Surat Hood

Surah: 11

Verse: 56

سورة هود

اِنِّیۡ تَوَکَّلۡتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ ؕ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۵۶﴾

Indeed, I have relied upon Allah , my Lord and your Lord. There is no creature but that He holds its forelock. Indeed, my Lord is on a path [that is] straight."

میرا بھروسہ صرف اللہ تعالٰی پر ہی ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم مَّا مِن دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ اخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ... I put my trust in Allah, my Lord and your Lord! There is not a moving creature but He has the grasp of its forelock. Every creature is under His (Allah's) power and His authority. He is the Best Judge, the Most Just, Who does not do any injustice in His ruling. ... إِنَّ رَبِّي عَل... َى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ Verily, my Lord is on the straight path (the truth). For verily, He is upon the straight path. Verily, this argument contains a far-reaching proof and absolute evidence of the truthfulness of what Hud had come to them with. It also proves the falsehood of them worshipping idols that could not benefit nor harm them. Rather, these idols were inanimate objects that could not hear, see, befriend, or make enmity. The only One Who is worthy of having worship directed solely towards Him is Allah alone, without any partners. He is the One in Whose Hand is the sovereignty and He is in control of all things. There is nothing except that it is under His ownership, power and authority. Thus, there is no deity worthy of worship except Him and there is no Lord other than Him.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہر چیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود (علیہ السلام) کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہی... ں کرسکتے۔ 56۔ 2 یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی و بربادی کا باعث ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی ہر جاندار کی ہر حرکت اور ہر فعل کی باگ ڈور اللہ کے قبضہ اختیار میں ہے۔ کوئی جاندار اللہ کے تصرف اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا وہ جب چاہے اسے سزا بھی دے سکتا ہے اور موت سے بھی دو چار کرسکتا ہے۔ [٦٤] رب کے صراط مستقیم کا مطلب :۔ اس بےپناہ تصرف کے باوجود اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے صراط مستق... یم پر ہے کہ وہ کسی پر کبھی زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔ البتہ بسا اوقات اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف ضرور کردیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ پر گامزن ہیں اللہ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ : یہ جرأت ہود (علیہ السلام) میں کیسے پیدا ہوئی ؟ وہ خود فرماتے ہیں کہ میرا بھروسا اللہ پر ہے، جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے۔ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا : ” نَاصِیَۃٌ“ پیشانی کے بالوں کو کہتے ہیں، اگر کسی کو یہاں سے اچ... ھی طرح پکڑ لیا جائے تو وہ ہل نہیں سکتا، بلکہ پوری طرح پکڑنے والے کی گرفت میں ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( لَنَسْفَعًۢا بالنَّاصِيَةِ ) [ العلق : ١٥ ] ” تو ہم ضرور اسے پیشانی کے بالوں کے ساتھ گھسیٹیں گے۔ “ مجرموں کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنی علامت کے ساتھ پہچانے جائیں گے : (فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ ) [ الرحمٰن : ٤١ ] ” پھر (ان کو) پیشانی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔ “ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرعی عقیدے اور شرعی احکام میں تمہیں اختیار دیا ہے کہ مانو گے تو انعام پاؤ گے، نہ مانو گے تو مارے جاؤ گے۔ اس پر تم اکڑ گئے اور اپنے آپ کو ہر طرح مرضی کا مالک سمجھ لیا۔ سب سے پہلے تو شرعی احکام پر عمل میں اختیار دینے والے مالک کی غداری کرکے اس کی مخلوق کو اس کے شریک بنا بیٹھے، پھر اس کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، اس کے رسول کو جھٹلایا۔ یہ نہ سوچا کہ تھوڑا سا اختیار رکھنے کے باوجود صرف تم ہی نہیں بلکہ پوری مخلوق مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہے اور اس کی پیشانی کے بال اس نے پکڑ رکھے ہیں، وہ اس کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔ اب تم جس طرح شرعی احکام میں اپنا اختیار غلط استعمال کرتے ہوئے اکڑ کر کہتے ہو، ہم اللہ کو نہیں مانتے، ہمارا داتا فلاں اور دستگیر فلاں ہے، ہم رسول کو نہیں مانتے، ہمارا سائیں مرشد فلاں ہے، اگر واقعی تم ایسے ہی آزاد ہو تو ان احکام پر بھی اکڑ کر دکھاؤ جن میں وہ ” کُنْ “ کہتا ہے تو وہ فوراً واقع ہوجاتے ہیں۔ جب بیمار ہوتے ہو تو یہ کہہ کر دکھاؤ کہ کوئی ہمیں بیمار نہیں کرسکتا، کوئی ہمیں بوڑھا نہیں کرسکتا، کوئی ہمارے بال سفید نہیں کرسکتا۔ اگر تم اور تمہارے خدا ایسے ہی زبردست ہیں تو اللہ کے حکم سے دل کی حرکت رکنے پر اسے چالو کر کے دکھاؤ۔ اسی طرح موت کے وقت بھی اکڑ جاؤ کہ جاؤ ہم نہیں مرتے۔ یا تمہارے شریک کہیں ہم اپنے بندے کو مرنے نہیں دیں گے۔ معلوم ہوا کہ تم اس تھوڑے سے اختیار کے باوجود مکمل طور پر میرے رب کے مکمل قبضے میں ہو، پھر جب خود اس نے مجھے بھیجا ہے اور وہ میرا پشت پناہ ہے اور اسی پر میرا بھروسا ہے، تو مجھے تمہارا کیا ڈر ہے، جاؤ جو مرضی کرلو۔ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ” جو سیدھی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔ “ (موضح) سورة نحل میں فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ) [ النحل : ٩ ] ” اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا ہے) اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں۔ “ دوسرا یہ کہ اگرچہ ہر جاندار پر اس کا قبضہ ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کرسکتا ہے، مگر وہ صراط مستقیم پر ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۝ ٠ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۝ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝ ٥٦ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اع... تمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ نصي النَّاصِيَةُ : قُصَاصُ الشَّعْر، ونَصَوْتُ فُلاناً وانْتَصَيْتُهُ ، ونَاصَيْتُهُ : أخذْتُ بِنَاصِيَتِهِ ، وقوله تعالی: ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود/ 56] . أي : متمکِّنٌ منها . قال تعالی: لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق/ 15- 16] . وحدیثُ عائشة رضي اللہ عنها ( ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) . أي : تَمُدُّونَ ناصیته . وفلان نَاصِيَةُ قومه . کقولهم : رأسُهُمْ وعَيْنُهُمْ ، وانْتَصَى الشَّعْرُ : طَالَ ، والنَّصْيُ : مَرْعًى مِنْ أفضل المَرَاعِي . وفلانٌ نَصْيَةُ قومٍ. أي : خِيارُهُمْ تشبيهاً بذلک المَرْعَى. ( ن ص ی ) الناصیۃ کے معنی پیشانی کے بالوں کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ نصرت فلانا وانتصیتہ وناصیۃ میں نے ا سے پیشانی کے بالوں سے پکڑا اور آیت کریمہ : ۔ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود/ 56] جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے ۔ میں اخذ ناصیۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چلنے پھرنے والی چیز پر پوری قدر ت حاصل ہے لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق/ 15- 16] تو ہم اس کے پیشانی کے بال پکڑے کو گھسیٹیں گے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ۔ ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) تم میت کی ناصیۃ کیوں باندھتے ہو اور فلان راسھم وعینھم کی طرح فلان ناصیۃ قومہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سردار کے ہیں ۔ انتصی الشعر بالوں کا بڑھ جانا النصی ایک قسم کا عمدہ چارہ ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ کے طور کہا جاتا ہے : ۔ فلان نصیبۃ القوم کہ فلاں ان میں بہتر ہے ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) میں نے اپنے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے جو میرا بھی خالق ہے اور تمہارا بھی اور میرا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی، جتنے روئے زمین پر چلنے والے ہیں سب کی دور اس کے ہاتھ میں ہے، وہی موت، وحیات دیتا ہے یا یہ کہ تمام چیزیں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جو چاہتا ہے سو کرتا ہے یقیناً میرا رب...  صراط مستقیم پر چلنے سے ملتا ہے یا یہ کہ وہ مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے جو اس کے نزدیک پسندیدہ راستہ ہے اور وہ دین اسلام ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا ) یعنی ہر جاندار کی قسمت اور تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حضور سے بھی ایک مشہور دعا میں یہ الفاظ منقول ہیں : (فِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ) (١) یعنی اے اللہ ! میں تیرے ہی قبضۂ قدرت میں ہوں ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ (اِنَّ رَبِ... ّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) اگر اللہ تک رسائی حاصل کرنی ہے اگر اسے پانا ہے تو وہ توحید اور عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر ہی ملے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63. Whatever God does is absolutely right. All His actions are rightly- directed and sound. None of His actions are arbitrary. He governs the universe, and metes out full justice to all. It is, thus, impossible for someone to follow erroneous doctrines, and to engage in evil-doing and still attain salvation. Nor is it possible that someone who is truthful and righteous will end up a loser.