Surat Hood

Surah: 11

Verse: 45

سورة هود

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۴۵﴾

And Noah called to his Lord and said, "My Lord, indeed my son is of my family; and indeed, Your promise is true; and You are the most just of judges!"

نوح ( علیہ السلام ) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے ، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Return to the Story of the Son of Nuh and mentioning what transpired between Nuh and Allah concerning Him Allah tells: وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ ... And Nuh called upon his Lord, This was a request for information and an inquiry from Nuh concerning the circumstances of his son's drowning. ... فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِي مِنْ أَهْلِي ... and said, "O my Lord! Verily, my son is of my family!" This means, "Verily, You promised to save my family and Your promise is the truth that does not fail. Therefore, how can he (my son) be drowned and You are the Most Just of the judges!" ... وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ And certainly, Your promise is true, and You are the Most Just of the judges."

نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب یاد رہے کہ یہ دعا حضرت نوح علیہ السلام کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میرے اہل میں سے تھا ۔ اور میری اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ تیرا وعدہ غلط ہو ۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کر دیا گیا ؟ جواب ملا کہ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا ، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا ۔ میں کہہ چکا تھا کہ ( وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ 27؀ ) 23- المؤمنون:27 ) یعنی تیرے اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے وہ بوجہ اپنے کفر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہو چکے تھے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل حضرت نوح علیہ السلام کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ کے بطن سے نہ تھا ۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا ۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ ابن عباس اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں یہی مطلب ہے کہ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں ۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے ۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ اپنے کسی نبی کے گھر میں زانیہ عورت دے ۔ خیال فرمائیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ اس کے عمل نیک نہ تھے عکرمہ فرماتے ہیں ایک قرأت ( آیت انہ عمل عملا غیر صالح ) ہے مسند کی حدیث میں ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46؀ ) 11-ھود:46 ) پڑھتے سنا ہے اور ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) پڑھتے سنا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ ( آیت فخانتا ھما ) کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد زنا نہیں بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے ۔ اور حضرت لوط کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کر دیتی ۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اس نے اسے حضرت نوح کا لڑکا فرمادیا ہے ۔ پس وہ یقیناً حضرت نوح کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا ۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے ( ونادی نوح نبنہ ) اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ایسا ہی حضرت مجاہد سے مروی ہے ۔ اور یہی ابن جریر کا پسندیدہ ہے ۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی اور بعض کہتے ہیں کہ انھیں یہ خیال تھا کہ شاید یہ مسلمان ہوجائے گا، اس لئے اس کے بارے میں یہ استدعا کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ ۔۔ : تمام کفار کے غرق ہونے کے بعد باپ کی شفقت نے جوش مارا تو نوح (علیہ السلام) نے بیٹے کے بارے میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ نوح (علیہ السلام) کے اہل کو بچانے کا تھا، اس وعدے کے حوالے سے درخواست کی۔ وہ اہل سے نسبی اور رشتہ داری کے گھر والے سمجھ بیٹھے، جب کہ کافر اور مومن کے درمیان دوستی کا رشتہ باقی نہیں رہتا۔ ایمان لانے کے بعد سب مومن دوست اور سب کافر دشمن بن جاتے ہیں۔ دیکھیے سورة ممتحنہ (٤) بہرحال نوح (علیہ السلام) نے ادب ملحوظ رکھا اور صریح الفاظ میں بیٹے کو بچانے کی بات نہیں کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The remaining account of the flood associated with the name of Sayyidna Nuh along with instructions related to it, appears in the five verses cited above. When Canaan, the son of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) did not board the ark despite the counsel and call of his esteemed father who was still concerned emotionally as he saw his son surrounded by the waves of the flood. His filial love knocked at another door. He turned to his Lord and prayed to Him on the basis of His promise that He would save his family from the flood, and that His promise was true. But, conditions were alarming and his son who was part of his family was going to be swallowed by the flood. The only court of appeal he could now go to was the court of the most just of judges for everything was in His pow¬er and control and that He could still save him from the flood.

