Surat Hood

Surah: 11

Verse: 54

سورة هود

اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰىکَ بَعۡضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اُشۡہِدُ اللّٰہَ وَ اشۡہَدُوۡۤا اَنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

We only say that some of our gods have possessed you with evil." He said, "Indeed, I call Allah to witness, and witness [yourselves] that I am free from whatever you associate with Allah

بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تو ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تواللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں ، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ الِهَتِنَا بِسُوَءٍ ... All that we say is that some of our gods have seized you with evil. They were saying, "We think that some of our idols have afflicted you with madness and insanity in your intellect because you are trying to stop them from being worshipped and defame them." ... قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللّهِ وَاشْهَدُواْ أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی تو جو ہمارے معبودوں کی توہین اور گستاخی کرتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتے، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبودوں نے تیری اس گستاخی پر تجھے کچھ کہہ دیا ہے اور تیرا دماغ ماؤف ہوگیا ہے۔ جیسے آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی اس قسم کے توہمات کا شکار ہیں جب انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ اشخاص اور بزرگ کچھ نہیں کرسکتے، تو کہتے ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی ہے اور خطرہ ہے کہ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کا وہ بیڑا غرق کردیں۔ نعوذ باللہ من الخرافات والاکاذیب۔ 45۔ 2 یعنی ان تمام بتوں اور معبودوں سے بیزار ہوں اور تمہارا یہ عقیدہ کہ انہوں نے مجھے کچھ کردیا ہے، بالکل غلط ہے، ان کے اندر یہ قدرت ہی نہیں کہ کسی کا مافوق الا سباب طریقے سے نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] معبودوں اور بزرگوں کی گستاخی کا انجام :۔ کوئی بھی نبی جب اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو اس پر ایمان لانے والے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں اور کثیر طبقہ ایسا ہوتا ہے جو اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور نبی اور ابتدائی معدودے چند مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اسے ایذائیں دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اسی کیفیت کو دیکھ کر قوم عاد نے ہود سے کہا کہ تمہاری اس پریشان حالی کا سبب ہمیں تو صرف یہ نظر آتا ہے کہ تم جو ہمارے معبودوں کی توہین اور ان کے حق میں گستاخی کرتے ہو تو انہوں نے اپنی اس توہین کی تمہیں یہ سزا دی ہے جیسا کہ پرستاران باطل کے عقائد میں عموماً یہ بات بھی شامل ہوتی ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے افسانے اور حکایتیں بھی تراشی جاتی ہیں اور یہ صرف اس دور کی بات نہیں آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے البتہ آج پتھر کے بتوں کی جگہ فوت شدہ بزرگوں نے لے لی ہے۔ مزاروں آستانوں کے متعلق اسی قسم کی حکایتیں آپ کو آج بھی اولیاء اللہ کے تذکروں سے مل سکتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہاں چار جملوں میں ہود (علیہ السلام) کی قوم نے سخت ترین لفظوں میں انھیں جھٹلا کر ان پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ پہلے جملے میں ان پر نبوت کی ایک بھی دلیل پیش نہ کرنے کا بہتان لگایا۔ دوسرے اور تیسرے جملے میں ” مَا “ نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ کرکے کچھ بھی ہوجائے اپنے معبودوں کو چھوڑنے اور ہود (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ : یہ چوتھی بات ہے جو انھوں نے ہود (علیہ السلام) کو جھٹلانے کے ساتھ مزید توہین اور مذاق کے لیے کہی۔ ” عَرَا یَعْرُوْ “ اور ” اِعْتَرٰی یَعْتَرِیْ “ پیش آنا، پہنچنا، باء کے ساتھ متعدی ہو کر پہنچانا کے معنی میں ہوگیا، یعنی ہمارے کسی ایک آدھ معبود نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے، اگر سب کی مار پڑجاتی تو معلوم نہیں تیرا کیا بنتا۔ افسوس ! یہی کسی بزرگ کی مار کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔ قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ ۔۔ : یعنی میرا تمہارے ان بتوں سے اور اللہ کے سوا کسی معبود سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ میں ہر آن ان کا انکار اور ان سے اظہار براءت کرتا ہوں۔ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ : یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ تم پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑگئی ہے تو ایک آدھ کے بجائے اگر تم اور تمہارے یہ سب معبود مل کر بھی میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں اور مجھے ذرا مہلت نہ دیں، ورنہ جان لو کہ تم بھی جھوٹے اور تمہارے یہ معبود بھی غلط۔ ہود (علیہ السلام) کا یہ کلام ان کی قوم کی دوسری فضول باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی جواب ہے کہ تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل، یعنی معجزہ نہیں لایا۔ معجزہ اور نشانی کیا چیز ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر معجزہ کی روح وہ چیلنج ہوتا ہے جو صاحب معجزہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثلاً صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی، ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ ان کے لیے آگ کا گلزار بن جانا، مگر یہ معجزہ بھی کیا کم ہے کہ اکیلا شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے کہ میں تم سب کو اور تمہارے خداؤں کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تم سب مل کر میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور اس قوم کو للکار رہا ہے جو نہایت سخت گیر اور رحم سے نا آشنا تھے، جن کے بارے میں آتا ہے : (وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ) [ الشعراء : ١٣٠] ” اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو۔ “ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اتنی قوت والے تھے کہ ان کے بعد ویسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا : (۽الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ) [ الفجر : ٨ ] ” وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔ “ جب طوفان سے ہلاک ہوئے تو : (كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ) [ الحاقۃ : ٧ ] ” گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے تھے۔ “ صرف ایک شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے، جو اس کے خون کی پیاسی ہے، جس کے معبودوں کو اور پوری قوم کو اس نے جاہل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کرلو اور پوری قوم باتیں تو بناتی ہے، مگر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکی، یہ کھلا معجزہ نہیں تو کیا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوْۗءٍ۝ ٠ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝ ٥٤ۙ ( اعتراک) ، فيه إعلال بالقلب، أصله اعتري، جاءت الیاء متحرّكة بعد فتح قلبت ألفا فأصبح اعتری- بألف أخيرة۔ وزنه افتعل، والیاء التي هي لام الکلمة منقلبة عن واو مجرّده عرا يعرو، والمصدر عروة . ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور آپ جن باتوں سے روکتے ہیں ہمارا تو خیال یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے آپ کے دماغ پر کچھ اثر ڈال دیا ہے اسی وجہ سے ان بتوں کو آپ برا کہتے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا میں میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے بتوں سے اور جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزار ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ ) یعنی ہمارا خیال تو یہی ہے کہ آپ جو ہمارے معبودوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں اس کی وجہ سے آپ کو ان کی طرف سے سزا ملی ہے اور آپ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ اسی لیے آپ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ (قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ) میں تمہارے ان جھوٹے معبودوں اور تمہارے شرک کے اس جرم سے بالکل بری اور بیزار ہوں۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم سے فرمائی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. The unbelievers presumably thought that because of his sacrilegious behaviour towards some saint or deity, Prophet Hud (peace be on him) had been smitten with madness. Consequently, both words of abuse and stones were hurled at him even though he had once enjoyed much esteem and respect. 60. In response to this. Hud (peace be on him) pointed out that it was true that he had not put forth specific evidence in support of his claim. He contended that rather than bring a set of minor evidence in support of his claim, he had instead brought the weightiest evidence of all - Almighty God Himself. For God and His entire universe bear witness to the truths he enunciated. The same evidence also established that the conceptions entertained by the unbelievers were pure concoctions and lacked even an atom's worth of truth. 