Surat ul Ikhlaas
Surah: 112
Verse: 3
سورة الإخلاص
لَمۡ یَلِدۡ ۬ ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳ ﴾
He neither begets nor is born,
نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔
لَمۡ یَلِدۡ ۬ ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳ ﴾
He neither begets nor is born,
نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔
He begets not, nor was He begotten. meaning, He does not have any child, parent or spouse. وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
3۔ 1 یعنی نہ کوئی چیز اس سے نکلی ہے نہ وہ کسی چیز سے نکلا ہے۔
[٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ انسان نے جب بھی اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوچا ہے تو اسے انسانی سطح پر لا کر ہی سوچا ہے اور چونکہ انسان اولاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اللہ کی بھی اولاد قرار دے دی۔ حالانکہ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا مرنا اور فنا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور جو چیز مرنے والی یا فنا ہونے والی ہو وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتی۔ نیز انسان کو اولاد کی خواہش اور ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قائم مقام بنے اور اس کی میراث سنبھالے جبکہ اللہ کو ایسی باتوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ حی لایموت ہے، اسی خیال سے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ کو اور یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنادیا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں نے کروڑوں کی تعداد میں دیوی اور دیوتا بنا ڈالے۔ کوئی دیوی ایسی نہ تھی جس کا انہوں نے کوئی دیوتا شوہر نہ تجویز کیا ہو۔ اور کوئی دیوتا ایسا نہ تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی دیوی بیوی کے طور پر تجویز نہ کی ہو۔ پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ چلا کر کروڑوں خدا بناڈالے۔ یہ بھی غنیمت ہی سمجھئے کہ کسی قوم نے کسی کو اللہ کا باپ نہیں بنا ڈالا۔ ورنہ ایسے مشرکوں سے کیا بعید تھا کہ وہ ایسی بکواس بھی کر ڈالتے۔ اس آیت سے ایسے توہمات کی تردید ہوجاتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا شدید جرم ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اس جرم پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے کے مترادف ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بنی آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ اسے مناسب نہ تھا اور مجھے گالی دی اور یہ اسے مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ ہرگز پیدا نہ کروں گا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بےنیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور میرے جوڑ کا تو کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
(١) لم یلد، ولم یولد :” نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا “ اس آیت میں نصرانیوں کا رد ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیٹا مانتے ہیں، یہودیوں کا رد ہے جو عزیز (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں، مشرکین عرب کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں، فلاسفہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عقول عشرہ اللہ سے نکلی ہیں اور اب کائنات کا نظام وہ چلا رہی ہیں، ہندوؤں کا رد ہے جو کروڑوں کی تعداد میں مخلوق کو خدا مانتے ہیں اور ان مسلمان کہلانے والوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ اہل بیت اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لئے اولاد کی نفی کے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں، ان میں سب سے واضح چار ہیں، پہلی دلیل یہ ہے کہ اولاد لازماً باپ کی جنس سے ہوتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی جنس ہی نہیں۔ اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے :(ماالمسیح ابن مریم الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل، وامہ صدیقۃ کانا یاکلن الطعام) (المائدۃ : ٨٥) ” نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، اس سے پہلے کئی رسول گزر گئے اور اس کی ماں صدیقہ ہے۔ وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ “ یعنی مسیح ابن مریم (علیہ السلام) سے پہلے کئی رسول گزرے، وہ پہلے نہیں تھے، پھر پیدا ہوئے، وہ حادث تھے جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے۔ باپ اور اولاد کی جنس ایک ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) حادث ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کھاتا نہیں اور وہ دونوں کھاتے تھے ۔ جنس ایک نہ رہی تو اولاد کیسے بن گئی ؟ دوسری دلیل یہ کہ والد اور اولاد اس لئے حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کا محتاج ہوتا ہے اور اللہ کو کسی کی کوئی حاجت نہیں۔ اس آیت میں یہی فرمایا ہے : (قالوا اتخذ اللہ ولداً سبحنہ ھوالغنی) (یونس : ٦٨) ” انہوں نے کہا کہ اللہ نے اولاد پکڑی ہے، وہ پاک ہے، وہی تو غنی ہے۔ “ یعنی وہی تو ہے جو غنی ہے، جسے کسی کی حاجت نہیں، وہ اولاد کیوں بنائے گا ؟ تیسری دلیل یہ کہ تمام مخلوق اللہ کے بندے اور غلام ہیں اور بندہ ہونا بیٹا ہونے کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، فرمایا :(وما ینبغی للرحمٰن ان یتخذ ولداً ، ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبداً ) (مریم : ٩٢، ٩٣) ” اور رحمان کے لائق ہی نہیں کہ وہ اولاد پکڑے، آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے رحمان کے پاس بندہ (غلام) بن کر آنے والا ہے۔ “ یعنی رحمان کی اولاد کس طرح ہوسکتی ہے، جب کہ زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام اور بندہ بن کر پیش ہونے والا ہے ؟ بیٹا ہو اور غلام بھی ممکن ہی نہیں۔ چوتھی دلیل یہ کہ اولاد اسی کی ہوتی ہے جس کی بیوی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بیوی ہی نہیں تو اولاد کیسے ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(انی یکون لہ ولدو لم تکن لہ صاحبۃ) (الانعام : ١٠١)” اس کی اولاد کیسے ہوگ ی جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ “ (٣) ابوہریرہ (رض) عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(کذبنی ابن آدم ولم یکن لہ ذلک، وشمنی ولم یکن لہ ذلک، فاما تکذیبہ “ ایای فقولہ لن یعیدنی کما بدانی، ولیس اول الخلق باھون علی من اعادتہ واما شتمہ ایای فقولہ اتخذ اللہ ولداً ، وانا الاحد الصمد لم الد ولم اولد ولم یکن لی کفواً احد) (بخاری، التفسیر، سورة (قل ھو اللہ احد): ١٣٩٨٣” ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حقن ہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ نہیں بنائے گا۔ حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مجھے دوبارہ بنانے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ نے اولاد بنئای ہے، حالانکہ میں احد ہوں، صمد ہوں۔ میں نے نہ کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کوئی میرے برابر کا ہے۔ “ (٤) ولد یولد :” اور وہ جنا نہیں یا “ یعنی کسی نے اس کو نہیں جنا، اس کا کوئی باپ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے سوال کا جواب ہے جنہوں نے کہا تھا کہ میں اپنے رب کا نسب بیان کیجیے، کیونکہ جو پیدا ہوگا وہ حادث ہوگا، ہمیشہ سے نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(کان اللہ ولم یکن شیء قبلہ) (بخاری، التوحید، باب : (وکان عرشہ علی المائ)…: ٨٣١٨)” اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔ “ معلوم ہوا کہ جو ولادت کے مرحلے سے گزرا ہو یا خلق کے مرحلے سے گزرا ہو وہ اللہ نہیں ہوسکتا۔ غلط کہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور ازلی (یعنی ہمیشہ سے) ہے، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور سے جدا ہوئے ہیں، مگر درحقیقت وہی ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ غور کرنا چاہیے کہ جو پیدا ہوا وہ ہمیشہ سے کیسے ہوگیا ؟
Allah is Above having Children and Procreating Verse [ 112:3] لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (He neither begot anyone, nor was begotten.) This verse responds to those who had questioned about the ancestry of Allah. There is no analogy between Allah, the Creator, and His creation. While His creation comes into being through the biological process of procreation, Allah Himself has no children, nor is He the child of anyone.
