Surat ul Tabbatt
Surah: 111
Verse: 1
سورة التبت
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾
May the hands of Abu Lahab be ruined, and ruined is he.
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾
May the hands of Abu Lahab be ruined, and ruined is he.
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔
The Reason for the Revelation of this Surah and the Arrogance of Abu Lahab toward the Messenger of Allah Al-Bukhari recorded from Ibn Abbas that; The Prophet went out to the valley of Al-Batha and he ascended the mountain. Then he cried out, يَا صَبَاحَاه O people, come at once! So the Quraysh gathered around him. Then he said, أَرَأَيْتُمْ إِنْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ... مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّيكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِّي ؟ If I told you all that the enemy was going to attack you in the morning, or in the evening, would you all believe me? They replied, "Yes." Then he said, فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيد Verily, I am a warner (sent) to you all before the coming of a severe torment. Then Abu Lahab said, "Have you gathered us for this! May you perish!" Thus, Allah revealed, تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ Perish the two hands of Abu Lahab and perish he! to the end of the Surah. In another narration it states that he stood up dusting of his hands and said, "Perish you for the rest of this day! Have you gathered us for this" Then Allah revealed, تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ The first part is a supplication against him and the second is information about him. This man Abu Lahab was one of the uncles of the Messenger of Allah. His name was Abdul-Uzza bin Abdul-Muttalib. His surname was Abu Utaybah and he was only called Abu Lahab because of the brightness of his face. He used to often cause harm to the Messenger of Allah. He hated and scorned him and his religion. Imam Ahmad recorded from Abu Az-Zinad that; a man called Rabi`ah bin Abbad from the tribe of Bani Ad-Dil, who was a man of pre-Islamic ignorance who accepted Islam, said to him, "I saw the Prophet in the time of pre-Islamic ignorance in the market of Dhul-Majaz and he was saying, يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لاَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ تُفْلِحُوا O people! Say there is no god worthy of worship except Allah and you will be successful. The people were gathered around him and behind him there was a man with a bright face, squint (or cross) eyes and two braids in his hair. He was saying, "Verily, he is an apostate (from our religion) and a liar!" This man was following him (the Prophet) around wherever he went. So, I asked who was he and they (the people) said, "This is his uncle, Abu Lahab." Ahmad also recorded this narration from Surayj, who reported it from Ibn Abu Az-Zinad, who reported it from his father (Abu Zinad) who mentioned this same narration. However in this report, Abu Zinad said, "I said to Rabi`ah, `Were you a child at that time!' He replied, `No. By Allah, that day I was most intelligent, and I was the strongest blower of the flute (for music)."' Ahmad was alone in recording this Hadith. Concerning Allah's statement, مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَب Show more
تفسیر سورۃ تبت بدترین اور بدنصیب میاں بیوی:٭٭ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے یاصباحاہ یاصباحاہ کہنے لگے قریش سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا ... سمھو گے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری ( بخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ تبت بددعا ہے اور تب خبر ہے ، یہ ابو لہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابو عتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذاء دہی تکلیف رسائی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ، ربیعہ بن عباد ویلی اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پاؤ گے لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا لوگو یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابو لہب ہے ( لعنہ اللہ ) ( مسند احمد ) ابو الزنادنے راوی حدیث حضرت ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے فرمایا نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا ، دوسری روایت میں ہے میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر الہت عالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابو لہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا اے فلاں قبیلے کے لوگو! یہ شخص تو تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہوں اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں بھی گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا ( احمد و طبرانی ) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابو لہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ اب مسعود فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابو لہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس کے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیت مااغنی الخ ، اتری ، پھر فرمایا کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے الی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابو سفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اسی لئے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لڑکیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی اور جہنم کا ایندھن سمیٹتی رہے گی ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ حمالتہ الحطب سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر اسی کو پسند کرتے ہیں ، ابن عباس وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ، واللہ اعلم ۔ سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ مسد کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لئے یوں کہتی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ، اس کے دین کے دشمن ہیں اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعتہ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے صدیق اکبر نے اسے اس حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی ، پھر آپنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مسوراً یعنی جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں ۔ یہ ڈائن آ کر حضرت ابو بکر کے پاس کھڑی ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت صدیق اکبر کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں رب البیت کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں ( ابن ابی حاتم ) ایک مرتبہ یہ اپنی لمبی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سارے ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو حضرت صدیق نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانت ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد حضرت صدیق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی ، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں پہنچایا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب مسد کہدیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ، ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے نہ باطن میں نہ چھپے نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔ Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
1۔ 1 یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہوجائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ... ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی، چناچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر) Show more
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
[١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خبر اسے... اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پاچکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی تعمیل میں بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ٤٥ آدمی جمع ہوئے۔ ابولہب کی مخالفت :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو ! یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ابوطالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کرکے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابوطالب نے کھل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبدالمطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا ::&& خدا کی قسم ! یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو && اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا :&& اللہ کی قسم ! جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے && اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین ہوگیا کہ معززین بنوہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھے ہوگئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : && ہاں &&! اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ ابولہب کی برہمی :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی اتنا ہی کہہ : پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اگرچہ ابو لہب کی اس بدتمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بدخلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بدبخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنوہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ 56) 28 ۔ القصص :56) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض وعناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بدخلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہذا اس کی اس بدتمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔ واضح رہے کہ (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ ) سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بددعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔ Show more
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
(١) تبت یدا ابی لھب و تب : ابولہب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا تھا، نام عبدالعزیٰ بن عبد المطلب تھا۔” لھب “ شعلے کو کہتے ہیں،” ابی لھب “ شعلے کا باپ یا شعلے والا۔ رخس اورں کی خوبصورتی اور سرخی کی وجہ سے یا طبیعت کی تیزی اور جشو کی وجہ سے ابولہب کے نام سے مشہور ہوا، پھر جہنمی ہونے کی وج... ہ سے فی الواقع شعلے والا ہی بن گیا۔ اس شخص کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عداوت تھی۔ باوجود اس کے کہ چچا باپ کی طرح ہوتا ہے، یہ ہر موقع پر آپ کی مخالفت کرتا اور ایذا پہنچانے کی کوشش کرتا۔ آپ کے دشمنوں میں سے یہ واحد شخص ہے جس کے نام سے قرآن میں اس کے برے انجام کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں نسب اور خاندان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور کفر کی بنیاد پر اپنے اور غیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت مخالفت اور آپ کو ہلاکت کی بد دعا دینے کی وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے ” تبت یدا ابی لھب و تب “ فرمایا۔ اس کے دو معانی ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی تو ظاہر ہے۔ دوسرا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں اور وہ (فی الواقع ) ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی فزاء نے کیا ہے، یعنی اس کی بد دعا کے مقابلے میں اہل ایمان کی بد دعا کی جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ فرما دیے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں پھر بتایا کہ وہ ہلاک ہوچکا۔ (٣) ” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے “ یہاں ہاتھوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ ایذا رسانی میں ہاتھوں کا حصہ دوسرے تمام اعضا سے زیادہ موثر ہوتا ہے اور ان کے ساتھ زیادہ تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے مراد اولاد اورس ا تھی ہیں، جو مددگار ہوتے ہیں اور دست و بازو بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ایسا ہی ہوا، اس کے مددگار جنگ بدر میں برباد ہوگئے، وہ خود جنگ میں نہیں گیا، شکست کی خبر آئی تو اسی صدمے سے مرگیا۔ Show more
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
Name and Nickname of Abu Lahab Abu Lahab [ Father of Flame ] was the Nickname of ` Abd-ul-` Uzza, one of the sons of ` Abdul-Muttalib. As he was ruddy in complexion, he was nicknamed Abu Lahab [ Father of Flame ]. The Qur&an did not mention his real name, because it smacked of paganism, and the last element &lahab& [ Flame ] in the nickname has also nexus with the flame of Hell. This p... erson was the inveterate enemy and persecutor of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and violently opposed Islam. Whenever the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) invited the people to Islamic Faith, he would stand up and cry lie to his message. [ Ibn Kathir ] Cause of Revelation It is recorded in the two Sahihs that when the verse وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (Warn your closest relatives - 26:214) was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ascended the mount Safa and cried out to the tribe of Quraish in a manner that was known among them for warning of an attack by the enemy. Some narratives maintain that he called the different Makkah clans by name, the clan of Banu ` Abd Munaf, Banu ` Abdul-Muttalib and others. All the clans of Quraish gathered around him, and he said to them: &If I were to tell you that the enemy is about to attack you in the morning or in the evening, would you believe me?& They all unanimously replied in the affirmative. Then he said: &Verily, I am a warner sent to you before the coming of a severe torment (as a result of disbelief or paganism). Abu Lahab then responded: تَبَاً لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعتَنَا &Ruin may seize you! Is it for this purpose that you have called us together?& and picked up a stone to hit him. Thus this Surah was revealed. Verse [ 111:1] تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (Perish the two hands of Abu Lahab, and perish he! ) The word yad literally means a &hand&. Because hands play a very important role in all of human works and actions, often yad (hand) refers to the human person, as in the phrase ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ (...All this is due to what your hands have sent forth...22:10). Baihaqi has recorded on the authority of Sayyidna Ibn &Abbas (رض) that one day Abu Lahab said to the people that Muhammad says that such-and-such a thing will happen after death. Then, pointing to his hands, said that none of those things have come into these hands; then he addressed his hands and said: تَبّاً لکما ما اریٰ فیکما شیٔاً ممّا قال محمد (Perish you! I do not see any of the things Muhammad said in you.) Therefore, the Qur&an attributes his destruction to his hands. The verb tabba is derived from tabab which means &to perish&. In verse [ 11, the first sentence تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ (Perish the two hands of Abu Lahab) is in the form of a prayer invoking or imprecating destruction upon Abu Lahab, and the second sentence wa tabba is the declarative sentence prophesying the consequence of the invocation. The first sentence was invoked against him to satisfy the indignation of the Muslims, because when Abu Lahab imprecated destruction upon the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it was the desire of the Muslims that imprecation be invoked against him. Allah thus fulfilled their desire, and also informed them that the invocation has taken effect and he perished. Seven days after the battle of Badr, he developed a terrible case of plague because of which people avoided him. They regarded the disease as infectious and were afraid that it might be transmitted by contact, so they forced him to live in an isolated house, and they did not come into contact with him at all. He at last died in this state. His dead body lay untouched in his house for three days. When his body began to rot giving out unbearable stench, people taunted his sons, and they hired laborers to take it away and bury it. They dug a pit in the ground, pushed his body into it with a stick and covered it with stones. [ Bayan-ul-Qur’ an from Ruh ]. Verse [ 111:2] مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (Neither his wealth availed him, nor what he earned.) The phrase ma kasab [ what he earned ] could refer to the profits that accrued to him from investment of his wealth in business, and it could also imply &children&, for the children of a person are also referred to (in Arabic) as his earning. Sayyidah ` A&ishah (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ان اطیب ما اکل الرّجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ |"The best and the purest thing a man eats is from his earnings and his children are part of his earnings|". This means that eating from the earnings of one&s children is tantamount to eating from one&s own earnings. [ Qurtubi ] Therefore, Sayyidah ` A&ishah, Mujahid, &Ata’, Ibn Sirin and others interpret ma kasab [ what he earned ] as referring to &children&. Allah had granted Abu Lahab abundant wealth and many children, and these two factors led him to be ungrateful, and caused him to be proud and arrogant. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called his people to faith and warned them about the Divine punishment, Abu Lahab said: |"Even if what my nephew says is true, I will save myself from the painful torment on the Day of Judgment with my wealth and my children.|" Thus Allah revealed verse [ 2] مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ that is, when the Divine torment seized him in this world, neither his wealth nor his children benefited him! Show more
خلاصہ تفسیر ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔ نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (مال سے مراد اصل سرمایہ اور کمائی سی مراد اس کا نفع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی سامان اس کو ہلاکت سے نہ بچاوے گا، یہ حالت تو اس کی دنیا میں ہوئی اور آخرت میں) وہ عنقریب (یعنی مرتے ہی) ایک شعلہ زن آگ ... میں داخل ہوگا، وہ بھی اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے (مراد خار دار لکڑیاں ہیں جن کو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں بچھا دیتی تھی تاکہ آپکو تکلیف پہنچے اور دوزخ میں پہنچ کر) اس کے گلے میں ( دوزخ کی زنجیر اور طوق ہوگا کہ گویا وہ) ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی (تشبیہ شدت اور استحکام میں ہے) معارف ومسائل ابولہب کا اصلی نام عبدالعزٰی تھا، یہ عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہے۔ سرخ رنگ ہونے کی وجہ سے اس کی کنیت ابولہب مشہور تھی۔ قرآن کریم نے اس کا اصلی نام اس لئے چھوڑا کہ وہ نام بھی مشرکانہ تھا اور ابولہب کنیت میں، لہب جہنم سے ایک مناسبت بھی تھی۔ یہ شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےحد دشمن اور اسلام کا شدید مخالف، آپ کو سخت ایذائیں دینے والا تھا، جب آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے یہ ساتھ لگ جاتا اور آپ کی تکذیب کرتا جاتا تھا (ابن کثیر) شان نزول :۔ صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی، بعض روایات میں ہے کہ یا صباحاہ کہہ کر یا بنی عبد مناف اور یا بنی عبدالمطلب وغیرہ ناموں کے ساتھ آواز دی (اس طرح آواز دینا عرب میں خطرہ کی علامت سجھا جاتا تھا) سب قریش جمع ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن (تم پر چڑھ آیا ہے اور) صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے کیا آپ لوگ میری تصدیق کروگے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے، پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید سے (جو شرک و کفر پر اللہ کی طرف سے مقرر ہے) یہ سن کر ابولہب نے کہا تبا لک الھذا جمعتنا ہلاکت ہو تیرے لئے کیا تو نے ہمیں اس کے لئے جمع کیا تھا اور آپ کو مارنے کیلئے ایک پتھر اٹھالیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ تبت یدا ابی لھب وتب، ید کے صلی معنی ہاتھ کے ہیں، چونکہ انسان کے سب کاموں میں بڑا دخل ہاتھوں کو ہے اس لئے کسی شخص کی ذات اور نفس کو ید سے تعبیر کردیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے بما قدمت یداک، اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ابولہب نے ایک روز لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد فلاں فلاں کام ہوں گے پھر اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ان ہاتھوں میں ان چیزوں میں سے کچھ بھی آیا نہیں پھر اپنے ہاتھوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا تبا لکما ما اری فیکما شیئا مما قال محمد، یعنی تم برباد ہوجاؤ میں تمہارے اندر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں دیکھتا جن کے ہونے کی خبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیتے ہیں اس کی مناسبت سے قرآن کریم نے ہلاکت کو ہاتھوں کی طرف منسوب کیا۔ تب، تباب سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ہلاک و برباد ہو، اس آیت میں پہلا جملہ تبت یدا ابی لھب بطور بددعا کے ہے یعنی ابولہب ہلاک ہوجائے اور دوسرا جملہ یعنی وتب جملہ خبریہ ہے گویا بددعا کے ساتھ اس کا اظر بھی بتلادیا کہ وہ ہلاک ہوگیا اور جملہ بددعا کا مسلمانوں کے شفاء غیظ کے لئے ارشاد فرمایا گیا کیونکہ جس وقت ابولہب نے آپ کی شان میں تباً کہا تو مسلمانوں کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لیے بددعا کریں، حق تعالیٰ نے گویا ان کے دل کی بات خود فرمادی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ یہ بددعا اس کو لگ بھی گئی اور وہ ہلاک ہوگیا۔ قرآن نے اس کی ہلاکت و بربادی کی خبر جو پہلے ہی دے دی تھی اس کا اثریہ ہو کہ واقعہ بدر کے ساتھ روز بعد اسکے طوفان کی گلٹی نکلی جس کو عرب عدسہ کہتے ہیں۔ مرض دوسروں کو لگ جانے کے خوف سے سب گھروالوں نے اس کو الگ ڈال دیا یہاں تک کہ اسی بےبسی کی حالت میں مر گیا اوت تین روز تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر دبوادیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھود کر ایک لکڑی سے اس کی لاش کو گڑھے میں ڈال دیا اوپر سے پتھر بھر دیئے (بیان القران بحوالہ روح) ما اغنی عنہ مالہ وما کسب، ماکسب کے معنے ہیں جو کچھ اس نے کمایا، اس سے مراد وہ منافع تجارت وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں جو مال کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں کہا گیا ہے اور اولاد بھی مراد ہوسکتی ہے کیونکہ اولاد کو بھی انسان کی کمائی کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اطیب ما اکل الرجل من کسیہ وان ولدہ، من کسیہ یعنی جو کھانا آدمی کھاتا ہے اس میں سب سے زیادہ حلال طیب وہ چیز ہے جو آدمی اپنی کمائی سے حاصل کرے اور آدمی کی اولاد بھی اسکے کسب میں داخل ہے یعنی اولاد کی کمائی کھانا بھی اپنی ہی کمائی سے کھانا ہے (قرطبی) اسی لئے حضرت عائشہ، مجاہد، عطائ، ابن سیرین وغیرہ نے اس جگہ ماکسب کی تفسیر اولاد سے کی ہے ابولہب کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی بہت دیا تھا اولاد بھی، یہی دونوں چیزیں ناشکری کی وجہ سے اسکے فخر و غرور اور وطال کا سبب بنیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ابولہب نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کچھ یہ میرا بھتیجہ کہتا ہے اگر وہ حق ہی ہوا تو میرے پاس مال واولاد بہت ہے میں اس کو دے کر اپنی جان بچا لوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ما اغنی عنہ مالہ وماکسب یعنی جب اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد، یہ تو حال اس کا دنیا میں ہوا، آگے آخرت کا ذکر ہے۔ Show more
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبَّ ١ ۭ تبَ التَبُّ والتَّبَابُ : الاستمرار في الخسران، يقال : تَبّاً له وتَبٌّ له، وتَبَبْتُهُ : إذا قلت له ذلك، ولتضمن الاستمرار قيل : اسْتَتَبَّ لفلان کذا، أي : استمرّ ، وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ، أي : استمرت في خسرانه، نحو : ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ ... الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ، أي : تخسیر، وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] . ( ت ب ب ) التب والتبات ( ض ) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں کہا جاتا ہے تبالہ ( اللہ اسے خائب و خاسر کرے ( وتبیتہ کسی سے تبالک کہنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے یہی مفہوم ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] میں پایا جاتا ہے ۔ وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ان نقصان میں ڈالتے ( یعنی تباہ کرنے ) کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے ۔ وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] اور فرعون کی تدبیر تو بیکار تھی ۔ لهب اللَّهَبُ : اضطرام النار . قال تعالی: لا ظَلِيلٍ وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات/ 31] ، سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد/ 3] . واللَّهِيبُ : ما يبدو من اشتعال النار، ويقال للدّخان وللغبار : لَهَبٌ ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] فقد قال بعض المفسّرين : إنه لم يقصد بذلک مقصد کنيته التي اشتهر بها، وإنما قصد إلى إثبات النار له، وأنه من أهلها، وسمّاه بذلک کما يسمّى المثیر للحرب والمباشر لها : أبا الحرب، وأخا الحرب . وفرس مُلْهِبٌ: شدید العدو تشبيها بالنّار المُلْتَهَبَةِ ، والْأُلْهُوبُ من ذلك، وهو العدو الشّديد، ويستعمل اللُّهَابُ في الحرّ الذي ينال العطشانَ. ( ل ھ ب ) اللھب ۔ آگ کا شعلہ ۔ قرآن میں ہے : وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات/ 31] اور نہ لپٹ سے بچائیگا ۔ سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد/ 3] وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ اللھیب ۔ شعلہ ۔ اور لھب کا لفظ دھوئیں اور غبار پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو ۔ میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ابولہب کے لفظ سے اس کی کنیت ۔۔۔ مراد نہیں ہے ۔ جس کے ساتھ وہ مشہور تھا ۔ بلکہ اس سے اس کے دوزخی ہونے کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے لہذا یہاں اس نام سے اسے موسوم کرنا ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ لڑائی بھڑکانے والے اور ہمیشہ لڑنے والے کو ابوالحرب یا اخرالحرب کہا جاتا ہے ۔ فرس ملھب برق رفتار گھوڑا گویا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔ اسی سے الھرب ہے جس کے معنی سخت دوڑ کے ہیں ۔ اللھاب ۔ پیاس کی شدت ، اندورنی سوزش جو پیاسی کی وجہ سے محسوس ہ وتی ہے ۔ Show more
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ اپنے قریبی کنبہ کو ڈرائیے آپ نے ان کو بلانے کے بعد کلمہ لا الہ الا اللہ کی دعوت دی اس پر ابولہب نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا اسی لیے آپ نے ہمیں جمع کیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ا... بولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ذلیل و خوار ہو۔ Show more
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
1 His real name was 'Abd al-'Uzza, and he was called Abu Lahab on account of his glowing, ruddy complexion. Lahab means the flame of fire, and Abu Lahab the one with a flaming, fiery face. His being mentioned here by his nickname (Kunyat) , instead of his real name, has several reasons. First, that he was better known by his nickname than by his real name; second, that the Qur'an did not approve t... hat he should be mentioned by his polytheistic name `Abd al 'Uzza (slave of 'Uzza) ; third, that his kunyat goes well with the fate that has been described of him in this Surah. Some commentators have translated tabbat yada Abi Lahab to mean: "May the hands of Abu Lahab be broken", and tabby to mean: °may he perish" or "he perished". But this, in fact, was not a curse which was invoked on him, but a prophecy in which an event taking place in the future, has been described in the past tense, to suggest that its occurrence in the future is certain and inevitable. In actual fact, at last the same thing happened as had been foretold in this Surah a few years earlier. Breaking of the hands obviously does not imply breaking of the physical hands, but a person's utterly failing in his aim and object for which he has exerted his utmost. And Abu Lahab indeed had exerted his utmost to defeat and frustrate the message of lslam presented by the Holy Prophet (upon whom be peace) . But hardly seven or eight years after the revelation of this Surah most of the big chiefs of Quraish, who were a party with Abu Lahab in his hostility to Islam, were killed in the Battle of Badr. When the news of the defeat reached Makkah, he was so shocked that he could not survive for more than seven days. His death occurred in a pitiabie state. He became afflicted with malignant pustule and the people of his house left him to himself, fearing contagion. No one came near his body for three days after his death, until the body decomposed and began to stink. At last, when the people began to taunt his sons, according to one tradition, they hired some negroes, who lifted his body and buried it. According to another tradition, they got a pit dug out and threw his body into it by pushing it with wood, and covered it up with earth and stones. His utter failure became manifest when the religion which he had tried his utmost to impede and thwart, was accepted by his own children. First of all, his daughter, Darrah, migrated from Makkah to Madinah and embraced lslam; then on the conquest of Makkah, both his sons, `Utabh and Mu`attab, came before the Holy Prophet (upon whom be peace) through the mediation of Hadrat `Abbas, believed and took oath of allegiance to him. Show more
سورة اللھب حاشیہ نمبر : 1 اس شخص کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ، اور اسے ابو لہب اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا ۔ لہب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں اور ابو لہب کے معنی ہیں شعلہ ۔ یہاں اس کا ذکر اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپن... ے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت ہی سے معروف تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبدالعزیٰ ( بندہ عزی ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا کہ اسے اس نام سے یاد کیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اس کا جو انجام اس سورہ میں بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ اس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ کے معنی بعض مفسرین نے ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ بیان کیے ہیں اور وَّتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے یا وہ ہلاک ہوگیا ۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اس کو دیا گیا ہو ، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے ، گویا اس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے وہ ہوچکی ۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اس سورہ میں چند سال پہلے بیان کیا جاچکا تھا ۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے ، بلکہ کسی شخص کا اپنے اس مقصد میں قطعی ناکام ہوجانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو ۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا دیا تھا ۔ لیکن اس سورہ کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے ۔ مکہ میں جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا ۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی ۔ اسے عدسہ ( Malignant Pustule ) کی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا ، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا ۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی ۔ آخر کار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا ۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا ۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا ۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں ، پھر فتح مکہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباس کی وساطت سے حضور کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لاکر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ Show more
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
1: ابو لہب، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک چچا تھا جو آپ کی دعوتِ اسلام کے بعد آپ کا دُشمن ہوگیا تھا اور طرح طرح سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی بار اپنے خاندان کے لوگوں کو صفا پہاڑ پر جمع فرماکر اُن کو اسلام کی دعوت دی تو ابو لہب نے یہ جملہ کہا تھا کہ : تبا لک ... الھذا اجمعتنا : یعنی بربادی ہو تمہاری، کیا اس کام کے لئے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی، اور اس میں پہلے تو ابولہب کو بددعا دی گئی ہے کہ بربادی (معاذاللہ) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہاتھ ابو لہب کے برباد ہوں (عربی محاورہ میں ہاتھوں کی بربادی کا مطلب اِنسان کی بربادی ہی ہوتا ہے) پھر فرمایا گیا ہے کہ وہ بربادی ہو ہی گیا یعنی اُس کی بربادی اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی، چنانچہ جنگ بدر کے سات دن بعد اسے طاعون جیسی بیماری ہوئی جسے عدسہ کہتے ہیں، عرب کے لوگ چھوت چھات کے قائل تھے اور جسے ’’عدسہ‘‘ کی بیماری ہوتی، اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، چنانچہ وہ اسی حالت میں مرگیا، اور اُس کی لاش میں سخت بدبو پیدا ہوگئی، یہاں تک کہ لوگوں نے کسی لکڑی کے سہارے سے اسے ایک گڑھے میں دفن کیا۔ (روح المعانی)۔ Show more
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
١۔ ٥۔ صحیح ٢ ؎ بخاری مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا ٢ حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریش کو آواز دی جس سے بہت سے لوگ قریش کے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طرح طرح کی نصیحت کی اور شرک ... سے ڈرایا۔ ان لوگوں میں ابو لہب بھی تھا۔ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت سن کر بڑی نخوت سے گھڑی گھڑی اپنے دونوں ہاتھ جھٹکے اور کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے اسی واسطے آواز دے کر اور ہاتھوں کے اشارہ سے بلا کر ہم سب لوگوں کو جمع کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی۔ یہ ابو لہب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچاؤں میں سے تھا اس کا نام عبد العزیٰ بن عبد المطلب تھا اور اس کی اصل کنیت ابو عتبہ ہے۔ اس کے رنگ کے سرخ وسفید ہونے کے سبب سے اس کے منہ پر ایک طرح کی خون کی جھلک اور چمک تھی اس لئے اس کو ابولہب کہتے تھے جس کے معنی آگ کے شعلہ کے باپ کے ہوئے۔ یہ کنیت اس کے حق میں ایسی منحوس ہوئی کہ ہمشہ کے لئے گویا یہ دوزخ کی آگ کا ابو لہب ٹھہرا۔ یہ شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بڑا مخالف تھا جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار وغیرہ میں لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر کچھ وعظ و نصیحت کرتی تھے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کی تقریر ضرور کیا کرتا تھا۔ ابولہب کی بی بی کا نام اروا تھا اور کنیت اس کی ام جمیل تھی۔ یہ ابو سفیان (رض) کی بہن اور معاویہ (رض) کی پھوپھی ہے اپنے شوہر کی امداد کے خیال سے یہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑی عداوت رکھتی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں اکثر کانٹے بچھا دیا کرتی تھی کہ صبح کو اندھیرے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کو جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کانٹوں سے ایذاء پہنچے۔ تبت یدا ابی لھب وتب کا مطلب یہ ہے کہ ابو لہب ہلاک ہوجائے عرب کا محاورہ ہے کہ آدمی کے دونوں ہاتھوں سے اس آدمی کی ذات مراد لیا کرتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ابولہب نسب کا شریف اور مال دار تھا مگر اس نے خدا اور رسول کے ساتھ اپنا معاملہ درست نہیں رکھا تو اس کی دین و دنیا دونوں خراب ہوگئیں دنیا تو یوں کہ اس کے دونوں بیٹے عتبہ عتیبہ جو گویا اس کے دونوں ہاتھ تھے وہ یوں ٹوٹ گئے کہ عتبہ تو مسلمان ہوگئے اور عتیبہ کو شیر نے پھاڑ ڈالا۔ خود اس کا یہ حال ہوا کہ وہ خود تو بدر کی لڑائی میں نہیں جاسکا مگر ایک شخص کو خرچ دے کر اپنی طرف سے قریش کے ساتھ اس نے بھیج دیا تھا قریش پر بدر کی لڑائی میں وہ آفت گزری کہ ستر آدمی ان کے مارے گئے اور ستر قید ہوگئے اور جس شخص بدیل نامی کو اس نے اس لڑائی میں بھیجا تھا اس سے اور اور لوگوں سے اس ابولہب نے قریش کی مصیبت کا سبب تفصیلی حال جب سنا تو اس غم میں طاعون کے مرض سے بدر کی لڑائی کے ساتھ روز بعد مرگیا۔ عرب کے لوگ اس مرض میں جو شخص مرجائے اس کی لاش سے بہت پرہیز کرتے ہیں اس لئے تین دن تک اس کی لاش بغیر دفن کے پڑی رہی اور جب لاش بالکل سڑ گئی تو اس لاش کے دفن کی نوبت آئی تفسیر ضحاک ١ ؎ میں ہے کہ ابولہب کی بی بی ام جمیل کے گلے میں رسی کی پھانسی لگ گئی جس سے وہ مرگئی قیامت کے دن وہی رسی ایک آگ کی رسی بن جائے گی اور دوزخ میں ہمیشہ وہ رسی اس کے گلے میں طوق کی طرح پڑی رہے گی غرض اللہ کے رسول کی مخالفت اور اللہ تعالیٰ کی خفگی سے ابو لہب اور ام جمیل دونوں کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ایسے لوگوں کا عقبیٰ میں جو کچھ انجام ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا ضحاک کا قول تفسیر میں معتبر ہے چناچہ سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ مجاہد سعید بن جبیر عکرمہ اور ضحاک۔ ان چار شخصوں سے تفسیر کی روایتیں لینی چاہئیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اکثر جگہ ضحاک کا قول لیا ہے اور یہ اوپر گزر چکا ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں صحت روایت کی پابندی زیادہ کی ہے۔ (؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة اللہب ص ٧٤٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة الاخلاص ص ١٠٤ ج ٢۔ ) Show more
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
(111:1) تبت یدا ابی لھب وتب ۔ یہ دونوں جملے تبت یدا ابی لہب اور وتب۔ بددعا کے لئے ہیں۔ تبت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تب وتباب (باب ضرب) مصدر بمعنی ٹوٹنا۔ یا ٹوٹے میں رہنا۔ یدا اصل میں یدان تھا۔ اضافت کی وجہ سے ن گرا دیا گیا۔ مضاف دونوں ہاتھ۔ ابی لھب مضاف الیہ۔ ابی لہب کے (دونوں ہاتھ) ۔ تبت ی... دا ابی لہب۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ لغت عرب میں ید کے مختلف معانی ہیں :۔ آیت بل یداہ مبسوطتن ینفق کیف یشاء (5:64) میں بمعنی جود و کرم مستعمل ہے۔ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ یعنی وہ بڑا صاحب جودوسخا ہے وہ جس طرح اور جتنا چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور آیت ونسی ما قدمت یداہ (18:57) میں بمعنی ذات، شخص ہے۔ اور بھول گیا جو اعمال وہ آگے کرچکا ۔ وغیرہ وتب واؤ عاطفہ، جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور وہ ہلاک ہوا۔ وہ ٹوٹ گیا۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ تباب مصدر سے ۔ بمعنی ہلاک ہونا۔ ٹوٹے میں رہنا۔ تب کی ضمیر فاعل ابو لہب کی طرف راجع ہے۔ آیندہ ابو لہب یقینی طور پر ہلاک ہونے والا تھا اس لئے بجائے مستقبل کے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ۔ Show more
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
ف 5 یعنی اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئیں۔ یہ ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفر اور بدبختی کی بدولت آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور آپ کو ہر طرح سے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آیت وانذر... عشیر تک الاقربین نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباء کہہ کر اپنے قبیلے قریش کو پکارا۔ جب وہ سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا :” مجھے یہ بتائو کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیھچے سے کچھ گھوڑ سوار تم پر حملہ کیا چاہتے ہیں تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے، انہوں نے کہا ” ہمیں آج تک جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ “ فرمایا تو میں ایک درد ناک عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ “ ابواب بولا ” تیرے لئے تباہی ہو کیا تو نے اسی لئے ہمیں جمع کیا تھا ؟ آپ پہاڑی سے اتر آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی۔ (فتح القدیر بحوالہ صحیحین) Show more
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
سورة اللھب۔ آیات ١ تا ٥۔ اسرار معارف۔ ہاتھ ٹوٹ جائیں ابولہب کے اور تباہ ہوجائے اس کا نام عبدالعزی تھا حضرت عبدالمطلب کی اولاد میں سے تھا اور سرخ رنگ ہونے کے باعث کنیت ابولہب مشہور تھی ، اس نے آپ کی شدت سے مخالفت کی کہ اللہ کریم نے نام لے کردوزخی ہونے کا اعلان فرمایا۔ اسے اس کا مال وزر کام نہ آئے کہ ... ایک پھوڑا نکلا جو بہت بدبودار تھا لاعلاج ہو کر اور تنہائی میں مرگیا اس قدر بدبو تھی کہ لاش دفن نہ ہوسکتی تھی وہی مکان اس پر گرادیا گیا چناچہ اس کا مال وزر کام نہ آیا اور اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ بھڑکتے ہوئے دزوخ میں داخل ہوگی جو آپ کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی ، دوزخ میں اس کے گلے میں طوق ہوگا جو بٹی ہوئی رسی کی طرح کا ہوگا۔ Show more
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
لغات القرآن۔ تبت۔ تباہ ہوگئی۔ (ہوگئے) ۔ یدا۔ دونوں ہاتھ۔ تب۔ تباہ ہوا۔ ما اغنی۔ کام نہ آیا۔ کسب۔ کمایا۔ سیصلی۔ بہت جلد جا پڑے گا۔ امرائہ ۔ عورت ۔ جید۔ گردن۔ حبل من مسد۔ مضبوط پٹی ہوئی رسی۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے فرمایا ……… یعنی اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے و... الے آپ اتھئے۔ اللہ کے خوف سے لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی قائم کیجئے۔ اس کے بعد جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ……… یعنی آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے خوف سے ڈرائیے تو آپ نے مکہ مکرمہ کے کوہ صفا پر چرھ کر مکہ والوں کو ”…“ (اے صبح کی آفت) کہہ کر آواز دی۔ جس کا عام طور پر یہ مطلب ہوتا تھا کہ رات کو کسی دشمن نے اچانک حملہ کرنے کے لئے اپنا لشکر جمع کرلیا ہے۔ لوگ اس جملے کا مطلب جانتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز بھی پہچانتے تھے۔ قریشی سردار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان والے کوہ صفا کی طرف دوڑ پڑے جو خود آسکتا تھا وہ خود آگیا اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنی طرف سے کسی کو بھیج دیا۔ جب سارے لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ایک ذرا اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر قریش کے تمام خاندانوں کا نام لے کر خطاب فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا ایک بہت بڑا لشکر چھپا ہے، جو عنقریب تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے کیونکہ آپ ہم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تو کوئی لشکر نہیں ہے لیکن شیطان کا لشکر تم پر حملہ آور ہے۔ میں تمہیں (اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو) یہ بتا رہا ہوں کہ آگے بہت بڑا عذاب آنے والا ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفصیل ارشاد فرمائی کہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ یہ سن کر سب ہی لوگوں پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ چاہنے اولا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا ابو لہب کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا ” تبا لک الھذا جمعتنا “ تو برباد ہوجائے کیا تو نے یہی سب کچھ سنانے کے لئے ہمیں جمع کیا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے ایک پتھر اٹھایا تاکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھینچ مارے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی) اور اس کے بعد تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ آپ کا جانی دشمن ہے۔ ہر جگہ آپ کی شدید مخالفت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابولہب کے اس جملے پر تبالہ پر جواب عنایت فرمایا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو برباد نہ ہوں گے لیکن ابولہب تباہ و برباد ہو کر رہے گا۔ اس کی دولت اور اولاد اس کے کچھ بھی کام نہ آئے ۔ اس کو بہت جلد جہنم کی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ چونکہ اس کی بیوی ام جمیل بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت دشمن ہوچکی تھی تو اس کے متعلق فرمایا کہ آپ کے راستے میں کانٹے دار بچھانے والی کی گردن میں ایک رسی ہوگی اور اس سے اس کو جہنم میں کھینچا جائے گا۔ ابولہب کو شعلوں کا باپ کہا جاتا تھا چونکہ وہ نہایتسرخ وسفید، وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا اس لئے ابولہب کہا جانے لگا۔ اس کا اصل نام ” عبدالعزی “ تھا۔ اس کی بیوی کا نام ” اروی “ تھا مگر اس کی کنیت ام جمیل تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی بہت مال دار تھے لیکن اس حد کنجوس تھے کہ ان کی کنجوسی سے سب لوگ تنگ تھے۔ جب ابولہب کا نام لے کر قرآن کریم کی ایک سورت نازل کی گئی جو ابولہب کی سخت توہین تھی تو ام جمیل غصے سے بےقابو ہوگئی اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے کے لئے نکل پڑی تاکہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توہین کرسکے۔ اس کے ہاتھ میں پتھر تھے اور وہ آپ کی شان میں ایسے گستاخانہ شعر پڑھ رہی تھی جس سے اس کا بغض اس کے منہ سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق خرم میں ایک جگہ موجود تھے کہ واں ام جمیل آگئی۔ حضرت ابوبکر صدیق گھبرا گئے کہ کہیں یہ عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین نہ کرے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم پریشان نہ ہو وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر کے پاس پہنچی اور اس نے کہا کہ سنا ہے تمہارے صاحب نے میری سخت توہین کی ہے۔ حضرت ابوبکر نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ” رب کعبہ کی قسم انہوں نے تمہاری کوئی توہین اور ہجو نہیں کی “۔ اس پر وہ واپس چلی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہاری توہین نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے کی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی کا یہ حال تھا کہ وہ ہر وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں لگے رہتے تھے۔ ام جمیل کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا وہ قسم کھا کر کہتی تھی کہ میں اس بار کو بیچ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اور دشمنی پر خرچ کروں گی۔ اللہ نے اسی کے متعلق فرمایا کہ آج جس ہار پر وہ ناز کر رہی ہے کل قیامت کے دن یہی ہار اس کے گلے میں ایک مضبوط بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوگا جس کو اس کی گردن میں ڈالا جائے گا یعنی اس کے ذریعہ اس کو جہنم میں گھسیٹ کر پھینکا جائے گا۔ ابولہب ایک سرمایہ پرست کنجوس آدمی تھا۔ قریش کے چار بڑے مال دار لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ جب غزوہ بدر ہوا تو وہ خود اس میں شریک نہیں ہوا بلکہ اس نے عاص ابن ہشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لئے بھیج دیا۔ اصل میں عاص ابن ہشام پر ابولہب کے چار ہزار درہم قرض تھے اور عاص دیوالیہ ہوچکا تھا۔ ابولہب نے کہا کہ اگر تم میری رف سے جا کر لڑو تو میں چار ہزار درہم معاف کر دوں گا۔ چناچہ عاص ابن ہشام ابولہب کی طرف سے لڑنے کے لئے گیا۔ غزوہ بدر میں جب کفار کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تو ابولہب اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا۔ غزوہ بدر کے سات دن بعد ہی وہ نہایت ذلت کے ساتھ مر گیا۔ اس کی موت بڑی عبرت ناک تھی۔ اس کو ایک ایسی بیماری لگ گئی جو انسان کے تمام اعضا کو سڑا دیتی ہے۔ اس و عربوں میں ” عدسہ “ کی بیماری کہتے تھے۔ اس کے عدسہ کی گلٹی نکلی۔ اس کے بدن سے ایسی بدبو اور سڑیند آتی تھی کہ اس کے بیٹے یہاں تک کہ اس کی بیوی بھی اس کے قریب کھڑے نہ ہو سکتے تھے۔ اس کو اس کے گھر والوں نے علیحدہ ایک کمرے میں ڈال دیا۔ تین دن تک کوئی اس کے پاس نہیں گیا۔ اس عرصے میں وہ مر گیا جب تین دن کے بعد اس کی لاش سے زبردست بدبو پیدا ہوئی تو حبشی بدوؤں کو بلا کر اس کی لاش کو اٹھویا گیا اور کسی نامعلوم صحرا میں پھینکوا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو سورة لہب میں فرمایا کہ اس کا مال، اس کی دولت اور اولاد بھی اس کے کسی کام نہ آسکی اور قیامت میں اس کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ ابولہب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکانات برابر برابر تھے۔ ابولہب اور اس کی بیوی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیتیں پہنچانے کے لئے طرح طرح سے ستاتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ کا نکاح عتبہ سے اور دوسرے بیٹے عتیبہ کا نکاح حضرت ام کلثوم سے ہوا تھا۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید مخالفت کی تو آپ کو ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے ابوجہل نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ میرے لئے تم سے ملنا حرام ہے جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں بیٹیوں کو طلاق نہ دے دو ۔ یہ سن کر عتبیہ اٹھا اور نیب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ کر نہ صرف حضرت ام کلثوم کو طلاق دی بلکہ بےانتہا غلیظ اور گندی باتیں بھی کہیں۔ اس واقعہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید صدمہ پہنچا اور آپ کے منہ سے نکل گیا الٰہی (اس نے آپ کے نبی کی توہین کی ہے) اس پر اپنے کتوں میں کسی کتے کو مسلط فرما دیجیے۔ چناچہ ایک مرتبہ عتیبہ شام کے سفر پر تھا کہ ایک کہ ایک بھڑیئے نے اس کو پھاڑ کھایا۔ اس کے برخلاف عتبہ نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی سے نکاح ہوا اور اللہ نے آپ کو ذوالنورین کے لقب کی سعادت عطا فرمائی۔ واخرد عوانا ان الحمد للہ رب العالمین Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
10۔ چناچہ غزوہ بدر کے سات روز بعد اس کے طاعون کا دانہ جس کو حدسہ کہتے ہیں نکلا اور مرض کے لگ جانے کے خوف سے گھر والوں نے اس کو الگ ڈالدیا۔ یہاں اسی حالت میں ہلاک ہوگیا، تین روز تک لاش یونہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر شہر سے باہر بھیج دیا، انہوں نے جاکر اس کو گڑھے میں پھینک دیا۔
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة النّصر میں ہر قسم کی کامیابی اور دین کے غالب ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے اور سورة اللّہب میں بتلایا ہے کہ عنقریب دین اور آپ کا دشمن ہلاک ہوجائے گا۔ مفسّرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” وَاَنْذِرْ عَشِی... ْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ “ اے نبی ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرائیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ نے قریش کے قبائل کا نام لے لے کر بلایا لوگ دوڑتے ہوئے صفا پہاڑی کی طرف پہنچے، جس قبیلے کا سربراہ خود نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا کہ جاؤ پتہ کرو کہ محمد بن عبداللہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جس شخص کو کوئی حادثہ پیش آتا وہ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ کر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا، کچھ لوگ ایمر جنسی میں پہاڑ پر آگ جلاتے اور اپنا گریبان پیٹتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور جو ان میں مہذب اور حوصلہ مند لوگ ہوتے وہ صبح کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر یا صباحا ! یا صباحا ! کے الفاظ پکارتے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے یا صباحا ! یاصباحا ! کی آواز بلند فرمائی اور لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی، تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بھی رک گئے اور لوگ ٹکٹکی باندھ کر آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے لگے، جونہی لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہورہا ہے تو کیا تم مان جاؤگے ؟ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں ! ” مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا “ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچ کا تجربہ کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا “ کے الفاظ کہتے مگر وہ عرب تھے اس لیے انہوں نے ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا “ کی بجائے یہ کہا کہ ہم نے آپ کا باربار تجربہ کیا ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے آپ کی تینتالیس سالہ حیات مبارکہ کی تائید کی اور آپ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قُوْلُوْا لَااِلٰہَ الاَّ اللَّہُ تُفْلِحُوْا “ جوں ہی آپ نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ ابولہب نے یہاں تک ہر زہ سرائی کی کہ ” تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا “ تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ (رواہ البخا ری : باب وانذرعشیرتک الاقربین) یاد رہے کہ ابولہب کے ساتھ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار رشتے تھے۔ ان میں ہر رشتہ عربوں کے ہاں نہایت ہی قابل احترام تھا۔ ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابولہب چچا تھے۔ ہر معاشرے میں اور عربوں کے ہاں بھی چچا والد کے قائم مقام سمجھا جاتا تھا، لیکن ابولہب نے اس عظیم رشتہ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابولہب مکہ میں ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ہر معاشرے میں پڑوسی کے حقوق مسلّمہ ہیں۔ عرب بھی پڑوسی کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے مگر ابولہب نے اس رشتے کے تقدُّس کو بھی پامال کردیا۔ ٣۔ نبوت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو بیٹیوں کی نسبت ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ توحید کی دعوت کا اعلان کرنے کی وجہ سے ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹوں نے بڑے گستاخانہ انداز میں ان نسبتوں کو توڑ دیا۔ ٤۔ جس بی بی نے ابو لہب کو بچپن میں دودھ پلایا تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بچپن میں اس کا دودھ پیا تھا، اس کا نام ثوبیہ تھا۔ اس لحاظ سے ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رضاعی بھائی تھا عرب رضائی بھائی کو حقیقی بھائی کی طرح خیال کرتے تھے لیکن ابو لہب نے اس رشتے کی بھی پرواہ نہ کی۔ ابولہب کے ردِّ عمل میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں ہر کسی کے لیے کھلے لفظوں میں پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان سے بڑھ کر کوئی رشتہ مقدّم نہیں لہٰذا ایمان نہ ہوتوحسب ونسب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں ابولہب ہی وہ بدقسمت انسان ہے جس کا نام لے کر اس پر پھٹکار کی گئی ہے۔ ابولہب کا نام عبدالعزّٰی تھا۔ قرآن مجید نے اس کے شرکیہ نام کا ذکر کرنے کی بجائے اس کی کنیت کے نام پر مخاطب کیا جس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کنیت سے لوگوں میں مشہور تھا۔ ابولہب شکل و صورت کے لحاظ سے نہایت خوبصورت تھا جس وجہ سے لوگ اسے ابولہب کہتے تھے جس کا معنٰی ہے آگ جیسا روشن چہرہ رکھنے والا۔ لیکن برا عقیدہ اور کردار رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی کنیّت کے حوالے سے اسم بامسمّٰی ثابت ہوا اور اسے ہمیشہ کے لیے دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کسی کام نہ آئے اس کے ساتھ ہی اس کی بیوی بھی جہنم کا ایندھن بنے گی جس کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو اپنے سر پر ایندھن اٹھانے والی ہے اور اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ ابولہب مکہ کے امیر ترین چار آدمیوں میں شمار ہوتا تھا اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس کے پاس نقدی اور جائیداد کے علاوہ آٹھ کلو سونا موجود تھا۔ ( تفہیم القرآن) ظاہر بات ہے کہ اس کی بیوی کو ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی کہ کانٹے دار جھاڑیاں اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے سامنے پھینک دیتی۔ یہی عمل اس کی موت کا سبب ثابت ہوا۔” حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ “ عربی محاورۃ میں چغلیاں کرنے والی کو بھی کہا جاتا ہے گویا کہ وہ نبی کے بارے میں چغلیاں بھی کیا کرتی تھی۔” جِیْدًا “ اس گردن کو کہا جاتا ہے جسے زیور کے ساتھ سجایا گیا ہو یعنی دنیا میں جس گردن میں زبور پہنا کرتی ہے قیامت کے دن اس نرم و نازک گردن میں جہنم کی آگ سے بنا ہوا رسا ڈالا جائے گا۔ ابو لہب اپنی بزدلی کی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہوا لیکن بدر کی شکست کا اسے اس حد تک صدمہ پہنچا کہ یہ اندر ہی اندر گھلتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے کوڑھ کی بیماری لاحق ہوگئی اس کے جسم میں بد بو پھیل گئی گھر کا کوئی فرد اسے ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس حالت میں ذلیل ہو کر مرا، دفنانے کے لیے بدو بلائے گئے جنہوں نے اسے مٹی میں دبایا۔ مسائل ١۔ ابولہب بدترین طریقے سے ہلاک ہوا اور اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کچھ کام نہ آئے۔ ٢۔ ابولہب جہنم کی دہکتی ہوگئی آگ میں ڈالا جائے گا۔ ٣۔ ابولہب کی بیوی جس رسی سے لکڑویوں کا گٹھا اٹھاتی تھی وہ رسی اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مال اور اولاد کی حیثیت : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال، اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمہیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے تمہیں غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
یہ سورت اللہ کی طرف سے اس لئے نازل ہوئی کہ ابولہب اور اسکی بیوی کی طرف سے برپا کی ہوئی جنگ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی جائے۔ گویا یہ معرکہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تبت یدا ........................ وتب (1:111) ” ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ “۔ تبت تباب سے مشتق ہ... ے جس کے معنی ہلاکت ، تباہی انقطاع کے ہیں۔ یہاں تبت کے معنی ہیں بددعا کے اور دوسرے تب کے معنی ہیں کہ وہ ہلاک ہوگیا تباہ ہوگیا اور اس کا سلسلہ کٹ گیا۔ یہ خبر ہے وقوع بددعا کی۔ سورت کے آغاز ہی میں اس مختصر آیت میں بددعا اور اس کی تکمیل کا مکمل منظر ہے ۔ گویا معرکہ ختم ہوجاتا ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والی دوسری آیت میں حقیقت واقعہ کا بیان ہے۔ ما اغنی ................ کسب (2:111) ” اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا “۔ اس کے ہاتھ ٹوٹ گئے ، وہ ہلاک وبرباد ہوگیا۔ اسکا مال اور اسلام کے خلاف جدوجہد اس کے کچھ کام نہ آئی اور اس کی دولت اور اس کی مکاریاں اسے ہلاکت نہ بچا سکیں۔ یہ تو تھا اس کا انجام دنیا میں۔ آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا ؟ سیصلی ............................ لھب (3:111) ” ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا “۔ لہب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ بہت شدید اور شعلہ بار ہوگی اور سخت بھڑکی ہوئی ہوگی۔ وامراتہ .................... الحطب (4:111) ” اور اس کی جورو لکڑیاں اٹھانے والی “۔ بھی اس آگ میں ڈالی جائی گی ، اس حال میں کہ وہ لکڑیاں اٹھائے ہوئے ہوگی اور اس حال میں کہ۔ فی جیدھا .................... مسد (5:111) ” اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی “۔ اور اس رسی کے ساتھ اسے آگ میں باندھ دیا جائے گا یا یہ رسی وہ ہوگی جس کے ساتھ لکڑیاں باندھی جاتی ہیں۔ اگر اس کا حقیقی معنی لیا جائے تو وہ وہاں بھی لکڑیوں اور کانٹوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے جہنم میں جائے گی اور اگر مجازی معنی لیا جائے تو معنی یہ ہوگا اور شرارت کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا نے کی سعی کرتی ہے۔ اس سورت کا طرز ادا اس کے موضوعات اور معانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ سورت کی فضا کے مناسب طرز تعبیر اختیار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں میری کتاب ” قرآن میں مناظر قیامت “ سے چند سطریں یہاں نقل کرنا ضروری ہیں۔ ان کا یہاں نقل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس اس سورت کے نزول سے ام جمیل کے دل میں ایک ایسا تیر لگا جس کی وجہ سے وہ برافروختہ ہوگئی اور پاگل ہوکر رہ گئی۔ ” ابولہب (شعلوں کا باپ) ایک ایسی آگ میں تپایا جائے گا جو شعلہ زن ہوگی اس کی عورت جو حضور کی راہ میں خاردار جھاڑیاں لاکر ڈالتی تھی وہ جہنم میں اس حال میں گرائی جائے گی کہ اس کے گلے میں مونجھ کی رسی بندھی ہوگی “۔ ” الفاظ بھی باہم متناسب اور صوتی ہم آہنگی رکھنے والے ، تصاویر بھی باہم ، یک رنگ ، بس جہنم میں اس کو گرایا جائے گا وہ شعلہ بار ہے۔ اس میں شعلوں کے باب (ابولہب) کو گرایا جائے گا۔ اس کی عورت لکڑیاں لاتی ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں ڈالتی ہے اور آپ کو ایذائیں دیتی ہے ، خواہ حقیقی معنی لیا جائے یا استعارہ۔ لکڑیوں سے آگ کو بھی بھڑکایا جاتا ہے اور ان لکڑیوں کو رسیوں میں باندھ کر لایا جاتا ہے۔ اس لئے جہنم شعلہ زن میں اسے مونجھ کی رسی سے باندھا دیا جائے گا۔ اور اسے اس رسی سے باندھ دیا جائے گا جس سے وہ لکڑیاں لاتی تھی۔ تاکہ سزا ایسی ہو جیسا اس کا جرم تھا۔ اور یہ تصویر اپنے سادہ رنگوں کے ساتھ سامنے آئے اور اس کے رنگ میں لکڑیاں ، رسی ، آگ اور شعلے ہوں۔ اور اس آگ میں میاں بیوی دونوں تپ رہے ہیں “۔ ایک دوسرے زاویہ سے بھی اس سورت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کی صوتی جھنکار ، لکڑیوں کے گھٹے کے باندھنے کی آواز اور گردن کو رسی سے باندھنے کی آواز بھی باہم یکساں ہیں۔ ذرا پڑھئے۔ تبت یدا .................... وتب (1:111) ” ان الفاظ میں شد کی صوتی درشتگی ایسی ہی ہے جس طرح لکڑیوں کے گھٹے کو باندھنے میں سختی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ الفاظ شدید ہیں اسی طرح گردن میں رسی باندھنے کا عمل اور اسے کھینچنا شدید ہے۔ اور پوری سورت میں اسی طرح کی گٹھن کی فضا ہے “۔ اس طرح صوتی ترنم ، عملی کشاکش کی آواز ، اور سورت کی حرکات کی جزئیات کے درمیان گہری مناسبت اور ہم آہنگی ہے۔ پھر الفاظ بھی ہم جنس ، اور تعبیر میں یکسانی کا لحاظ ، سب کے سب سورت کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پھر یہ تمام چیزیں سبب نزول اور سورت کے پس منظر کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب فنی خوبیاں صرف پانچ مختصر فقروں میں ملحوظ خاطر رکھی گئی ہیں اور قرآن کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک میں اس فنی کمال کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ان فنی خوبیوں کی وجہ سے اور بےپناہ اثر کی وجہ سے ام جمیل کا تاثر یہ تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہیں اس کی ہجو کی ہے۔ یہ سورت فوراً مکہ میں پھیل گئی تھی ، جس میں میاں بیوی کی مذمت کی گئی تھی ، ان کو دھمکی دی گئی تھی اور نہایت بھدی تصویر کھینچی گئی تھی۔ یہ ایسی تصویر کشی تھی جس نے ایک خود پسند عورت کے دل کو چور چور کردیا۔ جسے اپنے نسب وحسب پر بہت ہی غرور تھا۔ جو اپنے آپ کو بہت ہی اونچے گھرانے کی عورت سمجھتی تھی۔ لیکن قرآن نے اس کی تصویر کشی یوں کی : حمالة ........................ من مسد (5:111) ” عورت ، جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے اور جس کے گلے میں چھال کی رسی بندھی ہوئی ہے “۔ یہ نہایت ہی عام صورت حالات ہے جو عربوں میں عام تھی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ تک یہ تذکرہ پہنچا ہے کہ ام جمیل حمالة الحطب نے جب اس سورت کے نزول کے بارے میں سنا کہ یہ اس کے بارے میں اور اس کے خاوند کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ گئی اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی مٹھی پتھروں سے بھری ہوئی تھی ، جب یہ ان دونوں کے پاس آکر کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی آنکھوں پر اس طرح پر دہڈال دیا کہ وہ صرف ابوبکر کو دیکھ سکتی تھی۔ تو اس نے کہا : ” ابوبکر کہاں ہے تمہارا ساتھی ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے میری ہجو کی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ملتا تو میں ان پتھروں سے اسے مارتی۔ خدا کی قسم میں بھی تو شاعرہ ہوں اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھا۔ مذمما عصینا وامرہ ابینا وہ محمد نہیں بلکہ مذمت کیے ہوئے ہیں ، ہم نے ان کی نافرمانی کی ہے اور ان کے احکام ماننے سے انکار کردیا یا ان کے دین کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہ واپس چلی گئی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ سے کہا : کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا : ” اس نے مجھے نہیں دیکھا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر کو مجھ سے کھینچ لیا تھا “۔ حافظ ابوبکر بزار نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ، جب سورة تبت یدا .................... وتب (1:111) نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی حرم میں آئی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا حضور اگر آپ ایک طرف ہوجائیں تو یہ آپ کو اذیت نہ دے سکے گی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا “ ۔ یہ آئی اور حضرت ابوبکر (رض) کے پاس کھڑے ہوگئی اور کہا : ” ابوبکر تمہارے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے “۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ” اس گھر کی قسم انہوں نے ایسا نہیں کیا ، وہ نہ شعر کہتے ہیں اور نہ ہی پڑھتے ہیں “۔ تو اس نے کہا آپ تو سچے ہیں۔ جب واپس گئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ” حضور کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا ؟ تو آپ نے فرمایا ’ جب تک وہ کھڑی رہی فرشتے مجھ پر ستر پھیلاتے رہے جب تک وہ چلی نہیں گئی “۔ غرض اس کا پارہ اس قدر چڑھ گیا تھا کیونکہ یہ سورت پھیلی گئی تھی ، اس نے اسے ہجو سمجھا۔ اس زمانے میں ہجو صرف اشعار میں ہوتی تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکر (رض) نے جائز طور پر ہجو کی تردید کردی۔ اور وہ بہت سچے مانے جاتے تھے لیکن ان آیات میں اس کی جو حقارت آمیز تصویر کشی کی گئی ہے وہ اس دائمی کتاب میں ریکارڈ کردی گئی ہے۔ اللہ کی کتاب بھی لازوال ہے اور ان دونوں کی مذمت بھی لازوال ہوگئی ۔ ایور یہ ایسی تصویر ہے جو ایک بولتی تصویر ہے۔ یہ ہے سزا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف سازش کرنے کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی دعوت اسلامی اور داعیان حق کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرتے ہیں ان کی قسمت میں دنیا میں بھی ناکامی لکھی ہوئی ہے۔ وہ یہاں بھی ہلاک اور برباد ہوں گے۔ اور آخرت میں بھی وہ ایک سخت سزا پائیں گے۔ یہ ان کی مناسب سز ہوگی۔ دنیا میں لکڑ ہاروں کی رسی جسے ذلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ، آخرت میں بھی یہ رسی اس کے گلے میں ہوگی اور یہ ذلت کی کافی نشانی ہوگی۔ Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد کے دس بھائی تھے جو عبدالمطلب کے بیٹے تھے، ان میں ایک شخص ابو لہب بھی تھا اس کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اظہار فرمایا تو قریش مکہ میں سے جن لوگوں نے بہت زیادہ آپ کی دشمنی پر کمر باندھی ان میں ابو لہب بھی... تھا۔ یہ بہت زیادہ مخالفت کرتا تھا اور اس کی بیوی بھی آپ کی مخالفت میں بہت آگے بڑھی ہوئی تھی، جب سورة الشعراء کی آیت کریمہ ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَۙ٠٠٢١٤﴾ نازل ہوئی تو نبی (کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور قریش کے قبیلوں کو نام لے لے کر پکارتے رہے اے بنی عدی ادھر آؤ اور اے بنی فہر ادھر آؤ، آپ کے بلانے پر قریش جمع ہوگئے اور انہوں نے اتنا اہتمام کیا کہ جو شخص خود نہیں آسکتا تھا اس نے اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو بھیج دیا جو وہاں حاضر ہو کر بات سن لے، حاضر ہونے والوں میں ابو لہب بھی تھا آپ نے فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ یہاں قریب ہی وادی میں گھوڑ سوار دشمن ٹھہرے ہوئے ہیں جو تم پر غارت گری والے حملہ کا ارادہ کر رہے ہیں کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟ سب نے کہا کہ ہاں ہم تصدیق کریں گے ہم نے آپ کے بارے میں یہی تجربہ کیا ہے کہ آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں۔ آپ نے نام لے لے کر سب کو موت کے بعد کے لیے فکر مند ہونے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اپنی جانوں کو خرید لو یعنی ایسے اعمال اختیار کرو جن کی وجہ سے دوزخ کے عذاب سے بچ جاؤ، میں تمہیں اللہ کے عذاب سے چھڑانے کے بارے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا، اے بنی عبد مناف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا۔ اے عباس عبدالمطلب کے بیٹے میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا اور آپ نے تمام حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے یوں بھی فرمایا ان ھو الا نذیر لکم بین یدی عذاب شدید (میں تمہیں پہلے سے عذاب شدید سے ڈرا رہا ہوں اگر تم نے میری بات نہ مانی تو سخت عذاب میں مبتلا ہو گے) ۔ یہ سن کر ابو لہب بول پڑا اور اس نے کہا : تبالک ساعر الیوم الھذا جمعتنا (ہمیشہ کے لیے تیرے لیے ہلاکت کیا تو نے اس بات کے لیے ہمیں جمع کیا ہے) اس پر ﴿ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ٠٠١ مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ٠٠٢﴾ نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٧٠٢: ج ٢) صحیح مسلم میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے ہے اس میں یہ لفظ ہے کہ فعم وخص کہ آپ نے عمومی خطاب بھی فرمایا اور الگ الگ نام لے کر بھی بات کی، بنی کعب بن لوی اور بنی مرہ بن کعب بن عبد شمس اور بنی عبد مناف اور بنی ہاشم سے فرمایا کہ اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لو، میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، اس پر ابو لہب بول پڑا اس نے وہی بات کہی جو اوپر مذکور ہے اور تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ٠٠١ نازل ہوئی۔ (مسلم صفحہ ١٤: ج ١) جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ ابو لہب کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اس لیے ابو لہب کے لقب سے معروف تھا (لہب آگ کی لپٹ کو کہتے ہیں) خوبصورتی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہی اس کا یہ لقب مشہور تھا جب اس نے آپ کے خطاب کے جواب میں گستاخی والے الفاظ زبان سے نکالے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دنیا و آخرت والی رسوائی اور تکلیف اور عذاب کی خبر دی تو لہب یعنی آگ کی لپٹ کی مناسبت سے ( جس میں اس کے جلنے کی پیشگی خبر دی ہے) لفظ ابو لہب استعمال فرمایا جو آگ میں جلنے پر دلالت کرتا ہے پر انا لفظ جو اس کے لیے خوشی کا لقب تھا اب اس کی مذمت اور قباحت اور دنیا و آخرت کی رسوائی اور عذاب شدید میں مبتلا ہونے کی خبر پر دلالت کرنے والا بن گیا۔ تَبَّ ۔ ماضی مذکر غائب کا صیغہ ہے اس کا فاعل ضمیر ہے جو ابو لہب کی طرف راجع ہے اور تبت واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور ﴿ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ ﴾ اس کا فاعل ہے (اضافت کی وجہ سے نون تثنیہ گرگیا ) یہ لفظ تباب سے ماخوذ ہے تباب ہلاکت کو کہا جاتا ہے کما فی سورة المومن ﴿وَ مَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ (رح) ٠٠٣٧﴾ یہ جو فرمایا کہ ابو لہب کے ہاتھ ہلاک ہوں اور وہ خود بھی ہلاک ہو اس میں ہاتھوں کا ذکر کیوں لایا گیا ؟ اس کے بارے میں علامہ قسطلانی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اپنے ہاتھوں سے پتھر پھینکا تھا جس سے آپ کی پاؤں مبارک کی ایڑی خون آلودہ ہوگئی تھی لہٰذا اس کے ہاتھوں کی ہلاکت کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا۔ ترجمہ میں جو یہ لکھا گیا ہے کہ ابو لہب کے ہاتھ ٹوتیں، یہ اردو کے محاورے میں ہے اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی پوری طرح ہلاک اور برباد ہو۔ ابو لہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو پیشگی خبر دی کہ وہ ہلاک ہوا اور یہ کہ جلنے والی آگ میں داخل ہوگا اس میں پہلی بات کا مظاہرہ دنیا ہی میں ہوگیا اور وہ اس طرح سے کہ اس کے جسم میں بہت خطرناک قسم کی چیچک نکل آئی جس کی وجہ سے لوگ اس سے گھن کرنے لگے اور اپنے عقیدہ کی وجہ سے اس کے پاس جانے سے ڈرنے لگے کہ کہیں یہ مرض ہمیں نہ لگ جائے لہٰذا اپنے اور پرائے اس سے دور ہوگئے، ایک گھر میں علیحدہ ڈال دیا گیا اور وہ بےبسی اور بےکسی کی حالت میں مرگیا تین روز تک اس کی نعش یوں ہی پری رہی جب سڑنے لگی تو لوگوں نے اس کے بیٹوں کو عار دلائی کہ دیکھو تمہارا باپ کس حال میں پڑا ہے اس پر انہوں نے ایک شخص کی مدد سے ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور اس کے بعد اس کو برابر پتھر مارتے رہے یہاں تک کہ وہ ان میں دب گیا۔ (البدایہ صفحہ ٣٠٩: ج ٣) اور الروض الانف میں ہے کہ اس کو ایک لکری کے گڑھے میں ڈال دیا پھر اس پر پتھر برسا دیئے گئے۔ مکہ معظمہ میں ایک پہاڑ ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ ا بو لہب کو اسی پر ڈال دیا گیا تھا اور یہ پہاڑ جبل ابو لہب کے نام سے معروف ہے۔ Show more
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
2:۔ ” تبت “۔ ابولہب اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علی ہو سلم کو قول و فعل سے سخت ترین ایذاء دیتے تھے۔ ابو لہن نے ایک موقع پر آپ ” تبا لک ‘ (تو بربادہو) (عیاذا باللہ) سے خطاب کیا تھا۔ اس کی بیوی لوگوں کے سامنے آپ کے خلاف بد گوئی کرتی اور رات کو آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی۔ اس سورت میں دون... وں کو تخویف سنا دی اور ہلاکت کا ایک نمونہ ذکر فرما دیا۔ ” یدان “ نفس سے کنایہ ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ بماقدمت یداک (الحج، رکوع 1) ۔ یہ ابو لہب کیلئے تباہی و بربادی کی بد دعا ہے اور ” و تب “ اس کی تباہی کی خبر ہے۔ قال الفراء التب الاول دعاء والثانی خبر کما یقال اھل کہ اللہ وقد ھلک (قرطبی) ۔ Show more
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
(1) ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک و برباد ہوجائے۔ بعض مفسرین نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوگیا۔ یعنی پہلے جملے میں دعا اور دوسرے میں واقع کی خبر ہے کہ یقین جانو ایسا ہوگیا۔ دونوں ہاتھوں کے ٹوٹنے کا ذکر اس لئے فرمایا کہ دونوں ہاتھوں سے بڑا پتھر اٹھا ... کر حضور کو مارنے چلا تھا۔ تبالک سائرالیوم اسی کا جملہ جو بددعا میں کہا گیا ہے یا اس نے ایک دفعہ کہا تھا محمد جو کچھ کہتا ہے وہ مرنے کے بعد کی بات ہے اس وقت تو میرے دونوں ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کہا تھا تبالکما اری فیکما شیئا یا اس کی ذات مراد ہے جیسا کہ۔ ذلک بما قدمت یداک میں ذات ہی مراد ہے۔ بہرحال دونوں ہاتھوں کی ہلاکت سے اس کی ذات ہی کو بددعا دی گئی ہے۔ Show more
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