Surat Hood

Surah: 11

Verse: 65

سورة هود

فَعَقَرُوۡہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوۡا فِیۡ دَارِکُمۡ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ وَعۡدٌ غَیۡرُ مَکۡذُوۡبٍ ﴿۶۵﴾

But they hamstrung her, so he said, "Enjoy yourselves in your homes for three days. That is a promise not to be denied."

پھر بھی لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے ، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تک تو رہ سہ لو ، یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But they slaughtered her. So he said: "Enjoy yourselves in your homes for three days. This is a promise (a threat) that will not be belied." فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ امَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِيِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 لیکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ایمان لانے سے گریز کیا بلکہ حکم الٰہی سے صریح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا، جس کے بعد انھیں تین دن کی مہلت دے دی گئی کہ تین دن کے بعد تمہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] اونٹنی کو مارنا :۔ مگر یہ قوم اپنے اس متفقہ فیصلہ پر قائم نہ رہ سکی۔ دراصل یہ اونٹنی ان کے لیے وبال جان بن گئی اور عذاب کے ڈر کی وجہ سے اسے کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت بھی نہیں کرتا تھا بالآخر قوم کا ایک شہ زور بدبخت اٹھا جس نے اونٹنی کو مار ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ پھر بستی کے ایک ایک فرد سے اس کے متعلق خفیہ مشورے کیے اور آراء طلب کیں۔ اکثریت نے یہی رائے دی کہ اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ اس فیصلہ کے بعد اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچ کی رگوں کو کاٹ ڈالا اونٹنی نے ایک زبردست دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور اسی پہاڑ میں غائب ہوگئی جس سے نکلی تھی اس کے پیچھے پیچھے اس کا بچہ بھی غائب ہوگیا اس واقعہ کے فوراً بعد خود سیدنا صالح (علیہ السلام) کو بھی مار ڈالنے کے خفیہ صلاح مشورے ہونے لگے۔ تین دن بعد عذاب :۔ اللہ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی قوم کسی نبی سے کوئی خاص معجزہ طلب کرے اور وہ معجزہ اسے عطا کردیا جائے پھر بھی وہ قوم سرکشی کی راہ اختیار کرے تو یقیناً اس پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے چناچہ صالح (علیہ السلام) نے وحی کی اطلاع کے مطابق قوم کو خبردار کردیا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد تم پر اللہ کا قہر نازل ہوگا جس سے تم بچ نہ سکو گے اور نہ ہی اس وعدہ میں کچھ تغیر و تبدل ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 65, it was said: تَمَتَّعُوا فِي دَارِ‌كُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ |"Enjoy yourselves in your homes for three days [ only ].|" That is, when these people killed the she-camel associated with the miracle in flagrant contravention of the Di-vine command, then, something serious happened. As warned earlier, ` lest a near punishment should seize you - 64&, the punishment did come upon them in a manner that they were given a respite of three days and told that they all will be destroyed on the fourth day.

(آیت) تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ ، یعنی جب لوگوں نے حکم خداوندی کی خلاف ورزی کر کے اس معجزہ والی اونٹنی کو مار ڈالا تق جیسا پہلے ان کو متنبہ کردیا گیا تھا کہ ایسا کرو گے تو اللہ کا عذاب تم پر آئے گا، اب وہ عذاب اس طرح آیا کہ ان کو تین روز کی مہلت دی گئی اور بتلا دیا گیا کہ چوتھے روز تم سب ہلاک کئے جاؤ گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَعَقَرُوْہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَۃَ اَيَّامٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ۝ ٦٥ عقر عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال : له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه : عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار . ( ع ق ر ) العقر کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔ ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا، قدار بن سالف اور مصدع بن زہر نے اس کو قتل کیا اور پندرہ سو مکانات میں اس کے گوشت کو تقسیم کیا، حضرت صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کے قتل ہوجانے کے بعد فرمایا، تم اپنے شہروں میں تین دن اور رہ لو اور پھر چوتھے دن تم پر عذاب آجائے گا، قوم کہنے لگی اے صالح عاب کی علامت کیا ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا پہلے دن تمہارے چہرے زرد اور دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے اور پھر چوتھے دن عذاب نازل ہوجائے گا اور یہ عذاب ٹلنے والا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (فَعَقَرُوْهَا) انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: عذاب سے پہلے ان کو تین دن کی مہلت دی گئی تھی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:65) فعقروھا۔ انہوں نے اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں۔ تمتعوا۔ تم لطف اٹھالو۔ تم (دنیاوی مال و متاع کا) فائدہ اٹھالو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

۔ ” انہوں نے ناقہ کی ٹانگیں کاٹ دیں (فعقروھا) اور اس انداز میں اسے قتل کردیا ’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر مفسد تھے اور کس قدر بےباک تھے ، سیاق کلام میں یہاں نزول ناقہ اور قتل ناقہ کے درمیان مدت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ، کیونکہ مدت کے ذکر کا دعوت دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ محض ایک تاریخی پہلو ہے۔ البتہ قتل ناقہ کے بعد سیاق کلام میں ان کے عذاب کا ذکر آجاتا ہے۔ یہاں واقعات کے تمام مراحل کو فاء تعقیب کے ساتھ لایا جاتا ہے یعنی پس یہ ہوا ، پس یہ ہوا۔ فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ (١١ : ٦٥) “ مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس پر صالح (علیہ السلام) نے ان کو خبردار کردیا کہ “ بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی میعاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی ”۔ یعنی اب تمہاری مہلت زندگی صرف تین دن رہ گئی اور یہ میعاد ایسی ہے جس میں کوئی تغیر و تخلف نہیں ہو سکتا۔ اب یہ فائنل آرڈر ہے۔ فا تعقیب سے یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات آگے پیچھے وقوع پذیر ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 آخر کار قوم کے لوگوں نے باوجود سمجھا دینے کے اس اونٹنی کے پائوں کے پائوں کاٹ ڈالے اور اسکو مارڈالا اور زندگی سے فائدہ حاصل کرلو تین دن کے بعد عذاب آنا ہے اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اس لئے یہ ایسا وعدہ ہے جس میں بالکل جھوٹ نہیں یعنی اونٹنی کو مار ڈالنے کا ارتکاب کیا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا یہ معجزہ تمہارے کہنے سے تم کو دیا گیا تھا تم نے ہی اس کو ختم کردیا اب تین دن کے بعد دیکھنا کیا ہوتا ہے۔