Surat Hood

Surah: 11

Verse: 59

سورة هود

وَ تِلۡکَ عَادٌ ۟ ۙ جَحَدُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ عَصَوۡا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿۵۹﴾

And that was 'Aad, who rejected the signs of their Lord and disobeyed His messengers and followed the order of every obstinate tyrant.

یہ تھی قوم عاد ، جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر ایک سرکش نافرمان کے حکم کی تابعداری کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُواْ بِأيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَهُ ... Such were `Ad (people). They rejected the Ayat of their Lord, and disobeyed His Messengers, This means they disbelieved in the proofs and revelations (of Allah) and they disobeyed the Messengers of Allah. This is due to the fact that whoever disbelieves in a Prophet, then verily, he has disbelieved in all of the Prophets, peace be upon them. There is no difference between any one of them, in the sense that it is necessary to believe in all of them. Therefore, `Ad disbelieved in Hud and their disbelief was considered disbelief in all of the Messengers. ... وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ and followed the command of every proud, obstinate. This means that they abandoned following their rightly guided Messenger and they followed the command of every proud, obstinate person. Thus, they were followed in this life by a curse from Allah and His believing servants whenever they are mentioned. On the Day of Resurrection a call will be made against them in front of witnesses.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 عاد کی طرف صرف ایک نبی حضرت ہود (علیہ السلام) ہی بھیجے گئے تھے، یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس سے یا تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک رسول کی تکذیب، یہ گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ کیونکہ تمام رسولوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم اپنے کفر اور انکار میں اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد اگر ہم اس قوم میں متعدد رسول بھی بھیجتے، تو یہ قوم ان سب کی تکذیب ہی کرتی۔ اور اس سے قطعاً یہ امید نہ تھی کہ وہ کسی بھی رسول پر ایمان لے آتی۔ یا ہوسکتا ہے کہ اور بھی انبیاء بھیجے گئے ہوں اور اس قوم نے ہر ایک کی تکذیب کی۔ 59۔ 2 یعنی اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی لیکن جو لوگ اللہ کے حکموں سے سرکشی کرنے والے اور نافرمان تھے، ان کی اس قوم نے پیروی کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی جو قد آور، مضبوط اور شاہ زور قوم اس طمطراق سے گزر بسر کر رہی تھی اور اس کا ڈنکا بجتا تھا ان کے تباہ شدہ کھنڈرات کو دیکھ کر ان سے عبرت حاصل کرو کہ اللہ کی آیات سے انکار کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی تھی اور رسول تو ان کی طرف صرف ہود آئے تھے لیکن اللہ نے رسولوں کا لفظ غالباً اس لیے استعمال فرمایا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہی انداز کی رہی ہے جو توحید اور اصول دین پر مشتمل ہوتی ہے لہذا ایک رسول کی تکذیب حقیقتاً سب رسولوں کی تکذیب کے مترادف ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتِلْكَ عَادٌ : اور یہ تھے عاد، اس سے مراد ان کے علاقے بھی ہوسکتے ہیں اور وہ قوم بھی جن کا واقعہ بیان ہوا۔ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ :” جَحَدُوْا “ کا معنی ہے دلیل سے ثابت شدہ بات کا انکار کردینا۔ آیات سے مراد کائنات میں رب تعالیٰ کی توحید کی بیشمار نشانیاں، ہود (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی آیات اور ان کا تنہا پوری قوم کے سامنے بےخوف ہو کر ڈٹ جانا وغیرہ ہیں۔ غرض اس بدنصیب قوم نے واضح نشانات، معجزات اور آیات سمجھ میں آجانے کے باوجود انھیں ماننے سے صاف انکار کردیا۔ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ : انھوں نے اگرچہ ہود (علیہ السلام) ہی کی نافرمانی کی، لیکن چونکہ ایک پیغمبر کی نافرمانی تمام پیغمبروں کی نافرمانی ہے، اس لیے فرمایا : ” انھوں نے اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ “ (شوکانی) وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ : ” عَنِيْدٍ “ سخت عناد والا، ہر وہ شخص جو حق قبول نہ کرے اور اس کے ساتھ شدت کے ساتھ اس کی مخالفت بھی کرے، مراد قوم کے سردار ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتِلْكَ عَادٌ۝ ٠ ۣۙ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ۝ ٥٩ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اور یہ قوم عاد تھی جنہوں نے اپنے رب کی ان آیات کا انکار کیا جو حضرت ہود (علیہ السلام) ان کے پاس لے کر آئے تھے اور توحید میں رسولوں کی نافرمانی کی اور تمام تر ایسے لوگوں کے کہنے پر چلتے رہے جو ظالم وضدی اور حق سے دور ہونے والے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَتِلْكَ عَادٌ ڐ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ ) یہاں پر ان تمام انبیاء کو بھی رسول کہا گیا ہے جو حضرت ہود سے پہلے اس قوم میں مبعوث ہوئے۔ اکثر اس طرح ہوتا رہا ہے کہ کسی قوم میں پہلے بہت سے انبیاء کرام ان کے معلمین کی حیثیت سے آتے رہے اور پھر آخر میں ایک رسول آیا۔ اور جیسا کہ قبل ازیں بھی نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے کہ قرآن میں یہ دونوں الفاظ اگر الگ الگ آئیں تو ایک دوسرے کی جگہ پر آسکتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ دونوں الفاظ اکٹھے ایک جگہ آئیں تو پھر ان میں سے ہر لفظ اپنے خاص معنی دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65. It is true that only one Messenger (viz. Hud) had come to them. However, his teachings were the same as those of all the other Messengers who had been raised among different nations and at different times. Hence their rejection of Hud's message is referred to here as a rejection of all Messengers.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :65 اگرچہ ان کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا ، مگر جس چیز کی طرف اس نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں خدا کے رسول پیش کرتے رہے ہیں ، اسی لیے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:59) جحدوا۔ انہوں نے انکار کیا۔ وہ منکر ہوئے۔ جحدو جحودا۔ سے (باب فتح) ماضی جمع مذکر غائب۔ جبار۔ سرکش۔ زبردست۔ دوسرے کو مجبور کردینے والا۔ متکبر۔ خود اختیار۔ جبار ذات باری تعالیٰ کے لئے صفت مدح ہے۔ اور انسان کے لئے صفت ذم۔ عنید۔ عناد رکھنے والا۔ مخالف۔ برازن فعیل بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے اس کی جمع عند ہے عنید۔ ضدی جو حق کو پہنچاننے جاننے سے انکار کرے۔ جو جان بوجھ کر حق کا انکار کرے۔ اذا ابی ان یقبل الشیء وان عرفہ جانتے ہوئے کسی شے کو ماننے سے انکار کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ انہوں نے اگرچہ ہود ( علیہ السلام) ہی کی نافرمانی کی، لیکن چونکہ ایک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی تمام پیغمبروں کی نافرمانی ہے اس لئے فرمایا کہ انہوں نے ” اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ (شوکانی) ۔ 8 ۔ ” عنید “ ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو نہ حق کو قبول کرے اور نہ اس کا مطیع ہو۔ مراد قوم کے سردار ہیں۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی دلائل اور احکام کا انکار کیا۔ 1۔ یہ جو فرمایا کہ عاد نے رسولوں کا کہنا نہ مانا حالانکہ ان کے پاس صرف ہود (علیہ السلام) کا تشریف لانا ثابت ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ پیغمبر مسئلہ توحید میں سب متفق ہیں جب ہود (علیہ السلام) کا کہنا نہ ماناتوجتنے پیغمبر ان سے پہلے گزرے تھے بلکہ جو آئندہ بھی ہوئے ان سب ہی کی مخالفت ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ انبیاء (علیہم السلام) کی پیروی کے بجائے انہوں نے اپنے سرکش اور معاند سرداروں کی پیروی کی جو انہیں شرک کی دعوت دیتے اور پیغمبروں کو جھٹلانے کی ترغیب دیتے تھے۔ وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہدایت سے محروم رہے اور دنیا وآخرت میں ملعون و مقہور ہوئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 اور یہ تھی قوم عاد جنہوں نے اپنے رب کے دلائل اور احکام کا انکار کیا اور خدا کے رسولوں کی نافرمانی کی اور سرکش مخالف و معاند اور ہر ظالم و ضدی کے کہنے پر چلنے رہے چونکہ ایک رسول کی مخالفت سب رسولوں کی مخالفت کو مستلزم ہے اس لئے رسول کی جمع فرمائی۔