Surat Hood

Surah: 11

Verse: 93

سورة هود

وَ یٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ؕ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ مَنۡ ہُوَ کَاذِبٌ ؕ وَ ارۡتَقِبُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ رَقِیۡبٌ ﴿۹۳﴾

And O my people, work according to your position; indeed, I am working. You are going to know to whom will come a punishment that will disgrace him and who is a liar. So watch; indeed, I am with you a watcher, [awaiting the outcome]."

اے میری قوم کے لوگو! اب تم اپنی جگہ عمل کیئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں ، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کے پاس وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے اور کون ہے جو جھوٹا ہے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Shu`ayb's threatening of His People When the Prophet of Allah, Shu`ayb, despaired of their response to him, he said, وَيَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ ... "O my people, Act according to your ability, This means, "Act according to your current ways." This is actually a severe threat. ... إِنِّي عَامِلٌ ... I am acting. according to my way. ... سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ... You will come to know who it is on whom descends the torment that will cover him with ignominy, and who is a liar! meaning, between me and you. ... وَارْتَقِبُواْ ... And watch you! This means to wait. ... إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ I too am watching with you. Allah then says, وَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ امَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مَّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ

مدین والوں پر عذاب الٰہی جب اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو تھک کر فرمایا اچھا تم اپنے طریقے پر چلے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والے عذاب کن پر نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جھوٹا کون ہے؟ تم منظر رہو میں بھی انتظار میں ہوں ۔ آخرش ان پر بھی عذاب الٰہی اترا اس وقت نبی اللہ اور مومن بچا دیئے گئے ان پر رحمت رب ہوئی اور ظالموں کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ وہ جل بھجے ۔ بےحس و حرکت رہ گئے ۔ ایسے کہ گویا کبھی اپنے گھروں میں آباد ہی نہ تھے ۔ اور جیسے کہ ان سے پہلے کے ثمودی تھے اللہ کی لعنت کا باعث بنے ویسے ہی یہ بھی ہوگئے ۔ ثمودی ان کے پڑوسی تھے اور گناہ اور بدامنی میں انہیں جیسے تھے اور یہ دونوں قومیں عرب ہی سے تعلق رکھتی تھیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم اپنے کفر و شرک پر مصر ہے اور وعظ و نصیحت کا بھی کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا، تو کہا اچھا تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو، عنقریب تمہیں جھوٹے سچے کا اور اس بات کا کہ رسوا کن عذاب کا مستحق کون ہے ؟ علم ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ ۔۔ : اس آیت میں لہجہ پچھلی آیت سے بھی سخت ہے، کیونکہ شعیب (علیہ السلام) ان کے اللہ تعالیٰ کی سطوت و عزت سے بےبس انسانوں کی عزت و سطوت زیادہ سمجھنے اور ان کے ایمان لانے سے ناامید ہونے پر انھیں اللہ کے عذاب کی دھمکی دے رہے ہیں کہ تم اپنی جگہ عمل کرو، میں بھی اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے پر دعوت کا کام جاری رکھوں گا۔ نتیجہ بہت جلد سامنے آجائے گا۔ ان دونوں آیات میں کفار کی ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے جو پچھلی آیت میں ذکر ہوئی ہیں کہ تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں، ہم تجھے اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں، صرف اپنی برادری کی وجہ سے تو سنگسار ہونے سے بچا ہوا ہے، ورنہ ہمارے ہاں تیری نہ کوئی عزت ہے نہ طاقت۔ فرمایا بہت جلد ان تمام باتوں کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کس کی قوت زیادہ ہے، کون سنگسار ہوتا ہے، کون سچا ہے اور کون جھوٹا، فیصلہ ہوچکا، اب صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح عمل میں آتا ہے۔ سو تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ۝ ٠ۭ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝ ٠ۙ مَنْ يَّاْتِيْہِ عَذَابٌ يُّخْزِيْہِ وَمَنْ ہُوَكَاذِبٌ۝ ٠ۭ وَارْتَقِبُوْٓا اِنِّىْ مَعَكُمْ رَقِيْبٌ۝ ٩٣ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ رقب الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ : أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . ( ر ق ب ) الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة/ 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٣) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم تم اپنے گھروں میں اپنے دین کے مطابق میری ہلاکت کی تدابیر کرتے رہو، میں بھی تمہاری ہلاکت کا منتظر ہوں، اب جلدی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ کون شخص ہے جس پر ایسا عذاب آنے والا ہے جو اس کو ذلیل اور ہلاک کردے گا اور کون شخص ہے جو جھوٹا تھا، تم بھی میری ہلاکت کا انتطار کرو میں بھی تمہاری ہلاکت کا منتظر ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (وَيٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ) تم میرے خلاف جو بھی ریشہ دوانیاں کرسکتے ہو جو بھی چالیں چل سکتے ہو ‘ اور جو اقدامات بھی کرسکتے ہو کر گزرو۔ اپنے طور پر جو کچھ میں کرسکتا ہوں ‘ جو کوشش مجھ سے بن آرہی ہے میں کررہا ہوں۔ یہ چیلنج کرنے کا انداز سورة الانعام سے چلا آ رہا ہے۔ یہ گویا مکہ کے حالات کے ساتھ تطابق کیا جا رہا ہے۔ مکہ میں حق و باطل کی کشمکش بھی اب انتہا کو پہنچ چکی تھی اور اس کی وجہ سے آپ کی طبیعت کے اندر ایک طرح کی بیزاری پیدا ہوچکی تھی کہ اب جو کچھ تم کرسکتے ہو کرلو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

