Surat Hood

Surah: 11

Verse: 84

سورة هود

وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ وَ لَا تَنۡقُصُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ اِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ بِخَیۡرٍ وَّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ مُّحِیۡطٍ ﴿۸۴﴾

And to Madyan [We sent] their brother Shu'ayb. He said, "O my people, worship Allah ; you have no deity other than Him. And do not decrease from the measure and the scale. Indeed, I see you in prosperity, but indeed, I fear for you the punishment of an all-encompassing Day.

اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا ۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کروتو میں تمہیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف ( بھی ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of the People of Madyan and the Call of Shu`ayb Allah, the Exalted, says, وَإِلَى مَدْيَنَ ... And to the Madyan people (We sent), Allah, says, `We sent a Messenger to the people of Madyan.' They were a tribe of Arabs who lived between the land of the Al-Hijaz and Ash-Sham, close to the land of Ma`an. Their land was known by the name of their tribe and was thus, called Madyan. Allah sent unto them the Prophet Shu`ayb and he was of the noblest of them in lineage. For this reason, Allah said, ... أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ... their brother Shu`ayb. ... قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ... He said: "O my people! Worship Allah, you have no other god but Him, and give not short measure or weight. Shu`ayb commanded them to worship Allah alone without associating any partners with him. He also prohibited them from cheating in their weights and measures (for business transactions). ... إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ ... I see you in prosperity, meaning, `in your livelihood and your provisions. And verily, I fear that you will be deprived of this bounty that you are enjoying by violating Allah's prohibitions.' ... وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ and verily, I fear for you the torment of a Day encompassing. This means the abode of the Hereafter.

اہل مدین کی جانب حضرت شعیب کی آمد عرب کا قبیلہ جو حجاز و شام کے درمیان معان کے قریب رہتا تھا ان کے شہروں کا نام اور خود ان کا نام بھی مدین تھا ۔ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام بھیجے گئے ۔ آپ ان میں شریف النسب اور اعلی خاندان کے تھے اور انہیں میں سے تھے ۔ اسی لیے اخاہم کے لفظ سے بیان کیا یعنی ان کے بھائی آپ نے بھی انبیاء کی عادت اور سنت اور اللہ کے پہلے اور تاکیدی حکم کے مطابق اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ۔ ساتھ ہی ناپ تول کی کمی سے روکا کہ کسی کا حق نہ مارو ۔ اور اللہ کا یہ احسان یاد لایا کہ اس نے تمہیں فارغ البال اور آسودہ حال کر رکھا ہے ۔ اور اپنا ڈر ظاہر کیا کہ اپنی مشرکانہ روش اور ظالمانہ حرکت سے اگر باز نہ آؤ گے تو تمہاری یہ اچھی حالت بد حالی سے بدل جائے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورة الا عراف، آیت 85 کا حاشیہ۔ 84۔ 2 توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انھیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔ 84۔ 3 یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔ 84۔ 4 یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہا اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] شرک ام الامراض ہے :۔ سیدنا شعیب کا قصہ بھی سورة اعراف کی آیت نمبر ٨٤ تا ٩٥ میں گذر چکا ہے لہذا وہ حواشی بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ شرک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر قوم میں پائی جاتی ہے اور بالخصوص ان اقوام میں ضرور موجود تھی جن کی طرف انبیاء مبعوث ہوتے رہے باقی تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریاں اور برائیاں اسی شرک سے ہی پھوٹتی ہیں گویا جس طرح جسمانی بیماریوں میں قبض کو ام الامراض قرار دیا گیا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں میں شرک ام الامراض ہے۔ شرک سے اجتناب اور توحید کے عقیدہ سے معاشرہ کی اصلاح کیسے ہوتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کا پہلا ہدف یہی مرض رہا ہے انبیاء شرک کی تردید کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت دیتے اور ایمان لانے والوں میں اللہ کی صحیح معرفت پیدا کرتے ہیں جس سے دلوں میں تقویٰ یا خشیت الٰہی پیدا ہوتا ہے اور یہ تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو تمام معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کے لئے شفا کا حکم رکھتا ہے۔ شرک کے علاوہ بعض قوموں میں بعض مخصوص برائیاں بھی ہوتی ہیں جیسے قوم لوط جو لونڈے بازی کی لعنت میں گرفتار تھے۔ قوم شعیب تجارتی کاروبار میں بےایمانی کرتے تھے۔ قوم فرعون نے بنواسرائیل پر قیامت ڈھا رکھی تھی۔ شرک کے بعد انبیاء کی دعوت کا دوسرا ہدف ایسی ہی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔ اہل مدین دو تجارتی شاہراہوں کے چوک میں واقع تھے اور یہ علاقہ اس وجہ سے نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ یہ لوگ صرف ناپ تول کے پیمانوں میں ہی ہاتھ کی صفائی نہیں دکھاتے تھے بلکہ ہر وہ بددیانتی کرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے کا حق مارا جاسکے۔ اسی لیے شعیب نے شرک کے بعد انھیں ایسی ہی تجارتی بددیانتیاں چھوڑنے کی نصیحت کی اور ان کی یہی کرتوتیں فساد فی الارض کے مترادف تھیں جن کے ذریعہ وہ دوسروں کے حق غصب کیا کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يٰقَوْمِ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٥ تا ٩٣) اور سورة شعراء (١٧٦ تا ١٩٠) مکیال اور کیل سے مراد کسی مقرر پیمانے کے برتن مثلاً صاع (ٹوپہ وغیرہ) میں ڈال کر غلے وغیرہ کو ماپنا اور میزان اور وزن کا معنی ترازو وغیرہ سے تولنا ہے۔ اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ : یعنی تم اچھے خاصے خوش حال ہو، پھر اس قسم کی بےایمانی اور فریب کاری کی کیا ضرورت ہے۔ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : یعنی آخرت کا عذاب یا دنیا ہی میں اس دن کا عذاب جس کے گھیرے سے کوئی نکل نہ سکے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary An account of Sayyidna Shu&aib and his people appears in the verses cited above. Besides being kafirs and mushriks, his people used to give less in weights and measures. Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) carried his call to them, told them not to give less in weights and measures, and warned them of Divine punishment if they persisted with this way of life. But, they did persist with their denial and contu¬macy and, as a consequence, all those people were destroyed through a severe punishment, details of which appear as follows. In the first verse (84), it was said: وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا (And to Madyan [ We sent ] their brother, Shu&aib Madyan was actually the name of a town settled by Madyan ibn Ibrahim. Its present location has been given as ` Ma` an& in Jordan. The people of this town are also called Madyan. Therefore, by calling Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) ` brother of Madyan,& it was hinted that Allah Ta` ala sent His messenger to those people from among them so that they feel familiar and find it easier to accept his teachings. Then, it was said: قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ 0 my people, worship Allah. You have no god other than Him. And do not lessen the measure and the weight. Here, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) has invited his people to believe in the Oneness of Allah (Tauhid) because they were Mushriks, those who associated partners in the divinity of Allah. They worshipped trees. That has been pointed to through the use of the word: الایکہ (al-&aikah: trees) in the Holy Qur&an and it is in this respect that the people of Madyan have also been given the sobriquet of اَصحَاب الاَیکہ (ashabu al--aikah: the people of aikah - 15:78, 26:176, 38:13, 50:14). Along with this kufr and shirk, they were also involved in the grave sin of cheating in commercial transactions when they would weigh short and give less in measure and thus deprive people of what was to come to them as their right. Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) told them not to do that. Special Note Here, it is useful to keep in mind that kufr and shirk are the roots of all sins. People soaked in these are usually the first to be invited to believe. Faith comes before consideration could be given to matters like social transactions and individual deeds. Whether they have deliv¬erance in the present world or would deserve punishment are things that too are decided on the basis of this faith or denial. All events re¬lated to past prophets and their peoples mentioned in the Qur&an bear witness to this mode of action - with the exception of two communi¬ties. Punishment came upon them because of their disbelief as well as due to their evil deeds. The people of Sayyidna Lut (علیہ السلام) were one of them upon whom, as mentioned earlier, their entire habitation was overturned. It has been stated that their evil practice was the reason for it. The people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) were the other one. They were punished because of their kufr and shirk as well as because of their habit of weighing less and measuring short. This tells us that both these things are most hated and grave, more than any other sin. Obviously, the reason is that they bring serious loss upon the entire human race leaving the world populated by it in a disorder of ominous proportions. Turning to the verses cited above, we see that Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) has used his prophetic compassion to make his people stop their evil practice of giving short measure and less weight. The words he has used to say that are eloquent: إِنِّي أَرَ‌اكُم بِخَيْرٍ‌ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ (I see you quite well off, and I fear for you the punishment of an encircling day - 84). It means that Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) found them liv¬ing comfortably. There were not poor, hungry and financially strait¬ened which could be one of the reasons why they had to take recourse to such a cursed practice. Now that they were already blessed by Allah Ta` ala, it required that they should not subject His creation to injus¬tice. Not leaving it at that, they were also told that, in the event they did not listen to their prophet and did not stop this evil practice, he ap¬prehended that Divine punishment might encircle them. This punish¬ment could mean the punishment of the Hereafter, and the punish¬ment of the present world too. Then, the punishments due to come in this world may be of different kinds. The lowest punishment could be that they might lose the prosperity they had, or they may fall victims to famines and price hikes, as said by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ` When a people start lessening weights and measures, Allah Ta` ala makes them suffer from the punishment of famine and price hikes.&

خلاصہ تفسیر اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے ( اہل مدین سے) فرمایا کہ اے میری قوم تم ( صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (بننے کے قابل) نہیں (یہ حکم تو دیانات و عقائد کے متعلق ان کے مناسب حال تھا) اور (دوسرا حکم معاملات کے متعلق ان کے مناسب یہ فرمایا کہ) تم ناپ تول میں کمی مت کیا کرو ( کیونکہ) میں تم کو فراغت کی حالت میں دیکھتا ہوں ( پھر تم کو ناپ تول میں کمی کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے اور حقیقۃً تو کسی کو بھی ضروت نہیں ہوتی) اور ( علاوہ اس کے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تقاضا ہے خود خوف ضرر بھی اس کو مقتضی ہے کیونکہ اس میں) مجھ کو تم پر اندیشہ ہے ایسے دن کے عذاب کا جو انواع عذاب کا جامع ہوگا اور ( ہرچند کہ کمی نہ کرنا مستلزم ہے پورا کرنے کو مگر تاکید کے لئے اس کی ممانعت کے بعد اس امر کی تصریح بھی فرمائی کہ) اے میری قوم تم ناپ اور تول پوری پوری طرح کیا کرو اور لوگوں کا ان چیزوں میں نقصان مت کیا کرو (جیسا تمہاری عادت ہے) اور ( شرک اور لوگوں کے حقوق میں کمی کر کے) زمین میں فساد کرتے ہوئے حد ( توحید و عدل) سے مت نکلو ( لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد) اللہ کا دیا ہوا جو کچھ (حلال مال) بچ جاوے وہ تمہارے لئے (اس حرام کمائی سے) بدرجہا بہتر ہے (کیونکہ حرام میں گو وہ کثیر ہو برکت نہیں اور انجام اس کا جہنم ہے اور حلال میں گو وہ قلیل ہو برکت ہوتی ہے اور انجام اس کا رضائے حق ہے) اگر تم کو یقین آوے (تو مان لو) اور (اگر یقین نہ آوے تو تم جانو) میں تمہارا پہرہ دینے والا تو ہوں نہیں ( کہ تم سے جبرًا یہ افعال چھڑا دوں جیسا کہ کرو گے بھگتو گے) وہ لوگ ( یہ تمام مواعظ و نصائح سن کر) کہنے لگے اے شعیب ! کیا تمہارا (مصنوعی اور وہمی) تقدس تم کو (ایسی ایسی باتوں کی) تعلیم کر رہا ہے کہ ( تم ہم سے کہتے ہو کہ) ہم ان چیزوں ( کی پرستش) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں اور اس بات کو چھوڑ دیں کہ ہم اپنے مال میں جو چاہیں تصرف کریں واقعی آپ بڑے عقلمند دین پر چلنے والے ہیں (یعنی جن باتوں سے ہم کو منع کرتے ہو دونوں میں سے کوئی برا نہیں کیونکہ ایک کی دلیل تو نقلی ہے کہ ہمارے بڑوں سے بت پرستی ہوتی آئی ہے، دوسرے کی دلیل عقلی ہے کہ اپنا مال ہے اس میں ہر طرح کا اختیار ہے پس ہم کو منع نہ کرنا چاہئے، اور حلیم رشید تمسخر سے کہا، جیسا بد دینوں کی عادت ہوتی ہے دین داروں کے ساتھ تمسخر کرنے کی اور ان کی نقلی و عقلی دونوں دلیلوں کا فساد بدیہی ہے) شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم ( تم جو مجھ سے چاہتے ہو کہ میں توحید و عدل کی نصیحت نہ کروں تو) بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ( قائم) ہوں ( جس سے توحید و عدل ثابت ہے) اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے ایک عمدہ دولت (یعنی نبوت) دی ہو ( جس سے مجھ پر تبلیغ ان احکام کی واجب ہو، یعنی توحید و عدل کا حق ہونا بھی ثابت اور ان کی تبلیغ بھی واجب) تو پھر کیسے تبلیغ نہ کروں اور میں (جس طرح ان باتوں کی تم کو تعلیم کرتا ہوں خود بھی تو اس پر عمل کرتا ہوں) یہ نہیں چاہتا ہوں کہ تمہارے برخلاف خود اور راہ پر