لم یلد، ولم یولد، یہ ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نسب نامہ کا سوال کیا تھا کہ اس کو مخلوقق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جو تو الدوتناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ کوئی اس کی الاد۔
لَمْ يَلِدْ ٠ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ ٣ ۙ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔
آیت ٣{ لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ ۔ } ” نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ “ یعنی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ نکتہ سورة الجن میں بایں الفاظ واضح فرمایا گیا : { مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا ۔ } ” اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی اختیار کی ہے اور نہ کوئی اولاد “۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کے بعض فرقے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔ اس آیت میں ایسے تمام عقائد باطلہ کی نفی کردی گئی ہے ۔
5 The polytheists in every age have adopted the concept that like men, gods also belong to a species, which has many members and they also get married, beget and are begotten. They did not even regard Allah, Lord of the universe, as supreme and above this concept of ignorance, and even proposed children for Him. Thus, the Arabian belief as stated in the Qur'an was that they regarded the angels as daughters of Allah. The Prophetic communities too could not remain immune from this creed of paganism. They too adopted the creed of holding one saintly person or another as son of God. Two kinds of concepts have always been mixed up in these debasing superstitions. Some people thought that those whom they regarded as Allah's children, were descended from him in the natural way and some others claimed that the one whom they called son of God, had been adopted by Allah Himself as a son. Although they could not dare call anyone as, God forbid, father of God, obviously human mind cannot remain immune against such a concept that God too should be regarded as a son of somebody when it is conceived that He is not tree from sex and procreation and that He too, like man, is the kind of being which begets children and needs to adopt a son in case it is childless, That is why one of the questions asked of the Holy Prophet (upon whom be peace) was: what is the ancestry of Allah? and another was: from whom has He inherited the world and who will inherit it after Him? If these assumptions of ignorance are analysed, it becomes obvious that they logically necessitate the assumption of some other things as well. _ First, that God should not be One, but there should be a species of Gods, and its members should be associates in the attributes, acts and powers of Divinity. This not only follows from assuming God begetting children but also from assuming that He has adopted someone as a son. for the adopted son of somebody can inevitably be of his own kind. And when, God forbid, he is of the same kind as God, it cannot be denied that he too possesses attributes of Godhead. Second, that children cannot be conceived unless the male and the female combine and some substance from the father and the mother unites to take the shape of child. Therefore, the assumption that God begets children necessitates that He should, God forbid, be a material and physical entity, should have a wife of His own species, and some substance also should issue from His body. Third, that wherever there is sex and procreation, it is there because individuals are mortal and for the survival of their species it is inevitable that they should beget children to perpetuate the race. Thus, the assumption that God begets children also necessitates that He should, God forbid, Himself be mortal, and immorality should belong to the species of Gods, not to God Himself. Furthermore, it also necessitates that like all mortal individuals, God also, God forbid, should have a beginning and an end. For the individuals of the species whose survival depends upon sex and procreation neither exist since eternity nor will exist till eternity. Fourth, that the object of adopting some one as a son is that a childless person needs a helper in his lifetime and an heir after his death. Therefore, the supposition that Allah has adopted a son inevitably amounts to ascribing all those weaknesses to His sublime Being which characterise mortal man. Although aII these assumptions are destroyed as soon as Allah is called and described as Ahad and As-Samad, yet when it is said: "Neither has He an offspring nor is He the offspring of another", there remains no room for any ambiguity in this regard. Then, since these concepts are the most potent factors of polytheism with regard to Divine Being, AIlah has refuted them clearly and absolutely not only in Surah AI-Ikhlas but has also reiterated this theme at different places in different ways so that the people may understand the truth fully. For example Iet us consider the following verses: "Allah is only One Deity: He is tar too exalted that He should have a son: whatever is in the heavens and whatever is in the earth belongs to Him." (AnNisa': 171) "Note it well: they, in fact, invent a falsehood when they say, `Allah has children'. They are utter liars," (As-Saaffat: 151-152) "They have invented a hood-relationship between Allah and the angels, whereas the angels know full well that these people will be brought up (as culprits) " (As-Saaffat: 158) "These people have made some of His servants to be part of Him. The fact is that man is manifestly ungrateful. " (Az-Zukhruf: l 5 ) "Yet the people have set up the Jinn as partners with Allah, whereas He is their Creator; they have also invented for Him sons and daughters without having any knowledge, whereas He is absolutely free from and exalted far above the things they say. He is the Originator of the heavens and the earth: how should He have a son, when He has no consort? He has created each and every thing." (AlAn'am: 100-102) "They say: the Merciful has offspring. Glory be to Allah! They (whom they describe as His offspring) are His mere servants who have been honoured." (AI-Anbiya: 26) "They remarked: Allah has taken a son to himself. Allah is AII-pure: He is Self Sufficient He is the Owner of everything that is in the heavens and the earth. Have you any authority for what you say? What, do you ascribe to Allah that of which you have no knowledge?" (Yunus: 68) "And (O Prophet,) say: praise is for Allah Who has begotten no son nor has any partner in His Kingdom nor is helpless to need any supporter." (Bani Isra'il:111) "Allah has no offspring, and there is no other deity as a partner with Him." (Al-Mu'minun: 91) In these verses the belief of the people who ascribe real ar adopted children to Allah, has been refuted from every aspect, and its being a false belief has also been proved by argument. These and many other Qur'anic verses ou the same theme explain Surah Al-Ikhlas fully well.
