Surat Hood

Surah: 11

Verse: 76

سورة هود

یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمۡ اٰتِیۡہِمۡ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرۡدُوۡدٍ ﴿۷۶﴾

[The angels said], "O Abraham, give up this [plea]. Indeed, the command of your Lord has come, and indeed, there will reach them a punishment that cannot be repelled."

اے ابراہیم! اس خیال کو چھوڑ دیجئے آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے اور ان پر نہ ٹالے جانے والا عذاب ضرور آنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ ... O Ibrahim! Forsake this. Indeed, the commandment of your Lord has gone forth. This means the decree was settled concerning them and the Word was already given that they should be destroyed. ... وَإِنَّهُمْ اتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ Verily, there will come a torment for them which cannot be turned back." The evil torment was coming to them, that cannot be averted from wicked people.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیئے اللہ کا وہ حکم (ہلاکت کا) آچکا ہے، جو اللہ کے ہاں مقدر تھا۔ اور اب یہ عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] فرشتوں نے جواب دیا کہ اب اس بحث کا کچھ فائدہ نہیں اللہ تعالیٰ ان پر عذاب کا فیصلہ کرچکا ہے اور ہمیں اس نے اسی غرض کے لیے مامور کردیا ہے۔ لہذا اب یہ موخر نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓـــاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ۔۔ : یہ فرشتوں کی بات ہے جو بالآخر انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہی کہ اب بحث و تکرار کا کچھ فائدہ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آجانے کے بعد عذاب ٹلنے کی کوئی صورت نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓـــاِبْرٰہِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۝ ٠ۚ اِنَّہٗ قَدْ جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۝ ٠ۚ وَاِنَّہُمْ اٰتِيْہِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ۝ ٧٦ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) ارشاد ہوا ابراہیم اس سفارش پر اصرار مت کرو، قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں تمہارے پروردگار کا حکم آچکا، ان پر ضرور ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ٹلنے والا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 The mention of Abraham's story as a preamble to the story of the people of Lot may appear somewhat out of tune with the purpose for which the events of the past are being narrated here. However, to better appreciate this, two things should be borne in mind. Firstly, that the immediate addressees of She Qur'an were the Quraysh. The Quraysh, since they were the descendants of Abraham (peace be on him), were the custodians of the Ka'bah - the shrine of God. For the same reason, they also had a predominant influence over the religious, moral, cultural and political life of Arabia. The Quraysh believed that since they were the offspring of a Prophet who enjoyed God's favour, they would never be punished by God. They felt sure that Abraham (peace be on him) would intercede effectively with God on their behalf. The Qur'an strikes a powerful blow to the Makkans' misconceptions. They are told, in the first instance, the story of the Prophet Noah (peace be on him) in graphic detail: how he watched his own son drown and how he distressfully prayed to God to show mercy to him. And yet, as we know, Noah's prayer was to no avail. Not only was Noah's prayer not granted, he was even rebuked for praying on behalf of his unrighteous son. Noah's story is followed by a narration of Abraham's story. Abraham (peace be on him) enjoys, on the one hand, the innumerable blessings of God. He is also addressed by God in terms which are clearly indicative of God's special love and affection for him. On the other hand, when Abraham interferes in a manner that amounted to compromising justice with regard to an evil-doing nation, God sets his intercession aside. The second thing that ought to be borne in mind is that the present discourse emphasizes to the Quraysh that God's law of retribution has always been operative in history. The Quraysh had become altogether oblivious of that law and were no longer afraid of it. The Qur'an, therefore, drew their attention to its constant manifestation in human history, including the traces of its operation in their immediate surroundings. Their attention was also drawn to Abraham (peace be on him) who had migrated for the sake of the truth and had settled down in an alien land. Apparently, he had no power or resources at his disposal. Nonetheless, God rewarded him for his righteousness. He also caused Abraham's wife to deliver a child when she had reached the age of barrenness and when Abraham himself had also reached an advanced age. This child was Isaac (peace be on him) who was to become the father of another Prophet, Jacob (peace be on them). The progeny of Isaac and Jacob are known as the Children of Israel. They were indeed a great people who retained, for centuries, their ascendancy in the region - Palestine and Syria - where Abraham (peace be on him) had first set his foot as an uprooted, homeless refugee. Distinguishable from the Israelites were the people of Lot. They remained immersed in their evil deeds and continued to bask in the warmth of their prosperity. They had no idea at all that on account of this iniquity they would be overtaken by God's punishment in the near future. Hence, whenever the Prophet Lot (peace be on him) attempted to admonish them, they scornfully brushed his counsel aside. However, the same day on which it was decided to exalt the progeny of Abraham (peace be on him) into a very outstanding nation, it was also decided to annihilate the people of Lot who had become exceedingly wicked. So thorough was the destruction to which they were subjected that to-day there exists no trace of their habitation.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :84 اس سلسلہ بیان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ ، خصوصا قوم لوط علیہ السلام کے قصے کی تمہید کے طور پر بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ اس مقصد کے لحاظ سے نہایت برمحل ہے جس کے لیے بچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کو پیش نظر رکھیے: ( ۱ ) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرات ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے ، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی واخلاقی اور سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہوسکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے ۔ اس پندار غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوح علیہ السلام جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچالیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی ، بلکہ اس سفارش پر باپ کو الٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے ، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیم علیہ السلام انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار والحاح کے باوجود اللہ تعالی مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے ۔ ( ۲ ) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالی وہ قانون مکافات جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے ، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردوپیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو حق وصداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالی ان کے حسن عمل کا ہی پھل ان کو دیتا ہے کہ بانچھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں ، پھر ان کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے ، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ دوسری طرف قوم لوط علیہ السلام ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے ۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامت اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اور لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے ۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اس بدکار قوم کو دنیا سے نیست ونابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:76) اتہم۔ ان پر آنے والا ہے۔ اتی (آنے والا) مضاف ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ۔ اتی یاتی سے اسم فاعل۔ غیر مردود۔ مردود (مفعول) اسم مفعول واحد مذکر۔ رد سے باب نصر۔ ٹالا جانے والا۔ لوٹا جانیوالا۔ غیر مردود۔ جو لوٹایا نہیں جائے گا۔ جو ٹالا جانے والا نہیں۔ رد کیا گیا۔ شیطان مردود۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 ۔ یہ فرشتوں کی بات ہے جو انہوں نے بالآخر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے کہی اور اس کے بعد وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے روانہ ہوگئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ملائکہ کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے فارغ ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کی زبان سے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سن چکے۔ تو پھر قوم لوط کے بارے میں ملائکہ سے تکرار کرنے لگے۔ جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مجرموں کے حمایتی تھے۔ بلکہ وہ اس وجہ سے قوم لوط کے بارے میں تکرار کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت حوصلہ مند، دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانے والے اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ جس بناء پر وہ ملائکہ سے تکرار کرنے لگے کہ آپ انہیں کچھ اور مہلت دیں۔ شاید وہ سنبھل جائیں۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ آپ اس قوم کو عذاب کرنے چلے ہیں جن میں لوط بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے اس کا جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں لوط موجود ہیں۔ لیکن ان کی بیوی کے سوا لوط اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بچالیاجائے گا۔ (العنکبوت : ٣٢) نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کن الفاظ اور کس، کس انداز میں ملائکہ سے تکرار کرتے ہوں گے۔ لیکن بالآخر ملائکہ نے کہا کہ حضرت جانے دیجیے اب یہ عذاب ٹلنے والا نہیں۔ تب ملائکہ ان سے رخصت ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے۔ مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ملائکہ کی آمد پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے ناگواری محسوس کی اپنی قوم کا کردار جانتے ہوئے اور دل ہی دل میں پریشان ہونے لگے۔ اس حالت میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ آج تو بڑا مصیبت کا دن ہے۔ مہمانوں کی اطلاع پاکر ان کی قوم کے لوگ ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئے۔ کیونکہ وہ پہلے سے ہی بدکاری کے عادی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے فرمایا یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ جب اوباش بےحیائی کی باتیں اور بدمستی دکھانے لگے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے پھر شرم دلائی کہ کیا تم میں سے کوئی ایک بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ بےشرم جواب دیتے ہیں۔ تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ تو یہ جانتا ہے کہ ہم کس ارادے سے آئے ہیں۔ یہاں ” یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ “ کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اوباش لوگ دوڑتے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے گھر کے سامنے پہنچے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے گھر کے کواڑ بند کرلیے لیکن وہ دیواریں پھلانگتے ہوئے اندر آگھسے۔ جس پر لوط (علیہ السلام) نے انہیں بار بار شرم دلائی مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا یہ فرمان کہ میری بیٹیاں تمہارے لیے حاضر ہیں۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اپنی بیٹیوں کے ساتھ بدکاری کی دعوت دی تھی۔ وہ ہرگز ایسی بات نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ پیغمبر سب سے زیادہ غیرت والا اور سب سے بڑھ کر صاحب حوصلہ ہوتا ہے۔ پیغمبر نازک سے نازک ترین حالات میں بھی اپنی غیرت اور حیاء کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ ان کے فرمان کے مفسرین نے دو معنی لیے ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں۔ وہ تمہارے لیے حلال ہیں کیونکہ پیغمبر امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لیے قوم کی بیٹیاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں۔ دوسرا ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ نکاح کے لیے میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ جن کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تمہارے لیے فطری اور حلال طریقہ ہوگا۔ لیکن بدمعاش کسی طرح بھی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لواطت کی سزا : ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَجَدْتُمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ فَاقْتُلُوْا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ بِہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب فیمن عمل عمل قوم لوط ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسے قوم لوط والا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہیں تھا۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پرلے درجے کی بدکار تھی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو تباہ و برباد کردیا : ١۔ تمہارے پروردگار کا حکم آچکا اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ (ھود : ٧٦) ٢۔ ہم نے تم سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں اور وہ ظلم کرنے والی تھیں۔ (الحج : ٤٥) ٤۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٥۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانعام : ٤٧) ٦۔ نہیں ہم نے ہلاک کیں بستیاں مگر ان کے رہنے والے ظالم تھے۔ (القصص : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پردہ گرتا ہے اور یہ خوش کن اور دلربا منظر آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ سیاق کلام پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ لازمی ہے کہ حکم باری کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی خاموش ہوگئے ہوں گے۔ لیکن اچانک آنکھوں کے سامنے ایک دوسرا منظر آجاتا ہے جو ہاو و ہو سے پر ہے۔ اردن کے ایک شہر میں قوم لوط (علیہ السلام) سامنے آتی ہے۔ یہ شہر عموریہ اور صدوم ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76 ارشاد ہوا اے ابراہیم (علیہ السلام) تو اس بات کو چھوڑ دے یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں اسی لئے تیرے پروردگار کا حکم آچا ہے اور یقینا ان پر ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح واپس ہونے والا نہیں۔