Surat ul Ikhlaas
Surah: 112
Verse: 1
سورة الإخلاص
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾
Say, "He is Allah , [who is] One,
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالٰی ایک ( ہی ) ہے ۔
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾
Say, "He is Allah , [who is] One,
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالٰی ایک ( ہی ) ہے ۔
The reason for the revelation of this Surah has already been mentioned. Ikrimah said, "When - the Jews said, `We worship Uzayr, the son of Allah,' and - the Christians said, `We worship the Messiah (Isa), the son of Allah,' and - the Zoroastrians said, `We worship the sun and the moon,' and - the idolators said, `We worship idols,' Allah revealed to His Messenger, قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ Say: "He is Allah, One." meaning, - He is the One, the Singular, - Who has no peer, - no assistant, no rival, - no equal and none comparable to Him. This word (Al-Ahad) cannot be used for anyone in affirmation except Allah the Mighty and Majestic, because He is perfect in all of His attributes and actions. Concerning His saying, اللَّهُ الصَّمَدُ
اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے ، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہدو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئ شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے ۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں ، اپنی شرافت میں ، اپنی بندگی اور عظمت میں ، اپنے علم و علم میں ، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالیٰ سب پر الب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے ، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے ، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو ۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو ، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں ، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ حافظ ابو القاسم طبراین رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنہ میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں ۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی ۔ جیسے اور جگہ ہے یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے: یعنی وہ ہر چیز کا خلاق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26ۙ ) 21- الأنبياء:26 ) ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ ، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے ۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورہ اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی ۔
[١] اللہ کے اکیلے اور وحدہ لاشریک ہونے پر کفار کا تعجب اور سوالات :۔ آیت کے انداز سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب دیا جارہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے اللہ کی دعوت دے رہے تھے جبکہ دور نبوی کی ساری دنیا طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھی۔ لہذا اللہ کی ذات کے متعلق آپ سے کئی بار سوال ہوا اور کئی قسم کے فرقوں کی طرف سے ہوا۔ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے اٹھایا تھا۔ جو ہر خوبصورت پتھر کو معبود بنالیتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس سوال کی نوعیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا ہم سے نسب بیان کرو۔ تو اللہ نے یہ سورت اتار دی کہ آپ انہیں کہہ دیں کہ && وہ اکیلا ہے۔ اللہ صمد ہے اور صمد وہ ہوتا ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا ہو اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو۔ اس لیے کہ جو کسی سے پیدا ہوگا ضرور مرے گا اور جو مرے گا اس کا کوئی وارث بھی ہوگا۔ اور اللہ نہ مرے گا اور نہ اس کا کوئی وارث ہوگا اور نہ اس کا کوئی کفو ہے۔ && راوی کہتا ہے کہ کفو کی معنی یہ ہے کہ نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ برابر ہے اور اس کی مثال کوئی چیز نہیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) مشرکوں کے بعد جس نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے بارے میں کوئی سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سورت پڑھ کر سنا دیتے تھے۔ [٢] مختلف قوموں کے خداؤں کی تعداد :۔ اَحَدٌ بمعنی لاثانی، بےنظیر، یکتا، اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گنتی میں ایک، دو ، تین کے لیے واحد، اثنین، ثلثۃ آتا ہے۔ واحد کے بجائے احد نہیں بولا جاتا۔ البتہ دو موقعوں پر احد کا لفظ واحد کا مترادف ہو کر آتا ہے۔ (١) اسمائے اعداد کی ترکیب میں جیسے احد عشر (گیارہ) احدھما (دونوں میں سے کوئی ایک۔ ) احَدٌمِّنْکُمْ (تم میں سے کوئی ایک) اَحَدُکُمْ (تمہارا کوئی ایک) یوم الاحد (اتوار) وغیرہ (٢) نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کے لیے آتا ہے جیسے لَیْسَ فِی الدَّارِ اَحَدٌ (گھر میں کوئی بھی نہیں ہے) جبکہ واحد کا لفظ عام ہے جو ماسوا اللہ کے لیے تو عام مستعمل ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صرف اس صورت میں کہ اللہ کی کوئی صفت بھی مذکور ہو جیسے ھُوَ اللّٰہ الْوَاحِدُ الْقَھَّار (١٣: ١٦) یعنی اللہ وہ ہے جو اکیلا ہے سب کو دبا کر رکھنے والا) ۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ جیسا کا مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا خدا اہرمن ہے۔ تین بھی نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور تینوں مل کر بھی ایک ہی خدا بنتا ہے۔ یا ہند وؤں کا عقیدہ ہے کہ خدا، مادہ اور روح تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں جیسا کہ ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کی تعداد شمار کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اور صرف ایک ہے۔
(١) قل ھو اللہ احد : اس کی ترکیب کئی طرح سے کی گئی ہے ، زیادہ واضح دو ہیں :(١)” ھو “ مبتدا ہے، لفظ ” اللہ “ پہلی خبر اور ” احد “ دوسری خبر۔ معنی یہ ہوگا :”(ہمارے جس رب کا نسب پوچھ رہے ہو) وہ اللہ ہے (وہ) ایک ہے۔ “ (٢) ” ھو “ مبدل منہ اور لفظ ” اللہ “ بدل، دونوں مل کر مبتدا اور ” احد “ خبر ہے۔ معنی یہ ہوگا :” وہ اللہ (جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو) ایک ہے۔ “ (٢) کائنات کے خلاق اور پروردگار کے بیشمار ناموں میں سے لفظ ” اللہ “ بطور علم یعنی اصل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، باقی نام اس کی کسی نہ کسی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی اصل ” الا لہ “ ہے،” الہ “ کا معنی معبود ہے۔ تو لفظ ” اللہ “ کا معنی یہ ٹھہرا کہ وہ خاص ہستی جو عبادت کے لائق ہے، کیونکہ اس میں کمال کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔” ھو اللہ احد “ کا معین یہ ہے کہ وہ رب جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو وہ کوئی نئی یا نامعلوم ہستی نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جسے تم بھی جانتے اور مانتے ہو ، وہی جو معبود برحق ہے اور وہ اللہ ایک ہے۔ (٣) اللہ احد : اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تین معانی ہوسکتے ہیں اور تینوں یہاں درست ہیں، پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے، دو یا تین یا زیادہ نہیں اور اس کی ذات میں تعدد نہیں، دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے، اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہوسکتی اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی، خواہ وہ مجوس (آتش پرست) ہوں، جو دو خلاق مانتے ہیں، ایک خیر کا خالق (یزداں) اور دوسرا شر کا خلاق (اہرمن) ، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں خالق (یزداں) اور دوسرا شرکا خالق (اہر من) ، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کیق ائل ہوں جو ہر چیز ہی کو اللہ مانتے ہیں، کیونکہ اگر ہر چیز ہی اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، اس میں تعدد اور کثرت نہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے عقیدہ کی بھی تردید ہوگئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیار ات کا مالک سمجھ کر مدد کے لئے پکارتے ہیں اور انہیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کیق ائل ہیں، کوئی کہتا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے غزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتیہے اور وہ ایک نہیں رہتا۔ میں نے ایک صاحب کی تقریر سنی، وہ کہہ رہے تھے :” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نور میں سے نور کس طرح جدا ہوسکتا ہے ؟ میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں، دیکھیے ! یہ ایک موم بتی جل رہی ہے، اس میں سے ایک اور موم بتی جلا لیں تو کیا پہلی کے نور میں کوئی کمی واقع ہوگی ؟ ہرگز نہیں، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں نور ہیں اور اللہ کے نور میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ “ اس بےچارے نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مثالیں بیان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : (فلا تضربوا للہ الامثال، ان اللہ یعلم و انتم لاتعلمون) (النحل : ٨٣)” پس تم اللہ کیلئے مثالیں مت بیان کرو، کیو کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “ اور نہ یہ سمجھا کہ پلہی موم بتی میں کوئی کمی ہو یا نہ ہو، دو موم بتیاں تو بن گئیں، جب کہ اللہ ایک ہے اور نہ یہ سمجھا کہ اللہ کا نور نہ کسی سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی نکلتا ہے۔ یہ عقیدہ تو بعینہ وہی عقیدہ ہے جو نصرانیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اختیار کیا۔ اسی طرح ” اللہ احد “ سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتا ہے اور دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل ہوا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ ان لوگوں نے سورة اخلصا پر غور نہ کیا کہ اس صورت میں اللہ ایک تو نہ رہا جبکہ اس کا سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اور نہ اس حدیث کے آخر پر غور کیا جس میں واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔ اگر ” من تو شدم تو من شدی “ کے مطابق اللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگے گا کون اور دے گا کون ؟ پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون ؟ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کرتے کرتے اللہ کے ساتھ اس طرح واصل ہوجاتا ہے کہ وہ وہی بن جاتا ہے، جس طرح لوہا گرم ہوتے ہوتے آگ بن جاتا ہے ۔ اس غلطی کی بنیادی وجہبھی اللہ کے لئے مخلوق کی مثالیں بیان کرنا ہے، جبکہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان بےچ اورں نے یہ نہ سوچا کہ آیت (اللہ احد) (اللہ ایک ہے) اس کی نفی کر رہی ہے، بندہ تو اللہ سے الگ ایک ذات ہے۔ مخلوق اور خالق دو ہیں ایک نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، دو ایک کیسے بن گئے ؟ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ باپ خدا، بیٹا خدا، روح القدس خدا ، مگر تین نہیں بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو ! دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو ! دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ ے اللہ کے بندو ! دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض ، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو ! دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو ! دوی ا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے لخاف جتنے عقیدے ہیں اور ان کی جتنی بھی توجیہیں کی جاتی ہیں، یہ اکیلی سورت بلکہ اس کی ایک آیت ہی ان کی تردید کے لئے کافی ہے۔ پھر اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قرآن کا ثلث (ایک تہائی) قرار دیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
Cause of Revelation Tirmidhi, Hakim and others have recorded that the pagans of Makkah asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"0 Muhammad! Tell us about the ancestry of your Lord.|" So Allah revealed this Surah. Some narratives ascribe this inquiry to the Jews of Madinah. In view of these conflicting reports, there is a divergence of opinion as to whether this is a Makki Surah or Madani Surah. According to Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud, Hasan Basri, ` Ata&, ` Ikrimah and Jabir (رض) ، the Surah is Makki and, according to Qatadah, Dahhak رحمۃ اللہ علیہما and others, it is Madani. According to one narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) ، it is Makki and, according to another, it is Madani [ Qurtubi ]. According to another narration, the pagans added to their question whether Allah was made of gold, silver or some other stuff, in response to which this Surah was revealed. Virtues of the Surah Imam Ahmad (رح) has recorded a narration in his Musnad that a person came up to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said, |"I love this Surah [ Al-Ikhlas ] immensely.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) & replied: |"Your love for it will cause you to enter Paradise.|" [ Ibn Kathir ]. Tirmidhi has recorded on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) that once the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked the people to gather and said: |"I shall recite to you a third of the Qur&an?|" When the people had congregated, he recited Surah Al-Ikhlas and said: |"This is equal to a third of the Qur&an.|" [ Muslim ]. In a lengthy Hadith, Abu Dawud, Tirmidhi and Nasa&i have recorded that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Anyone who recites Surah Al-Ikhlas and the mu&awwadhatain (i.e. the last two surahs of the Holy Qur&an) morning and evening, they shall be sufficient for him.|" In another narration, the wordings are: |"They will suffice him against every affliction.|" [ Ibn Kathir ] Imam Ahmad (رح) has recorded a narration in his Musnad on the authority of Sayyidna &Uqbah Ibn ` Amir (رض) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"I shall show you three such Surahs that are revealed in Torah, Injil, Zabur and the Qur&an. Do not sleep at night until such time that you have recited them. They are Surah A1-Ikhlas and the mu&awwadhatain.|" Sayyidna &Uqbah Ibn ` Amir (رض) says that since I have heard this, I did not miss reciting them. [ Ibn Kathir ]. Oneness of Allah Verse [ 112:1] قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ Say, (The truth is: Allah is One.) The imperative qul (Say) is directly addressed to the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، thus indicating that he is Allah&s Prophet and Messenger. This verse directs and commands him to convey Allah&s message to mankind. &Allah& is the personal name of that Necessary Being Whose non-existence is inconceivable. He comprises all the attributes of perfection and is free from, or above, or overrides all kinds of imperfections. The epithets ahad and wahid are both applied to Allah which are normally translated as &One& but the word ahad includes an additional sense which signifies that Allah is beyond composition, plurality and resemblance, which means that He is neither composed of any elements, nor does He has any partner, nor has He any resemblance to anything. This is a response to those who asked about Allah whether He is made of gold or silver or pearls. This concise statement covers all aspects of discussion on the Divine Being and His attributes. The imperative qul [ say ] points to the messenger-ship of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . If analyzed properly, this brief sentence covers all the detailed discussions expounded in voluminous books of theology.
