Surat Hood

Surah: 11

Verse: 68

سورة هود

کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوۡدَا۠ کَفَرُوۡا رَبَّہُمۡ ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّثَمُوۡدَ ﴿٪۶۸﴾  6

As if they had never prospered therein. Unquestionably, Thamud denied their Lord; then, away with Thamud.

ایسے کہ گویا وہ وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا ۔ سن لو ان ثمودیوں پر پھٹکار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

As if they had never lived there. No doubt! Verily, Thamud disbelieved in their Lord. So away with Thamud! A discussion of this story has already preceded in Surah Al-A`raf and it is sufficient without having to be repeated here. Allah is the Giver of success.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 ان کی بستی یا خود یہ لوگ یا دونوں ہی، اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے، گویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْہَا۝ ٠ۭ اَلَآ اِنَّ ثَمُــوْدَا۟ كَفَرُوْا رَبَّہُمْ۝ ٠ۭ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ۝ ٦٨ۧ غنی وغَنَى في مکان کذا : إذا طال مقامه فيه مستغنیا به عن غيره بغنی، قال : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] ( غ ن ی ) الغنیٰ غنی فی مکان کذا ۔ کسی جگہ مدت دراز تک اقامت کرنا...  گویا وہ دوسری جگہوں سے بےنیاز ہے ۔ قرآن میں ہے : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] گویا وہ ان میں کبھی آبادہی نہیں ہوئے تھے ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:68) لم یغنوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ جمع مذکر غائب۔ غنی مصدر۔ (باب سمع) انہوں نے قیام نہیں کیا۔ وہ نہیں ٹھہرے۔ غنی بالمکان۔ وہ مکان میں ٹھرا۔ مغنی۔ فرودگاہ۔ کان لم یغنوا فیہا۔ گویا وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث کا مرجع من دیارھم ہے۔ بعدا۔ دوری۔ ہلاکت۔ ملاحظہ ہو 11:4... 4، 11:60 ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا۔ “ گویا ان بستیوں میں کبھی انہوں نے قیام ہی نہ کیا تھا اور نہ عیش و عشرت کی تھی۔ یہ نہایت موثر نظر ہے ، پرتاثیر احساس ہے ، یہ منظر زندگی اور موت کے درمیان ایک کھلا منظر ہے ، لیکن چشم زدن میں یہ نظر کے سامانے سے گزر جاتا ہے اور نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد گویا زندگی ایک...  ٹیپ ہے۔ جو تزی سے گزر رہی ہے اور نظر یوں آتا ہے کہ شاید خواب و خیال تھا۔ اب اس قصے پر حسب سابق آخری تبصرہ یہ ہے کہ ملامت اور لعنت کے ساتھ اس صفحے کو لپیٹ دیا جاتا ہے ، اور یہ منظر جس طرح نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ، اسی طرح لوح حافظہ سے بھی مٹ جاتا ہے۔ اَلَآ اِنَّ ثَمُوْدَاْ کَفَرُوْا رَبَّھُمْ اَلَابُعْداً لِّثَمُوْدَ (٦٨) “۔ ” ایک بار پھر ہمارے سامنے ، اس قصے کی صورت میں دعوت اسلامی کی تاریخ کی ایک لڑی موجود ہے۔ وہی دعوت ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے وہی خدو خال ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں۔ دعوت یہ دی جا رہی ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرو ، صرف اللہ کے وضع کردہ نظام زندگی کو اپناؤ۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جاہلیت اور اسلام کی وہی کشمکش ہے جو مکہ میں برپا ہے۔ شرک اور توحید کی ٹکر ہے۔ اہل ثمود بھی ان لوگوں میں سے تھے جو عاد کی طرح کشتی نوح میں بچ گئے تھے۔ کشتی نوح کے سواروں کی اولاد تھے لیکن وہ اپنے حقیقی دین ، دین نوح سے منحرف ہو کر جاہلیت میں ڈوب گئے تھے اور تاریخ کے اس مرحلے میں حضرت صالح (علیہ السلام) اب ان کی اصلاح کے لیے مامور ہوئے تھے تا کہ ان کو از سر نو اسلام میں داخل کردیں۔ اس قصے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے خود ایک خارق عادت معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ معجزہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن انہوں نے اس کا جواب ایمان اور قبول حق کے ساتھ نہ دیا بلکہ انہوں نے صاف صاف انکار کردیا اور ناقہ کی ٹانگیں کاٹ کر اسے ہلاک کردیا۔ مشرکین عرب بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے ہی خارق عادت معجزات کے طلب گار تھے تا کہ وہ امیان لائیں تو ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ قوم صالح (علیہ السلام) نے بھی معجزات طلب کیے۔ وہ آگئے انہوں نے نہ مانا اور ان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ معجزات طلب نہیں کیا کرتے۔ اسلام تو ایک سادہ اور فطری دعوت ہے ، اس کے قبول کرنے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے محض غور وفکر اور تعقل و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جاہلیت کی وجہ سے لوگوں کی عقل پر پردے پڑجاتے ہیں اور ان کی عقل مسخ ہوجاتی ہے۔ اس قصے میں بھی ہمارے سامنے حقیقت باری اپنے اس رنگ میں آتی ہے جس طرح اللہ کے مختار بندوں کے ذہنوں میں وہ موجود ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے رسولوں کے ذہن میں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے قول پر ذرا غور فرمائیں : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (١١ : ٦٣) “ صالح نے کہا ، اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ، اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو ۔ ” اور یہ اظہار حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس کے بعد کیا۔ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ (١١ : ٦١) “ میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔ ” ذات باری کی حقیقت حضرات انبیاء کے اذہان وقلوب میں اس طرح منعکس ہوتی ہے اور اس طرح جمال و کمال کے ساتھ موجود ہوتی ہے کہ اس شان سے وہ کسی اور کے دل میں نہیں ہوتی۔ کیونکہ انبیاء کے دل آئینہ کی طرح صاف ہوتے ہیں اور ان میں ذات باری کا انعکاس نہایت ہی صفائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور نہایت ہی منفرد شان کے ساتھ۔ اس قصے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمیں اس میں نظر آتا ہے کہ جاہلیت اپنے آپ کو ہدایت کی شکل میں پیش کرتی ہے اور ہدایت کو ضلالت کے جامے ہیں۔ اور وہ نہایت ہی عیاری سے سچائی پر تعجب کرنے لگتی ہے۔ وہ سچائی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ صالح علہی السلام سے ان کی قوم نے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں ، کیونکہ وہ ایک صالح ، عقلمند ، باخلاق اور پسندیدہ نوجوان تھے ، لیکن اب قوم ان کے بارے میں سخت مایوسی کا اظہار کرتی ہے ، یہ کیوں ؟ یہ محض اس لیے کہ وہ ان کو اسلامی نظام زندگی کی طرف بلاتے ہیں ، صرف اسلامی نظام کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور ان کی دعوت آبا ؤاجداد کی مورثی ڈگر سے مختلف ہے۔ یاد رہے کہ انسانی فکر و نظر اگر جادہ مستقیم سے بال برابر بیھ ادھر ادھر ہوجائے تو ضلالت و گمراہی کی کسی حد پر وہ رکتی نہیں ہے۔ آخر کار انسانی سوچ کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے نہایت ہی واضع اور سادہ سچائی بھی گمراہی نظر آتی ہے اور وہ سچائی کو سن کر تعجب کرنے لگتا ہے اور انسانی سوچ اور تصور اس قدر محدود ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر سادہ سے سادہ حقیقت بھی نہیں سماتی اور کوئی فطری اور سیدھی منطق بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ دیکھئے ، حضرت صالح (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ، اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور یہاں تمہیں ترقی دی۔ وہ پکارتے ہیں کہ دیکھو تم اس کرہ ارض پر موجود ہو ، یہ وجود تمہیں اللہ نے بخشا ہے ، یہ ایک حقیقت ہے جس سے تم دیکھتے اور جس کا تم انکار نہیں کرسکتے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو خود نہیں پیدا کیا اور نہ خود اپنے لیے حیات اور رزق کا انتظام کیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح بھی تھی ، کیونکہ وہ اس حقیقت کا انکار بھی نہ کرتے تھے کہ انہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی ہے جس نے انسانی کو وہ عقل دی ہے جس کے ذریعے وہ اس کرہ ارض کو ترقی دے رہا ہے لیکن وہ اس صغریٰ کبریٰ کو تسلیم کرنے کے بعد اس کا منطقی نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے کہ اللہ ہی الٰہ ہے اور اس نے انسان کو یہاں خلیفہ و مختار بنایا ہے۔ لیکن اس پر لازم کیا ہے اور اس کے لیے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ صرف اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور نہ اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کرے۔ یہی سادی حقیقت تھی جس کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) دعوت دیتے تھے۔ (یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰہ َ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہ غَیْرُہُ ) مسئلہ کیا تھا ؟ مسئلہ الوہیت و ربوبیت کا تھا۔ کہ کون حاکم اور مطاع ہوگا۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے گرد تمام انبیاء کے مشن گھومتے ہیں اور اس کے گرد انبیاء کے بعد تمام دعوتی تحریکیں گھومتی ہیں اور یہی ہے آج بھی اسلام اور جاہلیت کی کشمکش کا محور۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68 اور ان کی یہ حالت ہوگئی گویا یہ لوگ ان گھروں میں جیسے کبھی بسے ہی نہیں تھے اور کبھی ان گھروں میں رہنے ہی نہ تھے سن لو قوم ثمودنے اپنے رب کی نافرمانی کی خوب سن لو رحمت سے دور کئے گئے ثمود اور رحمت سے ثمود کو دوری ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان پر عذاب آیا اس طرح کہ رات کو سوتے پڑے تھے فرش... تے نے چنگھاڑ ماری سب کے جگر پھٹ گئے 12 آٹھویں پارے میں رجفہ فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ بھی آیا اور ہولناک آواز بھی ہوئی۔  Show more