Surat Hood

Surah: 11

Verse: 79

سورة هود

قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ۚ وَ اِنَّکَ لَتَعۡلَمُ مَا نُرِیۡدُ ﴿۷۹﴾

They said, "You have already known that we have not concerning your daughters any claim, and indeed, you know what we want."

انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ ... They said: "Surely, you know that we have no need of your daughters..." This means, "Verily, you know that we do not want our women, nor do we desire them." ... وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ and indeed you know well what we want! This means, "We only want males and you know that. So what need is there for you to continue speaking to us about this!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یعنی ایک جائز اور فطری طریقے کو انہوں نے بالکل رد کردیا اور غیر فطری کام اور بےحیائی پر اصرار کیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ قوم اپنی اس بےحیائی کی عادت خبیثہ میں کتنی آگے جا چکی تھی اور کس قدر اندھی ہوگئی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] یعنی اس قوم کا مزاج اس قدر بگڑ چکا تھا کہ اخلاقی انحطاط اس قدر واقع ہوچکا تھا کہ حلال کام سے فائدہ اٹھانے میں ان کی دلچسپیاں ہی ختم ہوگئی تھیں ان کی ساری دلچسپیاں لونڈے بازی جیسے مکروہ حرام اور خلاف فطرت فعل پر ہی مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں اور جب کوئی قوم حرام کاموں کی نہ صرف عادی ہوجائے بلکہ اس میں دلچسپی لینے اور فخر محسوس کرنے لگے تو ایسی قوم کا علاج یہی ہے کہ اسے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرکے اللہ کی زمین کو ایسی نجاست سے پاک کردیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ ۔۔ : یعنی ہمارا تمہاری بیٹیوں میں کوئی حق نہیں (گویا آنے والے مہمان مردوں سے بدفعلی ان کا پورا حق ہے) ، یا یہ مطلب ہے کہ ہمیں عورتوں یا بیویوں سے کوئی دلچسپی نہیں، ہم جو چاہتے ہیں وہ تجھے معلوم ہی ہے کہ ہم کس بدفعلی کے عادی ہیں، اس لیے تم ہماری راہ میں رکاوٹ نہ بنو۔ ان کے اس جواب سے ان کی خباثت کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ کیوں ان کو اس عذاب کا مستحق سمجھا گیا جو ان کے علاوہ کسی قوم پر نازل نہیں کیا گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ۝ ٠ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ۝ ٧٩ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) وہ کہنے لگے اے لوط آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں آپ کی ان بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جو ہمارا مطلب اور ارادہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ ) قوم کے لوگوں نے کہا کہ اب آپ ادھر ادھر کی باتیں مت کیجیے آپ خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. This Qur'anic statement vividly portrays the moral degradation and perversity of those people. They had brazenly deviated from the natural way of satisfying their sexual desires and had adopted instead an altogether perverse and filthy way. What was even more heinous was that their interest had become confined only to those perverse forms of sexual gratification which had come into vogue in their society. This perversity had reached such a point where they felt no shame in stating that they were not interested at all in what was universally held to be the natural and legitimate way of sexual satisfaction. This is the lowest conceivable depth of moral degeneration and perversity. Such a case is very different from that of a person who might commit a sin in a moment of weakness when he is overwhelmed by his passions, but has not ceased to distinguish good from evil. For it is quite possible for such a person to mend his ways. But even if he does not mend his ways, he may, at the most, be considered a man who has lapsed into evil ways. But a person who becomes so thoroughly perverse that his interest is confined only to what is forbidden and sinful, and who believes that all that is right and permissible is simply not meant for him, is altogether a different situation. Such a person is not only wicked, but has sunk so low that he cannot be truly considered a human being. Such a person is a worm that thrives only on filth and finds all that is clean and pure totally disagreeable. Were such a worm to be found in the house of someone who loves cleanliness, he would use insecticide to get rid of it at the first available opportunity! Such being the case, how is it conceivable that God, the Lord of this universe, can allow such worms to concentrate and become strong at any given place or time?