57: یعنی میری تبلیغ کے باوجود اگر تم اپنی ضد پر قائم رہتے ہو تو آخری چارہ کار یہی ہے کہ تم اپنے طریقے پر قائم رہو، اور میں اپنے طریقے پر۔ پھر دیکھو کہ کس کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٣۔ پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب مدین کو شرک اور کم تولنے کی عادت سے توبہ استغفار کرنے کی نصیحت کی اور یہ کہا کہ مجھ کو ڈر ہے کہ اگر تم میرا کہنا نہ مانو گے تو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح اور قوم لوط کی طرح تم ہلاک ہوجاؤ گے جب ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانا تو آخر درجہ انہوں نے یہ فرمایا کہ خیر جو تمہارا جی چاہے وہ کرو اب تم کو معلوم ہوجاوے گا کہ تمہاری کیا رسوائی ہونے والی ہے آخر وہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں عذاب آیا آگ برسی اور سب ہلاک ہوگئے آخری نصیحت حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جو اپنی امت کو کی تھی جب بلوہ کے لوگ حضرت عثمان (رض) کے گھر پر چڑھ آئے اور حضرت عثمان (رض) کے شہید کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عثمان (رض) نے بھی یہی نصیحت کی تھی کہ دیکھو مجھ کو شہید نہ کرو مجھ کو خوف ہے کہ قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح اور قوم شعیب (علیہ السلام) کا سا وبال تم پر نہ آوے آخر وہی ہوا کہ اس روز سے مسلمان طرح طرح کے وبال میں گرفتار ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے لے کر حضرت عثمان (رض) کے زمانہ تک جو اقبال مندی اور خوشحالی تھی وہ بات باقی نہ رہی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم الٰہی میں جو لوگ دوزخ کے قابل ٹھہر چکے ہیں دنیا میں پیدا ہونے کے بعد وہ لوگ کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں ١ ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شعیب (علیہ السلام) جب نصیحت کرتے کرتے تھک گئے اور ان کی قوم کے لوگ راہ راست پر نہ آئے تو اللہ کے نبی شعیب (علیہ السلام) نے جان لیا کہ یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوگا اس لئے اللہ کے نبی نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ اب تم لوگوں کا جو جی چاہے سو کرو یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی طبیب کسی بیمار کی زندگی سے مایوس ہو کر کہہ دیتا ہے کہ جو تیرا جی چاہے وہ کھا پرہیز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس آیت میں عذاب کے آجانے کی پیشین گوئی جو اللہ کے رسول شعیب (علیہ السلام) نے کی تھی اس کے ظہور کا حال آگے کی آیت میں آتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٣٨ ج ٢ تفسیر سورة واللیل اذا یفشی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:93) اعملوا علی مکانتکم۔ (1) اپنے طریقہ کے مطابق عمل کرو۔ (2) اپنے حدّ امکان تک کوشش کرو (3) اپنی حالت کے مطابق کام کرو۔ (4) اپنی جگہ پر کام کرو۔ انی عامل۔ ای انی عامل علی مکانتی۔ یخزیہ۔ (جو) اس کو رسوا کرے گا۔ ارتقبوا امر جمع مذکر حاضر۔ ارتقاب مصدر باب افتعال۔ تم انتظار کرو۔ رقیب بروزن فعیل بمعنی فاعل۔ انتظار کرنیوالا، منتظر

