Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 105

سورة يوسف

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ یَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہَا وَ ہُمۡ عَنۡہَا مُعۡرِضُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾

And how many a sign within the heavens and earth do they pass over while they, therefrom, are turning away.

آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے یہ منہ موڑے گزر جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

People neglect to ponder the Signs before Them Allah says; وَكَأَيِّن مِّن ايَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ And how many a sign in the heavens and the earth they pass by, while they are averse therefrom. Allah states that most people do not think about His signs and proofs of His Oneness that He created in the heavens and earth. Allah created brilliant stars and rotating heavenly objects and planets, all made subservient. There are many plots of fertile land next to each other on earth, and gardens, solid mountains, lively oceans, with their waves smashing against each other, and spacious deserts. There are many live creatures and others that have died; and animals, plants and fruits that are similar in shape, but different in taste, scent, color and attributes. All praise is due to Allah the One and Only, Who created all types of creations, Who Alone will remain and last forever. It is He Who is unique in His Names and Attributes. Allah said next, وَمَا يُوْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ

بیان ہو رہا ہے قدرت کی بہت سی نشانیاں ، وحدانیت کی بہت سے گواہیاں ، دن رات ان کے سامنے ہیں ، پھر بھی اکثر لوگ نہایت بےپرواہی اور سبک سری سے ان میں کبھی غور وفکر نہیں کرتے ۔ کیا یہ اتنا وسیع آسمان ، کیا یہ اس قدر پھیلی ہوئی ، زمین ، کیا یہ روشن ستارے یہ گردش والا سورج ، چاند ، یہ درخت اور یہ پہاڑ ، یہ کھیتیاں اور سبزیاں ، یہ تلاطم برپا کرنے والے سمندر ، یہ بزور چلنے والی ہوائیں ، یہ مختلف قسم کے رنگا رنگ میوے ، یہ الگ الگ غلے اور قدرت کی بیشمار نشانیاں ایک عقل مند کو اس قدر بھی کام نہیں آ سکتیں ؟ کہ وہ ان سے اپنے اللہ کی جو احد ہے ، صمد ہے ، فرد ہے ، واحد ہے ، لا شریک ہے ، قادر و قیوم ہے ، باقی اور کافی ہے اس ذات کو پہچان لیں اور اس کے ناموں اور صفتوں کے قائل ہو جائیں؟ بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں ۔ آسمان وزمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھراتے ہیں ۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں ، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں ، جو بھی شریک ہیں ، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الہٰی تیرا کوئی شریک نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس ، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو ۔ فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت ۔ بخاری ومسلم میں ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں ۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں ۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے ، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توکل کے باعث سب سختیوں سے دور کر دیتا ہے ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہ کی عادت تھی ، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے ، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایس حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے ۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چار پائی تلے چھپا دیا آپ آئے میرے پاس میری چار پائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بےنیاز ہے ۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویدات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی ، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی ، وہ دم جھارا کر دیتا تھا تو سکون ہو جاتا تھا ، آپ نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ وہ کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے دعا ( اذھب الباس رب الناس اشف وانت الشاف لا شفاء الا شفاوک شفاء لا یغدر سقما ) ( مسند احمد ) مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے ۔ ہم ان کی عیادت کے لئے گئے ، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ۔ مسند میں ہے جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا ۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے ، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے . ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بےنیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ( مسلم ) مسنند میں ہے قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے ، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے ، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کر لے ، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بےنیاز ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کرو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لئے تم نے عمل کئے تھے ، انہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص کوئی بد شگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہو گیا ۔ صحابہ علیہ السلام نے دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہنا دعا ( اللہم لا خیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولا الہ غیرک ) یعنی اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے ، اس پر حضرت عبداللہ بن حرب اور حضرت قیس بن مصابب کھڑے ہو گئے اور کہا یا تو آپ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی شکایت کریں ۔ آپ نے فرمایا لو دلیل لو ۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا لوگو ! شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو دعا ( اللہم انا نعوذ بک ان نشرک بک شیئا تعلمہ ونستغفرک مما لا نعلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے ۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت ( اللہم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک مما لا اعلم ( مسند ابو یعلی ) ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ دعا ( اللہم فاطر السموت والارض عالم الغیب الشہادۃ رب کل شئی وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشر کہ ) ایک روایت میں ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں دعا ( وان اقترف علی نفسی سوا او اجرہ الی مسلم ۔ ) فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الہٰی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45؀ۙ ) 16- النحل:45 ) یعنی مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے ۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں ، یہ تو صرف اس کی رحمت و رافت ہے کہ گنا کریں اور پھلیں پھولیں ۔ فرمان اللہ ہے کہ بستیوں کے گنہگار اس بات سے بےخطرے ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آ جائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک خالق و صانع ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا ایسا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں کبھی آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہیں ہوا لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گزر جاتے ہیں ان پر غو و فکر کرتے ہیں اور نہ ان سے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] یعنی اگر قرآن کی آیات میں غور نہیں کرتے تو کائنات کی نشانیوں میں غور کرلیں تب بھی انھیں اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے کائنات میں بکھری ہوئی لاتعداد نشانیاں ان کے سامنے موجود ہیں مگر یہ ادھر توجہ ہی نہیں کرتے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اللہ کی معرفت یا ہدایت کے طالب ہی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ ۔۔ : ” وَكَاَيِّنْ “ کاف تشبیہ اور ” اَیٌّ“ کا مرکب ہے، معنی اس کا ہے کتنی ہی، مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد ذکر ہونے والی چیز اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شمار نہیں ہوسکتا۔ ” اٰیَةٍ “ نشانی سے مراد ایسی عجیب چیز ہے جو توجہ کو اپنی طرف کھینچ لے، اس طرح کہ وہ بھولنے نہ پائے، جیسے کہتے ہیں : ” فَلَانٌ آیَۃٌ فِي الذَّکَاءِ “ یعنی فلاں شخص ذہانت میں آیت ہے، یعنی اتنا ذہین ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ توحید کی کچھ آیات تنزیلیہ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتریں اور بیشمار کونیہ ہیں جو کائنات کے ذرے ذرے میں بکھری پڑی ہیں۔ ” یَمُرُّوْنَ “ گزرنے سے مراد صرف یہی نہیں کہ چلتے ہوئے گزرتے ہیں، کیونکہ آسمان کی نشانیوں پر گزر کیسے ہوسکتا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ کتنی ہی بیشمار عجیب و غریب چیزیں ہیں جو روزانہ ان کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں، مگر یہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ موٹی سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس دعوے کے مقابلے میں کہ ” میں نے ہر چیز پیدا کی ہے، کوئی اور ہے جس نے ایک مکھی یا اس کا پر بھی پیدا کیا ہے تو سامنے لاؤ “ جب کوئی بھی سر نہیں اٹھاتا اور تمہیں بھی یہ مانے بغیر چارہ نہیں تو اس کائنات میں اختیارات کا مالک یا اللہ تعالیٰ سے زبردستی منوالینے والا کوئی دوسرا کیوں بنا لیتے ہو ؟ اور ہر چیز کے خالق ومالک کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو کس دلیل سے مشکل کشا سمجھتے اور پکارتے ہو۔ وہ نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت جگہ ذکر کی ہیں۔ مثال کے طور پر دو تین مقامات ذکر کیے جاتے ہیں : (وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٠، ٢١ ] ” اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے۔ “ اور دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤ تا ١٦٧) کائنات میں پھیلی ہوئی ان بیشمار نشانیوں میں سے کافی نشانیاں ان آیات میں بھی آگئی ہیں، بلکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہر اختیار ہونے کو بھی کمال طرز سے بیان فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورة روم (١٧ تا ٢٨) تھوڑی سی زحمت فرما کر ان مقامات کا مطالعہ کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر پوری طرح غور کرنے والا شخص یقیناً توحید، آخرت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تک پہنچ جائے گا، ورنہ کم از کم کائنات کی چیزوں پر غور کرنے سے کسی نہ کسی مفید نتیجے یا ایجاد تک ضرور پہنچ جائے گا جو کم از کم دنیا میں اسے اور دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ جیسا کہ دیگچی کی بھاپ سے ڈھکنا اٹھنے پر غور نے بھاپ کی قوت کو دریافت کرکے ریل اور کتنی ایجادات کیں۔ بجلی، گیس، لیزر، ایٹم یہ سب اللہ کی آیات کو نیہ پر غور ہی کا نتیجہ ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اگر کوئی توحید تک نہ پہنچ سکے تو محنت اس کی بھی ضائع نہیں کرتا، کافر کو بھی اس کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی انعام دنیوی ہی سہی، ضرور دے دیتا ہے، مگر اصل کامیاب وہ ہے کہ یہ غور و فکر اسے اپنے خالق ومالک کی پہچان، اس اکیلے کی عبادت اور اس کے رسول پر ایمان تک پہنچا دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, in verse 105, the attitude of the disbelievers is portrayed by saying: وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ يَمُرُّ‌ونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِ‌ضُونَ How many a sign there is in the heavens and the Earth which they pass by and they are heedless to it. The sense is that these people are not of the kind who would simply not listen to a well-wisher out of their obstinacy. They are worse. They would not even learn from the very open signs of the perfect power of Allah Ta` ala visible to them all the time, yet keep passing by them with-out paying any attention and without wondering whose signs they were. These signs of Divine wisdom and power are widely spread out and many in number. Out of these are many signs which remind people of punishments which descended upon past peoples, and they themselves see their overturned habitations, but they would still refuse to learn their lesson. This was a description of people who simply did not believe in the ex¬istence of Allah Ta` ala, the great Creator, and in His wisdom and power. Mentioned next are those who do believe in Allah as the Creator,

