Surat Hood

Surah: 11

Verse: 66

سورة هود

فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّیۡنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا وَ مِنۡ خِزۡیِ یَوۡمِئِذٍ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿۶۶﴾

So when Our command came, We saved Salih and those who believed with him, by mercy from Us, and [saved them] from the disgrace of that day. Indeed, it is your Lord who is the Powerful, the Exalted in Might.

پھر جب ہمارا فرمان آپہنچا ، ہم نے صالح کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے اس سے بھی بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی ، یقیناً تیرا رب نہایت توانا اور غالب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So when Our commandment came, We saved Salih and those who believed with him by a mercy from Us, and from the disgrace of that Day. Verily, your Lord -- He is the All-Strong, the All-Mighty. وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ ا 1 س سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتھے دن آیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے سوا، سب کو ہلاک کردیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] صالح (علیہ السلام) کی ہجرت :۔ عذاب کے نازل ہونے سے پیشتر ہی آپ بموجب حکم الٰہی اپنے ایمان دار ساتھیوں کو لے کر فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے اور یہ سب لوگ اس ذلت اور عذاب سے بچ گئے جو اس مجرم قوم پر نازل ہونے والا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان آیات کی تفسیر سورة اعراف کی آیات (٧٧ تا ٧٩) میں اور سورة ہود کے اس سے پچھلے رکوع کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔ ” کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا “ ” غَنِیَ یَغْنٰی “ (ع ) ” فِیْ مَکَانٍ کَذَا “ جب کوئی شخص لمبی مدت کسی جگہ میں یوں رہے کہ وہ اس کے سوا کسی بھی جگہ سے غنی ہو۔” مَغْنَی “ مصدر بھی ہے، مکان بھی، یعنی رہنا اور رہنے کی جگہ۔ (مفردات راغب)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِىِٕذٍ۝ ٠ۭ اِنَّ رَبَّكَ ہُوَالْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ۝ ٦٦ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمالل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) چناچہ جب ہمارا عذاب نازل ہوا تو ہم نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور اہل ایمان کو اپنے عذاب سے بچا لیا اور اس دن کے عذاب سے نجات دی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے بچانے میں طاقتور اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں غلبہ والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. The folk traditions of the Sinaitic Peninsula indicate that when a severe punishment afflicted the Thamud, Salih (peace be on him) migrated to Sinai. Hence, close to the Mount of Moses there is a hillock called Nabi Salih. These traditions make one believe that it is here that Prophet Salih (peace be on him) lived.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :74 جزیرہ نمائے سینا میں جو روایات مشہور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ثمود پر عذاب آیا تو حضرت صالح علیہ السلام ہجرت کر کے وہاں سے چلے گئے تھے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام والے پہاڑ کے قریب ہی ایک پہاڑی کا نام نبی صالح ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہی جگہ آنجناب کی جائے قیام تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ یعنی اس دن کے رسوا کن عذاب سے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جس کو چاہے سزا دے جس کو چاہے بچالے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حسب وعدہ عذاب کا نازل ہونا، حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا نجات پانا۔ قرآن مجید اس واقعہ کی یوں تفصیل بیان کرتا ہے۔ کہ ثمود نے سرکشی کی بنا پر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا۔ پھر ان کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا اور اس نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اس بات کو مسترد کیا جو انہوں نے فرمائی تھی کہ اس اونٹنی کو پانی پینے دینا۔ اس بدبخت نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو زمین بوس کردیا۔ ( الشمس : ١١ تا ١٥) بدبخت قوم نے یہ قسمیں بھی اٹھائیں۔ کہ ہم صالح (علیہ السلام) کو اس کے اہل و عیال سمیت ختم کر ڈالیں گے۔ (النمل : ٤٩) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے صالح اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو اس دن کی ذلت سے بچالیا۔ یقیناً آپ کا رب بڑا طاقتور اور ہمیشہ غالب رہنے والا ہے۔ ظالموں کو ایک چیخ نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں الٹے منہ پڑے ہوئے اس طرح ہوگئے جیسے وہ کبھی آباد ہی نہ ہوئے تھے۔ خبردار ! بلاشک ثمود نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ خبردار ! قوم ثمود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھٹکار دیا گیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب قوم صالح پر عذاب آیا اس کی کیفیت اس طرح سے تھی کہ پہلے دن ثمودیوں کے چہرے زرد ہوئے دوسرے دن سرخ ہوئے اور تیسرے دن سیاہ اور چوتھے دن انہیں چیخ نے آلیا جس کی ہیبت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اپنے گھروں میں منہ کے بل گرپڑے۔ مسائل ١۔ اللہ کے عذاب سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ محفوظ فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑی قوت اور غلبہ والا ہے۔ ٣۔ قوم ثمود پر چیخ کی صورت میں عذاب آیا۔ ٤۔ قوم ثمود نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ ٥۔ ثمودیوں کا اللہ تعالیٰ نے نام و نشان مٹا دیا۔ ٦۔ قوم ثمود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگئی۔ تفسیر بالقرآن دھتکاری اور پھٹکاری ہوئی اقوام : ١۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٨) ٢۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٩٥) ٣۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٠) ٤۔ یہودیوں پر اللہ نے ذلت و محتاجی مسلط کردی۔ (البقرۃ : ا ٦) ٥۔ یہودی اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ (البقرۃ : ٩٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ نے لعنت کی۔ (المائدۃ : ٧٨) ٧۔ کفار پر اللہ، اس کے ملائکہ اور کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے۔ (البقرۃ : ١٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب اللہ کے امر کا وقت قریب ہوگیا اور امر یہ تھا کہ یا تو یہ لوگ ڈر جائیں اور ایمان لے آئیں ورنہ پھر انہیں نیست و نابود کردیا جائے تو اس وقت ہم نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے ساتھیوں کو اپنی رحمت کی وجہ سے نجات دی ، یہ نجات صرف ان کے لیے تھی اور ان کے ساتھ مخصوص تھی۔ یعنی ان کو موت سے بھی نجات دی اور اس دن کی شرمندگی اور ذلت سے بھی نجات دی کیونکہ ان کو زندگی سے معمول کے مطابق محروم نہیں کیا گیا بلکہ بڑی ذلت کے ساتھ ان سے حیات کو چھینا گیا۔ اور جب ایک سخت آواز نے ان کو آ لیا تو یہ سب کے سب مر گئے۔ اور جو جہاں تھا ، وہیں گر گیا اور یہ ان کے لیے ذلت آمیز موت تھی۔ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (١١ : ٦٦) “ بیشک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالادست ہے۔ ” وہ نافرمانوں کو خوب پکڑتا ہے اور یہ کام اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اپنے دوستوں کی خوب رعایت بھی کرتا ہے اور ان پر فضل بھی کرتا ہے۔ اب یہاں قرآن مجید اشارہ بتاتا ہے کہ اس عذاب کے نتیجے میں ان کی حالت کیا ہوگئی ۔ تعجب انگیز اور عبرت آموز طریقے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ کس قدر عجلت کے ساتھ نیست ونابود کردیئے گئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ جب ہمارے عذاب کا معین وقت آپہنچا تو ہم نے صالح اور اس کے مومن ساتھیوں کو محض اپنی رحمت سے نجات دی اور اس دن کی ذلت ورسوائی سے ان کو بچا لیا۔ وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الخ اور ظالم (مشرک) لوگ ایک ہی آسمانی چیخ سے اپنے گھروں میں اس طرح ڈھیر ہوگئے گویا کہ وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ ہے اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کی توحید کا انکار کرنے والوں کا انجام۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 پھر جب ہمارے عذاب کا حکم آ پہونچا تو ہم نے صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے ہمراہی ایمان والوں کو پانی رحمت و عنایت سے بچالیا اور اس دن کی بڑی رسوائی سے محفوظ رکھا یقینا آپ کا پروردگار کمال قوت اور کمال عزت کا مالک ہے یعنی قوت والا اور غلبہ والا ہے۔