61. The unbelievers were adamant. They would not forsake their deities just because Hud asked them to do so. In response, Prophet Hud (peace be on him) made it vehemently clear to them that he could not care less for their deities.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :59 یعنی تو نے کسی دیوی یا دیوتا یا کسی حضرت کے آستانے پر کچھ گستاخی کی ہوگی ، اسی کا خمیازہ ہے جو تو بھگت رہا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے اور وہی بستیاں جن میں کل تو عزت کے ساتھ رہتا تھا آج وہاں گالیوں اور پتھروں سے تیری تواضع ہو رہی ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :60 یعنی تم کہتے ہو کہ میں کوئی شہادت لے کہ نہیں آیا ، حالانکہ چھوٹی چھوٹی شہادتیں پیش کرنے کے بجائے میں تو سب سے بڑی شہادت اس خدائی کی پیش کر رہا ہوں جو اپنی ساری خدائی کے ساتھ کائنات ہستی کے ہر گوشے اور ہر جلوے میں اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جو حقیقتیں میں نے تم سے بیان کی ہیں وہ سراسر حق ہیں ، ان میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اور جو تصورات تم نے قائم کر رکھے ہیں وہ بالکل افترا ہیں ، سچائی ان میں ذرہ برابر بھی نہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :61 یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ۔ فرمایا میرا بھی یہ فیصلہ سن رکھو کہ تمہارے ان معبودوں سے میں قطعی بیزار ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: یعنی تم ہمارے جن بتوں کی خدائی کا اِنکار کرتے ہو، ان میں سے کسی نے تم سے ناراض ہو کر تم پر آسیب مسلط کردیا ہے جس کے نتیجے میں تم (معاذاللہ) ہوش کھو بیٹھے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ ٦٠۔ حضرت ہود کی بددعا سے قوم عاد میں تیس برس متواتر قحط رہا جب قحط سے قوم عاد کے لوگ بہت بری حالت میں ہوگئے تو حضرت ہود کو ان پر ترس آیا اس لئے حضرت ہود نے ان کو وہ نصیحت کی جس کا اس رکوع کے شروع میں ذکر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اے قوم عاد اللہ سے اپنے شرک اور بت پرستی کی توبہ استغفار کرو تاکہ اللہ تم پر رحم کرے اور مینہ برسادے اور تمہاری یہ قحط کی حالت رفع ہو مگر شیطان کسی کے دل پر قابو پالیتا ہے تو وہ حق بات کے ماننے کی جگہ حق بات کا الٹا جواب دیتا ہے اس لئے انہوں نے یہ الٹا جواب دیا کہ اے ہود تمہارے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور تم جو ایسی باتیں کرتے ہو اس کا سبب یہ ہے کہ تم اکثر ہمارے معبودوں کو برا کہتے رہتے ہو اس کے برے اثر سے تم مجنون اور دیوانے ہوگئے ہو آخر لاچار ہو کر حضرت ہود نے یہ جواب دیا کہ میں تو تم کو جو نصیحت کرتا تھا وہ کرچکا تم نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ تم کو ہلا کر کے تمہاری جگہ دوسری قوم زمین پر آباد کرے گا آخر وہی ہوا کہ سخت آندھی سے یہ لوگ غارت ہوئے اور قوم ثمود ان کی جگہ آباد ہوئی دوسرا جواب ہود (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یہ دیا کہ اے قوم میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم لوگ بھی اس کے گواہ رہو کہ میں تمہاری ان شرک کی باتوں سے بیزار ہوں کہ تمہارے بتوں کو یہ قدرت ہے جو انہوں نے مجھ کو دیوانہ بنادیا۔ تمہارے بتوں کو کچھ اختیار ہوتا تو وہ تمہارا قحط دفع کردیتے یا تمہاری عورتوں کو اچھا کرتے۔ اگر تمہارا یہی غلط خیال ہے کہ ان بتوں کو کچھ اختیار ہے تو تم اور تمہارے بت مل کر جھٹ پٹ مجھ کو کچھ صدمہ پہنچا دو میرا بھروسہ تو اس ذات پاک پر ہے جس کا اختیار ہر ایک پر چلتا ہے اور میں یہ خوب جانتا ہوں کہ میں سیدھے راستہ پر ہوں اور اللہ تعالیٰ کا انتظام بھی سیدھا ہے وہ کسی بےگناہ کو کسی آفت میں نہیں پھنسنے دیتا اور مجھے جو نصیحت کرنی تھی وہ میں تمہیں کرچکا تم نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں غارت کر کے تمہاری جگہ دوسری قوم زمین پر آباد کرے گا اور جب اللہ تم کو ہلاک کرنا چاہے گا تو تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے اور اللہ ایسا صاحب قدرت ہے کہ سب چیزیں اس کی نگہبانی میں ہیں تم مجھ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہو گے تو مجھ کو اللہ کی نگہبانی کافی ہے نبی کی بددعا سے قوم عاد پر جو دنیا میں سخت آندھی کا عذاب آیا اور عقبی میں وہ لوگ سخت عذاب میں گرفتار ہوئے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا کہ اس عذاب سے ہود اور ان کے ساتھ کے ایماندار لوگ تو بچ گئے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی عاد کی ہلاکت کے قصہ کا حاصل یہی ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن سخت آندھی ان لوگوں پر مسلط رہی پہلے پہل آندھی کو دیکھ کر یہ لوگ اپنے گھروں میں گھس گئے اور گھروں کے دروازے بند کر لئے آندھی نے ان کے گھروں کے دروازے توڑ ڈالے اور ان لوگوں کو پٹخ پٹخ کر ہلا کردیا یہ تو دینا کے عذاب کا حال ہوا۔ عقبیٰ کا ان لوگوں کا یہ حال فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ عذاب میں گرفتار رہیں گے۔ اب آگے مشرکین مکہ کو تنبیہ فرمائی کہ ملک شام کے سفر میں قوم ہود کی اجڑی ہوئی بستی دیکھ کر عبرت پکڑ و اور سمجھو کہ قوم کے سرکش سرداروں کا کہنا مان کر اللہ کے احکام اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ میں ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور جا پڑتے ہیں۔ { اخذ بنا صیتھا } عرب کا ایک محاورہ ہے جو فرمانبرداری کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزرچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم ہود جیسے ظالم بےانصاف لوگوں کو جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے اور پھر پکڑتا ہے تو بالکل ہلاک کردیتا ہے۔ ١ ؎ یہ حدیث قوم ہود کی مہلت اور ہلاکت کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٧٨ ج ٢ باب قولہ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:54) اعترک۔ اعتری۔ ماضی ۔ واحد مذکر غائب ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ اعتری یعتری (افتعال) اعتائ۔ کسی شے کی طرف قصد کرنا اور اس پر چھا جانا۔ اعتری (رنج والم کا) کسی پر چھا جانا۔ اعترک۔ تجھ پر غلبہ کرلیا ہے۔ تجھ پر چھا گیا ہے۔ عدو۔ عدی مادہ ۔ ان نقول میں ان نافیہ ہے۔ بسوئ۔ با تعدیہ کے لئے لایا گیا ہے۔ ان نقول ۔۔ بسوئ۔ ہم (کچھ) نہیں بولتے سوائے اس کہ ہمارے کسی خدا نے تم کو کسی خرابی میں مبتلا کردیا ہے۔ اشھد۔ اشھد یشھد اشھاد۔ گواہ کرنا۔ میں گواہ کرتا ہوں ۔ میں گواہ بناتا ہوں۔ اشھدوا۔ تم گواہ رہو۔ شھد یشھد (سمع) سے امر جمع مذکر حاضر۔ شھادۃ مصدر ۔ تشرکون من دونہ (تشرکون پر وقف نہ کیا جائے) تم شریک ٹھہراتے ہو اس کے (خدا کے) سوا۔ انی بریٔ۔ میں بیزار ہوں۔ میں بری الذمہ ہوں۔ میرا کوئی سروکار نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے افسوس ! یہی ” کسی بزرگ کی مار “ کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔ (از وحیدی) ۔ 2 ۔ یعنی میرا تمہارے ان بتوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ میں ان کی ہر آن مذمت کرنے کو تیار ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51: یہ مشرکین کا ایک نہایت ذلیل طعن تھا وہ چونکہ اپنے معبودان باطلہ کو متصرف و مختار مانتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے پجاریوں پر خوش ہو کر ان کو نفع پہنچاتے اور اپنے مخالفوں پر ناراض ہو کر ان کو تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کی توہین کرتے ہو اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ناراض ہو کر (عیاذاً باللہ) تمہیں دیوانہ بنادیا ہے اور تم پر ان کی مار پڑی ہے کہ مجنون کی طرح ہر وقت توحید توحید کی رٹ لگاتے رہتے ہو۔ اعتراک اصابک بعض اٰلھتنا بسوء بجنون وخبل (مدارک ج 2 ص 178) بسوء ای بجنون لسبک ایاھا عن ابن عباس وغیرہ (قرطبی ج 9 ص 51) ۔ انک شتمت الھتنا فجعلتک مجنونا وافسدت عقلک (کبیر ج 18 ص 13) ۔ 52: مشرکین کے مذکورہ طعن کے جواب میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور تم بھی میری بات سن لو اور گواہ رہنا کہ میں تمہارے معبودوں کو متصرف و مختار اور کارساز ماننے سے بری ہوں اور میں ان کو عاجز و بےبس سمجھتا ہوں اس لیے تم میرے خلاف جو چاہو منصوبہ بنا لو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیْ کیونکہ میرا بھروسہ اور اعتماد اللہ پر ہے جو میرا اور تم سب کا کارساز ہے اور ساری مخلوق اسی کے قبضہ و تصرف میں ہے اور وہی سب کا مالک ہے۔ ھُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا یہ قبضہ و تصرف سے کنایہ ہے۔ ای یصرفھا کیف یشاء و یمنعھا عما یشاء (قرطبی 9 ص 52)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی معبود نے تجھ کو بری طرح جھپٹ لیا ہے اور کسی خرابی میں مبتلا کردیا ہے ہود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہارے معبودوں میں سے کسی نے مجھ کو جنون میں مبتلا کردیا ہے تو میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں اور تم کو بھی اس بات پر گواہ رہو کہ ان تمام چیزوں میں بالکل بیزار ہوں جن کو تم نے خدا کے سوا عبادت میں شریک کر رکھا ہے یعنی مجھ کو جھپٹایا جنون یا آسیب کا اثر ہوگیا تو تم سے صاف طورپر کہتا ہوں اور خدا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی سن کر گواہ ہو جائو کہ میں ان معبودوں سے بالکل بیزار ہوں جن کو تم خدا کے سوا اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو۔