خلاصہ تفسیر (اس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے آپ سے کہا کہ اپنے رب کی صفات اور نسب بیان کیجئے اس پر یہ سورت نازل ہوئی، کذافی الدور المنثور باسانید متعددہ) (آپ ان لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ وہ یعنی اللہ (اپنے کمال ذات وصفات میں) ایک ہے (کمال ذات یہ ہے کہ واجب الوجود ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور کمال صفات یہ کہ علم قدرت وغیرہ اس کے قدیم اور محیط ہیں اور) اللہ بےنیاز ہے (یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے سبب محتاج ہیں) اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔ معارف و مسائل شان نزول :۔ ترمذی حاکم وغیرہ کی روایت میں ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کا نسب پوچھا تھا ان کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ دوسری بعض روایات میں یہ سوال یہود مدینہ کی طرفم نسوب کیا ہے اسی لئے اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسنب صری، عطار، عکرمہ، جابر (رض) نے اس کو مکی کہا ہے اور قتادہ، ضحاک وغیرہ نے مدنی، حضرت ابن عباس کے دو قول منقول ہیں (قرطبی) بعض روایات میں ہے کہ مشرکین کے سوال میں یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کس چیز کا بنا ہوا ہغے سونا چاندی یا اور کچھ، ان کے جاب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ فضائل سورت :۔ امام احمد نے حضرت انس سے روایت کیا ہے غ کہ ایک شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے اس سورت (یعنی سورة اخلاص) سے بڑی محبت ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی محبت نے تمہیں جنت میں داخل کردیا (ابن کثیر) ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ سب جمع ہوجاؤ میں تمہیں ایک تہائی قرآن سنائیں گا جو جمع ہو سکتے تھے جمع ہوگئے تو آپ تشریف لائے اور قل ہو اللہ احد الخ کی قرات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کی برابر ہے (رواہ مسلم فی صحیحہ) ابوداؤ، ترمذی، نسائی نے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص صبح اور شام قل ھو اللہ احد اور معوذتین پڑھ لیا کرے تو یہ اس کے لئے کافی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ اس کو ہر بلا سے بچانے کے لئے کافی ہے (ابن کثیر) امام امد نے حضرت عقبہ ابن عامر سے رایت کیا ہغے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم کو ایسی تین سورتیں بتاتا ہوں کہ جو تو رات، انجیل، زبور اور قرآن سب میں نازل ہوئی ہیں اور فرمایا کہ رات کو اس وقت تک نہ سوؤ جب تک ان تنیوں (معوذتین اور قل ہو اللہ احد) کو نہ پڑھ لو۔ حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ اس وقت سے میں نے کبھی ان کو نہیں چھوڑا (ابن کثیر) قل ھو اللہ احد لفظ قل میں اشارہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی طرف کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا حکم ہو رہاے اور لفظ اللہ اس ذات کا نام ہے جو واجب الودود ہی اور تمام کمالات کا جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے۔ احد اور واحد ترجمہ تو دونوں کا ایک ہی کیا جاتا ہے مگر مفہوم کے اعتبار سے لفظ احد کے معنے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ترکیب اور تزیہ سے اور تعدد سے اور کسی چیز کی مشابہت اور مشاکلت سے پاک ہے یعنی وہ کسی ایک یا متعدد مادوں سے نہیں بنا، نہ اس میں تعدد کا کوئی امکان ہے نہ کسی کے مشابہ ہے، یہ جواب ہوگیا ان لوگوں کا جو اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ سونے چاندی کا ہے یا کسی جوہر کا۔ اس ایک مختصر جملہ میں ذات وصفات کے سب مباحث آگئے اور لفظ قل میں نبوت و رسالت کا مسئلہ آ گیا، اس میں غور کرو تو یہ ایک مختصر جملہ ان عظیم الشان مباحث کو حاوی میں جو بڑی بڑی جلدوں میں لکھے جاتے ہیں۔
قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ ١ ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : يقال للدّلالة علی الشیء نحو قول الشاعر : امتلأ الحوض وقَالَ قطني الخامس : يقال للعناية الصادقة بالشیء، کقولک : فلان يَقُولُ بکذا . السادس : يستعمله المنطقيّون دون غيرهم في معنی الحدّ ، فيقولون : قَوْلُ الجوهر كذا، وقَوْلُ العرض کذا، أي : حدّهما . السابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفتہ ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ الرجز ) ( 324 ) امتلاالحوض وقال قطنی حوض بھر گیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے ( 5 ) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے فلان یقول بکذا فلان اس کا صدق دل سے خیال رکھتا ہے ( 6 ) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے جیسے قول اجواھر کزا ۔ وقول العرض کزا یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ ہے ( 7 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔
(1 ۔ 4) قریش نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے اللہ کے بارے میں کچھ بیان کرو کہ وہ سونے کا ہے یا چاندی کا اس پر یہ سورت نازل ہوئی کہ قریش سے فرما دیجیے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ اور وہ ایسا سردار ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں یا یہ کہ وہ کھانے پینے سے بےنیاز ہے یا یہ کہ اس کا پیٹ نہیں، یا یہ مطلب ہے کہ اس کی ذات ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے یا یہ کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور سب کو کافی ہے اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے کہ وراثت میں ملک ملا ہو اور نہ کوئی بادشاہت میں، یا یہ کہ صفات میں اس کے برابر ہے۔ شان نزول : سورة اخلاص ترمذی، حاکم اور ابن خزیمہ نے ابوالعالیہ کے طریق سے محمد بن کعب سے روایت کیا ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے پروردگار کا نسب بیان کریں اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور طبرانی اور ابن جریر نے جابر کی روایت سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس روایت سے سورت کے مکی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔ اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہود حضور کے پاس آئے جن میں کعب بن اشرف اور یحییٰ بن اخطب تھا اور کہنے لگے اپنے پروردگار کی صفت بیان کریں اور ابن المنذر نے قتادہ سے اور ابن جریر نے سعید بن جبیر سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس سے اس سورت کے مدنی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔ اور ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ قتادہ نے بیان کیا کہ مختلف لوگوں نے کہا کہ اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو چناچہ آپ کے پاس جبریل یہ سورت لے کر آئے اور ابی بن کعب کی روایت میں جو مشرکین کا لفظ آیا ہے اس سے یہی مراد ہیں یہ سورت مدنی ہے جیسا کہ ابن عباس (رض) کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے اور دونوں روایتوں میں جو اختلاف ہو رہا تھا وہ ختم ہوگیا مگر ابوالشیخ نے کتاب الفقہ میں ابان کے واسطہ سے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ خیبر کے یہودی حضور کی خدمت میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ابوالقاسم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حجاب کے نور سے اور آدم کو کھکھناتی مٹی سے اور ابلیس کو دہکتی ہوئی آگ سے اور آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے پیدا کیا ہے تو آپ اپنے پروردگار کے بارے میں بتائیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ جبریل امین یہ سورت لے کر آئے۔
آیت ١{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ } ” کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔ “ اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی اکیلا ربّ ہے ‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق ‘ مالک الملک اور نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے۔
1 The first addressee of this Command is the Holy Prophet (upon whom be peace) himself for it was he who was asked: "Who is your Lord and what is He like? Again it was he who was commanded to answer the question in the following words. But after him every believer is its addressee. He too should say what the Holy Prophet had been commanded to say. 2 That is, "My Lord to Whom you want to be introduced is none but Allah." This is the first answer to the questions, and it means: "I have not introduced a new lord who I want you to worship beside all other gods, but it is the same Being you know by the name of Allah." "Allah" was not an unfamiliar word for the Arabs. They had been using this very word for the Creator of the universe since the earliest times, and they did not apply this word to any of their other gods. For the other gods they used the word ilah. Then their beliefs about Allah had become fully manifest at the time Abraha invaded Makkah. At that time there existed 360 idols of gods (ilahs) in and around the Ka`bah, but the polytheists forsaking all of them had invoked only Allah for protection. In other words, they knew in their hearts of hearts that no ilah could help them on that critical occasion except Allah. The Ka`bah also was called Bait-Allah by them and not Bait-ilahs after their self-made gods. At many places in the Qur'an the polytheistic Arabian belief about AIIah has been expressed, thus: In Surah Az-Zukhruf it has been said: "If you ask them who created them, they will surely say, 'Allah'." (v. 87) In Surah Al-`Ankabuu: "If you ask them, `Who has created the earth and the heavens and Who has subjected the moon and the sun?' they will surely say: Allah ... And if you ask them, `Who sent down rainwater from the sky and thereby raised the dead earth back to Iife?' they will surely say: `Allah'." (vv. 61-63) In Surah Al-Mu'minun: "Say to them, `Tell me, if you know, whose is the earth and all who dwell in it?' They will say, `Allah's'... say to them, `To Whom do the seven heavens and the Glorious Throne belong?' They will say, `To Allah'... Say to them, `Tell me, if you know, Whose is the sovereignty over everything? And Who is that Being Who gives protection while none else can give protection against Him?' They will surely reply, `This power oolongs to Allah'." (vv. 8489) . In Surah Yunus: "Ask them: Who provides for you from the heavens and the earth? Who has power over the faculties of hearing and sight? Who brings forth the living from the