Allah is Aware of All Things
Allah says;
أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُواْ مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ
إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
No doubt! They did fold up their breasts, that they may hide from Him. Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. Verily, He is the All-Knower of the (innermost secrets) of the breasts.
Ibn Abbas said,
"They used to dislike facing the sky with their private parts, particularly during sexual relations. Therefore, Allah revealed this verse."
Al-Bukhari recorded by way of Ibn Jurayj, who reported from Muhammad bin Abbad bin Jafar who said,
"Ibn Abbas recited,
أَلا إِنَّهُمْتَثْنَونِيصُدُورَهُمْ
"Behold their breasts did fold up."
So I said: `O Abu Al-Abbas! What does -their breasts did fold up- mean?'
He said,
`The man used to have sex with his woman, but he would be shy, or he used to have answering the call of nature (in an open space) but, he would be shy. Therefore, this verse,
أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ
(No doubt! They did fold up their breasts), was revealed."'
In another wording of this narration, Ibn Abbas said,
"There were people who used to be shy to remove their clothes while answering the call of nature in an open space and thus be naked exposed to the sky. They were also ashamed of having sexual relations with their women due to fear of being exposed towards the sky. Thus, this was revealed concerning them."
Al-Bukhari reported that;
Ibn Abbas said that
يَسْتَغْشُونَ
(they cover themselves),
means that they cover their heads.
اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے
آسمان کی طرف اپنی شرم گاہ کا رخ کرنا وہ مکروہ جانتے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرآت میں تثنونی ہے ۔ مجامعت کے وقت اور تنہائی میں وہ عریانی سے حجاب کرتے تھے کہ پاخانہ کے وقت آسمان تلے ننگے ہوں یا مجامعت اس حالت میں کریں ۔ وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں ۔ اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے ۔ جو چھپاؤ جو کھولو ، جو دلوں اور سینوں میں رکھو ، وہ سب کو جانتا ہے ، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے ۔ زہیر بن ابو سلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں ، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں یہ جاہلیت کا شاعر ہے ۔ اسے اللہ کا ، اس کے کامل علم کا ، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا ، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہو نے کا اقرار ہے ۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وعلیہ وسلم کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے ۔ ( اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ĉ ) 11-ھود:5 ) ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں ( آیت الا انھم تثنونی صدورھم ) ہے ۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریبا یکساں ہیں ۔