Surat Hood

Surah: 11

Verse: 47

سورة هود

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡئَلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۴۷﴾

[Noah] said, "My Lord, I seek refuge in You from asking that of which I have no knowledge. And unless You forgive me and have mercy upon me, I will be among the losers."

نوح نے کہا میرے پالنہار میں تیری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا ، تو میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤنگا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh said: "O my Lord! I seek refuge with You from asking You that of which I have no knowledge. And unless You forgive me and have mercy on me, I would indeed be one of the losers."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 جب حضرت نوح (علیہ السلام) یہ بات جان گئے کہ ان کا سوال واقعہ کے مطابق نہیں تھا، تو فورا اس سے رجوع فرما لیا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت و مغفرت کے طالب ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] نوح کی اپنی غلطی پر مغفرت کی درخواست :۔ نوح آخر ایک انسان تھے اور جو سوال انہوں نے کیا بشری تقاضا سے مجبور ہو کر کیا تھا لہذا یہ اتنا بڑا گناہ معلوم نہیں ہوتا جس پر اس طرح سے عتاب نازل ہو مگر انبیاء کی تمام تر زندگی چونکہ امت کے لیے بطور نمونہ ہوتی ہے اسی لیے ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوتی ہے اور اس نمونہ کو پاک صاف بنایا جاتا ہے اور یہی عصمت انبیاء کا مفہوم ہے چناچہ نوح (علیہ السلام) کو جب اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی تو اپنی اس لغزش کا احساس کرکے کانپ اٹھے فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہوئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) شاید پدری محبت کی وجہ سے یہ سمجھ بیٹھے کہ بیٹا چاہے کافر ہو، گھر والوں میں شامل ہے اور اس کے لیے دعا کی جاسکتی ہے، لیکن جوں ہی اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبیہ کی کہ ایک کافر بیٹے کو نسبی قرابت کی بنا پر اپنا اہل سمجھنا صحیح نہیں ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ کے حضور اپنی غلطی پر معافی مانگی۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” نوح (علیہ السلام) نے توبہ کی، لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے، بندے کو کیا مقدور ہے ! اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر یہ نہ ہو۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the third verse (47) is the apology tendered by Sayyid¬na Nuh (علیہ السلام) . In gist, it is a return to Allah in submission and entreaty, a prayer for the protection of Allah, His forgiveness for past omissions, and a request for His mercy. From here we learn that, should one commit a mistake, let him not rely on his personal resolve to stay safe from it in the future. He should, rather, seek the protection of Allah Ta` ala and pray to Him that He is the One who can keep him safe from errors and sins.

تیسری آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے جو معذرت پیش ہوئی اس کا ذکر ہے، جس کا خلاصہ اللہ جل شانہ کی طرف رجوع والتجاء اور غلط کاموں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ لینے کی دعا اور پھر گزشتہ لغزش کی معافی اور مغفرت و رحمت کی درخواست ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان سے اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو آئندہ اس سے بچنے کیلئے تنہا اپنے عزم و ارادہ پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ سے پناہ اور یہ دعا مانگے کہ یا اللہ آپ ہی مجھے خطاؤں اور گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۝ ٠ ۭ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ وَتَرْحَمْنِيْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٤٧ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں اس امر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آئندہ ایسے شخص کی نجات کی درخواست کروں جس کے متعلق مجھے اطلاع نہ ہو۔ اگر آپ میری مغفرت نہ فرمائیں گے اور مجھ پر رحم نہ فرمائیں گے تو میں بالکل تباہ ہوجاؤں گا

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. By relating the story of Noah's son, God has unequivocally and effectively made it clear that His justice is free from all biases, that His judgement is perfect and absolute. The Makkan unbelievers had entertained the illusion that God's wrath would not overtake them no matter how they behaved. They thought so because they happened to be the descendants of Abraham (peace be on him) and the devotees of a number of well-known gods and goddesses. In the past, Jews and Christians also entertained, as they still entertain, illusions of the same kind. In fact, there are also many deviant Muslims who place their reliance on false hopes. They believe that since they are descendants or devotees of some saints, the intercession of those saints will enable them to escape God's justice. However, the Qur'an portrays how one of the great Prophets helplessly watches his own flesh and blood drown. In a state of severe emotional agitation, he piteously implores God to forgive his son. In response, God rebukes him. Thus, we see that even a person of a Prophet's ranking failed to salvage an iniquitous son.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :50 اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے اندر روح ایمان کی کمی تھی ، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے ۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے ، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے ، وہ فورا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محص ایک جاہلیت کا جذبہ ہے ، تو وہ فورا اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :51 پسر نوح علیہ السلام کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے ۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں ، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں ۔ اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں ، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی ۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے ، لیکن دربار خداوندی سے الٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) شاید پدری محبت کے تقاضے سے یہ سمجھ بیٹھے کہ بیٹا، چاہے وہ کافر ہو گھروالوں میں شامل ہے اور اس کے لئے دعا کی جاسکتی ہے لیکن جونہی اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ ایک کافر بیٹے کو نسبی قرابت کی بنا پر اپنا اہل سمجھنا صحیح نہیں ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ کے حضور اپنی غلطی پر معافی چاہی۔ (از وحیدی) ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت نوح ( علیہ السلام) نے توبہ کی لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندے کو کیا مقدور ہے ؟ اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کی رحمت نے حضرت نوح کو ڈھانپ لیا ، آپ کا دل مطمئن ہوگیا۔ آپ اور آپ کی نسل اور آپ کے ساتھی نجات پا گئے اور دوسرے لوگ نذر طوفان ہوگئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45: اصل حقیقت معلوم ہوجانے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بےمحل سوال پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور رحمت کی درخواست کی۔ وَاِلَّا اصل میں و ان لا تھا نون کو لام میں ادغام کردیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 نوح (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے پروردگار میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں آئندہ کسی ایس بات کی درخواست کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہ ہو اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں بڑے نقصان اٹھانے والوں اور زیاں کاروں میں سے ہوجائوں گا یعنی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ جس کی مجھ کو خبر نہ ہو وہ طلب کروں یا جس کی حقیقت معلوم نہ ہو ایسا سوال کروں میری مغفرت کردے اور رحم فرما اگر تو بخشش نہ فرمائے گا اور رحم نہیں کرے گا تو میں کہیں کا بھی نہ رہوں گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت نوح (علیہ السلام) نے توبہ کی لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہیں کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے بندے کیا مقدور ہے چاہئے کہ اس کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو۔