Surat Hood

Surah: 11

Verse: 64

سورة هود

وَ یٰقَوۡمِ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ اٰیَۃً فَذَرُوۡہَا تَاۡکُلۡ فِیۡۤ اَرۡضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابٌ قَرِیۡبٌ ﴿۶۴﴾

And O my people, this is the she-camel of Allah - [she is] to you a sign. So let her feed upon Allah 's earth and do not touch her with harm, or you will be taken by an impending punishment."

اور اے میری قوم والو! یہ اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک معجزہ ہے اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑ لے گا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Salih said: وَيَا قَوْمِ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ ايَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ "And O my people! This she-camel of Allah is a sign to you, so leave her to graze in Allah's land, and touch her not with evil, lest a near torment should seize you." Allah tells: فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ

ان تمام آیتوں کی پوری تفسیر اور ثمودیوں کی ہلاکت کے اور اونٹنی کے مفصل واقعات سورہ اعراف میں بیان ہو چکے ہیں یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انھیں تاکید کردی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ناقۃ اللہ کا کھانا پینا :۔ اس قوم نے خود اس معجزہ کا مطالبہ کیا تھا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے۔ سیدنا صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں یک لخت جنبش ہوئی پھر ایک شگاف سے ایک بہت دیو ہیکل اونٹنی برآمد ہوئی جس نے کچھ عرصہ بعد بچہ جنا اس طرح اس قوم کا منہ مانگا معجزہ کا مطالبہ پورا ہوا اسی وجہ سے اس اونٹنی کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اونٹنی کو تکلیف پہنچانے پر تنبیہ :۔ یہ دیو ہیکل اونٹنی اتنا پانی پیتی تھی جتنا اس بستی کے سارے جانور پیتے تھے اور اتنا ہی چارہ بھی کھا جاتی تھی۔ اس کی خوراک کے سلسلہ میں قوم کو ایک نئی تشویش لاحق ہوگئی تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ یہ فرما دیا کہ کنوئیں سے ایک دن تو اونٹنی پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن دوسرے سب جانور، اور چرنے چگنے میں اس اونٹنی کو مکمل آزادی حاصل ہوگی جہاں سے وہ چاہے چرتی پھرے۔ ساتھ ہی صالح (علیہ السلام) نے قوم کو متنبہ کردیا کہ اگر تم نے کسی برے ارادہ سے اس اونٹنی کو ہاتھ لگایا تو تمہیں سخت عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ : اس اونٹنی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عظمت کے بیان کے لیے ہے، ورنہ ہر اونٹنی اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ قرآن مجید میں اس کے اوصاف یہ آئے ہیں کہ قوم ثمود کے معجزہ طلب کرنے پر صالح (علیہ السلام) کو یہ اونٹنی ملی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ان کے کنویں کا پانی پینے کی باری مقرر کی گئی کہ ایک دن صرف وہ پیے گی اور ایک دن دوسرے تمام لوگوں کے جانور پانی پییں گے۔ اپنی باری کے دن لوگ جتنا پانی چاہیں نکال کر رکھ لیں، مگر اونٹنی کی باری کے دن صرف وہی پیے گی۔ دیکھیے سورة شعراء (١٥٤ تا ١٥٦) وہ جہاں چاہے چرے، کوئی شخص اسے اپنے کھیت سے یا کسی بھی جگہ سے چرنے سے نہیں روکے گا اور یہ کہ اگر کسی نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو انھیں قریب ہی عذاب عظیم آپکڑے گا۔ (آیت زیر تفسیر) یہاں ” عَذَابٌ قَرِيْبٌ“ ہے جبکہ سورة شعراء (١٥٦) میں ” عَذَابٌ یَوْمٍ عَظِیْمْ “ ہے۔ لَكُمْ اٰيَةً : اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اونٹنی ایک معجزہ تھی۔ ایک پورا دن اس کے پینے کے لیے باری مقرر کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی، مگر وہ کیسے وجود میں آئی ؟ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر مجھے نہیں ملا۔ بہت سی تفاسیر کے مطالعے کے بعد کم ازکم میری تسلی تو شیخ عبد الرحمن بن ناصر بن سعدی (رض) کی تفسیر ” تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان “ کے کلام سے ہوئی، جو انھوں نے سورة اعراف میں قوم ثمود کی اونٹنی کے متعلق فرمایا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں : ” جان لو کہ اکثر مفسرین یہ قصہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے نکلی، جس طرح کی اونٹنی نکالنے کا انھوں نے صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حاملہ ہو اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ اونٹنی کی صورت میں نکلی۔ اسے حاملہ اونٹنیوں کی طرح ولادت کا درد ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ جس وقت انھوں نے اونٹنی کو کاٹا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور تین دفعہ اونٹ کی طرح بلبلایا، چناچہ پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں غائب ہوگیا اور یہ کہ صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہیں جو تین دن ملے ہیں ان میں سے پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا۔ “ شیخ سعدی (رض) فرماتے ہیں : ” یہ تمام باتیں اسرائیلیات سے ہیں، جنھیں اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں اور قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان باتوں میں سے کسی ایک پر کسی طرح دلالت کرتی ہو، بلکہ اگر یہ باتیں صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ ان میں ایسی عجیب باتیں، عبرتیں اور نشانیاں ہیں جن کا ذکر ساتھ ہی ہونا تھا۔ اب اگر یہ ایسے لوگوں کی طرف سے آئیں جن پر اعتماد ہو ہی نہیں سکتا تو کیسے قبول ہوسکتی ہیں ؟ بلکہ ان میں سے بعض تو قرآن مجید کی تصریحات ہی سے درست معلوم نہیں ہوتی ہیں، مثلاً صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر ان سے فرمایا : (تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ ) تمتع خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کو کہتے ہیں۔ وہ لوگ صالح (علیہ السلام) کو اور عذاب آنے کو جھٹلا رہے تھے بلکہ بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر ان کے چہرے ہی زرد، سرخ اور سیاہ ہوگئے ہوں تو انھیں تین دن خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کی مہلت کیا خاک ملی۔ یہ قرآن کے صاف خلاف نہیں تو کیا ہے ؟ ہدایت کے لیے تو قرآن کافی ہے، ہاں، اگر کوئی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہو، تو وہ کتاب اللہ سے نہیں ٹکرائے گی، وہ سر آنکھوں پر اور اسے ماننے کا قرآن نے حکم دیا ہے : (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) [ الحشر : ٧ ] ” اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ۔ “ اور پہلے گزر چکا ہے کہ قرآن کی تفسیر اسرائیلیات سے جائز نہیں، خواہ ان سے وہ بات نقل کرنا جائز بھی ہو، جس کا جھوٹا ہونا یقینی نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے معانی یقینی ہیں، ان کی تفسیر ایسی باتوں سے کرنا جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُصَدِّقُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ ) [ بخاری، التفسیر، باب : (قولوا ٰامنا باللہ ۔۔ ): ٤٤٨٥] ” نہ انھیں سچا سمجھا جائے نہ جھوٹا۔ “ ایسا کام ہے جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ “ تمتع کے بارے میں ایک شعر ملاحظہ فرمائیے ؂ تَمَتَّعْ مِنْ شَمِیْمِ عَرَارِ نَجْدٍ فَمَا بَعْدَ الْعَشِیَّۃِ مِنْ عَرَارِ ” نجد کی ” عرار “ نامی بوٹی کی خوشبو سے خوب فائدہ اٹھا لو، کیونکہ آج سہ پہر کے بعد پھر ” عرار “ نہیں ملے گی۔ “ (کیونکہ شاعر وہاں سے کوچ کر رہا تھا)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيٰقَوْمِ ہٰذِہٖ نَاقَــۃُ اللہِ لَكُمْ اٰيَۃً فَذَرُوْہَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللہِ وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ۝ ٦٤ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجر ات/ 11] الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اور اے قوم یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لیے دلیل بنا کر ظاہر کی گئی، اس کو حجر کی سرزمین میں چھوڑ دو تمہارے ذمہ اس کی کسی قسم کی کوئی رکھوالی نہیں اور اس کو تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا کہیں تمہیں فورا یعنی تین دن کے بعد عذاب آگھیرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ) وہ عذاب اب دور نہیں ہے اور اسے آتے کچھ دیر نہ لگے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٤۔ ٦٨۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے معجزہ طلب کیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے خدا سے دعا کی اللہ نے قبول کی اور پتھر کے اندر سے ایک اونٹنی پیدا کردی۔ اونٹنی نے اسی وقت ایک بچہ دیا وہ بچہ بھی اسی وقت ماں کے برابر ہوگیا۔ صالح (علیہ السلام) نے قوم سے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے اسے چھوڑ دو جہاں اس کا جی چاہے گا چرے گی تم اسے نہ ستانا اور نہ بری طرح چھیڑنا اگر ستاؤ گے تو یاد رکھو بہت جلد عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ مگر یہ قوم کب ماننے والی تھی ایک شخص قدار نامی نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تم نے میری بات نہ مانی آخر اونٹنی کو ستایا اب تم لوگ دنیا میں اور تین روز کھا پی لو اور اپنے اپنے گھروں میں عیش و آرام کرلو آج کے چوتھے دن تم پر عذاب آئے گا اور اس کو ذرا بھی جھوٹ نہ سمجھو خدا کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا جس روز ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹیں وہ بدھ کا دن تھا اتوار کی رات کو وہ سب سوتے تھے کہ یک بیک آسمان سے اس زور کی آواز آئی کہ ان بدبختوں کے کلیجے پارہ پارہ ہوگئے اور جس طرح پڑے سوتے تھے ویسے کے ویسے مر کر رہ گئے اور بالکل پیوند زمین ہوگئے۔ گویا یہ شہر ان سے بسا ہی نہ تھا اور اللہ پاک نے صالح (علیہ السلام) اور مومنین کو اپنی رحمت سے اس عذاب سے بچا لیا اور ان لوگوں کی طرح رسوائی سے الگ رکھا پھر خدا نے فرمایا کہ دیکھو قوم ثمود نے توحید کا انکار کیا اور کافر کے کافر ہی رہے اسی واسطے خدا کی رحمت سے دور پڑگئے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو گزر چکی ہے کہ ایسے نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے مہلت دیتا ہے۔ اور پھر جب پکڑ لیتا ہے تو بالکل ہلاک کردیتا ہے ثمود کی مہلت اور ہلاک کی بھی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:64) یقوم ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ۔ یہ کفار ثمود کے مطالبہ فات بایۃ ان کنت من الصدقین (26:154) کے جواب میں ہے۔ ایۃ بوجہ حال کے منصوب ہے۔ فذروھا۔ تم اس کو چھوڑ دو ۔ امر۔ جمع مذکر حاضر ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ تاکل۔ فعل مجزوم۔ جواب طلب کی وجہ سے ہے۔ فیاخذکم۔ میں ف حرف ناصبہ ہے جو فعل مضارع پر تبقدیر ان داخل ہوا کرتی ہے۔ جیسے زرنی فاکرمک۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ ” ایۃ “ سے مراد یہاں معجزہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت صالح ( علیہ السلام) سے قوم نے معجزہ مانگا، حق تعالیٰ نے ان کی دعا سے پتھر میں سے اونٹنی نکالی۔ اسی وقت اس نے بچہ دیا، اسی وقت وہ ماں کے برابر ہوگیا حضرت صالح نے فرمایا کہ اس کی تعظیم کرتے رہو تب تک دنیا کا عذاب نہ ہوگا جہاں وہ جاتی کھانے کو یا پینے کو سب جانور بھاگ جاتے اور آدمی کوئی اس کو نہ ہانکتا۔ (کذافی التفاسیر) ۔ 9 ۔ اگرچہ ان میں سے صرف ایک شخص نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا لیکن اسے چونکہ سب کی رضامندی اور تائید حاصل تھی اس لئے سبھی کو اس جرم کا مرتکب قرار دیا گیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 64 تا 68 ناقۃ (اونٹنی) ذرو (چھوڑ دو ، چھوڑے رکھو) تاکل (وہ کھائے) ارض اللہ (اللہ کی زمین) لاتمسوا (تم ہاتھ نہ لگانا) بسوء (برائی سے، بری نیت سے) عقروا (انہوں نے قتل کر ڈالا) تمتعوا (تم فائدہ اٹھا لو) ثلثۃ ایام (تین دن) غیر مکذوب (جھوٹا ہونے والا نہیں ہے ) خزی (رسوائی، ذلت) الصیحۃ (چنگھاڑ، بہت تیز آواز) اصبحوا (وہ ہوگئے) دیار (دیر) گھر جثمین (اوندھے پڑے رہنے والے) تشریح : آیت نمبر 64 تا 68 جب حضرت صالح قوم ثمود کے سرداروں سے فرما چکے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے اسی ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ میری بات مانو۔ کہنے لگے کہ ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں کہ واقعی تمہیں اللہ نے پیغمبر بنا کر بھاجب ہے اگر تم سچے ہو تو سامنے پہاڑ ہے اس سے ایک ایسی اونٹنی پیدا کر ائو جو کہ گابھن ہو اور وہ پیدا ہوتے ہی بچہ پیدا کرے۔ حضرت صالح نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوم کی اس فرمئاش کو پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح کی اس درخواست کو قبول کیا اور پہاڑ سے گابھن اونٹنی کو پیدا کیا جس نے کچھ دیر کے بعد ایک بچہ جنم دیا۔ اس اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر کسی نے بھی ایمان قبول نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ ان سب لوگوں میں سے صرف ایک شخص نے ایمان قبول کیا۔ بقیہ سب کے سب اپنے کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح نے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم نے اللہ سے ایک اونٹنی کا مطالبہ کیا اور اللہ نے معجزے کے طور پر اس اونٹنی کو پیدا فرما دیا تو یہ اونٹنی تمہارے کنوئیں سے پانی پئیے گی لیکن اس دن تمہارے جانور پانی نہیں پئیں گے اس طرح ایک دن اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن تمہارے جانور پانی پی سکیں گے۔ ابتدا میں تو وہ سب اس کے لئے تیار ہوگئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے جانوروں کو پانی نہیں مل رہا ہے اور ایک دن پانی نہ ملنے سے ان کے جانور مر رہے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ اس اونٹنی کو مار دیا جائے تاکہ اس مشکل سے نجات مل جائے۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ دیکھو یہ اونٹنی معجزہ کے طور پر تمہیں دی گئی ہے اس کو ستانا یا قتل کرنا تمہیں تباہ کر دے گا۔ مگر یہ نافرمان قوم باز نہ آئی اور ایک دن انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ جب حضرت صالح کو معلوم ہوا کہ اونٹنی کو مار دیا گیا ہے تب حضرت صالح کو یقینی ہوگیا کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قوم کے لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں بسر کرلیں۔ اس کے بعد اس قوم کو اس کی نافرمانی کی سزا مل کر رہے گی۔ چناچہ تیسرے دن ایک ہیبت ناک آواز پوری گھن گھرج کے ساتھ سنائی دی ۔ اس آواز سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ ان کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں، جب کہ وہ میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے، اسی حالت میں ہلاک کردیئے گئے ان کا مال و دولت ، بلند وبالا عمارتیں ان کے کسی کام نہ آسکیں اور اس طرح قوم ثمود اپنے برے انجام کو پہنچ گئی۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور ان کو نجات عطا فرما دی گئی۔ جب حضرت صالح نے دیکھا کہ پوری قوم مردہ حالت میں پڑی ہوئی ہے تو کہہ اٹھے۔ ” اے میری قوم میں نے اللہ کا پیغام اور نصیحت پہنچا دی تھی لیکن ت میں تو وہی لوگ برے لگتے تھے جو تمہیں صنیحت کرتے تھے (سورۃ الاعراف) “ قرآن کریم کا یہی ایک اسلوب بیان ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اور اس کے ماننے والوں کو عذاب سے محفوظ رکھا اور ان قوموں کو اور ان کے افراد کو تہس نہس کردیا جنہوں نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کرام پر ایمان کامل کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کے برے انجام سے محفوظ فرمائے آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے شاندار ماضی، عمر بھر کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دلائل پر ایمان لانے کی بجائے یہ مطالبہ کرڈالا۔ صالح ہم اس وقت تک تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی ظاہر نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ معجزہ طلب کرنے کے بعد اگر تم ایمان نہ لائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مہلت نہ دی جائے گی۔ لیکن ان کی قوم نے صاف طور پر کہا کہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٤٩) ۔ تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ باری تعالیٰ ان کا یہ مطالبہ پورا فرما شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور مطالبہ کرنے والوں کے سامنے پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی بلبلاتے ہوئے باہر نکلی۔ کچھ مدت کے بعد اس نے ایک بچہ جنم دیا۔ یہ تفصیلات مختلف ذرائع سے مفسرین نے جمع کی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید سے فقط اتنا ثابت ہے کہ جب پہاڑ سے اونٹنی برآمد ہوئی تو حضرت صالح نے اپنی قوم کو فرمایا یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ جو معجزہ کے طور پر تمہارے سامنے لائی گئی ہے۔ جسے آپ نے ناقۃ اللہ قرار دیا ‘ حضرت صالح کا اس اونٹنی کو ناقۃ اللّٰہ قرار دینا دو وجہ سے تھا۔ ایک تو قوم کے مطالبہ پر معجزہ کے طور پر پہاڑ کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے نکلی تھی۔ دوسری وجہ ناقۃ اللّٰہ قرار دینے کی یہ تھی کہ وہ اونٹنی رنگ روپ، قدو قامت کے اعتبار سے عام اونٹنیوں سے بالکل ہی مختلف تھی۔ اس کا کھانا پینا بھی غیر معمولی تھا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ کئی اونٹنیوں کے برابر اکیلی پانی پیتی اور منوں کے حساب سے چارہ ہڑپ کر جاتی۔ اونٹنی کے ظاہر ہونے پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی اونٹنی کو اللہ کی زمین پر چلنے پھرنے اور کھانے پینے میں رکاوٹ نہ بننا اور نہ ہی اسے کسی قسم کی تکلیف دینا ورنہ تمہیں اللہ کا عذاب دبوچ لے گا۔ کیونکہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ بستی کے کنویں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پئیں گے اور ایک دن یہ اونٹنی اکیلی پیا کرے گی۔ اسے تکلیف نہ دینا ورنہ تم پر عظیم عذاب آئے گا۔ (الشعراء : ١٥٥۔ ١٥٦) لیکن منہ مانگا معجزہ پانے کے باوجود کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اونٹنی چیختی چلاتی ہوئی اپنے بچے کے ساتھ اسی پہاڑ میں داخل ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ بس تین دن تک اپنے گھروں میں رہو۔ چوتھے دن تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اب بھی قوم حضرت صالح (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کرتی کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی جائے کہ وہ ان کے سنگین جرم کو معاف کردے۔ لیکن بدبخت قوم کہنے لگی کہ اے صالح ! تو جس عذاب سے ہمیں ڈراتا ہے اسے جلدی لے آؤ۔ ( الاعراف : ٧٧) مسائل ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو پامال کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا عذاب کا مطالبہ کرنا : ١۔ حضرت نوح کی قوم نے ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (ھود : ٣٢) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح کو عذاب لانے کا چیلنج دیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ مدین والوں نے حضرت شعیب سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کیا۔ (الشعراء : ١٨٧) ٤۔ قوم عاد نے حضرت ھود سے عذاب کے نزول کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٥۔ کفار نے نبی کریم سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) ٦۔ اہل مکہ نے اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ( الانفال : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں یہ قرآن کریم نے اس ناقہ کے بارے میں تفصیلات نہیں دی ہیں جو ان کے لیے ایک نشانی اور علامت تھی۔ لیکن اس ناقہ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ “ اللہ کی اونٹنی ” ہے۔ اور تمہارے لیے یہ ایک نشانی ہے ان ریمارکس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ممتاز اونٹنی تھی اور وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے لیے اللہ کی جانب سے ایک نشانی ہے۔ بس ہم بھی یہاں صرف ان باتوں پر اکتفاء کرتے اور ناقہ صالح (علیہ السلام) کے بارے میں اسرائیلی روایات کے مطابق مفسرین نے جو رطب ویابس جمع کی ہیں ان کے ساتھ یہاں تعرض نہیں کرتے۔ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ (٦٤ : ١١) “ دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین پر چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو ۔ اس سے ذرا تعرض نہ کرنا۔ ” ورنہ اللہ تمہیں بہت جلد پکڑ لے گا اور عذاب دے گا۔ عبارت میں فاء تعجیل کے لیے ہے۔ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ (١١ : ٦٤) ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا ”۔ یعنی تم اللہ کی شدید پکڑ میں آجاؤ گے ، انداز تعبیر محض عذاب ہونے یا عذاب کے نزول سے کہیں زیادہ کسی چیز کو ظاہر کر رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک مخصوص پتھر سے ایک اونٹنی نکال دیں تو وہ انہیں سچا نبی مان لیں گے حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تو اللہ کے حکم سے بطور معجزہ اسی وقت پتھر سے اونٹنی نکل آئی تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ اونٹنی ایک معجزہ ہے اور تمہارے لیے میری سچائی کی بہت بڑی دلیل ہے، اس کی خوراک تمہارے ذمہ نہیں وہ اللہ کی زمین میں چل پھر کر اپنا پیٹ بھر لے گی تم اس سے تعرض مت کرنا ورنہ فوراً اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ فَعَقَرُوْھَا مگر وہ باز نہ آئے اور ایک آدمی کو اس کے قتل کرنے پر مامور کیا اس نے موقع پا کر اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ کر اسے قتل کردیا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تین دن تک گھروں میں اپنی زندگی سے فائدہ اٹھا لو اس کے بعد تمہاری ہلاکت ہے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اس میں ذرہ بھر جھوٹ نہیں۔ غَیْرَ مَکْذُوْبٍ ای فیہ (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64 انہوں نے نبو ت کے ثبوت کے لئے جو معجزہ طلب یا اس پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے ایک معجزہ اور دلیل بنا کر ظاہر کی گئی ہے سو تم اس کو چھوڑ دو کہ یہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے اور اس کو کسی قسم کی برائی پہنچانے کی نیت سے چھونا بھی نہیں اور ہاتھ بھی نہ لگانا ورنہ تم کو فوری عذاب آلے گا اور دیرنہ لگے گی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت صالح (علیہ السلام) سے قوم نے معجزہ لگا حق تعالیٰ نے ان کی دعا سے پتھر میں سے اونٹنی نکالی اسی وقت اس نے بچہ دیا اسی وقت ماں کے برابر ہوگیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کی تعظیم کرتے رہو تب تک دنیا کا عذاب نہ ہوگا جہاں وہ جاتی کھانے کو یا پینے کو سب جانور بھاگ جاتے اور آدمی کوئی اس کو نہ ہو ہانکتا 12