Surat un Nasar
Surah: 110
Verse: 1
سورة النصر
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾
When the victory of Allah has come and the conquest,
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ۔
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾
When the victory of Allah has come and the conquest,
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ۔
This Surah informs of the Completion of the Life of Allah's Messenger Al-Bukhari recorded from Ibn Abbas that he said, "Umar used to bring me into the gatherings with the old men of (the battle of) Badr. However, it was as if one of them felt something in himself (against my attending). So he said, `Why do you (`Umar) bring this (youth) to sit with us when we have children like him (i.e., his age)' So `Umar replied, `Verily, he is among those whom you know.` Then one day he called them and invited me to sit with them, and I do not think that he invited me to be among them that day except to show them. So he said, `What do you say about Allah's statement, إِذَا جَأءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (When there comes the help of Allah and the Conquest.)' Some of them said, `We were commanded to praise Allah and seek His forgiveness when He helps us and gives us victory.' Some of them remained silent and did not say anything. Then he (Umar) said to me, `Is this what you say, O Ibn `Abbas' I said, `No.' He then said, `What do you say' I said, `It was the end of the life of Allah's Messenger that Allah was informing him of. Allah said, إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ When there comes the help of Allah and the Conquest. which means, that is a sign of the end of your life. فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا So, glorify the praises of your Lord, and ask His forgiveness. Verily, He is the One Who accepts the repentance and Who forgives.' So, Umar bin Al-Khattab said, `I do not know anything about it other than what you have said."' Al-Bukhari was alone in recording this Hadith. Imam Ahmad recorded from Ibn Abbas that he said, "When إِذَا جَأءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (When there comes the help of Allah and the Conquest.) was revealed, the Messenger of Allah said, نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي My death has been announced to me. And indeed he died during that year." Ahmad was alone in recording this Hadith. Al-Bukhari recorded that Aishah said, "The Messenger of Allah used to say often in his bowing and prostrating, سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي (Glory to You, O Allah, our Lord, and praise be to You. O Allah, forgive me.) He did this as his interpretation of the Qur'an (i.e., showing its implementation)." The rest of the group has also recorded this Hadith except for At-Tirmidhi. Imam Ahmad recorded from Masruq that Aishah said, "The Messenger of Allah used to often say towards the end of his life, سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْه Glory to Allah, and praise be unto Him. I seek Allah's forgiveness and I repent to Him. And he said, إِنَّ رَبِّي كَانَ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَأَرَى عَلَمَةً فِي أُمَّتِي وَأَمَرَنِي إِذَا رَأَيْتُهَا أَنْ أُسَبِّحَ بِحَمْدِهِ وَأَسْتَغْفِرَهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا فَقَدْ رَأَيْتُهَا إِذَا جَأءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرو: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ بڑی عمر والے مجاہدین کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بھی شامل کر لیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہو گئی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ بتانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرا لمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے پوچھا کہ سورہ اذا جآء کی نسبت تمہیں کیا علم ہے بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمدو ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آ جائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو میں نے کہا نہیں فرمایا پھر اور کیا کہتے ہو میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح حمد اور استفغار میں مشغول ہو جائیے حضرت فاروق نے فرمایا یہی میں بھی جانتا ہوں بخاری جب یہ سورت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہو جائیگا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے مسند احمد مجاہد ابو العالیہ ضحاک وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کی مدد آ گئی اور فتح بھی یمن والے آ گئے پوچھا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یمن والے کیسے ہیں فرمایا وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے ابن جریر ابن عباس کا بیان ہے کہ جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی اور تقریبا وہی فرمایا جو اوپر گزرا طبرانی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے طبرانی اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا لوگ ایک کنارہ ہیں میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے مروان کو جب یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری نے سنائی تو یہ کہنے لگا جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کیساتھ اس کے تخت پر حضرت رافع بن خدیج اور حضرت زید بن ثابت بھی بیٹھے تھے تو حضرت ابو سعید فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کر سکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر حضرت ابو سعید کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن حضرت ابو سعید نے سچ بیان فرمایا مسند احمد یہ حدیث ثابت ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فتح مکہ کے دن فرمایا ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحی کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحی کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحی کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریبا دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعات کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابو داؤد کی حدیث صراحتا مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو ابن عباس وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کرلیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آ جائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہو چکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمدو ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رکوع سجدے میں بہ کثرت سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت فسبح الخ پر عمل کرتے تھے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بہ کثرت کہوں چنانچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں ( مسند احمد ) ابن جریر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا مجھے حکم الٰہی یہی ہے کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں مسند احمد میں ہے کہ جب یہ سورت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموما عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آ جائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آ جائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آ گئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا فالحملد اللہ صحیح بخاری شریف میں بھی حضرت عمر بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آ جائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہو جائیگا ، ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں فالحمد اللہ مسند احمد میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو حضرت جابر ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی اس سورت کی تفسیر ختم ہوئی فالحمدللہ علی احسانہ ۔
[١] فتح مکہ۔ مکہ پر چڑھائی کا سبب اور کیفیت :۔ فتح سے مراد کسی عام معرکہ کی فتح نہیں بلکہ اس سے مراد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قریش کا مرکز شہر مکہ ہے۔ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ آیا مسلمان مکہ کو فتح کرسکیں گے یا نہیں ؟ اگر کرلیں تو اسلام سچا مذہب ہے ورنہ نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اسلام لانے کو بھی فتح مکہ سے مشروط اور فتح مکہ تک موخر کر رکھا تھا۔ گویا فتح مکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ اور خالصتاً اللہ کی مدد سے اور معجزانہ انداز سے واقع ہوئی تھی۔ جس میں مسلمانوں کو معمولی سے معرکہ کی بھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مکہ پر چڑھائی کا فوری سبب قریش مکہ کی عہد شکنی تھی جو انہوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط کو پس پشت ڈال کر اور اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی علی الاعلان مدد کرکے کی تھی۔ اور جب بنوخزاعہ کی فریاد پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے سامنے کچھ شرائط پیش کیں تو قریشی نوجوانوں نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ اسی دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتہائی خفیہ طریق سے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی اور اپنے حلیف قبائل کو بھی خفیہ طور پر پیغام بھیج دیا تھا۔ ابوسفیان کی گرفتاری :۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کی تعداد چار ہزار تھی۔ راستہ میں حلیف قبائل ملتے گئے اور مکہ پہنچنے تک دس ہزار کا جرار لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے قریب مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا تو اس لشکر کو میلوں میں پھیلا دیا اور حکم دیا کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کیے جائیں۔ دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوگیا کہ اس میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت حالات کا جائزہ لینے نکلا ہی تھی کہ گرفتار ہوگیا۔ سیدنا عباس نے اسے اپنے گھوڑے کے پیچھے بٹھایا تاکہ بلاتاخیر اس کے لیے دربار نبوی سے امان کا پروانہ حاصل کرلیا جائے۔ سیدنا عمر کو خبر ہوئی تو وہ بھی فوراً دربار نبوی کو روانہ ہوئے تاکہ ابو سفیان کو دربار نبوی میں پہنچنے سے پہلے اور امان ملنے سے پیشتر ہی قتل کردیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ سیدنا عباس پہلے پہنچ گئے اور ابو سفیان کی جان بچ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے معاف کردیا اور سیدنا عباس سے کہا کہ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیں۔ آپ کا مسلمانوں کو کفار کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم :۔ دوسرے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اور اسلامی لشکر، جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا، کو حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے پوری شان و شوکت کے ساتھ گزرتے جائیں۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان پر ہی نہیں، تمام کفار کے دلوں پر اسلام کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ مقابلہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا اور اس طرح عرب کا یہ مرکزی شہر بلامقابلہ اور بغیر کسی خون خرابہ کے فتح ہوگیا۔ معافی کا اعلان :۔ فتح کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ان جانی دشمنوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ معاف کردیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمان ہوگئے بلکہ اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ کافروں کے دلوں میں اس طرح رعب ڈال دینا اور مکہ کا اس طرح بلامقابلہ فتح ہوجانا بلاشبہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔
(١) اذا جآء نصر اللہ والفتح …: ابن کثیر نے فرمایا کہ ” الفتح “ سے مراد یہاں فتح مکہ ہے، اس پر اتفاق ہے۔ عرب کے قبائل اسلام قبول کرنے کے لئے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں سے مکہ فتح فرما دیا تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد دو سال نہیں گزرے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہوگیا اور تمام قبائل میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو۔ (الحمد للہ) بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں عمرہ بن سلمہ (رض) سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا، جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے چاہا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہو کر پہلے اسلام قبول کرلے اور تمام قبائل اپنے مسلمان ہونے کے لئے فتح مکہ کا انتظار کر رہغے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسے اور اس کی قوم کو چھوڑ دو ، اگر یہ ان پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ (دیکھیے بخاری، المغازی، باب : ٣٣٠٢) (٢) ابن ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن عمر (رض) عنہمانے شیوخ بدر کی موجودگی میں مجھے بلوایا اور حاضرین سے پوچھا :” اللہ تعالیٰ کے فرمان :(اذا جآء نصر اللہ والفتح) کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ “ تو ان میں سے بعض نے کہا کہ اس میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ جب ہمیں فتح و نصرت حاصل ہو تو اللہ کی حمد اور استغفار کریں اور بعض خاموش رہے۔ عمر (رض) عنہمانے کہا : ” ابن عباس ! تم بھی یہی کہتے ہو ؟ “ میں نے کہا :” نہیں ! “ فرمایا :” تو تم کیا کہتے ہو ؟ “ میں ن یک ہا :” اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اطلاع دی ہے، فرمایا :(اذا جآء نصر اللہ والفتح)” جب اللہ کی نصرت اور فتح آگئی۔ “ یہ (فتح و نصرت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی علامت ہے، لہٰذا اب آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے استغفار کیجیے، یقیناً وہ تواب ہے۔ “ عمر (رض) عنہمانے فرمایا :” جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سورت کے متعلق مجھے بھی یہی معلوم ہے۔ “ (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(فسبح بحمد ربک …): ٣٩٨٠) (٣) حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ شیوخ بدر نے جو تفسیر کی ہے وہ بھی بہت خوب صورت مفہوم ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد آٹھ رکعات ادافرمائیں۔ اس لئے امیر لشکر کے لئے مستحب ہے کہ کوئی شہر فتح کرنے کے بعد اس میں داخل ہو تو آٹھ رکعات (نوافل) پڑھے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) عنہمانے مدائن فتح کیا تو ایسے ہی کیا تھا۔ البتہ عمر بن خطاب اور ابن عباس (رض) عنہمانے جو مفہوم سمجھا ہے کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا کام مکمل ہوچکا، اب آپ کو ہمارے پاس آنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی سمجھا، اس لئے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسبیح و تحمید اور استغفار کثرت سے کرنے لگے۔ (٤) اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے سے بھی زیادہ آخرت کی تیاری شروع کردی اور زیادہ سے زیادہ تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے لگے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ” اذا جآء نصر اللہ والفتح “ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو :(سبحانک ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی ) (بخاری، التفسیر، سورة (اذا جاء نصر اللہ): ٣٨٦٨)” تو (ہر عیب سے) پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! مجھے بخش دے۔ “ بخاری کی اس سے بعد والی روایت بھی عائشہ (رض) ہی سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع اور سجدے میں کثرت سے یہ دعاپ ڑھتے ھتے :(سبحانک اللھم ربنا وبحمدک، اللھم اغفرلی) (بخاری، التفسیر، سورة (اذا جاء نصر اللہ): ٣٨٦٨)” اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! تو (ہرعیب سے) پاک ہے، ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! م جھے بخش دے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا قرآن پر عمل کرتے ہوئے پڑھتے تھے۔ (٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من جلس فی مجلس فکثر فیہ لغطہ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ ذلک : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک الا غفرلہ ما کان فی مجلسہ ذلک) (ترمذی، الدعوات، باب مایوقل اذا قام من مجلسہ : ٣٣٣٣، وقال الالبانی صحیح)” جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں شور و غل زیادہ کر بیٹھے، پھر اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ پڑھ لے تو اس مجلس میں اس سے جو کچھ ہوا وہ معاف کردیا جاتا ہے۔ (سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک)” اے اللہ ! تو پاک ہے اور تیری حمد کے ساتھ (ہم تیری تعریف کرتے ہیں) ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف کرتا ہوں۔ “ (٦)” انہ کان تواباً “ میں ” کان “ استمرار کے لئے ہے، سالئے ترجمہ کیا لیا ہے :” یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ “ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب ( سورة شعراء کی ) آیت :(وانذر عشیرتک الاقربین) (اے نبی ! اپنے سے قریبی خاندان والوں کو ڈرا) اتری تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پر چڑھے اور آواز دی :(یا نبی فھر ! یا بنی عدی ! لیطون قریش حتی اجتمعوا، فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولاً لینظر ماھو، فجاء ابولھب و قریش فقال ارایتکم لو اخبرتکم ان خیلاً بالوادی ترید ان تغیر علیکم، اکنتم مصدقی ؟ قالوا نعم، ما جربنا علیک الا صدقاً ، قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید، فقال ابو لھب تبالک سائر الیوم ، الھذا جمعتنا ؟ فنزلت :(تبت یدا ابی لھب و تب ، مااغنی عنہ مالہ و ما کسب) (بخاری، التفسیر، باب :(وانذر عشیرتک الافربین…): ٣٨٨٠)” اے بنی فہر ! اے بنی عدی ! “ اور قریش کے قبیلوں کے نام لے لے کر پکارا، یہاں تک کہ وہ جمع ہوگئے۔ کوئی آدمی خود نہ آسکا تو اس نے کسی کو بھیج دیا تاکہ دیکھے کہ کیا بات ہے۔ ابولہب اور قریش کے دوسرے لوگ آگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ “ انہوں نے کہا :” ہاں ! ہم نحے آپ سے سچ کے علاوہ کبھی کوئی اور تجربہ نہیں کیا (یعنی آپ کو ہمیشہ سچا ہی پایا۔ ) “ آپ نے فرمایا :” تو پھر میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ “ ابولہب کہنے لگا :” سارا دن تیرے لئے ہلاکت ہوا تو نے ہمیں اسی لئے جمع کیا ہے ؟ “ تو یہ سورت اتری :(تبت یدآ ابی لھب و تب ، مااغنی عنہ مالہ وما کسب)” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ۔ نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔ “
Name of the Surah and place of its revelation According to the consensus of scholars, this Surah was revealed in Madinah. Its other name is Surah At-Tawdi`. The word Tawdi` means &to bid farewell&. As this Surah indicates the approach of the demise of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it bids farewell to him and is thus entitled Surah At-Tawdi&. The Last Surah and the Last Verses of the Noble Qur’ an It is recorded in Sahih of Muslim on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، that Surah An-Nasr was the last Surah to be revealed. [ Qurtubi ]. This means that this was the last complete Surah that was revealed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . No complete Surah was revealed after this. Some individual verses reported to have been revealed after this are not in conflict with this statement, because no complete Surah was sent down after the present one. It is like Surah Al-Fatihah which is said to be the first Surah, while a few verses of Surah Al-&Alaq, a few verses of Surah Al-Muddaththir, and a few verses of other Surahs were revealed even before Surah Al-Fatihah, because it means that it was the first Surah to be revealed completely. No complete Surah was revealed before Al-Fatihah. Sayyidna Ibn ` Umar (رض) reports that this Surah was revealed during the Farewell Pilgrimage, and shortly after that a fragment of verse [ 3] of Surah [ 5] الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (...Today, I have perfected your religion for you_[ 5:3]) was revealed. After these two revelations, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) lived only for eighty days, after which he passed away. After these two revelations, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) received the verse of kalalah. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) lived for fifty days. After that he received the following verse [ 9:128] of Surah [ 9] لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ (Surely, there has come to you a Messenger from amongst you, hard on whom is your suffering, for the good of you he craves...) After this revelation, he lived for 35 days. After this verse was revealed the following verse: [ 2:281] اتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ (And be fearful of a day when you shall be returned to Allah...). After this verse he lived only for twenty-one days, and according to Muqatil, he lived for seven days only and passed away. [ Qurtubi ] Verse [ 110:1] إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ (When there comes Allah&s help and the victory). The expression &victory& here is in reference to &the promised Victory or Conquest of Makkah&. There is complete unanimity on this historical fact. However, the scholars disagree whether this Surah was revealed before or after the Conquest. The phrase idha ja&a [ when there comes ] apparently indicates that its revelation took place before the Conquest. Ruh-ul-Ma’ ani cites a narration from Al-Bahr-ul-Muhit which concurs with this view, in which it is stated that this Surah was revealed while returning from the expedition of Khaibar. It is a known fact that the victory of Khaibar took place prior to the Conquest of Makkah. Ruh-ul-Ma’ ani cites, on the authority of ` Abd Ibn Humaid, Sayyidna Qatadah&s statement that the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) lived for two years after the revelation of this Surah. Narratives report that it was revealed on the occasion of the Conquest of Makkah or on the occasion of the Farewell Pilgrimage may be explained by saying that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) might have recited this Surah and proclaimed it on one of those occasions; as a result people must have thought that it was revealed on that occasion. Please refer to Bayan-ul Qur&an for fuller explanation. Several Prophetic Traditions and statements of the Companions narrate that this Surah indicates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has fulfilled his task, and accomplished his mission of life, and he could look forward to returning to his Lord in full favour as his death was approaching fast. The Surah teaches the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the beautiful manners of asking Allah&s forgiveness and offering constant praise and thanks to his Lord. It is reported in Muqatil&s narration that when this Surah was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited it in a gathering of the blessed Companions, among whom were Sayyidna Abu Bakr, ` Umar, Sa&d Ibn Abi Waqqas (رض) . All were happy at the revelation of this Surah, because it contained the glad tidings of the Conquest of Makkah, but Sayyidna ` Abbas (رض) began to weep. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him the reason for weeping, and he replied that it covertly conveys the termination of your life and nearness of your death. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) confirmed this. Sahih of Bukhari records a similar explanation of this Surah given by Sayyidna Ibn ` Abbas رضی اللہ تعالیٰ عنہما in which there is the addition that when Sayyidna ` Umar رضی اللہ تعالیٰ عنہ heard this, he concurred with him and said: &I do not know anything about it other than what you [ Ibn ` Abbas ] have said&. [ Transmitted by Tirmidhi who graded it as hasan, Sahih vide Qurtubi ]
خلاصہ تفسیر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خدا کی مدد اور (مکہ کی) فتح (ع اپنے آثار کے) آپہنچے اور) اس فتح پر مرتب ہونے والے آثار یہ ہیں کہ) آپ لوگوں کو اللہ کے دین (اسلام) میں جوق جوق داخل ہوتا دیکھ لیں، تو (اس وقت سمجھئے کہ مقصود دنیا میں رہنے کا اور آپ کی بعثت کا جو تکمیل دین تھا وہ پورا ہوچکا اور اب سفر آخرت قریب ہے اس کے لئے تیاری کیجئے اور) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیجئے اور اس سے مغفرت کی درخواست کیجئے (یعنی ایسے امور جو خلاف اولیٰ واقع ہوگئے ان سے مغفرت مانگئے) وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ معارف و مسائل یہ سورة با جماع مدنی ہے اور اس کا نام سورة التودیع بھی ہے، تو دیع کے معنی کسی کو رخصت کرنے کے ہیں اس سورة میں چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات قریب ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لئے اس کو سورة التودیع بھی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید کی آخری سورة اور آخری آیات :۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ سورة نصر قرآن کی آخری سورة ہے (قرطبی) مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی مکمل سورة نازل نہیں ہوئی بعض آیات کا نزول جو اس کے بعد ہونا بعض روایات میں ہے وہ اس کے منافی نہیں، جیسا کہ سورة فاتحہ کو قرآن کی سب سے پہلی سورة اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ مکمل سورة سب سے پہلے فاتحہ نازل ہوئی ہے۔ سورة اقراء اور مدثر وغیرہ کی چند آیات کا اس سے پہلے نازل ہونا اس کے منافی نہیں۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ یہ سورة حجتہ الوداع میں نازل ہوئی اس کے بعد آیت الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی، ان دونوں کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں صرف اسی روز رہے (اسی روز کے بعد وفات ہوگئی) ان دونوں کے بعد آیت کلالہ نازل ہوئی جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر شریف کے کل پچاس دن رہ گئے تھے اس کے بعد آیت لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم الآیہ نازل ہوئی جس کے بعد عمر شریف کے کل پینتیس روز باقی تھے اس کے بعد آیت اتقوایوماً ترجعون فیہ الی اللہ نازل ہوئی جس کے بعد صرف اکیس روز اور مقاتل کی روایت میں صرف سات روز کے بعد وفات ہوگئی۔ (قرطبی) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس آیت اذا جاء نصر اللہ والفتح میں فتح سے فتح مکہ مراد ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ سورة فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں لفظ اذا جاء سے بظاہر قبل فتح نازل ہونا معلم ہوتا ہے اور روح المعانی میں بحر محیط سے ایک روایت بھی اس کے موافق نقل کی ہے جس میں اس سورة کا نزول غزوہ خیبر سے لوٹنے کے وقت بیان کیا گیا اور خیبر کی فتح فتح مکہ سے مقدم ہونا معلوم و معروف ہے اور روح المعانی میں بسند عبدابن حمید حضرت قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورة کے نزول کے بعد دو سال زندہ رہے اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اس کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوا کیونکہ فتح مکہ سے وفات تک دو سال سے کم مدت ہے۔ فتح مکہ رمضان 8 ہجری میں ہوئی اور وفات ربیع الاول 11 ہجری میں اور جن روایات میں اس کا نزول فتح مکہ یا حجتہ الوداع میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورة پڑھی ہوگی جس سے لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے۔ مزید تحقیق اس کی بیان القرآن میں مذکورہ ہے۔ متعدد احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ میں ہے کہ اس سورة میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا وقت قریب آجانے کی طرف اشارہ ہے کہ اب آپ کی بعثت اور دنیا میں قیام کا کام پورا ہوچکا اب تسبیح و استغفار میں لگ جایئے۔ مقاتل کی روایت میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ نے صحابہ کرام کے ممجع کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی جن میں حضرت ابوبکر، عمر اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ موجود تھے سب اس کو سنکر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے مگر حضرت عباس رونے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ کی وفات کی خبر مضمر ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تصدیق فرمائی۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے یہی مضمون روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جب اس کو حضرت عمر نے سنا تو فرمایا کہ اس سورت کے مفہوم سے میں بھی یہی سمجھتا ہوں (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح، قرطبی)
اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ١ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے
فتح کی خوشی میں یاد الٰہی قول باری ہے (اذا جآء نصر اللہ والفتح ۔ جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے) روایت ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ مکہ بزور شمشیر فتح ہوا تھا۔ کیونکہ لفظ کا اطلاق اس کا مقتضی ہے۔ فتح کے لفظ کو صلحاً فتح کی طرف صرف اس صورت میں موڑا جائے گا جبکہ اس کے ساتھ کسی قید کا ذکر کیا جائے گا۔
(1 ۔ 2) جب دشمنوں کے خلاف اللہ کی مدد آپہنچے اور مکہ فتح ہوجائے اور یمن والے اسلام میں جماعت در جماعت آنے لگیں۔
1 Victory here dces not imply victory in any one particular campaign but the decisive victory after which there remained no power in the land to resist and oppose Islam, and it became evident that Islam alone would hold sway in Arabia Some commentators have taken this to imply the Conquest of Makkah. But the conquest of Makkah took place iu A.H. 8, and this Surah was revealed towards the end of A.H.10, as is shown by the traditions related on the authority of Hadrat `Abdullah bin `Umar and Hadrat Sarra' bint Nabhan, which we have cited in the Introduction. Besides, the statement of Hadrat `Abdullah bin `Abbas that this is the last Surah of the Qur'an to be revealed, also goes against this commentary. For if the victory implied the conquest of Makkah, the whole of Surah at-Taubah was revealed after it then it could not be the last Surah. There is no doubt that the conquest of Makkah was decisive in that it broke the power of the Arabian pagans, yet even after this, they showed clear signs of resistance. The battles of Ta'if and Hunain were fought after it, and it took Islam about two years to attain complete control over Arabia.