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :62 یہ ان کے اس فقرے کا جواب ہے کہ ہمارے معبودوں کی تجھ پر مار پڑی ہے ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو یونس ، آیت ۷۱ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سیدھا راستہ مقرر کردیا ہے، اور اسی پر چلنے سے خدا ملتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:56) ھو۔ ای اللہ۔ اخذ بناصی تھا۔ پکڑنے والا ہے اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑے ہوئے اس کو اس کی چوٹی سے۔ یعنی وہ سب پر قدرت رکھتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے اس پر اپنا تصرف رکھتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی جو سیدی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔ (موضح) ۔ یا یہ کہ گو ہر جاندار پر اس کا قبضہ ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کرسکتا ہے مگر وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی سب اس کے قبضے میں ہیں بے اس کے حکم کے کوئی کان نہیں ہلاسکتا۔ 5۔ پس تم بھی اس صراط مستقیم کو اختیار کرو تاکہ مقبول ومقرب ہوجاو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تیسرا جواب۔ قوم نے جب کھلے الفاظ میں بار بار یہ کہا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اور تمہاری دعوت کو دعوت حق سمجھنے کی بجائے اپنے بزرگوں کی بددعا اور ان کی سزا کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ تو حضرت ھود (علیہ السلام) نے یکے بعد تین جواب د... ئیے۔ ١۔ میں اللہ اور تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا تمہارے شرک کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ٢۔ میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرگزرو۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے، وہی میری حفاظت کرے گا۔ ٣۔ اگر تم نے واقعی مجھ سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھو میں نے اپنے رب کا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقہ سے پہنچا دیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا اب تم زیادہ دیر تک زمین پر نہیں رہ سکو گے۔ میرا رب تمہیں مٹا کر کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ لائے گا، تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت ” حَفِیْظٌ“ استعمال کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی طاقت سے باہر نہیں بیشک تم دنیاوی وسائل، افرادی قوت اور جسمانی طاقت کے اعتبار سے ساری دنیا سے بڑھ کر ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت کے مقابلے میں تمہارا کوئی بس نہیں  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53: اس کی متعدد ترکیبیں ہیں۔ عَلٰی کا متعلق فعل محزوف ہے ای یدل اور صراط مستقیم سے توحید مراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ دین توحید کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ یا صراط مستقیم سے مطلقاً حق مراد ہے یا عدل و انصاف اور عَلیٰ کا متعلق کائن وغیرہ محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ حق اور سچائی پر ہے وہ اس سے کبھی بھی عدول...  نہیں فرماتا۔ یا وہ اگرچہ قادر مطلق ہے لیکن پھر بھی مجرموں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزاء و سزا دیتا ہے۔ یا رَبِّیْ سے پہلے مضاف محذوف ہے ای دین ربی یعنی میرے رب کا دین صراط مستقیم ہے۔ ان ربی علی الحق لا یعدل عنہ او ان ربی یدل علی صراط مستقیم (مدارک ج 2 ص 148) یعنی ان ربی و انکان قادرا وانتم فی قبضتہ کالعبد الذلیل فانہ سبحانہ وتعالیٰ لایظلمکم ولا یعمل الا بالاحسان والانصاف والعدل۔ وقیل لمعناہ ان دین ربی ھو الصراط المستقیم (خازن و معالم ج 3 ص 238) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 یقینا میں نے تو اس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر رکھا ہے جو میرا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی مالک ہے جتنے بھی روئے زمین پر چلنے والے ہیں ان سب کی چوٹی اس کے ہاتھ میں ہے اور ان کی پیشانی کے بال اس نے پکڑ رکھے ہیں بلا شبہ میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے یعنی جو کچھ تم سے کیا جائے وہ تم بھی اور تمہارے بت بھ... ی میرے ساتھ کر گزرو میں نے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کر رکھا ہے جس کا ہر ذی روح پر قبضہ ہے پیشانی کے بال جب کسی کے پکڑ لئے جائیں تو مراد اس سے قبضہ ہوتا ہے یہ بھی نبوت کی ایک دلیل ہے کہ ایک اکیلا شخص تمام قوم کو چیلنج کردے نبی کے علاوہ کون ایسا کرسکتا ہے سیدھی راہ اسلام ہی کی راہ ہے اس پر چلنا ہی پروردگار سے وصال کا موجب ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جو سیدھی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔  Show more