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 5 مشرکین نے ہر زمانے میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں ، اور ان میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے ۔ اس جاہلانہ تصور سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالا تر نہیں سمجھا اور اس کے لیے بھی اولاد تجویز کی ۔ چنانچہ اہل عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ان کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہوگیا ۔ ان مختلف توہمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خلط ملط ہوتے رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالی کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اس ذات پاک کی نسبی اولاد ہے ۔ اور بعض نے یہ دعوی کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اسے اللہ نے اپنا متبنی بنایا ہے ۔ اگرچہ ان میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں ، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالد و تناسل سے پاک نہیں ہے ، اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ، تو پھر انسانی ذہن اس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اسے بھی کسی کی اولاد سمجھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گ۴ے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اس کے بعد وارث ہوگا ؟ ان جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ منطقی طور پر بیان کو فرض کرلینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازم آتا ہے ۔ اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو ، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو ، اور اس کے افراد خدائی اوصاف ، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں ، یہ بات خدا کی صرف نسبی اولاد فرض کرلینے ہی سے لازم نہیں آتی ، بلکہ کسی کو متبنی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے ، کیونکہ کسی کا متبنی لا محالہ اس کا ہم جنس ہی ہوسکتا ہے ، اور جب معاذ اللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے ۔ دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے ۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذہ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا ۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتدا اور انتہا ہو ۔ کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی ۔ چہارم یہ کہ کسی کو متبنی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لا ولد شخس اپنی زندگی میں کسی مددگار کا ، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالی کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، اس ذات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں ۔ ان تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالی کو احد اور الصمد کہنے سے کٹ جاتی ہے ، لیکن اس کے بعد یہ ارشاد فرمانے سے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی ۔ پھر چونکہ ذات باری کے حق میں یہ تصورات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں ، اس لیے اللہ تعالی نے صرف سورہ اخلاص ہی میں ان کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں ۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں: ۭاِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭسُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ( النساء ، 171 ) اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اس کی ملک ہے ۔ اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ( الصافات ، 151 ۔ 152 ) خوب سن رکھو ، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ( الصافات ، 158 ) انہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ ( مجرموں ) کی حیثیت سے ) پیش کیے جانے والے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ ( الزخرف ، 15 ) لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے ۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭسُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ ۔ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ( الانعام ، 100 ۔ 101 ) اور لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے ۔ اور انہوں نے بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں ، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو وہ کہتے ہیں ۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے ۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ( الانبیاء ، 26 ) اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، پاک ہے وہ ، بلکہ ( جن کو یہ اس کی اولاد کہتے ہیں ) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( یونس ، 68 ) لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، سبحان اللہ ، وہ تو بے نیاز ہے ، آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے ۔ تمہارے پاس اس قول کی آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے؟ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ( بنی اسرائیل ، 111 ) اور ( اے نبی ) کہو ، تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے ، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو ۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ ( المومنون ، 91 ) اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ ان آیات میں ہر پہلو سے ان لوگوں کے عقیدے کی تردید کردی گئی ہے جو اللہ کے لیے نسبی اولاد یا متبنی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں ، اور اس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کردیے گئے ہیں ، یہ اور اسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں ، سورہ اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں ۔