خلاصہ تفسیر اور ( جب) نوح ( علیہ السلام) نے کنعان کو ایمان لانے کے لئے فرمایا اور اس نے نہ مانا تو اس کے غرق ہونے کے قبل انہوں) نے ( اس امید پر کہ شاید حق تعالیٰ اپنی قدرت سے اس کے دل میں ایمان القاء فرما دے اور ایمان لے آوے) اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا ( یہ) وعدہ بالکل سچا ہے ( کہ گھر والوں میں جو ایمان والے ہیں ان کو بچا لوں گا) اور ( گویہ سر دست ایمان والا اور مستحق نجات نہیں ہے لیکن) آپ احکم الحاکمین ( اور بڑی قدرت والے) ہیں ( اگر آپ چاہیں تو اس کو مومن بنادیں تاکہ یہ بھی اس وعدہ حقہ کا محل بن جائے، خلاصہ معروض کا دعا تھی اس کے مومن ہوجانے کے لئے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نوح یہ شخص ( ہمارے علم ازلی میں) تمہارے ( ان) گھر والوں میں نہیں ( جو ایمان لا کر نجات پاویں گے یعنی اس کی قسمت میں ایمان نہیں بلکہ) یہ ( خاتمہ تک) تباہ کر ( یعنی کافر رہنے والا) ہے سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں ( یعنی ایسے امر محتمل کی دعا مت کرو) میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ، نوح نے عرض کیا کہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ( آئندہ) آپ سے ایسے امر کی درخواست کروں جس کی مجھ کو خبر نہ ہو اور ( گذشتہ معاف کردیجئے کیونکہ) اگر آپ میری مغفرت نہ فرماویں گے اور مجھ پر رحم نہ فرماویں گے تو میں تو بالکل تباہ ہی ہوجاوں گا ( جب جودی پر کشتی ٹھہرنے کے چند روز بعد پانی بالکل اتر گیا اس وقت نوح (علیہ السلام) سے) کہا گیا ( یعنی اللہ تعالیٰ نے خود یا کسی فرشتہ کے ذریعہ سے ارشاد فرمایا) کہ اے نوح ( اب جودی پر سے زمین پر) اترو ہماری طرف سے سلام اور برکتیں لے کر جو تم پر نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر کہ تمہارے ساتھ ہیں ( کیونکہ ساتھ والے سب مسلمان تھے اور اس علت کے اشتراک سے قیامت تک کے مسلمانوں پر بھی سلام و برکات کا نزول معلوم ہوگیا) اور ( چونکہ یہ کلام بعد والے مسلمانوں پر بھی برکات کے نازل ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور بعد والوں میں بعضے کافر بھی ہوں گے اس لئے ان کا حال بھی بیان فرماتے ہیں کہ) بہت سی ایسی ہماری طرف سے سزا سخت واقع ہوگی، یہ قصہ ( آپ کے اعتبار سے) منجلمہ اخبار غیب کے ہے جس کو ہم وحی کے ذریعہ سے آپ کو پہنچاتے ہیں اس ( قصہ) کو اس ( ہمارے بتلانے) کے قبل نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم ( جانتی تھی، اس اعتبار سے غیب تھا اور بجز وحی کے دوسرے سب اسباب علم کے یقینا مفقود ہیں پس ثابت ہوگیا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور یہی نبوت ہے لیکن یہ لوگ بعد ثبوت نبوت کے بھی آپ کی مخالفت کرتے ہیں) سو صبر کیجئے (جیسا اس قصہ میں نوح (علیہ السلام) کا صبر آپ کو معلوم ہوا ہے) یقینا نیک انجامی متقیوں ہی کے لئے ہے ( جیسا نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں معلوم ہوا کہ کفار کا انجام برا اور مسلمانوں کا انجام اچھا ہوا اسی طرح ان کفار کا چند روزہ زور شور ہے پھر اخیر میں غلبہ حق ہی کو ہوگا ) معارف و مسائل سورة ہود کی مذکورہ پانچ آیتوں میں طوفان نوح (علیہ السلام) کا باقی قصہ اور اس سے متعلق ہدایات مذکور ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کنعان جب والد بزرگوار کی نصیحت اور دعوت کے بادجود کشتی میں سوار نہ ہوا تو اس کو موج طوفان میں مبتلا دیکھ کر شفقت پدری نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے گھر والوں کو طوفان سے بچائیں گے اور بلاشبہ آپ کا وعدہ حق و صحیح ہے، مگر صورت حال یہ ہے کہ میرا بیٹا جو میرے گھر والوں میں داخل ہے وہ طوفان کی نذر ہو رہا ہے اور آپ تو احکم الحاکمین ہیں ہر چیز آپ کی قدرت میں ہے، اب بھی اس کو طوفان سے بچا سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَہْلِيْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ۝ ٤٥ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ابن نوح (علیہ السلام) کا مفہوم قول باری ہے ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنبی من اھلی ۔ نوح نے اپنے رب کا پکارا ۔ کہا اے رب ! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے۔ حضرت (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو اپنے اہل میں شمار کیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنے اہل کے لیے تہائی مال کی وصیت کر جائے، یہ تہائی مال ان تمام افراد کو مل جائے گا جو اس کے عیال میں شامل ہوں گے خواہ وہ اس کا بیٹا ہو، یا بھائی یا بیوی یا کوئی غیر رشتہ دار اجنبی ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے جب کہ قیاس کا تقاضا تھا کہ یہ وصیت صرف اس کی بیوی کے لیے خاص ہوجاتی لیکن یہاں استحسان کی صورت اختیار کر کے اس وصیت کو ان تمام افراد کے لی جاری کردیا گیا جو وصیت کرنے والے کے مکان میں رہتے ہوں اور اس کے عیال میں داخل ہوں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قول اس پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا ہے ولقد نادانا نوح فلنعم المجیبون ونجیناہ واھلہ من الکوب العظیم اور ہم کو نوح (علیہ السلام) نے پکارا اور ہم خوب فریاد سننے والے ہیں اور ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو بڑے بھاری غم سے نجات دی ۔ اس طرح ان تمام افراد کو جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے مکان میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کے اہل کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ ” میرابیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے “ اس پر مبنی تھا کہ تو نے میرے گھر والوں کو بچا لینے کا وعدہ فرمایا تھا اس میں میرا بیٹا بھی شامل تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا کہ تمہارا یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں تھا جنہیں بچا لینے کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ قول باری ہے انہ عمل غیر صالح وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ آیت کے معنی کے سلسلے میں ایک قول ہے ذو عمل غیر صالح وہ غیر صالح عمل والا تھا یہ اندازہ کلام صفت میں مبالغہ پر محمول ہوتا ہے جس طرح خنساء کا یہ شعر ہے۔ ؎ ترقع ما رتعت حتی اذا ادکوت فانماھی اقبال وادبار یہ چرتی رہتی ہے جب تک چاہتی ہے یہاں تک کہ جب اسے یاد آ جاتا ہے تو پھر یہ اقبال و ادبار یعنی سامنے سے نمودار ہونے اور پھر مڑ جانے کی صورت اختیار کرلیتی ہے یعنی پھر یہ سامنے سے آنے وای اور مڑ کر واپس جانے والی یا دوسرے الفاظ میں مقبلہ اور مدبرہ بن جاتی ہے اس کی رفتار اور حرکت انتہائی تیز ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور ابراہیم سے مروی ہے کہ سوالک ھذا عمل غیر صالح تمہارا یہ سوال ایک غیر صالح فعل ہے۔ کسائی نے اس کی قرأت عمل غیر صالح کی صورت میں کی ہے یعنی عمل کے لفظ کو فعل کی صورت میں اور غیر کے لفظ کو زبر کے ساتھ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا سگا بیٹا تھا اس لیے کہ قول باری ہے ونادی نوح ابنہ اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو آواز دی ۔ انہوں نے قول باری انہ لیس من اھلک کی تفسیر میں فرمایا۔ انہ لیس من اھل دینک وہ تمہارے اہل دین میں سے نہیں تھا۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا صلبی بیٹا تھا۔ وہ حرام زادہ تھا ۔ حسن کا قول ہے کہ وہ منافق تھا زبان سے ایمان کا اظہار کرتا تھا لیکن دل میں کفرچھپائے ہوئے تھا۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا بیٹا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کشتی میں سوارہو جانے کے لیے کہتے رہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرما دیا تھا کہ اس میں کوئی کافر سوار ہونے نہ پائے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا یہ بیٹا تھا تو منافق لیکن زبان سے ایمان کا اظہار کرتا تھا۔ ایک قول کے مطابق آپ نے اسے ایمان لانے کی شرط پر کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی گویا یوں فرمایا تھا ۔ ایمان لے آئو اور پھر ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا اے میرے رب میرا بیٹا کنعان میرے گھر والوں میں سے ہے جن کو نجات دینے کا آپ نے وعدہ فرمایا اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں (کیوں کہ یہ فی الحال ایمان دار نہیں، آپ ایمان کی توفیق عطا فرما سکتے ہیں) آپ نے مجھے بچانے اور میرے گھر والوں میں سے جو مومن ہوں ان کے بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ ) پروردگار ! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو میرے اہل کو بچا لے گا جبکہ میرا بیٹا تو میری آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. Noah (peace be on him) reminds God of His promise to spare his family. Since his son was quite obviously part of his family. Noah requests of God that he be spared. 48. Noah (peace be on him) acknowledges that God's judgement is final; that it is one against which there can be no appeal. Moreover, God's judgement is also based on absolute knowledge and perfect justice.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :47 یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا ، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے ، لہٰذا اسے بھی بچالے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :48 یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں ۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کام انصاف کے ساتھ کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: یعنی آپ کو ہر چیز پر قدرت ہے، اگر چاہیں تو اسے ایمان کی توفیق دے دیں، اور پھر ایمان والوں کے حق میں آپ کا جو وعدہ ہے وہ اس کے حق میں بھی پورا ہوجائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ ٤٧۔ جب نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا کہ اے رب یہ کنعان میرا بیٹا ہے میرے اہل میں سے ہے اور تو نے وعدہ کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ کشتی میں اپنی اہل کو بھی ساتھ لے لو اور تیرا وعدہ سچا ہوا کرتا ہے پھر یہ کیوں کر ڈوب گیا تو بڑا انصاف والا ہے حکم ہوا کہ اللہ نے تو ان لوگوں کے لئے وعدہ کیا تھا جو ایمان لائیں یہ لڑکا تو انہیں لوگوں میں تھا جن کے حق میں کہا گیا تھا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے اور آخر کو ڈوب جاویں گے تمہیں مناسب نہیں ہے کہ جس بات کو نہ جانتے ہو اس کا سوال کرو مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف تمہیں سوال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خلاف مرضی سوال کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ پھر نوح (علیہ السلام) نے بہت جلد خدا سے پناہ چاہی کہ میں ایسی بات پوچھوں جس کا علم مجھے نہ ہو۔ اگر تو اس قصور کو جو لاعلمی میں مجھ سے ہوا نہ بخشے گا تو میں اپنے عمل میں بہت گھاٹے میں رہوں گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے { انہ عمل غیر صالح } کے ایک اور معنے بھی بیان کئے ہیں کہ یہ نوح (علیہ السلام) کی طرف خدا کا اشارہ تھا کہ یہ سوال کرنا تمہارا ایسا عمل ہے جو قبول کرنے کے لائق نہیں ہے۔ خدا کے یہاں اہل سے مراد قرابت دین ہے قرابت نسب نہیں بیٹا تمہارا اگرچہ تمہارا نطفہ ہے مگر جب خدا کے دین پر نہیں ہے تو قرابت کا اس سے کیا لگاؤ باقی رہا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو عذاب الٰہی سے بچنے کی کوشش کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ خلاف مرضی الٰہی میں تم لوگوں کی قیامت کے دن کچھ مدد نہیں کرسکتا ١ ؎ مشرک قرابت داروں کے حق میں مغفرت کی دعا کی ممانعت کی روایتیں سورت توبہ میں گزرچکی ہیں۔ صحدیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گزرچکی ہے کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کی نجات کی کوشش کریں گے مگر کارگر نہ ہوں گی ٢ ؎ ان روایتوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرک قرابت داروں کی نجات کی کوشش انتظام الٰہی کے برخلاف ہے۔ نوح (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کنعان کے شرک کا تفصیلی حال معلوم نہ تھا کیوں کہ وہ نوح (علیہ السلام) کے روبرو کچھ منافقوں کی سی باتیں کرتا تھا اس لئے نوح (علیہ السلام) نے اس کی نجات کی درخواست اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں کی اور اللہ تعالیٰ نے نصیحت کے طور پر اس درخواست کا یہ جواب دیا کہ اے نوح تم کو کنعان کے عملوں کا حال معلوم نہیں ہے وہ در پردہ مشرک تھا اس واسطے نہ اس کی نجات ممکن ہے نہ تم کو نامعلوم معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے درخواست مناسب ہے اس پر نوح (علیہ السلام) نے اپنی حالت لاعلمی کی خطا کی معافی چاہی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ خطاف معاف کردی۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٧٠٢ ج ٢ باب قولہ وانذر عشیر تک الاقربین۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٣ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ خلاصہ معروض کا دعا تھی اس کے مومن ہونے کے لیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیٹے کی غرقابی کے وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کی بےساختہ اللہ تعالیٰ سے فریاد۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو بار بار سمجھایا کہ جان پدر کلمہ پڑھو اور کفار کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ ہم رکاب ہوجاؤ۔ لیکن بیٹے نے عظیم باپ کی ایک نہ مانی اور پانی میں ڈبکیاں لیتے ہوئے جان دے دی۔ جب یہ کربناک منظر بوڑھے باپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پدرانہ شفقت جوش میں آئی اور بےساختہ اپنے رب کی بارگاہ میں فریاد کناں ہوئے کہ اے میرے رب آپ نے ازراہ کرم میرے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ میں آپ کے اہل کو بچالوں گا۔ آپ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوا کرتا ہے اور وعدہ پورا کرنے پر آپ ہر اعتبار سے قادر ہیں۔ کیونکہ آپ حاکموں کے حاکم اور آپ کا حکم ہی غالب آیا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پرجلال انداز میں فرمایا کہ اے نوح ! تیرا بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کا عقیدہ اور اعمال اچھے نہیں۔ میں تجھے کو نصیحت کرتا ہوں اب کے بعد میرے حضور یہ درخواست نہ کرنا۔ ورنہ تم جاہلوں میں شمار کیے جاؤگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنتے ہی نوح (علیہ السلام) کانپ اٹھے اور اپنے رب کے حضور نہایت عاجزانہ انداز میں استدعا کی کہ میرے رب ! میں آپ کی حفظ وامان چاہتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ میں آئندہ ہرگز ایسا سوال نہیں کروں گا جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو۔ بس مجھے معاف کیجیے مجھ پر رحم فرمائیے۔ اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں نقصان پانے والوں میں ہوں گا۔ اس فرمان میں چارباتیں عیاں ہوتی ہیں۔ ١۔ پیغمبر بھی مشرک اور کافر کے بارے میں بخشش کی دعا نہیں کرسکتا خواہ وہ اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ٢۔ پیغمبر کسی کو بچانا چاہے بھی تو نہیں بچاسکتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو نہ بچائے۔ ٣۔ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے حکم کا سب سے زیادہ پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے طے شدہ ضابطے کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ بیشک اسے پہلے سے اس ضابطے کا علم نہ ہو۔ ٤۔ پیغمبر سے انجانے میں لغزش ہوجائے تو بھی اپنے رب سے استغفار کرتا اور پناہ مانگتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّمَا لَمْ اَعْمَلْ ) [ رواہ مسلم : باب التعوذ من شرما عمل ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ ! میں اپنے کردہ اور ناکردہ اعمال کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ مومنوں کی دعا : (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ )[ البقرۃ : ٢٨٦] ” اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما۔ ‘ ‘ مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں کا حاکم ہے۔ ٤۔ صالح عمل کرنے والے لوگ ہی انبیاء (علیہ السلام) کے اہل ہوتے ہیں۔ ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہر بات کا علم نہ تھا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے انبیاء (علیہ السلام) بھی دم نہیں مارسکتے۔ ٧۔ بےعلمی میں اگر کوئی بات سرزد ہوجائے تو پھر بھی اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔ ٨۔ جسے اللہ معاف نہ کرے اور رحم نہ فرمائے وہ خائب و خاسر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وعدہ سچا ہوتا ہے : ١۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ حاکموں کا حاکم ہے۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ اللہ کا فرمان سچ ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (القصص : ١٣) ٤۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (الروم : ٦) ٥۔ صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : ٦٠) ٦۔ اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (فاطر : ٥) ٧۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بات کرنے میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے ؟ (النساء : ١٢٢) ٨۔ خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : ٥٥) ٩۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا (ابراہیم : ٢٢) ١٠۔ وہ کہیں گے پاک ہے ہمارا رب یقیناً اسکا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب یہ مصیبت دور ہوجاتی ہے ، خوف کی حالت جاتی رہتی ہے اور کشتی جودی پہاڑ پر آ کر رک جاتی ہے تو اب ایک حقیقی والد کے دل میں درد اٹھتا ہے اور وہ غم زیادہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں کہ میرا بیٹا میرے خاندان میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے کہ میرے خاندان والوں کو بچایا جائے گا اور تو بہترین فیصلے کرنے والا ہے۔ تیرے فیصلے حکمت اور تدبیر پر مبنی ہوتے ہیں۔ حضرت نوح یہ بات اس لیے فرما رہے تھے کہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے اور یہ وعدہ آپ کے اہل خاندان کی نجات کی بابت تھا۔ نیز حضرت نوح (علیہ السلام) یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ وعدے اور فیصلے کی بابت حکمت دریافت کریں۔ اس سوال کا جواب بہت ہی اہم۔ یہ حقیقت حضرت نوح کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی کہ اللہ کے ہاں نیک و بد کا جو معیار ہے اس میں خون اور رشتہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہاں نظریاتی قرابت داری کی اہمیت ہے۔ آپ کا یہ لڑکا مومن نہ تھا لہذا یہ آپ کے خاندان کا فرد نہ رہا۔ آپ تو نبی اور مومن اول ہیں اور یہ جواب نہایت ہی فیصلہ کن اور دو ٹوک انداز میں دیا گیا اور سخت تنبیہی اور باز پرسی کے انداز میں دیا گیا۔ جواب میں ارشاد ہوا : قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ڶ فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ : جواب میں ارشاد ہوا " اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔ دین اسلام کا یہ ایک عظیم اصول ہے۔ وہ سر رشتہ جس تک تمام تاریں پہنچتی ہیں وہ عقیدے کا سر رشتہ ہے۔ اسلام میں ایک فرد اور فرد کے درمیان اصل تعلق عقیدے کا ہے۔ یہاں نسب اور قرابت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43: حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ نداء طوفان تھم جانے کے بعد تھی یا جس وقت انہوں نے بیٹے کو غرق ہوتے دیکھا اسی وقت یہ نداء کی۔ یعنی اے اللہ ! میرا بیٹا تو میرے اہل بیت سے تھا جن کو طوفان سے بچانے کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا اور تیرا وعدہ بھی برحق ہے اس میں تخلف ناممکن ہے اور تو احکم الحاکمین اور مالک الملک ہے تیرے سامنے کسی کو دم مارنے کی کیا مجال ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے بیٹے کو مومن سمجھتے تھے اسی لیے یہ سوال کیا ورنہ یہ ناممکن ہے وہ دوسرے کافروں کی ہلاکت چاہیں مگر اپنے کافر بیٹے کی سلامتی کے متمنی ہوں۔ لانہ کانہ عندہ مومنا فی ظنہ ولم یک نوح یقول لربہ (اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ ) الا وذلک عندہ کذلک اذ محال ان یسال ھلاک الکفار ثم یسال فی انجاء بعضہم وکان ابنہ یسر الکفر ویظھر الایمان الخ (قرطبی ج 9 ص 45) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45 اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اے میرے پروردگار یہ میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں کا بڑا حاکم اور بڑی قدرت والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک عورت تو ہلاکت میں آچکی اب تو چاہے بیٹے کو ہلاکت میں گن یا نجات میں 12 خلاصہ ! یہ کہ کنعان کے بارے میں دو احتمال تھے یا تو نوح (علیہ السلام) اس کو مسلمان سمجھتے تھے یا مسلمان نہ سمجھتے تھے مگر اہل کے مستثنیٰ ہونے کو یہ سمجھتے ہوں کہ اہل کو نجات ہوگی خواہ وہ کوئی بھی ہو مسلمان سمجھتے تھے اور غرق کے بعد دعا کی تو محض تحقیق مطلوب تھی اور اگر مسلمان نہیں سمجھتے تھے تو پکار کا یہ مطلب ہوگا کہ اس کا غرق تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن تو چاہتا تو اس کو ایمان دے دیتا اور وہ بھی نجات پانے والوں میں سے ہوجاتا بہر حال جو کچھ فرمایا وہ ظاہر ہے کہ بیٹے کی بحث میں عرض کیا اور اصل معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی اس پر ارشاد ہوا۔