سورة النصر حاشیہ نمبر : 1 فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں ، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہوجائے کہ اب عرب میں اسی دین کو غالب ہوکر رہنا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح مکہ لی ہے ۔ لیکن فتح مکہ 8ھ میں ہوئی ہے اور اس سورہ کا نزول 10 ھ کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سراء بنت بنہان کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول بھی اس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے ۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو پوری سورہ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی ، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ کیسے ہوسکتی ہے ۔ بلا شبہ فتح مکہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمتیں پست کردی تھیں ، مگر اس کے بعد بھی ان میں کافی دم خم باقی تھا ۔ طائف اور حنین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمل ہونے میں تقریبا دو سال صرف ہوئے ۔
1: اِس سے مراد مکہ مکرَّمہ کی فتح ہے، یعنی جب مکہ مکرَّمہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوجائے۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورت فتحِ مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس میں ایک طرف تو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرَّمہ فتح ہوجائے گا اور اُس کے بعد عرب کے لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے، چنانچہ واقعہ بھی یہی ہوا، اور دُوسری طرف چونکہ اسلام کے پھیل جانے سے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُنیا میں تشریف لانے کا مقصد حاصل ہوجائے گا، اس لئے آپ کو دُنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کے لئے حمد، تسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس میں دی ہوئی خوشخبری کی وجہ سے بہت سے صحابہؓ خوش ہوئے، لیکن حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ اسے سن کر رونے لگے، اور وجہ یہ بیان کی کہ اِس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔
١۔ ٣۔ تفسیر قتادہ اور مقاتل میں ہے کہ اس سورة کے نازل ہونے کے دو برس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی اس سورة کو سورة تودیع اس واسطے کہتے ہیں کہ اس سورة کے نازل ہونے سے صحابہ سمجھ گئے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے وداع اور رخصت ہونے کا زمانہ قریب ہے۔ صحیح ٢ ؎ بخاری مسلم ابو داؤود نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس سورة کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی اس سے معلوم ہوا کہ امت میں جو شخص بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ اس کو یہ دعا کثرت سے پڑھنی چاہئے۔ مسند ١ ؎ امام احمد مستدرک حاکم وغیرہ میں جابر بن عبد اللہ اور ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورة کو پڑھ کر فرمایا۔ اس سورة کے مضمون کے موافق جس طرح اب لوگوں کے جتھے کے جتھے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جتھے کے جتھے دین الٰہی سے خارج ہوں گے حاکم نے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس زمانہ کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں فرمایا ہے وہ زمانہ یہی آخری زمانہ ہے کہ دین میں طرح طرح کے فرقے پیدا ہوگئے ہیں۔ اللہ کے رسول کے خالص طریقہ پر بہت کم لوگ ہیں۔ (٢ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة النصر ص ٧٤٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٦٣ ج ٤۔ )
(110:1) اذا جاء نصر اللہ والفتح : اذا شرطیہ بمعنی اذ ظرفیہ۔ نصر اللّٰہ مضاف مضاف الیہ مل کر فاعل۔ الفتح : واؤ عاطفہ۔ الفتح کا عطف نصر پر ہے۔ جب اللہ کی مدد اور فتح آچکی۔ نصر مصدر۔ بمعنی مدد۔ النصر مدد کرنا۔ مطلوب کے حاصل کرنے میں مدد۔ اور الفتح مطلوب کا حاصل کرلینا۔ الفتح سے کونسی فتح مراد ہے۔ اس میں متعدد اقوال ہیں :۔ (1) اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ (2) اس سے مراد خیبر کی فتح ہے۔ (3) جمیع فتوحات مراد ہیں۔ (4) فتوحات غیبیہ و علوم اسرار ملکوتیہ مراد ہیں۔ (تفسیر حقانی) (5) فتح مکہ اور فتح بالد شرک مراد ہیں۔ (مدارک) جمہور کے نزدیک الفتح سے مراد فتح مکہ ہے۔
ف 2 مطلب یہ ہے کہ وہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا جس کے لئے آپ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
سورة النصر۔ آیات ١ تا ٣۔ اسرار ومعارف۔ جب اللہ کی مدد آئی جو ہمیشہ آپ کے ساتھ تھی مگر جب مخالفین کو بھی نظر آنے لگی اور مکہ کی فتح کے آثار ہوئے جو قبل ازیں لوگوں کو ناممکن نظر آتا تھا تو آپ دیکھیں گے لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے کچھ قریش کے خوف سے رکے ہوئے تھے اور کچھ قریش کا انجام دیکھنا چاہتے تھے جب مکہ مکرمہ فتح ہوا نصرت اسلام کے جھنڈے گڑھ گئے اور آپ کو اور دین کو غلبہ حاصل ہوا جہاد اور قربانیاں قبول ہو کر نتیجہ برآمد ہوا تو آپ اپنے پروردگار کی اور تعریف کیجئے اور بخشش طلب فرمالیجئے کہ بندے کو کامیابی بھی دھوکے میں ڈالے بلکہ یہ زیادہ شکر کرنے کا مقام ہے اور اللہ سے بخشش طلب کی جائے کہ وہ معاف کرنے والا ہے صحابہ کرام نے اس سے اخذ کیا تھا کہ آب آپ کا کام مکمل ہوالہذا اس میں دنیا سے رخصت کا اشارہ بھی ہے اور اس کے دو سال بعد آپ کا وصال ہوا۔
لغات القرآن۔ جاء ۔ آگیا۔ نصر اللہ۔ اللہ کی مدد۔ یدخلون۔ وہ داخل ہوتے ہیں۔ افواج۔ جماعتیں۔ سبح۔ تسبیح کیجئے۔ استغفر۔ بخش مانگئے۔ تو اب۔ بہت توبہ قبول کرنے والا۔ تشریح : انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں تاکہ وہ جس غلط راستے پر چل رہے ہیں اس سے ہٹ جائیں۔ ان کی زندگیاں سنور جائیں اور ان کی دنیا اور آخرت بہتر سے بہتر ہوجائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہزاروں رسول اور نبی آتے ہیں۔ اللہ نے آخر میں اپنے محبوب نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجاز کے اس علاتے میں مبعوث فرمایا جہاں کفرو شرک اور انسانیت پر ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی اور صدیوں سے کوئی پیغمبر بھی یہاں تشریف نہ لائے تھے جس کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں میں بہت سے وہ جاہلانہ اور مشرکانہ طریقے رائج ہوچکے تھے جنہیں وہ دین و مذہب سمجھ کر کتے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ساری دنیا کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے آپ نے اسی علاقے سے اپنے مشن اور مقصد کا آغاز فرمایا۔ جب آپ نے ان لوگوں کو دین اسلام کی طرف دعوت دے کر بلایا تو سارا عرب آپ کا دشمن بن گیا۔ آپ کو اور آپ کی اس تحریک کو مٹانے کے لئے دن رات کوششیں کرنے لگا۔ آپ کے دوستوں میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ (رض) ، بچوں میں حضرت علی (رض) اور غلاموں میں حضرت زید (رض) نے آپ کا دامن اطاعت و محبت تھام کر دنیا اور آخرت کی عظمتیں حاصل کرلیں۔ لیکن وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین کہتے تھے آپ کہ فہم و فراست کے سامنے اپنی گردنیں جھکاتے تھے اور انہیں آپ پر بھرپور اعتماد تھا۔ آپ کے خاندان کے وہ لوگ جو آپ کی راہوں میں پلکیں بچھاتے تھے وہ سب کے سب نہ صرف آپ کے مخالف ہوگئے بلکہ آپ کی دشمنی میں انتہا کردی۔ خاص طور پر آپ کا وہ حقیقی چچا ابو لہب اور چیچی ام جمیل جو آپ کو سب سے زیادہ چاہتے تھے آپ کے اعلان نبوت کے بعد آپ کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ آپ جہاں بھی اللہ کا دین پھیلانے تشریف لے جاتے اور ابو لہب کو معلوم ہوتا تو وہ وہاں جا کر لوگوں سے کہتا کہ لوگو ! اس کی بات نہ سنو یہ دیوانہ ہوگیا ہے۔ جو بھی آپ کی بات سن کر ایمان لاتا ابو جہل اور ابو لہب ان پر شدید ظلم اور زیادتی کرتے تھے۔ کفار کا ظلم و ستم بڑھتا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند صحابہ و صحابیات جن کے دلوں میں اسلام کی شمع روشن ہوچکی تھی وہ بیت اللہ کی سرزمین چھوڑ کر ملک حبش کی طرف ہجرت کر گئے۔ کچھ عرصہ بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کے حکم سے مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما گئے۔ مدینہ منورہ کے رہنے والوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دین اسلام کی روشنی ہر طرف پھیلنا شروع ہوگئی۔ جن صحابہ اور صحابیات نے ملک حبش کی طرف ہجرت کرلی تھی وہ بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے تھے۔ یہاں انصار مدینہ نے مہاجرین کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بہترین معاملہ کیا جو ساری دنیا کے لئے ایک مثال بن گیا۔ مکہ مکرمہ میں تو صرف کفار و مشرکین ہی تھے لیکن مدینہ منورہ میں مشرکین اور اہل یہودو نصاریٰ کی ایک بہت بڑی قوت موجود تھی جو صدیوں سے اس علاقے میں آباد تھے اور وہ ہر طرف چھائے ہوئے تھے۔ اور اسی طرح کچھ لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے اہل ایمان کے جوش، جذبے اور سرفروشی کو دیکھ کر اسی میں عافیت کو محسوس کیا کہ وہ بھی مسلمان ہوجائیں تاکہ مفادات کا ٹکرائو نہ ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تمام حالات کے پیش نظر مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں، کفار اور مشرکین سے ” میثاق مدینہ “ کے نام سے ایک معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدے کے باوجود یہودیں نے مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین کو بھڑکایا کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کی قوت و طاقت کو توڑ ڈالیں۔ چناچہ کئی زبردست جنگیں بھی ہوئیں مگر ہر مرتبہ کفار کو زبردست شکست ہوئی اور آخر کار وہ وقت آگیا جب مکہ مکرمہ ہوگیا اور کفار و مشرکین کے علاوہ یہودیوں کی طاقت بھی ختم ہو کر رہ گئی۔ فتح مکہ کے بعد خیبر سے حجاز تک ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ وہ تمام لوگ جو اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوچکے تھے اور کفار کا ظلم و جبر بھی ختم ہو کر رہ گیا تھا تو بغیر کسی مزاحمت اور جنگ کے بڑی تعداد میں لوگوں نے حلقہ اسلام میں داخل ہونا شروع کردیا ۔ قبیلے اور گروہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پورے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کو مکمل غلبہ اور طاقت عطا فرما دی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب سورة النصر نازل کی گئی تو اہل ایمان خوش ہوگئے کیونکہ اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کی خوش خبری دیدی گئی تھی لیکن کچھ حضرات نے دیکھا کہ اس خوشی کے موقع پر ایک کونے میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) زارو قطار رو رہے ہیں۔ اس خوشی کے موقع پر لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے رونے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے اس سورت میں اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ دیکھیں گے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے رب کی حمدو ثنا کیجئے اور امت کے گناہوں کی معافی کی درخواست کیجئے کیونکہ وہ اللہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ فرمایا کہ اس میں اللہ نے فرمادیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا مشن اور مقصد پورا ہوگیا ہے۔ اب لوگ دین کی سچائیوں کو قبول کرچکے ہیں اور آئندہ کرتے رہیں گے اب آپ اللہ کے پاس واپسی کی تیاری کیجئے۔ اسی کی حمدو ثنا کیجئے اور اسی سے استغفار کیجئے۔ چنانچہ سورة النصر کے نازل ہونے کے اسی (80) دن کے بعد آپ انے رب اعلیٰ سے جاملے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة النصر کے نازل ہونے کے بعد آپ عباد الٰہی میں پہلے سے بھی زیادہ مشغول ہوگئے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ، ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت عبد اللہ ابن عباس اور حجرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے جو روایات نقل کی گء ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ سورۃ النصر منیٰ کے مقام پر حجتہ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔ پھر آپ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر حج کا وہ تاریخی خطبہ دیا جا قیامت تک ساری انسانیت کے لئے ایک منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں آپ نے یہ بھی فرمادیا کہ شاید میں اس سال کے بعد تم سے نہ ملوں۔ روایات میں آتا ہے کہ سورة النصر نازل ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی یاد میں پہلے سے بھی زیادہ منہمک اور مشغول ہوگئے۔ آپ اس طرح اللہ کے سامنے رہتے کہ آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ کبھی کبھی وہ ورم پھٹ کر رسنے لگتا۔ مگر آپ اللہ کی عبادت و بندگی میں کمی نہ فرماتے تھے۔ سورۃ النصر نازل ہونے کے بعد آپ اکثریہ پڑھا کرتے تھے۔ ………… کبھی آپ پڑھتے………………… آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی فرماتے کہ مجھے اسی بات کا اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ ترمذی۔ قرطبی) ۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” میں دن میں ایک سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں “۔
فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة الکافرون میں حکم ہوا کہ کفار کے سامنے کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیں کہ تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین ہے۔ لہٰذا جو چاہو کرلو میں کبھی تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا، سورة النصر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دی گئی ہے کہ یہ دین ہر صورت غالب اور کامیاب ہو کر رہے گا۔ یاد رہے کہ یہ سورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے تقریباً تین ماہ پہلے نازل ہوئی جس میں آپ کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان اور بےمثال جدوجہد کو تاریخی حساب سے دیکھا جائے تو آپ کی جدوجہد کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک نبوت کے آغاز سے لے کر بدر کے معرکہ تک کا دور ہے، اس دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر بےانتہا مظالم ڈھائے گئے اور آپ کے راستے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس بنا پر دعوت کی قبولیت میں وہ تیز رفتاری پیدا نہ ہوسکی جو اس کے بعد پیدا ہوئی، بیشک بدر کے معرکے کے بعد مسائل اور مشکلات نے ایک نیارخ اختیار کرلیا تھا مگر پہلے اور دوسرے دور میں فرق یہ تھا کہ مکہ میں کفار سے لڑنے کی اجازت نہ تھی لیکن مدینہ میں کفار کے مقابلے میں قتال فی سبیل اللہ کی اجازت تھی، اس لیے بدر، احد اور خندق کے معرکے پیش آئے اور بالآخر مکہ اس طرح فتح ہوا کہ آپ کے مقابلے میں کسی نے آنے کی جرأت نہ کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر مکہ کے قریب فروکش ہوئے، حکم دیا کہ رات کے وقت پہاڑوں کی چوٹیوں پر مکہ کے چاروں طرف آگ جلائی جائے تاکہ مکہ والوں کو یہ معلوم ہو کہ اب وہ ہر جانب سے گھر چکے ہیں۔ تفصیلات جاننے کے لیے سیرت کی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔ واقعات کا اختصار یہ ہے کہ صبح کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کو چند حصوں میں تقسیم فرما کر خالدبن ولید اور کچھ صحابہ کو لشکر کی قیادت پر مامور کیا اور حکم فرمایا کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امان دی جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے کچھ نہ کہا جائے، جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اس پر بھی ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور جو مکہ سے بھاگ نکلے اس کا بھی تعاقب نہ کیا جائے۔ چار آدمیوں کے سوا جو بھی امان چاہیے اسے پناہ دے دی جائے۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں داخل ہوئے، اور حرم کے صحن میں قدم رکھنے سے پہلے حکم صادر فرمایا کہ تمام بتوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ ( رواہ البخاری : باب وقل جاء الحق وزھق الباطل) اس کے بعد حرم میں داخل ہوئے اور پھر سیڑھی منگوا کر بیت اللہ کے اندر جا کر دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے بتوں کو توڑا اور دونفل ادا کیے۔ جب بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو سرداران قریش سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بتاؤ ! آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے رحم کی اپیل کی۔ آپ نے ” لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ “ کے الفاظ استعمال فرماکر عام معافی کا اعلان فرما دیا، مکہ کی فتح سے اسلام کے راستے میں تمام رکاوٹیں دورہوگئیں جو لوگ اس انتظار میں تھے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں کون غالب آتا ہے جونہی انہیں مکہ فتح ہونے کی خبر پہنچی تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اس کامیابی کو اس سورت میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ اے نبی ! جب ” اللہ “ کی مدد آپہنچے اور آپ کو فتح حاصل ہو اور آپ دیکھیں کہ لوگ فوج در فوج ” اللہ “ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ پہلے سے زیادہ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کریں اور یقین رکھیں کہ آپ کا رب توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس فرمان میں ہر مسلمان کو یہ بات سمجھائی اور بتلائی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے مقصد میں کامیاب کرے اور اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی کامیابی پر اترانے کی بجائے اپنے رب سے اپنی غلطیوں کی بخشش طلب کرے اور اس کا شکربجالائے۔ اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعات ادا فرمائیں اس لیے مسلمان فوج کسی شہر کو فتح کرے تو فوج کے کمانڈر کو شکرانے کے طور پر آٹھ رکعت ادا کرنی چاہیے۔ حصرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے ایران کا دار الخلافہ مدائن فتح کیا تو انہوں نے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے شکرانے کے طور پر آٹھ نفل ادا کیے۔ ( عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا صَلَّی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صَلاَۃً بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَیْہِ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ) إِلاَّ یَقُول فیہَا سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی .) (رواہ البخاری : سورة إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہ) ” حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نصر نازل ہونے کے بعد جو بھی نماز پڑھی اس میں یہ دعاضرور پڑھی۔ “ ” سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی “ (عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ قَالَ لِیَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَعْلَمُ آخِرَ سُورَۃٍ نَزَلَتْ مِنَ الْقُرْآنِ نَزَلَتْ جَمِیعًا قُلْتُ نَعَمْ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ ) قَالَ صَدَقْتَ ) (رواہ مسلم : کتاب التفسیر) ” عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے مجھ سے پوچھا کیا تجھے معلوم ہے کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورت کون سی ہے۔ میں نے کہا (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ ) انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) یُدْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَہُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ لَنَا أَبْنَاءً مِثْلَہُ فَقَالَ إِنَّہُ مِنْ حَیْثُ تَعْلَمُ فَسَأَلَ عُمَرُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ) فَقَالَ أَجَلُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَعْلَمَہُ إِیَّاہُ فَقَالَ مَا أَعْلَمُ مِنْہَا إِلاَّ مَا تَعْلَمُ.) (رواہ : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عمربن خطاب، عبداللہ بن عباس (رض) کو اپنے قریب قریب رکھتے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے ان سے کہا کہ ہمارے بھی بیٹے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ آپ کو اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ) کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا جواب سن کر عبد الرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا جو آپ جانتے ہیں وہ میں نہیں جانتا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبردست مدد فرمائی اور آپ کے ہاتھوں مکہ فتح کروایا۔ ٢۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح ہونے پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کثرت کے ساتھ حمد اور توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا۔ ٤۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مہربانی کرنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنے والا اور ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے : ١۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٤) ٢۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٣۔ اللہ غلطیاں معاف کرکے توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٤۔ اللہ ہر توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ٨٢) ٥۔ ” اللہ “ گناہ معاف کرنے اور توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ (المومن : ٨) ٦۔ غلطی کی اصلاح کرنے والوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٠) (المزمل : ٢٠) (الحجرات : ١٢) ٧۔ جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (المائدۃ : ٣٩) ٨۔ جو گناہ کرنے کے بعد جلد توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (النساء : ١٧)
“۔ اس سورت کی پہلی آیت ہی میں ایک متعین اشارہ ہے ، اور یہ اشارہ کائناتی واقعات کے بارے میں ایک خاص تصویر پیدا کرتا ہے اور اس تصور میں یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان واقعات میں اہل ایمان کا کردار کیا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار کیا ہے۔ اور انسانی زندگی اور ان کائناتی واقعات وحادثات میں اہل ایمان اور نبی کے دائرہ کار کی حد کیا ہے۔ یہ اشارہ اس فقرے میں ہے۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) ” جب اللہ کی مدد پہنچ جائے “ میں ہے۔ تمام دارومدار اللہ کی نصرت پر ہے اور اللہ کا وقت مقرر ہے ، جس شکل میں نصرت آئے گی وہ بھی متعین ہے ، جس مقصد کے لئے یہ نصرت ہوگی وہ بھی مقرر ہے۔ نبی اور اس کے ساتھیوں کا اس کی آمد کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور نہ ان کا نصرت الٰہیہ میں کچھ کردار ہے۔ نہ اس نصرت کے سلسلے میں ان کی ذاتی کمائی کا کوئی دخل ہے۔ نہ ان کی ذاتوں کا کوئی حصہ ہے۔ یہ نصرت ایک ایسا واقعہ ہے جو اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کی شخصیات سے نہیں ، باہر سے آتی ہے۔ ان کے لئے یہی اعزاز کافی ہے کہ اللہ یہ نصرت بظاہر ان کے ذریعہ لاتا ہے اور ان کو اس نصرت کا چوکیدار مقرر کرتا ہے اور اس نصرت اور فتح کے امین ہوتے ہیں۔ پس فتح ونصرت میں ان کا حصہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی۔ اس اشارے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فکر کی روشنی میں ۔ اس اعزاز اور تکریم کے حوالے سے جو ان کے ہاتھوں نصرت اور فتح کے ظہور کے سلسلے میں ہوا۔ رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت کا تعین ہوجاتا ہے۔ ان کی شان اور حیثیت اب یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر سراسر سپاس بن جائیں۔ اللہ کی حمدوثنا کریں اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا کریں۔ یہ حمدوثنا اور شکر اس بات پر کہ اللہ نے ان کو اسلامی انقلاب کا امین اور نگراں بنایا اور اپنے دین کی نصرت فرما کر اور اسے غالب فرما کر پوری انسانیت پر احسان فرمایا۔ رسول اللہ فاتح ہوئے ، لوگ فوج درفوج اس خبرکثیر میں داخل ہوئے حالانکہ اس سے قبل وہ اندھے تھے ، گمراہ تھے اور سخت خسارے میں تھے۔ استغفار کس لئے ، یہ ان نفسیاتی عوامل کے لئے ہے جو نہایت لطیف انداز میں دلوں میں داخل ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کوئی قوت ایک طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد برسراقتدار آتی ہے تو فتح و کامرانی کے نشے میں اس کی نفسیات میں ایک قسم کا غرور چپکے سے داخل ہوجاتا ہے ، پھر مشکلات اور قربانیوں کے بعد انسان سے خوشیوں میں کچھ کو تاہیاں بھی ہوجاتی ہیں ، ان خفیہ نفسیاتی وائرس سے صرف توبہ و استغفار کے ذریعہ بچا جاسکتا ہے ، اس لئے یہاں استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ استغفار اس لئے بھی ہے کہ طویل جدوجہد کے زمانے میں انتھک حالات کے نتیجے میں شدید مشکلات اور نہایت گہرے کربناک حالات کی وجہ سے انسانی قلب میں گھٹن آجاتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اللہ کی نصرت کے پہنچے میں دیر ہوگئی ہے ، اور داعی کو ہلامارا جاتا ہے۔ جیسا کہ بقرہ (114) میں کہا گیا ہے۔ ام حسبتم .................................... اللہ قریب (214:2) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاﺅ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان حالات سے سابقہ پیش نہیں آیا جن سے تم سے پہلے اہل ایمان کو سابقہ پیش آیا تھا۔ وہ فقر وفاقہ اور شدائد وآلام سے دوچار ہوئے اور ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، سنو اللہ کی مدد قریب ہے “۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ استغفار کرو۔ استغفار کا حکم اس لئے بھی دیا گیا کہ اللہ کی حمدوثنا میں انسان سے تقصیر ہوجاتی ہے۔ پس انسان کی جدوجہد جس قدر بھی زیادہ ہو ، وہ محدود ہوتی ہے اور انسان ضعیف ہے۔ اور اللہ کی نعمتیں ہمیشہ بیشمار ہیں اور اس کا فیض عام ہے۔ وان تعدو ........................ تحصوھا (34:14) ” اگر تم اللہ کے احسانات کو شمار کرو تو تم ان کا استعصا اور احاطہ نہیں کرسکتے “۔ لہٰذا اس تقصیر پر استغفار کا حکم دیا گیا۔ فتح و کامرانی کے موقعہ پر تسبیح و استغفار میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ فخر ومباہات کے مقام پر نفس کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ انسان تو ہمیشہ عجز اور تقصیر کے مقام پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ بڑوں کی سطح سے ذرا نیچے اتر آئے۔ اور اپنے رب سے اپنی تقصیرات کی معافی طلب کرے۔ اس طرح انسانی شعور اور انسانی نفسیات سے فخرومباہات کے میلانات کا صفایا ہوجاتا ہے۔ اگر ایک فاتح کے دل میں یہ شعور بیٹھ جائے کہ وہ عجز اور تقصیر کا پتلا ہے اور اسے اپنی تقصیرات پر اللہ سے دعائے مغفرت کرنا چاہئے تو ایسا فاتح کبھی بھی مفتوح لوگوں پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ ایسا شخص تو یوں سوچتا ہے کہ یہ تو اللہ کی ذات ہے جس کی نصرت کی وجہ سے وہ ان لوگوں پر مقتدر اعلیٰ بن گیا ہے۔ اگر اللہ کی نصرت نہ ہوتی تو وہ توبندہ ناچیز دیر تقصیر ہے اور اللہ نے جو اس کو اقتدار دیا ہے تو یہ اس لئے دیا ہے کہ اللہ مفتوح لوگوں کے بارے میں کوئی خیر اور بھلائی چاہتا ہے۔ درحقیقت فتح تو اللہ کی نصرت سے میسر ہوتی ہے۔ نصرت بھی اس کی ہے اور فتح بھی اس کی ہے اور یہ فاتح کی فتح نہیں بلکہ اللہ کے دین کی فتح ہے۔ اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور تمام فیصلے اللہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ ہے وہ روش اور بلند مرتبہ افق ، جس کے اوپر نظریں مرکوز کرنے کے لئے قرآن پوری انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ درجہ بدرجہ اس بلند افق تک بلند ہوتی چلی جائے۔ جو شرافت اور نیکی کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ اس تک پہنچ کر انسان بڑا بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی بڑائی سے دستکش ہوجاتا ہے۔ یہاں اس کی روح آزاد ہوکر مسرت حاصل کرتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی غلامی اختیار کرلیتی ہے۔ غرض یہ ایک آزادی ہے جس میں انسان اپنی ذاتی اور مادی بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی روحانی مخلوق میں سے ایک مخلوق بن جاتا ہے اور یہ ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ اللہ کی رضا اس کی رضا بن جاتی ہے اور یہ مقام حاصل کرنے کے بعد پھر وہ مجاہد بن جاتا ہے اور اس کی جدوجہد کا رخ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کی صورت میں بھلائی کی نصرت کرے اور حق کو حقیقت بنادے اور پھر اسلامی نظام کے قیام کے بعد وہ اس زمین کو ایسی ترقی دے اور دنیا کو ایسی قیادت فراہم کرے کہ دنیا شروفساد سے پاک ہوجائے۔ یہ قیادت صالح ، پاک اور تعمیری ہو۔ اور اس کا مقصد ہر بھلائی کو پھیلانا اور ترقی دینا ہو۔ اور اس طرح تمام امور کا رخ اللہ کی طرف پھیر دے۔ انسان اگر اپنی ذات کے محدود کنویں کا مینڈک ہو اور اس میں قید ہو تو پھر اس کی آزادی کی مساعی عبث بن جاتی ہیں۔ وہ آزادی کے بعد اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے ۔ شہوات اور خواہشات میں گرفتار ہوتا ہے ۔ انسان اگر خواہشات نفسانیہ کے دائرہ نشیب سے آزاد نہ ہو تو دوسری آزادیاں عبث ہیں ۔ اسلام چاہتا ہے کہ دوسری آزادیوں کے ساتھ انسان نفسانی خواہشات سے بھی آزاد ہوجائے تاکہ وہ اللہ کو یاد کرے اور اس کا غلام ہو ۔ یہ ہیں آداب نبوت ، جو نبوت کے ساتھ لازم رہے ہیں اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ انسانیت ان آداب نبوت کے آفاق تک بلند ہوجائے ۔ اور اگر وہاں تک نہ بھی پہنچ سکے تو اس کی نظریں اس افق پر ہوں ۔ دیکھئے یوسف (علیہ السلام) اس مقام تک پہنچے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مصر کے تمام خزائن اقتدار ان کے ہاتھ میں آچکے ہیں ۔ ان کا خواب سچا ہوچکا ہے ۔ انہوں نے جب والدین کو اپنے تخت پر اٹھایا تو بھائیوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے والدین سے کہا کہ باپ ! یہ ہے میری خواب کی تعبیر ، اللہ نے اسے حقیقت بنادیا ۔ اللہ کا احسان دیکھئے کہ اس نے مجھے قید سے نکالا ، آپ لوگوں کو دیہات سے مصر لایا حالانکہ شیطان نے میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال دیا تھا۔ بیشک میرا رب لطیف تدابیر اختیار کرتا ہے اور وہ حکم وخبیر ہے۔ غرض ایسے موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) بلندی ، سرفرازی اور خوشی اور انبساط کے ماحول سے نکل آتے ہیں اور ذکر وفکر مشغول ہوکر اپنے رب کی حمدوثنا کرتے ہیں۔ وہ اقتدار کے عروج پر ہیں ان کے تمام خواب حقیقت بن گئے ہیں لیکن ان کی دعوت یہ ہے : رب قداتیتنی .................................... بالصلحین (101:12) ” اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار بھی دیا ، اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنے کا علم بھی دیا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا وآخرت میں میرا کار ساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیکوکاروں کے زمرے میں مجھے شامل کر “۔ یہاں جاہ واقتدار پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اہل و عیال اور بہن بھائیوں کا یہ اجتماع اور ایک عرصہ بعد رشتہ داروں اور والدین کی ملاقات کی خوشی کافور ہوجاتی ہے۔ اب اس آخری منظر میں ہمیں ایک ایسا فرد نظر آتا ہے جو رب تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ میرا اسلام محفوظ ہو اور میری سوسائٹی صالحین کے ساتھ ہو۔ اور یہ مرتبہ اللہ کے فضل وکرم سے ہی مل سکتا ہے۔ اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے آداب زندگی ملاحظہ ہوں۔ وہ بھی ایسے حالات میں ہیں کہ طرفتہ العین میں ملکہ سبا کا تخت ان کے سامنے ہے۔ دیکھئے قرآن ایسے حالات میں قوت وجاہ کے حالات میں ان کی کیفیات کس طرح ریکارڈ کرتا ہے۔ فلما راہ ............................................ غنی کریم (40:27) ” جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا پایا۔ تو وہ پکار اٹھے یہ میرے رب کے فضل وکرم سے ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں۔ اور جو کوئی شکر کرے گا اپنے ہی لئے کرے گا اور جو ناشکری کرے گا میرا رب غنی اور بزرگ ہے “۔ اور یہی تھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روش۔ آپ کو اپنی پوری زندگی میں یہی ادب اختیار کیا اور نصرت وفتح کے موقعہ پر جسے اللہ نے آپ کے لئے خاص علامت قرار دیا تھا۔ تو حضور اپنی سواری کے اوپر جھکے ہوئے جارہے تھے۔ آپ مکہ میں اسی طرح سرجھکائے ہوئے داخل ہوئے۔ آج آپ اس مکہ میں جس نے آپ کو اذیتیں دی تھیں ، جس نے آپ کو گھر سے نکالا تھا۔ جس نے آپ کے ساتھ پے درپے جنگیں لڑیں ، جو آپ کی دعوت کی راہ میں معاندانہ طور پر ڈٹ گیا تھا۔ جب آپ کو نصرت اور فتح نصیب ہوئی تو آپ نے فتح و کامرانی کے شادیانے نہ بجائے۔ آپ رب کا شکر ادا کرتے ہوئے جھکے جارہے تھے۔ حمدوثنا میں مشغول تھے اور جس طرح رب تعالیٰ نے آپ کو تلقین کی تھی۔ آپ تسبیح وتہلیل اور استغفار کررہے تھے۔ جیسا کہ آثار میں آتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہ (رض) کا رویہ بھی ایسا ہی رہا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ یوں بشریت ایمان کے ذریعہ سر بلند ہوئی۔ انسانیت کا چہرہ روشن ہوگیا۔ وہ صاف و شفاف ہوگئی۔ اب انسانیت عظمت ، قوت اور آزادی کے مقام بلندتک پہنچ گئی۔ ٭٭٭٭٭