4: یہ اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اﷲ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسی یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اﷲ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔
(112:3) لم یلد ولم یولد مضارع معروف نفی جحد بلم اور مضارع مجہول نفی جحد کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ ولادۃ (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی جننا یہ دونوں جملے الصمد کی تفسیر ہیں۔ یعنی الصمد وہ ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ اس کو کسی نے جنا۔
ف 10 اس سے نصاریٰ کا رد ہوا جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں اور مشرکین عرب کا بھی رد ہوا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں رکھا کرتے تھے۔
” لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ “ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے یہودیوں کی ہرزہ سرائی : یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ” اللہ “ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کو دے رکھے ہیں : (وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ) (التوبہ : ٣٠) ” اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا ” اللہ “ انہیں غارت کرے کہ یہ کدھربہکائے جارہے ہیں۔ “ عیسائیوں کی یا وہ گوئی : ایرانیوں اور یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عیسائی کہتے ہیں کہ ” اللہ “ مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو ملا کر خدا کی خدائی مکمل ہوتی ہے جسے وہ تثلیث کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کی یوں تردید کی گئی ہے : (لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہ النَّارُ وَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) (المائدۃ : ٧٢) ” بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ہی تو ہے جو مریم کا بیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل ! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ بیشک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ “ اہل مکہ کی کذب بیانی : (اَمْ خَلَقْنَا الْمَلآءِکَۃَ اِِنَاثًا وَہُمْ شَاہِدُوْنَ ۔ اَلَا اِِنَّہُمْ مِّنْ اِِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللّٰہُ وَاِِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ۔ اَاَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ ) ( صافات : ١٥٠ تا ١٥٢) کیا ہم نے ملائکہ کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس وقت موجود تھے۔ سُن لو دراصل یہ لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ کہ ” اللہ “ اولاد رکھتا ہے یقیناً یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پسند کرلیں ہیں ؟ “ کلمہ پڑھنے والوں کی زبان درازی : دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کروڑوں کی تعداد میں کلمہ پڑھنے والے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے اعتبار سے ” اللہ “ کے نور کا حصہ ہیں اور یہی لوگ فوت شدگان کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں یہاں تک کہ صوفیائے کرام نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا عقیدہ اپنا رکھا ہے۔ وحدت الوجود کا معنٰی ہے کہ کائنات کی شکلیں مختلف ہیں مگر حقیقت میں وہ سب ” اللہ “ ہیں۔ اس کے لیے بےدین صوفی ہمہ اوست کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا الگ وجود ہے اور کائنات اس کا پرتو ہے وہ اس کے لیے ہمہ از اوست کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی سب کچھ اسی سے نکلا ہے۔ اسی عقیدے کا تسلسل ہے کہ مساجد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ” یا نور اللہ “ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ (وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا اِِنَّ الْاِِنسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ) (الزخرف : ١٥) ” اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔ “ (وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ ) (الیوسف : ١٠٦) ” اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔ “ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا بیٹا یا جز قرار دینا سب سے بڑا گناہ اور جرم ہے۔ (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (مریم : ٨٨ تا ٩٢) ” وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم لوگ کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ “ ” اللہ “ اپنی ذات، صفات، عبادت اور حکم میں کسی شریک کو پسند نہیں کرتا : تمام انبیاء اور نبی آخر الزّمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعوت تھی اور ہے کہ الٰہ نہ دو ہیں نہ تین اور نہ اس سے زیادہ۔ الٰہ صرف ایک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور اس کی صفات میں کوئی شریک اور نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے، مشرکین نے اپنی طرف سے محض نام رکھ لیے ہیں۔ اس بنا پر کسی کو داتا کہتے ہیں، کسی کو دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ اسے ایک مانو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا حکم تسلیم کرو۔ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ) (الشوریٰ : ١١) ” کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ “ (مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (الیوسف : ٤٠) ” تم چند ناموں کے سوا عبادت نہیں کرتے۔ جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ (وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (الاعراف : ١٨٠) ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں سو اسے انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں انہیں جلد ہی اس کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ (وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا) (النساء : ٣٦ ) ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ “ (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) (الکہف : ١١٠) ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ (مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا) (الکھف : ٢٦) ” نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔ “
﴿ لَمْ يَلِدْ ١ۙ۬ وَ لَمْ يُوْلَدْۙ٠٠٣﴾ (نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے) اس میں ان لوگوں کا جواب ہوگیا جنہوں نے کہا تھا کہ اپنے ر ب کا نسب بیان کریں اس میں واضح طور پر بتادیا کہ کسی خاندان کی طرف اس کی نسبت نہیں ہے والد اور مولود میں مشابہت ومجانست ہوتی ہے وہ تو بالکل تنہا ہے ہر اعتبار سے واحد اور متوحد ہے وہ کسی کی اولاد ہو یہ بھی محال ہے اور اس کے کوئی اولاد ہو یہ بھی ناممکن ہے۔ سورة ٴ مریم میں ارشاد فرمایا : ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ٠٠٨٨ لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّاۙ٠٠٨٩ تَكَاد السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙ٠٠٩٠ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًاۚ٠٠٩١ وَ مَا يَنْۢبَغِيْ للرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ٠٠٩٢﴾ (اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کرلی ہے تم نے یہ ایسی سخت حرکت کی ہے اس کے سبب کچھ بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں اس بات سے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے) اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اس کا وجود ازلی و ابدی ہے وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا اور اس کی اولاد ہونا اس کی شان احدیت کے خلاف ہے لہٰذا مشرکین نے اس کے لیے جو اولاد تجویز کی ہے جیسا کہ عرب کے مشرکوں نے فرشتوں کو اس کی بیٹیاں بتایا اور یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری نے حضرت مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتایا۔ یہ سب باطل اور جھوٹ ہے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کا والد بنے۔ ﴿ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ١ۚ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ١ۚ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ٠٠٣٠﴾ اس میں ہر طرح کی برابری کی نفی فرما دی کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا مثل نہیں اور برابر نہیں، نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں وہی معبود وحدہ لاشریک ہے صرف وحی حاجتیں پوری فرماتا ہے وہی علیم ہے قدیر ہے حکیم ہے حی لا یموت ہے سب اسی کی طرف متوجہ ہوں اسی سے مانگیں اور اسی کی عبادت کریں۔ سورة الاخلاص اور سورة الشوریٰ کی آیت ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ١ۚ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ٠٠١١﴾ کو سامنے رکھا جائے، ان دونوں میں بہت جامع طریقے پر اللہ تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی ہے اثبات المحامد بھی اور معایب اور نقائص سے تنزیہہ کا بیان بھی ہے، تجسیم تشبیہ تعطیل سب اس کی شان عالی کے خلاف ہے۔ ولم یکن لہ کفوا احد (اخر احد وھو اسم یكن) عن خبرھا رعایة للفاصلة قرء حفص کفواً بضم الفاء وفتح الواو من غیر ھمزة وحلف و یعقوب یاء سکان الفاء مع الھمزة فی الوصل فاذا وقف ھمزة ابدل الھمزة واوًا مفتوحة اتباعًا للخط والقیاس ان یلقی حرکتھا علی الفاء والباقون بضم الفاء مع الھمزة۔
4:۔ ” لم یلد “ اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا، اس کا کوئی ولد اور نائب نہیں یعنی اس نے اختیارات کسی کے حوالے نہیں کر رکھے۔ ” ولم یولد “ وہ حادث نہیں کہ کسی سے پیدا ہوا ہو وہ ازلی ہے۔ ” ولم یکن لہ کفوا احد “ پہلے سب پر اللہ کی برتری اور عظمت کا ذکر تھا اب یہاں ہمسر کی نفی کی گئی ہے کہ اس سے کسی کا برتر ہونا تو درکنار ساری کائنات میں اس کے برابر بھی کوئی نہیں۔ اس ساری کائنات میں اس کے سوا کوئی الٰہ، کارساز، حاجت روا اور دعا و پکار کے لائق نہیں۔
(3) نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اس آیت میں ان لوگوں کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں جیسے یہود اور نصاریٰ اور مشرکوں کی وہ جماعت جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں اولاد میں احتیاج بھی ہے اور واجب الوجود ہونے کے بھی منافی ہے جب اپنے وجود میں محتاج ہو باپ کا تو واجب الوجود کہاں رہا۔