Surat Hood

Surah: 11

Verse: 49

سورة هود

تِلۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ ۚ مَا کُنۡتَ تَعۡلَمُہَاۤ اَنۡتَ وَ لَا قَوۡمُکَ مِنۡ قَبۡلِ ہٰذَا ؕ ۛ فَاصۡبِرۡ ؕ ۛ اِنَّ الۡعَاقِبَۃَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾  4

That is from the news of the unseen which We reveal to you, [O Muhammad]. You knew it not, neither you nor your people, before this. So be patient; indeed, the [best] outcome is for the righteous .

یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہیئے ( یقین مانیئے ) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Explanation of These Stories is a Proof of the Revelation of Allah to His Messenger Allah tells; تِلْكَ ... This is of the news, Allah, says to His Prophet concerning these stories and their like, ... مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ ... of the news of the Unseen, from the information of the unseen of the past. Allah revealed it to you (the Prophet ) in the way that it occurred, as if he witnessed it himself. ... نُوحِيهَا إِلَيْكَ ... which We reveal unto you; This means, "We teach it to you (Muhammad) as revelation from Us to you." ... مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـذَا ... neither you nor your people knew it before this. This means that neither you (Muhammad) nor anyone of your people, have any knowledge of this. This is so that no one who rejects you can say that you learned it from him. Rather, it was Allah Who informed you of it in conformity with the true situation (of the story), just as the Books of the Prophets who were before you testify to. Therefore, you should be patient with the rejection of your people and their harming you. For verily, We shall help you and surround you with Our aid. Then, We will make the (good) end for you and those who follow you in this life and the Hereafter. This is what We did with the Messengers when We helped them against their enemies. إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ امَنُوا Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe. (40:51) Allah also said, وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ And, verily, Our Word has gone forth of old for Our servants, the Messengers, that they verily, would be made triumphant. (37:171-172) Then, Allah says, ... فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ So be patient. Surely, the (good) end is for those who have Taqwa.

یہ تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی ہے قصہ نوح اور اسی قسم کے گذشتہ واقعات وہ ہیں جو تیرے سامنے نہیں ہوئے لیکن بذریعہ وحی کے ہم تجھے انکی خبر کر ہے ہیں اور تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول رہا ہے کہ گویا ان کے ہو نے کے وقت تو وہیں موجود تھا ۔ اس سے پہلے نہ تو تجھے ہی انکی کوئی خبر تھی نہ تیری قوم میں سے کوئی اور ان کا علم رکھتا تھا ۔ کہ کسی کو بھی گمان ہو کہ شاید تو نے اس سے سیکھ لیے ہوں پاس صاف بات ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے تجھے معلوم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں ۔ پس اب تجھے ان کے ستانے جھٹلانے پر صبر و برداشت کرنا چاہیے ہم تیری مدد پر ہیں تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دیں گے ، انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے ، یہی طریقہ اور پیغمبروں کا بھی رہا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ نبی سے خطاب ہے اور آپ سے علم غیب کی نفی کی جا رہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے ہم آپ کو خبردار کر رہے ہیں ورنہ آپ اور آپ کی قوم ان سے لا علم تھی۔ 49۔ 2 یعنی آپکی قوم آپ کی جو تکذیب کر رہی ہے اور آپ کو ایذائیں پہنچا رہی ہے، اس پر صبر سے کام لیجئے اس لئے کہ آپ کے مددگار ہیں اور حسن انجام آپ کے اور آپ کے پیرو کاروں کے لئے ہی ہے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہیں۔ عاقبت، دنیا و آخرت کے اچھے انجام کو کہتے ہیں۔ اس میں متقین کی بڑی بشارت ہے کہ ابتدا میں چاہے انھیں کتنا بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے، تاہم بالآخر اللہ کی مدد و نصرت اور حسن انجام کے وہی مستحق ہیں جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ المو من۔ 51) ' ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والو کی مدد، دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ 171؀ښ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ 172؀۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ 173؁) 37 ۔ الصافات :171 تا 172) اور البتہ وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صدر ہوچکا ہے کہ وہ مظفر منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] نوح (علیہ السلام) کا زمانہ آپ سے تقریباً چار ہزار سال پیشتر کا ہے اس دور کے مستند اور صحیح ترین حالات کی اطلاع دینا اللہ ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ اہل مکہ ان حالات سے مطلقاً بیخبر تھے گویا یہ نوح کا قصہ اس تفصیل سے بتادینا بھی آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔ [٥٥] یعنی بالآخر اچھا انجام اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا ہوا بلکہ ہر حق و باطل کے معرکہ میں، خواہ اس کا تعلق انبیاء سے ہو یا نہ ہو۔ بالآخر غلبہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے اور حق پرست ہی انجام کے لحاظ سے بہتر رہتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اخروی زندگی میں بہرحال اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی انجام بخیر ہوگا اور یہ دونوں مطلب درست ہیں گویا اس آیت میں آپ اور صحابہ کرام (رض) کو خوش خبری بھی دی گئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع ہی سے سب کچھ نہیں جانتے تھے، نہ آپ غیب دان تھے، ورنہ وحی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بعض لوگ ان تمام آیات کی تاویل کرتے ہیں جن میں ہے کہ اے نبی ! یہ غیب کی خبریں ہیں، ہم آپ کو سنا رہے ہیں، آپ نہ اس وقت وہاں تھے نہ آپ کو یہ باتیں معلوم تھیں، یہ ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائی ہیں۔ جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں وہ اس قسم کی آیات ” یہ غیب کی خبریں ہیں، اس سے پہلے آپ ان کو نہیں جانتے تھے “ کی تحریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خطاب دراصل امت کے لوگوں کو ہے کہ اے امت محمد کے لوگو ! تم یہ باتیں نہیں جانتے تھے، مگر ہماری اس زیر تفسیر آیت نے ان لوگوں کی اس تحریف کو واضح طور پر باطل ثابت کردیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ “ معلوم ہوا کہ ان تمام آیات سے بھی یہی مراد ہے کہ صرف قوم ہی نہیں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی غیب دان نہیں تھے۔ اگر غیب دان مانیں تو بار بار وحی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کا سارا واقعہ ان کے غیب دان ہونے کی نفی کرتا ہے، ورنہ اگر انھیں پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا تو ساڑھے نو سو سال کی محنت، اس دوران میں قوم کی بدتمیزیوں پر صبر، پھر وحی کے مطابق کشتی بنانا، پھر بیٹے کے حق میں دعا کرنا، اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا اور نوح (علیہ السلام) کا معافی مانگنا سب کچھ افسانہ ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اگر ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ آگ مجھے نہیں جلائے گی، اسماعیل (علیہ السلام) ذبح نہیں ہوں گے، یا سارہ[ کا کچھ نہیں بگڑے گا تو پھر ان کی جان و مال اور اولاد و آبرو اللہ کی راہ میں قربان کردینے کی بات بےمعنی ٹھہرتی ہے۔ بدر کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آہ وزاری اور افک یعنی عائشہ (رض) پر بہتان کے موقع پر پریشانی کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ رسولوں کو اتنی بات ہی معلوم ہوتی ہے جو وحی کے ذریعے سے انھیں بتائی جاتی ہے۔ فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ : ” عَاقِبَۃٌ“ ایک حالت کے بعد آنے والی حالت، اس پر الف لام آئے تو عموماً اچھا انجام مراد ہوتا ہے، یعنی جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا انجام بخیر رہا اور ان کے تمام مخالفین ہلاک کردیے گئے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انجام بھی دنیا و آخرت دونوں میں بہتر رہے گا اور آپ کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل و برباد ہوں گے اور آخرت میں بھی انھیں دوزخ کی آگ نصیب ہوگی۔ مسلمانوں کی تعداد کا کم ہونا اور مدت دراز تک اسلام کی دعوت کا کامیاب نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دعوت ناکام ہے، بلکہ مسلسل صبر اور دعوت کے نتیجے میں آخری کامیابی اہل اسلام ہی کو ملے گی، خواہ کچھ نسلیں گزرنے کے بعد ملے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے لاتعداد لشکر ہیں، مثلاً آگ، ہوا، پانی، پہاڑ اور بیشمار مخلوق۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو بھی اشارہ کر دے تو کافروں کا نام و نشان باقی نہیں رہ سکتا۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان ہمیشہ مغلوب و مقہور ہی رہیں گے، بلکہ مسلمان اگر صبر و استقامت سے کام لیں اور اپنی ہر مصیبت اور بےبسی کو صرف اللہ کریم کے سامنے پیش کرتے رہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے کہا : (اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) [ القمر : ١٠ ] ” بیشک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “ تو خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سال کی دعوت کا حاصل بہت ہی کم آدمی بارہ (١٢) یا چالیس (٤٠) یا اسّی (٨٠) آدمی نکلے، مگر نوح (علیہ السلام) اور اہل ایمان کی محنت ناکام نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی قوت کے ساتھ دنیا کو تہ و بالا کرکے ان قلیل لوگوں کو ایسی کامیابی عطا فرمائی کہ ان کے دشمنوں کا نام و نشان مٹ گیا اور یہ پوری زمین کے مالک بن گئے۔ بنی اسرائیل، موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ پڑھ لیجیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین سو تیرہ بےسرو سامان ساتھیوں کی ایک ہزار مسلح کفار کے مقابلے میں غیب سے فرشتے بھیج کر ایسی مدد کی کہ وہ دن فیصلہ کن دن بن گیا کہ آئندہ کسے غالب ہو کر رہنا ہے۔ غرض اللہ کا فیصلہ ہے کہ اچھا انجام متقین ہی کا ہے۔ (الوسیط) اس آیت میں ” تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ “ سے ” وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا “ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر احسان کا ذکر ہے، ” فَاصْبِرْ “ میں نصیحت ہے اور ” اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ “ میں تسلی اور خوش خبری ہے۔ اس واقعہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا حق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اُمّی ہونے کے باوجود نوح (علیہ السلام) کا واقعہ پورا پورا صحیح سنا دیا جو وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اگر کسی صالح آدمی کا بیٹا صالح نہ بن سکے تو باپ اس میں بےقصور ہے۔ نوح (علیہ السلام) جیسا مہربان اور کامل مربی بھی اگر بیٹے کو راہ راست پر نہ لاسکا تو ہماری تمہاری کیا حیثیت ہے ؟ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت پر صبر و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (قرطبی) قرآن مجید واقعات بیان کرتے وقت ان میں سے انھی حصوں کو نمایاں کرتا ہے جن سے کوئی نصیحت اور فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ ان کے وہ حصے جو اس مقصد سے خاص تعلق نہیں رکھتے انھیں چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً نوح (علیہ السلام) کی وہ کشتی کتنی مدت میں بنی، اس کا طول و عرض کیا تھا، اس میں سوار ہونے والے جانور کیسے جمع کیے گئے، اس میں کتنے کمرے تھے، کشتی کتنے دن پانی میں رہی، ” جودی “ پر کشتی سے اترنے کے بعد نوح (علیہ السلام) نے کہاں اقامت اختیار فرمائی اور طوفان کتنے دن زمین پر برپا رہا۔ رہے وہ قصے کہانیاں جو عام مشہور ہیں، وہ اکثر اسرائیلیات ہیں، جن کی شرع یا عقل سے تائید نہیں ہوتی۔ ایک مسئلہ جس پر بہت سے علماء نے بحث کی ہے، یہ بھی ہے کہ طوفان ساری زمین پر آیا تھا یا کچھ حصے پر ؟ تفسیر المنار کے مصنف نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ مصری کا فتویٰ نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان نوح (علیہ السلام) کی پوری قوم پر آیا تھا اور ان کے علاوہ اس وقت پوری زمین پر کوئی اور آباد نہ تھا، اس لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا، کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ پوری زمین قوم نوح سے بھری ہوئی تھی۔ یہ تاریخی مسائل قرآن کے مقاصد میں سے نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں کوئی وضاحت نہیں فرمائی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں قرآن کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اب اگر کسی علمی تحقیق سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس سے قرآن و حدیث کی کسی قطعی و صریح بات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ (الوسیط)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

To console the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it was said at the end of the verse that there were so many open proofs to the fact that he was a prophet and messenger of Allah. If there were some unfortunate hu¬man beings that see the sun yet insist that they do not, even challenge him and confront him, then, he should look at the role model of his predecessor, Sayyidna Nuh (علیہ السلام) ، peace on him. He spent one thousand years of his long life suffering from pain inflicted by his people. He remained patient. Let him stay as patient as he was - because, it stands determined that success will ultimately kiss the hands of those patient and God-fearing.

آخر آیت میں رسول کریم کی تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ آپ کی نبوت و رسالت پر آفتاب سے زیادہ روشن دلائل کے ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ بد بخت نہیں مانتے اور آپ سے جھگڑا کرتے ہیں تو آپ کو اپنے پہلے پیغمبر نوح (علیہ السلام) کا اسوہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے ایک ہزار سال کی طویل عمر ساری انہیں اذیتوں میں گزار دی، تو جس طرح انہوں نے صبر کیا آپ بھی ایسا ہی صبر سے کام لیں، کیونکہ یہ متعین ہے کہ انجام کار کامیابی متقی لوگوں کو ہی ملے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہَآ اِلَيْكَ۝ ٠ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۝ ٠ۭۛ فَاصْبِرْ۝ ٠ۭۛ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ ٤٩ ۧ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) یہ قصہ آپکو جو غیب سے خبریں دی جاتی ہیں ان میں سے ایک ہے جن کو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس جبریل امین کے ذریعے پچھلی امتوں کے واقعات کے سلسلہ میں پہنچاتے ہیں اور قرآن حکیم سے قبل ان گزشتہ قوموں کے واقعات کو نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپکی قوم سو آپ اپنی قوم کی ایذاء رسانی اور تکذیب پر صبر کیجیے یقیناً نیک انجامی بذریعہ نصرت اور جنت ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو کفر وشرک اور تمام فواحش سے بچنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ ) آپ ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جائیں۔ یقیناً انجام کار کی کامیابی اہل تقویٰ ہی کے لیے ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. The Prophet Muhammad (peace be on him) is consoled by the statement that in the same way that Noah (peace be on him) and his righteous people ultimately succeeded, so will he and his Companions. It is God's law that the opponents of the truth seem to achieve some measure of success in the beginning. But ultimate success is the lot of those who, out of their God-fearing, avoid all erroneous ways while seeking to serve the cause of the truth. The import of the story, therefore, is that the believers should not feel heart-broken by their ephemeral sufferings or the successes of their opponents. Instead, they should persevere, with courage and fortitude, in their struggle for the cause of the truth.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :53 یعنی جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا ، اسی طرح تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہوگا ۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداء کار میں دشمنان حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصد حق کے لیے کام کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اس آیت نے دو حقیقتوں کی طرف توجہ دِلائی ہے۔ ایک یہ کہ یہ واقعہ نہ صرف آپ کو بلکہ قریش اور عرب کے غیر اہلِ کتاب میں سے کسی کو پہلے معلوم نہیں تھا، اور آپ کے پاس اس کو اہلِ کتاب سے سیکھنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور رِسالت کی دلیل ملتی ہے۔ دوسرے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے جس تکذیب اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس واقعے کے ذریعے آپ کو اوّل تو صبر سے کام لینے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور دوسرے یہ تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کو شروع میں سخت مشکلات پیش آئیں، مگر آخر انجام انہی کے حق میں ہوا، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بالآخر ان لوگوں پر غالب آئیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کا قصہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تفصیل سے ذکر فرما کر اس آیت میں مشرکین مکہ اور اس زمانہ کے ہند اور چین اور فارس اور مصر کے مشرکوں کے قائل کرنے کو یہ فرمایا ہے کہ یہ قصہ اور اس طرح کے زمانہ گزشتہ کے اور قصے غیب کی خبریں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے جتلایا ہے جس کو اللہ تعالیٰ جتلاتا ہے اسی کو صحیح طور پر یہ قصے معلوم ہوتے ہیں دوسرے کو ان قصوں کا حال کیا معلوم ہوسکتا ہے مشرکین مکہ تو ان پڑھ لوگ ہیں اس طرح کی غیب کی خبروں کا ان لوگوں کا انکار کرنا تو محض سرکشی کے سبب سے ہے کچھ دنوں ان کی سرکشی پر اے اللہ کے رسول تم کو صبر کرنا چاہیے انجام کار یہی ہوگا کہ اللہ کے رسول تم کو اور تمہارے ساتھ جو اللہ سے ڈرنے والے پرہیز گار لوگ ہیں ان کو غلبہ ہوگا اور اللہ کی وحی اور غیب کی خبروں کے جھٹلانے والے یہ سرکش لوگ اخیر کو ذلیل ہوں گے رہے ہند اور فارس اور چین اور مصر کے اس زمانہ کے وہ مشرک لوگ جنہوں نے یا تو اپنی کتابوں میں طوفان نوح کا انکار لکھا ہے یا یہ لکھا ہے کہ شہر بابل اور اس کے اطراف میں یہ طوفان آیا تھا تمام دنیا میں نہیں آیا یہ لوگ بھی عرب کے اس زمانہ کے ان پڑھ لوگوں کی طرح اس قصہ کے حال سے بیخبر اور جاہل ہیں کیوں کہ نہ ان کی اتنی عمر ہے کہ انہوں نے اس قصہ کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہو نہ اس کے پاس اس زمانہ کی کوئی تاریخ کی صحیح کتاب ہے پھر ان لوگوں نے اپنی اٹکل کو ایک غیب کی بات میں جو لگایا ہے اس کو کیا اعتبار جس غیب دان کے حکم سے وہ طوفان دنیا میں آیا تھا صحیح قصہ اس طوفان کا وہی ہے جو اس غیب دان نے وحی کے ذریعہ سے اپنے رسول کو بتلایا ہے۔ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص مشرکین مکہ کی بتوں کی کچھ مذمت کرتا تھا۔ تو یہ مشرک لوگ اپنے بتوں کی حمایت میں اللہ تعالیٰ کی مذمت کرنے کو مستعد ہوجاتے تھے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی یہ حدیث بھی ایک جگہ گزرچکی ہے کہ اسلام کا غلبہ اور بت پرستوں کی ذلت جتانے کے لئے فتح مکہ کے وقت انہی بتوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر گرادیا ١ ؎ اور کوئی مشرک ان بتوں کی کچھ حمایت نہ کرسکا۔ سوہ انعام کی آیت { ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ (٦: ١٠٨)} اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے جس سے مشرکوں کی حد سے زیادہ سرکشی پر صبر کا موقع اور اس صبر کے اجر میں آخر اسلام کا جو کچھ غلبہ ہو اور حالت دونوں باتیں اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں اور اس طرح کی سچی پیشن گوئی سے قرآن کا کلام الٰہی ہونا اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سچا رسول ہونا اچھی طرح آدمی کے ذہن نشین ہوسکتا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٦ ج ٢ باب قولہ قل جاء المحق وزہق الباط الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں کا انجام بخیر ہو رہا اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انجام بھی دنیا و آخرت دونوں میں بہتر رہے گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل و برباد ہوں گے اور آخرت میں بھی انہیں دوزخ کی آگ نصیب ہوگی۔ (کذافی الروح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس اعتبار سے غیب تھا اور بجز وحی کے دوسرے سب اسباب علم کے یقینا مفقود ہیں پس ثابت ہوگیا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور یہی نبوت ہے لیکن یہ لوگ بعد ثبوت نبوت کے بھی آپ سے مخالفت کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ذکر کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکالیف پر صبر کرنے کا حکم۔ قرآن مجید مختلف الفاظ اور انداز میں موقع بہ موقع یہ وضاحت کرتا ہے کہ رسول کا مقام، حدود کار اور اس کے علم کی کیا حقیقت ہے۔ کفار اور مشرک انبیاء کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا یا اس کے پاس خدا کی خدائی میں سے کچھ اختیار ہونے چاہییں تھے۔ اسی بنا پر وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ آپ کے پاس دنیا کے خزانے ہونے چاہییں۔ ” فرما دیجیے میں اپنے نفع نقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو لوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ” فرما دیجئے میں تو اپنے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ ہر ایک امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب وہ آجاتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔ “ (یونس : ٤٩) کفار اور مشرک رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ باتیں کیا کرتے تھے۔ جس کی قرآن مجید متعدد مقامات پر نفی کرتا ہے۔ لیکن افسوس آج کے کچھ مسلمان انہی باتوں کو رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کے دائرہ میں لاکر آپ کے ذمہ لگاتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختار کل تھے۔ یعنی ہر چیز پر اختیار رکھنے والے تھے اور غیب کی باتیں جاننے والے تھے۔ پھر اس کی تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو ذاتی نہیں عطائی اختیار اور غیب کا علم تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اطہر سے یہ بات کہلوائی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خود اعلان فرمائیں۔” کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ “ (الاعراف : ١٨٨) جبکہ قرآن مجید بار بار اس بات کی نفی کرتا ہے کہ نبی ہو یا ولی، ملائکہ ہوں یا جنات کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ غیب کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ غیب سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز غیب یا پوشیدہ ہے۔ جب غیب کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ملائکہ، جنات اور انسان ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ میرے لیے غیب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ سورة الرعد آیت : ١٠ یہاں کھلے الفاظ میں آپ اور آپ کی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ اے رسول ! تم اور تمہاری قوم، نوح کے زمانے میں موجود تھے اور نہ ہی تم نے قوم نوح کا براہ راست خوفناک انجام دیکھا۔ یہ تو ہم آپ کے سامنے یہ واقعات بیان کرتے ہیں تاکہ آپ صبرو شکر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر آپ کے مخالف اپنے عقیدہ اور طرز زندگی سے باز نہ آئے تو ان کا انجام قوم نوح سے مختلف نہیں ہوگا۔ لہٰذا حوصلہ قائم رکھیں اور یاد رکھیں کہ انجام کار متقین کے حق میں ہوگا۔ ضیاء القرآن کے مفسرکا اعتراف : اگرچہ نوح (علیہ السلام) کے نام سے لوگ آگاہ تھے اور ان کے احوال کی بھی کچھ کچھ انہیں خبر تھی۔ لیکن وہ سب وہم و گمان کے تراشیدہ افسانے تھے۔ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا۔ اے میرے نبی ! تمہیں بھی ان کے صحیح حالات کا علم نہ تھا اور تیری قوم بھی جاہل اور اَن پڑھ تھی۔ اس غیب کو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی کے ذریعہ منکشف فرمایا۔ (ضیاء القرآن، جلد : ٢، ص ٣٦٦) مسائل ١۔ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) کو اسی چیز کا علم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے۔ ٣۔ مصائب و پریشانی میں صبر کرنا چاہیے۔ ٤۔ پرہیزگاروں کا بہتر انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (ھود : ٤٩) ٢۔ اللہ آسمان و زمین کے غائب کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٣٣) ٣۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام : ٥٩) ٤۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ اللہ حاضر اور غائب کو جاننے والا ہے۔ (الانعام : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آغاز سورت کے مقدمے اور پھر ان تمثیلات کے بعد نتیجہ یوں اخذ کیا جاتا ہے : تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ الخ : اے نبی یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو ، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔ یہ آخری تبصرہ یہ بتاتا ہے کہ قرآن مجید میں قصص قرآن لانے کے اہداف و مقاصد کیا ہیں : ٭ یہ کہ وحی منجانب اللہ ہے ، جس کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے اور ان قصص سے وحی کا ثبوت اس طرح ہوتا ہے کہ عربوں یا کسی اور اقوام کے پاس ان نصوص کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ یہ غائبانہ قصے ہیں اور اس سے قبل تمام لوگ جانتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان کا کوئی ذریعہ علم نہ تھا۔ یہ حکیم اور خبیر کی طرف سے وحی آرہی تھی۔ ٭ دوسرا مقصد ان قصوں کے لانے سیہ ہے کہ حضرت نوح جو انسانوں کے لیے آدم ثانی ہیں سے لے کر آج تک تمام انبیاء کا نظریہ اور عقیدہ ایک ہی رہا ہے ، تمام انبیاء کا عقیدہ بھی ایک رہا ہے اور الفاظ تعبیر بھی تقریبا ایک ہی رہے ہیں۔ ٭ان قصص سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام مکذبین کے اعتراضات بھی ایک ہی نوعیت کے رہے ہیں حالانکہ ان کے سامنے آیات و دلائل پیش کیے گئے اور باوجود اس کے کہ پیغمبروں کی تاریخ میں یہ اعتراضات بار بار باطل ثابت ہوچکے ہیں لیکن بار بار انہی کو دہرایا جاتا ہے۔ ٭ یہ حقیقت بتانا کہ رسول کس بات کی خوشخبری دیتے ہیں اور کس سے ڈراتے رہے ہیں اور آج حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انہی باتوں کے بارے میں بشارت اور ڈراوا دکھاتے ہیں اور یہ تاریخی شہادت ہے حضور اکرم کی سچائی پر ۔ ٭ اور یہ بتانا کہ اس کائنات میں وہ کیا سنت الہیہ ہے جو جاری وساری ہے اور وہ کسی کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں کرتی اور نہ اس میں کسی رشتہ داری کا لحاظ ہوتا ہے اور خلاصہ یہ کہ انجام متقی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ آخر کار سنت الہی کو کامیاب ہونا ہے۔ ٭ ان روابط کی حقیقت جو ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان اسلامی نظام میں پائے جائیں گے نیز ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان جو وجود میں آئیں گے یہ ہے کہ وہ صرف اسلامی عقیدہ ہے ، جو تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے ، جن کا الہ ایک ہے اور جن کا رب اور حاکم اللہ وحدہ ہے اور اس میں اس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی مقابل۔ ۔۔۔۔ اب طوفان نوح کے بارے میں چند سوالان ہیں ؟ پہلا سوال یہ ہے کہ آیا یہ طوفان پورے کرہ ارض پر تھا یا اس علاقے میں آیات تھا جس میں حضرت نوح مبعوث ہوئے تھے۔ یہ زمین کہاں تھی ، قدیم دنیا میں اس کے حدود کیا تھے اور جدید دنیا میں اس کی حدود کہاں تک ہیں۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب محض ظن اور تخمین سے دیا جاتا ہے اور ظن اور تخمین سے یقین اور سچائی کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ان سوالات کا جواب اسرائیلیات سے ملتا ہے۔ اور اسرائیلیات بذات خود ایک مشکوک ریکارڈ ہے۔ نیز قرآن کریم نے جن مقاصد کے لیے قصے بیان کیے ہیں ان مقاصد کے حوالے سے ان سوالات کے جوابات کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہے۔ البتہ قرآن کریم کے نصوص سے یہ اشارات ملتے ہیں کہ حضرت نوح کے زمانے میں تمام آبادی وہی تھی جس کی طرف حضرت نوح کو بھیجا گیا تھا اور حضرت نوح کی قوم جس علاقے میں آباد تھی۔ اس وقت انسانی آبادی اسی علاقے میں تھی اور طوفان نے اس تمام علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس میں انسان آباد تھے۔ اور اس طوفان کی زد سے وہی لوگ بچے تھے جو کشتی نوح میں سوار تھے۔ یہ عظیم کائناتی حادثہ جس کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں ، اطلاع دی جبکہ قرآن کریم کے واحد مصدقہ دستاویز ہے ، اور یہ عظیم حادثہ ہے بھی زمانہ ماقبل التاریخ کے دور کا۔ اس کے بارے میں انسانی تحریری تاریخ خاموش ہے۔ اس دور میں تو تاریخ کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ انسانی تاریخ تو دور جدید کی چیز ہے اور پھر تاریخ نے جو ریکارڈ تیار کیا ہے اس میں بھی غلطی کا پوا امکان ہے ، تاریخی واقعہ سچا بھی اور جھوٹا بھی ہوسکتا ہے۔ ان واقعات کو جرح و تعدیل کے عقلی اصول کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ اس بارے میں کسی اور ذریعہ سے پوچھا جائے جبکہ ایک سچے خبر دینے والے نے اس بارے میں اطلاع دے دی ہو۔ کیونکہ اگر ہم ایسے واقعات کے بارے میں کسی اور سے پوچھیں گے تو ہم الٹی گنگا بہائیں گے اور اس بات کو کوئی ایسی عقل تسلیم نہ کرے گی جس کے اندر دین کی حقیقت اچھی طرح بیٹھ چکی ہو۔ اس وقت دنیا میں جس قدر اقوام آباد ہیں ، ان کی قدیم ، پیچیدہ اور غیر مصدقہ لٹریچر میں بھی طوفان نوح کا ذکر ملتا ہے۔ ان تذکروں میں یہ کہا گیا ہے کہ قدیم زمانوں میں کسی وقت اس قسم کا ایک طوفان گزر ہے۔ اور یہ عظیم حادثہ ان اقوام کی نافرمانی اور جہالت کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ اور بنی اسرائیل کی مرتب کردہ کہانیوں میں جن کو وہ عہد قدیم کے نام سے پکارتے ہیں ، طوفان نوح کا تذکرہ موجود ہے ، لیکن قرآن کریم نے طوفان نوح کے بارے میں جو کچھ کہا اس کے ضمن میں ان اسرائیلی کہانیوں کا تذکرہ موزوں نہیں ہے۔ اور قرآن کریم کی سچی اور صاف کہانیوں کے ساتھ ان مجہول الاصل ، پیچیدہ افسانوں کو نہیں ملانا چاہیے ، جن کی پشت پر کوئی سند نہٰں ہے۔ اگرچہ ان تمام کہانیوں سے ایک حقیقت واضح ہوکر سامنے اتی ہے کہ ان اقوام کی سرزمین پر بھی طوفان آیا تھا یا یہ کہ اس طوفان سے کشتی نوح میں جو لوگ بچ گئے تھے اور ان کی اولاد جہاں جہاں بھی گئی تھی انہوں نے اپنے ساتھ ان یادوں کو سینہ بہ سینہ یہاں سے وہاں تک پھیلایا۔ یوں ان لوگوں نے جہان کے اطراف و اکناف میں پھیل کر زمین کو آباد کیا۔ یہاں یہ بات اچھی طرح نوٹ کرلینی چاہیے کہ جس دستاویز کو کتاب مقدس کا نام دیا جاتا ہے ، چاہے وہ یہودیوں کی کتابوں پر مشتمل عہد قدیم یا عیسائی لٹریچر پر مشتمل عہد جدید ہو ، ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ کی جانب سے نازل شدہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ تورات کا وہ نسخہ جو اللہ نے نازل فرمایا تھا ، اسے اہل بابل نے برباد کرکے اس کے اندر تحریف کردی تھی۔ اس دور میں جب انہوں نے تمام یہودیوں کو غلام بنا کر بابل منقتل کردیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کی آمد سے قریبا پانچ صدیاں پہلے تک عہد قدیم کتابی شکل میں بھی دوبارہ مرتب نہ کیا جاسکا۔ اسے عزرا کاہن نے مرتب کیا اور ممکن ہے کہ عزرا حضرت عزیر ہی ہوں انہوں نے تورات کے باقی ماندہ حصوں کو جمع کیا۔ تورات کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ان کی تالیف ہے۔ یہی حال اناجیل کا ہے۔ ان میں بھی وہی مضامین مذکور ہیں جو حضرت مسیح کے شاگردوں کے حافظے میں محفوظ رہے تے اور ان کو بھی تقریبا حضرت عیسیٰ کے اٹھائے جانے کے ایک صدی بعد لکھا گیا۔ اس کے بعد بھی ان میں بیشمار قصے کہانیاں اور افسانے جمع کردئیے گئے۔ چناچہ مسلمانوں کو ہدایت یہی ہے کہ وہ ان کتابوں کی کسی چیز کو بھی ہدایت نہ سمجھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قصے سے انسان کو کیا نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے اس میں عبرت کے کئی پہلو ہیں۔ صرف ایک ہی عبرت نہیں ہے۔ درج ذیل صفحات میں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے اور اس کے بعد پھر حضرت ہود کے قصے کی طرف بات چل نکلے گی۔ ۔۔۔۔ حضرت نوح کے قصے سے ان کی قوم کے جو خدوخال معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ لوگ انتہائی درجے کے جاہل ہیں۔ وہ باطل پر سخت اصرار کرتے ہیں اور حضرت نوح کی خالص دعوت کا مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی دعوت یہ تھی کہ ہمارا خالق اللہ واحد ہے اور تمام انسانوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اسی الہ واحد کی غلامی کریں اور اسے اپنا بادشاہ اور حاکم تصور کریں اور اللہ کے سوا کسی اور کو حاکم نہ سمجھیں۔ قوم نوح حضرت آدم کی اولاد سے تھی اور حضرت آدم کا قصہ اس سے قبل سورت اعراف میں مذکور ہوچکا ہے۔ اسی طرح سورت بقرہ میں بھی اس کا تذکرہ گزر چکا ہے۔ حضرت ادم کو جنت سے زمین پر اس لیے اتارا گیا تھا کہ وہ اس زمین پر فریضہ خلافت ادا کریں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جس کی تمام صلاحیتیں اللہ نے حضرت آدم کے اندر پیدا کی ہوئی تھیں۔ حضرت آدم سے جنت میں جو لغزش ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کے لیے ان کو تعلیم دے دی تھی۔ انہوں نے اللہ سے کچھ کلمات سیکھے اور ان کی ادائیگی کے بعد اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ اور اس کے بعد اللہ نے ان سے ان کی بیوی سے اور ان کی اولاد سے وعدہ لیا تھا کہ جب بھی اللہ کی طرف سے ان کے پاس کوئی رسول ہدایت لے کر آئے گا تو وہ اس پر ضرور ایمان لائیں گے۔ اور یہ کہ وہ شیطان کی پیروی نہ کریں گے کیونکہ شیطان خود ان کا دشمن ہے ، ان کی اولاد کا دشمن ہے اور قیامت تک کے لیے دشمن ہے۔ اب حضرت آدم جنت سے زمین پر ایک مسلمان کی حیثیت میں اترے ، اللہ کی ہدایات کی اطاعت کرتے ہوئے اترے اور اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت آدم نے نسلاً بعد نسل اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دینے کا انتظام فرمایا ہوگا۔ اور یہ کہ اسلام ہی وہ پہلا اور حقیقی نظریہ حیات ہے جو انسانیت نے سیکھا اور اسے سکھایا گیا۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) کے بالمقابل نہ کوئی دوسری نسل تھی اور نہ کوئی دوسرا عقیدہ تھا۔ اور جب حضرت آدم کے صدیوں بعد حضرت نوح تشریف لائے ، اگرچہ آج ہمارے پاس کوئی ذریعہ علم نہیں ہے کہ حضرت آدم کے کتنے عرصہ بعد حضرت نوح تشریف لائے تو اس عرصے میں آدم کی تمام اولاد نے اسلام کو ترک کرکے جاہلیت کا عقیدہ اختیار کرلیا تھا۔ اور اس جاہلیت کی تفصیلات اس قصے میں قرآن کریم نے دی ہیں۔ تو ہم یقینی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جاہلیت کی موجودہ بت پرستیوں ، دیومالائی کہانیوں ، خرافاتتی عقائد ، بت پرستیوں ، غلط تصورات اور غلط رسم و رواج کو انسان پر اس کے ماحول اور اس کی جاہلیت نے مسلط کی ہے اور انسان پہلے جادہ مستقیم پر تھا اور وہ شیطان لعین کی سعی نا مشکور کی وجہ سے گمراہ ہو کر جاہلیت کا پیرو بنا ہے۔ یہ گمراہی اس پر اس لیے مسلط ہوگئی کہ شیطان کی بیرونی مساعی کے ساتھ ساتھ خود نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے بعض کمزوریاں رکھ دی تھیں اور ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر شیطان نے انسان کو گمراہ کیا جو اللہ کا بھی دشمن ہے اور انسان کا بھی ازلی دشمن ہے اور شیطان انسان ہر اس وقت کامیاب حملہ کرتا ہے۔ جب انسان ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ کی ہدایت کو مضبوطی سے پکڑے نہیں رکھتا۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے کسی قدر اختیار بھی دیا۔ اور انسان کا یہ اختیار تمیزی ہی اس کے لیے سبب ابتلا ہے۔ اگر وہ اپنے اس اختیار تمیزی کو درست طور پر اختیار کرکے صرف اللہ کی رسی اور ہدایت کو مضبوطی سے پکڑ لے تو اس کے دشمن شیطان کا انسان پر کوئی داؤ نہ چلے گا۔ اور انسان کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اس ہدایت سے انحراف کرے اگرچہ وہ معمولی انحراف ہو اور جب انسان معمولی سا انحراف کرلے تو شیطان پھر اسے اسلام اور راہ مستقیم سے بہت ہی دور پھینکتا ہے۔ اور آخر کار اسے مکمل طور پر جاہلیت کا پیرو کار بنا دیتا ہے۔ جس طرح حضرت نوح کی قوم نے جاہلیت کو اختیار کیا۔ اور یہ عمل صدیوں کے تغیرات کے بعد مکمل ہوتا ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ یہ حقیقت کہ اسلام وہ عقیدہ ہے جس سے یہ دنیا سب سے پہلے متعارف ہوئی اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ الہہ ، حاکم ، مقتدر اعلی ، اور رب صرف اللہ وحدہ ہے ، ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ نام نہاد علماء ادیان اور ان کے درمیان تقابلی مطالعہ کرنے والوں کا یہ نظریہ کعقیدہ توحید درحقیقت ترقی کرتے کرتے اپنی موجودہ شکل کو پہنچا ہے اور اس موجود وہ شکل سے پہلے یہ مختلف ادوار سے گزرا ہے۔ محض ایک مفروضہ ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان لوگوں کے تصورات یہ ہیں کہ پہلے لوگ کئی راہوں کے قائل تھے۔ وہ طبیعی قوتوں وک الہ مانتے تھے ، پھر وہ ارواح کو الٰہ مانتے تھے ، پھر شمس و قمر اور مختلف ستاروں کو الٰہ مانتے تھے۔ ان لوگوں کے نظریات کی حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے ادیان کو لوگوں کے نفسیاتی ، سیاسی اور ماحول کے حالات سے وابستہ کرتے ہیں۔ اس طرح یہ تو درپردہ ادیان سماوی کا انکار کرتے ہیں اور یہ بات لوگوں کے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ دینی تصورات بھی مختلف مرحلوں سے گزر کر اپنے موجودہ مقام تک پہنچے ہیں اور ان تبدیلیوں اور ترقی میں زمانے کے ماحول کا دخل ہے۔ اس طرح یہ لوگ در اصل وحی الہی ، منصب رسالت کا انکار کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام ادیان اور ان کے بنیادی تصورات بھی انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور انسانی فکر کا شاخسانہ ہیں۔ اب ذرا ان لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیجئے جو ادیان سماوی کے بارے میں لکھتے ہیں اور جو ان مغربی اہل علم سے متاثر ہوتے ہیں چناچہ یہ لوگ اسی لغزش میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ مستشرقین کے وضع کردہ طریقے کے مطابق تحقیقات کرتے ہیں اور وہ لاشعوری طور پر اس غلطی میں پڑجاتے ہیں۔ جس میں ان کے اساتذہ مشتشرقین مبتلا ہوئے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس قسم کے مسلمان مصنفین اپنے زعم میں اسلام کی مدافعت کر رہے ہوتے ہیں اور اسلام کے حامی ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ لوگ اسلام کی بیخ کنی کرتے ہیں اور اسلام کے ان اصل نظریات اور اعتقادات کی نفی کرتے ہیں جن کا اثبات پورے قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ قرآن کریم نہایت ہی وضاحت کے ساتھ اور نہایت دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کو ثابت کرتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) مکمل اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد سے لے کر جنت سے زمین پر اترے تھے اور پھر صدیوں بعد حضرت نوح نے اولاد آدم کو اسی اسلام کی طرف دعوت دی جنہیں شیطان نے گمراہ کرکے بت پرستی میں مبتلا کردیا تھا۔ یہ عقائد و نظریات مکمل توحید پر مبنی تھے۔ اور حضرت نوح کے بعد دوبارہ یہ شیطانی چکر چلا اور اس نے پھر لوگوں کو جاہلیت کی طرف لوٹا دیا۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے رسول آتے رہے اور انسانیت وک پکڑ پکڑ کر پھر جادہ مستقیم پر ڈالتے رہے۔ اور توحید مطلق پر مبنی نظریہ حیات انہیں عطا کرتے رہے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ کتب سماوی کے اندر مذکور صحیح اعتقادات کے اندر کسی قسم کی تبدیلی یا ترقی ہوئی ہے۔ البتہ اگر کوئی ترقی اور تبدیلی ہوئی ہے تو وہ ان قانونی نظاموں میں ہوئی ہے جو مختلف اوقات میں اسلامی نظریہ حیات پر قائم ہوئے۔ اگر جاہلیت کے عقائد میں سے کسی عقیدے میں تغیر اور ترقی ہوئی ہے تو اس سے یہ بات کس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات میں بھی ارتقاء کا عمل ہوا ہے۔ اور جاہلیت کے عقائد میں بھی اگر کوئی ارتقائی عمل ہوا ہے تو وہ بھی اسلام کے حقیقی عقیدہ توحید کے اثرات کی وجہ سے ہوا ہے ، جو وقتاً فوقتاً نسلوں پر اثر انداز ہوتا ہے ہے باوجود اس کے کہ بعد کی نسلیں عقیدہ توحید سے منحرف ہوتی رہی ہیں لیکن وہ تدریجاً عقیدہ توحید کے قریب آتی رہی ہیں۔ رہا عقیدہ توحید اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تاریخ کا قدیم ترین عقیدہ ہے اور یہ تمام بت پرستانہ عقائد سے پہلے موجود تھا۔ جب سے حضرت آدم نے اسے پیش کیا ہے۔ اسی وقت سے یہ ہمیشہ اپنی اصل شکل میں موجود رہا ہے۔ اس لیے کہ عقیدہ توحید انسانی دماغ کا ایجاد کردہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ جب سے انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اسے عقیدہ توحید سکھایا ہے اسی وقت سے یہ عقیدہ موجود ہے اور اسی وقت سے اپنی اس شکل میں موجود ہے۔ یہ سچائی ہے اللہ کی طرف سے آئی ہے اور پہلے ہی دن سے اپنی مکمل شکل میں ہے۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کو قرآن ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسی حقیقت پر پورا اسلامی تصور حیات قائم ہے ، اس لیے کوئی مسلم محقق خصوصا وہ شخص جو اسلام کی مدافعت میں قلم اٹھاتا ہے ، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ ان خطوط کے علاوہ کسی اور لائن پر تحقیق کرسکتا ہے کیونکہ ادیان کے بارے میں اہل عرب کے ہاں جو تصورات پائے جائے تے ہیں وہ غلط ہیں اور ان کو ایک خاص مقصد کے لیے مدون کیا گیا ہے۔ یہاں فی ظلال القرآن میں ہم اس قسم کے غلط تصورات سے تفصیلی بحث کرسکتے ، کیونکہ اس کے لیے میری ایک مستقل کتاب زیر ترتیب ہے جس کا عنوان ہوگا " موجودہ دور میں فکر اسلامی میں ضروری تصحیحات "۔ البتہ یہاں ہم بطور مثال ایک موضوع کو پیش کرتے ہیں کہ بعض محققین کیا کہتے ہیں اور قرآن مجید کیا کہتا ہے۔ استاد عقاد اپنی " کتاب اللہ " میں لکھتے ہیں : انسان نے جس طرح علوم میں ترقی کی ہے اسی طرح عقائد میں ترقی کی ہے۔ اور جس طرح اس نے علوم میں ترقی کی ہے اسی طرح صنعتوں میں ترقی کی ہے۔ ابتدائی دور میں جس طرح اس کی زندگی تھی اسی طرح اس کے عقائد بھی تھے۔ یہی حالات اس کے علوم اور صنعتوں کی ہے۔ لہذا اس کے ابتدائی دور کے علوم اور صنعت اس کے ابتدائی دور کے ادیان اور عبادات سے زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے اندر حقیقت کے عناصر کسی اور کے اندر پائے جانے والے حقیقت کے عناصر سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ دین کے معاملے میں انسانی کاوشیں ، علوم اور صناعات کے مدین میں انسانی کاوشوں سے بہت زیادہ رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات کی عظیم سچائی تک پہنچنا بہت زیادہ مشکل کام ہے بمقابلہ ان متفرق اشیاء اور مفردات کی حقیقت تک رسائی کے ، جن تک رسائی محض علمی یا محض صنعتی مطلوب ہو۔ ذرا دیکھئے کہ سورج روز طلوع ہوتا ہے اور یہ اس کائنات کی ان چیزوں میں سے ہے جو بالکل ظاہر ہیں اور جسے انسانی جسم محسوس کرتا ہے اور ماضی قریب تک اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات یہ تھے کہ یہ سورج زمین کے ارد گرد پھرتا ہے اور علماء فلکیات سورج کی حرکات اور اس کے حالات کے بارے میں ایسی تفسیرات بیان کرتے تھے جس طرح پہیلیوں کی تشریح کی جاتی ہے یا محض تخیلات کو بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی شخص کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ سورج کا سرے سے انکار کردے۔ اس لیے کہ لوگوں کے سورج کے بارے میں جو خیالات تھے وہ تاریکیوں کے تہہ بہ تہہ پردوں میں تھے اور شاید اب بھی سورج کے بارے میں لوگ تاریک خیالی میں مبتلا ہوں۔ لہذا قدیم جاہلیت کے ادوار میں لوگوں کا اصول دین کی طرف رجوع کرنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دینداری کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا یہ کہ دین داری محالات پر طبع آزمائی کرتی ہے۔ مطالعہ ادیان سے جو بات معلوم وہتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے عظیم سچائی یکبارگی ظاہر نہیں ہوئی اور وہ کسی ایک ہی زمانے میں حقیقت کبریٰ کو نہیں سمجھ سکے۔ لوگ عظیم حقیقت کے سمجھ سکنے کے لیے زمانے گزرنے کے بعد تیار ہوئے اور اس راہ میں انہیں طویل راستے طے کرنے پڑے اور وہ مختلف اسالیب سے غور کرکے اس حقیقت تک پہنچے جیسا کہ وہ دوسرے چھوٹے حقائق بڑی صبر آزما جدوجہد کے بعد دریافت کیے۔ ادیان کے تقابلی مطالعہ مطالعہ کے موضوع نے بیشمار وہ حقائق غلط ثابت کرکے رکھ دئیے ہیں جن پر ابتدائی دور کے انسان ایمان لاتے تھے اور آج بھی دنیا کے پسماندہ قبائل میں ان لوگوں کے بقایا اور نمونے موجود ہیں بلکہ ان متمدن اقوام کے اندر بھی ایسے لوگ پائے جاتے جن کی تہذیب و تمدن کی خاصی طویل تاریخ ہے۔ علم تقابل ادیان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اور نہ یہ ممکن ہے کہ ابتدائی دور کے ادیان ان جہالتوں اور گمراہیوں سے خالی ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہی وہ معقول نتیجہ ہے جس کی توقع کسی بھی معقول انداز فکر سے کی جاسکتی ہے۔ اس اسلوب فکر کے اندر کوئی ایسی تعجب انگیز بات بھی نہیں ہے جسے کوئی اہل علم بعید از قیاس سمجھے یا دین کی حقیقت اور اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ اپنا لے۔ علمائے ادیان کے جو محققین اس تلاش میں ہیں کہ ابتدائی ادیان میں کوئی ایسی حقیقت بھی پائی جاتی تھی یا ان کے ہاں سچائی کا کوئی ایسا تصور بھی موجود تھا جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہو تو ایسے محققین محال کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس کتاب کے فصل " تصور خدا میں ارتقاء " میں وہ لکھتے ہیں : علماء تقابل ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ ابتدائی زمانے کی اقوام کے ہاں جو تصور دین تھا اس میں تصور خدا اور تصور رب تین مراحل سے گزرا۔ پہلے دور میں متعدد الٰہوں (Poly theism) اس کے بعد دوسرے دور میں لوگوں نے ان الٰہوں اور ارباب کے درمیان فرق و امتیاز کیا اور کسی کو کسی پر ترجیح (Heno theism) دی۔ اور سب سے آخر میں وحدانیت (Mono theism) کا دور آیا۔ تعداد ارباب کے ابتدائی دور میں دسیوں بلکہ سینکڑوں ارباب اور الہ تھے۔ اس دور میں ہر خاندان اور ہر قبیلے کا اپنا الہ ہوا کرتا تھا۔ یہ الہ یا تو بذات خود الہ تصور ہوتا تھا یا نائب الہ ہوتا اور لوگ اس کی پناہ مانگتے تھے اور یہ الہ قربانیاں اور عبادات قبول کرتا تھا۔ دوسرا دور جو دور تمیز و ترجیح کہلاتا ہے ، اگرچہ اس میں الہ اور ارباب متعدد ہی رہے لیکن ان میں سے بعض ارباب اور الہ متعدد اسباب کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہوگئے۔ مثلا یوں کہ اگر کوئی قبیلہ علاقے اور ملک میں سیاسی طور پر چھا گیا تو اس کا معبود بھی علاقے میں چھا گیا۔ اور اس الٰہ سے لوگ معاشری حاجات اور آفات و بلیات سے بچاؤ کی مدد مانگتے تھے۔ بعض الٰہ اس لیے نمایاں ہوگئے کہ لوگوں کے زعم کے مطابق وہ زیادہ لوگوں کے زیادہ مفید تھے اور دوسرے الٰہوں کے مقابلے میں وہ انسان کے زیادہ مطالبات پورے کرتے تھے۔ مثلاً بارش کا دیوتا ، اس علاقے میں بہت مانا جاتا جہاں بارش کی ضرورت ہوتی تھی یا جن سے ڈر زیادہ ہوتا تھا مثلاً مصائب کے الہ یا طوفان باد و باراں کا الہ ، یعنی جہاں ڈر ہوتا لوگ اس سے ڈر کے الہ سے ڈرتے اور جہاں امید ہوتی لوگ اس الہ سے امید رکھتے ، غرض اس کائنات میں دوسرے طبعی مظاہر کے مطابق الٰہوں کا تصور بھی قائم ہوتا۔ تیسرے دور میں جب قبائل اقوام و امم کی شکل اختیار کر گئے ہیں تو اب ارباب متفرقہ کے ہوتے ہوئے انہوں نے ایک مشترکہ عبادت کا طریقہ ایجاد کرلیا اور مختلف علاقوں اور مختلف اقوام کے ہاں عبادت کے مختلف طریقے رائج ہوگئے۔ اس دور کی خصوصیت یہ بھی رہی کہ جس طرح ایک قوم دوسری اقوام پر اپنا اقتدار اور قیادت و سیادت اور کلچر مسلط کرتی اسی طرح ان پر اپنا طریقہ عبادت بھی مسلط کرتی۔ بعض اوقات مغلوب کے الہوں کو یہ حکمران تسلیم کرلیتے تھے جس طرح کوئی بادشاہ اپنے حاشیہ نشینوں کی کوئی بات مان لیتا ہے اس طرح تابع اور متبوع کا تعلق باہم قائم رہتا۔ اس کمزور قسم کے ذہنی اتحاد تک بھی کوئی قوم ایک طویل تہذیبی جو جہد کے بعد پہنچتی ہے۔ اور اس کے بعد پہنچی جب اس کے اندر علم و معرفت کی ایک وافر مقدار پیدا ہوگئی اور اس علم و معرفت کی بدولت انسان کے لیے خالص جاہلانہ تصورات کا قبول کرنا مشکل ہوگیا۔ اب انسان نے اپنے سابقہ تصورات کے ملبے میں سے اچھے اور اللہ کی پاکی اور قدوسیت کے قریب تر صفات کے ساتھ اللہ کو متصف کرنا شروع کردیا۔ عبادت کے اندر اس کائنات کے اسرار و رموز کو بھی شامل کردیا گیا۔ اور اس کائنات کے پیچھے کام کرنے والی گہری حکمت کی بات بھی ہونے لگی۔ اور ان اقوام و ملل کے اندر اللہ کو حقیقی مقام ربوبیت دیا جانے لگا۔ اور دوسرے تمام اچھے درجے کے الٰہوں کو فرشتوں کا مقام دیا جانے لگا یا ان کو ایسے خدا قرار دیا گیا جو اللہ تعالیٰ کے حظیرہ قدس سے دھتکارے گئے تھے یعنی جو برے تھے۔ درج بالا اقتباسات میں مصنف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہو یا ان علماء کے خیالات نقل کیے گئے ہیں جو اپنے لیے اپنے عقائد خود ہی گھڑتے ہیں ، بہرحال یہ خیالات اسلام کے خلاف ہیں کیونکہ ان لوگوں کے دینی تصورات میں انسان کے عقلی ، علمی ، تہذیبی اور سیاسی واقعات دخیل نظر آتے ہیں۔ اور ان کے سلسلہ خیال کے مطابق ترقی یوں ہوئی ہے کہ لوگ شرک اور بیشمار الٰہوں کے قائل ہونے کے بعد توحید کی طرف لوٹے ہیں اور یہ بات مؤلف کے مقدمہ کتاب کے پہلے فقرے ہی سے واضح ہے جس میں وہ کہتے ہیں : " اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ انسان نے عقیدہ الہ کس طرح اختیار کیا۔ جب انسان نے اپنے لیے مختلف الٰہوں کو رب تسلیم کیا ، پھر اس نے اللہ وحدہ کو دریافت کیا اور پھر وہ عقیدہ توحید کی پاکیزگی میں داخل ہوا۔ یہ تو ہیں دور جدید کے علمائے ادیان اور کتاب " اللہ " کے مصنف کے خیالات۔ اس کتاب میں مصنف دور جدید کے علمائے تقابل ادیان سے متاثر نظر آتے ہیں حالانکہ اللہ نے دین کی اصلیت کے بارے میں اس سے بالکل علیحدہ اور دو ٹوک بات کہی ہے۔ وہ کہ یہ کہ حضرت آدم جو ابوالبشر ہیں پوری طرح حقیقت توحید کو جانتے تھے اور ان کا عقیدہ توحید اسی طرح صاف اور ستھرا تھا جس طرح حضرت محمد کا تھا اور اس میں شرک کوئی آلودگی نہ تھی ، اس میں کوئی تعدد اور ثنائیت نہ تھی۔ حضرت آدم براہ راست اللہ سے ہدایت لیتے تھے۔ اور صرف اللہ کی ہدایات کے متبع تھے اور حضرت آدم نے اپنی اولاد کو یہی پاک صاف تعلیم دی۔ لہذا انسان کی قدیم ترین تاریخ میں ایسی نسلیں تھیں جو اسلام کے بغیر کسی اور دین سے واقف ہی نہ تھیں۔ ان کا عقیدہ صرف عقیدہ توحید تھا۔ ہاں جب آدم کے بعد ان کی اولاد پر ایک طویل عرصہ گزرا تو ان کی اولاد نے عقیدہ توحید سے انحراف اکتیار کرلیا۔ بعض اوقات انہوں نے دو خداؤں کا اور بعض اوقات متعدد خداؤں کا نظریہ اپنایا اور متعدد الٰہوں کا دین اختیار کرلی۔ اس کے بعد حضرت نوح مبعوث ہوئے اور انہوں نے پوری نسل انسانی کو از سر نو عقیدہ توحید پر قائم فرمایا اور جو لوگ شرک کرتے تھے اور نظام جاہلیت پر مصر تھے ، ان سب کو طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس طوفان سے صرف ان لوگوں نے نجات پائی جو پاک و صاف توحید کو جانتے تھے۔ اور وہ دو خداؤں یا بیشمار الٰہوں اور متعدد ارباب کے دین سے بیزار تھے۔ اس تاریخ کے مطابق ہم پر فرض ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ ایک عرصے تک کشتی نوح کے سواروں کی اولاد توحید مطلق کے عقیدے پر قائم رہی۔ ایک طویل عرصہ کے بعد انہوں نے پھر عقیدہ توحید کو ترک کرکے شرک اور بت پرست کو اپنایا۔ چناچہ انسانی تاریخ میں جو رسول مبعوث کیے گئے ان سب کا مشن قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : و ما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون " اور آپ سے پہلے ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ، اس کی طرف ہم نے وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الہ و حاکم نہیں ہے اس لیے صرف میری پیروی کرو "۔ اب یہ ابت واضح ہے کہ اگر اللہ کی کتاب کسی معاملے کو ایک فیصلہ کن انداز میں بیان کردے اور اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص اسی بات کو بالکل متضاد صورت میں پیش کرے تو ایک مسلمان کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے کہ وہ صرف اللہ کے قول کی اطاعت کرے۔ خصوصاً ایسا شخص جو بزعم خود اسلام کی مدافعت کر رہا ہو ، اور وہ یہ بتاتا ہو کہ وہ اسلام اور دین کے بارے میں اساسی شبہات کو دور کرنے کے موضوع پر کلام کر رہا ہے۔ یہ بات ہر لکھنے والے کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ اس دین کی کوئی خدمت نہیں ہے کہ اس بات کا سرے سے انکار کردیا جائے کہ دین اسلام اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی آیا ہے۔ اور یہ ثابت کیا جائے کہ اس دین کو اس حد تک خود انسان نے پہنچایا ہے۔ انسان نے نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے اللہ نے انسان کو عقیدہ توحید بذریعہ وحی سکھایا۔ اور اللہ نے انسان کو کسی دور میں بھی یہ اجازت نہیں دی کہ وہ عقیدہ توحید کے علاوہ کوئی اور عقیدہ اختیار کرے نہ اس مضمون کی کوئی رسالت اللہ نے بھیجی ہے۔ نہ اس قسم کے نظریات کا پیش کرنا کسی معنی میں بھی اسلام کی کوئی خدمت ہے۔ خصوصاً اس حال میں کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ علمائے تقابل ادیان اسلام کے خلاف ایک خاص منصوبہ بندی اور ایک خاص لائن پر کام کرتے ہیں اور اسلام کے بنیادی تصورات کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ جبکہ اسلام کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ اسلام اللہ کی جانب سے وحیپر مبنی ہے اور یہ انسان کے ترقی پذیر فکر کا نتیجہ نہیں ہے جس طرح مادی میدان میں انسان نے آہستہ آہستہ تجربات حاصل کرکے علمی ترقی کی۔ اس نکتے پر یہ مختصر نوٹ ، امید ہے کہ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھانے کے لیے کافی ہوگا۔ اس سے زیادہ طویل بحث ہم یہاں فی ظلال القرآن میں نہیں کرسکتے۔ غرض ایسے اساسی تصورات اور موضوعات پر ہم کسی غیر اسلامی سرچشمنے سے کوئی ہدایت نہیں لے سکتے اور ہمیں اس مختصر بحث سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جو لوگ ایسے حساس موضوعات پر مغربی افکار پڑھتے ہیں اور مغربی مفکرین کی نہج پر تحقیقات کرتے ہیں وہ کس قدر صحیح راہ سے دور چلے جاتے ہیں اور دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا دفاع کرتے ہیں حالانکہ : ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوام : قرآن ہی مضبوط ہدایت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اب حضرت نوح کے قصے کا ایک دوسرا پہلو ، ذرا مزید رکیے۔ نئی بات یہ ہے کہ اللہ حضرت نوح کے حقیقی بیٹے کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ اسلام کے نظریاتی اور تحریکی سفر کا یہ ایک اہم پڑاؤ ہے۔ ایک اہم موڑ ہے اور اس پر رک کر غور کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَأُوحِيَ إِلَى نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلا مَنْ قَدْ آمَنَ فَلا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (٣٦) وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ (٣٧): " نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ، بس وہ لاچکے ، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں " حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلا قَلِيلٌ (٤٠): " یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے " وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ (٤٢) قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (٤٣) کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی۔ نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا ، کافروں کے ساتھ نہ رہ اس نے پلٹ کر جواب دیا میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھ جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔ وَنَادَى نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ (٤٥) قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلا تَسْأَلْنِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (٤٦) قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَإِلا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (٤٧):" نوح نے اپنے رب کو پکارا ، کہا "" اے رب ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ " جواب میں ارشاد ہوا۔ اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔ توح نے فورا عرض کیا اے میرے رب ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ، اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تونے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجاؤں گا۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ عبرت اور نصیحت ہے اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی غرقابی اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ غیب کی خبریں ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کی قوم ان خبروں سے واقف نہیں تھے ان خبروں کا آپ کو علم ہونا جبکہ آپ نے کسی سے پڑھا بھی نہیں ‘ پرانی قوموں کے واقعات کسی نے بتائے بھی نہیں یہ سمجھ دار انسان کے لئے اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیج کر آپ کو مطلع فرمایا ہے۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات پانے سے آپ کو تسلی ہونی چاہئے آپ صبر کریں جیسے انبیاء سابقین ( علیہ السلام) صبر کرتے رہے ہیں اور انجام کار یہی ہوا کہ جو لوگ متقی تھے یعنی کفر اور شرک سے بچتے تھے انہوں نے نجات پائی اور ان کے دشمن ہلاک ہوئے اسی طرح آپ کے لیے بھی حسن عاقبت ہے ‘ اور آپ کے اصحاب کے لئے بھی۔ اہل مکہ اور دوسرے لوگ جو آپ کے مخالف ہیں ان کو بھی عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ چند دن کا کھانا پینا اور عیش کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ انجام اچھا ہونا چاہئے۔ جو متقین ہی کا حصہ ہے۔ فوائد ضروریہ (١) حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو طوفان آیا تھا اس کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ طوفان نے ساری زمین کو گھیر لیا تھا جمہورکا یہی قول ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو دعا کی تھی۔ (رَبِّ لَا تَذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا) (اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک بھی باشندہ مت چھوڑ) اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری زمین کو طوفان نے گھیر لیا تھا لیکن بعض علماء کا کہنا یہ ہے ‘ کہ طوفان صرف اس علاقہ میں آیا تھا جہاں تک حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایک شاذ قول ہے۔ جو جمہور کے خلاف ہے جن علماء نے اسے اختیار کیا ہے ان کے نزدیک سورة نوح کی آیت میں جو الارض آیا اور جو سورة قمر میں (وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا) فرمایا ہے ان دونوں میں الف لام عہد کے لیے ہے یہ احتمال بعید نہیں ہے لہٰذا یقین کے ساتھ ان کے قول کی تغلیط بھی نہیں کی جاسکتی۔ چونکہ اس کی تحقیق سے کوئی شرعی حکم متعلق نہیں لہٰذا کاوش میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔ قصہ بیان کرنے کا مقصد ہر طرح حاصل ہے یعنی نصیحت اور عبرت وموعظت ہر طرح حاصل ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ارض معمورہ ہی تھوڑی سی تھی جتنی زمین پر انسانوں کی آبادی تھی اتنے ہی حصہ پر طوفان آیا اور چونکہ تھوڑے سے اہل ایمان کے علاوہ سب ہی بنی آدم ہلاک کر دئیے گئے تھے اس لیے اس کو عالمی طوفان کہنا بھی صحیح ہے ‘ منکرین کو ہلاک فرمانا تھا ‘ وہ اتنی زمین پر طوفان آنے سے ہلاک ہوگئے جتنی زمین پر آباد تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ (٢) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا (اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ) (کہ وہ تمہارے اہل میں سے نہیں) اس سے معلوم ہوا کہ مومن اور کافر میں کوئی رشتہ نہیں اگر نسبی اعتبار سے قرابت کا رشتہ ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، کسی نبی یا ولی کا بیٹا ہو اور اس کے عقائد کفریہ ہوں تو اس کا رشتہ اسے کوئی کام نہیں دے سکتا اور اس کے رشتہ کا اعتبار بھی نہیں حضرات مہاجرین کرام کا یہی جذبہ تھا کہ غزوہ بدر وغیرہ میں خونی رشتے کے لوگ سامنے آئے چونکہ وہ کافر تھے اس لئے انہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جیسا کہ کافروں نے بھی ان رشتہ داروں پر تلوار کشی کی جو اہل ایمان میں سے تھے بلکہ غزوہ بدر میں تو یہ ہوا کہ بعض انصار مقابلہ کے لئے نکلے تو مشرکین مکہ میں سے بعض افراد نے کہا کہ لا نرید ھولاء ولکن نبارز بنی عمنا من بنی عبد المطلب (کہ ہم ان کے مقابلہ کا ارادہ نہیں رکھتے ہم تو بنی عبد المطلب سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے چچا کے بیٹے ہیں) اس پر حضرت علی اور حضرت حمزہ اور حضرت عبیدۃ بن الحارث (رض) نکلے جن میں سے حضرت علی (رض) نے ولید بن عتبہ کو اور حضرت حمزہ (رض) نے شیبہ کو قتل کردیا اور حضرت عبیدۃ بن الحارث (رض) شہید ہوگئے (بدر میں زخمی ہوئے تھے پھر مدینہ منورہ واپس ہوتے ہوئے راستہ میں وفات ہوگئی) لیکن ان کے شہید کرنے والے کو (جس کا نام عتبہ تھا) بعد میں حضرت علی اور حضرت حمزہ (رض) نے قتل کردیا۔ (البدایہ) جب کافروں کے جذبۂ عداوت کا یہ حال ہے کہ قتل کرنے کے لیے اپنے عزیزوں کو خصوصیت کے ساتھ طلب کرتے ہیں تو اہل ایمان کیوں اہل کفر سے دشمنی نہ رکھیں اور کافروں کو اپنا کیوں سمجھیں۔ کوئی کافر اپنا نہیں خواہ کیسا ہی رشتہ دار ہو۔ (اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ) میں اس کو واشگاف الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔ حضرت سعدی (رض) نے کیا خوب فرمایا۔ فرماتے ہیں ؂ پسر نوح با بداں بنشت سگ اصحاب کہف روزے چند خاندان نبوتش گم شد پئے نیکاں گرفت مردم شد (٣) جودی پہاڑ کہاں ہے جس پر کشتی ٹھہری تھی ‘ اس کے بارے میں معجم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ایک پہاڑ ہے جو دجلہ سے مشرقی جانب ہے جزیرہ ابن عمر پر محیط ہے اور یہ شہر موصل کے مضافات میں ہے (جو عراق کے شہروں میں سے ہے) یہ جزیرہ ابن عمر برقعبدی کی طرف منسوب ہے۔ محقق ابن جزری امام التجوید والقرأۃ کی نسبت بھی اسی کی طرف ہے۔ (٤) آیت کریمہ (وَقِیْلَ یٰٓا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ ) میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہت سی وجوہ اعجاز ہیں جن کو علامہ سکا کی (a) نے جمع کیا ہے پھر حافظ شمس الدین ابن الجزری صاحب مقدمہ الجزریۃ نے کفایۃ الالمعی فی اٰیَۃِ یَا اَرْضُ ابْلَعِیْ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں علامہ سکا کی کی بیان کردہ وجوہ اعجاز پر اضافہ کیا۔ (ذکرہ حاجی خلیفہ فی کشف الظنون)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47: جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں حاضر نہ تھے مگر اس کے باوجود آپ ان کے صحیح صحیح حالات بیان کر رہے ہیں یہ آپ کی صداقت کی زبردست دلیل ہے آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ کو انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے احوال وواقعات بتائے جاتے ہیں۔ اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ فَاصْبِرْ الخ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو تبلیغ کی اور ان کی تکلیفیں اٹھائیں آخر کار ان کے دشمن تباہ ہوئے اسی طرح بہتر انجام آپ کا اور آپ کے متبعین کا ہوگا اور آپ کے دشمن ذلیل و خوار ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 اے پیغمبر یہ واقعات غیب کی خبروں میں سے بعض خبریں ہیں جن کو ہم آپ کی جانب وحی کرتے ہیں اور وحی کے ذریعہ آپ کو پہنچاتے ہیں ان واقعات کو ہمارے بتانے سے قبل نہ تو آپ ہی جانتے تھے نہ آپ کی قوم ہی ان کو جانتی تھی اور نہ ان واقعات سے واقف تھی آپ منکروں کے مقابلہ میں صبر اور برداشت سے کام لیجئے اور یقین رکھئے کہ پرہیز گاروں ہی کا انجام بہتر ہے اور آخر ڈرانے والوں ہی کا بھلا ہے ۔ آخر میں نبی کریم کا صاحب وحی ہونا جو دلیل ہے نبوت کی اور آپ کو انجام میں کامیابی کا اظہار فرمایا گویا آپ کی نبوت کا اعلان بھی اور آپ کو تسلی بھی۔