Surat Hood

Surah: 11

Verse: 5

سورة هود

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ لِیَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡہُ ؕ اَلَا حِیۡنَ یَسۡتَغۡشُوۡنَ ثِیَابَہُمۡ ۙ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ۚ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۵﴾

Unquestionably, they the disbelievers turn away their breasts to hide themselves from Him. Unquestionably, [even] when they cover themselves in their clothing, Allah knows what they conceal and what they declare. Indeed, He is Knowing of that within the breasts.

یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کئے دیتے ہیں تاکہ اپنی باتیں ( اللہ ) سے چھپا سکیں ۔ یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ بالیقین وہ دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is Aware of All Things Allah says; أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُواْ مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ No doubt! They did fold up their breasts, that they may hide from Him. Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. Verily, He is the All-Knower of the (innermost secrets) of the breasts. Ibn Abbas said, "They used to dislike facing the sky with their private parts, particularly during sexual relations. Therefore, Allah revealed this verse." Al-Bukhari recorded by way of Ibn Jurayj, who reported from Muhammad bin Abbad bin Jafar who said, "Ibn Abbas recited, أَلا إِنَّهُمْتَثْنَونِيصُدُورَهُمْ "Behold their breasts did fold up." So I said: `O Abu Al-Abbas! What does -their breasts did fold up- mean?' He said, `The man used to have sex with his woman, but he would be shy, or he used to have answering the call of nature (in an open space) but, he would be shy. Therefore, this verse, أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ (No doubt! They did fold up their breasts), was revealed."' In another wording of this narration, Ibn Abbas said, "There were people who used to be shy to remove their clothes while answering the call of nature in an open space and thus be naked exposed to the sky. They were also ashamed of having sexual relations with their women due to fear of being exposed towards the sky. Thus, this was revealed concerning them." Al-Bukhari reported that; Ibn Abbas said that يَسْتَغْشُونَ (they cover themselves), means that they cover their heads.

اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے آسمان کی طرف اپنی شرم گاہ کا رخ کرنا وہ مکروہ جانتے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرآت میں تثنونی ہے ۔ مجامعت کے وقت اور تنہائی میں وہ عریانی سے حجاب کرتے تھے کہ پاخانہ کے وقت آسمان تلے ننگے ہوں یا مجامعت اس حالت میں کریں ۔ وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں ۔ اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے ۔ جو چھپاؤ جو کھولو ، جو دلوں اور سینوں میں رکھو ، وہ سب کو جانتا ہے ، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے ۔ زہیر بن ابو سلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں ، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں یہ جاہلیت کا شاعر ہے ۔ اسے اللہ کا ، اس کے کامل علم کا ، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا ، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہو نے کا اقرار ہے ۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وعلیہ وسلم کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے ۔ ( اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ĉ۝ ) 11-ھود:5 ) ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں ( آیت الا انھم تثنونی صدورھم ) ہے ۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریبا یکساں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کرلیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] اس آیت کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی وسعت کو بیان کرنا ہے کہ کھلی اور چھپی چیزیں تو کجا وہ تو دلوں کے ارادوں تک سے واقف ہے مگر اس آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے ان میں سے ہم صرف سیدنا ابن عباس (رض) کی بخاری میں مذکور روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو درج ذیل ہے : محمد بن عبید بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ یہ آیت کس باب میں اتری ہے تو انہوں نے کہا : کچھ لوگ رفع حاجت کے وقت یا اپنی بیویوں سے صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے سے (پروردگار سے) شرماتے اور شرم کے مارے جھکے جاتے تھے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) یعنی اگر تمہیں بوقت ضرورت بدن کھولنے میں اللہ سے حیا آتی ہے اور اس طرح جھکے جاتے ہو تو کیا جس وقت کپڑے اتارتے اور پہنتے ہو اس وقت تمہارا ظاہر و باطن اللہ کے سامنے نہیں ہوتا ؟ اور جب انسان اللہ سے کسی وقت بھی چھپ نہیں سکتا تو پھر ضرورت بشریہ سے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا درست نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ ۔۔ : ” یَثْنُوْنَ “ ” ثَنَی یَثْنِیْ “ (ض) سے فعل مضارع جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا معنی ہے دوہرا کرنا، موڑنا۔ دوسرے عدد کو ثانی اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ واحد کو دو بنا دیتا ہے۔ ” لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ “ ” اِخْتَفَی یَخْتَفِیْ “ کا معنی چھپنا اور استفعال کی سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح ” یَسْتَغْشُوْنَ “ میں بھی سین اور تاء کے اضافے نے معنی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے متعلق مشرکین کے جہل اور لاعلمی کی انتہا بیان ہوئی ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا : (وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٢٢ ] ” اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمہاری آنکھیں اور نہ تمہارے چمڑے اور لیکن تم نے گمان کیا کہ بیشک اللہ بہت سے کام جو تم کرتے ہو، نہیں جانتا۔ “ گویا ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ سے چھپ کر بھی کچھ کام ہوسکتے ہیں جن کا اسے پتا نہ چلے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا : ( اِجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَیْتِ ثَقَفِیَّانِ وَ قُرَشِيٌّ، أَوْ قُرشِیَّانِ وَ ثَقِفِيٌّ، کَثِیْرَۃٌ شَحْمُ بُطُوْنِھِمْ قَلِیْلَۃٌ فِقْہُ قُلُوْبِھِمْ ، فَقَالَ أَحَدُھُمْ : أَتَرَونَ أنَّ اللّٰہَ یَسْمَعُ مَا نَقُوْلُ ؟ قَالَ الْاَخَرُ : یَسْمَعُ إِنْ جَہَرْنَا وَلاَ یَسْمَعُ إِنْ أَخْفَیْنَا، وَ قَالَ الْآخَرُ : إِنْ کَانَ یَسْمَعُ إِذْا جَھَرْنَا فَإِنَّہٗ یَسْمَعُ إِذْا أَخْفَیْنَا، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ ) ” کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے، جن کے پیٹوں کی چربی بہت تھی اور دلوں کی سمجھ بہت کم تھی، تو ان میں سے ایک نے کہا : ” کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اسے سن رہا ہے ؟ “ دوسرے نے کہا : ” اگر ہم بلند آواز سے بات کریں تو سنتا ہے، اگر آہستہ کریں تو نہیں۔ “ تو اگلے نے کہا : ” اگر وہ اس وقت سنتا ہے جب ہم بلند آواز سے بولتے ہیں تو یقیناً وہ اس وقت بھی سنتا ہے جب ہم آہستہ بات کرتے ہیں۔ “ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : (وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ ) [ حٰمٓ السجدۃ : ٢٢] [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ عزوجل : ( وما کنتم تستترون ۔۔ ) : ٧٥٢١ ] اس سے معلوم ہوا کہ کئی جاہل مشرکین یہ بھی سمجھتے تھے کہ آہستہ بات کریں تو اللہ تعالیٰ کو پتا نہیں چلتا۔ تو معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، البتہ جب بھی اللہ کی ناراضگی والا کوئی کام کرتے تو خوب چھپ کر تاکہ اللہ تعالیٰ سے چھپے رہیں، اسے پتا نہ چل جائے، کبھی کپڑوں اور دیواروں کے پردے کے پیچھے، کبھی سینہ دوہرا کرکے حاصل ہونے والی پوشیدگی کے ذریعے سے، مثلاً ملاوٹ کرنے کے لیے، دھوکا دینے کے لیے یا کوئی اور شنیع فعل کرنے کے لیے سینہ دوہرا کرکے اپنے خیال میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے چھپالیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یاد رکھو ! خوب اچھی طرح کپڑے لپیٹ کر بھی تم جو کچھ کرتے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے، بلکہ اس سے بھی کہیں آگے جو کچھ سینوں کے حصار میں محفوظ دل کے اندر باتیں ہیں وہ انھیں بھی خوب جانتا ہے، اس لیے تمہارے یہ خیال اور یہ حرکات لغو اور باطل ہیں، ان کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ اوپر جو فرمایا تھا : (وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ ) (اور اگر تم پھر جاؤ تو یقیناً میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) وہاں ظاہری اور جسمانی طور پر منہ پھیرنا مراد تھا اور یہاں دل سے اعراض مراد ہے، کیونکہ سینے سے مراد دل ہوتا ہے، جیسا کہ ” عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ “ سے بھی ظاہر ہے۔ ” يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ “ گویا سینے کو موڑنا محاورہ ہے، مراد دل کو موڑنا، اعراض کرنا، غلط سوچنا، بےاصل شبہات سے اپنے دل کو تسلی دینا، عقائد حقہ سے اعراض کرنا وغیرہ ہے، کیونکہ یہاں صدور سے مراد علوم صدر ہیں۔ (فتح الرحمان از شاہ ولی اللہ) مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے سینوں میں جو کفر و عناد رکھتے ہیں اسے چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے چھپے ہوئے رازوں کی اطلاع نہ ہونے پائے۔ (شوکانی) یہ دونوں حوالے ہمارے استاذ مرحوم نے اشرف الحواشی میں نقل کیے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک اور ہی مطلب منقول ہے کہ ایک صاحب نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ” کچھ لوگ اس سے حیا کرتے تھے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنی شرم گاہوں کو آسمان کے سامنے ننگا کریں اور اپنی بیویوں سے جماع کریں تو شرم گاہوں کو آسمان کے سامنے ظاہر کریں، تو یہ آیت ان کے بارے میں اتری۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( ألا إنہم یثنون صدورھم۔۔ ) : ٤٦٨١، ٤٦٨٢ ] اس شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبۂ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور ہم بستری کے وقت ننگا ہونے سے پرہیز کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس لیے وہ ایسے موقعوں پر شرم گاہ کو چھپانے کے لیے اپنے سینے کو دہرا کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو ڈھانپ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور علانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے، لیکن اس میں اتنا غلو اور زیادتی بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو وہ پھر بھی چھپ نہیں سکتے تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ ؟ اگرچہ یہ تفسیر حبر الامہ سے حدیث کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری میں آئی ہے اور بلاشبہ درست ہے، مگر اکثر مفسرین نے فرمایا کہ آیات کے سیاق کے مطابق یہ آیت کفار کے رویے ہی سے تعلق رکھتی ہے، کیونکہ پہلے اور بعد میں مسلسل انھی کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابن عباس (رض) کی تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے جو حیا کے جذبے سے ایسا کرتے تھے۔ اصول تفسیر میں اہل علم نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ صحابہ و تابعین کسی آیت کے متعلق جہاں بھی وہ منطبق ہوتی اور صادق آتی ہو کہہ دیتے ہیں ” نَزَلَتْ فِیْ کَذَا “ کہ یہ آیت فلاں چیز کے بارے میں اتری، اس لیے ایک ہی آیت کے کئی شان نزول صحابہ و تابعین سے مروی ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہوتا بلکہ سبھی مراد ہوسکتے ہیں۔ البتہ یہ عین ممکن ہے کہ آیت کے نزول کے وقت یا اس کے قریب ان میں سے کوئی ایک واقعہ یا چند واقعات ہی ظہور پذیر ہوئے ہوں اور دوسرے واقعات انطباق کی وجہ سے شان نزول قرار دے دیے گئے ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sixth verse carries a refutation of what the hypocrites and the disbelievers do. They try to camouflage their hostility, and their antagonistic activism against the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم as deftly as they could. Their hearts blaze with malice and enmity but they main¬tain a cool front, find all sorts of covers to hide their true identity and intention and surmise that no one would find out who they were really and what they were doing actually. But, the truth of the matter is that Allah Ta` ala knows it all, that which they let come out in the open and that which they conceal behind all sorts of clothes, covers and cur¬tains: إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ because, ` He is All Aware of [ even ] what lies in the hearts.&

چھٹی آیت میں منافقین کے ایک گمان بد اور خیال فاسد کی تردید ہے کہ یہ لوگ اپنی عداوت اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کو اپنے نزدیک خوب چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے سینوں میں جو حسد و بغض کی آگ بھری ہوئی ہے اس پر ہر طرح کے پردے ڈالتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح ہمارا اصل حال کسی کو معلوم نہ ہوگا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کپڑوں کی تہ میں پردوں کے پیچھے جو کچھ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ پر سب کچھ روشن ہے اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ، کیونکہ وہ تو دلوں کے پوشیدہ اسرار کو بھی خوب جانتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْہُ۝ ٠ ۭ اَلَاحِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ۝ ٠ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۝ ٠ ۚ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ٥ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں ثنی الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علن العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال : ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته . ( ع ل ن ) العلانیہ ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے الحمد لله پاره مکمل هوا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥) یاد رکھو کہ اخنس بن شریق اور اس کے ساتھی اپنے دلوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور آپ سے بغض چھپائے رکھتے ہیں تاکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اٹھنے بیٹھنے میں اور آپ سے اظہار محبت کرکے آپ سے بغض اور دشمنی کو پوشیدہ رکھیں یاد رکھو جس وقت وہ اپنے سینوں کو اپنے کپڑوں میں چھپاتے ہیں اور جو کچھ ان کے دلوں میں بغض و عداوت ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ وہ قتال اور سختی وغیرہ کے ساتھ یا یہ کہ آپ سے اظہار محبت اور اٹھنے بیٹھنے میں ظاہر کرتے ہیں وہ بھی جانتا ہے اور جو کچھ وہ قتال اور سختی وغیرہ کے ساتھ یا یہ کہ آپ سے اظہار محبت اور اٹھنے بیٹھنے میں ظاہر کرتے ہیں وہ بھی جانتا ہے اور جو کچھ دلوں میں نیکی اور برائی پوشیدہ ہے وہ سب جانتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” الا انھم یثنون “۔ (الخ) حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ ننگے ہو کر قضائے حاجت کرنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اسی طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے میں (اللہ تعالیٰ سے شرماتے تھے) انھی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے عبداللہ بن شداد سے روایت کیا ہے کہ ان میں سے جب کسی کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزر ہوتا تھا تو وہ اپنا سینہ دوہرا کرلیتا تھا تاکہ آپ اس کو نہ دیکھ سکیں، تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (اَلاآ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ ) یہ مقام مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں۔ ثَنٰی یَثْنِیْ کے معنی پھیرنے ‘ موڑنے اور لپیٹنے کے ہیں۔ مکہ میں رسول اللہ کی دعوت کے مخالفین میں سے کچھ لوگوں کا رویہ ایسا تھا کہ آپ کو آتے دیکھتے تو رخ بدل لیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپالیتے ‘ تاکہ کہیں آمنا سامنا نہ ہوجائے اور آپ انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ یہاں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا اور حقیقت کا مواجہہ کرنے سے گھبراتے ہیں ‘ حالانکہ کسی کے گریز کرنے سے حقیقت غائب نہیں ہوجاتی۔ شتر مرغ طوفان کے دوران اگر ریت میں سر چھپالے تو اس سے طوفان کا رخ تبدیل نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ ایک رائے وہ ہے جو بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے نقل ہوئی ہے کہ کچھ اہل ایمان پر حیا کا بہت زیادہ غلبہ تھا (مثلاً حضرت عثمان ان اصحاب میں بہت نمایاں تھے) ایسے لوگ کبھی غسل کے وقت بھی عریاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے اور ایسے مواقع پر اس انداز سے جھک جاتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو ستر چھپا رہے۔ اسی طرح قضائے حاجت کے وقت بھی پورے ستر کا اہتمام کرتے تھے۔ اس حوالے سے اس حکم کا منشا یہ ہے کہ تم اس سلسلے میں جو کچھ بھی کرلو ‘ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے تو نہیں چھپ سکتے ہو۔ لہٰذا ستر چھپانے کے بارے میں جو بھی احکامات ہیں ان کی معروف طریقے سے پیروی کرو۔ اس طرح کے کسی بھی معاملہ میں غلو کی ضرورت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. When the Prophet's mission became the talk of the day in Makka, some people showed considerable aversion to it, even if they did not actively oppose it. These people were unwilling to listen to the Prophet (peace be on him) and made a point of avoiding him. If they saw him somewhere they would turn their faces away or try to hide themselves. Such people made every effort to avoid any encounter with the Prophet (peace be on him) lest he might invite them to accept his teaching. The present verse refers precisely to such people; they are portrayed as being frightened at the prospect of facing the truth. Ostrich-like they dug their heads in the sand, fancying that the reality itself had vanished. The fact, however, is that the reality remains, and testifies to the folly of those who hide from it.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :5 مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا ہوا تو بہت سے لوگ وہاں ایسے تھے جو مخالفت میں تو کچھ بہت زیادہ سرگرم نہ تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے سخت بیزار تھے ۔ ان لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتراتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کو سننے کے لیے تیار نہ تھے ، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے دیکھتے تو الٹے پاؤں پھر جاتے ، دور سے آپ کو آتے دیکھ لیتے تو رخ بدل دیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپا لیتے ، تاکہ آمنا سامنا نہ ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں ۔ اسی قسم کے لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور شطر مرغ کی طرح منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہی غائب ہوگئی جس سے انہوں نے منہ چھپایا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ بے وقوف اس سے بچنے کے لیے منہ چھپائے بیٹھے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: بہت سے مشرک لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سامنا کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے ؛ تاکہ آپ کی کوئی بات ان کے کان میں نہ پڑے، چنانچہ کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظر آتے تو وہ اپنے سینوں کو دہرا کرکے اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ کر وہاں سے کھسک جاتے تھے، اسی طرح بعض احمق کوئی گناہ کا کام کرتے تو اس وقت بھی اپنے آپ کو چھپانے کے لئے دہرے ہوجاتے، اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ لیتے، اور اس طرح یہ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے چھپ گئے، یہ آیت ان دونوں قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ اس آیت کی شان نزول کئی طرح سے بیان کی گئی ہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ آسمان کی طرف منہ کرنا اس حالت میں کہ ان کے شرمگاہ کھلے ہوں مگر وہ جانتے تھے اس پر یہ آیت اتری ١ ؎ بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے یوں روایت کی ہے کہ مرد اپنی عورت سے صحبت کرتا تھا تو آسمانوں کو نہیں دیکھتا تھا۔ اپنا منہ ڈہانک لیتا تھا اس کے حق میں یہ آیت آئی۔ ٢ ؎ مجاہد کہتے ہیں کہ جب مشرک لوگ کوئی بری بات کرتے یا کوئی بد عمل کرتے تو کبڑے ہو کر کرتے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم اس کو خدا سے پوشیدہ رکھتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا کہ جب یہ رات کو اندھیرے میں سو جاتے ہیں اور کپڑوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت بھی خدا ان کی ہر ایک چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے۔ ٣ ؎ بعضوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کافر جب مخالفت کی کوئی بات گھر میں بیٹھ کر کہتے تھے اور اس کا جواب قرآن میں اترتا تھا تو یہ گمان کرتے تھے کہ دیوار کے پیچھے کوئی آکر سن جاتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر کہہ دیتا ہے۔ اس خیال سے وہ کپڑے اوڑھ کر اور جھک کر کلام کیا کرتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور فرمایا کہ خدا سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی وہ تو دل کے اندر کی باتوں کو جانتا ہے۔ اوپر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آیت میں ذکر نہیں ہے اس لئے پچھلے قول کو تو حافظ ابو جعفر ابن جریم نے اپنی تفسیر میں ضعیف ٹھہرایا ہے۔ ٤ ؎ صحیح بخاری مسلم اور ترمذی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ کعبہ میں تین مشرکوں نے آپس میں چپکے چپکے کچھ باتیں کیں پھر ایک نے دوسرے سے کہا کیا اللہ نے ہماری یہ باتیں سن لی ہوں گی اس نے کہا جو بات ہم پکار کر کریں وہ اللہ سنتا ہے اور جو چپکے سے کریں وہ نہیں سنتا تیسرے نے کہا اگر اللہ سنتا ہے تو سب باتیں سنتا ہے۔ ٥ ؎ اوپر کے ان سب قولوں میں مجاہد کا قول اس صحیح حدیث کے موافق ہے کہ مشرکین مکہ انسان کے دیکھنے سننے کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا سننا دیکھنا ایسا ہی ہے کہ آڑ میں کی ہوئی چیز کو نہ دیکھتا ہے نہ چپکے چپکے سے باتیں کرنے کو وہ سنتا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں ان لوگوں کے حشر کے انکار کی نادانی کا مبہم طور پر ذکر فرما کر اس آیت میں ان کی ایک کھلی کھلی نادانی کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ کسی کام کو آڑ میں کرنے سے پہلے ان کے دل میں اس کے کرنے کا ارادہ جو ہوتا ہے اللہ تو اس تک کو جانتا ہے کیوں کہ دل اور اس کا ارادہ یہ سب اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ غائب کا قیاس حاضر پر بالکل غلط ہے جس طرح مثلاً مکہ میں مینہ برستا ہوا دیکھ کر یہ قیاس کرلینا کہ اس وقت مدینہ میں بھی مینہ برس رہا ہوگا سراپا ایک غلط قیاس ہے اسی طرح دنیا کی بعض بعض باتوں پر قیاس کر کے بغیر دیکھے بھالے ان لوگوں کا حشر کا انکار یا اللہ کے دیکھنے سننے کا اپنے دیکھنے سننے پر قیاس ان لوگوں کی نادانی کی باتیں ہیں۔ مسند بزار طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی ایک صحیح روایت گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جب لوگوں کے ہر اعمال نامے کھولے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ بعضے عملوں کو قبول قرار دیوے گا اور بعضوں کو نامقبول یہ حالت دیکھ کر فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ان نامقبول عملوں میں ظاہر تو کوئی خرابی نہیں معلوم ہوتی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماوے گا تم کو معلوم نہیں یہ عمل خالص نیت سے نہیں کئے گئے۔ ٦ ؎ یہ حدیث (انہ علیم بذات الصدور) کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٦ ج ٢۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٢٧٧ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٦ ج ٢۔ ٤ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٨٥ ج ١١۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ٧١٢ ج ٢ باب قولہ وما کنتم تستترون الخ۔ ٦ ؎ الترغیب ص ٢١ ج ١ الترھیب من الرباء الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:5) یثنون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ثنی یثنی (باب ضرب) ثنیی ۔۔ الشیٔ۔ موڑنا۔ لپٹنا۔ تہ کرنا۔ ثنی صدرہ۔ اس نے اپنے دل میں دشمنی چھپائے رکھی جب اس کا صلہ عن ہو تو بمعنی موڑنا۔ پھیرنا۔ روکنا ہوتا ہے۔ اور جب اس کا صلہ علی ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو کسی چیز پر لپیٹنا تاکہ وہ چھپ جائے۔ یثنون۔ وہ دوہرا کئے دیتے ہیں (اپنے کفر و عداوت کو چھپانے کے لئے) ۔ لیسخفوا۔ مضارع جمع مذکر غائب استخفاء (استفعال) سے ۔ کہ وہ آڑ کرلیں ۔ پردہ کرلیں۔ چھپالیں۔ اصل میں یستخفون تھا۔ لام تعلیل کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ منہ۔ کی ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔ یستغشون ثیابھم۔ مضارع جمع مذکر غائب ثیابھم ، مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ۔ استغشاء مصدر (باب استفعال) وہ اوڑھتے ہیں۔ یتغطون بھا مبالغۃ فی الاستخفائ۔ کپڑوں کو خوب اوڑھ لیتے ہیں اپنے آپ کو مزید چھپانے کے لئے۔ الا حین یستغشون ثیابھم یعلم ما یسرون وما یعلنون۔ خبردار (یاد رکھو) جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ اوپر فرمایا کہ اگر اعراض کرو گے تو بڑے دن کے عذاب میں گرفتار ہوجائو گے۔ اب یہاں بتایا کہ باطنی اعراض بھی ظاہری اعراض کی طرح ہے (کبیر) ۔ سینے کو لپیٹینا ایک محاورہ ہے جس سے مراد ہے اعراض کرنا، یا غلط سوچنا، بےاصل شبہات سے اپنے دل کو تسلی دینا عقائد حقہ سے اعراض کرنا وغیرہ کیونکہ یہاں صدور سے مراد علوم صدر ہیں۔ (فتح الرحمن) ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینوں میں جو کفر وعناد رکھتے ہیں اور اسے چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے راز ہائے بستہ کی اطلاع نہ ہونے پائے۔ (شوکانی) ۔ 13 ۔ یعنی جب اپنا سارا بدن چھپا کر اپنے دروازے بند کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے اصل حال کی اطلاع کون پاسکتا ہے ؟ کپڑے لپیٹنا کنایہ ہے رات کو کپڑے اوڑھ کر بستروں پر سونے سے۔ اس حالت کو خاص طور پر اس لئے بیان فرمایا کہ ایسے وقت میں ہی عموماً خیالات اور وساوس دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ (رازی) ۔ 14 ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کافر کچھ مخالفت کی بات گھر میں کہتے، اس کا جواب قرآن میں اترتا۔ تب سے ایسی بات کہتے، تو کپڑا اوڑھ کر دوہرے ہو کر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل کیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 5 تا 6 ینوتن (وہ دہرا کرتے ہیں) صدور (صدر) سینے لیستخفو (تاکہ وہ چھپا سکیں ) یستغشون (وہ پہنتے ہیں) ثیاب (ثوب) کپڑے یسرون (وہ چھپاتے ہیں) یعلنون (وہ ظاہر کرتے ہیں) دابۃ (زمین پر رینگنے چلنے والا جان دار) مستقر (ٹھکانا) مستودع (سپرد کئے جانے کی جگہ) تشریح :- آیت نمبر 5 تا 6 اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے جس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ اس کے ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے اس کی نظروں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کو مخلوقات کی حیثئیت کا بھی علم ہے اور ان کی ضرویرات سے بھی وہ بیخبر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انسانوں کے دلوں میں جن جذبات خائلات اور آرزؤں کی پر وشر ہوتی ہے وہ ان سے بھی واقف ہے اور زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں، ہواؤں میں اڑنے والے پرندوں جنگلوں میں بسنے والے درندوں اور خوردبین سے نظر آنے والی مخلوق سے نہ صرف باخبر ہے بلکہ ان کو رزق پہچانا، ان کی پر وشر کرنا اور ان کو ٹھکانا دینا اللہ کے ذمہ ہے۔ جو اللہ ہر مخلوق تک رزق پہنچاتا ہے اس کو ان کی ضروریات کا پوری طرح اندازہ ہے۔ اگر رزق پہنچانے والے کو یہی نہ معلوم ہو کہ کس مخلوق کی کیا ضرورت ہے تو وہ انہیں ان کا رزق کیسے پہنچا سکتا ہے یقینا اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ بعض مفسرین نے ان آیات کے پس منظر میں یہ لکھا ہے کہ کچھ مشرکین اور منافقین جن کا کام ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی اور حسد رکھنا تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب ہم اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے ان پر کپڑے لٹکا لیتے ہیں یا اپنے آپ کو فریب کے خول میں بند کرلیتے ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مشورے اور سازشیں کرتے ہیں تو ان باتوں کا کسی کو کیا علم ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا ہے کہ یہ منافقین، کفار اور مشرکین اپنے ان دلی جذبات پر کتنے بھی پردے کیوں نہ لٹکا لیں۔ اپنی شخصیت پر کتنے بھی خول کیوں نہ چڑھا لیں اس اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے جس کو انسان کے دلی خیالات اور پرورش پانے والے جذبات تک کا علم ہے۔ وہ اچھی طرح واقف ہے کہ دین اسلام کے خلاف کون کو ہاں اور کیا سازشیں کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” کتاب مبین “ لوح محفوظ میں یہ لکھ دیا ہے کہ کس مخلوق کو کتنی مہلت عمل دی جائے گی۔ اگر یہ لکھا وہا نہ ہوتا تو ان کی منافقتوں کا بہت جلد فیصلہ ہوجاتا اللہ کو پوری قدرت ہے کہ وہ آج بھی جس طرح چاہے فیصلہ کر دے وہ مجبور نہیں ہے لیکن یہ اللہ کا حلم اور برداشت ہے کہ وہ ان کو فوراً ہی نہیں پڑکتا بلکہ ان کو ایک مدت تک ڈھیل دیئے چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس نے کائنات میں ایسے اسباب پیدا کئے ہیں جن سے ہر مخلوق کو اس کا رزق اور عارضی یا مستقل ٹھکانا مل جاتا ہے وہ اللہ مخلوق کی ہر ضرورت سے اچھی طرح واقف ہے اور اس کا علم کائنات پر محیط ہے۔ وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا میں اللہ نے اسی کی وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کونسی مخلوق کہاں ہے اس کو رزق پہنچانا اللہ کا کام ہے وہ رات کو کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ اس آیت کی تشریح تو واضح ہے لیکن امام قرطبی نے اپنے قبیلہ اشعر کے کچھ حضرات کا واقعہ لکھا ہے کہ اگر اس بات کا یقین کامل ہوجائے کہ رزق کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے۔ وہ جنگل میں بھی کسی کو بھوکا نہیں رکھتا اور غیب سے ان کو رزق عطا کرتا ہے تو سارے کام درست ہوجائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ اشعری کے چند حضرات جب ہجرت کے کر کے مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو جو کچھ کھانے پینے کا سامان تھا وہ سب ختم ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس غرض سے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کوئی انتظام فرما دیں۔ یہ صاحب جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے اس آیت وما من دابتہ کو سنا۔ ان صاحب نے اس آیت کو سن کر سوچا کہ جب سب جانداروں کے رزق کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے تو ہم اشعری لوگ اللہ کے نزدیک ان جانوروں سے گئے گذرے تو نہیں ہیں۔ وہ ہمیں رزق ضرور دے گا۔ یہ خیال کر کے وہ واپس ہوگئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے حال کی خبر نہ کی۔ واپس جا کر انہوں اپنے ساتھیوں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابومالک اشعری سے کہا کہ خوش ہو جائو تمہارے لئے اللہ کی مدد آرہی ہے۔ اشعری لوگوں نے یہ سمجھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اتنظام ہو رہا ہے۔ وہ اس تصور کے ساتھ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر نہیں گذری تھی دیکھا کہ دو آدمی ایک بڑے سے برتن میں گوشت اور روٹی لئے چلے آ رہے ہیں۔ لانے والوں نے یہ کھانا ان لوگوں کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ ان سب نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر بھی کچھ کھانا بچ گیا۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ جو کچھ کھانا بچ گیا ہے وہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں واپس بھیج دیں تاکہ آپ اپنی ضرورت میں صرف فرما لیں۔ اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس کے بعد یہ حضرات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت عمدہ اور لذیذ تھا۔ اس نے واپس آ کر یہ جواب دیا جس سے ہم یہ سمجھے کہ کھانا آپ نے بھیجا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کھانا میں نے نہیں بلکہ اس ذات اقدس نے بھیجا ہے جس نے ہر جان دار کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ع ہے۔ یہ اور اس طرح کے واقعات اللہ کی طرف سے ہیں تاکہ ہر شخص کو اس بات کا علم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے میں دنیا کے ذرائع اور اسباب کا محتاج نہیں ہے وہ چاہے تو ہر طرح رزق پہنچا دیتا ہے کسی کو بھوکا نہیں رکھتا۔ مگر اللہ کا قانون اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ بغیر محنت کئے وہ گھر بیٹھے کسی کو رزق نہیں پہنچاتا، پرندے اور درندے بھی سارا دن محنت کر کے اپنا رزق حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں تب ان کا پیٹ بھرتا ہے۔ ایک پرندہ بھی جانتا ہے کہ جب میں دن بھر محنت کروں گا تب ہی میرا پیٹ بھرے گا۔ یہ میں نے اس لئے عرض کردیا کہ کہیں یہ تاثر نہ پیدا ہوجائے کہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے گھر بیٹھے سب کچھ مل جائے گا بیشک یہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ رزق بغیر اسباب کے بھی عطا فرما دے لیکن اس کا قانون کائنات یہی ہے کہ ” انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ جدوجہد کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو باتیں کرتے ہیں تو اس ہیئت سے کرتے ہیں کہ کسی کو خبر نہ ہوجائے اور جس کو اعتقاد ہوگا کہ خدا کو ضرور خبر ہوتی ہے اور آپ کا صاحب وحی ہونا دلائل سے ثابت ہے پس وہ اخفاء کی یہ تدبیر کبھی نہ کرے گا پس یہ تدبیر کرنا گویا بدلالت حال اللہ سے پوشیدہ رہنے کی کوشش کرنا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے حضور توبہ و استغفار کرنے کی بجائے منکرین کا رویہ۔ منکرین حق نہ صرف انبیاء کی دعوت کا انکار کرتے بلکہ ہر اعتبار سے انبیاء کو اذیت پہنچانے اور انہیں زچ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا انبیاء ( علیہ السلام) کو اذیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب وقت کا پیغمبر انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، شرک سے بچنے اور گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے کہتا تو وہ لوگ وقت کے پیغمبر کا مذاق اڑانے کے ساتھ یہ بھی کرتے کہ جوں ہی پیغمبر کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے یا کہیں ملاقات ہوجاتی تو اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ اس حد تک ناروا تھا کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے اور چہروں کو چھپائے ہوئے انتہائی نفرت اور نکیر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ (نوح : ٧) ایسا ہی رویہ کفار مکہ میں سے کچھ لوگ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کرتے تھے۔ مکہ میں آنے والے ہر شخص کو یہ باور کرواتے کہ ہم میں ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے جو حقیقتاً جادوگر ہے اگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو تو اس کے قریب نہ جانا۔ (کبھی یوں بھی کرتے کہ) آپ کی مجلس میں بیٹھتے تو اپنے سینوں کو اپنی رانوں میں سکیڑ لیتے تاکہ آپ کی بات سے بےپرواہی کا اظہار کیا جائے۔ اس پر انہیں انتباہ کیا جارہا ہے کہ تم ایک داعی سے چھپ سکتے ہو لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں سے چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اللہ تمہارے دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ طفیل دوسی جو قبیلہ دوس کا سردار تھا وہ عمرہ کی غرض سے مکہ آیا مکہ کے لوگوں نے حسب عادت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کیا جس کے رد عمل میں طفیل دوسی نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں اس شخص کی آواز اچانک مجھے متاثر نہ کردے۔ لیکن اللہ کی شان دیکھیے جوں ہی اس نے طواف شروع کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطاف میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر نوافل میں قرآن مجید تلاوت کررہے ہیں۔ طفیل طواف کے ہر چکر میں آپ کو غور سے دیکھتا ہے۔ اس کا طواف مکمل ہوا تو وہ آپ کے چہر پر انوار اور قیام و سجود سے اس قدر متاثر ہوا۔ کہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہنے لگا کہ طفیل کیسی حماقت ہے ؟ تو اپنی قوم کا مانا ہوا شاعر، اپنے قبیلے کا سردار، اور لوگوں کے تنازعات میں فیصلے کرنے والا ہے۔ تجھے اس شخص کی بات سن کر اندازہ تو کرنا چاہیے کہ اس کا کلام کیسا ہے ؟ اس کے ساتھ ہی اس نے کانوں سے روئی نکالی اور ایک طرف کھڑا ہو کر رسول محترم کی تلاوت سنتا رہا جب آپ نوافل سے فارغ ہو کر گھر جانے لگے تو آپ کے پیچھے ہو لیا آپ اپنے دروازے کے قریب پہنچے تو عرض کرتا ہے۔ کہ اے محمد ! مجھے وہ سناؤ جو آپ نماز میں پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کی مہمان نوازی کرتے ہوئے قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کی طفیل اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ مسائل ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے اپنی باتوں کو چھپاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سینے کے رازوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے : ١۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور تم چھپاتے ہو وہ دل کے رازوں سے واقف ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم خفیہ کرتے ہو اور جو تم سرعام کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ اللہ غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ اللہ کے لیے ظاہر اور پوشیدہ برابر ہے۔ (الرعد : ١٠) ٤۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپا کر کرتے ہو اور جو تم سر عام کرتے ہو۔ (البقرۃ : ٧٧) ٥۔ اللہ آسمان کی ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٧۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کی سرگوشیوں سے بھی واقف ہے۔ (التوبۃ : ٧٨) ٨۔ تم بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو بھی جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٩۔ کہہ دیجیے اس (قرآن مجید) کو اس ذات نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار و رموز کو جانتا ہے۔ (الفرقان : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس اعلان کے بعد کہ یہ کتاب ایک فرمان الہی ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ہیں۔ اور ایک دانا اور باخبر خدا کی طرف سے ہیں۔ یہ بتایا جتا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود جب ڈرانے والے اور بشارت دینے والے نبی ان کو سناتے ہیں تو ان آیات کے حوالے سے بعض لوگوں کا رد عمل کس قدر غلط ہے۔ قرآن کریم ان کے رد عمل اور ان کی جسمانی حرکت کو یکجا کرکے پیش کرتا ہے کہ یہ لوگ سر جھکا لیتے ہیں اور اپنے سینوں کو ایک طرف موڑ لیتے ہیں تاکہ چھپ جائیں اور پہلو تہی کر جائیں۔ کیا خدا سے یہ چھپ سکتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش کس قدر عبث ہے۔ خدا تو اس وقت بھی سب کچھ جانتا ہے جب یہ بزعم خود کپڑے اوڑھ کر چھپے ہوتے ہیں بلکہ اللہ تو اس کرہ ارض پر ہر چلنے اور ینگنے والی چیز کو بھی جانتا ہے۔ وہ تو لطیف وخبیر ہے۔ یہ دو آیتیں (آیت 5 تا 6) وہ منظر پیش کرتی ہیں کہ اگر اسے اچھی طرح ذہن میں لایا جائے اور اس پر غور کیا جائے تو انسان مارے خوف کے کانپ اٹھے۔ یہ منظر کس قدر خوفناک ہے اور لرزا دینے والا ہے ، ذرا سوچو تو سہی کہ بندہ ضعیف اللہ سے چھپنا چاہتا ہے جبکہ اللہ کا علم اسے گھیرے ہوئے ہے۔ جب ان کو اللہ کی آیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ چھپتے ہیں لیکن کب چھپ سکتے ہیں ؟ اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ دیکھو ، یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ خبردار ، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔ شاید اس آیت میں بعض واقعات کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو کلام الہی سنان چاہ رہے ہیں اور یہ لوگ روگردانی کرکے اس سے چھپنا چاہتے ہیں اور اپنے سر لٹکائے گزرنا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ گویا وہ چھپ گئے ہیں اور انہوں نے نظر بچا کر اپنے آپ کو گزار لیا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات انہوں نے ایسی حرکت کی ہو۔ ایک مختصر فقرے میں بتا دیا جاتا ہے کہ ان کی یہ حرکت کس قدر بھونڈی ہے۔ اللہ جس نے یہ آیات نازل کی ہیں ہر حال میں ان کے ساتھ ہے ، یہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوں۔ قرآن کریم ایسے مخصوص انداز میں یہاں ان کی اس حرکت کو ان کی خفیہ ترین حسی صورت کو سامنے لا کر غلط بتاتا ہے کہ جب وہ رات کے وقت اپنے گھروں کے اندر ، رات کی تاریکی میں اپنے بستروں پر لیٹے ہوتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ نہیں چھپ سکتے۔ وہ تو حاضر و ناظر اور قاہر ہے۔ ہر ظاہر اور چھپی بات کو جانتا ہے۔ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ( خبردار ، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، ) ۔ بلکہ اللہ اس سے بھی زیادہ خفی باتوں سے واقف ہے۔ ان کے پردے علم الہی کے سامنے کیا رکاوٹ بنیں گے ؟ البتہ ایسے حالات میں صرف انسان خود یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اکیلا ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ یہ انداز تعبیر انسان کے وجدان کو چھوتا ہے ، اسے جگاتا ہے اور اسے جھنجھوڑتا ہے کہ وہ ذات باری کے بارے میں ذرا غور کرے اور سمجھے کہ ایک آنکھ ہر وقت اسے دیکھتی رہتی ہے۔ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں) جو راز دلوں میں چھپے ہیں ان کا بھی اسے علم ہے۔ حالانکہ یہ راز ابھی دل میں ہوتے اور دل کے ساتھ اس طرح جڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح مالک اپنی ملک سے جڑا ہوتا ہے یا دوست ، دوست کے ساتھ ، یعنی انتہائی رازداری کی وجہ سے ان کو ذات الصدور کہا گیا۔ جب اللہ ایسے دلی بھیدوں سے بھی واقف ہے ، تو پھر اور کیا ہے جو اس سے مخفی رہ سکتا ہے۔ غرض انسان کی کوئی حرکت اور اس کا کوئی سکون اس سے مخفی نہیں رہ سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اَلَا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ کا سبب نزول : پھر فرمایا (اَلَا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ ) (الایۃ) اس آیت کا سبب نزول بتاتے ہوئے معالم التنزیل (ص ٣٧٣ ج ٢) میں عبد اللہ بن شداد سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی جس کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب سے گزرتا تھا تو اپنا سینہ پھیر کر اور کمر کو خم دے کر اور سر کو جھکا کر اور چہرہ کو ڈھک کرجاتا تھا تاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے نہ دیکھ سکیں۔ اور حضرت قتادہ (رح) نے فرمایا کہ منافقین اپنے سینوں کو پھیر کر بیٹھتے تھے تاکہ اللہ کی کتاب نہ سن پائیں اور اللہ کا ذکر ان کے کانوں میں نہ آجائے اور بعض حضرات سے یوں بھی نقل کیا ہے کہ بعض کافر گھر میں داخل ہو کر پردہ ڈال کر اپنی کمر کو موڑ اور کپڑا اوڑھ کر لیٹ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا اللہ کو اب بھی معلوم ہوگا جو کچھ میرے دل میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خبردار وہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں۔ خوب سمجھ لیں کہ جب وہ اپنے کپڑے اوڑھتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اقوال اور افعال جو ظاہری چیزیں ہیں وہ ان کو اور دلوں کے ارادوں اور وسوسوں کو اور سب کو جانتا ہے آخری الفاظ یعنی (اِنَّہٗ عَلِیْمٌ م بِذَات الصُّدُوْرِ ) میں بتادیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں بغض اور کینہ میں مرے جاتے ہیں اسلام کے خلاف جو سازشیں کرتے ہیں اور تدبیریں سوچتے ہیں اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8: دوسرا دعویٰ :۔ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ یہ سورت کا دسرا دعوی ہے جو پہلے دعوے کے لیے بمنزلہ علت ہے یعنی چونکہ سب کچھ جاننے والا اور ساری کائنات کا خالق ومالک اور سب کا رازق صر اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے حاجات و مشکلات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ مشرکین جب آیات قرآنیہ اور دلائل توحید سنتے تو ان پر ان کا کوئی اثر نہ ہوتا اور ان کے سینوں میں وہی کفر و شرک کی نجاست باقی رہتی ان میں سے کچھ بطور نفاق ایمان کو ظاہر کردیتے اور ان کے دل کفر و شرک اور عداوت اسلام سے لبریز ہوتے اور ان کا خیال تھا کہ عداوت تو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے بھلا اسے کون معلوم کرسکتا ہے، نیز ان کا گمان تھا کہ جب وہ دروازے بند کر کے اور پردے لٹکا کر اور اپنے سینوں کو کپڑوں سے چھپا کر پوشیدہ طور پر اسلام کے خلاف عداوت رکھیں اور منصوبے بنائیں گے تو اس کا علم کسی کو نہیں ہوگا۔ روی ان طائفۃ من المشرکین قالوا اذا اغلقنا ابوابنا وارسلنا ستورنا واستغشینا ثیابنا وثنینا صدورنا علی عداوۃ محمد فکیف یعلم بنا (کبیر ج 17 ص 185) ۔ وہ اپنے سینوں کو دہرا کر کے اور خود کو کپڑوں میں لپیٹ کر اپنے دل کا کفر اور عداوت چھپانا چاہتے ہیں مگر ان تدبیروں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح ان کے علانیہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے اسی طرح وہ ان کے پوشیدہ اور خفیہ اعمال سے بھی باخبر ہے یہاں تک کہ ان کے دلوں کے چھپے بھید بھی اسے معلوم ہیں۔ لیکن صحیح ترین بات وہی ہے جو حضرت ابن عباس نے فرمائی ہے کہ یہ آیت بعض مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جن پر حیاء کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ استنجاء، جماع اور دیگر ضروریات بشری کے وقت بدن کو ننگا کرنے سے شرماتے تھے کہ آسمان والا ہم کو دیکھتا ہے اس پر اللہ نے فرمایا کہ بدن کھولتے وقت وہ خدا سے شرم کی وجہ سے جھک جاتے ہیں تو کیا جب وہ کپڑے پہنے ہوتے ہیں اس وقت اللہ ان کو نہیں دیکھتا ؟ (صحیح بخاری)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 خبردار رہو وہ لوگ اپنے سینوں کو جھکا کر دوہرا کرلیتے ہیں تاکہ اپنی باتوں کو خدا تعالیٰ سے چھپائیں یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت دوھرے ہوکر اپنے کپڑے اپنے ا وپر اوڑھا کرتے ہیں اور اپنے کپڑے اپنے اوپر لپیٹ لیتے ہیں وہ اس وقت ان سب باتوں کو جانتا ہے جو چھپا کر کرتے ہیں اور جو علانیہ کرتے ہیں یقینا سینوں کی تمام پوشیدہ باتوں سے خوب واقف ہے یعنی منکرین دین حق کی یہ عادت رہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف چھپ چھپ کر سازشیں کیا کرتے تھے اور جس قدر وہ چھپا کر باتیں کرتے تھے وہ سب وحی کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ظاہر ہوجاتی تھیں یہ چھپا کر بات کرنے کی مختلف ہیتیں اختیار کرتے تھے انہی ہئیتوں میں ایک یہ ہیئت بھی ہے کہ سینوں کو جھکا کر اور اوپر کپڑا اوڑھ کر باتیں کریں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس پیغمبر کے آدمی ادھر ادھر لگے رہتے ہیں اور یہی ہماری خفیہ باتیں پہونچاتے ہیں اس لئے یہ ہیئت اختیار کی تھی ہم نے سینے کو جھکا کر کپڑا اوڑھنے کو ایک ہی ہیئت قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافر کچھ مخالفت کی بات گھر میں کہتے اس کا جواب قرآن کریم میں اترتا سمجھتے کہ کوئی کھڑا سنتا ہے جاکر رسول خدا سے کہہ دیتا ہے تب سے ایسی بات کہتے تو کپڑا اوڑھ کر جھک کر دوہرے ہوکر اللہ تعالیٰ نے یہ تب نازل کیا 12 واضح رہے کہ آیت کے کئی شان نزول بیان کئے گئے ہیں ہم نے وہی طریقہ اختیار کرلیا جو حضرت شاہ صاحب نے اختیار فرمایا تھا اگرچہ بعض شان نزول روایتاً اس سے اوثق تھے۔