Surat Hood

Surah: 11

Verse: 82

سورة هود

فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ ۙ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۸۲﴾

So when Our command came, We made the highest part [of the city] its lowest and rained upon them stones of layered hard clay, [which were]

پھر جب ہمارا حکم آپہنچا ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Town of Lut's People is overturned and Their Destruction Allah, the Exalted, says, فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا ... So when Our commandment came, This happened at sunrise. ... جَعَلْنَا عَالِيَهَا ... We (turned it)...), The city of Sadum (Sodom) ... سَافِلَهَا ... upside down, This is similar to Allah's statement, فَغَشَّـهَا مَا غَشَّى So there covered them that which did cover (torment with stones). (53:54) ... وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ and rained on them stones of clay, in an array. This means, "We rained upon it with stones made of Sijjil." Sijjil is a Persian word meaning stones made of clay. This definition has been mentioned by Ibn Abbas and others. Some of the scholars said that it (Sijjil) derived from the word Sang, which means a stone. Some others said it means Wakil, which is clay. In another verse Allah says, حِجَارَةً مِّن طِينٍ the stones of clay, (51:32) This means clay made into strong, hard stone. Some of the scholars said it means baked clay. Al-Bukhari said, "Sijjil means that which is big and strong." Concerning Allah's statement, مَّنضُودٍ (in an array). Some of the scholars said that Mandud means the stones were arranged in the heavens and prepared for that (destruction). Others said, This word means that some of them (the stones) followed others in their descent upon the people of Lut. Concerning the statement, مُّسَوَّمَةً ... Marked, meaning the stones were marked and sealed, all of them having the names of their victims written on them. Qatadah and Ikrimah both said, "Musawwamah means each stone was encompassed by a sprinkling of red coloring." The commentators have mentioned that; it (the shower of stones) descended upon the people of the town and upon the various villages around it. One of them would be speaking with some people when a stone would strike him from the sky and kill him while he was among the people. Thus, the stones followed them, striking the people in the entire land until they destroyed them all. Not a single one of them remained. ... عِندَ رَبِّكَ ... ...from your Lord; Concerning Allah's statement, ... وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ

آج کے ایٹم بم اس وقت کے پتھروں کی بارش سورج کے نکلنے کے وقت اللہ کا عذاب ان پر آگیا ۔ ان کی بستی سدوم نامی تہ و بالا ہو گئی ۔ عذاب نے اوپر تلے سے ڈھانک لیا ۔ آسمان سے پکی مٹی کے پتھر ان پر برسنے لگے ۔ جو سخت ، وزنی اور بہت بڑے بڑے تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے سجین سجیل دونوں ایک ہی ہیں ۔ منضود سے مراد پے بہ پے تہ بہ تہ ایک کے بعد ایک کے ہیں ۔ ان پتروں پر قدرتی طور پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ جس کے نام کا پتھر تھا اسی پر گرتا تھا ۔ وہ مثل طوق کے تھے جو سرخی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ یہ ان شہریوں پر بھی برسے اور یہاں کے جو لوگ اور گاؤں گوٹھ میں تھے ان پر بھی وہیں گرے ۔ ان میں سے جو جہاں تھا وہیں پتھر سے ہلاک کیا گیا ۔ کوئی کھڑا ہوا ، کسی جگہ کسی سے باتیں کر رہا ہے وہیں پتھر آسمان سے آیا اور اسے ہلاک کر گیا ۔ غرض ان میں سے ایک بھی نہ بچا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سب کو جمع کر کے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھا لیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں ۔ آپ اپنے داہنے پر کے کنارے پر ان کی بستی کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر انہیں زمین پر الٹ دیا ۔ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دیا اور سب ایک ساتھ غارت ہوگئے اکے د کے جو رہ گئے تھے ان کے بھیجے آسمانی پتھروں نے پھوڑ دئیے اور محض بےنام و نشان کر دیئے گئے ۔ مذکور ہے کہ ان کی چار بستیاں تھیں ۔ ہربستی میں ایک لاکھ آدمیوں کی آبادی تھی ۔ ایک روایت میں ہے تین بستیاں تھیں ۔ بڑی بستی کا نام سدوم تھا ۔ یہاں کبھی کبھی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی آکر وعظ نصیحت فرما جایا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے یہ چیزیں کچھ ان سے دور نہ تھیں ۔ سنن کی حدیث میں ہے کسی اگر تم لواطت کرتا ہوا پاؤ تو اوپر والے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] کیا قوم لوط پر عذاب آتش فشانی انفجار تھا ؟ یہ وہ عذاب الٰہی کا حکم تھا جس پر فرشتوں کو مامور کیا گیا تھا۔ جبریل نے شہر سدوم اور آس پاس کی بستیوں کو، جو ان بدکاروں کا مسکن تھا اس پورے خطہ زمین کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا پھر فضا میں بلندی پر لے جا کر اس خطہ کو الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ پھر اس خطہ زمین پر اوپر سے لگاتار کھل کر پتھر برسائے گئے اور پتھر بھی عام پتھر نہ تھے بلکہ مخصوص علامت والے پتھر تھے اور یہ دوہرا عذاب انھیں غضب الٰہی کی شدت کی بنا پر دیا گیا۔ بعض لوگ اس عذاب الٰہی کی یہ عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ آتش فشانی انفجار تھا۔ زمین سے شدید قوت کے ساتھ لاوا پھوٹا جس نے اس خطہ زمین کو اوپر اٹھا لیا جو بعد میں نیچے گرگیا ۔ پھر اسی لاوا کا مائع مادہ فضا میں پہنچ کر منجمد ہو کر کھنگروں کی صورت میں اس خطہ زمین پر برسا تھا۔ یہ توجیہ ویسے تو دل لگتی ہے۔ مگر ہمیں اس توجیہ کو قبول کرنے میں تامل ہے یہ محض ایک طبعی واقعہ نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے خاص اسی مقصد کے لیے بھیجے تھے جس کی صراحت ان آیات میں موجود ہے البتہ دوسری قوموں پر جو عذاب آتے رہے انھیں طبعی اسباب کے تحت قرار دیاجا سکتا ہے اگرچہ وہ واقعات بھی اللہ کے حکم اور اس کی مشیئت کے تحت ہی واقع ہوئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا ۔۔ : یعنی جب ہمارے عذاب کا حکم آیا تو ہم نے اس بستی کے اوپر کا حصہ اس کا نیچے کا حصہ کردیا، یعنی پوری بستی الٹ دی۔ یہ عذاب ان کے فعل شنیع سے مناسبت رکھتا تھا کہ انھوں نے بھی فطرت کو بدل کر عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کو اپنی شہوت رانی کا ذریعہ بنا لیا۔ سِجِّيْلٍ : سنگ و گِل (پتھر اور مٹی کے ملے ہوئے ڈھیلے) یا سنگ گِل (مٹی کے پتھر یعنی پختہ اینٹوں کے روڑے یا کھنگر) مزید عذاب کے طور پر بستی الٹنے کے بعد اس پر اینٹوں اور پتھروں کی ایسی مسلسل بارش برسائی کہ ان کی تہیں لگ گئیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ۝ ٠ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝ ٨٢ۙ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ، فقوله : ( علوّا) ليس بمصدر تعالی. كما أنّ قوله ( نباتا) في قوله : أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح/ 17] ، و ( تبتیلا) في قوله : وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل/ 8] ، كذلك ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس/ 83] اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور ( کبر وکفر میں ) حد سے بڑہا ہوا تھا فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون/ 46] ، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سر کش لوگ تھے ۔ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص/ 75] کیا تو غرور میں آگیا اور نچے درجے والوں میں تھا۔ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 83] جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارداہ نہیں رکھتے ۔ وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون/ 91] اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا ۔ اور مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء/ 4 اور بڑی سر کشی کرو گے ۔ وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل/ 14] اور بےانصابی اور غرور سے ( ان کا انکار کیا) کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( س ف ل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ نضد يقال : نَضَدْتُ المتاعَ بعضه علی بعض : أَلْقَيْتُهُ ، فهو مَنْضُودٌ ونَضِيدٌ ، والنَّضَدُ : السَّريرُ الذي يُنَضِّدُ عليه المتاعُ ، ومنه اسْتُعِيرَ : طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، وقال تعالی: وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة/ 29] ، وبه شُبِّهَ السَّحابُ المتراکم فقیل له : النَّضَدُ ، وأَنْضَادُ القومِ : جماعاتُهْم، ونَضَدُ الرَّجُلِ : مَنْ يَتَقَوَّى به من أَعْمامِهِ وأَخْوالِهِ. ( ن ض د ) نضد ت المتاع بعضہ علیٰ بعض کے منعی سامان کو قرضے سے اوپر نیچے رکھنے کے ہیں اور قرینے سے رکھے ہوئے سامان کو منضود یا نضید کہا جاتا ہے اور جس تخت پر سامان جوڑ کر رکھا جائے اسے بھی نضید کہتے ہیں ۔۔۔ ، اسی سے استعارہ فرمایا : ۔ طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور دوسرے مقام پر فرمایا : وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة/ 29] اور تہ بہ تہ کیلوں ۔ اور مجازا گہرے بادل کو بھی نضد کہا جاتا ہے ۔ اور انضاد القوم کے معنی لوگوں کی مختلف آدمی کے اعمام واخوال کے ہیں جن کی مدد سے وہ مضبوط ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) سو جب ہمارا عذاب انکے ہلاک کرنے کے لیے آپہنچا تو ہم نے اس زمین کو الٹ کر اوپر کا تختہ نیچے اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا، اور ان کے مسافروں اور بکھرے ہوئے لوگوں پرکھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو مسلسل گر رہے تھے جن پر سیاہی، سفیدی اور سرخی کی لکیریں تھیں یا یہ کہ ہر ایک پتھر پر ہلاک ہونیوالے گا نام لکھا ہوا تھا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پتھر ان لوگوں پر آپ کے پروردگار کی طرف سے برس رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا) یعنی ان بستیوں کو تلپٹ کردیا گیا۔ جب عمارتیں تباہ ہوتی ہیں تو چھت زمین بوس ہوجاتی ہے اور دیواریں اس کے اوپر گرتی ہیں بنیادیں بھی اوپر آجاتی ہیں۔ (وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ ) سِجِّیل اصل میں فارسی لفظ ہے۔ فارسی میں یہ ” سنگ گل “ تھا جو عربی میں آکر سِجِّیل کا تلفظ اختیار کرگیا۔ سنگ کے معنی پتھر اور گل کے معنی مٹی کے ہیں۔ یعنی مٹی کے پتھر جو گیلی مٹی کے دھوپ میں گرم ہو کر پختہ ہوجانے کے بعد بنتے ہیں جیسے اینٹوں کو بھٹے میں پکایا جاتا ہے۔ ان بستیوں پر عذاب دو صورتوں میں آیا ایک زمین کے اندر کوئی زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں زبردست زلزلہ آیا اور یہ بستیاں الٹ پلٹ ہوگئیں۔ پھر اوپر سے کنکریوں کی بارش ہوئی اور اس طرح انہیں ان پتھروں کے اندر دفن کردیا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91. This scourge probably took the form of a severe earthquake combined with volcanic eruptions. The earthquake turned their dwellings upside down and by means of a volcanic eruption they were subjected to a severe rain of stones. The expression 'stones of baked clay' perhaps refers to the stones formed by the underground heat and lava in volcanic regions. The signs of this volcanic eruption can be noticed almost everywhere in the region south and east of the Dead Sea even today.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :91 بائیبل میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے ، مگر تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا”میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: روایات میں ہے کہ یہ کل چار بستیاں تھیں جن میں یہ بد قماش لوگ بستے تھے۔ ان ساری بستیوں کو فرشتوں نے جوں کا توں اوپر اُٹھاکر زمین پر اوندھا پٹخ دیا، اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بحر میت (Dead Sea) جسے ’’بحرِ مردار‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان بستیوں کے اُلٹنے سے پیدا ہوا ہے، ورنہ کسی بڑے سمندر سے اس کا رابطہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس مقام پر یہ بستیاں واقع تھیں، یعنی بحرِ مردار کے آس پاس کا علاقہ، اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ پورے کرہ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے، یعنی زمین کا کوئی اور حصہ سطح سمندر سے اتنا نیچا نہیں ہے جتنا نیچا یہ ہے۔ قرآنِ کریم نے جو فرمایا ہے کہ ’’ہم نے اس زمین کے اُوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کردیا‘‘، کچھ بعید نہیں کہ ان الفاظ میں اس جغرافیائی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہو، اور ان کی انتہائی نچلی حرکتوں کو یہ محسوس شکل دے دی گئی ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٢۔ ٨٣۔ جب لوط (علیہ السلام) کو حکم ہوگیا کہ آپ معہ اہل و عیال کے فقط اپنی بیوی کو چھوڑ کر اس گاؤں سے چلے جائیں اب ان پر عذاب آوے گا اور کوئی تم میں سے پیچھے مڑ کر نہ دیکھے غرض کہ حضرت لوط (علیہ السلام) خدا کے حکم سے باہر چلے گئے اور خدا کا عذاب آیا جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا پر زمین کے اندر ڈال کر اس زمین کا طبقہ اٹھا لیا اور آسمان کی طرف لے گئے۔ مفسروں نے بیان کیا ہے کہ آسمان والوں نے اس وقت مرغوں کے بولنے اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے اس طبقہ کو اٹھا کر زمین کی طرف پھینک دیا یہ لوگ اوندھے آکر زمین پر پڑے یہی معنی ہیں جعلنا عالیھا سلفھا کے مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس گاؤں کی زمین ہی کو الٹ دیا پھر پتھر کی کنکریوں کی بھرمار اوپر سے ہوئی۔ سنگ فارسی میں پتھر کو کہتے ہیں اور گل مٹی کو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ ان دونوں لفظوں کو ملا کر سجیک بنا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر مٹی کے ملے ہوئے کھنگر تھے۔ منضود کا مطلب یہ ہے کہ کنکریاں اس طرح پھینکی گئیں کہ ایک ذرا بھی مہلت نہ دی گئی پے در پے آتی تھیں مسرمۃ کے یہ معنے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کنکریوں پر لوگوں کے نام کی مہریں لگی ہوئی تھیں جس کے نام کی کنکری ہوتی اسی پر پڑتی تھی۔ مجاہد (رض) کا قول ہے کہ یہ عذاب ان لوگوں پر صبح کے وقت نازل ہوا تھا۔ پھر خدا نے فرمایا کہ یہ بات ظالموں سے کچھ بعید نہیں ہے وہ لوگ اپنے ظلم کے سبب سے اسی لائق تھے کہ وہاں کی زمین بھی تلے اوپر کردی جائے بعضوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ کفار مکہ کی طرف خطاب ہے کہ یہ لوگ بھی ظلم پر کمر باندھے ہوئے ہیں ان سے اور اس گاؤں سے کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے ملک شام مکہ سے قریب ہی ہے ان کے ظلم کا بھی یہی نتیجہ ہوگا کہ ان کی طرح ان پر بھی کوئی عذاب نازل ہو بعض مفسروں کا یہ بھی بیان ہے کہ چار گاؤں تھے ان میں سدوم زیادہ بڑا تھا ایک لاکھ کی بستی تھی تین لاکھ باقی کی بستیوں میں تھے سب کے سب ہلاک ہوئے ایک بھی نہیں بچا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ ایسے سرکش لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب پکڑتا ہے۔ تو بالکل ہلاک کردیتا ہے۔ ١ ؎ یہ حدیث اس ہلاک کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٧٨ ج ٢ باب قولہ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:82) سجیل۔ کنکر۔ فارسی سنگ وگل ۔ جو عربی میں آکر سجیل بن گیا۔ سجیل کا لفظ سجل سے بنا ہے بمعنی جاری کرنا۔ دے دینا۔ یعنی ہر پتھر دیا ہوا یا بھیجا ہوا تھا۔ یا سجل سے بنا ہے بمعنی لکھا ہوا۔ یعنی اللہ نے پتھروں پر لکھ دیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ سجیل اصل میں سجین تھا ن کو ل میں بدلا گیا۔ دوزخ کا ایک طبقہ۔ منضود۔ اسم مفعول۔ واحد مذکر۔ تہ برتہ۔ نضدت المتاع بعضہ علی بعض کے معنی ہیں سامان کو قرینے سے اوپر نیچے رکھنا۔ قرینے سے رکھے ہوئے سامان کو منضود یا نضد کہتے ہیں۔ جس تخت پر سامان جوڑ کر رکھا جائے اسے بھی نضید کہتے ہیں۔ اس سے استعارۃ فرمایا طلع نضید (50:10) جن کا گابھا تہ برتہ ہوتا ہے۔ یا طلح منضود (56:29) اور تہ بر تہ کیلوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ یعنی پختہ اینٹوں کے روڑے یا کھنگر۔ 