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ یعنی یہ لوگ صرف یہی نہیں کہ کسی ناصح کی نصیحت ضد اور ہٹ دھرمی سے نہیں سنتے بلکہ ان کا تو حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی جو کھلی کھلی نشانیاں آسمان و زمین میں ہر وقت سامنے رہتی ہیں ان پر بھی یہ غفلت و اعراض سے گذرے چلے جاتے ہیں ذرا دھیان نہیں دیتے کہ یہ کس کی قدرت و عظمت کی نشانیاں ہیں آسمان و زمین میں حق تعالیٰ شانہ کی خدائی و حکمت وقدرت کی نشانیاں بیشمار ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ پچھلی قوموں پر جو عذاب آئے اور ان کی الٹی ہوئی یا برباد کی ہوئی بستیاں ان کی نظروں سے گذرتی مگر ان سے بھی کوئی عبرت نہیں پکڑتے یہ بیان تو ایسا لوگوں کا تھا جو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت وقدرت ہی کے قائل نہیں تھے آگے ان کا بیان ہے جو وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اس کی خدائی میں دوسری چیزوں کو شریک قرار دیتے ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ١٠٥؁ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ مرر المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کائنات میں تفکر کی دعوت قول باری ہے (وکاین من ایۃ فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون، زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے) یعنی زمین و آسمان میں کتنی نشانیاں موجود ہیں جن کے بارے میں یہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے توحید باری پر استدلال کرتے ہیں۔ آیت میں اللہ کی آیات اور اس کے دلائل سے اس کی ذات پر استدلال کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ نیز کائنات کے نظام پر غور و فکر کرنے اور اس پر اس زاویے سے نظر ڈالنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس نظام کو ایک مدبر ذات چلا رہی ہے جسے اس کائنات پر پوری قدرت حاصل ہے اور جو اس کے ایک ایک ذرے کا علم رکھتی ہے نیز یہ کہ یہ ذات کائنات کے ساتھ کسی پہلو سے بھی مشابہت نہیں رکھتی بلکہ بےمثل اور یکتا ہے۔ یہ غور و فکر کائنات کی ان چیزوں پر نظر ڈال کر کیا جاسکتا ہے جو آنکھوں پر عیاں ہیں اور حواس خمسہ سے جن کا ادراک کیا جاسکتا ہے مثلاً سورج، چاند، ستاروں، ہوائوں، درختوں، نباتات و حیوانات اور ان کی نسل کا تسلسل وغیرہ کے اندر کارفرما تدبیر وغیرہ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور بہت سی نشانیاں ہیں، آسمانوں میں جیسا کہ چاند، سورج، ستارے وغیرہ اور زمین میں جیسا کہ پہاڑ، دریا، درخت، جانور، وغیرہ جن پر اہل مکہ کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ اور غور نہیں کرتے، بلکہ الٹا جھٹلاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ) یہ لوگ زمین و آسمان کی وسعتوں میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیوں کو بار بار دیکھتے ہیں مگر کبھی ان پر غور کرکے سبق حاصل نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. Now that the story of Prophet Joseph (peace be upon him) has come to an end, the Quran has made use of the opportunity for conveying its basic message, for it does not tell stories merely for the sake of storytelling. As they themselves had invited the Prophet and were attentively listening to the story, the essence of the message was presented in a few concise sentences (Ayats 105-111). 