Surat ul Tabbatt

Surah: 111

Verse: 1

سورة التبت

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾

May the hands of Abu Lahab be ruined, and ruined is he.

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason for the Revelation of this Surah and the Arrogance of Abu Lahab toward the Messenger of Allah Al-Bukhari recorded from Ibn Abbas that; The Prophet went out to the valley of Al-Batha and he ascended the mountain. Then he cried out, يَا صَبَاحَاه O people, come at once! So the Quraysh gathered around him. Then he said, أَرَأَيْتُمْ إِنْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ...  مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّيكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِّي ؟ If I told you all that the enemy was going to attack you in the morning, or in the evening, would you all believe me? They replied, "Yes." Then he said, فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيد Verily, I am a warner (sent) to you all before the coming of a severe torment. Then Abu Lahab said, "Have you gathered us for this! May you perish!" Thus, Allah revealed, تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ Perish the two hands of Abu Lahab and perish he! to the end of the Surah. In another narration it states that he stood up dusting of his hands and said, "Perish you for the rest of this day! Have you gathered us for this" Then Allah revealed, تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ The first part is a supplication against him and the second is information about him. This man Abu Lahab was one of the uncles of the Messenger of Allah. His name was Abdul-Uzza bin Abdul-Muttalib. His surname was Abu Utaybah and he was only called Abu Lahab because of the brightness of his face. He used to often cause harm to the Messenger of Allah. He hated and scorned him and his religion. Imam Ahmad recorded from Abu Az-Zinad that; a man called Rabi`ah bin Abbad from the tribe of Bani Ad-Dil, who was a man of pre-Islamic ignorance who accepted Islam, said to him, "I saw the Prophet in the time of pre-Islamic ignorance in the market of Dhul-Majaz and he was saying, يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لاَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ تُفْلِحُوا O people! Say there is no god worthy of worship except Allah and you will be successful. The people were gathered around him and behind him there was a man with a bright face, squint (or cross) eyes and two braids in his hair. He was saying, "Verily, he is an apostate (from our religion) and a liar!" This man was following him (the Prophet) around wherever he went. So, I asked who was he and they (the people) said, "This is his uncle, Abu Lahab." Ahmad also recorded this narration from Surayj, who reported it from Ibn Abu Az-Zinad, who reported it from his father (Abu Zinad) who mentioned this same narration. However in this report, Abu Zinad said, "I said to Rabi`ah, `Were you a child at that time!' He replied, `No. By Allah, that day I was most intelligent, and I was the strongest blower of the flute (for music)."' Ahmad was alone in recording this Hadith. Concerning Allah's statement, مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَب   Show more

تفسیر سورۃ تبت بدترین اور بدنصیب میاں بیوی:٭٭ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے یاصباحاہ یاصباحاہ کہنے لگے قریش سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا ... سمھو گے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری ( بخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ تبت بددعا ہے اور تب خبر ہے ، یہ ابو لہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابو عتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذاء دہی تکلیف رسائی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ، ربیعہ بن عباد ویلی اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پاؤ گے لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا لوگو یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابو لہب ہے ( لعنہ اللہ ) ( مسند احمد ) ابو الزنادنے راوی حدیث حضرت ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے فرمایا نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا ، دوسری روایت میں ہے میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر الہت عالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابو لہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا اے فلاں قبیلے کے لوگو! یہ شخص تو تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہوں اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں بھی گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا ( احمد و طبرانی ) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابو لہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ اب مسعود فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابو لہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس کے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیت مااغنی الخ ، اتری ، پھر فرمایا کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے الی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابو سفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اسی لئے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لڑکیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی اور جہنم کا ایندھن سمیٹتی رہے گی ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ حمالتہ الحطب سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر اسی کو پسند کرتے ہیں ، ابن عباس وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ، واللہ اعلم ۔ سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ مسد کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لئے یوں کہتی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ، اس کے دین کے دشمن ہیں اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعتہ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے صدیق اکبر نے اسے اس حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی ، پھر آپنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مسوراً یعنی جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں ۔ یہ ڈائن آ کر حضرت ابو بکر کے پاس کھڑی ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت صدیق اکبر کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں رب البیت کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں ( ابن ابی حاتم ) ایک مرتبہ یہ اپنی لمبی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سارے ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو حضرت صدیق نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانت ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد حضرت صدیق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی ، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں پہنچایا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب مسد کہدیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ، ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے نہ باطن میں نہ چھپے نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہوجائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ... ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی، چناچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خبر اسے...  اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پاچکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی تعمیل میں بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ٤٥ آدمی جمع ہوئے۔ ابولہب کی مخالفت :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو ! یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ابوطالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کرکے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابوطالب نے کھل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبدالمطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا ::&& خدا کی قسم ! یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو && اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا :&& اللہ کی قسم ! جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے && اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین ہوگیا کہ معززین بنوہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھے ہوگئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : && ہاں &&! اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ ابولہب کی برہمی :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی اتنا ہی کہہ : پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اگرچہ ابو لہب کی اس بدتمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بدخلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بدبخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنوہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ 56؀) 28 ۔ القصص :56) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض وعناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بدخلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہذا اس کی اس بدتمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔ واضح رہے کہ (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ ) سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بددعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) تبت یدا ابی لھب و تب : ابولہب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا تھا، نام عبدالعزیٰ بن عبد المطلب تھا۔” لھب “ شعلے کو کہتے ہیں،” ابی لھب “ شعلے کا باپ یا شعلے والا۔ رخس اورں کی خوبصورتی اور سرخی کی وجہ سے یا طبیعت کی تیزی اور جشو کی وجہ سے ابولہب کے نام سے مشہور ہوا، پھر جہنمی ہونے کی وج... ہ سے فی الواقع شعلے والا ہی بن گیا۔ اس شخص کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عداوت تھی۔ باوجود اس کے کہ چچا باپ کی طرح ہوتا ہے، یہ ہر موقع پر آپ کی مخالفت کرتا اور ایذا پہنچانے کی کوشش کرتا۔ آپ کے دشمنوں میں سے یہ واحد شخص ہے جس کے نام سے قرآن میں اس کے برے انجام کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں نسب اور خاندان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور کفر کی بنیاد پر اپنے اور غیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت مخالفت اور آپ کو ہلاکت کی بد دعا دینے کی وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے ” تبت یدا ابی لھب و تب “ فرمایا۔ اس کے دو معانی ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی تو ظاہر ہے۔ دوسرا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں اور وہ (فی الواقع ) ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی فزاء نے کیا ہے، یعنی اس کی بد دعا کے مقابلے میں اہل ایمان کی بد دعا کی جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ فرما دیے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں پھر بتایا کہ وہ ہلاک ہوچکا۔ (٣) ” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے “ یہاں ہاتھوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ ایذا رسانی میں ہاتھوں کا حصہ دوسرے تمام اعضا سے زیادہ موثر ہوتا ہے اور ان کے ساتھ زیادہ تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے مراد اولاد اورس ا تھی ہیں، جو مددگار ہوتے ہیں اور دست و بازو بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ایسا ہی ہوا، اس کے مددگار جنگ بدر میں برباد ہوگئے، وہ خود جنگ میں نہیں گیا، شکست کی خبر آئی تو اسی صدمے سے مرگیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Name and Nickname of Abu Lahab Abu Lahab [ Father of Flame ] was the Nickname of ` Abd-ul-` Uzza, one of the sons of ` Abdul-Muttalib. As he was ruddy in complexion, he was nicknamed Abu Lahab [ Father of Flame ]. The Qur&an did not mention his real name, because it smacked of paganism, and the last element &lahab& [ Flame ] in the nickname has also nexus with the flame of Hell. This p... erson was the inveterate enemy and persecutor of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and violently opposed Islam. Whenever the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) invited the people to Islamic Faith, he would stand up and cry lie to his message. [ Ibn Kathir ] Cause of Revelation It is recorded in the two Sahihs that when the verse وَأَنذِرْ‌ عَشِيرَ‌تَكَ الْأَقْرَ‌بِينَ (Warn your closest relatives - 26:214) was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ascended the mount Safa and cried out to the tribe of Quraish in a manner that was known among them for warning of an attack by the enemy. Some narratives maintain that he called the different Makkah clans by name, the clan of Banu ` Abd Munaf, Banu ` Abdul-Muttalib and others. All the clans of Quraish gathered around him, and he said to them: &If I were to tell you that the enemy is about to attack you in the morning or in the evening, would you believe me?& They all unanimously replied in the affirmative. Then he said: &Verily, I am a warner sent to you before the coming of a severe torment (as a result of disbelief or paganism). Abu Lahab then responded: تَبَاً لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعتَنَا &Ruin may seize you! Is it for this purpose that you have called us together?& and picked up a stone to hit him. Thus this Surah was revealed. Verse [ 111:1] تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (Perish the two hands of Abu Lahab, and perish he! ) The word yad literally means a &hand&. Because hands play a very important role in all of human works and actions, often yad (hand) refers to the human person, as in the phrase ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ (...All this is due to what your hands have sent forth...22:10). Baihaqi has recorded on the authority of Sayyidna Ibn &Abbas (رض) that one day Abu Lahab said to the people that Muhammad says that such-and-such a thing will happen after death. Then, pointing to his hands, said that none of those things have come into these hands; then he addressed his hands and said: تَبّاً لکما ما اریٰ فیکما شیٔاً ممّا قال محمد (Perish you! I do not see any of the things Muhammad said in you.) Therefore, the Qur&an attributes his destruction to his hands. The verb tabba is derived from tabab which means &to perish&. In verse [ 11, the first sentence تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ (Perish the two hands of Abu Lahab) is in the form of a prayer invoking or imprecating destruction upon Abu Lahab, and the second sentence wa tabba is the declarative sentence prophesying the consequence of the invocation. The first sentence was invoked against him to satisfy the indignation of the Muslims, because when Abu Lahab imprecated destruction upon the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it was the desire of the Muslims that imprecation be invoked against him. Allah thus fulfilled their desire, and also informed them that the invocation has taken effect and he perished. Seven days after the battle of Badr, he developed a terrible case of plague because of which people avoided him. They regarded the disease as infectious and were afraid that it might be transmitted by contact, so they forced him to live in an isolated house, and they did not come into contact with him at all. He at last died in this state. His dead body lay untouched in his house for three days. When his body began to rot giving out unbearable stench, people taunted his sons, and they hired laborers to take it away and bury it. They dug a pit in the ground, pushed his body into it with a stick and covered it with stones. [ Bayan-ul-Qur’ an from Ruh ]. Verse [ 111:2] مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (Neither his wealth availed him, nor what he earned.) The phrase ma kasab [ what he earned ] could refer to the profits that accrued to him from investment of his wealth in business, and it could also imply &children&, for the children of a person are also referred to (in Arabic) as his earning. Sayyidah ` A&ishah (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ان اطیب ما اکل الرّجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ |"The best and the purest thing a man eats is from his earnings and his children are part of his earnings|". This means that eating from the earnings of one&s children is tantamount to eating from one&s own earnings. [ Qurtubi ] Therefore, Sayyidah ` A&ishah, Mujahid, &Ata’, Ibn Sirin and others interpret ma kasab [ what he earned ] as referring to &children&. Allah had granted Abu Lahab abundant wealth and many children, and these two factors led him to be ungrateful, and caused him to be proud and arrogant. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called his people to faith and warned them about the Divine punishment, Abu Lahab said: |"Even if what my nephew says is true, I will save myself from the painful torment on the Day of Judgment with my wealth and my children.|" Thus Allah revealed verse [ 2] مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ that is, when the Divine torment seized him in this world, neither his wealth nor his children benefited him!   Show more

خلاصہ تفسیر ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔ نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (مال سے مراد اصل سرمایہ اور کمائی سی مراد اس کا نفع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی سامان اس کو ہلاکت سے نہ بچاوے گا، یہ حالت تو اس کی دنیا میں ہوئی اور آخرت میں) وہ عنقریب (یعنی مرتے ہی) ایک شعلہ زن آگ ... میں داخل ہوگا، وہ بھی اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے (مراد خار دار لکڑیاں ہیں جن کو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں بچھا دیتی تھی تاکہ آپکو تکلیف پہنچے اور دوزخ میں پہنچ کر) اس کے گلے میں ( دوزخ کی زنجیر اور طوق ہوگا کہ گویا وہ) ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی (تشبیہ شدت اور استحکام میں ہے) معارف ومسائل ابولہب کا اصلی نام عبدالعزٰی تھا، یہ عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہے۔ سرخ رنگ ہونے کی وجہ سے اس کی کنیت ابولہب مشہور تھی۔ قرآن کریم نے اس کا اصلی نام اس لئے چھوڑا کہ وہ نام بھی مشرکانہ تھا اور ابولہب کنیت میں، لہب جہنم سے ایک مناسبت بھی تھی۔ یہ شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےحد دشمن اور اسلام کا شدید مخالف، آپ کو سخت ایذائیں دینے والا تھا، جب آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے یہ ساتھ لگ جاتا اور آپ کی تکذیب کرتا جاتا تھا (ابن کثیر) شان نزول :۔ صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی، بعض روایات میں ہے کہ یا صباحاہ کہہ کر یا بنی عبد مناف اور یا بنی عبدالمطلب وغیرہ ناموں کے ساتھ آواز دی (اس طرح آواز دینا عرب میں خطرہ کی علامت سجھا جاتا تھا) سب قریش جمع ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن (تم پر چڑھ آیا ہے اور) صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے کیا آپ لوگ میری تصدیق کروگے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے، پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید سے (جو شرک و کفر پر اللہ کی طرف سے مقرر ہے) یہ سن کر ابولہب نے کہا تبا لک الھذا جمعتنا ہلاکت ہو تیرے لئے کیا تو نے ہمیں اس کے لئے جمع کیا تھا اور آپ کو مارنے کیلئے ایک پتھر اٹھالیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ تبت یدا ابی لھب وتب، ید کے صلی معنی ہاتھ کے ہیں، چونکہ انسان کے سب کاموں میں بڑا دخل ہاتھوں کو ہے اس لئے کسی شخص کی ذات اور نفس کو ید سے تعبیر کردیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے بما قدمت یداک، اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ابولہب نے ایک روز لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد فلاں فلاں کام ہوں گے پھر اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ان ہاتھوں میں ان چیزوں میں سے کچھ بھی آیا نہیں پھر اپنے ہاتھوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا تبا لکما ما اری فیکما شیئا مما قال محمد، یعنی تم برباد ہوجاؤ میں تمہارے اندر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں دیکھتا جن کے ہونے کی خبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیتے ہیں اس کی مناسبت سے قرآن کریم نے ہلاکت کو ہاتھوں کی طرف منسوب کیا۔ تب، تباب سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ہلاک و برباد ہو، اس آیت میں پہلا جملہ تبت یدا ابی لھب بطور بددعا کے ہے یعنی ابولہب ہلاک ہوجائے اور دوسرا جملہ یعنی وتب جملہ خبریہ ہے گویا بددعا کے ساتھ اس کا اظر بھی بتلادیا کہ وہ ہلاک ہوگیا اور جملہ بددعا کا مسلمانوں کے شفاء غیظ کے لئے ارشاد فرمایا گیا کیونکہ جس وقت ابولہب نے آپ کی شان میں تباً کہا تو مسلمانوں کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لیے بددعا کریں، حق تعالیٰ نے گویا ان کے دل کی بات خود فرمادی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ یہ بددعا اس کو لگ بھی گئی اور وہ ہلاک ہوگیا۔ قرآن نے اس کی ہلاکت و بربادی کی خبر جو پہلے ہی دے دی تھی اس کا اثریہ ہو کہ واقعہ بدر کے ساتھ روز بعد اسکے طوفان کی گلٹی نکلی جس کو عرب عدسہ کہتے ہیں۔ مرض دوسروں کو لگ جانے کے خوف سے سب گھروالوں نے اس کو الگ ڈال دیا یہاں تک کہ اسی بےبسی کی حالت میں مر گیا اوت تین روز تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر دبوادیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھود کر ایک لکڑی سے اس کی لاش کو گڑھے میں ڈال دیا اوپر سے پتھر بھر دیئے (بیان القران بحوالہ روح) ما اغنی عنہ مالہ وما کسب، ماکسب کے معنے ہیں جو کچھ اس نے کمایا، اس سے مراد وہ منافع تجارت وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں جو مال کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں کہا گیا ہے اور اولاد بھی مراد ہوسکتی ہے کیونکہ اولاد کو بھی انسان کی کمائی کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اطیب ما اکل الرجل من کسیہ وان ولدہ، من کسیہ یعنی جو کھانا آدمی کھاتا ہے اس میں سب سے زیادہ حلال طیب وہ چیز ہے جو آدمی اپنی کمائی سے حاصل کرے اور آدمی کی اولاد بھی اسکے کسب میں داخل ہے یعنی اولاد کی کمائی کھانا بھی اپنی ہی کمائی سے کھانا ہے (قرطبی) اسی لئے حضرت عائشہ، مجاہد، عطائ، ابن سیرین وغیرہ نے اس جگہ ماکسب کی تفسیر اولاد سے کی ہے ابولہب کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی بہت دیا تھا اولاد بھی، یہی دونوں چیزیں ناشکری کی وجہ سے اسکے فخر و غرور اور وطال کا سبب بنیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ابولہب نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کچھ یہ میرا بھتیجہ کہتا ہے اگر وہ حق ہی ہوا تو میرے پاس مال واولاد بہت ہے میں اس کو دے کر اپنی جان بچا لوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ما اغنی عنہ مالہ وماکسب یعنی جب اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد، یہ تو حال اس کا دنیا میں ہوا، آگے آخرت کا ذکر ہے۔  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۝ ١ ۭ تبَ التَبُّ والتَّبَابُ : الاستمرار في الخسران، يقال : تَبّاً له وتَبٌّ له، وتَبَبْتُهُ : إذا قلت له ذلك، ولتضمن الاستمرار قيل : اسْتَتَبَّ لفلان کذا، أي : استمرّ ، وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ، أي : استمرت في خسرانه، نحو : ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ ... الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ، أي : تخسیر، وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] . ( ت ب ب ) التب والتبات ( ض ) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں کہا جاتا ہے تبالہ ( اللہ اسے خائب و خاسر کرے ( وتبیتہ کسی سے تبالک کہنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے یہی مفہوم ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] میں پایا جاتا ہے ۔ وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ان نقصان میں ڈالتے ( یعنی تباہ کرنے ) کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے ۔ وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] اور فرعون کی تدبیر تو بیکار تھی ۔ لهب اللَّهَبُ : اضطرام النار . قال تعالی: لا ظَلِيلٍ وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات/ 31] ، سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد/ 3] . واللَّهِيبُ : ما يبدو من اشتعال النار، ويقال للدّخان وللغبار : لَهَبٌ ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] فقد قال بعض المفسّرين : إنه لم يقصد بذلک مقصد کنيته التي اشتهر بها، وإنما قصد إلى إثبات النار له، وأنه من أهلها، وسمّاه بذلک کما يسمّى المثیر للحرب والمباشر لها : أبا الحرب، وأخا الحرب . وفرس مُلْهِبٌ: شدید العدو تشبيها بالنّار المُلْتَهَبَةِ ، والْأُلْهُوبُ من ذلك، وهو العدو الشّديد، ويستعمل اللُّهَابُ في الحرّ الذي ينال العطشانَ. ( ل ھ ب ) اللھب ۔ آگ کا شعلہ ۔ قرآن میں ہے : وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات/ 31] اور نہ لپٹ سے بچائیگا ۔ سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد/ 3] وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ اللھیب ۔ شعلہ ۔ اور لھب کا لفظ دھوئیں اور غبار پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو ۔ میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ابولہب کے لفظ سے اس کی کنیت ۔۔۔ مراد نہیں ہے ۔ جس کے ساتھ وہ مشہور تھا ۔ بلکہ اس سے اس کے دوزخی ہونے کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے لہذا یہاں اس نام سے اسے موسوم کرنا ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ لڑائی بھڑکانے والے اور ہمیشہ لڑنے والے کو ابوالحرب یا اخرالحرب کہا جاتا ہے ۔ فرس ملھب برق رفتار گھوڑا گویا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔ اسی سے الھرب ہے جس کے معنی سخت دوڑ کے ہیں ۔ اللھاب ۔ پیاس کی شدت ، اندورنی سوزش جو پیاسی کی وجہ سے محسوس ہ وتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ اپنے قریبی کنبہ کو ڈرائیے آپ نے ان کو بلانے کے بعد کلمہ لا الہ الا اللہ کی دعوت دی اس پر ابولہب نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا اسی لیے آپ نے ہمیں جمع کیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ا... بولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ذلیل و خوار ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 His real name was 'Abd al-'Uzza, and he was called Abu Lahab on account of his glowing, ruddy complexion. Lahab means the flame of fire, and Abu Lahab the one with a flaming, fiery face. His being mentioned here by his nickname (Kunyat) , instead of his real name, has several reasons. First, that he was better known by his nickname than by his real name; second, that the Qur'an did not approve t... hat he should be mentioned by his polytheistic name `Abd al 'Uzza (slave of 'Uzza) ; third, that his kunyat goes well with the fate that has been described of him in this Surah. Some commentators have translated tabbat yada Abi Lahab to mean: "May the hands of Abu Lahab be broken", and tabby to mean: °may he perish" or "he perished". But this, in fact, was not a curse which was invoked on him, but a prophecy in which an event taking place in the future, has been described in the past tense, to suggest that its occurrence in the future is certain and inevitable. In actual fact, at last the same thing happened as had been foretold in this Surah a few years earlier. Breaking of the hands obviously does not imply breaking of the physical hands, but a person's utterly failing in his aim and object for which he has exerted his utmost. And Abu Lahab indeed had exerted his utmost to defeat and frustrate the message of lslam presented by the Holy Prophet (upon whom be peace) . But hardly seven or eight years after the revelation of this Surah most of the big chiefs of Quraish, who were a party with Abu Lahab in his hostility to Islam, were killed in the Battle of Badr. When the news of the defeat reached Makkah, he was so shocked that he could not survive for more than seven days. His death occurred in a pitiabie state. He became afflicted with malignant pustule and the people of his house left him to himself, fearing contagion. No one came near his body for three days after his death, until the body decomposed and began to stink. At last, when the people began to taunt his sons, according to one tradition, they hired some negroes, who lifted his body and buried it. According to another tradition, they got a pit dug out and threw his body into it by pushing it with wood, and covered it up with earth and stones. His utter failure became manifest when the religion which he had tried his utmost to impede and thwart, was accepted by his own children. First of all, his daughter, Darrah, migrated from Makkah to Madinah and embraced lslam; then on the conquest of Makkah, both his sons, `Utabh and Mu`attab, came before the Holy Prophet (upon whom be peace) through the mediation of Hadrat `Abbas, believed and took oath of allegiance to him.  Show more

سورة اللھب حاشیہ نمبر : 1 اس شخص کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ، اور اسے ابو لہب اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا ۔ لہب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں اور ابو لہب کے معنی ہیں شعلہ ۔ یہاں اس کا ذکر اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپن... ے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت ہی سے معروف تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبدالعزیٰ ( بندہ عزی ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا کہ اسے اس نام سے یاد کیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اس کا جو انجام اس سورہ میں بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ اس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ کے معنی بعض مفسرین نے ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ بیان کیے ہیں اور وَّتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے یا وہ ہلاک ہوگیا ۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اس کو دیا گیا ہو ، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے ، گویا اس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے وہ ہوچکی ۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اس سورہ میں چند سال پہلے بیان کیا جاچکا تھا ۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے ، بلکہ کسی شخص کا اپنے اس مقصد میں قطعی ناکام ہوجانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو ۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا دیا تھا ۔ لیکن اس سورہ کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے ۔ مکہ میں جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا ۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی ۔ اسے عدسہ ( Malignant Pustule ) کی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا ، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا ۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی ۔ آخر کار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا ۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا ۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا ۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں ، پھر فتح مکہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباس کی وساطت سے حضور کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لاکر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: ابو لہب، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک چچا تھا جو آپ کی دعوتِ اسلام کے بعد آپ کا دُشمن ہوگیا تھا اور طرح طرح سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی بار اپنے خاندان کے لوگوں کو صفا پہاڑ پر جمع فرماکر اُن کو اسلام کی دعوت دی تو ابو لہب نے یہ جملہ کہا تھا کہ : تبا لک ... الھذا اجمعتنا : یعنی بربادی ہو تمہاری، کیا اس کام کے لئے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی، اور اس میں پہلے تو ابولہب کو بددعا دی گئی ہے کہ بربادی (معاذاللہ) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہاتھ ابو لہب کے برباد ہوں (عربی محاورہ میں ہاتھوں کی بربادی کا مطلب اِنسان کی بربادی ہی ہوتا ہے) پھر فرمایا گیا ہے کہ وہ بربادی ہو ہی گیا یعنی اُس کی بربادی اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی، چنانچہ جنگ بدر کے سات دن بعد اسے طاعون جیسی بیماری ہوئی جسے عدسہ کہتے ہیں، عرب کے لوگ چھوت چھات کے قائل تھے اور جسے ’’عدسہ‘‘ کی بیماری ہوتی، اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، چنانچہ وہ اسی حالت میں مرگیا، اور اُس کی لاش میں سخت بدبو پیدا ہوگئی، یہاں تک کہ لوگوں نے کسی لکڑی کے سہارے سے اسے ایک گڑھے میں دفن کیا۔ (روح المعانی)۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٥۔ صحیح ٢ ؎ بخاری مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا ٢ حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریش کو آواز دی جس سے بہت سے لوگ قریش کے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طرح طرح کی نصیحت کی اور شرک ... سے ڈرایا۔ ان لوگوں میں ابو لہب بھی تھا۔ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت سن کر بڑی نخوت سے گھڑی گھڑی اپنے دونوں ہاتھ جھٹکے اور کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے اسی واسطے آواز دے کر اور ہاتھوں کے اشارہ سے بلا کر ہم سب لوگوں کو جمع کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی۔ یہ ابو لہب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچاؤں میں سے تھا اس کا نام عبد العزیٰ بن عبد المطلب تھا اور اس کی اصل کنیت ابو عتبہ ہے۔ اس کے رنگ کے سرخ وسفید ہونے کے سبب سے اس کے منہ پر ایک طرح کی خون کی جھلک اور چمک تھی اس لئے اس کو ابولہب کہتے تھے جس کے معنی آگ کے شعلہ کے باپ کے ہوئے۔ یہ کنیت اس کے حق میں ایسی منحوس ہوئی کہ ہمشہ کے لئے گویا یہ دوزخ کی آگ کا ابو لہب ٹھہرا۔ یہ شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بڑا مخالف تھا جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار وغیرہ میں لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر کچھ وعظ و نصیحت کرتی تھے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کی تقریر ضرور کیا کرتا تھا۔ ابولہب کی بی بی کا نام اروا تھا اور کنیت اس کی ام جمیل تھی۔ یہ ابو سفیان (رض) کی بہن اور معاویہ (رض) کی پھوپھی ہے اپنے شوہر کی امداد کے خیال سے یہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑی عداوت رکھتی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں اکثر کانٹے بچھا دیا کرتی تھی کہ صبح کو اندھیرے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کو جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کانٹوں سے ایذاء پہنچے۔ تبت یدا ابی لھب وتب کا مطلب یہ ہے کہ ابو لہب ہلاک ہوجائے عرب کا محاورہ ہے کہ آدمی کے دونوں ہاتھوں سے اس آدمی کی ذات مراد لیا کرتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ابولہب نسب کا شریف اور مال دار تھا مگر اس نے خدا اور رسول کے ساتھ اپنا معاملہ درست نہیں رکھا تو اس کی دین و دنیا دونوں خراب ہوگئیں دنیا تو یوں کہ اس کے دونوں بیٹے عتبہ عتیبہ جو گویا اس کے دونوں ہاتھ تھے وہ یوں ٹوٹ گئے کہ عتبہ تو مسلمان ہوگئے اور عتیبہ کو شیر نے پھاڑ ڈالا۔ خود اس کا یہ حال ہوا کہ وہ خود تو بدر کی لڑائی میں نہیں جاسکا مگر ایک شخص کو خرچ دے کر اپنی طرف سے قریش کے ساتھ اس نے بھیج دیا تھا قریش پر بدر کی لڑائی میں وہ آفت گزری کہ ستر آدمی ان کے مارے گئے اور ستر قید ہوگئے اور جس شخص بدیل نامی کو اس نے اس لڑائی میں بھیجا تھا اس سے اور اور لوگوں سے اس ابولہب نے قریش کی مصیبت کا سبب تفصیلی حال جب سنا تو اس غم میں طاعون کے مرض سے بدر کی لڑائی کے ساتھ روز بعد مرگیا۔ عرب کے لوگ اس مرض میں جو شخص مرجائے اس کی لاش سے بہت پرہیز کرتے ہیں اس لئے تین دن تک اس کی لاش بغیر دفن کے پڑی رہی اور جب لاش بالکل سڑ گئی تو اس لاش کے دفن کی نوبت آئی تفسیر ضحاک ١ ؎ میں ہے کہ ابولہب کی بی بی ام جمیل کے گلے میں رسی کی پھانسی لگ گئی جس سے وہ مرگئی قیامت کے دن وہی رسی ایک آگ کی رسی بن جائے گی اور دوزخ میں ہمیشہ وہ رسی اس کے گلے میں طوق کی طرح پڑی رہے گی غرض اللہ کے رسول کی مخالفت اور اللہ تعالیٰ کی خفگی سے ابو لہب اور ام جمیل دونوں کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ایسے لوگوں کا عقبیٰ میں جو کچھ انجام ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا ضحاک کا قول تفسیر میں معتبر ہے چناچہ سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ مجاہد سعید بن جبیر عکرمہ اور ضحاک۔ ان چار شخصوں سے تفسیر کی روایتیں لینی چاہئیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اکثر جگہ ضحاک کا قول لیا ہے اور یہ اوپر گزر چکا ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں صحت روایت کی پابندی زیادہ کی ہے۔ (؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة اللہب ص ٧٤٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة الاخلاص ص ١٠٤ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(111:1) تبت یدا ابی لھب وتب ۔ یہ دونوں جملے تبت یدا ابی لہب اور وتب۔ بددعا کے لئے ہیں۔ تبت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تب وتباب (باب ضرب) مصدر بمعنی ٹوٹنا۔ یا ٹوٹے میں رہنا۔ یدا اصل میں یدان تھا۔ اضافت کی وجہ سے ن گرا دیا گیا۔ مضاف دونوں ہاتھ۔ ابی لھب مضاف الیہ۔ ابی لہب کے (دونوں ہاتھ) ۔ تبت ی... دا ابی لہب۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ لغت عرب میں ید کے مختلف معانی ہیں :۔ آیت بل یداہ مبسوطتن ینفق کیف یشاء (5:64) میں بمعنی جود و کرم مستعمل ہے۔ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ یعنی وہ بڑا صاحب جودوسخا ہے وہ جس طرح اور جتنا چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور آیت ونسی ما قدمت یداہ (18:57) میں بمعنی ذات، شخص ہے۔ اور بھول گیا جو اعمال وہ آگے کرچکا ۔ وغیرہ وتب واؤ عاطفہ، جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور وہ ہلاک ہوا۔ وہ ٹوٹ گیا۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ تباب مصدر سے ۔ بمعنی ہلاک ہونا۔ ٹوٹے میں رہنا۔ تب کی ضمیر فاعل ابو لہب کی طرف راجع ہے۔ آیندہ ابو لہب یقینی طور پر ہلاک ہونے والا تھا اس لئے بجائے مستقبل کے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئیں۔ یہ ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفر اور بدبختی کی بدولت آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور آپ کو ہر طرح سے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آیت وانذر...  عشیر تک الاقربین نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباء کہہ کر اپنے قبیلے قریش کو پکارا۔ جب وہ سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا :” مجھے یہ بتائو کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیھچے سے کچھ گھوڑ سوار تم پر حملہ کیا چاہتے ہیں تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے، انہوں نے کہا ” ہمیں آج تک جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ “ فرمایا تو میں ایک درد ناک عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ “ ابواب بولا ” تیرے لئے تباہی ہو کیا تو نے اسی لئے ہمیں جمع کیا تھا ؟ آپ پہاڑی سے اتر آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی۔ (فتح القدیر بحوالہ صحیحین)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة اللھب۔ آیات ١ تا ٥۔ اسرار معارف۔ ہاتھ ٹوٹ جائیں ابولہب کے اور تباہ ہوجائے اس کا نام عبدالعزی تھا حضرت عبدالمطلب کی اولاد میں سے تھا اور سرخ رنگ ہونے کے باعث کنیت ابولہب مشہور تھی ، اس نے آپ کی شدت سے مخالفت کی کہ اللہ کریم نے نام لے کردوزخی ہونے کا اعلان فرمایا۔ اسے اس کا مال وزر کام نہ آئے کہ ... ایک پھوڑا نکلا جو بہت بدبودار تھا لاعلاج ہو کر اور تنہائی میں مرگیا اس قدر بدبو تھی کہ لاش دفن نہ ہوسکتی تھی وہی مکان اس پر گرادیا گیا چناچہ اس کا مال وزر کام نہ آیا اور اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ بھڑکتے ہوئے دزوخ میں داخل ہوگی جو آپ کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی ، دوزخ میں اس کے گلے میں طوق ہوگا جو بٹی ہوئی رسی کی طرح کا ہوگا۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ تبت۔ تباہ ہوگئی۔ (ہوگئے) ۔ یدا۔ دونوں ہاتھ۔ تب۔ تباہ ہوا۔ ما اغنی۔ کام نہ آیا۔ کسب۔ کمایا۔ سیصلی۔ بہت جلد جا پڑے گا۔ امرائہ ۔ عورت ۔ جید۔ گردن۔ حبل من مسد۔ مضبوط پٹی ہوئی رسی۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے فرمایا ……… یعنی اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے و... الے آپ اتھئے۔ اللہ کے خوف سے لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی قائم کیجئے۔ اس کے بعد جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ……… یعنی آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے خوف سے ڈرائیے تو آپ نے مکہ مکرمہ کے کوہ صفا پر چرھ کر مکہ والوں کو ”…“ (اے صبح کی آفت) کہہ کر آواز دی۔ جس کا عام طور پر یہ مطلب ہوتا تھا کہ رات کو کسی دشمن نے اچانک حملہ کرنے کے لئے اپنا لشکر جمع کرلیا ہے۔ لوگ اس جملے کا مطلب جانتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز بھی پہچانتے تھے۔ قریشی سردار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان والے کوہ صفا کی طرف دوڑ پڑے جو خود آسکتا تھا وہ خود آگیا اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنی طرف سے کسی کو بھیج دیا۔ جب سارے لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ایک ذرا اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر قریش کے تمام خاندانوں کا نام لے کر خطاب فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا ایک بہت بڑا لشکر چھپا ہے، جو عنقریب تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے کیونکہ آپ ہم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تو کوئی لشکر نہیں ہے لیکن شیطان کا لشکر تم پر حملہ آور ہے۔ میں تمہیں (اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو) یہ بتا رہا ہوں کہ آگے بہت بڑا عذاب آنے والا ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفصیل ارشاد فرمائی کہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ یہ سن کر سب ہی لوگوں پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ چاہنے اولا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا ابو لہب کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا ” تبا لک الھذا جمعتنا “ تو برباد ہوجائے کیا تو نے یہی سب کچھ سنانے کے لئے ہمیں جمع کیا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے ایک پتھر اٹھایا تاکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھینچ مارے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی) اور اس کے بعد تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ آپ کا جانی دشمن ہے۔ ہر جگہ آپ کی شدید مخالفت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابولہب کے اس جملے پر تبالہ پر جواب عنایت فرمایا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو برباد نہ ہوں گے لیکن ابولہب تباہ و برباد ہو کر رہے گا۔ اس کی دولت اور اولاد اس کے کچھ بھی کام نہ آئے ۔ اس کو بہت جلد جہنم کی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ چونکہ اس کی بیوی ام جمیل بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت دشمن ہوچکی تھی تو اس کے متعلق فرمایا کہ آپ کے راستے میں کانٹے دار بچھانے والی کی گردن میں ایک رسی ہوگی اور اس سے اس کو جہنم میں کھینچا جائے گا۔ ابولہب کو شعلوں کا باپ کہا جاتا تھا چونکہ وہ نہایتسرخ وسفید، وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا اس لئے ابولہب کہا جانے لگا۔ اس کا اصل نام ” عبدالعزی “ تھا۔ اس کی بیوی کا نام ” اروی “ تھا مگر اس کی کنیت ام جمیل تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی بہت مال دار تھے لیکن اس حد کنجوس تھے کہ ان کی کنجوسی سے سب لوگ تنگ تھے۔ جب ابولہب کا نام لے کر قرآن کریم کی ایک سورت نازل کی گئی جو ابولہب کی سخت توہین تھی تو ام جمیل غصے سے بےقابو ہوگئی اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے کے لئے نکل پڑی تاکہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توہین کرسکے۔ اس کے ہاتھ میں پتھر تھے اور وہ آپ کی شان میں ایسے گستاخانہ شعر پڑھ رہی تھی جس سے اس کا بغض اس کے منہ سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق خرم میں ایک جگہ موجود تھے کہ واں ام جمیل آگئی۔ حضرت ابوبکر صدیق گھبرا گئے کہ کہیں یہ عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین نہ کرے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم پریشان نہ ہو وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر کے پاس پہنچی اور اس نے کہا کہ سنا ہے تمہارے صاحب نے میری سخت توہین کی ہے۔ حضرت ابوبکر نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ” رب کعبہ کی قسم انہوں نے تمہاری کوئی توہین اور ہجو نہیں کی “۔ اس پر وہ واپس چلی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہاری توہین نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے کی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی کا یہ حال تھا کہ وہ ہر وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں لگے رہتے تھے۔ ام جمیل کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا وہ قسم کھا کر کہتی تھی کہ میں اس بار کو بیچ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اور دشمنی پر خرچ کروں گی۔ اللہ نے اسی کے متعلق فرمایا کہ آج جس ہار پر وہ ناز کر رہی ہے کل قیامت کے دن یہی ہار اس کے گلے میں ایک مضبوط بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوگا جس کو اس کی گردن میں ڈالا جائے گا یعنی اس کے ذریعہ اس کو جہنم میں گھسیٹ کر پھینکا جائے گا۔ ابولہب ایک سرمایہ پرست کنجوس آدمی تھا۔ قریش کے چار بڑے مال دار لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ جب غزوہ بدر ہوا تو وہ خود اس میں شریک نہیں ہوا بلکہ اس نے عاص ابن ہشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لئے بھیج دیا۔ اصل میں عاص ابن ہشام پر ابولہب کے چار ہزار درہم قرض تھے اور عاص دیوالیہ ہوچکا تھا۔ ابولہب نے کہا کہ اگر تم میری رف سے جا کر لڑو تو میں چار ہزار درہم معاف کر دوں گا۔ چناچہ عاص ابن ہشام ابولہب کی طرف سے لڑنے کے لئے گیا۔ غزوہ بدر میں جب کفار کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تو ابولہب اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا۔ غزوہ بدر کے سات دن بعد ہی وہ نہایت ذلت کے ساتھ مر گیا۔ اس کی موت بڑی عبرت ناک تھی۔ اس کو ایک ایسی بیماری لگ گئی جو انسان کے تمام اعضا کو سڑا دیتی ہے۔ اس و عربوں میں ” عدسہ “ کی بیماری کہتے تھے۔ اس کے عدسہ کی گلٹی نکلی۔ اس کے بدن سے ایسی بدبو اور سڑیند آتی تھی کہ اس کے بیٹے یہاں تک کہ اس کی بیوی بھی اس کے قریب کھڑے نہ ہو سکتے تھے۔ اس کو اس کے گھر والوں نے علیحدہ ایک کمرے میں ڈال دیا۔ تین دن تک کوئی اس کے پاس نہیں گیا۔ اس عرصے میں وہ مر گیا جب تین دن کے بعد اس کی لاش سے زبردست بدبو پیدا ہوئی تو حبشی بدوؤں کو بلا کر اس کی لاش کو اٹھویا گیا اور کسی نامعلوم صحرا میں پھینکوا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو سورة لہب میں فرمایا کہ اس کا مال، اس کی دولت اور اولاد بھی اس کے کسی کام نہ آسکی اور قیامت میں اس کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ ابولہب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکانات برابر برابر تھے۔ ابولہب اور اس کی بیوی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیتیں پہنچانے کے لئے طرح طرح سے ستاتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ کا نکاح عتبہ سے اور دوسرے بیٹے عتیبہ کا نکاح حضرت ام کلثوم سے ہوا تھا۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید مخالفت کی تو آپ کو ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے ابوجہل نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ میرے لئے تم سے ملنا حرام ہے جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں بیٹیوں کو طلاق نہ دے دو ۔ یہ سن کر عتبیہ اٹھا اور نیب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ کر نہ صرف حضرت ام کلثوم کو طلاق دی بلکہ بےانتہا غلیظ اور گندی باتیں بھی کہیں۔ اس واقعہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید صدمہ پہنچا اور آپ کے منہ سے نکل گیا الٰہی (اس نے آپ کے نبی کی توہین کی ہے) اس پر اپنے کتوں میں کسی کتے کو مسلط فرما دیجیے۔ چناچہ ایک مرتبہ عتیبہ شام کے سفر پر تھا کہ ایک کہ ایک بھڑیئے نے اس کو پھاڑ کھایا۔ اس کے برخلاف عتبہ نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی سے نکاح ہوا اور اللہ نے آپ کو ذوالنورین کے لقب کی سعادت عطا فرمائی۔ واخرد عوانا ان الحمد للہ رب العالمین  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ چناچہ غزوہ بدر کے سات روز بعد اس کے طاعون کا دانہ جس کو حدسہ کہتے ہیں نکلا اور مرض کے لگ جانے کے خوف سے گھر والوں نے اس کو الگ ڈالدیا۔ یہاں اسی حالت میں ہلاک ہوگیا، تین روز تک لاش یونہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر شہر سے باہر بھیج دیا، انہوں نے جاکر اس کو گڑھے میں پھینک دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة النّصر میں ہر قسم کی کامیابی اور دین کے غالب ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے اور سورة اللّہب میں بتلایا ہے کہ عنقریب دین اور آپ کا دشمن ہلاک ہوجائے گا۔ مفسّرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” وَاَنْذِرْ عَشِی... ْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ “ اے نبی ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرائیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ نے قریش کے قبائل کا نام لے لے کر بلایا لوگ دوڑتے ہوئے صفا پہاڑی کی طرف پہنچے، جس قبیلے کا سربراہ خود نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا کہ جاؤ پتہ کرو کہ محمد بن عبداللہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جس شخص کو کوئی حادثہ پیش آتا وہ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ کر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا، کچھ لوگ ایمر جنسی میں پہاڑ پر آگ جلاتے اور اپنا گریبان پیٹتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور جو ان میں مہذب اور حوصلہ مند لوگ ہوتے وہ صبح کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر یا صباحا ! یا صباحا ! کے الفاظ پکارتے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے یا صباحا ! یاصباحا ! کی آواز بلند فرمائی اور لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی، تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بھی رک گئے اور لوگ ٹکٹکی باندھ کر آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے لگے، جونہی لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہورہا ہے تو کیا تم مان جاؤگے ؟ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں ! ” مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا “ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچ کا تجربہ کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا “ کے الفاظ کہتے مگر وہ عرب تھے اس لیے انہوں نے ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا “ کی بجائے یہ کہا کہ ہم نے آپ کا باربار تجربہ کیا ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے آپ کی تینتالیس سالہ حیات مبارکہ کی تائید کی اور آپ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قُوْلُوْا لَااِلٰہَ الاَّ اللَّہُ تُفْلِحُوْا “ جوں ہی آپ نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ ابولہب نے یہاں تک ہر زہ سرائی کی کہ ” تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا “ تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ (رواہ البخا ری : باب وانذرعشیرتک الاقربین) یاد رہے کہ ابولہب کے ساتھ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار رشتے تھے۔ ان میں ہر رشتہ عربوں کے ہاں نہایت ہی قابل احترام تھا۔ ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابولہب چچا تھے۔ ہر معاشرے میں اور عربوں کے ہاں بھی چچا والد کے قائم مقام سمجھا جاتا تھا، لیکن ابولہب نے اس عظیم رشتہ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابولہب مکہ میں ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ہر معاشرے میں پڑوسی کے حقوق مسلّمہ ہیں۔ عرب بھی پڑوسی کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے مگر ابولہب نے اس رشتے کے تقدُّس کو بھی پامال کردیا۔ ٣۔ نبوت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو بیٹیوں کی نسبت ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ توحید کی دعوت کا اعلان کرنے کی وجہ سے ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹوں نے بڑے گستاخانہ انداز میں ان نسبتوں کو توڑ دیا۔ ٤۔ جس بی بی نے ابو لہب کو بچپن میں دودھ پلایا تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بچپن میں اس کا دودھ پیا تھا، اس کا نام ثوبیہ تھا۔ اس لحاظ سے ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رضاعی بھائی تھا عرب رضائی بھائی کو حقیقی بھائی کی طرح خیال کرتے تھے لیکن ابو لہب نے اس رشتے کی بھی پرواہ نہ کی۔ ابولہب کے ردِّ عمل میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں ہر کسی کے لیے کھلے لفظوں میں پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان سے بڑھ کر کوئی رشتہ مقدّم نہیں لہٰذا ایمان نہ ہوتوحسب ونسب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں ابولہب ہی وہ بدقسمت انسان ہے جس کا نام لے کر اس پر پھٹکار کی گئی ہے۔ ابولہب کا نام عبدالعزّٰی تھا۔ قرآن مجید نے اس کے شرکیہ نام کا ذکر کرنے کی بجائے اس کی کنیت کے نام پر مخاطب کیا جس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کنیت سے لوگوں میں مشہور تھا۔ ابولہب شکل و صورت کے لحاظ سے نہایت خوبصورت تھا جس وجہ سے لوگ اسے ابولہب کہتے تھے جس کا معنٰی ہے آگ جیسا روشن چہرہ رکھنے والا۔ لیکن برا عقیدہ اور کردار رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی کنیّت کے حوالے سے اسم بامسمّٰی ثابت ہوا اور اسے ہمیشہ کے لیے دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کسی کام نہ آئے اس کے ساتھ ہی اس کی بیوی بھی جہنم کا ایندھن بنے گی جس کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو اپنے سر پر ایندھن اٹھانے والی ہے اور اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ ابولہب مکہ کے امیر ترین چار آدمیوں میں شمار ہوتا تھا اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس کے پاس نقدی اور جائیداد کے علاوہ آٹھ کلو سونا موجود تھا۔ ( تفہیم القرآن) ظاہر بات ہے کہ اس کی بیوی کو ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی کہ کانٹے دار جھاڑیاں اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے سامنے پھینک دیتی۔ یہی عمل اس کی موت کا سبب ثابت ہوا۔” حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ “ عربی محاورۃ میں چغلیاں کرنے والی کو بھی کہا جاتا ہے گویا کہ وہ نبی کے بارے میں چغلیاں بھی کیا کرتی تھی۔” جِیْدًا “ اس گردن کو کہا جاتا ہے جسے زیور کے ساتھ سجایا گیا ہو یعنی دنیا میں جس گردن میں زبور پہنا کرتی ہے قیامت کے دن اس نرم و نازک گردن میں جہنم کی آگ سے بنا ہوا رسا ڈالا جائے گا۔ ابو لہب اپنی بزدلی کی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہوا لیکن بدر کی شکست کا اسے اس حد تک صدمہ پہنچا کہ یہ اندر ہی اندر گھلتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے کوڑھ کی بیماری لاحق ہوگئی اس کے جسم میں بد بو پھیل گئی گھر کا کوئی فرد اسے ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس حالت میں ذلیل ہو کر مرا، دفنانے کے لیے بدو بلائے گئے جنہوں نے اسے مٹی میں دبایا۔ مسائل ١۔ ابولہب بدترین طریقے سے ہلاک ہوا اور اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کچھ کام نہ آئے۔ ٢۔ ابولہب جہنم کی دہکتی ہوگئی آگ میں ڈالا جائے گا۔ ٣۔ ابولہب کی بیوی جس رسی سے لکڑویوں کا گٹھا اٹھاتی تھی وہ رسی اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مال اور اولاد کی حیثیت : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال، اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمہیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے تمہیں غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ سورت اللہ کی طرف سے اس لئے نازل ہوئی کہ ابولہب اور اسکی بیوی کی طرف سے برپا کی ہوئی جنگ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی جائے۔ گویا یہ معرکہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تبت یدا ........................ وتب (1:111) ” ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ “۔ تبت تباب سے مشتق ہ... ے جس کے معنی ہلاکت ، تباہی انقطاع کے ہیں۔ یہاں تبت کے معنی ہیں بددعا کے اور دوسرے تب کے معنی ہیں کہ وہ ہلاک ہوگیا تباہ ہوگیا اور اس کا سلسلہ کٹ گیا۔ یہ خبر ہے وقوع بددعا کی۔ سورت کے آغاز ہی میں اس مختصر آیت میں بددعا اور اس کی تکمیل کا مکمل منظر ہے ۔ گویا معرکہ ختم ہوجاتا ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والی دوسری آیت میں حقیقت واقعہ کا بیان ہے۔ ما اغنی ................ کسب (2:111) ” اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا “۔ اس کے ہاتھ ٹوٹ گئے ، وہ ہلاک وبرباد ہوگیا۔ اسکا مال اور اسلام کے خلاف جدوجہد اس کے کچھ کام نہ آئی اور اس کی دولت اور اس کی مکاریاں اسے ہلاکت نہ بچا سکیں۔ یہ تو تھا اس کا انجام دنیا میں۔ آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا ؟ سیصلی ............................ لھب (3:111) ” ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا “۔ لہب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ بہت شدید اور شعلہ بار ہوگی اور سخت بھڑکی ہوئی ہوگی۔ وامراتہ .................... الحطب (4:111) ” اور اس کی جورو لکڑیاں اٹھانے والی “۔ بھی اس آگ میں ڈالی جائی گی ، اس حال میں کہ وہ لکڑیاں اٹھائے ہوئے ہوگی اور اس حال میں کہ۔ فی جیدھا .................... مسد (5:111) ” اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی “۔ اور اس رسی کے ساتھ اسے آگ میں باندھ دیا جائے گا یا یہ رسی وہ ہوگی جس کے ساتھ لکڑیاں باندھی جاتی ہیں۔ اگر اس کا حقیقی معنی لیا جائے تو وہ وہاں بھی لکڑیوں اور کانٹوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے جہنم میں جائے گی اور اگر مجازی معنی لیا جائے تو معنی یہ ہوگا اور شرارت کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا نے کی سعی کرتی ہے۔ اس سورت کا طرز ادا اس کے موضوعات اور معانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ سورت کی فضا کے مناسب طرز تعبیر اختیار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں میری کتاب ” قرآن میں مناظر قیامت “ سے چند سطریں یہاں نقل کرنا ضروری ہیں۔ ان کا یہاں نقل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس اس سورت کے نزول سے ام جمیل کے دل میں ایک ایسا تیر لگا جس کی وجہ سے وہ برافروختہ ہوگئی اور پاگل ہوکر رہ گئی۔ ” ابولہب (شعلوں کا باپ) ایک ایسی آگ میں تپایا جائے گا جو شعلہ زن ہوگی اس کی عورت جو حضور کی راہ میں خاردار جھاڑیاں لاکر ڈالتی تھی وہ جہنم میں اس حال میں گرائی جائے گی کہ اس کے گلے میں مونجھ کی رسی بندھی ہوگی “۔ ” الفاظ بھی باہم متناسب اور صوتی ہم آہنگی رکھنے والے ، تصاویر بھی باہم ، یک رنگ ، بس جہنم میں اس کو گرایا جائے گا وہ شعلہ بار ہے۔ اس میں شعلوں کے باب (ابولہب) کو گرایا جائے گا۔ اس کی عورت لکڑیاں لاتی ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں ڈالتی ہے اور آپ کو ایذائیں دیتی ہے ، خواہ حقیقی معنی لیا جائے یا استعارہ۔ لکڑیوں سے آگ کو بھی بھڑکایا جاتا ہے اور ان لکڑیوں کو رسیوں میں باندھ کر لایا جاتا ہے۔ اس لئے جہنم شعلہ زن میں اسے مونجھ کی رسی سے باندھا دیا جائے گا۔ اور اسے اس رسی سے باندھ دیا جائے گا جس سے وہ لکڑیاں لاتی تھی۔ تاکہ سزا ایسی ہو جیسا اس کا جرم تھا۔ اور یہ تصویر اپنے سادہ رنگوں کے ساتھ سامنے آئے اور اس کے رنگ میں لکڑیاں ، رسی ، آگ اور شعلے ہوں۔ اور اس آگ میں میاں بیوی دونوں تپ رہے ہیں “۔ ایک دوسرے زاویہ سے بھی اس سورت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کی صوتی جھنکار ، لکڑیوں کے گھٹے کے باندھنے کی آواز اور گردن کو رسی سے باندھنے کی آواز بھی باہم یکساں ہیں۔ ذرا پڑھئے۔ تبت یدا .................... وتب (1:111) ” ان الفاظ میں شد کی صوتی درشتگی ایسی ہی ہے جس طرح لکڑیوں کے گھٹے کو باندھنے میں سختی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ الفاظ شدید ہیں اسی طرح گردن میں رسی باندھنے کا عمل اور اسے کھینچنا شدید ہے۔ اور پوری سورت میں اسی طرح کی گٹھن کی فضا ہے “۔ اس طرح صوتی ترنم ، عملی کشاکش کی آواز ، اور سورت کی حرکات کی جزئیات کے درمیان گہری مناسبت اور ہم آہنگی ہے۔ پھر الفاظ بھی ہم جنس ، اور تعبیر میں یکسانی کا لحاظ ، سب کے سب سورت کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پھر یہ تمام چیزیں سبب نزول اور سورت کے پس منظر کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب فنی خوبیاں صرف پانچ مختصر فقروں میں ملحوظ خاطر رکھی گئی ہیں اور قرآن کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک میں اس فنی کمال کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ان فنی خوبیوں کی وجہ سے اور بےپناہ اثر کی وجہ سے ام جمیل کا تاثر یہ تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہیں اس کی ہجو کی ہے۔ یہ سورت فوراً مکہ میں پھیل گئی تھی ، جس میں میاں بیوی کی مذمت کی گئی تھی ، ان کو دھمکی دی گئی تھی اور نہایت بھدی تصویر کھینچی گئی تھی۔ یہ ایسی تصویر کشی تھی جس نے ایک خود پسند عورت کے دل کو چور چور کردیا۔ جسے اپنے نسب وحسب پر بہت ہی غرور تھا۔ جو اپنے آپ کو بہت ہی اونچے گھرانے کی عورت سمجھتی تھی۔ لیکن قرآن نے اس کی تصویر کشی یوں کی : حمالة ........................ من مسد (5:111) ” عورت ، جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے اور جس کے گلے میں چھال کی رسی بندھی ہوئی ہے “۔ یہ نہایت ہی عام صورت حالات ہے جو عربوں میں عام تھی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ تک یہ تذکرہ پہنچا ہے کہ ام جمیل حمالة الحطب نے جب اس سورت کے نزول کے بارے میں سنا کہ یہ اس کے بارے میں اور اس کے خاوند کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ گئی اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی مٹھی پتھروں سے بھری ہوئی تھی ، جب یہ ان دونوں کے پاس آکر کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی آنکھوں پر اس طرح پر دہڈال دیا کہ وہ صرف ابوبکر کو دیکھ سکتی تھی۔ تو اس نے کہا : ” ابوبکر کہاں ہے تمہارا ساتھی ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے میری ہجو کی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ملتا تو میں ان پتھروں سے اسے مارتی۔ خدا کی قسم میں بھی تو شاعرہ ہوں اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھا۔ مذمما عصینا وامرہ ابینا وہ محمد نہیں بلکہ مذمت کیے ہوئے ہیں ، ہم نے ان کی نافرمانی کی ہے اور ان کے احکام ماننے سے انکار کردیا یا ان کے دین کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہ واپس چلی گئی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ سے کہا : کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا : ” اس نے مجھے نہیں دیکھا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر کو مجھ سے کھینچ لیا تھا “۔ حافظ ابوبکر بزار نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ، جب سورة تبت یدا .................... وتب (1:111) نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی حرم میں آئی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا حضور اگر آپ ایک طرف ہوجائیں تو یہ آپ کو اذیت نہ دے سکے گی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا “ ۔ یہ آئی اور حضرت ابوبکر (رض) کے پاس کھڑے ہوگئی اور کہا : ” ابوبکر تمہارے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے “۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ” اس گھر کی قسم انہوں نے ایسا نہیں کیا ، وہ نہ شعر کہتے ہیں اور نہ ہی پڑھتے ہیں “۔ تو اس نے کہا آپ تو سچے ہیں۔ جب واپس گئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ” حضور کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا ؟ تو آپ نے فرمایا ’ جب تک وہ کھڑی رہی فرشتے مجھ پر ستر پھیلاتے رہے جب تک وہ چلی نہیں گئی “۔ غرض اس کا پارہ اس قدر چڑھ گیا تھا کیونکہ یہ سورت پھیلی گئی تھی ، اس نے اسے ہجو سمجھا۔ اس زمانے میں ہجو صرف اشعار میں ہوتی تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکر (رض) نے جائز طور پر ہجو کی تردید کردی۔ اور وہ بہت سچے مانے جاتے تھے لیکن ان آیات میں اس کی جو حقارت آمیز تصویر کشی کی گئی ہے وہ اس دائمی کتاب میں ریکارڈ کردی گئی ہے۔ اللہ کی کتاب بھی لازوال ہے اور ان دونوں کی مذمت بھی لازوال ہوگئی ۔ ایور یہ ایسی تصویر ہے جو ایک بولتی تصویر ہے۔ یہ ہے سزا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف سازش کرنے کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی دعوت اسلامی اور داعیان حق کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرتے ہیں ان کی قسمت میں دنیا میں بھی ناکامی لکھی ہوئی ہے۔ وہ یہاں بھی ہلاک اور برباد ہوں گے۔ اور آخرت میں بھی وہ ایک سخت سزا پائیں گے۔ یہ ان کی مناسب سز ہوگی۔ دنیا میں لکڑ ہاروں کی رسی جسے ذلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ، آخرت میں بھی یہ رسی اس کے گلے میں ہوگی اور یہ ذلت کی کافی نشانی ہوگی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد کے دس بھائی تھے جو عبدالمطلب کے بیٹے تھے، ان میں ایک شخص ابو لہب بھی تھا اس کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اظہار فرمایا تو قریش مکہ میں سے جن لوگوں نے بہت زیادہ آپ کی دشمنی پر کمر باندھی ان میں ابو لہب بھی...  تھا۔ یہ بہت زیادہ مخالفت کرتا تھا اور اس کی بیوی بھی آپ کی مخالفت میں بہت آگے بڑھی ہوئی تھی، جب سورة الشعراء کی آیت کریمہ ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَۙ٠٠٢١٤﴾ نازل ہوئی تو نبی (کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور قریش کے قبیلوں کو نام لے لے کر پکارتے رہے اے بنی عدی ادھر آؤ اور اے بنی فہر ادھر آؤ، آپ کے بلانے پر قریش جمع ہوگئے اور انہوں نے اتنا اہتمام کیا کہ جو شخص خود نہیں آسکتا تھا اس نے اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو بھیج دیا جو وہاں حاضر ہو کر بات سن لے، حاضر ہونے والوں میں ابو لہب بھی تھا آپ نے فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ یہاں قریب ہی وادی میں گھوڑ سوار دشمن ٹھہرے ہوئے ہیں جو تم پر غارت گری والے حملہ کا ارادہ کر رہے ہیں کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟ سب نے کہا کہ ہاں ہم تصدیق کریں گے ہم نے آپ کے بارے میں یہی تجربہ کیا ہے کہ آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں۔ آپ نے نام لے لے کر سب کو موت کے بعد کے لیے فکر مند ہونے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اپنی جانوں کو خرید لو یعنی ایسے اعمال اختیار کرو جن کی وجہ سے دوزخ کے عذاب سے بچ جاؤ، میں تمہیں اللہ کے عذاب سے چھڑانے کے بارے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا، اے بنی عبد مناف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا۔ اے عباس عبدالمطلب کے بیٹے میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتا اور آپ نے تمام حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے یوں بھی فرمایا ان ھو الا نذیر لکم بین یدی عذاب شدید (میں تمہیں پہلے سے عذاب شدید سے ڈرا رہا ہوں اگر تم نے میری بات نہ مانی تو سخت عذاب میں مبتلا ہو گے) ۔ یہ سن کر ابو لہب بول پڑا اور اس نے کہا : تبالک ساعر الیوم الھذا جمعتنا (ہمیشہ کے لیے تیرے لیے ہلاکت کیا تو نے اس بات کے لیے ہمیں جمع کیا ہے) اس پر ﴿ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ٠٠١ مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ٠٠٢﴾ نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٧٠٢: ج ٢) صحیح مسلم میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے ہے اس میں یہ لفظ ہے کہ فعم وخص کہ آپ نے عمومی خطاب بھی فرمایا اور الگ الگ نام لے کر بھی بات کی، بنی کعب بن لوی اور بنی مرہ بن کعب بن عبد شمس اور بنی عبد مناف اور بنی ہاشم سے فرمایا کہ اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لو، میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، اس پر ابو لہب بول پڑا اس نے وہی بات کہی جو اوپر مذکور ہے اور تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ٠٠١ نازل ہوئی۔ (مسلم صفحہ ١٤: ج ١) جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ ابو لہب کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اس لیے ابو لہب کے لقب سے معروف تھا (لہب آگ کی لپٹ کو کہتے ہیں) خوبصورتی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہی اس کا یہ لقب مشہور تھا جب اس نے آپ کے خطاب کے جواب میں گستاخی والے الفاظ زبان سے نکالے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دنیا و آخرت والی رسوائی اور تکلیف اور عذاب کی خبر دی تو لہب یعنی آگ کی لپٹ کی مناسبت سے ( جس میں اس کے جلنے کی پیشگی خبر دی ہے) لفظ ابو لہب استعمال فرمایا جو آگ میں جلنے پر دلالت کرتا ہے پر انا لفظ جو اس کے لیے خوشی کا لقب تھا اب اس کی مذمت اور قباحت اور دنیا و آخرت کی رسوائی اور عذاب شدید میں مبتلا ہونے کی خبر پر دلالت کرنے والا بن گیا۔ تَبَّ ۔ ماضی مذکر غائب کا صیغہ ہے اس کا فاعل ضمیر ہے جو ابو لہب کی طرف راجع ہے اور تبت واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور ﴿ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ ﴾ اس کا فاعل ہے (اضافت کی وجہ سے نون تثنیہ گرگیا ) یہ لفظ تباب سے ماخوذ ہے تباب ہلاکت کو کہا جاتا ہے کما فی سورة المومن ﴿وَ مَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ (رح) ٠٠٣٧﴾ یہ جو فرمایا کہ ابو لہب کے ہاتھ ہلاک ہوں اور وہ خود بھی ہلاک ہو اس میں ہاتھوں کا ذکر کیوں لایا گیا ؟ اس کے بارے میں علامہ قسطلانی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اپنے ہاتھوں سے پتھر پھینکا تھا جس سے آپ کی پاؤں مبارک کی ایڑی خون آلودہ ہوگئی تھی لہٰذا اس کے ہاتھوں کی ہلاکت کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا۔ ترجمہ میں جو یہ لکھا گیا ہے کہ ابو لہب کے ہاتھ ٹوتیں، یہ اردو کے محاورے میں ہے اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی پوری طرح ہلاک اور برباد ہو۔ ابو لہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو پیشگی خبر دی کہ وہ ہلاک ہوا اور یہ کہ جلنے والی آگ میں داخل ہوگا اس میں پہلی بات کا مظاہرہ دنیا ہی میں ہوگیا اور وہ اس طرح سے کہ اس کے جسم میں بہت خطرناک قسم کی چیچک نکل آئی جس کی وجہ سے لوگ اس سے گھن کرنے لگے اور اپنے عقیدہ کی وجہ سے اس کے پاس جانے سے ڈرنے لگے کہ کہیں یہ مرض ہمیں نہ لگ جائے لہٰذا اپنے اور پرائے اس سے دور ہوگئے، ایک گھر میں علیحدہ ڈال دیا گیا اور وہ بےبسی اور بےکسی کی حالت میں مرگیا تین روز تک اس کی نعش یوں ہی پری رہی جب سڑنے لگی تو لوگوں نے اس کے بیٹوں کو عار دلائی کہ دیکھو تمہارا باپ کس حال میں پڑا ہے اس پر انہوں نے ایک شخص کی مدد سے ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور اس کے بعد اس کو برابر پتھر مارتے رہے یہاں تک کہ وہ ان میں دب گیا۔ (البدایہ صفحہ ٣٠٩: ج ٣) اور الروض الانف میں ہے کہ اس کو ایک لکری کے گڑھے میں ڈال دیا پھر اس پر پتھر برسا دیئے گئے۔ مکہ معظمہ میں ایک پہاڑ ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ ا بو لہب کو اسی پر ڈال دیا گیا تھا اور یہ پہاڑ جبل ابو لہب کے نام سے معروف ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” تبت “۔ ابولہب اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علی ہو سلم کو قول و فعل سے سخت ترین ایذاء دیتے تھے۔ ابو لہن نے ایک موقع پر آپ ” تبا لک ‘ (تو بربادہو) (عیاذا باللہ) سے خطاب کیا تھا۔ اس کی بیوی لوگوں کے سامنے آپ کے خلاف بد گوئی کرتی اور رات کو آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی۔ اس سورت میں دون... وں کو تخویف سنا دی اور ہلاکت کا ایک نمونہ ذکر فرما دیا۔ ” یدان “ نفس سے کنایہ ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ بماقدمت یداک (الحج، رکوع 1) ۔ یہ ابو لہب کیلئے تباہی و بربادی کی بد دعا ہے اور ” و تب “ اس کی تباہی کی خبر ہے۔ قال الفراء التب الاول دعاء والثانی خبر کما یقال اھل کہ اللہ وقد ھلک (قرطبی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک و برباد ہوجائے۔ بعض مفسرین نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوگیا۔ یعنی پہلے جملے میں دعا اور دوسرے میں واقع کی خبر ہے کہ یقین جانو ایسا ہوگیا۔ دونوں ہاتھوں کے ٹوٹنے کا ذکر اس لئے فرمایا کہ دونوں ہاتھوں سے بڑا پتھر اٹھا ... کر حضور کو مارنے چلا تھا۔ تبالک سائرالیوم اسی کا جملہ جو بددعا میں کہا گیا ہے یا اس نے ایک دفعہ کہا تھا محمد جو کچھ کہتا ہے وہ مرنے کے بعد کی بات ہے اس وقت تو میرے دونوں ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کہا تھا تبالکما اری فیکما شیئا یا اس کی ذات مراد ہے جیسا کہ۔ ذلک بما قدمت یداک میں ذات ہی مراد ہے۔ بہرحال دونوں ہاتھوں کی ہلاکت سے اس کی ذات ہی کو بددعا دی گئی ہے۔  Show more