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :88 یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور کن کے فقدان کی وجہ سے اہل حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:79) حق۔ حق سے یہاں مراد حاجت۔ ضرورت۔ سروکا رہے۔ ای لیس لنا بھن ھاجۃ ولا لنا فیھن شھوۃ۔ یعنی نہ ہمیں ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی خواہش۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی ہمیں عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ہم تو اس بدکاری کے خوگر ہوچکے ہیں۔ (ابن کثیر) ۔ ان کے اس جواب سے انکی خباثٹ کو پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ کیوں ان کو اس عذاب کا مستحق سمجھا گیا جو ان کے علاوہ اور کسی قوم پر نازل نہیں کیا گیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اوباشوں کی بےانتہا بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی انتہا درجے کی پریشانی اور اپنی کمزوری پر حسرت کا اظہار۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا مگر اوباش کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم جس کام کے لیے آئے ہیں۔ تو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کے سامنے اپنی بےعزتی کو اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زبان سے بےساختہ یہ الفاظ نکلے۔ کاش ان کے مقابلے میں میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ قوم کی بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی بےبسی اور غم دیکھ کر ملائکہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اے اللہ کے پیغمبر ! آپ کو ان کی بدمعاشی سے ڈرنے اور اس صورت حال پر غم کھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ اور آپ کے ایماندار ساتھیوں کے سوا باقی سب کو تہس نہس کردیا جائے۔ جن میں آپ کی بیوی بھی شامل ہوگی۔ کیونکہ یہ سب کے سب برے ہیں۔ ( العنکبوت : ٣٣۔ ٣٤) اے لوط ! ہم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ملائکہ ہیں اس لیے یہ بدمعاش آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ آپ رات کے پچھلے پہر اپنے ساتھیوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور انمیں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ آپ کی بیوی پر وہی عذاب نازل ہوگا جو بدمعاشوں پر رات کے پچھلے پہرصبح کے قریب نازل ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال سے اس قدر پریشان تھے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ حالانکہ ملائکہ نے انہیں عذاب کا ٹھیک ٹھیک وقت بتادیا تھا کہ وہ صبح کے وقت نازل ہوگا اس کے باوجود حضرت لوط (علیہ السلام) پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی۔ جس پر ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے محبوب پیغمبر صبح تو ہوا چاہتی ہے یہ بتلانے کے بعد ملائکہ نے بدمعاشوں کی آنکھیں مسخ کردیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا انتہا درجے کی پریشانی اور گھبراہٹ میں یہ کہنا کہ کاش میرے پاس پناہ کے لیے مضبوط سہارا ہوتا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کے پاس تو اللہ کی ذات کا بہت بڑا سہارا تھا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ ) [ رواہ البخاری : باب زیادۃ طمانینۃ القلب ] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی ‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہتا ‘ تو میں بلانے والے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہوں نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر ہم تمہاری بیٹیوں کا رشتہ چاہتے تو تم ضرور نکاح کر کے ہمارے حوالے کردیتے اور تم جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ یہ ان کی جانب سے ان کے خبیث اور گندے ارادے کی طرف نہایت ہی خبیثانہ اشارہ ہے۔ اس موقعہ پر حضرت لوط (علیہ السلام) نڈھال ہوگئے۔ انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ اب ان کے مقابلے میں بالکل بےبس ہیں ، وہ اس قوم میں اس طرح ہیں جس طرح ایک مسافر ہوتا ہے۔ گویا یہاں ان کا کوئی خاندان اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ اور اس مصیبت کے وقت کوئی نہیں ہے جو ان کی دستگیری کرے۔ ایسے حالات میں وہ جس پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں ، وہ یہ ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71: وہ چونکہ خلاف فطرت فعل کے عادی ہوچکے تھے اس لیے انہوں نے جواب دیا کہ عورتوں کی طرف ہمیں کوئی رغبت نہیں تمہیں معلوم ہی ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ قَالَ لَوْ اَنَّ بِکُمْ قُوَّۃً حضرت لوط (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ معاملہ اختیار سے باہر ہو رہا ہے تو اپنی بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کاش مجھ میں تمہارا مقابلہ کرنے کی طاقت ہو یا کوئی ایسی پناہ گاہ ہوتی جس میں اپنے مہمانوں سمیت محفوظ ہوجاتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 قوم کی لوگوں نے کہا اے لوط (علیہ السلام) تو جانتا ہے ہم کو تیری بیٹیوں سے کوئی دعویٰ نہیں اور تیری بیٹیوں سے ہم کو کوئی غر ض اور ہم کو کوئی حاجت نہیں اور جو کچھ ہمارا مقصد ہے اور جو کچھ ہم چاہتے ہیں اس سے تو بخوبی واقف اور باخبر ہے۔ یعنی تیری بیٹیوں سے خواہ وہ تیری اپنی ہوں یا قوم کی بیٹیاں ہوں ہمیں کوئی واسطہ اور رغبت نہیں اور جو ہمارا مطلب ہے تو اس کا خوب سمجھتا ہے۔