51. By relating the story of Noah's son, God has unequivocally and effectively made it clear that His justice is free from all biases, that His judgement is perfect and absolute. The Makkan unbelievers had entertained the illusion that God's wrath would not overtake them no matter how they behaved. They thought so because they happened to be the descendants of Abraham (peace be on him) and the devotees of a number of well-known gods and goddesses. In the past, Jews and Christians also entertained, as they still entertain, illusions of the same kind. In fact, there are also many deviant Muslims who place their reliance on false hopes. They believe that since they are descendants or devotees of some saints, the intercession of those saints will enable them to escape God's justice.
However, the Qur'an portrays how one of the great Prophets helplessly watches his own flesh and blood drown. In a state of severe emotional agitation, he piteously implores God to forgive his son. In response, God rebukes him. Thus, we see that even a person of a Prophet's ranking failed to salvage an iniquitous son.
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :50
اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے اندر روح ایمان کی کمی تھی ، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے ۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے ، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے ، وہ فورا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محص ایک جاہلیت کا جذبہ ہے ، تو وہ فورا اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے ۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :51
پسر نوح علیہ السلام کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے ۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں ، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں ۔ اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں ، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی ۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے ، لیکن دربار خداوندی سے الٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی ۔