء وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ

قوم نوح کی عجلت پسندی کی حماقت قوم نوح کی عجلت بیان ہو رہی ہے کہ عذاب مانگ بیٹھے ۔ کہنے لگے بس حجتیں تو ہم نے بہت سی سن لیں ۔ آخری فیصلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم تو تیری تابعداری نہیں کرنے کے اب اگر تو سچا ہے تو دعا کر کے ہم پر عذاب لے آؤ ۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ بھی میرے بس کی بات نہیں اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اگر اللہ کا ارادہ ہی تمہاری گمراہی اور بربادی کا ہے تو پھر واقعی میری نصیحت بےسود ہے ۔ سب کا مالک اللہ ہی ہے تمام کاموں کی تکمیل اسی کے ہاتھ ہے ۔ متصرف ، حاکم ، عادل ، غیر ظالم ، فیصلوں کے امر کا مالک ، ابتداء پیدا کرنے والا ، پھر لوٹانے والا ، دنیا و آخرت کا تنہا مالک وہی ہے ۔ ساری مخلوق کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 لیکن اس کے باوجود ہم ایمان نہیں لائے۔ 32۔ 2 یہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قومیں کرتی آئی ہیں کہ وہ اپنے پیغمبر سے کہتی رہی ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہمیں تباہ کروا دے۔ حالانکہ ان میں عقل ہوتی، تو وہ کہتیں کہ اگر سچا ہے اور واقعی اللہ کا رسول ہے، تو ہمارے لئے دعا کر کہ اللہ تعالیٰ ہمارا سینہ بھی کھول دے تاکہ ہم اسے اپنا لیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] نوح (علیہ السلام) کا زمانہ ـ تبلیغ ساڑھے نو سو سال ہے انہوں نے اپنی قوم کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں رات دن ایک کردیا بالآخر ان لوگوں نے سیدنا نوح (علیہ السلام) کو وہی جواب دیا جو عموماً دلائل سے عاجز لوگ دیا کرتے ہیں یعنی اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تاکہ یہ روز روز کی تکرار ہی ختم ہوجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا ۔۔ : جب وہ نوح (علیہ السلام) کے دلائل کے سامنے بےبس ہوگئے اور نوح (علیہ السلام) ایک مدت دراز تک ( ٩٥٠ سال۔ عنکبوت : ١٤) دن رات ایک ایک شخص کو اور پوری پوری مجلس کو (دیکھیے سورة نوح) اللہ کی توحید سمجھاتے رہے، نہ تھکے اور نہ ہمت ہاری تو بجائے اس کے کہ ان کی قوم ایمان لے آتی یا اللہ سے درخواست کرتی کہ اے اللہ ! اگر نوح (علیہ السلام) کی بات سچ ہے تو اس کے لیے ہمارے سینے کھول دے، الٹا عذاب الٰہی لانے کا مطالبہ کردیا۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ شرک انسان کو عقل اور فطرتِ الٰہی پر چلنے سے کس حد تک محروم کردیتا ہے اور اس کی بھی کہ مشرک پرانے زمانے کا ہو یا آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا، دونوں ایک ہی طرح عقل سے خالی ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے ابوجہل اور مشرکین مکہ کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے دعا جو سورة انفال (٣٢) میں مذکور ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Fourthly, it was stated: In your sight these poor people may appear lowly and disgraceful. But, I cannot say as you say that Allah Ta&ala will not bless them with what is good, because good relates to one&s heart, not wealth, and only Allah knows the secrets of hearts and He knows whose heart is worthy of receiving good and whose heart is not. Then, it was said: If I too were to start calling them lowly and dis¬graceful, I too would become unjust.

چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہاری نظریں جن غریب بےسرمایہ لوگوں کو حقیر و ذلیل دکھتی ہیں میں تمہاری طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو کوئی خیر اور بھلائی نہ دے گا کیونکہ خیر اور بھلائی کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ انسان کے قلب سے ہے اور دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کسی کا قلب خیر و صلاح کے قابل ہے کس کا نہیں۔ پھر فرمایا کہ اگر میں بھی تمہاری طرح ان کو حقیر و ذلیل کہنے لگوں تو میں بھی ظالم ہوجاؤں گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ٣٢ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) وہ لوگ کہنے لگے کہ نوح (علیہ السلام) تم ہم سے بحث کرچکے اور آبائی دین کے بجائے دوسرے دین کی طرف دعوت دے چکے اور بحث اور دعوت بہت کرچکے، بس اب تو عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے کہ وہ ہمارے اوپر نازل ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدَالَنَا) جب حضرت نوح کی ان تمام باتوں کا علمی ‘ عقلی اور منطقی سطح پر کوئی جواب ان لوگوں سے نہ بن پڑا تو وہ خواہ مخواہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے کہ بس جی بہت ہوگیا بحث مباحثہ ‘ اب چھوڑیں ان دلیلوں کو اور :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٣٤۔ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے ہر ایک سوال کا پورا جواب پایا تو کہنے لگے کہ اے نوح ہم تم سے ہر طرح بحث کر کے تھک گئے کوئی حجت ہماری پیش نہ چلی اب لو جس عذاب کا تم ہم کو خوف دلاتے ہو اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب نازل کراؤ اس کا جواب نوح (علیہ السلام) نے دیا کہ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے خدا کے ہاتھ ہے اگر وہ عذاب جلدی بھیجنا چاہے گا تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا اور اگر اس کی حکمت دیر کی مقتضی ہے تو دیر میں نازل ہوگا اگر تم چاہو کہ ہم بچ جائیں سو یہ بخیر ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تم یا اور کوئی اس کو عاجز کر دے یا تم کہیں بھاگ کر چلے جاؤ اور بچ جاؤ اور میری نصیحت بھی تم کو کچھ فائدہ مند نہیں ہوسکتی میں ہزار چاہوں کہ تم کسی طرح ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں تمہاری گمراہی ٹھہر چکی ہو تو مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا وہ تمہارا رب ہے اسی نے تم کو پیدا کیا وہی تمہیں دنیا میں زندہ رکھتا ہے وہی تمہاری پرورش کرتا ہے اسی کے ہاتھ میں ہدایت اور گمراہی ہے اسی کی طرف تمہیں پھرجانا ہے وہاں تمہارے اعمال کا بہت اچھی طرح بدلہ ملے گا۔ سورت انفال میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ جب کسی حجت میں غالب نہ آسکے تو انہوں نے بھی عذاب کے آجانے کی خواہش کی نیت۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ ابو جہل نے یہ عذاب کی خواہش کی تھی۔ ١ ؎ اور سب مشرک اس کے ہم خیال تھے حاصل یہ ہے کہ قوم نوح اور قریش کی عذاب کی خواہش کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ آسمانی کتابوں اور اللہ کے رسولوں کے منکر لوگ عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچا نہیں جانتے تھے اس لئے جب یہ لوگ زبانی حجتوں میں لاجواب ہوجاتے تھے تو بےدھڑک عذاب کی خواہش ان کی زبان پر آجاتی تھی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزرچکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم الٰہی میں جو شخص دوزخی ٹھہر چکا ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد وہ ویسے ہی کام کرتا ہے۔ ٢ ؎ اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ { ولا ینفعکم نصحی ان اردت ان انصح لکم ان کان اللّٰہ یرید ان یغویکم } کی حضرت علی (رض) کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٦٩۔ ٦٧٠ باب تولہ تعالیٰ ان کان ہو ہذا ہو الحق الخ۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٨ ج تفسیر سورة والعیل اذا یغشی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:32) جادلتنا (باب مفاعلہ) تو نے ہم سے جھگڑا کیا۔ جدل مادہ۔ تعدنا۔ تو ہمیں ڈراتا ہے۔ تو ہمیں دھمکی دیتا ہے۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر جمع متکلم وعدہ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے (تو ہم سے وعدہ کرتا ہے) لیکن یہاں پہلے معنی مراد ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے حکیمانہ جوابات کا قوم کی طرف سے بدترین ردِّعمل۔ حضرات ! کفار اور مشرکین کے مزاج کا اندازہ لگائیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کس قدر ناصحانہ اور ان کا انداز کتنا حکیمانہ ہے۔ لیکن ان کے مخالف کتنے کج فہم اور منفی سوچ کے حامل لوگ تھے کہ انہوں نے دعوت توحید اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخلصانہ اور طویل ترین جدوجہد کو بحث و تکرار اور ایک جھگڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی۔ ایسے لوگوں کا شروع سے یہ مزاج ہے کہ یہ دین کے بنیادی مسائل کو بھی علماء کا باہمی جھگڑا قرار دے کر اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سوچ کا یہی انداز نوح (علیہ السلام) کی قوم کا تھا۔ چناچہ انہوں نے حق تسلیم کرنے کی بجائے جناب نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اے نوح تو نے ہم سے بہت مدت تک بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا۔ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ جس عذاب کی تو دھمکیاں دیتا ہے۔ اسے ہم پر جلدی لے آو۔ اگر واقعی تو نبوت میں سچا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا عذاب لانا میرے بس میں نہیں۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا تو تم کسی طرح بھی اس کو ٹال نہیں سکو گے۔ جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت جھگڑا کیا ہے یہ تمہاری منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں نے طویل عرصہ تک نہایت خیرخواہی کے ساتھ تمہیں نصیحت کی ہے۔ اگر تم ہدایت پانے کے لیے تیار نہیں تو میری نصیحت کا تمہیں کیا فائدہ ؟ جبکہ تم اپنی منفی سوچ اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے علم میں گمراہ ٹھہر چکے ہو۔ میں پھر تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے رب کو پہچانو۔ بالآخر تم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس نے ہدایت کا معاملہ جبری نہیں رکھا۔ لہٰذا جو گمراہ ہونا چاہتا ہے اسے وہ اس راستے پر کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کی باتوں کی کفار پرواہ نہیں کرتے۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) سے کفار عذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنا ہر معاملہ اللہ کے سپرد کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٥۔ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کی خیر خواہی کام نہیں آتی ٦۔ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا پروردگار ہے۔ ٨۔ ہر کسی کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) سے اقوام کا عذاب کا مطالبہ : ١۔ حضرت نوح کو قوم نے کہا کہ جو ہمارے ساتھ عذاب کا وعدہ کرتا ہے وہ لے آ۔ (ہود : ٣٢) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ مدین والوں نے شعیب (علیہ السلام) سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کیا۔ (الشعرا : ١٨٧) ٤۔ قوم عاد نے ہود سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٥۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑاگرادے۔ (بنی اسرائیل : ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس مقام پر قوم نوح ، صداقتِ نوح ، دلائلِ نوح اور اسلوبِ نوح کے مقابلے سے عاجز آجاتی ہے۔ چناچہ وہ ضد پر اتر آتے ہیں اور محبت اور دلیل کا جواب استکبار اور ہٹ دھرمی سے دیتے ہیں اور اب بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی راہ کو ترک کرکے وہ چیلنج دینے پر اتر آتے ہیں۔ آخر کار ان لوگوں نے کہا کہ " اے نوح ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کرلیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو ، اگر سچے ہو۔ یہ ایک انوکھا انداز ہے ، عاجزی نے قوت کا لباس پہن رکھا ہے۔ ضعیفی توانائی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ در حقیقت یہ لوگ ڈرتے تو ہیں لیکن زبان سے انکار کرکے نیز چیلنج کے الفاظ کا سہارا دے کر بہادری کا جھوٹا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ : " اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو ، اگر سچے ہو۔ "۔ وہ دردناک عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے رہے ہو اب ہم پر نازل کردو ، ہم تو کسی صورت میں تصدیق کرنے والے نہیں ہیں اور ہم تمہارے ڈراوے کی اب کوئی پروا نہیں کرتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم کا مزید عناد اور عذاب کا مطالبہ ‘ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے اور انہیں سمجھاتے رہے۔ خوب سمجھایا اور بہت سمجھایا آپ جیسے جیسے ان کو سمجھاتے تھے وہ ضدو عناد میں آگے بڑھتے چلے جاتے تھے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ کپڑے اوڑھ لیتے تھے تاکہ آپ کی آواز کانوں میں نہ پڑے ‘ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ تم ہم سے بہت جھگڑ لیے اور بہت زیادہ جھگڑا کرچکے جھگڑا بھی کرتے ہو اور یوں بھی کہتے ہو کہ تم نے توحید کو قبول نہ کیا اور شرک چھوڑ کر تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں نہ لگے تو عذاب آجائے گا اب بات یہ ہے کہ جھگڑے چھوڑو عذاب ہی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ میں تو اللہ کی طرف سے مامور ہوں۔ عذاب کی وعید بھی میں نے اسی کی طرف سے سنائی ہے میں خود عذاب نہیں لاسکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ چاہے گا تو تم پر عذاب لے آئے گا اور جب عذاب آئے گا تو تم اسے عاجز نہیں کرسکو گے یعنی نہ عذاب کو دفع کرسکو گے نہ بھاگ سکو گے ‘ میں نے تمہیں بہت کچھ سمجھایا ‘ تمہاری خیر خواہی کی لیکن میری خیر خواہی کا تم اثر نہیں لیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ تمہیں گمراہی پر ہی رکھے (جس کی وجہ تمہارا عناد و استکبار ہے) تو میری نصیحت تمہیں کوئی کارگر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے مالک ہے تم اس کے ساتھ شرک کر کے مجرم بنے ہوئے ہو اور پھر مرنے کے بعد بھی تمہیں اسی کی طرف جانا ہے ‘ اپنے مالک کے حقوق ضائع کرنے والے ہو دنیا میں بھی عذاب آسکتا ہے اور آخرت میں تو بہرحال منکرین کے لئے عذاب ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو جواب دے دیا کہ میں عذاب نہیں لاسکتا۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو عذاب لائے گا۔ پھر ان کے لئے بد دعا کردی اور پانی کے طوفان نے انہیں گھیر کر ہلاک کردیا جیسا کہ سورة نوح کے آخری رکوع میں مذکور ہے اور یہاں بھی آئندہ رکوع میں اس کا ذکرآ رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33: حضرت نوح (علیہ السلام) کی باتوں اور معقول دلیلوں سے لاجواب ہو کر قوم کے لوگ بول اٹھے کہ اے نوح ! تم نے تو ہمارے ساتھ جھگڑا ہی شروع کردیا ہے اچھا جاؤ ہم نہیں مانتے اور اگر تمہارے دعوے میں کچھ صداقت ہے تو جس عذاب کی دھمکیاں دیتے ہو وہ بھی لے آؤ پھر دیکھا جائے گا۔ قَالَ اِنَّمَا یَاتِیْکُمْ الخ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا عذاب لانا تو میرے اختیار میں نہیں وہ اللہ کے اختیار میں ہے اور اپنے وقت پر ضرور آئے گا اور جب آئے گا تم اس سے ہرگز بچ نہیں سکو گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اس پر انہوں نے کہا اے نوح (علیہ السلام) تو نے ہم سے جھگڑا اور بحث و مباحثہ تو بہت کچھ کرلیا اور ابس اب تو جس دھمکی آمیز چیز کا ہم سے وعدہ کیا کرتا ہے اور جس چیز سے ہم کو ڈرایا کرتا ہے اس کو ہمارے سامنے لے آ اگر تو سچ بولنے والوں میں سے ہے اور اپنی بات کا سچا ہے یعنی عذاب کی جو وعید سنایا کرتے ہو وہ عذاب لے آئو۔