چلوں، مطلب یہ ہے کہ میری نصیحت محض خیر خواہی دلسوزی سے ہے جس کا قرینہ ہے کہ میں وہی باتیں بتلاتا ہوں جو اپنے نفس کے لئے بھی پسند کرتا ہوں غرض) میں تو اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہے اور مجھ کو جو کچھ ( عمل و اصلاح کی) توفیق ہوجاتی ہے صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے ( ورنہ کیا میں اور کیا میرا ارادہ) اسی پر میں بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف ( تمام امور میں) رجوع کرتا ہوں ( خلاصہ یہ کہ توحید و عدل کے وجوب پر دلائل بھی قائم، اور بامر خداوندی اس کی تبلیغ، اور ناصح ایسا دلسوز اور مصلح، پھر بھی نہیں مانتے بلکہ الٹی مجھ سے امید رکھتے ہو کہ میں کہنا چھوڑ دوں چونکہ اس تقریر میں دلسوزی اور اصلاح کی اپنی طرف نسبت کی ہے، اس لئے مَا تَوْفِيْقِيْٓ فرما دیا، یہاں تک تو ان کے قول کا جواب ہوگیا، آگے ترہیب و ترغیب فرماتے ہیں) اور اے میری قوم میری ضد ( اور عداوت) تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہوجاوے کہ تم پر بھی اسی طرح کی مصیبتیں آپڑیں جیسے قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر پڑی تھیں اور ( اگر ان قوموں کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اور اس لئے اس سے متاثر نہیں ہوتے تو) قوم لوط تو ( ابھی) تم سے ( بہت) دور ( زمانہ میں) نہیں ہوئی ( یعنی ان قوموں کی نسبت ان کا زمانہ نزدیک ہے، یہ تو ترہیب کا مضمون ہوگیا، آگے ترغیب ہے) اور تم اپنے رب سے اپنے گناہ ( یعنی شرک و ظلم) معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ کیونکہ ایمان سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، گو حقوق ادا کرنے پڑیں) پھر ( اطاعت عبادت کے ساتھ) اس کی طرف متوجہ ہو بلا شک میرا رب بڑا مہربان بڑی محبت والا ہے ( وہ گناہ کو معاف کردیتا ہے اور اطاعت کو قبول کرتا ہے) وہ لوگ ( یہ لاجواب دل آویز تقریر سن کر جواب معقول سے عاجز ہو کر براہ جہالت) کہنے لگے کہ شعیب ! بہت سی باتیں تمہاری کہی ہوئی ہماری سمجھ میں نہیں آئیں ( یہ بات یا تو اس وجہ سے کہی ہو کہ اچھی طرح توجہ سے آپ کی باتیں نہ سنی ہوں یا تحقیراً کہا ہو کہ نعوذ باللہ یہ ہذیان ہے سمجھنے کے قابل نہیں، چناچہ بد دینوں سے یہ سب امور واقع ہوتے ہیں) اور ہم تم کو اپنے ( مجمع) میں کمزور دیکھ رہے ہیں اور اگر تمہارے خاندان کا ( کہ ہمارے ہم مذہب ہیں ہم کو) پاس نہ ہوتا تو ہم تم کو ( کبھی کا) سنگسار کرچکے ہوتے اور ہماری نظر میں تمہاری کچھ توقیر ہی نہیں ( لیکن جس کا لحاظ ہوتا ہے اس کے سبب اس کے رشتہ دار کی بھی رعایت ہوتی ہے، مطلب ان کا یہ تھا کہ تم ہم کو یہ مضامین مت سناؤ ورنہ تمہاری جان کا خطرہ ہے، پہلے تمسخر کے طور پر تبلیغ سے روکا تھا، اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ الخ اور اب دھمکی دے کر روکا) شعیب ( علیہ السلام) نے ( جواب میں) فرمایا اے میری قوم ( افسوس اور تعجب ہے کہ میری جو نسبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے کہ میں اس کا نبی ہوں وہ تو میرے ہلاک سے مانع نہ ہوئی اور جو میری نسبت خاندان کے ساتھ ہے کہ ان کا رشتہ دار ہوں وہ اس سے میرا خاندان تمہارے نزدیک ( نعوذ باللہ) اللہ سے بھی زیادہ باتوقیر ہے ( کہ خاندان کا تو پاس کیا) اور اس کو ( یعنی اللہ تعالیٰ کو) تم نے پس پشت ڈال دیا (یعنی اس کا پاس نہ کیا، سو اس کا خمیازہ عنقریب بھگتو گے کیونکہ) یقینا میرا رب تمہارے سب اعمال کو ( اپنے علم میں) احاطہ کئے ہوئے ہے اور اے میری قوم (اگر تم کو عذاب کا بھی یقین نہیں آتا تو اخیر بات یہ ہے کہ تم جانو بہتر ہے) ہم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی ( اپنے طور پر) عمل کر رہا ہوں ( سو) اب جلدی تم کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا اور وہ کون شخص ہے جو جھوٹا تھا ( یعنی تم مجھ کو دعوی نبوت میں جھوٹا کہتے ہو اور حقیر سمجھتے ہو تو اب معلوم ہوجاوے گا کہ جرم کذب کا مرتکب اور سزائے ذلت کا مستوجب کون تھا تم یا میں) اور تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ( کہ دیکھیں عذاب کا وقوع ہوتا ہے جیسا میں کہتا ہوں یا عدم وقوع جیسا تمہارا گمان ہے، غرض ایک زمانہ کے بعد عذاب کا سامان شروع ہوا) اور جب ہمارا حکم (عذاب کیلئے) آپہنچا ( تو) ہم نے (اس عذاب سے) شعیب (علیہ السلام) کو اور جو ان کی ہمراہی میں اہل ایمان تھے ان کو اپنی عنایت ( خا ص) سے بچا لیا اور ان ظالموں کو ایک سخت آواز نے ( کہ نعرہ جبریل تھا) آپکڑا سو اپنے گھروں کے اندر اوندھے گرے رہ گئے (اور مرگئے) جیسے کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے، خوب سن لو ( اور عبرت پکڑو) مدین کو رحمت سے دوری ہوئی جیسا ثمود رحمت سے دور ہوئے تھے۔ معارف و مسائل مذکور الصدر آیات میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ مذکور ہے ان کی قوم کفر و شرک کے علاوہ ناپ تول میں کمی بھی کرتی تھی، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو ایمان کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا اور اس کے خلاف کرنے پر عذاب الہٰی سے ڈرایا مگر یہ اپنے انکار اور سرکشی پر قائم رہے تو پوری قوم ایک سخت عذاب کے ذریعہ ہلاک کردی گئی۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے۔ (آیت) وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا، یعنی ہم نے بھیجا مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو۔ مدین اصل میں ایک شہر کا نام تھا جس کو مدین بن ابراہیم نے بسایا تھا اس کا محل وقوع ملک شام کے موجودہ مقام |" معان |" کو بتلایا جاتا ہے، اس شہر کے با شندوں کو بھی بجائے اہل مدین کے مدین کہہ دیا جاتا ہے، شعیب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں جو اسی قوم مدین میں سے ہیں اسی لئے ان کو مدین کا بھائی فرما کر اس نعمت کی طرف اشارہ کردیا کہ اس قوم کے رسول کو اللہ تعالیٰ نے اسی قوم سے بنایا تاکہ ان سے مانوس ہو کر ان کی ہدایات کو بآسانی قبول کرسکیں۔ (آیت) قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ ۔ اس میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پہلے تو اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ یہ لوگ مشرک تھے، درختوں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے، جس کو قرآن میں لفظ ایکہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی کی نسبت سے اہل مدین کو اصحب الایکہ کا بھی لقب دیا گیا ہے، اس کفر و شرک کے ساتھ ان میں ایک اور عیب و گناہ نہایت سخت یہ تھا کہ بیو پار اور لین دین کے وقت ناپ تول میں کمی کرکے لوگوں کا حق مار لیتے تھے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو اس سے منع فرمایا۔ فائدہ : یہاں یہ بات خاص طور سے قابل غور ہے کہ کفر و شرک سب گناہوں کی جڑ ہے جو قوم اس میں مبتلا ہے اس کو پہلے ایمان ہی کی دعوت دی جاتی ہے، ایمان سے پہلے دوسرے معاملات اور اعمال پر توجہ نہیں دی جاتی، دنیا میں ان کی نجات یا عذاب بھی اسی ایمان و کفر کی بنیاد پر ہوتا ہے، تمام انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے واقعات جو قرآن میں مذکور ہیں اسی طرز عمل کے شاہد ہیں، صرف دو قومیں ایسی ہیں جن پر عذاب نازل ہونے میں کفر کے ساتھ ان کے اعمال خبیثہ کو بھی دخل رہا ہے، ایک لوط (علیہ السلام) کی قوم، جس کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے کہ ان پر جو عذاب پوری بستی الٹ دینے کا واقع ہوا اس کا سبب ان کے عمل خبیث کو بتلایا گیا ہے، دوسری قوم شعیب (علیہ السلام) کی ہے جن کے عذاب کا سبب کفر و شرک کے علاوہ ناپ تول میں کمی کرنے کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب گناہوں سے زیادہ مبغوض اور شدید ہیں، بظاہر وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایسے ہیں کہ پوری نسل انسانی کو اس سے شدید نقصان پہنچا ہے اور پورے عالم میں اس سے فساد عظیم پھیل جاتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے کے خبیث عمل سے روکنے کیلئے پیغمبر کے ساتھ اول تو یہ فرمایا : (آیت) اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ ، یعنی میں تمہیں اس وقت خوشحالی میں دیکھتا ہوں، کوئی فقر و فاقہ اور مالی تنگی نہیں جس کی وجہ سے اس بلاء میں مبتلا ہو، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر اس کو مقتضی ہے کہ تم اس کی مخلوق پر ظلم نہ کرو، اور پھر یہ بھی بتلا دیا کہ اگر تم نے میری بات نہ سنی اور اس عمل خبیث سے باز نہ آئے تو مجھے خطرہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب تمہیں گھیر لے، اس عذاب سے آخرت کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور دنیا کا بھی، پھر دنیا کے عذاب بھی مختلف قسم کے آسکتے ہیں، ادنی عذاب یہ ہے کہ تمہاری یہ خوشحالی ختم ہوجائے اور تم قحط اور گرانی اشیاء میں مبتلا ہوجاؤ، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قحط اور گرانی اشیاء کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۝ ٠ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ۭ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ۝ ٨٤ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ كَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ( ک ی ل ) الکیل ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے معیّ ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے معیْ ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے معید ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) اور ہم نے مدین والوں کی طرف انکے نبی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرو اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، جس پر ایمان لانے کا میں تمہیں حکم دوں اور ناپ تول میں لوگوں کے حقوق میں کمی مت کیا کرو، میں تمہیں مال کے پھیلاؤ اور فراوانی اور بھاؤ کی تیزی کی حالت میں دیکھتا ہوں اگر تم مجھ پر ایمان نہ لائے اور ناپ تول ٹھیک طریقہ سے نہ کیا تو مجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو تم پر نازل ہوگا اور پھر تم میں سے کوئی سختی اور قحط سالی وغیرہ سے نہیں بچ سکتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ ( وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ) اس قوم کے بارے میں ہم سورة الاعراف کے مطالعہ کے دوران پڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ بنی قطورہ میں سے تھے اور خلیج عقبہ کے دا ہنی (مشرقی) طرف کے علاقہ میں آباد تھے۔ اس علاقہ میں یہ لوگ ایک بڑی مضبوط قوم بن کر ابھرے تھے۔ یہ علاقہ اس وقت کی دو بہت اہم بین الاقوامی شاہراہوں کے مقام انقطاع (intersection) پر واقع تھا۔ ایک شاہراہ شمالاً جنوباً تھی جو شام سے یمن جاتی تھی اور دوسری شرقاً غرباً تھی جو عراق سے مصر کو جاتی تھی۔ چناچہ تمام تجارتی قافلے یہیں سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے یہ علاقہ اس زمانے کا بہت بڑا تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ نتیجتاً یہاں کے لوگ بہت خوشحال ہوگئے تھے ‘ مگر ساتھ ہی ناپ تول میں کمی اور راہزنی جیسے قبیح جرائم میں بھی ملوث تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94. For details see Towards Understanding the Qur'an, vol. Ill, al-A'raf, nn. 69-75, pp. 53-7.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :94 یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارض فلسطین ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: مدین اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے مختصر تعارف کے لیے سورۃ اعراف (85:7) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے 51: مدین کا علاقہ بڑا زرخیز تھا، اور یہاں کے لوگ بحیثیت مجموعی خوش حالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کی خوشحالی کا دو وجہ سے خاص طور پر ذکر فرمایا۔ ایک یہ کہ اتنی خوشحالی کے بعد تمہیں دھوکا بازی کر کے کمائی کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اس خوشحالی کے نتیجے میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ اس کی نافرمانی پر آمادہ ہوجاؤ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک بیوی اور تھیں جن کا نام قنطورا تھا یہ یقظان کنعانیہ کی بیٹی تھیں ان سے آٹھ بچے پیدا ہوئے تھے جن میں سے ایک کا نام مدین تھا اس مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) نے ملک حجاز اور ملک شام کے درمیان میں ایک گاؤں بسایا جس کا نام مدین مشہور ہوگیا۔ یہ گاؤں مدین بحر قلزم کے کنارے تبوک کے سامنے چھ منزل پر واقع ہے مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) کی یہیں بودو باش رہی ان کی نسل سے جو پیدا ہوتے گئے یہیں بستے گئے۔ رفتہ رفتہ ایک بہت بڑا قبیلہ ہوگیا تبوک سے اس کی آبادی زیادہ ہوگئی مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کی اولاد میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے باپ پیدا ہوئے اس لئے اللہ پاک نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قبیلہ مدین کا بھائی فرمایا مدین والے بہت خوش حال تھے ان میں ایک عادت علاوہ بت پرستی کے اور بھی تھی کہ جب کوئی سودا خریدتے تھے تو بڑوہتی لیتے تھے اور جب بیچتے تھے تو کم دیتے تھے۔ دو قسم کے پیمانے اور بٹے بنا رکھے تھے بیچنے کا اور خریدنے کا اور اللہ جل شانہ نے انہیں لوگوں میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور نبی بنا کر حکم دیا کہ ان کو خدا کی طرف بلاؤ شعیب (علیہ السلام) نے ان کو ہدایت کی کہ تم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کرو اور ناپ تول میں کمی بیشی نہ کیا کرو پورا پورا تول کرلو اور پورا پورا تول کر دو اللہ پاک نے تمہیں آسودہ حال بنایا ہے اگر ایسا نہ کرو گے تو خوف ہے کہ یہ نعمت تم سے چھن جائے اور سختی و تنگی کا سامنا ہو اور تم پر ایسا عذاب آئے کہ تم اس سے بچ نہ سکو۔ معتبر سند سے نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ میں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو مدینہ کے لوگوں کی عادت آپ نے کم تولنے اور کم ناپنے کی پائی لیکن پھر آپ کی نصیحت سے اکثر لوگوں نے وہ عادت چھوڑ دی ١ ؎۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم شعیب (علیہ السلام) کی طرح عرب میں بھی کم تولنے اور کم ناپنے کی عادت تھی لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سبب سے لوگوں کی وہ عادت باقی نہیں رہی۔ ١ ؎ الترغیب ص ١٣ ج ٢ الترھیب من تجس الکیل والوزن۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:84) لا تنقصوا۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ نقص (باب نصر) سے تم مت گھٹائو۔ تم مت کم کرو۔ المکیال۔ اسم آلہ۔ مفرد۔ غلہ کو ماپنے کا پیمانہ۔ کیل۔ مصدر۔ (باب ضرب) فاوف لنا الکیل۔ (12:88) آپ ہمیں (اس کے عوض) پورا ماپ غلہ کا دیجئے۔ المیزان۔ اسم آلہ ۔ وزن کرنے کا آلہ ۔ ترازو۔ مصدر۔ وزن کرنا۔ (باب ضرب) جمع موازین۔ انی ارکم بخیر۔ میں دیکھتا ہوں تم بخیر ہو۔ (1) یعنی تم صاحب مال و دولت ہو۔ تمہیں ڈنڈی مارنے اور کم ماپنے یا تولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (2) میں تم کو اچھا بھلا خوشحال پاتا ہوں لہٰذا تم اپنی مذموم حرکات اور افعال سے یہ خداداد نعمت زائل مت کرو۔ یوم محیط۔ وہ دن جو مجرم کو ہر طرف سے گھیر کر اسے مجبور اور بےبس کر دے گا۔ عذاب یوم محیط۔ اس دن کا عذاب جو ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ روح البیان میں ہے وصف الیوم بالاحاطۃ والمراد العذاب۔ محیط لفظاً یوم کی صفت ہے لیکن مراد اس سے عذاب ہے یعنی میں ڈرتا ہوں اس دن سے کہ تم پر عذاب محیط آجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ تشریح کے لئے دیکھئے سورة اعراف رکوع۔۔۔ ف۔ 1 اچھے خاصے خوشحال ہو پھر اس قسم کی بےایمانی اور فریب کاری کی تمہیں کیا ضرورت ہے ؟ 2 ۔ یعنی آخرت کا عذاب یا دنیا ہی کا عذاب جس سے کوئی نہ بچ سکے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٨٤ تا ٩٥ اسرار و معارف شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا حال بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ مدین جو ملک شام کا مشہور شہر تھا اس کے رہنے والوں کی طرف ان ہی میں سے شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ شجرپرستی میں مبتلا تھے اور مختلف درختوں کی پوجا کرتے تھے جیسے ہندومت میں آج بھی یہ بات پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ان کا لین دین بھی ہندؤوں جیسا تھا ڈنڈی مارنے سے نہ چوکتے ناپ تول میں کمی کردیتے ۔ سونے کے سکوں میں سے تھوڑابہت سونا کاٹ لیتے اور سکہ پوری قیمت پر چلتا کردیتے۔ ناپ تول میں کمی چنانچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دی اور فرمایا اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ لہٰذا صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور ناپ تول میں کمی کرنا چھوڑ دو کہ دیکھوتم کس قدرخوشحال ہو اللہ کی دی ہوئی نعمتیں مال و دولت تمہارے پاس بہت ہیں اور یہ ناپ تول میں کمی یا دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ایسا جرم ہے جس سے نعمتوں کو زوال آجاتا ہے اور کفر وشرک تباہی لاتا ہے تو خطرہ اس بات کا ہے کہ تم دنیا وآخرت کے تباہ کن عذاب میں پھنس کر تباہ ہوجاؤگے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنے والوں پر قحط اور گرانی کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے اور علماء کے نزدیک کسی دوسرے کا حق روکنا یا جو حق اپنے ذمہ ہوادانہ کرنا بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے تنخواہ پاکرڈیوٹی پوری نہ کرنا یا دفتر کے لوگ ڈاکٹر اور کاروباری ادارے اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے لگیں تو یہ سب ناپ تول میں کمی ہے اور اس پر گرانی کا عذاب نازل ہوتا ہے ۔ لہٰذا گرانی کے عفریت سے نجات کا راستہ دیانتداری سے فرائض منصبی کی ادائیگی اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا ہے ۔ جبکہ لوگ اس میں تو مبتلا ہیں اور گرانی سے نجات کے دوسرے طریقے تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔ فرمایا کہ ناپ تول پورا کرو اور کسی کا حق نہ مارو کہ یہ اتنا بڑاجرم ہے جس سے پوری دنیا میں فساد پھیلتا ہے جیسے بدن انسانی میں دوران خون دل سے جاری ہوکرہرذرئہ بدن تک اس کے حق کے مطابق پہنچتا ہے لیکن اگر کسی جگہ رک جائے یا روک دیا جائے تو اس سے آگے کا حصہ تباہ ہونے لگتا ہے اور وہ چونکہ بدن ہی کا حصہ ہوتا ہے لہٰذاسارے بدن کو تکلیف ہوتی ہے اور جب خود دل ہی کی کوئی نس بندہوجاتی ہے تو فورا موت واقع ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح اگر کسی بھی انسان سے اس کا حق روک دیا جائے ، خواہ ناپ تول اور لین دین میں کمی کرکے یافرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کے تو پوری قوم مبتلائے عذاب ہوجاتی ہے جس کا مشاہدہ ہم لوگ کر رہے ہیں مگر وائے ہے ایسے دانشوروں پر جو پھر بھی کبھی مغربی جمہوریت میں پناہ کے طالب ہیں اور کبھی سوشلزم میں جبکہ ایک حسین دھوکا ہے تو دوسرانظام جبرواستبداد کی آخری اور بھیانک شکل اے کاش ! انھیں اسلام کے یہ سنہرے اور آفاتی اصول نظرآتے۔ فرمایا کہ اس کفروشرک اور بددیانتی کے باوجود تم خود کو ایماندار جانتے ہو اور حق پر سمجھتے ہو۔ اور ایمان کا تقاضاتو یہ ہے کہ اپنے حق پہ اکتفا کی جائے اور اللہ کی طرف سے جو نصیب ہو حلال اور جائز ذرائع سے اس پہ قناعت کی جائے کہ وہی بہترین نعمت ہے جب اس میں دوسروں کے حقوق ملنا شروع ہوتے ہیں تو وہ عذاب بن جاتی ہے ۔ اور اگر تم بازنہ آئے تو میں بھی تمہاری کوی مددنہ کرسکوں گا۔ نہ تم سے زبردستی منواسکتا ہوں اور نہ پھر تمہیں بچاسکوں گا ۔ تو انھوں نے آپ کی پرہیزگاری اور نماز کا طعنہ دیا جیسے آج بھی بعض بدبخت یہی طعنہ دیتے ہیں کہ کیا آپ کی عبادت آپ کو یہی سکھاتی ہے کہ ہم باپ داداکامذہب بھی چھوڑدیں اور اپنے مال میں آپ سے پوجھ کر تصرف کریں اس پر اپنی مرضی لاگو نہیں کرسکتے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) چونکہ بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے تو انہیں اسی کا طعنہ دیا نیز ان کا خیال تھا کہ عبادت الگ چیز ہے اور معاملات الگ جیسے آج بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نمازیں پڑھیں آپ کو سیاسیات اور کاروبار حیات سے کیا واسطہ مگر یاد رہے ایمان کے بعد سب سے اہم بات معاملات کی ہے پھر ذاتی عبادت کی ۔ ذاتی کردار مگر وہ کہنے لگے کہ آپ کس قدرشریف بردبار اور نیکوکار انسان ہیں بھلا آپ کو دوسروں کی خرابیوں میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا بچپن جوانی ہر دور خوبصورت اور معاشرے سے الگ اور نتھرا ہوا ہوتا ہے لہٰذاکفار بھی ان کی ذاتی شرافت کے معترف ہوتے ہیں لہٰذا مصلحین اور مشائخ کو چاہیئے کہ ذاتی کردار کو مثالی بنائیں کہ تبلیغ میں اس کا بہت اثر ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ لوگو ! میں جس کام سے تمہیں روک رہا ہوں خودبھی تو اس کے قریب نہیں جاتا ایسی تو کوئی بات نہیں کہ تمہیں روک کر خود اس طریقے سے دولت جمع کرنا چاہتا ہوں اور یہ بھی تمہارے سامنے ہے کہ اللہ نے مجھے بہترین رزق دیا ہے مال ومنال بھی عقل و دانش بھی علم بھی اور نور نبوت بھی ۔ اور میرے پاس معجزات کی روشن دلیل بھی ہے اور میری تمنا صرف تم لوگوں کی اصلاح ہے کہ تمہیں دنیا میں بھی عزت ووقار نصیب ہو اور آخرت میں بھی راحت و سکون ملے ۔ تو تمہارے بھلے کا دوعالم میں طلب گار ہوں ہاں ! جو میری استطاعت میں ہے وہ تو میں ضرور کروں گا تم منت سے بھی اور زبردستی بھی مجھے روک نہیں سکتے ہاں ! میراذاتی کچھ بھی تو نہیں بس اللہ رب العزت ہی کی عطاکروہ طاقت وقوت ہے جو میں اس کی اطاعت پہ صرف کرتا رہوں گا۔ اسی کی ذات پر مجھے بھروسہ بھی ہے اور اسی کی طرف میرے قلب کا رجوع بھی ۔ انابت دل کا وہ خفیہ ترین فیصلہ ہے جو وہ کسی کے ساتھ رہنے کا کرتا ہے تو پوری عملی زندگی اس حال میں ڈھل جاتی ہے ۔ انبیاء وصالحین کی دشمنی عذاب الٰہی کا سبب بنتی ہے فرمایا لوگو ! محض میری مخالفت کرنے کے لئے الٹے کاموں پہ نہ جم جانا۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ویسے ہی عذاب نازل ہوں جیسے نوح (علیہ السلام) یا صالح (علیہ السلام) کی قوم پر نازل ہوئے اور لوط وعلیہ السلام کی قوم تو تم سے زیادہ پہلے نہیں گزری ۔ ان کی حالت ہی دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور برائی سے باز آجاؤ ۔ نیز صلحاء کی مخالفت میں برائی پہ جمے رہنامحض انھیں ناکام کرنے کے لئے یاتنگ کرنے کے لئے تو یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ اور اللہ سے بخشش طلب کرو خلوص دل سے استغفار کرو ۔ نیز آئندہ یہ جرم نہ کرنے کا پکاپکاعہد کرو تو اللہ بہت بڑارحم کرنے والا ہے اور اپنے کی توفیق بھی عطاکردے گا۔ ذرامانگ کر تو دیکھو ، اس کے در پر آکرتو دیکھو لیکن بات وہی ہے جو بارہا لکھی جاچکی کہ گناہ دل سے سمجھ چھین لیتے ہیں اور دل گونگا بہرا اور اندھا کردیتے ہیں بات پلے ہی نہیں پڑتی ۔ چناچہ وہ بھی کہنے لگے آپ کی بات ہمارے پلے نہیں پڑتی اور ہمیں تو آپ کے پاس کوئی قوت و طاقت بھی نظر نہیں آتی محض ایک کمزور سے انسان دکھائی پڑتے ہو۔ بس ذرا تمہارے قبیلے کا لحاظ ہے کہ جب ایک شہر میں رہنا ہے تو مل جل کر رہنا مناسب ہے اور ناراضگی پیدانہ کریں اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں سرعام سنگسار کردیتے کہ ہمارے نزدیک تمہاری کوئی حیثیت نہیں ۔ انھوں نے فرمایا بدنصیبو ! تمہیں اللہ کی عظمت کا خیال نہیں آتا میں جس کافر ستادہ اور نبی ہوں اور میرے قبیلے کا لحاظ وپ اس ہے اور یادرکھو کہ میرا پروردگار تمہارے کرتوتوں سے پوری طرح باخبر بھی ہے اور ان سب پر قدرت کاملہ بھی رکھتا ہے جب چاہے تھیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے تو جو کر رہے ہو کرتے رہو اور انتظار کرو کہ عنقریب بات واضح ہوجائے گی کہ کون عذاب الٰہی کی گرفت میں آتا ہے اور ذلیل ہوکرتباہ ہوتا ہے اور یہی بات ثابت کردے گی کہ کون جھوٹا ہے تم بھی اس وقت کا انتظارکرو اور میں بھی اسی کا انتظار کرتا ہوں۔ چنانچہ عذاب الٰہی ان پر نازل ہوا اور وہی کچھ ہوا کہ ظالموں پر عذاب نازل ہورہا تھا تو اللہ کے نبی اور اس کے ماننے والوں پہ رحمت نچھاور ہورہی تھی چناچہ شعیب (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو اللہ نے اپنی خاص رحمت سے بچالیا اور باقی سب پر ایک سخت چنگھاڑ پڑی کہ کوئی روح بچ سکانہ کسی کا ٹھکانہ ۔ ہر شے تہ وبالا ہوگئی اور یوں تباہ ہوئے کہ آبادی ویرانہ نظر آتی تھی جیسے یہاں کبھی کوئی رہاہی نہ ہو تو لوگو ! سن لو کہ مدین پر بھی ایسے پھٹکار پڑی جیسے ثمود پر پڑچکی تھی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 84 تا 88 لاتنقصوا (تم کمی نہ کرو) المکیال (ماپ) المیزان (تول) انی اری (بےشک میں دیکھ رہا ہوں) بخیر (خیر سے، بھلائی سے، اچھا حال) یوم محیط (گھیر لینے والا دن ) القسط (انصاف، برابری) لاتبخسوا (نہ گھٹائو، کمی نہ کرو) اشیاء (چیزیں) لاتعثوا (تم نہ پھرو، نہ گھومو) بقیت اللہ (اللہ کا بچایا ہوا) حفیظ (نگہبان، نگران) تامرک (تجھے حکم دیتی ہے) ان نترک (یہ کہ ہم چھوڑ دیں) ان نفعل (یہ کہ ہم کریں) نشآء (ہم چاہیں) رزقنی (اس نے مجھے دیا) انھی (میں منع کرتا ہوں، روتکا ہوں) ارید (میں چاہتا ہوں) استطعت (میں طاقت رکھتا ہوں) توفیق (عطاء، توفیق) توکلت (میں نے بھروسہ کرلیا) انیب (میں لوٹتا ہوں) تشریح : آیت نمبر 84 تا 88 گزشتہ آیات میں چند انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حضرت شعیب اور ان کی نافرمان قوم کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت شعیب جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” خطیب الانبیاء “ کے مبارک لقب سے یاد فرمایا ہے نہایت متین، سنجیدہ اور خوش بیان تھے۔ انہوں نے ہر طرح اپنی قوم کو سجھایا مگر وہ قوم آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔ حضرت شعیب کی قوم بنیادی طور سے ایک تجارت پیشہ قوم تھی۔ نہایت خوش حال اور بلند وبالا قدو قامت کی مالک۔ حسین و جمیل علاقوں میں عیش و آرام کی زندگی گذار رہی تھی۔ مگر ماپ تول میں کمی، بےایمانی، بد دیانتی، خریدو فروخت میں دھوکے بازی سود خوری اور سٹہ بازی ان کا مزاج بن چکا تھا۔ تجارتی کامیایبوں اور دولت کی ریل پیل نے ان میں چند ایسی بنیادی خرابیاں پیدا کردی تھیں جنہوں نے اس قوم کو اخلاقی تباہی کے کنارے پہنچا دیا تھا۔ (1) ماپ تول میں کمی۔ یعنی لینے کے پیمانے اور تھے دینے کے اور جو آدمی جتنی بےایمانی کرسکتا تھا وہ اس کیلئے عیب نہیں بلکہ تجارتی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔ رزق حرام کمانا ان کا اس طرح مزاج بن چکا تھا کہ ” رزق حلال “ ان کو راس ہی نہ آتا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں رزق حلال میں سات گنا برکت رکھی ہے وہیں ” رزق حرام “ میں ایسی بےبرکتی رکھی ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایسا انسان خلای ہاتھ ہی رہتا ہے۔ اس کے کام میں برکت نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو گھر میں اور گھر سے باہر ” سکون قلب “ حاصل نہیں ہوتا اور آخر کار یہ دولت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ 2) حرام کمئای بہت دکھائی دیتی ہے اسی لئے اس میں ان برئایوں کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ بہترین سواریاں، بلند وبالا عمارات سرسبز و شادات باغیچے اور روشیں ، خوبصورت لباس اور جھک جھک کر سلام کرنے والوں کی کثرت انسان کو اس وہم میں مبتلا کردیتی ہے کہ وہ نہایت کامیاب انسان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک فرد غرور تکبر کا پیکر بن جاتا ہے اور اپنے سامنے کسی کو پانے سے بلند نہیں سجھتا بلکہ سب کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھنے لگتا ہے، ضد ہٹ دھرمی اور تکبر اس کا مزاج بن جاتا ہے۔ 3) ایسے لوگوں کی اخلاقی گراوٹ اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے بےجان بتوں کو اپنا معبود اور حاجت روا سمجھ بیٹھتے ہیں اور توحید کی تعلیمات کو بھلا کر کفر و شرک کی دل دل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ حضرت شعیب جن کو اہل مدین کی اصلاح اور درستی کے لئے بھیجا گیا تھا انہوں نے اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ایک اللہ کی بندگی اور اطاعت کا درس دیا یہ وہی تعلیم تھی جو تمام انبیاء کرام نے کفر و شرک میں مبتلا قوموں کی دی تھی۔ کیونکہ ہر نبی اور رسول بنیادی طور پر تو حد خلاص کی طرف متوجہ کرتا ہے اور تمام تر تمدنی ترقی کے باوجود اگر ایک قوم کفر و شرک اور بری عادات میں مبتلا ہوجاتی ہے تو ان کا تمدن اور ان کی تہذیب ان کے کسی کام نہیں آتی۔ حضرت شعیب نے فرمایا کہ میری قمو کے لوگو ! تم اس ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی تمہارا خالق ومالک اور کار ساز ہے۔ ان کی اخلاقی اصلاح کے لئے فرمایا کہ تم ماپ تول میں کمی نہ کرو ورنہ مجھے یہ ڈر ہے کہ تمہاری ان بےایمانیوں کے نتیجے میں اللہ کا وہ عذاب آجائے گا جس سے بچ کر نکلنا ممکن ہی نہ ہوگا۔ ان کے معاشرہ کی اصلاح کے لئے فرمایا کہ تم فساد فی الارض نہ کرو کیونکہ اللہ کو فساد کرنے والے پسند نہیں ہیں۔ ان کے ایمان کی تقویت کے لئے فرمایا کہ حلال ذریعوں سے جو بھی رزق تمہارا مقدر ہے اس پر گذارہ کرو اور ہوس اور لالچ کے ہر انداز کو چھوڑ دو ۔ حضرت شعیب نے ان کے تمدن، تہذیب ، اخلاق اور ایمان کی اصلاح کے بہترین اور مخلصانہ طریقفے ارشاد فرمائے۔ پوری قوم کا یہی جواب تھا کہ اے شعیب کیا تمہاری نماز اور عبادت تمہیں یہی سکھاتی ہے کہ تم ہم سے ایسی باتیں کرو اور ہمارا وہ مال جس میں ہمیں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے اسے اپنی مرضی سے خرچ نہ کریں اور کیا ہم اپنی کاروباری زندگی کو رزق حلال کے چکر میں تباہ و برباد کر ڈالیں ؟ ہمیں آپ جیسے باوقار اور حلیم الطبع انسان سے ایسی توقع نہیں تھی۔ حضرت شعیب کا یہی جواب تھا کہ میں نے تمہارے اصلاح و ترقی کے لئے جو کچھ کیا وہ اس بنیاد پر ہے کہ اللہ نے میری رہنمائی فرمائی ہے۔ میں اس کے بھروسے پر تم سے ہر وہ بات کروں گا جس سے تمہاری اصلاح ہوجائے۔ اگر تم مانتے ہو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اگر تم اس کو تسلیم نہیں کرتے تو میں تمہارا محتاج نہیں ہوں۔ میری کوئی ذاتی غرض نہیں ہے میرا مکمل بھروسہ اللہ کی ذات پر ہے۔ جب یہ قوم ماپ تو ل میں کمی ، حرام کمائی کی خوگر اور غیر اللہ کی عبادت میں حد سے گذر گئی تب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا۔ ان کو اور ان کی تہذیب و ترقیات کو تہس نہس کردیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پھر تم کو ناپ تول میں کمی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کے انجام کے بعد قوم صالح کے کردار اور انجام کا ذکر۔ قوم مدین کی طرف انہیں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر منتخب کیا گیا اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت ان سے پہلے انبیاء دیتے آرہے تھے۔ چناچہ انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا الٰہ نہیں۔ قرآن مجید میں الٰہ کے کئی معانی ہیں۔ جن میں سب سے پہلا معنی ہے کہ وہ ہستی جس کی والہانہ طور پر بندگی کی جائے۔ انتہائی مشکل کے وقت صرف اس کو پکارا جائے اور اس کے سوا کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم نہ کیا جائے۔ ( سورة النحل : ٢ تا ٦٥) کیونکہ یہ صفات صرف ایک اللہ کی ذات میں ہیں اور کسی نبی، ولی، فرشتہ اور دیگر مخلوق میں نہیں ہیں۔ جس بناء پر ہر انسان کو اللہ کی ذات اور صفات پر مکمل ایمان لاکرصرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ عبادت کا معنی ہے کہ انسان اپنے آپ کو صرف اور صرف ایک اللہ کی غلامی کے لیے وقف کردے۔ یہی کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ کا مفہوم اور تقاضا ہے۔ محمد رسول اللہ کا معنی ہے جو بات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلائی اور کرکے دکھائی ہے ہر کام اس کے مطابق کیا جائے چناچہ شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو فرماتے ہیں اے قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کی بندگی کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کی اطاعت و پرستش کی جائے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو میں دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مال دار ہو۔ یہاں خیر سے مراد دنیا کا مال و متاع ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر تم کفرو شرک اور ماپ تول میں کمی وبیشی کرنے سے باز نہ آئے تو تم پر ایسا عذاب آئے گا جو تمہیں چاروں طرف سے گھیرلے گا۔ اس سے بچ نکلنا تمہارے بس کی بات نہ ہوگی۔ اے میری قوم ناپ تول میں خیانت کرنے کی بجائے اس کو عدل و انصاف کے ساتھ ناپا اور تولا کرو اور دوسروں کی چیزوں میں کسی طریقہ سے کمی و بیشی نہ کرو۔ یہ سراسر فساد کا راستہ ہے۔ تمہیں ملک میں فساد کرنے سے بچنا چاہیے۔ اللہ نے جو تمہیں خیر و برکت عطا کر رکھی ہے وہ تمہارے لیے کافی ہے اگر تم اس پر ایمان رکھنے والے ہو۔ میں تو تمہیں بار بار نصیحت ہی کرسکتا ہوں۔ کیونکہ میں تم پر نگران نہیں بنایا گیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے پہلے خطاب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں : ١۔ صرف ایک اللہ کی بندگی کرو اور اس کی بندگی میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ ٢۔ لوگوں کا مال کم ناپنے اور تھوڑا تولنے کی بجائے اسے عدل و انصاف کے ساتھ ناپا اور تولاکرو۔ اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول کرنے کے بعد جو تمہارا حق بنتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ جہاں تک ماپ تول کا معاملہ ہے کہ کسی کو چیز دیتے ہوئے مقرر شدہ وزن سے کم دینا اور اس سے لیتے ہوئے مقررہ شرائط سے زیادہ لینا یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس زیادتی سے آپس میں شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ہر فساد کی ابتدا نفرت سے ہی ہوا کرتی ہے۔ جس سے منع کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تین طریقوں سے سمجھایا۔ ١۔ اے میری قوم کے لوگو ! تم مال دار ہو، اس لیے تمہیں خیانت نہیں کرنا چاہیے۔ اس فرمان کا مقصد یہ تھا کہ ایک غریب آدمی کسی وجہ سے خیانت کرے تو اس کے پاس ایک بہانہ ہوتا ہے گو ایسا بہانہ جائز نہیں لیکن تم کس بنیاد پر اس خیانت کے مرتکب ہو رہے ہو ؟ تم تو مالدار ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم سرمایہ دار ہونے کے باوجود خائن تھی۔ ٢۔ حلال اور جائز طریقے سے کمایا اور بچایا ہوا مال انسان کے لیے بہتر ہے یعنی بابرکت ہوا کرتا ہے۔ ٣۔ مجھے اللہ نے تمہیں سمجھانے کے لیے بھیجا ہے، تم پر نگران مقرر نہیں کیا۔ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ١٠٧] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔ “ (وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ ۔ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ۔ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ )[ المطففین : ١۔ ٣] ” ہلاکت ہے کم تولنے والوں کے لیے کہ وہ جب لوگوں سے تول کرلیتے ہیں تو زیادہ لیتے ہیں اور جب ان کے لیے تولتے ہیں یا وزن کرتے ہیں تو کمی کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ مدین والوں کی طرف شعیب (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جھوٹے معبودوں کی نفی کی۔ ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ ٥۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ ٦۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو زمین میں فساد کرنے سے روکا۔ ٧۔ ماپ تول میں کمی کرنا ملک میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی نگران نہیں مبلغ ہوتا ہے : ١۔ میں تم پر نگراں نہیں ہوں۔ (ھود : ٨٦) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ (النساء : ٨٠) ٣۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کے لیے نگران نہیں بنایا۔ (الانعام : ١٠٧) ٤۔ اگر وہ اعراض کریں تو آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (الشوریٰ : ٤٨) ٥۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٦۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٠٣ ایک نظر میں اسلامی نظریہ حیات انسانی تاریخ میں واحد ، دائمی اور مسلسل نظریہ ہے ، اب ہم حضرت شعیب (علیہ السلام) کے دور میں پہنچ گئے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم اہل مدین میں اس کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان کی دعوت میں اسلامی نظریہ حیات کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کا ایک دوسرا اہم مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ سوسائٹی میں امانت عدل اور حسن معاملہ کے اصول نافذ کرو ، ان معاملات کا تعلق بھی اسلامی عقائد سے ہے۔ کیونکہ اللہ وحدہ کے دین میں داخل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ کی شریعت کا اتباع کیا جائے۔ لیکن اہل مدین کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی یہ دعوت سن کر بڑا تعجب ہوا اور یہ بات ان کو انوکھی لگی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ دین کے ساتھ ناپ تول جیسے دنیاوی معاملات کا تعلق کیا ہے ؟ نماز اور ترازو کے درمیان کیا نسبت ؟ عبادت اور مالی معاملات بالکل الگ الگ نوعیت کے حامل ہیں۔ یہ قصہ حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم عاد کے قصے اور حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم ثمود کے قصے کے بعد آتا ہے۔ لیکن اس قصے کا انجام اور اس کا اسلوب بیان اور عذاب کی نوعیت قصہ صالح کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ ان کا عذاب بھی ایک جیسا ہے اور اس عذاب کا اسلوب تعبیر بھی یکساں ہے۔ درس نمبر ١٠٣ تشریح آیات ٨٤۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ٩٥ صرف اللہ کی بندگی کرنا دین اسلام کی خشت اول ہے۔ اور اسلامی نظام زندگی کی اساس ہے۔ اسلامی شریعت کا بھی یہ قاعدہ اول ہے۔ اسلامی سوسائٹی کا نظام عمل سب کا سب اسی قاعدے پر مبنی ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے بعیر کوئی عقیدہ ، کوئی پرستش ، کو سی طرز عمل مکمل اور اسلامی نہیں کہلا سکتی۔ ان آیات میں جو اہم معاملہ اٹھایا گیا ہے وہ عدل و انصاف اور امانت و دیانت کا اور معاشی ضابطہ بندی کا مسئلہ ہے۔ اس سے قبل کی آیات میں اسلام کی نظریاتی اساس کا تعین تھا۔ لیکن یہاں جو مالی ہدایات دی گئی ہیں وہ اس نظریہ حیات کا فطری نتیجہ ہیں۔ اہل مدین کا علاقہ حجاز سے شام تک جانے والے تجارتی راستے پر تھا۔ اور ان میں یہ کمزوری پائی جاتی تھی کہ وہ ناپ تول میں لوگوں کا حق مارتے تھے۔ لوگوں کی چیزوں کی قیمت کم دیتے۔ یہ وہ کمزوری ہے جو انسان کے قلب و عمل ، دونوں کو گندہ کردیتی ہے اور انسان سے مروت اور عزت نفس کے بلند اوصاف جاتے رہتے ہیں۔ اس رزالت کے علاوہ یہ لوگ شمالی عرب میں شام کی طرف آنے جانے والے قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور آنے جانے والوں پر ناجائزراہداری عائد کرکے ظلم کرتے تھے۔ اس صورت میں ان کے اس عیب کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی نظام حیات میں نظریات ، عقائد کا تعق براہ راست امانت ، دیانت ، عدذل و انصاف اور لین دین میں اصول انصاف کے قیام اور سوسائٹی سے چوری ، ڈکیتی اور تمام دور سے معاشری جرائم کے ، خاتمے سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی معاشرے میں عدل و انصاف تب قائم ہو سکتا ہے جب اس کے افراد کے اندر خدا خوفی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ہو۔ صرف ایسے عقائد اور ایسے اخلاق کے ذریعے سوسائٹی میں عدل و انصاف اور منصفانہ معاشی نظام اور معاشی روابط قائم ہو سکتے ہیں اور ایک ٹھوس انسانی معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ باہم معاملات کا نظام اور معاشرہ کا اخلاقی نظام ایک مستحکم نظریاتی اساس پر مبنی ہوں اور معاملات اور اخلاق ایسے اصولوں اور تصورات پر مبنی نہ ہوں جو آئے دن بدلنے والے ہوں۔ اسلامی نظریہ حیات میں یہی خوبی ہے۔ اسلامی نظام تمام دوسرے نظاموں اور اسلامی سوسائٹی تمام دوسری سوسائیٹوں سے اس پہلو میں منفرد ہے کہ اس میں افراد کی پوری زندگی اسلامی عقائد و تصورات پر استوار ہوتی ہے اس میں محض عارضی اور ظاہری مظاہر و مطالب ہی پش نظر نہیں ہوتے۔ جب اسلامی سوسائٹی اپنے اخلاق و معاملات ان اصولوں اور مستحکم بنیادوں پر رکھتی ہے تو پھر وہ گردش دوران کے عارضی موثرات سے بدلتی نہیں اور نہ ہی وہ کسی مروجہ عارضی سیلاب اور تپش سے متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کے اخلاق ، ان کے باہم معاملات کا اخلاقی رنگ یہ نہیں ہورتا کہ وہ زرعی معیشت پر تکیہ رکھتے ہیں یا وہ جانور پال کر زندگی بسر کرتے ہیں یا ان کا تعلق صنعت و حرفت کے پیشوں سے ہے یہ عوامل ان کے اخلاق اور طرز عمل پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ اسلام کے اخلاقی نقطہ نظر میں اور اسلام کے اخلاقی اصولوں میں ان عوامل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے کیونکہ اسلامی اخلاقیات اور اسلامی شریعت و قوانین کا ماخذ قرآن اور سنت ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاق کا نصب العین صرف رضائے الہی کا حصول ہے اور آخرت کے عذاب کا خوف اور ثواب کا حصول اسلامی نظام اور معاشرے میں اصل محرک ہے۔ دنیا میں انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے قانون و اخلاق چونکہ تجارتی روابط ، اقتصادی حالات اور ذاتی اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنائے اور وضع کیے جاتے ہیں ، اس لیے یہ تصورات اور یہ اخلاقیات اسلامی زاویہ نگاہ سے بالکل لغو اور بودے ہوتے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب “ اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر ” اور مولف کی کتاب (نحو مجتمع اسلامی) کی فصل “ نظام اخلاق ”) وَلا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ (٨٤ : ١١) “ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ ” یعنی اللہ نے تمہیں رزق حسن دیا ہے۔ اس لیے تمہیں اس قسم کی گھٹیا حرکت کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ مجبور ہے۔ تم پہلے سے غنی ہو۔ اگر تم ناپ اور تول کے پیمانوں میں یہ بےقاعدگی چھوڑ دو تو تم غریب نہ ہو گے اور اگر اسے جاری رکھو تو تم امیر تر نہیں بن سکتے۔ بلکہ خطرہ یہ ہے کہ اس بےقاعدگی کی وجہ سے تمہارے اچھے دن ختم ہوجائیں اور تمہاری مالی مار دھاڑ کے مواقع ہی نا پید ہوجائیں۔ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ (١١ : ٨٤) “ مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ ” یہ عذاب آخرت میں بھی آسکتا ہے جہاں پر چھوٹے بڑے معاملے کا فیصلہ ہوگا اور اس جہان میں بھی آسکتا ہے ، جب لوگوں پر تمہاری یہ غلط کاری واضح ہوگی اور تمہاری تجارت ماند پڑجائے گی اور معاشرے کے اندر کشمکش شروع ہوگی اور تم ایک دوسرے کے برسرپیکار ہوجاؤ گے اور رسہ کشی شروع ہوجائے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مدین والوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تبلیغ فرمانا اور ان لوگوں کا الٹے جواب دینا اور استہزاء کرنا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا تھا اصحاب ایکہ کا ذکر سورة الشعرا (ع ١٠) میں ہے اور سورة اعراف (ع ١١) میں اور یہاں سورة ہود میں اور سورة عنکبوت (ع ٤) میں اصحاب مدین کا ذکر ہے۔ یہ لوگ بھی مشرک تھے غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور لوگوں کو جو مال بیچتے تھے تو ناپ تول میں کمی کرتے تھے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو تبلیغ کی اور ان سے فرمایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو ‘ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ‘ نیز یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مال پورے پورے انصاف کے ساتھ دو ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو حلال مال بچ جائے تمہارے لئے بہتر ہے جو تم ناپ تول میں کٹوتی کرتے ہو۔ حلال میں برکت ہوتی ہے اگرچہ کم ہو اور حرام اگرچہ زیادہ ہو بےبرکت ہوتا ہے اور آخرت میں جہنم میں لے جانے والا ہے لہٰذا تم حلال پر اکتفا کرو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارا پہرہ دار نہیں ہوں کہ تم سے جبراً وہ عمل کروا کر ہی چھوڑوں جس کا میں حکم دے رہا ہوں۔ وہ لوگ بیہودگی پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ واہ میاں تم بڑے نمازی آئے کیا تمہاری نماز یہی بتاتی ہے کہ ہم ان چیزوں کی عبادت چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے ہوئے آئے ہیں ‘ نماز کا ذکر انہوں نے استہزاء اور تمسخر کے طور پر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تمہاری نماز عجیب ہے ‘ ہم جو سامان بیچتے ہیں اس پر پابندی لگاتی ہے ہمارا مال ہے ہم اس میں جو چاہیں تصرف کریں۔ یہی بات اس زمانہ کے لوگ بھی کہہ دیتے ہیں جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ سود نہ لو اور سود نہ دو ۔ رشوت کا لین دین نہ کرو بیمہ کمپنی میں رقم جمع نہ کرو۔ گناہ کی چیزیں نہ خریدو اور نہ انہیں فروخت کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ مولویوں کا عجیب ڈھنگ ہے ہر شخص کا اپنا مال ہے جیسے چاہے تصرف کرے مولویوں کو لوگوں کے معاملات میں بولنے اور زیادہ مال کمانے کے سلسلہ میں روڑے اٹکانے کی کیا ضرورت ہے ‘ یہ لوگ اول تو یہ بات غلط کہتے ہیں کہ مال ہمارا ہے ‘ تمہارا مال کہاں سے ہوگا تم خود اپنے نہیں ہو تم اور تمہارے اموال کو پیدا فرمایا اسے اختیار ہے کہ جو چاہے احکام نافذ فرمائے اور جس چیز سے چاہے منع کرے اور جس چیز کی چاہے اجازت دے اور جس عمل سے چاہے روکے۔ مولوی اپنے پاس سے کچھ کہیں تو قصور وار ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74:۔ یہ چھٹا قصہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ پہلا دعویٰ چونکہ مقصودی ہے اس لیے اس پر شاہد کا اعادہ کیا گیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہ پیغام دیا۔ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللہ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرهٗ اے میری قوم ! صرف اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔ اس کے بعد ان کی دوسری کوتاہیوں سے ان کو منع کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 اور اہل مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی حقیقی معبود نہیں اور اس کے سوا کوئی معبود بننے کیل ائق نہیں اور تم پیمانہ بھرنے اور تولنے میں کمی نہ کیا کرو یعنی باپ میں اور تول میں کمی نہ کیا کرو نہ کم ماپو نہ کم تولو ! کیونکہ میں تم کو آسودہ حال اور فراغت کی حالت میں دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایک ایسے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو ہر قسم کے عذاب کا جامع ہوگا اور وہ دن گھیر لینے والا ہوگا یعنی توحید کو اختیار کرکے عقیدے کی اصلاح کرو یہ تو ایک بنیادی چیز ہے پھر معاملات کی اصلاح کرو جو چیز پیمانہ سے دی جاتی ہے یعنی کیلی اس میں پیمانہ پورا بھرو اور جو تول سے دی جاتی ہے یعنی وزنی اس میں تول پوری رکھو میں تم کو خوشحال دیکھتا ہوں اگرچہ تنگی میں بھی معاملات صحیح ہونے چاہئیں چہ جائے کہ فراخی بھی میسر ہو پھر معاملات میں بےایمانی کی جائے۔ دنیا میں گھیرنے والا عذاب یہ کہ سب ہلاک ہوجائو اور آخرت میں یہ کہ مختلف عذابوں میں گھر جائو اور کوئی جگہ اس دن عذاب سے بچنے کی نہ ہو۔