اوپر سورة ٴ نصر کا ترجمہ کیا گیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ شانہ ٗ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ جب اللہ کی مدد آجائے اور آپ لوگوں کو دیکھیں کہ فوج در فوج، جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے رب کی تسبیح بیان کرنے میں مشغول ہوجائیں اور تسبیح کے ساتھ اللہ کی حمد بھی بیان کریں مثلاً یوں کہیں سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اور اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کریں اور آخر میں یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہمیشہ ہی تسبیح وتحمید و استغفار میں لگے رہتے تھے اس سورت میں جو ان چیزوں میں مشغول رہنے کے لیے خطاب فرمایا ہے اس خطاب کی وجہ سے آپ نے اور زیادہ تسبیح وتحمید اور استغفار کی کثرت شروع فرما دی، حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ آپ اپنی آخر عمر میں سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ (ذكرہ ابن کثیر و عزاہ الی الامام احمد) اور حضرت ام سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے تھے میں نے جو اس بارے میں آپ سے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، پھر آپ نے ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ٠٠١﴾ کو آخر تک تلاوت فرمایا۔ (ذكرہ ابن کثیر ایضاً وعزاہ الی ابن جریر) تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں الفتح سے فتح مکہ مراد ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے دو سال پہلے یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ٠٠١﴾ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ میری موت قریب ہے یہ سن کر وہ رونے لگیں پھر آپ نے ان سے فرمایا کہ میرے گھر والوں میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی یہ سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ (ابن کثیر عن البیہقی صفحہ ٥٦١ ج ٤) حضرت عمر (رض) حضرت ابن عباس (رض) کو مشائخ بدر کی مجلس میں بٹھایا کرتے تھے۔ بعض حضرات کو ناگوار ہوا کہ ان کو ہمارے ساتھ مجلس میں کیوں بٹھاتے ہیں (حالانکہ نو عمر ہیں) اور ان جیسے ہمارے لڑکے بھی ہیں انہیں ہمارے ساتھ مجلس میں کیوں نہیں بٹھاتے ؟ حضرت عمر (رض) کو پتہ چلا تو ایک دن ان حضرات کی موجودگی میں حضرت ابن عباس (رض) کو بلایا اور ان حضرات سے پوچھا کہ بتاؤ ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ٠٠١﴾ میں کیا بات بتائی گئی ہے ان میں سے بعض نے تو خاموشی اختیار کی اور بعض نے جواب دیا کہ اس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی مدد آجائے اور ممالک فتح ہوجائیں تو اللہ کی حمد کریں اور استغفار میں مشغول رہیں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کیا بات اسی طرح ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا نہیں۔ فرمایا تو کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے عرض کیا کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر دی گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں بھی اس سورت کا مطلب یہی سمجھتا ہوں۔ (تفردبہ البخاری) چونکہ اس سورت میں آپ کی وفات کی خبر دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دنیا سے جلدی تشریف لے جانے والے ہیں اور تسبیح اور تحمید اور استغفار میں مشغول ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے آخر عمر میں آپ تینوں چیزوں کی مشغولیت کے ساتھ دیگر امور متعلقہ آخرت میں بھی پہلے کی بنسبت اور زیادہ کوشش فرماتے تھے، حضرت ابن عباس (رض) نے ایک مرتبہ پوری سورت الفتح پڑھی اور آخر میں کہا : فاخذ باشد ما کان قط اجتھادًا فی امر الاخرة (ابن کثیر عن الطبرانی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی وقت بھی اعمال آخرت سے غافل نہیں رہتے تھے اور ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے اور سورة النصر نازل ہونے کے بعد اس طرف اور زیادہ متوجہ ہوگئے، جو دعوت کا کام آپ کے ذمہ تھا یعنی لوگوں کو دین اسلام اور احکام اسلام پہنچانا یہ بھی بہت بڑا کام ہے اور بہت بڑی عبادت ہے لیکن اس کے انجام دینے میں مخلوق کی طرف بھی توجہ دینی پڑتی ہے لہٰذا آپ کو حکم دیا گیا کہ خصوصیت کے ساتھ ایسی عبادت کا بھی اہتمام کریں جس میں بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہو اسی کو ﴿فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ٠٠٧ وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (رح) ٠٠٨﴾ میں ارشاد فرمایا ہے اور اس سورت میں فرمایا کہ اب جب کہ اس دنیا سے جانے کا وقت قریب ہے تو اور زیادہ تسبیح وتحمید اور استغفار میں لگے رہیں آپ نے اس پر عمل فرمایا اور آیت کریمہ کے نازل ہونے کے دو سال بعد آپ کی وفات ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت تبلیغ کے کام میں بہت محنت کی، بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں مکہ والوں میں سے چند ہی آدمیوں نے اسلام قبول کیا اور آپ کو ہجرت پر مجبور کیا، پورے جزیرہٴ عرب میں آپ کی بعثت کی خبر پھیل گئی تھی اور آپ کی دعوت حق کا علم ہوگیا تھا لیکن ایمان نہیں لاتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ ابھی انتظار کرو، دیکھتے رہو ان کا اپنی قوم کے ساتھ کیا انجام ہوتا ہے جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تب بھی قریش مکہ ایمان نہ لائے اور بدر اور احد میں جنگ کرنے کے لیے چڑھ آئے اور غزوہٴ احزاب میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، پھر جب رمضان المبارک ٨ ہجری میں مکہ معظمہ فتح ہوگیا تو مکہ والے بھی مسلمان ہوگئے اور عرب کے دوسرے قبائل نے بھی اسلام قبول کرلیا، یہ لوگ جوق در جوق فوج در فوج مدینہ منورہ میں آتے تھے اور اسلام قبول کر کے واپس جاتے تھے اسی کی ﴿وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ٠٠٢﴾ میں پیشگی خبر دے دی تھی۔ حضرات مشائخ نے فرمایا کہ جو حضرات کسی بھی طرح سے دین کی خدمت کرتے ہیں جب بڑھاپے کو پہنچ جائیں اور موت قریب معلوم ہونے لگے تو حسب ہدایت قرآنیہ ذکر و تلاوت اور عبادت میں خوب زیادہ مشغول ہوجائیں۔ فضیلت : حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے دریافت فرمایا کیا تم نے نکاح نہیں کیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، کیسے نکاح کروں ؟ فرمایا کیا سورة ٴ ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ٠٠١﴾ نہیں، عرض کیا، ہاں ہے، فرمایا وہ تہائی قرآن ہے، پھر فرمایا کہ کیا تیرے پاس ﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ٠٠١﴾ نہیں ہے، عرض کیا ہاں وہ میرے پاس ہے۔ فرمایا وہ چوتھائی قرآن ہے۔ پھر فرمایا کیا تیرے پاس سورة ٴ ﴿اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ ﴾ نہیں ہے۔ عرض کیا ہاں ہے، فرمایا وہ نصف قرآن ہے۔ تم نکاح کرلو۔ ان سورتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارا نکاح کر دے گا۔ (ذكرہ ابن کثیر فی تفسیر سورة زلزال وعزاہ الی سنن الترمذی)
2:۔ ” اذا جاء “ اذا کی جزا محذوف ہے۔ ای فستری ما تری۔ جب اللہ کی مدد اور فتح کی بشارت آگئی تو تم اس کی برکات دیکھ لوگے۔ ” ورایت الناس “ تم دیکھو گے کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ فتح و نصرت کی برکات میں سے ایک ہے۔