11 ۔ ” نشن لگے ہوئے۔ “ یعنی ان میں سے ہر پتھر پر کوئی علامت بنائی گئی تھی کہ اس سے کس شخص کو ہلاک کرنا ہے۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی جب ان پر عذاب نافذ کرنے کا وقت آیا تو ہم نے ان کی بستی کو اوپر نیچے کردیا۔ یعنی یہ سزا ان کے لیے اس لیے تجویز ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو مقام انسانیت سے گرا کر مقام حیوانیت تک لے آئے تھے۔ بلکہ وہ حیوانات سے بھی نیچے گر گئے تھے کیونکہ حیوانات بہرحال حیوانی فطرت کے اصولوں کے تابع ہوتے ہیں اور اپنی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ لیکن انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرت کی حدود کو بھی پار کرلیتا ہے۔ أَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ (٨٣ : ١١) اور ہم نے ان پر مٹی آلود پتھر برسائے۔ ” یعنی ایسے پتھر جن کے ساتھ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس مقام پر ان کے لیے خاک آلود پتھر ان کے حال اور مقام سے زیادہ مناسب تھے۔ منضود کے معنی ہیں اوپر تلے آنے والے پتھر اور یہ پتھر مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ (٨٣ : ١١) “ تمہارے رب کے ہاں نشان زدہ تھے۔ ” جس طرح مویشیوں پر نشان لگا کر چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ پڑھے جاسکیں۔ گویا ان پتھروں کو اللہ نے اس طرح چھوڑا کہ وہ خود کار عمل سے پڑتے تھے اور ضرورت کے وقت اپنا کام کرتے تھے۔ یہ ایک عجیب تصویر کشی ہے۔ ذہن پر اس کے بےپناہ اثرات پڑتے ہیں۔ اس تصویر کشی سے ذہن پر جو اثر مرتب ہوتا ہے وہ لمبی لمبی تشریحات سے نہیں پڑتا۔ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ (١١ : ٨٣) “ ظالموں سے یہ سزا کوئی دور نہیں ہے۔ ” یہ سزا قریب ہے ، تیار ہے اور اللہ کسی بھی وقت نازل کرسکتا ہے۔ یہاں آل لوط (علیہ السلام) کی اس سزا کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، اس کی تصویربعض آتش فشاں پہاڑوں کے بالکل مشابہ ہے۔ کیونکہ آتش فشانی کے عمل میں پتھر اور غبار آلود پتھر برستے ہیں اور ظالم اقوام کو اللہ ان کے ظلم کی سزا دیتے ہیں۔ ہم اس مشابہت کا ذکر کر کے یہ کہنا نہیں چاہتے کہ یہ سزا کوئی آتش فشانی تھی اور کسی مخصوص وقت میں عمل واقع ہوگیا۔ نہ ہم اس کی نفی کرتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں ان لوگوں کے لیے آتش فشانی کی سزا مقرر کی ہو۔ یہ بھی سزا کا ایک طریقہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس قوم کو اللہ نے ایک عام اور معمولی آتش فشانی کے ذریعے سے سزا دی ہو۔ اور روز ازل سے ان کے لیے یہ عمل تجویز ہوا ہو۔ اور یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے اس مجرم قوم کے لیے اپنے تصرفات قدرت میں سے ایک عمل کو مخصوص کر یدا ہو۔ اور یہ بھی درست ہو سکتا ہے کہ یہ آتش فشانی عام طبیعی عمل کا حصہ نہ ہو اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طریقے سے کوئی سنگ باری کی ہو اور اس کا تعلق طبیعی آتش فشانی سے بالکل نہ ہو۔ یہ عمل اسی طرح خارق عادت ہو جس طرح حضرت ابراہیم کے ہاں بچے کی ولادت کا عمل معتاد طریقے کے بالکل برعکس ہوگیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ جس طرح چاہے ، کرسکتا ہے۔ اس کی مشیت بےقید ہے اور انسان کے لیے اس کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ جب عذاب کا مقررہ وقت آپہنچا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے قوم لوط کی بستیوں کی زمین کو اکھاڑ لیا اور آسمان کے قریب لے جا کر زمین پردے مارا اور اوپر سے سخت مٹی کے پتھروں کی بارش کی گئی۔ سِجِّیْلٍ جو مٹی جم کر سخت پتھر کی مانند ہوجائے۔ مَنْضُوْدٍ تہ بتہ۔ مُسَوَّمَۃٍ ان پتھروں پر خاص نشان لگے تھے تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ آسمان سے آئے ہیں یا مطلب یہ ہے کہ ہر پتھر پر اس آدمی کا نام کندہ تھا جس کی اس سے ہلاکت مقدر تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 پھر جب ہمارے عذاب کا حکم آ پہونچا تو ہم نے ان بستیوں کو الٹ کر ان کے بالائی حصہ کو نیچے کا حصہ کردیا اور الٹنے کے بعد اس سرزمین پر ہم نے کھنگر کر پتھر برسائے۔