Surat ul Falaq
Surah: 113
Verse: 4
سورة الفلق
وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ۙ﴿۴﴾
And from the evil of the blowers in knots
اور گرہ ( لگا کر ان ) میں پھونکنے والیوں کے شر سے ( بھی )
وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ۙ﴿۴﴾
And from the evil of the blowers in knots
اور گرہ ( لگا کر ان ) میں پھونکنے والیوں کے شر سے ( بھی )
And from the evil of the blowers in knots, Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan, Qatadah and Ad-Dahhak all said, "This means the witches." Mujahid said, "When they perform their spells and blow into the knots."
4۔ 1 نفاثات، مونث کا صیغہ ہے، جو النفوس (موصوف محذوف) کی صفت ہے من شر النفوس النفاثات یعنی گرہوں میں پھونکنے والے نفسوں کی برائی سے پناہ اس سے مراد جادو کا کالا عمل کرنے والے مرد اور عورت دونوں ہیں یعنی اس میں جادوگروں کی شرارت سے پناہ مانگی گئی ہے، جادوگر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔ عام طور پر جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے اس پر یہ عمل کیا جاتا ہے۔
[٥] آپ پر جادو :۔ گرہ میں پھونکیں مارنے کا کام عموماً جادوگر کیا کرتے ہیں اور جو لوگ بھی موم کے پتلے بنا کر اس میں سوئیاں چبھوتے ہیں اور کسی کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگاتے اور پھونکیں مارتے جاتے ہیں سب جادوگروں کے حکم میں داخل ہیں۔ اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو جادوگر نہیں عامل کہا جاتا ہے۔ اور جادو کرنا صریحاً کفر کا کام ہے۔ جیسے سورت بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ میں یہ صراحت موجود ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جادو چونکہ کفر کا کام ہے۔ اس لیے جادو کا اثر کسی ایماندار یا مومن پر نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی جادو کیا گیا تھا اور اس جادو کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت پر اثر بھی ہوگیا تھا۔ اور یہ بات اتنی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں لہذا یہ حضرات اپنے اس نظریہ کے مطابق ایسی تمام احادیث کا انکار کردیتے ہیں۔ لہذا ہم پہلے یہاں بخاری سے ایک حدیث درج کرتے ہیں پھر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کیا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کر نہیں رہے ہوتے تھے۔ آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز دعا کی (کہ اللہ اس جادو کا اثر زائل کردے) پھر فرمانے لگے :&& عائشہ (رض) ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ نے مجھے وہ تدبیر بتادی جس سے مجھے اس تکلیف سے شفا ہوجائے۔ ہوا یہ کہ (خواب میں) دو آدمی میرے پاس آئے۔ ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پائنتی کی طرف۔ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا :&& اس شخص کو کیا تکلیف ہے ؟ && دوسرے نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے && پہلے نے پوچھا :&& کس نے جادو کیا ہے ؟ && دوسرے نے جواب دیا :&& لبید بن اعصم (یہودی) نے && پہلے نے پوچھا : && کس چیز میں جادو کیا ؟ && دوسرے نے جواب دیا۔ && کنگھی اور آپ کے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کے پوست میں && پہلے نے پوچھا : && یہ کہاں رکھا ہے ؟ && دوسرے نے جواب دیا :&& ذروان کے کنوئیں میں && غرض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جب وہاں سے پلٹے تو سیدہ عائشہ (رض) سے فرمایا : && اس کنوئیں کے درخت ایسے ڈراؤنے ہوگئے تھے جیسے ناگوں کے پھن ہوں && سیدہ عائشہ (رض) نے عرض کیا :&& یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو (یعنی جادو کے سامان کو) نکالا کیوں نہیں ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اللہ نے اچھا کردیا۔ اب میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ لوگوں میں ایک جھگڑا کھڑا کر دوں && پھر وہ کنواں مٹی ڈال کر بھر دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ) اور بخاری کی دوسری روایت جو کتاب الادب میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے نہیں بلکہ چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جادو کی اشیاء کنوئیں سے نکلوائی تھیں نیز یہ کہ اس کنوئیں کا پانی جادو کے اثر سے مہندی کے رنگ جیسا سرخ ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الادب، باب ان اللہ یامر بالعدل والا حسان) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (١) لبید بن اعصم ایک ماہر جادو گر تھا۔ ٢۔ لبید کی دو لڑکیاں بھی جادوگری کے فن میں ماہر تھیں۔ ان لڑکیوں نے ہی کسی طریقہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگائی تھیں۔ ٣۔ ذروان کنوئیں سے جو اشیاء برآمد کی گئیں۔ ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں۔ اور ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبریل نے آکر بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معوذتین پڑھیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں کیونکہ ان دونوں سورتوں کی گیارہ ہی آیات ہیں۔ اور ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہوگئے جیسے کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ ٤۔ لبید بن اعصم کو پوچھا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ان احادیث پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہوسکتا یعنی اگر کوئی کرے بھی تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب ہزارہا لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں تو اس دہشت کا اثر موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر ہوگیا تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ( فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَـفْ ۭ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ 28) 51 ۔ الذاریات :28) موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے (بذریعہ وحی) کہا : موسیٰ ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔ چند اعتراضات اور ان کے جواب :۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی پر جادو کا اثر تسلیم کرلیا جائے تو شریعت ساری کی ساری ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے۔ کیا معلوم کہ نبی کا فلاں کام وحی کے تحت ہوا تھا یا جادو کے زیر اثر ؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ٧ ھ میں (جنگ خیبر اور صلح حدیبیہ کے بعد) پیش آیا۔ جبکہ یہودی ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ پہلے خیبر کے یہودی ایک سال جادو کرتے رہے جس کا خاک اثر نہ ہوا۔ پھر وہ مدینہ میں لبید بن اعصم کے پاس آئے جو سب سے بڑا جادوگر تھا اور اس کی بیٹیاں اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انہوں نے بڑا سخت قسم کا جادو کیا۔ اس کا بھی چھ ماہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ اثر نہ ہوا۔ بعد میں اس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ تاہم اس کا اثر محض آپ کے ذاتی افعال تک محدود تھا۔ یعنی آپ یہ سوچتے کہ میں فلاں کام کرچکا ہوں جبکہ کیا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ذہنی کوفت آپ کو چالیس دن تک رہی۔ بعد میں اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفایاب ہوگئے۔ اب دیکھیے یہ بات واضح ہے کہ اس وقت تک قرآن نصف سے زیادہ نازل ہوچکا تھا۔ اہل عرب اس وقت دو گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک مسلمان اور ان کے حلیف، دوسرے مسلمانوں کے مخالفین، اگر اس دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا، یعنی کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز ہی نہ پڑھاتے۔ یا ایک کے بجائے دو بار پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کرکے یا غلط سلط پڑھ دیتے یا کوئی اور کام منزل من اللہ شریعت کے خلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرزد ہوجاتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ کفار کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کو یا تو جادو گر کہتے تھے اور یا جادو زدہ (مسحور) اب اگر ہم خود ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو اور اس کی اثر پذیری تسلیم کرلیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض اس لیے غلط ہے کہ کفار کا الزام یہ ہوتا تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعویٰ کا آغاز ہی جادو کے اثر کے تحت کیا ہے اور جو کچھ یہ قیامت، آخرت، حشرو نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے۔ یہ سب کچھ جادو کا اثر یا پاگل پن کی باتیں ہیں۔ گویا وہ نبوت اور شریعت کی تمام تر عمارت کی بنیاد جادو قرار دیتے تھے لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بیس سال بعد پیش آتا ہے جبکہ آدھا عرب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور احکام شریعت کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتا تھا۔ پھر یہ واقعہ احکام شریعت پر چنداں اثر انداز بھی نہیں ہوا البتہ اس واقعہ سے اس کے برعکس یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔ کہ آپ ہرگز جادوگر نہ تھے۔ کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔
(ومن شر النفثت فی العقد :” النفثت “ ” نفاثۃ “ کی جمع ہے جو ” نفست ینفست نفنا “ (ن، ض) (پھونک مارنا، جس کے ساتھ تھوڑی سی تھوک ہو) سے مشتق ہے، بہت پھونکیں مارنے والی عورتیں یا جماعتیں۔ اگر ” نفائۃ “ میں تاء ” علامۃ “ کی طرح مبالغے کے لئے ہو یا ” النفثت “ سے مراد نفوس ہوں تو عورتوں کے علاوہ بہت پھونکیں مارنے والے مرد بھی مراد ہوسکتے ہیں۔” العقد “ ” عقدۃ “ کی جمع ہے، گر ہیں۔ ابن جریر اور مفسرین سلف کے مطابق گرہوں میں پھونکیں مارنے والویں سے مراد جادو کرنے والی عورتیں یا لوگ ہیں، کیونکہ انہوں نے جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے اس پر جادو کرتے ہوئے کسی تانت یا دھاگے میں گر ہیں ڈالتے جاتے اور منتر پڑھ پڑھ کر ان میں پھونکیں مارتے جاتے ہیں۔ ان کے شر سے خصا طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لئے کی گئی کہ وہ چھپ کروار کرتے ہیں۔ آدمی کو خبر ہی نہیں ہوتی ہ اسے تکلیف کیوں ہے، وہ بیماری سمجھ کر علاج معالجہ میں لگا رہتا ہے اور تکلف بڑھتی جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ” العقد “ (گرہوں) سے مراد مردوں کے پختہ عزم اور ارادے ہیں اور ” النفثت “ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح تھوک کے ساتھ رسی کی گرہیں نرم کی جاتی ہیں اس طرح عورتیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مردوں کے پختہ ارادوں کو بدل دیتی ہیں، اس آیت میں ان عورتوں کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ۔ یہ معنی پر لطف ہونے کے باوجود سلف کی تفسیر کے خلاف ہے اور اکثر یہ معنی کرنے والے وہ لوگ ہیں جو جادو سے نقصان پہنچنے کے قائل نہیں اور انہیں اپنے اس موقف پر اس قدر اصرار ہے کہ وہ بخاری و مسلم اور حدیث کی بہت سی دوسری کتابوں میں مروی حدیث کو ماننے ہی سے انکار کردیتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ لبیدبن اعصم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا اور آپ اس جادو کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار اور پریشان رہے تھے۔ (دیکھیے بخاری، کتاب الطب، باب ھل یستخرج السحر ؟: ٥٨٦٥، ٥٨٦٣)
وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ ٤ ۙ نفث النَّفْثُ : قَذْفُ الرِّيقِ القلیلِ ، وهو أَقَلُّ من التَّفْلِ ، ونَفْثُ الرَّاقِي والساحرِ أن يَنْفُثَ في عُقَدِهِ ، قال تعالی: وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] ومنه الحيَّةُ تَنْفُثُ السّمَّ ، وقیل : لو سَأَلْتَهُ نُفَاثَةَ سواکٍ ما أعْطَاكَ «1» . أي : ما بَقِيَ في أَسنانک فنَفَثْتَ به، ودمٌ نَفِيثٌ: نَفَثَهُ الجُرْحُ ، وفي المثل : لَا بُدَّ لِلْمَصْدُورِ أَنْ يَنْفُثَ ( ن ف ث ) النفث کے معنی تھوڑا ساتھو کنے یا تھتکار نے کے ہیں اور یہ تفعل ( تھوکنا ) سے کم درجہ ہوتا ہے اور افسوس یا جادو کرنے والے کے گنڈوں پر پڑھ پھونکنے کو بھی نفث کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] اور گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے اور اسی سے الحیۃ تنفث السم ( سانپ زہر اگلتا ہے کا محاورہ ہے مثل مشہور ہے اس سے مسواک کا یاک ریزہ بھی طلب کرے تو نہ دے یعنی وہ نہایت بخیل ہے اور نفاثۃ سواک اس ریزہ کو کہا جاتا ہے اور اسے پھینک دیا جاتا ہے ۔ دم نفیث خون جو زخم سے بہہ نکلے مثل مشہور ہے لا بد للمصدور ان ینفث در دسینہ کے مریض کو تھوکنے سے چارہ نہیں ۔ عقد العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] ، والعُقْدَةُ : اسم لما يعقد من نکاح أو يمين أو غيرهما، قال : وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وعُقِدَ لسانه : احتبس، وبلسانه عقدة، أي : في کلامه حبسة، قال : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] ، النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] ، جمع عقدة، وهي ما تعقده الساحرة، وأصله من العزیمة، ولذلک يقال لها : عزیمة كما يقال لها : عُقْدَة، ومنه قيل للساحر : مُعْقِدٌ ، وله عقدة ملك «2» ، وقیل : ناقة عاقدة وعاقد : عقدت بذنبها للقاحها، وتیس وکلب أَعْقَدُ : ملتوي الذّنب، وتَعَاقَدَتِ الکلاب : تعاظلت «3» . ( ع ق د ) العقد کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو العقد ۃ نکاح عہدو پیمان وغیرہ جو پختہ کیا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔۔۔ عقد لسانہ اس کی زبان پر گرہ لگ گئی فی لسانہ عقدۃ اس کی زبان میں لکنت ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] اور گرہوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے میں عقدۃ عقدۃ کی جمع ہے یعنی وہ گر ہیں جو جادو گر عورتیں لگاتی ہیں دراصل اس کے معنی عزیمۃ کے ہیں اس لئے اس پر عقدۃ اور عزیمۃ دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور جادو گر کو معقدۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ لہ عقدۃ ملک اس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے ۔ ناقۃ عاتدۃ وعاقد وہ اونٹنی جس کی دم گرہ دار ہوجائے اور یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ نر سے جفتی کی خواہشمند ہے ۔ تیس وکلب اعقد نرسانڈ یا کتا جس کی دم لپٹی ہوئی ۔ تعاقدت لکلاب کتوں کا آپس میں جفتی کرنا ۔
جادوگروں کے کمالات سے مرعوب نہ ہوں قول باری ہے (ومن شرالنفثت فی العقد اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے سر سے) ابو صالح کا قول ہے کہ اس سے مراد جادوگرنیاں ہیں۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا۔ ” تم لوگ اس جادو سے بچو جو جھاڑ پھونک کے ساتھ مل جاتا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ گرہوں میں پھونک مارنے والیاں جادوگرنیاں ہیں جو بیمار پر پھونک مارتی ہیں اور ایسے منتر پڑھتی ہیں جس میں کفر اور شرک کی آمیزش ہوتی ہے اور ستاروں کی عظمت کا بیان ہوتا ہے۔ وہ بیمار کو نقصان وہ اور جان لیوا مسموم دوائیاں کھلاتی ہیں۔ ان چیزوں کو وسیلہ بنا کر دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے جھاڑ پھونک کا کرشمہ ہے، جس شخص کو وہ نقصان پہنچانا اور اس کی جان لینا چاہتی ہیں اس شخص کے ساتھ وہ یہ طریقہ کار اختیار کرتی ہیں۔ لیکن جس شخص کے متعلق ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اسے نفع پہنچانا چاہتی ہیں اسے جھاڑ پھونک کرتی ہیں اور یہ وہم دلاتی ہیں کہ وہ اسے اس جھاڑ پھونک کے ذریعے فائد پہنچا رہی ہیں۔ بعض دفعہ وہ مفید قسم کی دوائیاں کھلاتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض تکلیف میں کمی محسوس کرتا ہے۔ جس جھاڑ پھونک کی ممانعت ہے یہ وہ جھاڑ پھونک ہے جو زمانہ جاہلیت کے طریقے پر ہوتا تھا جس میں کفر وشرک کی آمیزش ہوتی تھی۔ اس کے برعکس قرآنی آیات اور اللہ کے نام سے جھاڑ پھونک اور تعویذ کرنا جائز ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف اس کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے۔ اللہ کے ذکر کے ذریعے جھاڑ پھونک سے برکت حاصل کرنے کے متعلق ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے پناہ مانگنے کا اس لئے حکم دیا ہے کہ جو شخص اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ جھاڑ پھونک کرنے والی عورتیں جھاڑ پھونک کے ذریعے فائدہ پہنچاتی ہیں اسے دینی لحاظ سے نقصان پہنچے گاکیون کہ وہ اس جھاڑ پھونک کے نافع اور ضرر رساں ہونے کے اعتقاد کرلے گا جو بجائے خودشرک ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھیے ، ان عورتوں کا شر اس پہلو سے بھی ہے کہ یہ نقصان دہ اور ادویات اور زہریلی چیزیں پلانے کے لئے مختلف حیلے استعمال کرتی ہیں۔
آیت ٤{ وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ۔ } ” اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہیں باندھ کر پھونکیں مارتی ہیں۔ “ یعنی وہ تمام ٹونے ٹوٹکے ‘ تعویذ گنڈے اور سفلی عملیات جن کے ذریعے سے کسی انسان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے یہاں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ کسی چیز کا بالفعل موجود ہونا اور بات ہے اور اس چیز کا حلال ‘ حرام یا جائز ‘ ناجائزہونا الگ بات ہے۔ مثلاً جادو ایک حقیقت ہے لیکن کفر ہے۔ شراب اپنی ایک مخصوص تاثیر رکھتی ہے لیکن حرام ہے۔ اسی طرح علم نجوم ‘ پامسٹری (ہاتھ کی لکیروں کا علم) اور سفلی عملیات کی حقیقت اور تاثیر سے انکار نہیں کیا جاسکتا (ظاہر ہے جب ہم اچھے وظائف و کلمات کی اچھی تاثیر کو مانتے ہیں تو ہمیں سفلی و شیطانی کلمات وغیرہ کی منفی تاثیر کا بھی اقرار کرنا پڑے گا) لیکن شریعت نے ہمیں ایسے علوم سے استفادہ کرنے اور ایسے علوم کی بنیاد پر کیے گئے دعو وں پر یقین کرنے سے منع کردیا ہے۔ ظاہر ہے اس نوعیت کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ تو موثر ہوسکتی ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے ان کے شر سے بچنے کا آسان اور موثر طریقہ یہی ہے کہ انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے دے۔