dead and the dead from the living? Who directs the system of the universe? They will surely reply, `Allah'." (v. 31) Again in Surah Yunus at another place: "When you set sails in ships, rejoicing over a fair breeze, then all of a sudden a strong wind begins to rage against the passengers and waves begin to surge upon them from every side and they realize that they have been encircled by the tempest. At that time they pray to Allah with sincere faith, saying: `If thou deliverest us from this peril, we will become Thy grateful servants.' But when He delivers them, the same people begin to rebel on the earth against the Truth." (w. 22-23) The same thing has been reiterated in Surah Bani Isra'il, thus: "When a misfortune befalls you on the sea, all of those whom you invoke for help tail you but He (is there to help you) , yet when He brings you safe to land, you turn away from Him." (v. 67) Keeping these verses in view, let us consider that when the people asked: "Who is your Lord and what is He like to Whose service and worship you call us?" the answer given was "Huwa Allah: He is Allah." This answer by itself gives the meaning: "My Lord is He Whom you yourself acknowledge as your own as well as the whole world's Creator, its Master, Sustainer and Administrator, and He Whom you invoke for help at critical times beside all other deities, and I invite you to His service alone." This answer comprehends all the perfect and excellent attributes of Allah. Therefore, it is not at all conceivable that the Creator of the universe, its Administrator and Disposer of its affairs, Sustainer of all the creatures living in it, and the Helper of the servants in times of hardship, would not be living, hearing and seeing, that He would not be an All-Powerful, All-Knowing, All-Wise, All-Merciful and All-Kind Sovereign. 3 The scholars have explained the sentence Huwa-Allah Ahad syntactically, but in our opinion its explanation which perfectly corresponds to the context is that Huwa is the subject and Allahu its predicate, and Ahad-un its second predicate. According to this parsing the sentence means: "He (about Whom you are questioning me) is Allah, is One and only one. Another meaning also can be, and according to language rules it is not wrong either: "He is AIIah, the One." Here, the first thing to be understood is the unusual use of ahad in this sentence. Usually this word is either used in the possessive case as yaum ul-ahad (first day of the week) , or to indicate total negative as Ma ja a a-ni ahad-un (No one has come to me) , or in common questions like Hal `indaka ahad-un (Is there anyone with you?) , or in conditional clauses like Inja'a-ka ahad-un (If someone comes to you) , or in counting as ahad, ithnan, ahad ashar (one, two, eleven) . Apart from these uses, there is no precedent in the pre-Qur'anic Arabic that the mere word ahad might have been used as an adjective for a person or thing. After the revelation of the Qur'an this word has been used only for the Being of Allah, and for no one else. This extraordinary use by itself shows that being single, unique and matchless is a fundamental attribute of Allah; no one else in the world is qualified with this quality: He is One, He has no equal. Then, keeping in view the questions that the polytheists and the followers of earlier scriptures asked the Holy Prophet (upon whom be peace) about his Lord, let us see how they were answered with ahad-un after Huwa-Allah. First, it means: "He alone is the Sustainer: no one else has any share or part in providence. and since He alone can be the Itch (Deity) Who is Master and Sustainer, therefore, no one else is His associate in Divinity either." Secondly, it also means "He alone is the Creator of the universe: no one else is His associate in this work of creation. He alone is the Master of the universe, the Disposer and Administrator of its system, the Sustainer , of His creatures, Helper and Rescuer in times of hardship; no one else has any share or pan whatever in the works of Godhead, which as you yourselves acknowledge, are works of Allah. Thirdly since they had also asked the questions: of what is your Lord made? what is His ancestry? What is his sex? From whom has He inherited the world and who will inherit it after Him? -all these questions have been answered with one word ahad for AIIah. It means: (1) He alone has been, and will be, God for ever; neither was there a God before Him, nor will there be any after Him; (2) there is no race of gods to which He may belong as a member: He is God, one and single, and none is homogeneous with Him; (3) His being is not merely One ( wahid but ahad, in which there is no tinge of plurality in any way: He is not a compound being, which may be analysable or divisible. which may have a form and shape, which may be residing somewhere, or may contain or include something, which may have a colour, which may have some limbs, which may have a direction, and which may be variable or changeable in any way. Free from every kind of plurality He alone is a Being Who is Ahad in every aspect. (Here, one should fully understand that the word wahid is used in Arabic just like the word "one" in English. A collection consisting of great pluralities is collectively called wahid or one, as one man, one nation, one country, one world, even one universe, and every separate part of a collection is also called one. But the word Ahad is not used for anyone except Allah. That is why wherever in the Qur'an the word wahid has been used for Allah, He has been called Itah wahid (one Deity) , or Allah-ulWahid-al-Qahhar. (One Allah Who is Omnipotent) , and nowhere just wahid, for this word ' is also used for the things which contain pluralities of different kinds in their being. On the contrary, for Allah and only for Allah the word Ahad has been used absolutely, for He alone is the Being Who exists without any plurality in any way, Whose Oneness is perfect in every way.
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 1 اس حکم کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے ، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں ۔ لیکن حضور کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے ۔ اسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 2 یعنی میرے جس رب سے تم تعارف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے ۔ یہ ان سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا رب لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر میں تم سے کروانا چاہتا ہوں ، بلکہ وہ وہی ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو ۔ اللہ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا ۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے ۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں الہ کا لفظ رائج تھا ۔ پھر اللہ کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا جب ابرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی ۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360 الہوں کے بت موجود تھے ، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے ۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا ۔ کعبے کو بھی وہ ان الہوں کی نسبت سے بیت الآلہہ نہیں ، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیت اللہ کہتے تھے ۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا ، مثال کے طور پر: سورہ زخرف میں ہے : اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( آیت 87 ) سورہ عنکبوت میں ہے: اگر تم سے ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے: ( آیات 61 تا 63 ) سورہ مومنون میں ہے: ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔ ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ( آیات 84 تا 89 ) سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ان سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں جو تمہیں حاصل ہیں کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( آیت 31 ) اسی سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر باد موافق پر فرحان و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے ، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے ۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ( آیات 22 ۔ 23 ) یہی بات سورہ بنی اسرائیل میں یوں دہرائی گئی ہے: جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ( آیت 67 ) ان آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا هُوَ اللّٰهُ ، وہ اللہ ہے ۔ اس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر و منتظم مانتے ہو ، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا رب ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ، اس جواب میں اللہ تعالی کی تمام صفات کمالیہ آپ سے آپ آ جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابل تصور ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا ، اس کا انتظام اور اس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا ، اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا ، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو ، سنتا اور دیکھتا نہ ہو ، قادر مطلق نہ ہو ، علیم اور حکیم نہ ہو ، رحیم اور کریم نہ ہو ، اور سب پر غالب ہو ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 3 نحوی قواعد کی رو سے علماء نے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں ، مگر ہمارے نزدیک ان میں سے جو ترکیب اس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مبتداء ہے ، اللہ اس کی خبر ہے اور اَحَدٌ اس کی دوسری خبر ، اس ترکیب کے لحاظ سے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ( جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو ) اللہ ہے ، یکتا ہے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس جملہ میں اللہ تعالی کے لیے لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ معمولا یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، جیسے یوم الاحد ، ہفتے کا پہلا دن ، اور فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اپنے کسی آدمی کو بھیجو یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ما جاء نی احد میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے ، جیسے ھل عندک احد؟ کیا تمہارے پاس کوئی ہے ؟ یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے ، جیسے ان جاء ک احد ، اگر تمہارے پاس کوئی آئے ۔ یا گنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے احد ، اثنان ، احد عشر ، ایک ، دو گیارہ ، ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو ، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے ، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے ، وہ ایک ہے ، کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ پھر جو سوالات مشرکین اور اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے رب کے بارے میں کیے تھے ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ هُوَ اللّٰهُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر ان کا جواب کس طرح دیا گیا ہے: اولا ، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا رب ہے ، کسی دوسرے کا ربوبیت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اور چونکہ الہ ( معبود ) وہی ہوسکتا ہے جو رب ( مالک و پروردگار ) ہو ، اس لیے الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ثانیا ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے ، تخلیق کے اس کام میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے ۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے ، نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے ، اپنی مخلوق کا رزق رساں ہے ، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے ، خدائی کے ان کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ ثالثا ۔ چونکہ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جنس سے ہے؟ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟ اس لیے ان کو ان سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالی کے لیے صرف ایک لفظ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ( ۱ ) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، نہ اس سے پہلے کوئی خدا تھا ، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہوگا ( ۲ ) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو ، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اس کا ہم جنس نہیں ( ۳ ) اس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ، وہ اجزاء سے مرکب وجود نہیں ہے جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو ، جو کوئی شکل و صورت رکھتا ہو ، جو کسی جگہ میں رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو ، جس کا کوئی رنگ ہو ، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو ، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوتا ہو ۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور منزہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں واحد کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ایک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے ، جیسے ایک آدمی ، ایک قوم ، ایک ملک ، ایک دنیا ، حتی کہ ایک کائنات ، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے ۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد ، ایک ہی معبود ، یا اللہ الواحد القھار ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے ، کہا گیا ہے ۔ محض واحد نہیں کہا گیا ، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں ، بخلاف اس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے ، جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے ) ۔
1: بعض کافروں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ اس کا حسب نسب بیان کر کے اُس کا تعارف تو کرائیے۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی و طبرانی وغیرہ) 2: یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’احدٌ‘‘ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ’’ایک‘‘ کا لفظ اس کے پورے معنیٰ ظاہر نہیں کرتا۔ ’’ہر لحاظ سے ایک‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اُس طرح ایک ہے کہ اُس کے نہ اجزا ہیں، نہ حصے ہیں، اور نہ اُس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے، اور اپنی صفات میں بھی۔
١۔ ٤۔ مسند امام احمد ترمذی تاریخ بخاری ابن خزیمہ مستدرک حاکم مسند ابو یعلیٰ میں ابی بن کعب اور جابر سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کی صفت پوچھی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی۔ اس شان نزول کی روایتوں میں بعضی روایتوں کی سند معتبر ہے اور باقی روایتوں کی تقویت ان معتبر اسناد کی روایتوں سے ہوجاتی ہے یہود حضرت عزیز کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا اور عرب کے مشرک لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اس لئے ان سب کو جھٹلایا اور فرمایا کیا اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ کھانے پینے ‘ بی بی بچے کسی چیز کا وہ حاجت مند نہیں ہے وہ سب چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور سب چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں خالق اور مخلوق میں وہ مناسبت کہاں کہ کوئی اس کی بی بی ہو اور کوئی اس کی اولاد۔ بعض سلف نے لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد کو لفظ صمد کی تفسیر ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں معنے سورة کے یہ ہوئے کہ اللہ وحدہ لاشریک صمد ہے کہ نہ تو مثلاً مریم (علیہا السلام) کی طرح ہے جن کے پیٹ سے عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ہے جو خود مریم (علیہا السلام) کے بیٹے ہیں اور ان کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں بلکہ وہ تو ایسا بےنظری اور بےمثال ہے کہ مخلوق بھر میں نہ کوئی اس کا نظیر ہے نہ کسی میں اس کی بی بی بچہ ہونے کی صلاحیت ہے۔ یہ تفسیر بہت صحیح ہے کیونکہ اس کی پوری تائید اس حدیث قدسی سے ہوتی ہے جو صحیح ١ ؎ بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے اوپر گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے گویا مجھ کو گالی دی کہ مجھ کو صاحب اولاد ٹھہرایا حالانکہ میں تو صمد ہوں پھر صمد کی تفسیر ان ہی لفظوں سے فرمائی جو لفظ اس صورت میں فرمائے گئے ہیں انکا حاصل یہ ہے کہ کھانا پینا صاحب اولاد ہونا یہ مخلوقات کی شان ہے جن کے پیچھے انہی باتوں کی طرح موت بھی لگی ہوئی ہے اور موت کے پیچھے ان کے وارث ان کے قائم مقام بنتے ہیں۔ اللہ کی ذات ان سب باتوں سے پاک ہے چناچہ سورة قصص میں فرمایا کل شی ھالک الا وجھہ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سوا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے اور سب مخلوقات فنا ہونے والی ہے اور سورة نحل میں فرمایا وللہ المثل الاعلیٰ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات مخلوقات کی ذات اور صفات سے بالکل نرالی اور الگ ہیں اور سورة مریم میں فرمایا انا نحن نرث الارض ومن علیھا والینا یرجعون جس کا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور سے زمین کی جائیداد مکانات وغیرہ کے جو لوگ دنیا کے ختم ہونے تک مالک اور وارث بن رہے ہیں یہ مٹ کر خاک ہوجائیں گے اور سب مالکیت وراثت آخر ہماری طرف پھرے گی اور مخلوقات فنا ہوجانے کے بعد لمن الملک الیوم کے سوال کا جواب دینے والا روئے زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا غرض جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا حال اس حد سے بڑھ کر کچھ معلوم نہیں ہے جو حد ہر زمانہ کی شریعت نے ٹھہرا دی ہے تو انکار شریعت کے سبب سے عرب کے مشرک لوگوں نے اور شریعت کے بدل ڈالنے کے سبب سے اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد جو ٹھہرایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں اتنے بڑے ایک عیب اور بٹا لگانے کی بات تھی جیسے کسی کو گالی دی اسی واسطے حدیث قدسی میں فرمایا بنی آدم نے مجھے گالی دی کہ مجھ کو صاحب اولاد ٹھہرایا۔ اور سورة مریم میں فرمایا وقالوا اتخذالرحمن ولد القد جثتم شیئا ادا تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اور مخلوقات کی مانند سمجھ کر صاحب اولاد ٹھہرانے کی بات کچھ ایسی چھوٹی بات نہیں تھی کہ جس کو سن کر آسمان و زمین و پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ جاتے بلکہ یہ اتنی بڑی بات تھی کہ جس کے وبال سے قیامت کی سی ہلچل پڑ کر آسمان و زمین پھٹ جاتے اور پہاڑ ٹوٹ کر چورا ہوجاتے اور تمام دنیا ادھر کی ادھر ہوجاتی تو کچھ عجب نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں دنیا کے چلنے کی ایک مدت قرار دے دی ہے اس لئے اس نے اپنے تحمل سے اس بات کے وبال کو وقت مقررہ پر رکھا۔ صحیح و مسلم ١ ؎ وغیرہ ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جیسا تحمل اس کی سی بردباری کسی میں بھی نہیں ہے لوگوں نے اس کو صاحب اولاد ٹھہرایا ‘ اور اس نے ان کو دنیا میں آباد رکھا اجاڑا نہیں بلکہ ان کے رزق اور ہر طرح کے آرام کی بھی وہی حالت قائم رکھی جیسے کہ تھی۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کچھ صحابہ ایک لڑائی پر بھیجے گئے تھے انہوں نے اپنی واپسی کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ راستہ بھر جن صحابی کو ہم نے اپنا امام بنایا تھا وہ ہر نماز میں قل ھو اللہ احد ضرور پڑھا کرتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صحابی سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سورة میں اللہ کی توحید ہے اس لئے میں اس کی قرأت کو بہت عزیز جانتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو اللہ تجھ کو بھی عزیز رکھے گا اس کے قریب بخاری ٣ ؎ وغیرہ میں انس کی روایت ہے صحیح مسلم میں ٤ ؎ ابودردا سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورة کو تیسرا احصہ قرآن فرمایا ہے۔ امام نووی ٥ ؎ نے کہا کہ قرآن میں توحید احکام اور پچھلے قصے یہ تین چیزیں ہیں قل ھو اللہ میں ان تین میں سے ایک چیز توحید پوری ہے اس لئے اس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کا تیسرا حصہ فرمایا ترمذی ٦ ؎ میں ابو ایوب انصاری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے قل ھو اللہ احد کی سورة پڑھی اس نے گویا قرآن کا تیسرا حصہ پڑھا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اسی طرح ترمذی ٧ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے ہوئے سن کر اس شخص کے حق میں فرمایا کہ اس کو جنت ضرور ملے گی ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے یہ حدیث موطا نسائی اور مستدرک حاکم میں بھی ہے اور حاکمنی بھی اس کو صحیح کہا ٨ ؎ ہے سوا ان حدیثوں کے اس سورة کی فضیلت میں اور بھی حدیثیں ہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة اخلاص ص ٧٤٤ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب الصبر والاذیٰ ص ٩٠١ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل قراءۃ قل ھو اللہ احد ص ٣٧١ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری۔ باب الجمع بین السورتین فی رکعۃ الخ ص ١٠٦ ج ١۔ ) (٤ ؎ ایضاً ) (٥ ؎ ایضاً ) (٦ ؎ جامع ترمذی۔ باب ماجاء فی سورة الاخلاص ص ١٣٣ ج ٢) (٧ ؎ ایضاً ) ٨ ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی قراءۃ قل ھو اللہ احد ص ٦٤٤ ج ٢۔
(112:1) قل ھو اللہ احد : قل فعل امر واحد مذکر حاضر، ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ دے (ان کافروں سے) ھو اللہ احد : ھو ضمیر شان مبتداء ہے اور آئندہ جملہ (اللّٰہ احد) اس کی خبر۔ (روح المعانی و تفسیر مظہری) صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں : ھو ضمیر شان مبتداء ہے اور آئندہ جملہ اس کی خبر ہے اس صورت میں مرجع کی ضرورت نہیں ہے یا ھو ضمیر ہے اور اس رب کی طرف راجع ہے جس کے اوصاف سوال کرنے والوں نے پوچھے تھے۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو کہ میرے رب کے اوصاف جو تم پوچھتے ہو تو وہ اللہ ایک ہے۔ احد بدل ہے اللہ سے۔ یا ھو کی دوسری خبر ہے۔ احد اصل میں وحد تھا۔ وحد اور واحد دونوں ہم معنی ہیں۔ اگر ھو کو ضمیر شان اور اللہ کو مبتداء اور احد کو خبر کہا جائے تو کلام کی صحت ظاہری معنی پر مبنی نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ جزئی حقیقی کا نام ہے اور جزئی حقیقی میں یہ احتمال ہی نہیں ہوتا کہ چند اشخاص پر اس کا اطلاق ہو سکے۔ (مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر مظہری جلد دواز دہم) ترجمہ ہوگا :۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجئے اللہ یگانہ (یکتا) ہے۔
سورة الاخلاص۔ آیات ١ تا ٣۔ اسرار ومعارف۔ کہہ دیجئے کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام کمالات کا جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے اس جیسا کوئی دوسرا نہیں جس کی سب مخلوق محتاج ہے مگر وہ کسی کا محتاج نہیں اسے مخلوق پر قیاس تک نہیں کیا جاسکتا کہ نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ کوئی اس کی وہ ایسا نہیں جو نسب سے وجو دمیں آئے نہ کوئی اس کا مثل ہے نہ اس سے مشابہہ ہے اس کے ساتھ کسی طرح بھی ذات یا صفات میں کسی کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 احد : ایک ، الصمد : بےنیاز۔ کسی کا محتاج نہیں ، لم یلد : اس نے کسی کو نہیں جنا ، لم یولد : نہ کسی نے اس کو جنا، کفوا : برابر ، احد : کوئی ایک تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 سورة زخرف ، سورة عنکبوت، مومنون ، سورة یونس ، سورة بنی اسرائیل اور قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور کفار سے یہ سوال کیا ہے کہ بتائو زمین وآسمان کا مالک کون ہے ؟ چاند اور سورج کس کے حکم سے چل رہے ہیں ؟ وہ کون ہے جو بلندیوں سے پانی برسا کر مردہ زمین میں ایک نئی زندگی پیدا کردیتا ہے ؟ عرش عظیم کا مالک و مختار کون ہے ؟ کائنات میں ہر چیز کس کے حکم سے چل رہی ہے ؟ وہ کون سی ذات ہے جس کے تم محتاج ہو ؟ یہ دیکھنے، سننے، سمجھنے، سوچنے اور فیصلے کی طاقت کس ذات نے عطا کی ہے ؟ زندگی اور موت کس کے ہاتھ میں ہے ؟ فرمایا کہ جب تم دریا یا سمندر کے بھنور میں پھنس جاتے ہو اور وہاں بےبسی کے عالم میں ہوتے ہو تو تم کس کو پکارتے ہو ؟ کون تمہاری فریاد کو سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو اس کائنات کا خالق ومالک اور مختار ہے۔ وہ اس کائنات کا نظام چلانے میں کسی کا محتاج ہے۔ فرمایا کہ جب تم بھی کسی مشکل میں پھنس جاتے ہو تو ایک اللہ ہی کو یاد کرتے ہو پھر تم عام زندگی میں الٹے کیوں چل رہے ہو ؟ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اللہ کی ذات اور صفات کو بیان فرماتے تھے تو کفار ومشرکین مکہ نے بھی آپ سے بہت سے سوالات کئے تھے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا کہ اے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ نے فرشتوں کو نور سے، حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی اور سڑے ہوئے گارے سے بنایا۔ ابلیس کو آگ کے شعلے سے، آسمان کو دھویں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے پیدا کیا ہے۔ اپنے رب سے متعلق بتائیے جس نے آپ کو بھیجا ہے کہ (وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے) یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے پھر حضرت جبرئیل سورة اخلاص کی آیات لے کر نازل ہوئے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس سے بھی اسی طرح کی ملتی جلتی روایت نقل کی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہودیوں کا ایک گروہ جس میں کعب ابن اشرف، حی ابن اخطب بھی شامل تھا انہوں نے پوچھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں بتائیے کہ آپ کا رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔ اسی پر اللہ تعالیٰ نے سورة اخلاص کو نازل فرمایا جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ ایک ہے یعنی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہی تنہا معبود ہے، سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی چیز میں بھی دوسروں کا محتاج نہیں ہے نہ وہ اپنے پیدا ہونے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ نہ اس کے کوئی بیٹا ہے نہ کوئی کسی اعتبار سے اس کے برابر ہے۔ یعنی اس کا نہ کوئی مثیل ہے اور نہ مثال ہے۔ اللہ الصمد : اللہ بےنیاز ہے۔ دنیا میں جتنے بھی جان دار ہیں وہ اپنی بقاء کے لئے کائنات کی ہر چیز کے محتاج ہیں۔ مثلاً پانی، ہوا، مٹی ، آگ، زمین و آسمان، سورج، چاند، رزق، علم، اولاد، سونا اور جاگنا لیکن اللہ کی ذات وہ ہے جو ان میں سے کسی چیز کی محتاج نہیں ہے بلکہ سب اس کے ہی محتاج ہیں۔ وہ سب کو کھلاتا ہے خود نہیں کھاتا نہ اس کو نیند آتی ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے ، یعنی ہر ایک اس کا محتاج ہے لیکن وہ کسی کا کسی طرح محتاج نہیں ہے۔ صحابہ کرام (رض) اور ان کے بعد آنے والے حضرات نے الصمد کا مفہوم یہ بیان کیا ہے۔ (1) جو سب سے بےنیاز ذات ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں۔ (حضرت ابوہریرہ (رض) (2) اللہ وہ ذات ہے جس میں سے نہ کوئی چیز نکلتی ہے اور نہ وہ کھانے پینے کا محتاج ہے۔ (حضرت عکرمہ (رض) (3) وہ جو اپنی ذاتی صفات اور اعمال میں کامل ہے۔ (حضرت سعید ابن جبیر (رض) (4) وہ جو ہر طرح کے عیبوں سے پاک ہے۔ (مقاتل ابن حیان) (5) وہ جو باقی رہنے والا ہے اور جسے زوال نہیں ہے۔ (حضرت حسن بصری (رض) ، حضرت قتادہ (رض) (6) اللہ وہ ہے جو اپنی مرضی سے جو چاہے فیصلے کرتا ہے۔ وہ جب چاہے جو کچھ چاہے کرتا ہے۔ اس کے حکم اور فیصلوں پر کوئی نظرثانی کرنے والا نہیں ہے (مراۃ الھمدان) (7) وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لئے رجوع کرنے والے ہوں۔ (حضرت ابن مسعود (رض) (8) وہ جس سے بالاتر کوئی نہ ہو۔ (حضرت علی (رض) (9) وہ جو اپنی سرداری، سیادت، علم اور حخمت میں کامل ہو۔ (حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) (10) وہ ہے جو کسی مصیبت کے وقت اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ (حضرت ابن عباس (رض) لم یلد و لم یولد : نہ وہ پیدا کرتا ہے نہ وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق عربوں میں اور ساری دنیا میں عجیب و غریب تصورات تھے جن کی قرآن کریم نے بھرپور انداز سے تردید فرمائی ہے۔ (1) عرب کے لوگ فرشتوں کے متعلق کہتے تھے ( نعوذ باللہ) وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ (2) وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے تھے کہ آپ جس کی طرف بلا رہے ہیں تو اس اللہ کی نسبت کیا ہے ؟ اس نے کس سے میراث پائی ہے ؟ اور اس کے بعد اس کا وارث کون ہوگا ؟ (3) وہ سمجھتے تھے کہ وہ جس کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی قرار دے رہے ہیں وہ اللہ کی نسبی اولاد ہیں۔ (4) کسی نے جنوں کو اللہ کا شریک، عالم الغیب اور رشتہ دار سمجھ رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کفار و مشرکین کے ان عقیدوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہ تو اس کائنات کے نظام کو چلانے میں کسی کا محتاج ہے نہ اس کے بیٹا اور بیٹیاں ہیں۔ نہ اس کا کوئی وارث ہے اور نہ اس کو کسی کی میراث ملی ہے۔ اللہ نے ان کی تمام غلط باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ ان باتوں سے بلندو برتر ہے جو لوگ اس کی ذات کی طرف ان باتوں کو منسوب کرتے ہیں درحقیقت وہ گمراہ ہیں اور ان کو راہ ہدایت کو اختیار کرنا چاہیے۔ لم یکن لہ کفوا احد : ہم کفو اس کو کہتے ہیں جو رتبہ میں کسی کے برابر ہو۔ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح اس کے نہ تو بیٹا ہے نہ بیٹی اسی طرح کوئی اس کے برابر بھی نہیں ہے یعنی وہ کسی بیوی کا بھی محتاج نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے، بےنیاز ہے ونہ وہ کسی کا باپ ہے نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ اس سورت کے فضائل : حضرت امام احمد (رح) نے حضرت عقبہ ابن عامر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں تین ایسی سورتیں بتاتا ہوں جو توریت ، زبور، انجیل اور قرآن سب میں نازل ہوئی ہیں۔ فرمایا کہ تم رات کو اس وقت تک نہ سوئو جب تک ان تین سورتوں کو نہ پڑھ لیا کرو۔ سورة اخلاص، سورة الفلق اور سورة الناس۔ حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کبھی ان تین سورتوں کو نہیں چھوڑا۔ (ابن کثیر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ یہ سورة اخلاس ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ (بخاری۔ مسلم، ترمذی، ابودائود) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سورت کو پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
3۔ کمال ذات یہ کہ واجب الوجود ہے اور کمال صفات یہ کہ علم وقدرت وغیرہ اس کے قدیم اور محیط ہیں۔
فہم القرآن ربط سورت : الاخلاص سے پہلے سورت اللّہب ہے جس میں توحید کے مخالفین میں سے ایک بڑے مخالف کی ہلاکت و بربادی کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ بالآخر دعوت توحید کے مخالف مٹ جائیں گے اور توحید خالص کا پرچار اور غلغلہ ہوگا۔ مفسرین نے اس سورت کے اور بھی نام تحریر فرمائے ہیں لیکن اس کا سب سے مشہور اور معتبر نام ” الاخلاص “ ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد اور قرآن کی مرکزی دعوت توحید ہے اسی لیے قرآن مجید کا آغاز فاتحہ سے ہوا جس کی ابتداء توحید سے کی گئی ہے اور قرآن مجید کا اختتام بھی توحید کی سورتوں سے کیا گیا ہے۔ اس سورت کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قریش کے کچھ افراد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار کیا (عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّکَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ، اللَّہُ الصَّمَدُ ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ) (رواہ احمد : مسند ابی بن کعب) ” ابو العالیہ، ابی بن کعب سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جس رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب نامہ کیا ہے تاکہ ہمیں اس کی پہچان ہوجائے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں، آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل و صورت اور حسب نسب کیا ہے ؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ “ یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اور نظریات کے مطابق ” اللہ “ کی توحید کو ماننے اور اس کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن شرک میں ملوث لوگ توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حالانکہ قرآن مجید اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت توحید خالص ہے جسے اس سورت میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص ذاتی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر توحید خالص کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح، مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحید خالص بیان کرنے کے ساتھ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے، اس لیے اس سورت کا نام سورت الاخلا ص رکھا گیا۔ توحید کی عظمت کے پیش نظر سورة الاخلاص اس قدر عظیم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تلاوت کو دس پاروں کی تلاوت کے برابر قرار دیا ہے : (عَنْ اَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَےَعْجِزُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّقْرَأَ فِیْ لَےْلَۃٍ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالُوْا وَکَےْفَ ےَقْرَأُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ ) (رواہ مسلم : باب فضل قراء ۃ سورة الاخلاص) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص ایک رات میں ایک تہائی قرآن تلاوت کرسکتا ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کی کہ ایک رات میں قرآن کا تیسرا حصہ کیسے پڑھا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ” قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ“ کی تلاوت کرنا ایک تہائی قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔ “ یاد رہے کہ صحابہ کرام (رض) کی اکثریت قرآن مجید کی تلاوت صرف ثواب کے طور پر نہیں بلکہ غورفکر کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے اس لیے انہوں نے عرض کی کہ ایک رات میں دس پارے پڑھنے مشکل ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سورت اخلاص کے ساتھ محبت۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ مَا أُحْصِی مَا سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلاَۃِ الفَجْرِ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ ) وَ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ).(رواہ الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَالقِرَاءَ ۃِ فیہِمَا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں شمار نہیں کرسکتا میں نے کتنی مربتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب اور فجر کی سنتوں میں سورت کافرون اور سورت اخلاص پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ “ اس سورت میں توحید کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا۔ باقی مسائل اور احکام انہی عنوانات کا تقاضا اور تفصیل ہیں۔ فہم القرآن میں لفظِ ” قُلْ “ کی تفسیر میں یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید اہم مسائل اور احکام بیان کرتے ہوئے لفظِ ” قُلْ “ سے آغاز کرتا ہے تاکہ سننے والے کو مسئلے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا احساس ہوجائے۔ لفظِ قل میں یہ مفہوم واضح ہے کہ توحید کا پرچار کسی خوف کے بغیر کرنا چاہیے، بصورت دیگر اس کے ابلاغ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوا کہ آپ اعلان کریں کہ وہ ” اللہ “ ایک ہے عربی زبان میں ” ھُوَ “ کی ضمیر (Pronown) دور کے لیے استعمال ہوتی ہے یہاں اس کے استعمال کے تین بڑے مفہوم سمجھ آتے ہیں۔ ١۔ اہل مکہ اور ہر دور کے مشرک مشکل ترین وقت میں اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے اور اسے ہی پکارتے تھے، اس لیے ” ھُوَ “ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے کہ وہ ” اللہ “ جسے تم بھی مشکل کے وقت ایک مانتے اور پکارتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت کے اعتبار سے ایک ہے۔ ٢۔ جس ” اللہ “ کا تعارف چاہتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت میں اکیلا ہے۔ ٣۔ ” ھُوَ “ لا کر ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود نہیں بلکہ وہ اپنی شان کے مطابق عرش معلی پر جلوہ افروز ہے۔ ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٥) ” وہ رحمٰن عرش پر مستویٰ ہے۔ “ اسم اللہ کی جلالت ” اللہ “ کا نام صرف اور صرف ذات کبریا کے لیے زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ ذات کبریا کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ ہے کہ کائنات میں انتہادرجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں، جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت وحیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰٰی “ کہلوانے والا بھی ہوا ہے، مگر اس نام کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے کوئی بھی اپنے آپ کو ” اللہ “ کہلوانے کی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ ان کو ” اللہ “ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ “ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے یہ اسم مبارک اپنے آپ میں ربوبیّت، الوہیّت، مالکیت، جلالت وصمدیت، رحمن ورحیم کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں ” اللہ “ کا نام 2697 مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ الگ انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور عبادت کی ترجمانی کرتا ہے۔ ” اللّٰہُ اَحَدٌ“ اللہ ایک ہے اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اس کی ذات، اسماء وصفات اور عبادت میں کوئی شریک نہیں گویا کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ایک ہونے کے ساتھ اپنے حق عبادت میں بھی ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں ہر قسم کی توحید پائی جاتی ہے اور اس سے ہر قسم کے شرک کی نفی ہوتی ہے۔ کچھ مفسرین نے احد اور واحد کے استعمال میں فرق بیان کیا ہے۔ ایک مفسر کا خیال ہے کہ ” اللہ “ کی ذات کے لیے احد کی صفت لائی گئی ہے اور اس کی صفات کے لیے واحد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے مفسرکا خیال ہے کہ احد کا معنٰی لاثانی، بےمثال اور یکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ گنتی میں ایک، دو ، تین، چار اور پانچ کے لیے واحد، اثنین، ثلاثہ، اربعہ اور خمسہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ گنتی میں احد کی بجائے واحد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ واحد استعمال کرنے کی بجائے احد (اکیلا) استعمال کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اور اکیلے کے الفاظ میں لطیف سا فرق پایا جاتا ہے لیکن اردو اور عربی ادب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اردو زبان میں احد اور اکیلا ایک دوسرے کے ہم معنٰی ہیں اور عربی زبان میں معمولی سے فرق کے سوا احد اور واحد ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں البتہ جب کسی شخص کو دوسرے سے الگ بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے لیے اکیلے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر احد اور واحد میں کوئی فرق نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے بارے میں احد اور واحد دونوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں : (قُلْ اِِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِِلٰہٍ اِِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ) (ص : ٦٥) ” اے نبی ان سے فرمادیں کہ میں تو بس خبردار کردینے والا ہوں ” اللہ “ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ (وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ) (البقرۃ : ١٦٣) ” تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ “ ذات باری تعالیٰ کے بارے میں ایرانیوں کا نظریہ : نزول اسلام کے وقت ایرانی ایک کی بجائے دو خدا مانتے اور پکارتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خیر و برکت نازل کرنے اور عزت دینے والا خدا یزداں ہے، شر اور نقصان دینے والا اہرمن ہے۔ قرآن مجید اس نظریے کی تردید کرتا ہے : (وَ قَال اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ ) (النحل : ٥١) ” اور اللہ نے فرمایا دو معبود نہ بناؤ وہ صرف ایک ہی معبود ہے، پس صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ “ اہل مکہ کئی الہٰوں کے قائل تھے : (اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِِلٰہًا وَاحِدًا اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ وَانطَلَقَ الْمَلاُ مِنْہُمْ اَنْ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰی آلِہَتِکُمْ اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ یُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ اِِنْ ہٰذَا اِِلَّا اخْتِلَاقٌ) (ص : ٧ تا ٥) ” کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ قوم کے سرداریہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے کہ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اپنے معبودوں پر قائم رہو یہ بات تو کسی اور ہی مقصد کے لیے کہی جا رہی ہے۔ یہ بات ہم نے پہلے زمانہ میں کسی سے نہیں سنی یہ تو ایک بناوٹی بات ہے۔ “ اس لیے اہل مکہ نے تین سو ساٹھ بت بیت اللہ میں رکھے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندو تینتیس کروڑ خداؤں کے قائل ہیں۔ یہی حال کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت کا ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں سے مدد مانگتے ہیں۔ (فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ ) (العنکبوت : ٦٥) ” جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے مانگتے ہیں۔ جب اللہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک شرک کرنے لگتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں ” اَحَدٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر ایک سے زائد خداؤں اور معبودوں کی نفی کردی ہے۔ قرآن مجید نے عقلی اور علمی دلائل کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ ایک ” اللہ “ ہی ” الٰہ واحد “ ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی الٰہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لہٰذا ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنے والوں کی نفی کی گئی ہے۔
قل ................ احد (1:112) ” کہو ، وہ اللہ ہے یکتا “۔ احد کا لفظ واحد سے زیادہ گہرا ہے کیونکہ احمد ، واحد کے مفہوم پر مزید اضافہ کرتا ہے ، کہ اس کے ساتھ اور کوئی چیز حقیقتاً موجود نہیں ہے اور اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے یعنی وہ یکتا ہے۔ ” احد “ میں وجوء کی احدیت کا اظہار ہے ، یعنی اس کی حقیقت کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے سوا اور کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ اللہ کے سوا جس قدر موجودات ہیں وہ اپنا وجوء اللہ سے اخذ کرتی ہیں اور وہ اپنی حقیقت اللہ کی حقیقت سے لیتی ہیں۔ وہ فاعلیت میں بھی یکتا ہے لہٰذا اللہ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی اور موثر اور کوئی اور فاعل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ایک نظریہ اور عقیدہ ہے جو انسان کے ضمیر میں جاگزیں ہوتا ہے اور یہ دراصل اس کائنات کی تفسیر بھی ہے ۔ جب کسی دل میں یہ عقیدہ بیٹھ جاتا ہے اور عقل اس کا تصور کرلیتی ہے۔ اور اس پوری کائنات کی تفسیر اس کی روشنی میں ہوجاتی ہے تو انسانی دل پر کوئی اور تصور نہیں چھاتا اور انسانی قلب میں کسی اور سوچ کا شائبہ نہیں رہتا۔ اور انسانی قلب اس واحد ذات واجب الوجود کے سوا کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ، کیونکہ دراصل موجود تو یہی ذات یکتا ہے اور فعال اور موثر یہی واحد ذات ہے۔ پھر اس کائنات میں جو چیزیں بھی پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ قلب انسانی کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ انسانی دل سے ماسوی اللہ کے وجود کا شعور ہی ختم ہوجائے۔ اگر یہ شعور ختم نہ بھی ہو ، تعلق ختم ہوجاتا ہے ، اس لئے کہ اللہ کے وجود کے سوا تمام دوسری اشیاء کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور اس پوری کائنات میں اللہ کے ارادے کی فاعلیت اور تاثیر کے سوا کوئی اور چیزفعال اور موثر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا عقیدہ توحید کے قلب انسانی کسی ایسی چیز سے کیوں متعلق ہو جو نہ حقیقتاً موجود ہے اور نہ کسی چیز میں فعال وموثر ہے۔ اب جب دل الٰہ یکتا کے سوا تمام اشیاء کی حقیقت کے تصور ہی سے خالی ہوگیا اور اس میں ماسوی اللہ سے تعلق ہی نہ رہا۔ تو اب یہ دل صحیح میں آزاد ہوتا ہے ، وہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس دل کی تمام خواہشات ختم ہوجاتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ خواہشات ہی دراصل پاﺅں کی زنجیریں ہوتی ہیں۔ پھر خوف بھی اس دل سے ختم ہوجاتا ہے اور یاد رہے کہ اس خوف کی وجہ سے بھی انسان پابند سلاسل ہوجاتا ہے۔ انسان کے دل سے مرغوبات کیوں ختم ہوجاتی ہیں اس لئے کہ جب وہ اللہ کو پالیتا ہے تو وہ سب کچھ پالیتا ہے اور وہ ڈرتا اس لئے نہیں کہ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی فعال نہیں۔ جب انسانی شعور میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جائے کہ انسان کو اس کائنات میں صرف اللہ کی حقیقت نظر آتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر اس کائنات میں انسان کو جو وجود نظرآئے گا اس میں بھی اسے یہی حقیقت نظر آئے گی۔ اس طرح پھر انسانی قلب کو ہر چیز میں دست قدرت نظرآتا ہے اور اس کے بعد پھر انسان اس درجے پر فائز ہوتا ہے کہ اسے اس کائنات میں اللہ کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس عقیدے اور تصور کے نتیجے میں انسان سوچنے لگتا ہے کہ ظاہری اسباب بھی ہیچ ہیں۔ اصل اور حقیقی سبب مسبب الاسباب ہے یعنی ذات باری تعالیٰ ۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف قرآن نے بہت توجہ کی ہے اور اسے اسلام کی ایمانیات میں داخل کرکے ذہنوں میں بٹھانے کی سعی کی ہے۔ چناچہ ظاہری اسباب کو برطرف کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل سبب مشیت الٰہیہ ہے۔ وما رمیت ........................ رمی (17:8) ” جب تم نے پھینکا تو دراصل تم نے نہیں پھینکا مگر اللہ نے پھینکا “۔ اور آل عمران (126) میں یہ کہا گیا : وما النصر ................ اللہ (126:3) ” فتح ونصرت صرف اللہ کی طرف سے ہے “۔ اور الدھر (30) میں ہے۔ وما تشآءون ........................ اللہ (30:76) ” اور تم نہیں چاہتے الا یہ کہ اللہ چاہے “۔ اسی طرح کی بیشمار آیات ہیں۔ جب انسان اسباب ظاہری کو برطرف کردیتا ہے تو پھر اسے نظر آتا ہے کہ تمام امور اللہ کی مشیت سے طے پاتے ہیں۔ پھر اس سے اس کے دل میں اطمینان پیدا ہوجاتا ہے اب وہ تمام مرغوبات اللہ سے طلب کرتا ہے اور تمام مکروہات سے بچنے کے لئے اللہ کے ہاں پناہ ڈھونڈتا ہے اور ظاہری عوامل ، ظاہری اسباب اور موثرات جو کچھ کرتے نظرآتے ہیں ، اس کائنات میں ان کی کوئی حقیقت اس کی نظروں میں نہیں ہوتی۔ یہ تھے وہ مقامات جن کو عبور کرنے کی سعی صوفیاء کرتے رہے۔ لیکن ان مقامات کی کشش ان کو کہیں دور ہی لے گئی۔ صوفیا اس بات کو سمجھ نہ سکے کہ اسلام لوگوں کو بلا کر ان مقامات بلند تک ضرور لے جاتا ہے لیکن وہ ان کو اس دنیا کی عملی زندگی کے تمام نشیب و فراز کے اندر رکھتے ہوئے اور ہر طرح کی انسانی زندگی کے اندر رہتے ہوئے اور اس زمین پر اللہ کی نیابت کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان مقامات تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس دنیا کی زندگی کے اندر ہوتے ہوئے اور اس زمین پر اللہ کی نیابت کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان مقامات تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس دنیا کی زندگی میں بھر پور حصہ بھی لیتے ہیں اور اسے ہیچ بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اس کائنات میں رتے ہیں لیکن وہ حقیقی موجود صرف اللہ کو سمجھتے ہیں۔ وہ تمام واقعات وحادثات میں فعال اور موثر اللہ کو سمجھتے ہیں۔ اور اس طریقے کے سوا اسلام کوئی دوسرا طریقہ نہیں اپناتا ، نہ چاہتا ہے ۔ پس اس کے نتیجے میں ایک مکمل نظام زندگی وجود میں آتا ہے۔ یہ نظام اس کائنات کی اس تشریح اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور ، تصورات اور رجحانات کے نتیجے میں پیدا ہتوا ہے۔ اس نظام زندگی کے خدوخال کیا ہیں ؟ (1) اس نظام کا ایک اپنا نظام عبادت ہے جس میں صرف اللہ کی بندگی کی جاتی ہے۔ وہ اللہ جس کے وجود کے سوا کسی وجود کی کوئی حقیقت نہیں ، جس کی فاعلیت کے سوا کوئی اور فاعلیت نہیں۔ اور اس کے ارادے کے سوا کسی اور کا ارادہ موثر نہیں۔ (2) یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک انسان ہر حالت میں ، امید میں اور خوف میں صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ خوشی اور غم میں ، امیری اور فقیری میں ، غرض ہر حال میں اس کا رخ صرف اللہ وحدہ کی طرف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس نظام میں ہر شخص یہ جانتا ہے کہ جب اللہ کے سوا کسی اور چیز کا وجود ہی حقیقی نہیں۔ تو پھر اس کی طرف توجہ اور پکار کا فائدہ کیا ہوگا۔ جب اللہ کے سوا اور کوئی نہ فاعل ہے اور نہ موثر تو پھر اس کی طرف توجہ سے حاصل کیا ہوگا۔ (3) یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہدایات صرف اللہ سے لی جاتی ہیں۔ عقائد ونظریات ، اقدار اور پیمانے ، شریعت اور قانون ، ادارے اور انتظام ، رسوم و رواج ، آداب وتقالید سب کی سب اللہ سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہر قسم کی ہدایت اور رہنمائی صرف اللہ وحدہ سے لی جاتی ہے۔ جو حقیقت واقعہ میں بھی اور ایک مسلم کے ضمیر میں بھی واحد موجود ہے۔ (4) یہ نظام ایک نظام تحریک اور عمل ہے۔ اور یہ تحریک وعمل صرف اللہ وحدہ کے لئے ہے۔ اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کے قرب کے حصول کے لئے۔ اس امید پر کہ اس تک پہنچے کی راہ میں تمام پردے اور رکاوٹیں دور ہوں گی۔ اور گمراہی کے تمام شوائب سے انسان محفوظ ہوگا ، چاہے یہ پردہ اور رکاوٹیں نفس انسانی کے اندر ہوں ، یا انسانی ماحول کی چیزوں اور انسانوں کی طرف سے ہوں۔ جن میں خود انسان کی ذات ، انسان کا خوف اور اس کی خواہش اور اس دنیا میں اس کی مرغوب اشیاء سرفہرست ہیں۔ (5) یہ ایک ایسا نظام ہے کہ مذکورہ بالا امور کے ساتھ ساتھ وہ قلب بشری اور اس کائنات کی تمام موجودات کے درمیان ، محبت ، انس ، تعاون ، یگانگت کا تعلق پیدا کرتا ہے۔ اس لئے کہ دنیا کے بندھنوں سے آزادی کے معنی یہ نہیں کہ انسان اس کو مکرو سمجھے ، اس سے نفرت کرے ، اس سے بھاگے اور اس کے برتنے سے اجتناب کرے۔ اس لئے کہ دنیا کی اشیاء سب کی سب اللہ کے دست قدرت کر کرشمے ہیں۔ ان کا وجود اللہ کے وجود سے ماخوذ ہے۔ اور سب اشیاء پر اسی حقیقت کی پرتو پڑتی ہے ، لہٰذا یہ سب چیزیں محبوب ہیں کیونکہ یہ اللہ کے تحفے ہیں جو حبیب ہے۔ (6) یہ نظام نہایت بلند اور آزاد نظام ہے ، اس کی نظروں میں زمین ایک چھوٹی سی گیند ہے ، دنیا کا سازو سامان بےقیمت ہے اور ان پردوں اور رکاوٹوں سے آزادی سب کی تمنا ہے لیکن دنیا کی غلامی سے آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان دنیاوی امور سے الگ تھلگ ہوجائے اور اس دنیا کو یونہی مہمل چھوڑ دے۔ یا اس سے نفرت کرے ، اور اس سے بھاگے ، بلکہ اسلامی نظام کا تقاضا یہ ہے کہ جہد مسلسل ہو ، دائمی جدوجہد برپا ہو ، انسانیت کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی دی جائے ، اور انسان کی زندگی پوری طرح آزاد اور فری ہو۔ پس دنیا کی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ منصب خلافت الٰہیہ ہے جس کی اپنی ذمہ داریاں ہیں لیکن ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے انسان ان کا غلام بھی نہیں ہے ان سے آزاد بھی ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تشریح کی۔ دنیا سے چھٹکارے کا ایک تو وہ طریقہ ہے جو گرجوں نے تجویز کیا لیکن اسلام صومعاتی رہبانیت کا قائل نہیں ہے اس لئے کہ انسان نے خلافت ارضی کے فرائض بھی سرانجام دینے ہیں اور انسانوں کو ایک اچھی قیادت کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ دونوں امور انسان کی نجات اور فلاح اور اس دنیا کی غلامی سے چھٹکارے کے لئے ضروری ہیں۔ یہ راہ بہت دشوار ہے۔ یعنی انسان کی انسانیت کا تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے۔ اس طرح انسان کی شخصیت میں روحانیت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ ہے آزادی ، انسان کی روح دنیاوی آلائشوں سے آزاد ہوکر اپنے اصلی مصدر کی طرف آزاد ہوجاتی ہے اور انسان کو اللہ نے پیدا کرکے جس دنیا میں چھوڑا ہے اس میں کام کرتے ہوئے بھی وہ اپنی اعلیٰ روحانی مقام اور حقیقت کو برقرار رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسالت کے آغاز میں دعوت کو صرف عقیدہ توحید تک محدود رکھا گیا اور مندرجہ بالا معنوں میں عقیدہ توحید کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس معنی میں توحید انسانی قلب وضمیر میں بیٹھا ہوا ایک عقیدہ بھی ہے۔ اس کائنات کی تفسیر وتشریح اور تعبیر بھی ہے اور ایک مکمل نظام حیات بھی ہے۔ اس مفہوم میں عقیدہ توحید صرف الفاظ نہیں جن کا اقرار زبان سے کردیاجائے اور صرف انسانی ضمیر و شعور کا پختہ یقین بھی نہیں ہے جو صرف ضمیر و شعور کے اندر ہی پوشیدہ ہو ، یہ سب کچھ ہے ، پورا دین ہے بلکہ اس عقیدے کی تفصیلات ہیں۔ اس کے کچھ نتائج ہیں اور یہ تفصیلات اور یہ نتائج اس عقیدے کے طبعی اور لازمی نتائج ہیں۔ اور یہ نتائج قوانین طبیعیہ کی طرح سامنے آتے ہیں۔ اگر دین میں یہ عقیدہ موجود ہو۔ اہل کتاب کے اندر جو انحراف پدیا ہو ، جس نے ان کے عقائد و تصورات ، ان کی عملی زندگی کو برباد کردیا ، اس کا آغاز بھی پہلے پہل حقیقی عقیدہ توحید کے مٹ جانے کی وجہ سے ہوا۔ عقیدہ توحید کے مٹنے کے بعد پھر دوسرے انحرافات پیدا ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے نظریہ توحید کی امتیازی شان ہے کہ یہ انسانی زندگی کے اندر نہایت گہرائی تک اترتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانوں کی پوری زندگی اس عقیدے پر استوار ہو ، اور انسانوں کی زندگی کا عملی نظام پورے کا پورا عقیدہ توحید کی اساس پر قائم ہو۔ جس طرح کے اثرات تصورات و عقائد میں ہوں اسی طرح شریعت و قانون بھی ہوں۔ اور اس طرح کے آثار سے بڑا اثر اور اس کے نتائج میں سے بڑانتیجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر شریعت الٰہیہ کی حکمرانی ہو۔ اگر اقرار توحید کے بعد یہ آثار نمودار نہ ہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ عقیدہ توحید موجود نہیں۔ اس لئے کے اسلام کا عقیدہ توحید جب دل میں اترتا ہے تو وہ ارکان حیات اور نظام حیات اور اعمال کی شکل میں اگتا ہے۔ اس کا مفہوم کہ اللہ ” احد “ ہے ، یہ ہے کہ وہ ” صمد “ ہے ، یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اور یہ کہ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ اور اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لیکن ” احد “ کے بعد ان دوسرے مفاہیم کو محض وضاحت کے لئے الگ ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ الصمد (2:112) ” اللہ سب سے بےنیاز ہے “۔ صمد کا لغوی معنی ہیں وہ جس کی اجازت کے بغیر کوئی امر طے نہ ہوتا ہو اور اللہ تو وہ سردار ہے جس کے سوا کوئی سید اور سردار نہیں ہے۔ وہ اپنی اولہیت میں یکتا ہے اور سب اس کے غلام ہیں۔ اور وہی وحدہ قاضی الحاجات ہے۔ وہی ہے جو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے ، اور ہر بات کا فیصلہ اس کے حکم سے ہوتا ہے اور اس فیصلے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔ اور یہ مفوم خود لفظ احد میں بھی مکمل طور پر موجود ہے۔ لم یلد ولم یولد (3:112) ” نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے “۔ اللہ کی ذات وہ حقیقت ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ اور اس کی ذات ایک حال سے دوسرے حال میں بدل نہیں سکتی۔ اس کی صفت یہ ہے کہ وہ کامل مطلق ہے اور تمام حالات میں ذات باری کامل ہوتی ہے۔ ولادت کا عمل سب کو معلوم ہے کہ پھٹنے اور بڑھنے سے عبارت ہے۔ عدم سے وجود میں آا یا نقص سے کمال کی طرف بڑھنا دراصل ولادت کی علامات ہیں اور اللہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ پھر ولادت کے لئے زوجیت کی ضرورت ہے اور پھر زوجہ ہمیشہ زوج اور خاوند کی ہم جنس ہوتی ہے۔ اور یہ بھی اللہ کے محال ہے ، اور خدا کے احد ہونے کے مفوہم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نہ کسی کا بات ہے اور نہ بیٹا۔ ولم یکن ................ احد (4:112) ” اور کوئی اس کا ہمسر نہیں “۔ نہ اسکا کوئی مماثل ہے اور نہ برابر ہے۔ نہ وجود کی حقیقت کے اعتبار سے ، نہ فاعلیت کے اعتبار سے ، اور نہ اس کی کسی ذات صفت میں۔ اور یہ بات بھی لفظ ” احد “ میں موجود ہے۔ وہ چونکہ احد ہے اس لئے اس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ یہ سب فقرے ” احد “ کی تاکیدوتشریح ہیں۔ یہ عقیدہ اس زرتشتی عقیدے کی تردید کرتا ہے کہ اللہ خیر کا الٰہ ہے اور شر کا الٰہ کوئی اور ہے۔ یہ ثنائی عقائد کے پیروکاروں کا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ ایران میں مروج ہے۔ چناچہ ایرانی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ایک خیر کا الٰہ ہے اور دوسرا شر کا الٰہ ہے۔ ایک نور کا الٰہ ہے اور دوسرا ظلمت کا الٰہ ہے اور جزیرة العرب کے جنوب میں بعض لوگ یہ عقائد رکھتے تھے جہاں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ یہ سورت اسلام کے عقیدہ توحید کو پوری طرح ثابت کرتی ہیں۔ جس طرح سورة الکافرون کا موضوع یہ تھا کہ عقیدہ توحید اور شر کے درمیان کوئی مصالحت اور مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دونوں سورتوں کا موضوع مختلف زاویوں سے عقیدہ توحید ہی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روز مرہ کے معمولات کا آغاز صبح کی دو سنتوں سے کرتے تھے اور ان میں یہ دوسورتیں پڑھتے تھے۔ اور صبح کی سنتوں میں ان کا پڑھنا بامقصد تھا اور یہ بات واضح بھی ہے۔
اس سورت میں اللہ جل شانہ کی ذات اور صفات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ الفاظ اگرچہ مختصر ہیں لیکن واضح طور پر یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ بالکل تنہا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے نہ ذات میں نہ صفات میں اور کوئی بھی ذرا بھی کسی طرح اس کا برابر نہیں، حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اپنے رب کا نسب بیان کر دیجئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی، اور حضرت ابن عباس (رض) سے یوں مروی ہے کہ عامر بن طفیل اور اربد بن ربیعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عامر نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کس کی طرف ہمیں دعوت دیتے ہیں آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں عامر نے کہا کہ اللہ کی توصیف کیجئے ہمیں بتا دیجئے کہ وہ سونے کا ہے یا چاندی کا یا لوہے کا ہے یا لکڑی کا (ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے سوال کیا تھا کہ اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے۔ کیا وہ کھاتا ہے اور پیتا ہے ؟ ) اس پر سورة الاخلاص نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اربد کو بجلی سے ہلاک فرما دیا اور عامر بن طفیل طاعون میں ہلاک ہوگیا۔ (ذكرہ البغوی فی معالم التنزیل) چونکہ اس سورت میں خالص توحید ہی بیان کی گئی ہے اس لیے اس کا نام سورة الاخلاص معروف ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سورت کا نام سورة الاخلاص مروی ہے۔ (كما ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور صفحہ ٤١٤: ج ٦) سیدنا آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان تھے اور سب سے پہلے نبی بھی تھے ان سے اور ان کی بیوی حوا سے انسان دنیا میں پھیلے اور ان کی بتائی ہوئی تعلیم پر چلتے رہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعلیم خالص توحید پر مشتمل تھی۔ بہت سی قرنیں اسی طرح گزر گئیں پھر شیطان ابلیس اور اس کی ذریت نے لوگوں کو شرک پر ڈال دیا، خالق ومالک جل مجدہ کے وجود کا انکار کرانا تو اس زمانے کے اعتبار سے ناممکن کے درجہ میں تھا البتہ شرکیہ عقائد اور شرکیہ عبادات پر ڈالنے میں وہ کامیاب ہوگیا، جو شرکیہ عقائد ابلیس نے بنی آدمی کے دلوں میں ڈالے ان میں سے ایک یہ تھا کہ خالق تعالیٰ شانہ کی ذات ایسی ہی ہے جیسے تم لوگوں کی ہے۔ اس کا وجود بھی تمہاری طرح سے ہے، اس کی اولاد بھی ہے اور اسے چیزوں کی حاجت بھی ہے، اور یہ بھی بتایا کہ اس کی طرح مخلوق میں بھی معبود ہیں اور معبود تمہیں تمہارے خالق تک پہنچا دیں گے ان کی سفارش سے تمہیں اس کا قرب حاصل ہوگا، شیطان نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا اور حضرت عیسیٰ اور عزیر (علیہما السلام) کو اس کا بیٹا بتایا اور بتوں کو سجدے کرائے اور ان پر نیازیں چڑھوائیں۔ دنیا میں ان چیزوں کا بہت زیادہ رواج ہوگیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے ہی میں بلکہ ان سے پہلے ہی بت پرستی شروع ہوگئی تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیاء کرام اور رسل عظام علیہم الصلاۃ والسلام کی بعثت ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے کتابیں بھی نازل فرمائیں، صحیفے بھی اتارے لیکن عموماً بنی آدم نے توحید کی دعوت کو قبول نہ کیا حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی عرب اور عجم میں کفر اور شرک کا دور دورہ تھا۔ آپ نے توحید کی دعوت دی تو مشرکین کو بڑا تعجب ہوا کہنے لگے ﴿اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ١ۖۚ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ٠٠٥﴾ (کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا۔ بیشک یہ تو بڑے تعجب والی بات ہے) ۔ جب کوئی چیز رواج میں آجائے خواہ کیسی ہی بری ہو اس کے خلاف جو بھی کچھ کہا جائے تعجب سے سنا جاتا ہے اور رواج کی وجہ سے لوگ اچھائی کی طرف پلٹا کھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ عرب میں شرک کا یہ حال تھا کہ داعی توحید سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا انہی کی نسل کے لوگوں نے کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھ دیئے تھے اور عرب کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے بت اور بت خانے تھے ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور ان سے مدد مانگتے تھے اور ان کے نام کے نعرے لگاتے تھے۔ جب ان لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اپنے رب کا نسب بیان کیجئے تو سورة ٴ اخلاص نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ شانہ کی توحید خالص بیان فرما دی۔ ارشاد فرمایا ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ٠٠١﴾ (آپ فرما دیجئے کہ وہ اللہ تنہا ہے (فاللہ خبر ھو واحد بدل منہ۔ او خبر ثان) اس آیت میں بتادیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے تنہا ہے متوحد اور متفرد ہے اس کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات سوچنا یا کوئی بھی ایسا سوال کرنا جس سے مخلوق کی کسی بھی مشابہت کی طرف ذہن جاتا ہو غلط ہے۔ (لفظ احد اصل میں وحد ہے ہمزہ واؤ سے بدلا ہوا ہے) ۔
2:۔ ” قل ھواللہ “ ھو ضمیر شان ہے۔ ” اللہ احد “ اللہ ایک ہے وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔ معنی اللہ گفت آن سیبویہ۔ یولہون فی الحوائج ہم لدیہ۔ یعنی اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جس کی طرف لوگ حاجات میں دوڑیں اور جس کی پناہ ڈھونڈیں۔
(1) اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے وہ اللہ ایک ہے اس میں دہریوں کا مجوسیوں کا ابطال ہوگیا جو کہتے ہیں خدا کا وجود ہی نہیں اور مجوس کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں دو خدا ہیں ایک خیر کا اور دوسرا شرکا اور عام بت پرستوں کا بھی رد ہے جو معبودان باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک کرتے ہیں۔