Surat Hood

Surah: 11

Verse: 40

سورة هود

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ وَ مَنۡ اٰمَنَ ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾

[So it was], until when Our command came and the oven overflowed, We said, "Load upon the ship of each [creature] two mates and your family, except those about whom the word has preceded, and [include] whoever has believed." But none had believed with him, except a few.

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے ( جانداروں میں سے ) جوڑے ( یعنی ) دو ( جانور ، ایک نر اور ایک مادہ ) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The beginning of the Flood and Nuh loads Every Creature in Pairs upon the Ship Allah says; حَتَّى إِذَا جَاء أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ... (So it was) till when Our command came and the oven gushed forth (water like fountains from the earth). This was the promise of Allah to Nuh , when the command of Allah came, the rain was continuous and there was a severe storm which did not slacken or subside, as Allah said, فَفَتَحْنَأ أَبْوَبَ السَّمَأءِ بِمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الاٌّرْضَ عُيُوناً فَالْتَقَى المَأءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ أَلْوَحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِى بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ So We opened the gates of the heaven with water pouring forth. And We caused springs to gush forth from the earth. So the waters (of the heaven and the earth) met for a matter predestined. And We carried him on a (ship) made of planks and nails. Floating under Our Eyes: a reward for him who had been rejected! (54:11-14) In reference to Allah's statement, وَفَارَ التَّنُّورُ (and the oven gushed forth), It is related from Ibn Abbas that he said, "At-Tannur is the face of the earth." This verse means that the face of the earth became gushing water springs. This continued until the water gushed forth from the Tananir, which are places of fire. Therefore, water even gushed from the places where fire normally would be. This is the opinion of the majority of the Salaf (predecessors) and the scholars of the Khalaf (later generations). ... قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ... We said: "Embark therein, of each kind two (male and female), At this point, Allah commanded Nuh to select one pair from every kind of creature possessing a soul, and load them on the ship. Some said that this included other creatures as well, such as pairs of plants, male and female. It has also been said that the first of the birds to enter the ship was the parrot, and the last of the animals to enter was the donkey. Concerning Allah's statement, ... وَأَهْلَكَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ... and your family -- except him against whom the Word has already gone forth. This means, "Load your family upon the ship." This is referring to the members of his household and his relatives, except him against whom the Word has already gone forth, for they did not believe in Allah. Among them was the son of Nuh, Yam, who went in hermitage. Among them was the wife of Nuh who was a disbeliever in Allah and His Messenger. Concerning Allah's statement, ... وَمَنْ امَنَ ... and those who believe. from your people. ... وَمَا امَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ And none believed with him, except a few. This means that only a very small number believed, even after the long period of time that he (Nuh) was among them -- nine hundred and fifty years. It is reported from Ibn Abbas that he said, "They were eighty people including their women."

قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول حسب فرمان ربی آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور حضرت نوح کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا ۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا ۔ تنور کے ابلنے سے بقول ابن عباس یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا ۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے ۔ مجاہد اور شعبی کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا ۔ ابن عباس سے مروی ہے ہند میں ایک نہر ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے عین الوردہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں ۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرلو ۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا ۔ جیسا نباتات ۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہو نے لگا ۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آگئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا ۔ حضرت نوح جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے ۔ آخر آپ نے فرمایا آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا ، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا ۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی ۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے ۔ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا ۔ آپ کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا ۔ یا آپ کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول کی منکر تھی اور تیری قوم کے تمام مسمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے اب عباس فرماتے ہیں کل اسی ( 80 ) آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں کعب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سب بہتر ( 72 ) اشخاص تھے ۔ ایک قول ہے صرف دس ( 10 ) آدمی تھے ایک قول ہے حضرت نوح تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام ، حام ، یافث اور چار عورتیں تھیں ۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود حضرت نوح کی بیوی ۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے حضرت نوح کی بیوی ہلاک ہو نے والوں میں ہلاک ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ السلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی ۔ واللہ اعلم واحکم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 اس سے بعض نے روٹی پکانے والے تنور، بعض نے مخصوص جگہیں مثلا عین الوردہ اور بعض نے سطح زمین مراد لی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی آخری مفہوم کو ترجیح دی ہے یعنی ساری زمین ہی چشموں کی طرح ابل پڑی، اوپر سے آسمان کی بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ 40۔ 2 اس سے مراد مذکر اور مؤنث یعنی نر مادہ ہے اس طرح ہر ذی روح مخلوق کا جوڑا کشتی میں رکھ لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ نباتات بھی رکھے گئے تھے۔ وللہ اعلم۔ 40۔ 3 یعنی جن کا غرق ہونا تقدیر الٰہی میں ثبت ہے اس سے مراد عام کفار ہیں، یا یہ استشناء اَھْلَکَ سے ہے یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرا لے، سوائے ان کے جن پر اللہ کی بات سبقت کرگئی ہے یعنی ایک بیٹا (کنعان یا۔ یام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی اہلیہ (وَ عِلَۃ) یہ دونوں کافر تھے، ان کو کشتی میں بیٹھنے والوں سے مستشنٰی کردیا گیا۔ 40۔ 4 یعنی سب اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرا لے۔ 40۔ 5 بعض نے ان کی کل تعداد (مرد اور عورت ملا کر) 80 اور بعض نے اس سے بھی کم بتلائی ہے۔ ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے، جو ایمان والوں میں شامل تھے، سام، حام، یافت اور ان کی بیویاں اور چوتھی بیوی، یام کی تھی، جو کافر تھا، لیکن اس کی بیوی مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار تھی۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] طوفان نوح کا آغاز :۔ طوفان نوح کا آعاز تنور سے چشمہ پھوٹنے سے ہوا۔ ایک قول کے مطابق تنور سے مراد و ہی معروف تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور ایک قول کے مطابق تنور سے مراد سطح زمین ہے۔ پھر ارد گرد کی زمین سے کئی مزید چشمے پھوٹنے شروع ہوگئے اور اوپر سے لگاتار بارش شروع ہوگئی۔ پہلا چشمہ پھوٹنے پر نوح (علیہ السلام) کو حکم دے دیا گیا کہ سب ایمان والوں کو اس کشتی میں سوار کرلو اور جو جانور بھی اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں اور نر و مادہ سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ایک ایک جوڑا (یعنی نر و مادہ) بھی اس کشتی میں رکھ لو۔ اپنے گھر والوں میں سے جو مومن ہیں ان سب کو بھی سوار کرلو اور وہ حام، سام، یافث اور ان کے اہل و عیال تھے اور جو ایمان نہیں لائے انھیں اس کشتی میں مت سوار کرنا اور ان میں نوح (علیہ السلام) کا بیٹا یام بھی تھا جسے کنعان بھی کہا جاتا تھا اور نوح کی بیوی واعلہ جو کافر تھی اور کنعان کی والدہ تھی۔ آپ کے خاندان سے یہ دو افراد بھی طوفان کی نذر ہوئے تھے اور ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہی تھے جن کی تعداد ٨٠ سے متجاوز نہیں تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ : ” فَارَ یَفُوْرُ فَوْرًا “ جوش مار کر نکلنا۔ فوارہ بھی اسی سے ہے۔ ” التَّنُّوْرُ “ (بروزن تفعول) کا معروف معنی تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے گھر میں طوفان کا نشان بتا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشی میں سوار ہوجاؤ۔ (موضح) اکثر مفسرین نے تنور سے یہی عام تنور مراد لیا ہے، لیکن حسب تفسیر ابن عباس (ابن جریر) ” التَّنُّوْرُ “ سے مراد روئے زمین ہے۔ قاموس میں بھی لکھا ہے : ” وَجْہُ الْأَرْضِ وَ کُلُّ مَفْجَرِ مَاءٍ وَ مَحْفَلُ مَاءِ الْوَادِیْ “ ” روئے زمین، پانی پھوٹنے کی جگہ اور وادی کے پانی کے جمع ہونے کی جگہ۔ “ اس تفسیر کی رو سے مراد یہ ہے کہ ساری زمین پانی کا چشمہ بن گئی اور پانی ابلنے لگا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے : (وَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا) [ القمر : ١٢ ] ” اور ہم نے زمین کو چشموں سے پھاڑ دیا۔ “ حتیٰ کہ تنور جو آگ کی جگہ ہوتے ہیں، پانی کے فوارے بن گئے۔ ویسے پہلا معنی زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ علامت ظاہر ہونے کے ساتھ ہی کشتی میں سوار ہونے اور ہر جانور کا جوڑا رکھنے کا زیادہ موقع ہے، لیکن جب ساری زمین سے چشمے پھوٹ نکلیں تو یہ کام مشکل ہے اور تنور روٹیاں پکانے کے لیے عام معروف بھی ہے۔ امام طبری اور رازی نے بھی اسی معنی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ معروف معنی چھوڑنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ام ہشام بنت حارثہ (رض) فرماتی ہیں : ( کَانَ تَنُّوْرُنَا وَ تَنُّوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحِدًا ) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ : ٨٧٣ ] ” ہمارا تنور اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تنور ایک ہی تھا۔ “ ” امرنا “ سے مراد عذاب کا حکم ہے کہ آسمان سے موسلا دھار پانی برسنے لگا اور زمین سے چشموں کی طرح پانی ابلنا شروع ہوگیا، دونوں طبقے مل گئے اور زمین پانی میں غرق ہوگئی۔ دیکھیے سورة قمر (١١، ١٢) ۔ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۔۔ : ” مِنْ كُلٍّ “ میں ” كُلٍّ “ کی تنوین مضاف الیہ محذوف کا عوض ہے : ” اَیْ مِنْ کُلِّ نَوْعٍ تَحْتَاجُ اِلَیْہِ “ جب عذاب کے آثار شروع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جانوروں کی ہر قسم میں سے ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو، جن کی نسل باقی رہنا مقدر تھی۔ ” وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ “ یعنی اپنی بیوی جس کا ذکر سورة تحریم میں ہے اور اس بیٹے جس کا ذکر زیر تفسیر آیات میں آ رہا ہے (جن کے کفر کی وجہ سے ان کا ڈوبنا پہلے طے ہوچکا ہے) ان کے سوا اپنے تمام گھر والوں کو اور ان لوگوں کو جو آپ پر ایمان لائے ہیں، کشتی میں سوار کرلو۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ: یہ وہی تھے جن کو قوم نے اپنے اراذل کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر بہت تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے۔ ان کی تعداد بہت سے مفسرین (٧٩) یا (٨٠) بیان کرتے ہیں، مثلاً آلوسی وغیرہ، جن میں وہ نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث کا نام لیتے ہیں، کافر بیٹے کا نام کنعان تھا۔ ان چاروں کی بیویاں مسلمان تھیں اور ٧٢ مرد اور عورتیں دوسرے مسلمان تھے۔ بعض نے یہ تعداد چالیس (٤٠) بتائی ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ الفلاح (رض) لکھتے ہیں : ” قرآن و حدیث میں ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں۔ “ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں کے علاوہ کوئی معتبر ذریعہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس نہیں ہے۔ [ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِعَدَدِھِمْ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

From the fifth verse (40) begins the description of the coming of the flood, related instructions and events as they unfolded. So, first it was said: حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُ‌نَا وَفَارَ‌ التَّنُّورُ‌ (At last, when Our command came and the oven overflowed). The word: (tannur: تَّنُّور oven) is used in more than one sense. The Earth&s floor is called an oven. The oven that bakes bread is also a tan-nur. A raised part of the land is also referred to as tannur. Therefore, some of the Tafsir authorities have said that, at this place, ` tannur& means the surface of the land in that water started overflowing from it. Some of them have said that it means the tannur of Sayyidna Adam (علیہ السلام) that was located at ` ainul- wardah& in Syria - and water over-flowed from it. Some others said that Sayyidna Nuh&s own tan¬nur was located in Kufah and that was what it means. Most commenta¬tors - Sayyidna Hasan, Mujahid, Sha` bi, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) and others - have gone by this view. As for Sha` bi, he used to say on oath that this tannur was located in a secluded quarter of the city of Kufah, and that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) had built his ark in the mosque of Kufah. This tannur was right by the entrance to this mosque. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says that Allah Ta` ala had told Sayyidna Nuh (علیہ السلام) ، ` when you see water overflowing from the oven in your home, know that the flood has come.& (Qurtubi and Mazhari) Commentator al-Qurtubi said: The sayings of commentators appear to be different as to the meaning of tannur, but this, in reality, is not a difference. When water began to bulge out, it overflowed from the bread baking oven, and from out of the surface of the land, and from the oven of ` Ainul-Wardah in Syria. The Holy Qur&an has said explicit¬ly: فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ‌ وَفَجَّرْ‌نَا الْأَرْ‌ضَ عُيُونًا (Then We opened the gates of the heaven with rain pouring down and caused the earth to burst out with springs - al-Qamar, 54:11). In his statement, Sha&bi has also said that this grand mosque of Kufah has its own distinct status after al-Masjid al-Haram, al-Masjid an-Nabawii and al-Masjid al-Aqsa. Later in the verse, it was said: When the flood had started, Sayyid¬na Nuh (علیہ السلام) was commanded: احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ (Load in it a pair of two from every kind). This tells us that all kinds of animals were not loaded in the ark of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . Loaded there were animals born to a pair of male and female and which cannot survive in water. Therefore, all sea life stands excluded from here and so do land based life forms born without male-female conjunction. This leaves only domestic animals like the cow, ox, water buffalo, goat etc. This removes the possible doubt as to how could the ark hold that many animals. After that, Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was asked to have his family members - other than the disbelieving ones - board the ark, as well as those who had believed in him, though they were only a few. The exact number of those who sailed on the ark has not been de¬termined in the Qur&an and Hadith. It has been reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) that their total number was eighty, which included three sons of Sayyidna Nuh : (علیہ السلام) - Sam, Ham, Yafith and the three of their wives. The fourth son had stayed with the disbelievers and was drowned with them.