6 The word ' uqad in naffathat frl-'eqad is plural of 'uqdah, which means a knot that is tied on a string or piece of thread. Nafath means to blow. Naftathat is plural of naffathah, which may mean the men who blow much, and if taken as a feminine gender, women who blow much; it may as well relate to nufus (human beings) or to jama ats (groups of men) , for both nafas and jama 'at are grammatically feminine. Blowing upon knots, according to most, rather all, comentators implies magic, for the magicians usually tie knots on a string or thread and blow upon them as they do so. Thus, the verse means: "I seek refuge with the Lord of rising dawn from the evil of magicians, male and female." This meaning is also supported by the traditions which show that when magic was worked on the Holy Prophet (upon whom be peace) , Gabriel (peace be on him) had come and taught hint to recite the Mu awwidhatayn, and in the Mu'awwidhatayn this is the only sentence which relates directly to magic. Abu Muslim Isfahani and Zamakhshari have given another meaning also of naffathat fil-'uqad, which is that it implies the deceitfulness of women and their influencing men's resolutions, views and ideas and this has been compared to a magic spell, for in the love of women man starts behaving as if he was under a spell. Though this explanation is interesting, it runs counter to the commentary given by the earliest scholars; and it also does not correspond to the conditions in which the Mu awwidhatayn were sent down as we have shown in the Introduction. About magic one should know that in it since help is sought of the satans and evil spirits or stars to influence the other person evilly, it has been called kufr (unbelief) in the Qur'an: "Solomon was not involved in kufr but the satans who taught tragic to the people." (AI-Baqarah: 102) . But even if it dces not contain any word of kufr, or any polytheistic element, it is forbidden and unlawful and the Holy Prophet (upon whom be peace) has counted it among the seven heinous sins which ruin the Hereafter of man. In Bukhari and Muslim a tradition has been related from Hadrat Abu Hurairah, saying that the Holy Prophet (upon whom be peace) said: "Avoid seven deadly sins: associating another with Allah, magic, killing a soul, which AIIah has forbidden unjustly, devouring interest, eating the orphan's property, fleeing from the enemy in the battlefield, and slandering simple and chaste Muslim women with un-chastity."
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 6 اصل الفاظ ہیں نَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ ۔ عقد جمع ہے عقدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں ، جیسی مثلا تاگے یا رسی میں ڈالی جاتی ہے ۔ نفث کے معنی پھونکنے کے ہیں ۔ نفاثات جمع ہے نفاثہ کی جس کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں گے ، اور اگر اسے مونث کا صیغۃ سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والی عورتیں بھی ہوسکتی ہیں ، اور نفوس یا جماعتیں بھی ، کیونکہ عربی میں نفس اور جماعت دونوں مونث ہیں ۔ گرہ میں پھونکنے کا لفظ اکثر ، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے ، کیونکہ جادوگر عموما کسی ڈور یا تاگے میں گرہ دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں طلوع فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جادوگروں یا جادوگرنیوں کے شر سے ۔ اس مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آکر حضور کو معوذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی ، اور معوذتین میں یہی ایک فقرہ ہے جو براہ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے ۔ ابو مسلم اصفہانی اور زمخشری نے نفاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں کی مکاری ، اور مردوں کے عزائم اور آراء اور خیالات پر ان کی اثر اندازی ہے اور اس کو جادوگری سے تشبیہ دی گئی ہے ، کیونکہ عورتوں کی محبت میں مبتلا ہوکر آدمی کا وہ حال ہوجاتا ہے گویا اس پر جادو کردیا گیا ہے ۔ یہ تفسیر اگرچہ پر لطف ہے ، لیکن اس تفسیر کے خلاف ہے جو سلف سے مسلم چلی آتی ہے ، اور ان حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں رکھتی جن میں معوذتین نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں ۔ جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں چونکہ دوسرے شخص پر برا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواح خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں اسے کفر کہا گیا ہے: ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا ، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔ ( البقرہ 102 ) لیکن اگر اس میں کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعل شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات ایسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کر دینے والے ہیں ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا سات غارت گر چیزوں سے پرہیز کرو ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، جادو ، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلنا ، اور بھولی بھالی عفیف مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا ۔
3: ’’جانوں‘‘ کے کے لفظ میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں۔ جادو گر مرد ہوں یا عورت، دھاگے کے گنڈے بناکر اُس میں گرہیں لگا تے جاتے ہیں اور اُن پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھو نکتے رہتے ہیں۔ اُن کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔
(113:4) ومن شر النفثت فی العقد (ملاحظہ ہو آیات مذکورہ بالا 23) ترجمہ ہوگا :۔ (اور خصوصی طور پر پناہ مانگتا ہوں صبح کے پروردگار کی) ان کے شر سے جو پھونکیں مارتی ہیں گرہوں میں۔ النفثت جمع نفاثۃ : کی۔ مبالغہ کا صیغہ ہے جمع مؤنث۔ نفث باب ضرب۔ نصر۔ مصدر سے۔ خوب دم کرنے والیاں۔ خوب پھونکیں مارنے والیاں۔ نفث کے معنی ہیں قدرے تھوک تھوکنا۔ علامہ ابن منظور کہتے ہیں :۔ تھوڑی تھوک تھوکنے کو التفل کہا جاتا ہے نفث بھی اس سے نیچے کا درجہ ہے جو پھونک مارنے کے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ عقد جمع ہے عقدۃ کی جس کے معنی گرہ (گانٹھ) کے ہیں۔ یہاں مراد وہ گرہیں ہیں جن کو جادوگرنیاں ڈوروں پر افسوس پڑھ کر پھونکنے کے بعد لگایا کرتی ہیں اسی لئے عربی میں ساحر کو معقد بھی کہتے ہیں۔ آیت ہذا میں النفثت فی العقد سے مراد لبید بن اعصم یہودی کی لڑکیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا
ف 3 ابو عبید کہتے ہیں کہ جادو گرنیوں سے مراد لبید بن اعصم یہودی کی بٹیاں ہیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا۔ “ جادو کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔” جو کوئی گنڈا لگائے اور پھر اس پر پھونکے اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا اور جو کسی چیز سے چمٹا وہ اسی کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ (فتح القدیر بحوالہ نسائی وغیرہ عن ابی ہریرہ)
﴿وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِۙ٠٠٤﴾ (اور رب الفلق کی پناہ لیتا ہوں گرہوں پر دم کرنے والیوں کے شر سے) اس کی پوری تفصیل سبب نزول کے بیان میں گزر چکی ہے۔
4:۔ ” ومن شر النفثت “ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے جادو کرنے والی عورتوں مراد ہیں۔ عام طور پر عورتیں ہی جادو کا کام کرتی ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا۔ یا اس سے لبید بن اعصم یہودی کی بیٹیاں مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا۔ ” ومن شر حاسد اذا حسد “ اور ہر حاسد اور زوال نعمت کی آرزو کرنے والے کے شر سے بھی پناہ مانگو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی صرف ایک صفت ذکر کی گئی ہے اور جن چیزوں سے استعاذہ مقصود ہے ان میں پہلی چیز عام ہے یعنی شر ما خلق، اور پھر اس کے بعد تین مخصوص چیزوں کا ذکر ہے، غاسق، نفاثات اور حاسد اور سورة الناس میں اس کا عکس ہے۔
(4) اور ان جادوگرنیوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو منتر پڑھ پڑھ کر گرہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ یعنی وہ جادوگرنیاں جو کلمات کفریہ اور منتر پڑھ کر تانت میں یا بال میں گرہیں لگاتی ہیں اور ان میں پھونکیں مارتی ہیں۔ شاید اس سے مراد لبیدبن اعظم کی لڑکیاں ہوں یا عام جادوگرنیاں مراد ہوں کہ ان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں