Surat Hood

Surah: 11

Verse: 75

سورة هود

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ ﴿۷۵﴾

Indeed, Abraham was forbearing, grieving and [frequently] returning [to Allah ].

یقیناً ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, Ibrahim was, without doubt, forbearing, used to invoke Allah with humility, and was repentant (to Allah). This is a commendation for Ibrahim because of these beautiful characteristics. Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ : اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و تکرار کا برا نہ مانا، بلکہ نہایت پیار سے ان کا ذکر فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِيْبٌ۝ ٧٥ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ أوَّه الأَوَّاه : الذي يكثر التأوّه، وهو أن يقول : أَوَّه أَوَّه، وکل کلام يدل علی حزن يقال له : التَّأَوُّه، ويعبّر بالأوّاه عمّن يظهر خشية اللہ تعالی، وقیل في قوله تعالی: أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أي : المؤمن الداعي، وأصله راجع إلى ما تقدّم . قال أبو العباس رحمه اللہ : يقال : إيها : إذا کففته، وويها : إذا أغریته، وواها : إذا تعجّبت منه . ( ا و ہ ) الاواہ ۔ وہ شخص جو بہت زیادہ تاوہ کرتا ہو اور تاؤہ کے معنی ہیں حزن وغم ظاہر کرنے کے لئے آوہ زبان پر لانا اور ہر وہ کلمہ جس سے تاسف اور حزن کا اظہار ہوتا ہو اسے تاوہ سے تعبیر کرلیتے ہیں لہذا اواہ کا لفظ ہر اس شخص پر بولاجاتا ہے جو خشیت الہی کا بہت زیادہ اظہار کرنیوالا ہو ۔ اور آیت کریمہ :۔ { أَوَّاهٌ مُنِيبٌ } ( سورة هود 75) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ) مومن اور بہت زیادہہ دعا کرنے والے تھے مآں کے اعتبار سے یہ معنی بھی ماتقدم کی طرف راجع ہے ۔ ابوالعباس فرماتے ہیں کہ کام کے روکنے کے لئے کلمہ ، ، ایھا ، ، اور ترغیب دینے کے لئے وبھا کہا جاتا ہے اور اظہار تعجب کے لئے داھا کہتے ہیں ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) واقعی براہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم الطبع رحیم المزاج اور اللہ تعالیٰ کی طرف بہت متوجہ ہونے والے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہاں حضرت ابراہیم کی یہ تین صفات ایک ساتھ جمع فرما کر آپ کی بہت قدر افزائی بھی فرمائی گئی ہے اور آپ کے مجادلہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرما دی گئی ہے کہ چونکہ آپ بہت حلیم الطبع اور دل کے نرم تھے اسی وجہ سے آپ نے آخری حد تک کوشش کی کہ عذاب کے ٹلنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی طبیعت مبارک میں بھی خصوصی نرمی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق کو بھی اللہ نے طبیعت کی خاص نرمی عطا کر رکھی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ فرمائش تو منظور نہیں فرمائی گئی کہ قومِ لوط سے عذاب کو مؤخر کردیا جائے، لیکن جس جذبے اور جس انداز سے انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے رُجوع فرمایا تھا، اس فقرے میں اُس کی بڑے بلیغ انداز میں تعریف فرمائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:75) اواہ بروزن فعال۔ مبالغہ کا صیغہ ہے بہت آہ آہ کرنے والا اپنے گناہوں پر دوسروں کی غم خواری میں۔ گڑگڑا کر کثرت سے دعائیں کرنے والا۔ رحم دل۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا۔ منیب۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ انابۃ مصدر (باب افعال) نوب مادہ۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا۔ خلوص کے ساتھ توبہ کرنے والا۔ ہر طرف سے مڑ کر اللہ کی طرف لوٹنے والا۔ ناب ینوب (نصر) کسی چیز کا بار بار لوٹنا۔۔ نوبۃ کا بھی یہی معنی ہے۔ نائیۃ وہ مصیبت جو بار بار لوٹتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و تکرار کا برا نہ مانا بلکہ ان کا نہایت پیار سے ذکر کیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ اس سے پہلے قُلْنَا محذوف ہے جب کسی گذشتہ واقعہ میں صیغہ امر کا ذکر ہو تو اس سے پہلے قلنا محذوف ہوتا ہے۔ ہم نے ابراہیم سے کہا اس بات کو جانے دو اور ان کی سفارش نہ کرو کیونکہ ان کی ہلاکت کا وقت آچکا ہے اب وہ ہمارے عذاب سے لا محالہ تباہ وبرباد ہوں گے اب ان سے ہمارا عذاب ہرگز نہیں ٹل سکتا۔ یعنی ان العذاب الذی نزل بھم غیر مصروف عنہم ولا مدفوع عنہم (خازن ج 2 ص 243) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں جو اس سے اپنی مرضی کے مطابق منوا سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑا بردبار حلیم الطبع بڑا نرم دل اور رقیق القلب اور خدا کی طرف رجوع کرنے والا تھا یعنی چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) بڑا رقیق القلب تھا اس لئے اس نے اس قدر مبالغہ کے ساتھ سفارش کی اور ممکن ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس قوم کے ایمان لے آنے کی امید ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت لوط انہی کے پیچھے گئے تھے اس قوم میں جب سنا کہ اس پر عذاب آیا ترس کھا کر سفارش کرنے لگے 12