پا نچویں آیت میں طوفان کی ابتداء اور اس سے متعلقہ ہدایات اور واقعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس میں ارشاد فرمایا (آیت) حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ ، یعنی جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور سے پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ لفظ تنور کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے، سطح زمین کو بھی تنور کہتے ہیں، روٹی پکانے کے تنور کو بھی تنور کہا جاتا ہے، زمین کے بلند حصہ کے لئے بھی لفظ تنور بولا جاتا ہے اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے بعض نے فرمایا کہ اس جگہ تنور سے مراد سطح زمین ہے کہ اس سے پانی ابلنے لگا، بعض نے فرمایا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا تنور مقام |" عین وردہ |" ملک شام میں تھا وہ مراد ہے، اس سے پانی نکلنے لگا، بعض نے فرمایا حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنا تنور کوفہ میں تھا، وہ مراد ہے۔ اکثر مفسرین حضرت حسن، مجاہد، شعبی، حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہم نے اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ اور شعبی تو قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ تنور شہر کوفہ کے ایک گوشہ میں تھا اور یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی کشتی مسجد کوفہ کے اندر بنائی تھی، اسی مسجد کے دروازہ پر یہ تنور تھا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے گھر کے تنور سے پانی ابلنے لگا تو سمجھ لیں کہ طوفان آگیا، ( قرطبی و مظہری) مفسر قرطبی نے فرمایا کہ اگرچہ تنور کے معنی میں مفسرین کے اقوال مختلف نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی اختلاف نہیں، جب طوفان کا پانی ابلنا شروع ہوا تو روٹی پکانے کے تنور سے بھی نکلا، سطح زمین سے بھی ابلا، ملک شام عین الوردہ کے تنور سے بھی نکلا، جیسا کہ قرآن کریم نے خود تصریح فرمائی ہے (آیت) فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْهَمِرٍ ، وَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا، یعنی ہم نے آسمان کے دروازے موسلا دھار بارش کے لئے کھول دیئے اور زمین سے چشمے ہی چشمے پھوٹ پڑے۔ شعبی نے اپنے بیان میں یہ بھی فرمایا کہ یہ کوفہ کی جامع مسجد، مسجد حرام اور مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد چوتھی مسجد ہے جو ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ آیت میں آگے یہ بیان فرمایا کہ جب طوفان شروع ہوگیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا، (آیت) احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ یعنی سوار کرلیجئے اس کشتی میں ہر جوڑے والے جانوروں کا ایک ایک جوڑا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کشتی نوح میں ساری دنیا بھر کے جانور جمع نہیں کئے گئے تھے بلکہ صرف وہ جانور جو نر و مادہ کے جوڑے سے پیدا ہوتے ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے، اس لئے تمام دریائی جانور اس سے نکل گئے اور خشکی کے جانوروں میں بھی بغیر نر و مادہ کے پیدا ہونے والے حشرات الارض سب نکل گئے صرف پالتو جانور گائے، بیل بھینس، بکری وغیرہ رہ گئے۔ اس سے وہ شبہ دور ہوگیا جو سطحی نظر میں پیدا ہوسکتا ہے کہ کشتی میں اتنی وسعت کیسے ہوگئی کہ دنیا بھر کے جانور سما گئے۔ اور پھر نوح (علیہ السلام) کو ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے اہل و عیال کو بجز ان کے جو کفر پر ہیں کشتی میں سورا کرلیں اور ان سب لوگوں کو بھی جو آپ پر ایمان لائے ہیں، مگر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے۔ کشتی والوں کی صحیح تعداد قرآن و حدیث میں متعین نہیں کی گئی، حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ تعداد کل اسی آدمیوں کی تھی جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے سام، حام، یافث اور ان کی تین بیبیاں تھیں، چوتھا بیٹا کفار کے ساتھ رہ کر طوفان میں غرق ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ۝ ٠ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَہْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ۝ ٠ ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ۝ ٤٠ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) فور الفَوْرُ : شِدَّةُ الغَلَيَانِ ، ويقال ذلک في النار نفسها إذا هاجت، وفي القدر، وفي الغضب نحو : وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] ، وَفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] ( ف و ر ) الفور ( کے معنی سخت جوش مارنے کے ہیں یہ لفظ آگ کے بھڑک اٹھنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور ہانڈی اور غصہ کے جوش کھانے پر بھی ۔ قرآن میں ہے ۔ وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] اور وہ جوش مار رہی ہوگی وفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] اور تنور جوش مارنے لگا ۔ ( التّنور) ، جاء في لسان العرب مادة ( ت ن ر) : «التنور : الذي يخبز فيه، يقال هو في جمیع اللغات کذلک، وقال أحمد بن يحيى: التّنور تفعول من النار، قال ابن سيده : وهذا من الفساد بحیث تراه وإنّما هو أصل لم يستعمل إلّا في هذا الحرف وبالزیادة، وصاحبه تنّار . والتنور : وجه الأرض فارسيّ معرّب، وقیل هو بكلّ لغة» أهـ، فوزن تنّور فعّول لأن اشتقاقه من ( تنر) . زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) غرض کہ جب ہماری عذاب کا وقت قریب آپہنچا اور زمین میں سے پانی ابلنا شروع ہوا یا یہ کہ صبح پھیل گئی تو ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ہر ایک قسم کے جانوروں میں سے کشتی میں ایک ایک جوڑا یعنی نر و مادہ چڑھا لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ماسوا ان لوگوں کے جن پر حکم عذاب نافذ ہوچکا ہے اور اپنے ساتھ دوسرے ایمان کو بھی کشتی میں چھڑا اور صرف اسی آدمی ان پر ایمان لائے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (حَتّٰیٓ اِذَاجَآءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ ) مشرق وسطیٰ کے اس پورے علاقے میں ایک بہت بڑے سیلاب کے واضح آثار بھی ملتے ہیں ‘ اس بارے میں تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں اور آج کا علم طبقات الارض (Geology) بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ H.G.Wells نے اس سیلاب کی تاویل یوں کی ہے کہ یہ علاقہ بحیرۂ روم (Mediterranean) کی سطح سے بہت نیچا تھا ‘ مگر سمندر کے مشرقی ساحل یعنی شام اور فلسطین کے ساتھ ساتھ موجود پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے سمندر کا پانی خشکی کی طرف نہیں آسکتا تھا۔ (جیسے کراچی کے بعض علاقوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سطح سمندر سے بہت نیچے ہیں مگر ساحلی علاقہ کی سطح چونکہ بلند ہے اس لیے سمندر کا پانی اس طرف نہیں آسکتا۔ ) H.G.Wells کا خیال ہے کہ اس علاقے میں سمندر سے کسی وجہ سے پانی کے لیے کوئی راستہ بن گیا ہوگا جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق اس سیلاب کا آغاز ایک خاص تنور سے ہوا تھا جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس کے ساتھ ہی آسمان سے غیر معمولی انداز میں لگاتار بارشیں ہوئیں اور زمین نے بھی اپنے چشموں کے دہانے کھول دیے۔ پھر آسمان اور زمین کے یہ دونوں پانی مل کر عظیم سیلاب کی صورت اختیار کر گئے۔ سورة القمر میں اس کی تفصیل بایں الفاظ بیان کی گئی ہے : (فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْہَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَآٰی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ) ” پس ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے جن سے لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ پڑے اور یہ دونوں طرح کے پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کردیا گیا تھا۔ “ (قُلْنَا احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَہْلَکَ الاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ ) ” یہ استثنائی حکم حضرت نوح (علیہ السلام) کی ایک بیوی اور آپ کے بیٹے ” یام “ (کنعان) کے بارے میں تھا ‘ جو اسی بیوی سے تھا ‘ جبکہ آپ کے تین بیٹے حام ‘ سام اور یافث ایمان لا چکے تھے اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ حضرت سام اور ان کی اولاد بعد میں اسی علاقے میں آباد ہوئی تھی۔ چناچہ قوم عاد ‘ قوم ثمود اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب سامئ النسل تھے۔ حام اور یافث دوسرے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی نسل بھی آگے چلی۔ (وَمَنْ اٰمَنَط وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٓٗ الاَّ قَلِیْلٌ) یہاں پر لفظ قلیل انگریزی محاورہ |" the little|" کے ہم معنی ہے ‘ یعنی بہت ہی تھوڑے ‘ نہ ہونے کے برابر۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42.Commentators on the Qur'an have offered different explanations of this incident. In our view, the place from which the Flood began was a particular oven. It is from beneath it that a spring of water burst forth. This was followed by both a heavy downpour and by a very large number of springs which gushed forth. Surah al-Qamar provides relevant information in some detail: So We opened the gates of the heaven, with water intermittently pouring forth, and We caused the earth to be cleaved and the springs to flow out everywhere. Then the water (from both the sources - the heaven and the earth) converged to bring about that which had been decreed (al-Qamar, 54: 11-12). In the present verse, the word tannur has been preceded by the article al: According to Arabic grammar, this indicates that the reference is to a particular tannur (oven). Thus, it is evident that God had determined that the Flood should commence from a particular oven. As soon as the appointed moment came, and as soon as God so ordained, water burst forth from that oven. Subsequently, it became known as the Flood-Oven. The fact that God had earmarked a certain oven to serve as the starting-point of the Flood is borne out by al-Mu'minun 23: 27. 43. Information that some members of Noah's family were unbelievers and so were unworthy of God's mercy had already been given. Noah (peace be on him) had also been directed not to provide them with space in the Ark. Presumably these were only two persons. One was Noah's own son; the story of his drowning will be referred to shortly (see verse 43 below). The other was Noah's wife (see al-Tahrim 66: 15). It is possible that some other members of Noah's family also belonged to this category. Be that as it may, the Qur'an does not expressly mention any others. 44. This refutes the opinion of those historians and genealogists who trace the ancestry of all human beings to Noah's three sons. This misconception has arisen from the Israelite traditions which suggest that Noah, his three sons and their wives were the only survivors of the Flood. (See Genesis 6: 18, 7: 7, p. 1 and 9: 19.) The Qur'an, however, repeatedly says that apart from Noah's family, at least some other people belonging to his nation - even if only a few - were also saved by God from the Flood. The Qur'an, therefore, considers the future generations of mankind to have descended not only from Noah, but also from those believers who, under God's directive, were accommodated in the Ark by Noah. It is significant that the Qur'an mentions post-Flood mankind as the 'offspring of those whom We carried along with Noah' (al-Isra 17: 3) and the 'offspring of Adam and those whom We carried along with Noah' (Maryam 19: 58). It does not refer to them simply as 'the offspring of Noah'.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :42 اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ، پھر ایک طرف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے ۔ یہاں صرف تنور کے ابل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ مگر سورہ قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ۔ ” ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے جن سے لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا ۔ نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنےسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نامزد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہوگیا ، سورہ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :43 یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ ۔ غالبا یہ دو ہی شخص تھے ۔ ایک حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے ۔ دوسری حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی جس کا ذکر سورہ تحریم میں آیا ہے ۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :44 اس سے ان مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرہ نسب حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں ۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا ( ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ٦ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹ ) ۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے خاندان کے سوا ان کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی ، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا ۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوح علیہ السلام کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا ، ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ( بنی اسرائیل آیت ۳ ) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ( مریم ، آیت ۵۸ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: عربی زبان میں ’’ تنور‘‘ سطح زمین کو بھی کہتے ہیں، اور روٹی پکانے کے چولہے کو بھی۔ بعض روایات میں ہے کہ طوفان نوح کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی کہ ایک تنور سے پانی ابلنا شروع ہوا، اور پھر کسی طرح نہ رکا۔ اور بعض مفسرین نے تنور کو سطح زمین کے معنی میں لیا ہے اور مطلب یہ بتایا ہے کہ زمین کی سطح سے پانی ابلنا شروع ہوگیا، اور پھر ساری زمین میں پھیل گیا۔ اور اوپر سے تیز بارش شروع ہوگئی،۔ 22: چونکہ طوفان میں وہ جانور بھی ہلاک ہونے والے تھے جن کی انسانوں کو ضرورت پڑتی ہے، اس لئے حکم دیا گیا کہ کشتی میں ضرورت کے تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرلو، تاکہ ان کی نسل باقی رہے اور طوفان کے بعد ان سے کام لیا جاسکے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٠۔ جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنانے سے فارغ ہوگئے اور تنور ابل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ جو جو جانور انسان کی زندگی میں فائدہ دینے والے ہیں یا جن کا باقی رکھنا دنیا میں منظور تھا ان کا ایک ایک جوڑا اور بعضوں نے درختوں کو بھی لکھا ہے کہ ان کے لینے کا بھی حکم ہوا تھا اور بعضوں کا قول ہے کہ جب کشتی میں گدھا چڑھنے لگا تو شیطان نے اس کی دم پکڑ لی وہ چڑھ نہ سکا کئی دفعہ کوشش کی اٹھا بیٹھا آخر حضرت نوح (علیہ السلام) نے گدھا سے کہا کہ شیطان کشتی کے اندر آجا اس لئے گدھا معہ ابلیس کے کشتی میں داخل ہوگیا بعضوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کشتی والوں نے یہ کہا کہ یہاں شیر بھی ہے چار پائے کیوں کر امن سے رہیں گے اس واسطے خدا نے شیر کو بخار میں مبتلا کردیا اور پہلے دنیا میں تپ اسی سے شروع ہوئی۔ اس سے پہلے بخار کا نام و نشان بھی نہ تھا پھر لوگوں نے کہا کہ یہ چوہے کھانے پینے کی چیزوں کا نقصان کردیں گے خدا کا حکم ہوا شیر کو چھینک آئی اور ایک بلی پیدا ہوئی جس کو دیکھ کر چوہے دبک گئے۔ تنور کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے۔ ١ ؎ لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریر نے تنور کے مشہور معنے کو ترجیح دی ہے۔ ٢ ؎ یہ تنور نوح (علیہ السلام) کے گھر میں تھا اور اس میں سے پانی کا ابلنا طوفان کی نشانی ٹھہرا تھا حاصل یہ ہے کہ زمین و آسمان ہر جگہ سے پانی نکلا۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ جو روایت مشہور ہے کہ ابلیس بھی کشتی میں داخل ہوگیا تھا کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ اس کا جسم ناری یا ہوائی ہے پانی سے اس کو بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے اور آیت سے بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر ہے پھر فرمایا کہ اپنے رشتہ داروں زن و فرزند کو بھی ساتھ لے لو مگر ان میں سے اپنی بیوی کنعان کی ماں اور کنعان کو اور کنعان کی بیوی کو ساتھ نہ لینا کیوں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے اپنی قوم کے دین پر تھے اس واسطے ان کے حق میں ظلم تھا کہ یہ ڈوب جاویں گے پھر فرمایا کہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں تمہاری قوم میں سے ان کو بھی اپنے ساتھ لے لو اور یہ لوگ جو ایمان لائے تھے بہت ہی کم لوگ تھے قتادہ کہتے ہیں کہ یہ آٹھ آدمی تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اسی آدمی تھے اور یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ جب یہ لوگ کشتی سے اترے تھے تو ایک بستی بسائی جس کا نام قریتہ الثمانین رکھا گیا یہ بستی اب تک موصل کے اطراف میں موجود ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن مجھ کو امید ہے کہ اور انبیاء سے میرے پیرو زیادہ ہوں گے۔ ٣ ؎ اس حدیث کو { وما امن معہ الا قلیل } کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تمام امتوں میں سے تھوڑے لوگوں کا ایمان لانا کچھ نوح (علیہ السلام) پر منحصر نہیں ہے بلکہ قیامت کے دن خاتم النبین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور سب انبیاء کے پیرو تھوڑے ہوں گے لیکن امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاہیے کہ وہ ریاکاری اور بدعت میں گرفتار ہو کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس امید میں خلل نہ ڈالیں کیوں کہ مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے محمود بن لبید (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے دکھاوے کے عمل کو چھوٹا شرک فرمایا ہے۔ ٤ ؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ پورے مشرک لوگ ظاہر میں سوا اللہ کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور ریا کار لوگ اگرچہ بظاہر اللہ کی عبادت کرتے ہیں لیکن ان کی نیت میں دنیا کے دکھاوے کا میل ہوتا ہے اور یہی چھوٹا شرک ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر سند شرعی کے جو عمل دین میں نکالا جاوے گا وہ بدعت ہے اور ایسا بدعت کا عمل نامقبول ہے۔ ٥ ؎ ان حدیثوں سے معلوم ہوگیا کہ دین کے جس کام میں دنیا کے دکھاوے یا بدعت کا دخل ہوگا اس عمل سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی میں ضرور خلل پڑے گا۔ جس خلل سے اللہ کے رسول کی اس امید میں بھی ضرور خلل پڑجاوے گا جس امید کا ذکر اوپر گزرا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٥ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیر ابن جمیر ص ٤٠ ج ١٢۔ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ٨٦ ج ١ باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ومشکوٰۃ ص ٥١١۔ ٥١٢ باب فضائل سید المرسلین۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ٤١ باب الریا والسمعۃ۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٧ باب الاعتصلا بالکتاب والسنتہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:40) فار۔ ماضی واحدمذکر غائب باب نصر۔ فور فئور اور فوران مصادر اس نے جوش مارا۔ وہ ابل پڑا۔ زوجین اثنین۔ دو زوج۔ یعنی ایک نر اور ایک مادہ۔ زوج جوڑے کے ہر فرد کو کہتے ہیں۔ عورت کو بھی زوج کہا جاتا ہے اور مرد کو بھی۔ اس لئے جب زوجین (تثنیہ) ہوگا تو اس سے جوڑے کے دونوں فرد نر اور مادہ ہوں گے۔ اہلک۔ تیرے گھر والے۔ تیرے گھر کے لوگ۔ اہل مضاف ک ضمیر واحد مذکر حاضر مضاف الیہ۔ جب فعل استعمال ہو تو بمعنی اس نے ہلاک کیا۔ اس نے غارت کیا۔ کے ہوں گے۔ ومن امن کا عطف اہلک پر ہے اور وہ بھی جو ایمان لائے ہوئے ہیں۔ الا حرف استثناء ہے۔ من سبق علیہ القول منی۔ مستثنیٰ ۔ ماسوائے ان کے جن پر پہلے ہی حکم (ان کے غارت ہونے کا) جاری ہوچکا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ تنور (بروزن تفعول) تھا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے گھر میں، طوفان کا نشان بتا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشتی میں سوار ہوجائو۔ (موضح 9 جمہور مفسرین (رح) نے تنور سے یہی عام تنور مراد لیا ہے۔ لیکن حسب تفسیر ابن عباس (رض) ” تنور “ سے مراد روئے زمین ہے یعنی ساری زمین چشمہ آب بن گئی اور پانی ابلنے لگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ و فجرنا الارض عیونا (القمر 12) ۔ حتیٰ کہ تنورجو آگ کی جگہ ہوتے ہیں، پانی کے فوارے بن گئے۔ (ابن کثیر۔ روح) امرنا سے مراد عذاب کا حکم ہے کہ آسمان سے موسلا دھار پانی برسنے لگا اور زمین سے چشموں کی طرح پانی ابلنا شروع ہوگیا دونوں طبقے مل گئے اور زمین غرقاب ہوگئی۔ (ت۔ ن) 1 ۔ موضح میں ہے یعنی ہر جانور کا ایک جوڑا۔ (جیسا کہ ” اثنین “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے) رکھ لیا کشتی میں جس کی نسل رہنی مقدر تھی۔ (کذافی الروح) ۔ 2 ۔ یعنی ان کی بیوی جس کا ذکر سورة تحریم میں آیا ہے اور ان کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ذکر آرہا ہے۔ 3 ۔ وہی جن کو قوم نے رزالے کہا۔ قرآن و حدیث میں ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 40 تا 47 فار (جوش مارا) تنور (روٹیاں بنانے کے لئے وہ گڑھا جس میں آگ جلتی ہے) احمل (سوار ہوجا) زوجین (زوج) ، جوڑے اثنین (دودو) اھل (گھر والے) سبق (گذر گیا، فیصلہ ہوگیا) ارکبوا (سوار ہو جائو) مجری (چلنا) مرسی (ٹھہرنا، (ارساء سے بنا ہے) جبال (جبل) ، پہاڑ نادی (آواز دی) معزل (کنارہ) بینی (اے میرے بچے ) ساوی (میں پناہ لے لوں گا) یعصمنی (وہ مجھے بچا لے گا) عاصم (بچانے والا ) حال (آڑے آگیا) ابلعی (تونگل لے، پی جا) اقلعی (تورک جا، تھم جا) غیض الماء (پانی اترتا چلا گیا) قضی (فیصلہ کردیا گیا) استوت (برابر ہوگئی، ٹھہر گئی) جودی (جودی پہاڑ) بعداً (دور ہونا) لاتسئلن (تو مجھ سے سوال نہ کر) اعظ (میں نصیحت کرتا ہوں) اسئل (میں سوال کرتا ہوں) الا تغفرلی (اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا) ترحمنی (تو نے رحم (ن 2) کیا) تشریح :- آیت نمبر 40 تا 47 حضرت نوح کی تبلیغ و ہدایت کی طویل جدوجہد اور عظیم ایثار و قربانی اور دوسری طرف پوری قوم کی ضد، ہٹ دھرمی، کفر و شرک اور اللہ و رسول کی اطاعت سے مسلسل انکار تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں عبرت و نصیحت کے لاتعداد پہلو پوشیدہ ہیں۔ حضرت نوح نے ساڑھے نو سو سال تک جس صبر وت حمل اور برداشت سے پوری قوم کو اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف لانے کی کوشش کی اتنی ہی ان کی قوم نے نافرمانیوں کی انتہا کردی اور عذاب الٰہی تک کا مطالبہ کر بیٹھی جب حضرت نوح اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ جن لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال ہونا تھا وہ سعادت حاصل کرچکے ہیں اور بقیہ لوگ جسم کے اس گلے سڑے حصے کی طرح بن چکے ہیں جس کو کاٹ کر پھینک دینا ہی سارے جسم کی صحت و عافیت اور سلامتی کا ذریعہ ہے تو حضرت نوح نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ الٰہی اب آپ اس نافرمان قوم کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیجیے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے شر اور کفر سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی دعا قبول کر کے ارشاد فرمایا کہ اب ہمارا فیصلہ آنے والا ہے۔ اے نوح ! آپ ان تمام اہل ایمان کے لئے جنہوں نے ایمان قبول کرلیا ہے ہماری ہدایت کی روشنی میں ایک ایسی کشتی تیار کیجیے جس میں ان کو اور خشکی کے نر و مادہ جانوروں میں سے ایک ایک جوڑے کو لے کر آپ بیٹھ سکیں۔ فیصلے کے مطابق بقیہ پوری ظالم قوم کو پانی کے طوفان میں غرق کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ چناچہ حضرت نوح نے دن رات لگ کر ایک ایسی ہی کشتی تیار کرنا شروع کردی۔ کفار و مشرکین اس بات کا ہر طرح مذاق اڑاتے کہ کیا اب خشکی پر بھی جہاز اور کشتیاں چلیں گی ؟ حضرت نوح ان کے استھزاء اور مذاق کے جواب میں صبر و تحمل سے کام لیتے آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا اور تنور سے جس میں روٹیاں پکانے کے لئے آگ جلائی جاتی ہے اس سے فوارے کی طرح پانی ابلنا شروع ہوگیا زمین کو پھڑا دیا گیا اور اس میں سے ہر طرح کے چشمے ہی چشمے پھوٹ پڑے۔ آسمان کے دروازے اس طرح کھول دیئے گئے کہ مسلسل اور تیز بارش نے طوفانی انداز اختیار کرلیا۔ لوگوں نے پہاڑوں کی طرف دوڑنا شروع کردیا تاکہ اپنے آپ کو بچا سکیں۔ ادھر کشتی نوح جس میں ایک روایت کے مطابق کل اسی (80) مسلمان مرد و عورت اور بچے تھے اور خشکی کے جانور جن کے نر و مادہ کو ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا بقیہ کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ جیسے جیسے پانی نے طوفانی صورت اختیار کی کشتی نوح نے پانی پر تیرنا شروع کردیا۔ پہاڑ جیسی کشتی (جہاز) جب پانی پر محفوظ طریقفہ پر رواں دواں تھی ، اس وقت حضرت نوح کی نظر اپنے بیٹے کنعان پر پڑگئی جو اپنے آپ کو بچانے کے لئے پہاڑ کی طرف دوڑ رہا تھا حضرت نوح نے اس کو آواز دے کر کہا کہ بیٹے تم ایمان لا کر اور کفر کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جائو۔ کنعان نے جواب دیا کہ مجھے آپ کی کشتی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے آپ کو بچا لوں گا۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ بیٹا آج کے دن اللہ کے فیصلے سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ البتہ اگر وہ اپنا رحم و کرم نازل فرما دے تو اور بات ہے۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ ایک پہاڑ جیسی موج نے بیٹے کو باپ سے جدا کردیا اور بیٹا پانی میں غوطے کھانے لگا۔ حضرت نوح نے اللہ کی بارگاہ میں درخواست پیش کی۔ الٰہی آپ نے تو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میرے گھر والوں کو بچالیں گے۔ یہ میرا بیٹا ہے اس کو بھی بچا لیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح یہ تیرے خاندان سے اس لئے نہیں ہے کہ اس کے اعمال صحیح نہیں ہیں اور اے نوح اس کے بعد ہماری بارگاہ میں ایسی درخواست پیش نہ کرنا جس کی حقیقت سے تم واقف نہ ہو۔ حضرت نوح جو ایک باپ کی حیثیت سے اپنی محبت کا اظہار فرما رہے تھے اس ارشاد کے بعد فوراً ہی اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے اور توبہ و استغفار شروع کردی اور عرض کیا الٰہی ! اگر آپ نے میری اس بھول کو معاف نہ کیا تو میں سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ جب پوری قوم نوح پانی کے اس شدید طوفان کی نذر ہوگئی اور پوری قوم کو غرق کردیا گیا تو اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین پانی کو نگل لے۔ بادلوں کو تھم جانے کا حکم دیا۔ کشتی نوح آہستہ آہستہ عراق کے شہر موصل میں واقع ” جو دی پہاڑی “ پر رک گئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم قوم اور ان کی ترقیات کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا اور اہل ایمان کو نجات عطا فرما دی۔ آپ نے حضرت نوح کے اس واقعہ کو ملاحظہ کیا۔ اب چند باتوں کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے تاکہ اس مضمون کے باقی پہلو بھی سامنے آسکیں۔ 1) کشتی نوح : پہاڑ جیسی کشتی جو موجودہ دور میں ایک چھوٹے جہاز کی طرح تھی اس میں کافی گنجائش تھی۔ حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے تمام اہل ایمان کو پانی کے شدید طوفان آنے سے پہلے حکم دیا کہ وہ اس کشتی پر سوار ہوجائیں اور خشکی پر بسنے والے جان داروں میں سے ایک ایک نر اور مادہ کو ساتھ رکھ لیں تاکہ نسل انسانی کے ساتھ جانوروں کی نسلیں بھی باقی رہیں۔ پانی کے جانوروں کے لئے یہ حکم اس لئے نہیں تھا کہ وہ پانی میں زندہ رہ کر اپنے وجود کو بچا سکتے ہیں۔ اس کشتی میں ایک روایت کے مطابق اسی (80) اہل ایمان تھے اور ایک رویات یہ بھی ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ بہرحال اس دور کی معلوم دنیا کے تمام ہی لوگوں کو پانی کے اس طوفان میں غرق کردیا گیا تھا۔ اس موقع پر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ تاریخی طور پر اس کا ثوبت ہے یا نہیں کیونکہ جب اللہ نے فرما دیا تو ہمارا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ قوم نوح پر پانی کا اتنا شدید عذاب آیا تھا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ تلاش کرنے والوں کو بھی پناہ نہ مل کسی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابھی انسان کو ساری ترقیات کے باوجود اپنے پاؤں کے نیچے بچھے ہوئے ذرات کی پوری حقیقت کا علم نہیں ہے۔ اگر ان کو پورا علم ہوتا تو وہ تحقیقات کے نام پر کھنڈرات کی اینٹوں سے اور پتھروں سے مدد کیوں لیتے۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی ارشاد فرمایا ہے وہ سچ ہے آج انسان کو اس کی حقیقت کا علم نہیں ہے لیکن جب پوری تحقیق کے بعد معلومات حاصل کرلی جائیں گی تو وہ قرآن کریم کی تردید نہیں بلکہ تائید ہی کریں گی۔ 2) روایات کے مطابق کشتی نوح رجب المرجب کی کسی تاریخ کو رواں دواں ہوئی اور اس پر اہل ایمان سوار ہوئے اور چھ مہینے تک یہ کشتی پانی پر تیرتی رہی۔ جب یہ کشتی اس مقام پر پہنچی جہاں بیت اللہ شریف ہے تو اس کشتی نے اس کے گرد سات چکر لگائے۔ پھر دس (10) محرم کو یہ طوفان مکمل طور پر ختم ہوا اور ” جودی “ پہاڑ پر یہ کشتی ٹھہر گئی۔ بعض روایات کے مطابق عراق کے ایک شہر موصل میں ” جودی “ پہاڑی ہے جس پر یہ کشتی جا کر رک گئی۔ حضرت نوح نے اس دن روزہ رکھا اور تمام اہل ایمان کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 3) حضرت نوح بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں اور آپ نے ساڑھے نو سو سال تک نہایت صبر و تحمل سے اللہ کا دین ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش فرمائی۔ مگر بہت کم لوگوں نے ایمان قبول کیا ۔ یہاں تک کہ حضرت نوح کی بیوی اور آپ کے بیٹے نے بھی کفر سے توبہ نہیں کیا اور اسی پر وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ : 1) انبیاء کرام کا اور ان لوگوں کا جواب کے طریقوں پر چلنے والے ہیں ان کا کام اللہ کا دین پہنچاتا ہے زبردستی کرنا نہیں ہے کیونکہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اگر اکراہ اور زبردستی ہوتی تو حضرت ابراہیم کے والد آذر، حضرت نوح کا بیٹا اور بیوی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب یہ سب مسلمان ہوتے لیکن ان سب کا خاتمہ کفر پر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی نبی نے پیغام الٰہی کے پہچانے میں کمی نہیں فرمائی کسی طرح کی زبردستی بھی نہیں کی۔ یہی دین اسلام کی روح ہے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ کفار و مشرکین اور گناہ پرستوں کی صحبت اتنی بری چیز ہے کہ وہ انسان کو بہت سی عظمتوں سے محروم کردیتی ہے۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے اور اس کے اپنے گھر میں جو اللہ کی رحمت کا دریا بہہ رہا تھا وہ اس سے محروم رہا۔ اسی لئے علماء نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کو سب سے پہلے اپنے بچوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرنی چاہئے اور بری صحبتوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ بری صحبتوں میں بیٹھ کر خاندان کا نام بدنام نہ کریں۔ باقی تقدیر الٰہی کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ حضرت نوح نے اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کو ہر ممکن نصیحت فرمائی مگر بری صحبتوں نے ان کو ایمان کے بجائے کفر کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام دینی معاملات کا دار و مدار ایمان عمل صالح اور تقویٰ پر ہے۔ خاندان ، نسب اور کسی بڑے باپ کی اولاد ہونے پر نہیں ہے۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاتون جنت حضرت فاطمہ (اور ملت اسلامیہ کی ہر بیٹی) سے فرمایا کہ اے فاطمہ تم یہ مت سمجھنا کہ تم بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو اس لئے تمہاری نجات ہوگی۔ بلکہ تمہاری نجات بھی تمہارے اعمال صالحہ کی وجہ سے ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں عذاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کرچکے تو اللہ کے غضب کا آغاز ہوا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے زوردار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے۔ جگہ جگہ زمین کو پھاڑ کر چشمے جاری کردیئے یہاں تک کہ زمین اور آسمان کا پانی مل کر طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ( القمر : ١١۔ ١٢) اس کے ساتھ ہی اللہ کے حکم کے ساتھ تنور پھٹ گیا التنور کے مفسرین نے کئی معانی کیے ہیں۔ کچھ مفسرین نے صحابہ کرام (رض) کے حوالے سے لکھا کہ التنور سے مرادسطح زمین ہے جو مختلف مقامات سے پھٹی اور جگہ، جگہ چشمے جاری ہوگئے۔ بعض نے لکھا کہ التنور سے مراد اس بستی کا کوئی خاص مقام ہے۔ جس کی پہلے سے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نشاندہی کردی گئی تھی کہ جب التنور پھٹ جائے تو اپنے ایماندار ساتھیوں اور ہر جاندار کے دو دو جوڑے کشتی میں بٹھانا شروع کرنا۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ التنور سے مراد یہی تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں ” اللہ اعلم “ ممکن ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب اس انداز میں نازل ہوا ہو کہ التنور میں بھڑکنے والے انگارے پانی کے بلبلے بن چکے ہوں۔ کیونکہ اگر قوم لوط پر نامزد پتھروں کی بارش ہوسکتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے دہکتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ تو التنور کے شعلے پانی کے بلبلے کیوں نہیں بن سکتے ؟ بہرکیف جوں ہی زمین و آسمان کے پانی نے مل کر بےپناہ طوفان کی ابتدائی شکل اختیار کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا اور اپنے اہل کو بیڑے میں سوار کرلو۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرمادی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے نہایت ہی تھوڑے لوگ تھے تاکہ آئندہ نسلوں کو معلوم ہو کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل ترین کوشش کے باوجود لوگوں نے کفر و شرک نہیں چھوڑا تھا۔ جس بنا پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور قوم نوح کو غرقاب کردیا گیا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ) [ رواہ البخاری : باب من لم یرق ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک روز نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا ‘ مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا ‘ اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے ‘ جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا ‘ جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا ‘ شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا ‘ آپ دیکھیں تو میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا ‘ یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں ‘ جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو عذاب کی نشانی سے آگاہ کردیا تھا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو ، دو سوار کرنے کا حکم ملا تھا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے۔ ٤۔ عذاب کی ابتدا تنور سے ہوئی تھی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور جب مقررہ وقت آجاتا ہے۔ وہ لمحہ جس کا انتظار تھا تو پھر اس کا منظر کچھ اس طرح ہے : یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ نوح نے کہا سوار ہوجاؤ اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اسکا ٹھہرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔ یہ تنور کس طرح جوش میں آیا ؟ بعض اقوال ایسے ہیں جو تخیلات پر مبنی ہونے کی وجہ سے بہت دور کے نظر آتے ہیں اور بعض کے اندر اسرائیلیات کی بو آتی ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم بغیر کسی راہنمائی کے غیر آباد وادیوں میں گھومنے کے قائل نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم جو خبریں دیتا ہے وہ عالم الغیب کی خبریں ہیں اور اس سلسلے میں اسی حد پر جا کر رک جانا چاہیے ، جس کی تصریح قرآن کریم کرتا ہے اور مدلول نص پر مزید کوئی حاشیہ آرائی نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ تنور سے فوارہ چھوٹنا ، خصوصاً چلتے ہوئے تنور سے ، یوں ہوسکتا ہے کہ تنور سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑے یا اس کے اندر آتش فشانی کا عمل شروع ہوجائے اور یہ کہ یہ حضرت نوح کے لیے عذاب الہی اور خطرے کی آخری گھنٹی کے طور پر اللہ نے مقرر کیا تھا یا اللہ کے عذاب کی آمد کا یہ ایک حصہ تھا۔ اور بیک وقت زمین سے پانی ابلنا شروع ہوگیا اور آسمان سے موسلا دھار بارش برسنا شروع ہوگئی۔ جب یہ واقعات شروع ہوئے تو اللہ نے حکم دیا کہ : قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ : " ہم نے کہا ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو "۔ عملی نظام کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت نوح کو ہر مرحلے کے لیے اپنے وقت پر احکام دیے جائیں۔ پہلے کہا کہ تم کشتی بناؤ تو وہ بنانے لگ گئے اور وہاں سیاق کلام میں یہ نہ بتا دیا گیا کہ یہ حکم کیوں دیا جا رہا ہے اور یہ بھی نہ کیا گیا کہ خود حضرت نوح کو اس کی اطلاع کردی گئی ہے۔ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ : " یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو "۔ اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کے لیے حکم دیا گیا : قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ : ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں اب زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ کے مفہوم میں بھی مفسرین کا اختلاف ہے۔ اور ان میں بھی زیادہ تر اختلاف ذوق ہے اور اسرائیلی رنگ ہے۔ اس لیے ہم اس آیت کے بارے میں بھی خیالی گھوڑے نہیں دوڑاتے کہ نوح نے کس قدر زندہ چیزوں کے جوڑے اپنے ساتھ لیے اور کن کے نہ لیے۔ یہ محض اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہے۔ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ : اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو سنت الہی کے مطابق مستحق عذاب ہوچکے ہیں۔ وَمَنْ اٰمَنَ " اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے " یعنی تمہارے اہل و عیال کے علاوہ جو لوگ ایمان لائے ہیں۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ: " اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ یوں اللہ کا حکم نافذ ہوا اور جن کو ہلاک ہونا تھا ، وہ ہلاک ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پانی کا طوفان ‘ کافروں کی غرقابی ‘ اور اہل ایمان کی نجات حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنا کر تیار کرلی پانی کا طوفان آنا تھا اس کی ابتداء ہوگئی ‘ اہل ایمان کو غرق ہونے سے بچانا تھا اور چوپائے اور درند پرند کی بھی نسلیں چلانی تھیں اور بعد میں دنیا بھی آباد ہونی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے نوح ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ جو لوگ اہل ایمان ہیں انہیں اور اپنے گھر والوں کو کشتی میں سوار کر دو ‘ ہاں تمہارے گھر والوں میں جن کا ڈوبنا قضاء وقدر میں طے ہوچکا ہے ان کو سوار مت کرو ‘ ان میں ان کا ایک لڑکا تھا جو ایمان نہیں لایا تھا اور ایک بیوی تھی وہ بھی ایمان نہیں لائی تھی ان دونوں کے کفر کی وجہ سے ان کے ڈوب جانے اور نجات نہ پانے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے فیصلہ ہوچکا تھا ‘ جو حضرات ایمان لائے تھے ان کی تعداد کم تھی یہ کتنے افراد تھے اس کے بارے میں متعدد اقوال ہیں جو کسی صحیح سند سے ثابت نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ اسی افراد تھے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے اور ان بیٹوں کی تینوں بیویاں تھیں حضرت نوح (علیہ السلام) کا ایک بیٹا جو کافر تھا اسے کشتی میں سوار نہیں کیا گیا۔ حضرت نوح کی بیوی کو سورة التحریم کے آخری رکوع میں کافروں میں شمار فرمایا اور یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ دوزخ میں داخل ہوگئی بعض حضرات نے یوں کہا ہے کہ ان کی دو بیویاں تھیں ایک مومنہ تھی اور دوسری کافرہ۔ کافرہ غرق ہوئی اور مومنہ کشتی میں سوار کرلی گئی تھی ‘ وہ بھی ڈوبنے سے محفوظ کرلی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ ظالموں (کافروں) کے بارے میں مجھ سے خطاب نہ کرنا۔ لہٰذا کافروں کے لئے سفارش کرنے اور نجات کی دعا کرنے کا موقع نہ تھا۔ بنی آدم اہل ایمان جو کشتی میں سوار ہوئے تھے ان کے علاوہ بحکم خدا وندی چرند اور پرند میں ایک ایک جوڑا بھی حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں سوار کرلیا تھا۔ پانی آیا جو پہلے تنور سے ابلنا شروع ہوا بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ تنور سے پانی ابلنا ابتدائے طوفان کی نشانی کے طور پر تھا حضرت نوح (علیہ السلام) کو بتادیا گیا تھا کہ جب تنور سے پانی ابلنے لگے تو سمجھ لو کہ اب طوفان کی ابتداء ہوگئی۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ سارا پانی تنور ہی سے نکلا کیونکہ سورة قمر میں رمایا (فَفَتَحْنَا اَبْوَاب السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلٰی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ) سو ہم نے خوب بہنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین سے چشمے جاری کردیے پھر پانی اس کام کے لیے مل گیا جو پہلے سے تجویز ہوچکا تھا۔ یعنی آسمان کا پانی اور زمین کا پانی دونوں مل گئے اور کفاروں کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا تھا پانی کی طغیانی کے ذریعے وہ فیصلہ پورا ہوگیا۔ یہ پانی بہت زیادہ تھا جس سے محفوظ رہنے کا اہل کفر کے لیے کوئی ذریعہ نہ تھا۔ سورة حاقہ میں فرمایا (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ لِنَجْعَلَھَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَھَا اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ) بیشک جب پانی میں طغیانی آگئی تو ہم نے تمہیں (یعنی تمہارے آبا و اجداد کو تم جن کی پشتوں میں تھے) کشتی میں سوار کردیا تاکہ اسے ہم تمہارے لیے نصیحت بنا دیں اور تاکہ اسے یاد کرنے والے کان یاد رکھیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے (یعنی اہل ایمان سے) فرمایا کہ کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا (یعنی اس کے چلنے کی ابتداء اللہ کے نام سے ہے اور اس کا ٹھہر جانا بھی اللہ ہی کے نام سے ہوگا) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ دوران طوفان جب حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی کو روکنا چاہتے تھے تو (بِسْمِ اللّٰہِ ) کہہ دیتے تھے اور جب چاہتے تھے کہ چل پڑے تو بِسْمِ اللّٰہِ کہہ دیتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا (فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ عَلَی الْفُلْکِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (سو جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر بیٹھ جائیں تو یوں کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی) اور دعا کی تلقین فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا (وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ ) (کہ دعا میں کہئے کہ اے رب مجھے برکت والی جگہ میں اتار اور تو بہترین اتارنے والوں میں سے ہے) کشتی سے اترتے وقت کیا دعا کریں اس کیلئے یہ دعا تلقین فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38: تنور سے یا اس کا حقیقی معنی مراد ہے یعنی روٹیاں پکانے کا تنور جیسا کہ جمہور کی رائے ہے والمراد من التنور تنور الخبز عندالجمھور (روح ج 12 ص 52) تنور سے پانی کا نکلنا طوفان کی علامت تھی۔ یا یہ غضب الٰہی کے جوش میں آنے سے کنایہ ہے۔ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ الخ۔ مستچنی کو مجمل رکھا اور اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی صراحت نہ کی تاکہ ان کا دل آزردہ نہ ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 یہاں تک کہ جب ہمارا حکم عذاب آ پہونچا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے اس وقت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہر قسم کے جانوروں میں سے نر مادہ کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلے اور اپنے گھر والوں کو بھی رسوا کرلے مگر ان کو رسوا نہ کرنا جن کی نسبت پہلے سے ہمارا حکم نافذ ہوچکا ہے اور ان کو رسوا کرلے جو ایمان لا چکے ہیں اور نوح (علیہ السلام) کے ساتھ بجز قلیل آدمیوں کے کوئی ایمان نہلایا تھا یعنی جب ہمارے عذاب کا حکم آ پہونچا اور طوفان شروع ہونے کی جو علامت مقرر تھی وہ ظاہر ہونی شروع ہوئی تو اس وقت ہم نے نوح سے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں میں سے جو کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہ رہ سکتے ہوں ان کا ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو عدد کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی باستشاء ان کے جن کے غرق ہونے کا حکم ہوچکا ہے یعنی اہل میں سے جو کافر ہیں ان کو سوارنہ کرنا اور دوسرے مسلمانوں کو بھی سوار کرلو۔ فارالتنور کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ہم نے عام معنی لے لئے ہیں بعض نے وجہ ارض کیا ہے یعنی ہر جگہ سے پانی ابلنے لگا اور آسمان سے پانی برسنا شروع ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر جانور کا جوڑا رکھ لیا کشتی میں جس کی نسل رہنی مقدر تھی اور گھر والوں میں سے جس پر بات پڑچکی ایک بیٹا کنعان اور اس کی ماں سو ڈوبے اور تین بیٹے بچے جن کی اولاد ساری خلقت ہے اور تنور تھا حضرت نوح (علیہ السلام) کے گھر میں طوفان کا نشان بنا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشتی میں سوار ہو جائو۔