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ میں یا تم ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی تم دعوی نبوت میں مجھ کو جھوٹا کہتے ہو اور حقیر سمجھتے ہو تو اب معلوم ہوجائے گا کہ جرم کذب کا مرتکب اور سزائے ذلت کا مستوجب کون تھا تم یا میں دیکھیں عذاب کا وقوع ہوتا ہے جیسا میں کہتا ہوں یا عدم وقوع جیسا تمہارا زعم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کی پے درپے مخالفت اور الزامات کے بعد بالآخر حضرت شعیب (علیہ السلام) مجبور ہو کر یہ جواب دیتے ہیں۔ اے میری قوم ! تم میرے ساتھ مزید اختلاف کرنے اور میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے اپنے انداز سے عمل کرو اور میں اپنی جگہ مستقل مزاجی سے کام کرتا ہوں۔ بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کردینے والا عذاب آتا ہے اور ہم میں سے کون جھوٹا ہے۔ بس تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ انیسویں پارے میں موجود ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں یہ بھی فرمایا کہ میری برادری یا کسی اور سے ڈرنے کی بجائے اس ذات کبریا سے ڈرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس کے جواب میں قوم نے انہیں کہا کہ تم پر تو جادو ہوچکا ہے۔ ہم تیری پیروی کیونکر کریں۔ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں۔ اگر تو واقعی سچا ہے تو ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو کلی طور پر جھٹلادیا۔ (الشعراء : ١٨٤ تا ١٨٩) چناچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) انہیں یہ فرما کر تم اپنی جگہ انتظار کرو۔ میں اپنی جگہ انتظار کرتا ہوں۔ ان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ مسائل ١۔ ہر عمل کرنے والے کو اپنے اعمال کا پتہ چل جائے گا۔ ٢۔ قوم شعیب پر ذلیل کردینے والا عذاب آیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ (٩٢ : ١١) “۔ ” تم اپنے راستے اور اپنے منصوبے پر عمل کرو میں اپنے پر کر رہا ہوں۔ اب میں نے تم سے اپنے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں۔ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ (١١ : ٩٣) “ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا ، جلدی ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ذلت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں۔ ” تم اپنے طریقے پر کام کرو میں اپنے پر کر رہا ہوں۔ عنقریب تمہیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا اور ہمیں اپنا۔ نیز جو عذاب تمہارے انتظار میں ہے اس کے لیے انتظار کرو۔ (اِرْتِقوا) میں انہیں جو انتظار کا مشورہ دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کے دل میں پورا یقین تھا کہ عذاب آنے والا ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان سے مکمل جدائی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اب اس منظر کا پردہ گرتا ہے۔ یہ منظر نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ایک آخری بات یعنی حق و باطل کی مکمل جدائی کی بات کی جاتی ہے دوسرا منظر اب اس قوم کی مکمل تباہی کا منظر ہوگا۔ اس منظر میں یہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہیں۔ ان کو ایسی کڑک نے آ لیا جیسے قوم صالح (علیہ السلام) پر آئی تھی۔ چناچہ دونوں کا انجام ایک جیسا تھا۔ ان کے محلات خالی پڑے تھے گویا کبھی یہاں کوئی بستا ہی نہ تھا گویا کبھی یہ محلات تعمیر ہی نہ ہوئے تھے یہ لوگ بھی قوم صالح (علیہ السلام) کی طرح تاریخ کا حصہ بن گئے اور ابدالاباد تک ملعون ٹھہرے۔ جس طرح ان کا وجود اس کرہ ارض سے لپیٹ لیا گیا۔ اسی طرح صفحات تاریخ سے ان کا ذکر بھی مٹا دیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

93 اور اے میری قوم ! اگر تم کو موجودہ عذاب کا یقین نہیں آتا تو تم اپنے حال پر عمل کرتے رہو میں بھی اپنی حالت پر عمل کررہا ہوں تھوڑے دنوں میں تم کو معلوم ہواجاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسکو رسوا کردے گا اور وہ کون شخص ہے جو جھوٹا تھا اور کذاب بیانی کیا کرتا تھا تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں یعنی میر بات کا تو تم کو یقین نہیں آتا میں تم کو آنے والے عذاب سے ڈرتا ہوں تم مجھ کو جھوٹا کہتے ہو اب سوائے اس کے کیا چارئہ کار ہے کہ تم اپنا کام کرتے ہو میں اپنا کام کرتا رہوں اب بہت جلد تم کو معلوم ہوجائے گا کہ رسوا کن عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ثابت ہوتا ہے۔