75. This is to arouse people from their apathy towards the signs of Allah that lie scattered all over the earth and the heavens and to urge them to make a search for the reality by making right observations. As each and everything is not merely a thing but also a sign which points to the reality, a seeker after it should look at these with a look different from that of animals. This is because even an animal sees a tree, a mountain and water and takes it as a mere tree, a mountain or water, and with the help of his senses makes use of these according to his needs. But Allah has endowed man with a mind that is able to consider things in other than their physical and material aspects so that he may think deeply and make a search for the reality by means of these signs of Allah. The reason why people fail to discover the reality and go astray is that they do not consider things as signs and pay no heed to this aspect. Had they not deliberately shut their minds against the message of the Prophets, it would not have been difficult for them at all to understand it and get guidance from it.

۷٤ ۔ اوپرے کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسف کا قصہ ختم ہوگیا ، اگر وحی الہی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہوجانی چاہیے تھی ، مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے ، اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا ، اب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلایا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا ۔ ۷۵ ۔ اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کرنا ہے ، زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ، جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ، وہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں ، درخت کو درخت اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے اور اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے ، مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے ، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے ، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اس کا سراغ لگائے ، اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں ، اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے ، اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھ لیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہوجاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥۔ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ آسمان و زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں جو اللہ جل جلالہ کی وحدانیت پر دلیل ہیں جس سے خداوند عالم کا خالق رزاق ہونا ثابت ہوتا ہے ضحاک کہتے ہیں کہ آسمان کی نشانیاں سورج، چاند، تارے، بادل ہیں اور زمین کی نشانیاں ساری مخلوق خداوند جل جلالہ کی ہے اور دریا، نہریں، ندیاں، پہاڑ، ملک، قصبے، گاؤں، جھیل، ٹاپور اور دوسری بہت سی نشانیاں ہیں جن پر انسان کا گزر ہوتا ہے اور دن میں بارہا انسان انہیں دیکھتا ہے مگر اس میں ذرا بھی غور نہیں کرتا بلکہ اسے غافل رہتا ہے۔ مصحف عبد اللہ بن مسعود میں یمرون علیھا کی جگہ یمشون علیھا ہے مراد اس سے یہ ہے کہ پہلی امتوں کے آثار اور ان کی ہلاکت کا حال دیکھتے سنتے ہیں اور پھر بھی اس سے نصیحت و عبرت نہیں حاصل کرتے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی اس کو اس آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ جس طرح قرآن کی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اسی طرح اللہ کی قدرت کی اور نشانیوں سے بھی وہ لوگ غافل ہیں جس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو ان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا ہے اور وہ لوگ اللہ کی عبادت میں اوروں کو شریک کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:105) کاین۔ کتنی ہی، بہت سی۔ کثیر تعداد۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ 3:146 ۔ یمرون علیھا۔ جن پر یہ گذرتے ہیں۔ (کثیر التعداد نشانیاں جو سفر زندگی میں ان کے راستہ میں پڑتی ہیں۔ اور یہ ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں) معرضون۔ روگردانی کرنے والے۔ منہ موڑ لینے والے۔ اعراض کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٠٥ تا ١١١ اسرار ومعاف اگریہ لوگ نہیں مان رہیتو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ارض وسما میں بیشمار چیزیں اللہ کی عظمت پہ گواہی دے رہی ہیں اور زمین کا ذرہ ذرہ یا ہر ہر تنکا اور پھول پتہ اس کی عظمت کی دلیل ہے یا پھر پہلے لوگوں کی تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈر بھی کفر اور گناہ کے انجام کی خبر دے رہے ہیں اور ان لوگوں کو شب وروز انہی اشیاء سے واسطہ بھی پڑتا ہے ۔ ایسی ہی جگہوں سے ان کا گزر بھی ہوتا ہے مگر اس بات کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا بلکہ عقلا عاجز ہو کر اللہ کی ذات کا اقرار بھی کرتے ہیں تو ساتھ بہت سے اوصاف میں دوسروں کو شریک کرکے گرفتار بلاہوجاتے ہیں ۔ اور یہ تو ایسے بےفکر ہیں کہ اسی حال میں ان پر اللہ کا عذاب آجائے یا ان کی موت واقع ہوجائے یا قیامت بپا ہوجائے تب یہ ایمان لانے کی فکر کریں گے حالانکہ اس وقت ایمان لانا ہرگز مفید نہ ہوگا۔ اسلام عین عقل سلیم کے مطابق مذہب ہے اور انھیں فرمادیجئے کہ میراطریق کا ر اور راستہ یہی ہے کہ اللہ واحددلاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں اور دلامل عقلی دونوں کے ساتھ کہ نقل اور کتاب سے بھی یہ بات ثابت ہے اور عقل سلیم کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ اور میرے متبعین یا پیروکار بھی یہی کچھ کرتے ہیں یعنی اسلام ایسا مذہب نہیں جس میں محض رسومات اور ان پر فرضی نتائد کا وعدہ ہو بلکہ اس کے ارکان یعنی ایمانیات بھی اور عبادات بھی عین بصیرت کے مطابق ہیں اور یہی کچھ میرے پیروکار یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کے سینے علوم رسالت کے خزانے ہیں اور جو اللہ کے سپاہی ہیں ۔ یہ الفاظ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت سے ہیں بھی کرتے ہیں ۔ اس میں ضمنا وہ سارے افراد امت بھی شامل ہیں جو دین کی دعوت کا کام علی وجہ بصیرت کرتے ہیں یعنی خالص اور ستھرادین کمی بیشی اور بدعات سے پاک۔ نہ ایک خاص قسم کا مذہب جس میں ان کی ذاتی خواہشات ملفوف ہوں اور انھیں رواجی مذہب کے نام پر پورا کرنا چاہتے ہوں ۔ اس سے خصوصا ایسے لوگ مراد ہیں جن کے قلوب علم ظاہر اور برکات نبوی سے روشن ہوں اور جو صاحب حال ہوں ۔ اور اللہ کریم ہر طرح کی شراکت سے پاک ہے اور میں بھی ہر طرح کے شرک سے خواہ وہ کتنا خفیف ہی کیوں نہ ہو اپنی برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ نبوت صرف مردوں کو نصیب ہوئی اور آپ سے پہلے بھی ہم نے بہت سے حضرات کو انسانی آبادیوں میں مبعوث فرمایا جن پر اللہ کی طرف سے وحی آتی تھی ۔ آپ کی بعشت کوئی ایسی انہونی بات نہیں کہ ان لوگوں کو عجیب لگ رہی ہے ۔ یہاں رجال فرما کر یہ بھی طے فرمادیا کہ کوئی خاتون نبی بنائی گئی اور نبوت صرف مردوں کو نصیب ہوئی اور حضرت مریم یا ام موسیٰ یا حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی اہلیہ سارہ پر اگرچہ وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر یہ وحی نبوت نہ تھی اور اولیاء اللہ پر بھی من جانب اللہ علم کا نزول ثابت ہے ۔ نبوت چونکہ سرمیدان کرنے کا کام ہے اور عورت کے لیئے پردہ لازم تو یہ اس کے کرنے کا کام ہی نہ تھا۔ لہٰذا ان لوگوں کو ان بستیوں کے آثار سے سبق حاصل کرنا چاہیئے جن کے پاس اللہ کا پیغام اللہ کے نبی لائے اور انھوں نے نہ مانا تو ان کا کیا حشر ہوا اور کیسی تباہی سے دوچار ہوئے اور یہ قطعی بات ہے کہ نیک لوگوں کو اگرچہ دنیا میں قربانی بھی دینا پڑے۔ ابدی زندگی اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ ہی بہترین ٹھکانہ ہے اگر ذرا بھی عقل سلامت ہوتویہ بات سمجھ میں انے والی ہے۔ اگر انھیں یہ خیال ہو کہ یہ انکار کر رہے ہیں تو اب تک ان پر عذاب کیوں نہیں آیا ؟ تو یہ قانون ازلی ہے کہ اللہ کریم انسان کو بہت مہلت بخشتے ہیں اور اس کی رسی دراز فرماتے رہتے ہیں ۔ پہلے بھی لوگوں کو فرصت دی گئی ۔ حتیٰ کہ اس دور کے انبیاء بھی یہ سوچنے لگے کہ ممکن ہے لوگوں پہ عذاب نہ ہی آئے ۔ اللہ کریم انھیں کچھ نہ کہیں تو ایسی صورت میں تو کفار کے پاس ہماری نبوت کے انکار کا ایک عذر بھی ہوگا کہ دفعتا ہماری مدد آپہنچی ان کی مہلت ختم ہوئی اور اپنے بندوں انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو ہم نے بچالیا مگر کفار سے کوئی بھی ہمارے عذاب کو ٹال نہ سکا اور وہ تباہ ہوگئے ۔ یہ کتاب کوئی محض حکایت نہیں کہ گھڑلی گئی ہو بلکہ پہلی آسمانی کتب بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں اور وہی عقائد اور اخبار یہ بھی بیان فرماتی ہے جو پہلی کتب میں موجود ہیں نیز انسانی زندگی کے ہر ہر شعبے ایمانیات عبادات اخلاقیات معاملات سیاسیات وغیرہ ذالک کے بارے پوری تفصیل اور سیرحاصل بحث موجود ہے پھر صرف تفصیلی بحث ہی نہیں بلکہ ہر ہر امر میں بہترین راہنمائی موجود ہے اور یہ سراپار حمت ہے کہ دنیا کی مشکلات سے بچ نکلنے راہ بھی بتاتی ہے اور آخرت کے مصائب سے بچنے کا طریقہ بھی اور قرب الٰہی کو پانے کا سلیقہ سکھاتی ہے ہاں ! یہ سب دولت ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں اس کے ساتھ ایمان نصیب ہو۔ سورئہ یوسف تمام ہوئی ٢٢ رمضان المبارک ١٤١٠ ہجری ١٨۔ اپریل ٩٠ ٩ عیسوی بارگاہ رسالت پنا ہی یعنی مدینہ منورہ سے شروع ہونے والی یہ جلد چہارم الحمد اللہ اپنی تکمیل کو پہنچی ۔ اللہ اسے عامتہ المسلمین کے لئے باعث ہدایت اور بند ہ کے لئے تو شئہ آخرت بنائے ! آمین ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 105 تا 108 کاین کتنے ہی کتنی ہی، ایۃ نشانی یمرون وہ گذرتے ہیں معرضون وہ منہ پھیرنے والے ہیں ان تاتی یہ کہ آجائے غاشیۃ ڈھانپ لینے والی ، آفت الساعۃ قیامت، گھڑی بغتہ اچانک لایشعرون وہ شعور نہیں رکھتے ہیں سبیلی میرا راستہ ادعوا میں بلاتا ہوا بصیرۃ دیکھ بھال کر، غور و فکر انا میں اتبعنی میری اتباع کی، میرے پیچھے چلے سبحن پاک ذات، بےعیب ذات تشریح آیت نمبر 105 تا 108 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ہر انسان کو غور و فکر اور تدبر کرنے پر زور دے کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے کائنات میں قدم قدم پر اپنی اتنی نشانیاں بکھیر دی ہیں کہ اگر انسان ان پر ذرا بھی غور کرے تو اللہ کی ذات وصفات کا ماننا نہایت آسان ہوجائے گا اور ہر طرح کی الجھن دور ہوجائے گی۔ انسان دن رات ان نشانیوں کو دیکھتا ہے ان نشانیوں کے درمیان رہتا ہے، ان کے اوپر سے گذرتا ہے مگر ان پر دھیان نہیں دیتا، چاند سورج کی گردش، وسیع آسمان، چمکتے ستارے ، چاروں طرف پھیلی ہوئی زمین، ہوائیں، فضائیں، فضا میں تیرتے ہوئے بادل، اڑتے پرندے، اونچے اونچے پہاڑ، دریا، سرسبز و شاداب درخت ، لہلہاتے ہوئے کھیت، ہر رنگ اور مزے کے میوے، غلے، اناج، خود انسان کا وجود، کائنات کی مخلوق کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں، دماغی سربلندیاں اور ہزاروں صلاحیتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اگر کچھ دیر اس بات پر غور کر کے اتنے بڑے جہان کو چلانے والی یقینا کوئی ذات ہے ورنہ اپنے اختیار سے تو ایک تنکا بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔ خالصہ یہ ہے کہ اللہ نے ہر طرف ہزاروں نشانیاں بکھیر دی ہیں جن کی موجودگی میں کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں ہے، انسان غور و فکر کرے گا تو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے درس توحید مل جائے گا۔ کفار مکہ جس طرح نبوت کے منکر تھے اسی طرح وہ منکرین توحید بھی تھے او اس بات کا مطالبہ کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک اللہ کو نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمیں کوئی معجزہ نہیں دکھائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی توحید کی گواہی دے رہا ہے صرف غور و فکر کرنے کی رورت ہے ان انشانیوں کے باوجود آخر وہ کس نشانی کی بات کرتے ہیں۔ جس کو سچائی کی حقیقت کو ماننا ہے وہ ہر طرح من لیتا ہے لیکن جس نے ضد، ہٹ دھرمی اور کفر و شرک پر جمنے کا فیصلہ کرلیا ہو اس کو سوائے اللہ کے اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ ان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کردیجیے کہ وہ اللہ کی نشانیوں پر غور فکر کریں اور حس نعملی کی طرف آئیں۔ یہی چیز ان کے کام آنے والی ہے لیکن اگر وہ کفار اپنی ضد پر اپڑے رہتے ہیں تو ان کو گزشتہ قوموں کا وہ بھیانک انجام سامنے رکھنا چائے کہ جب وہ نافرمان لوگ رات کو گہری اور بدمست نیند کے مزے لے رہے تھے اس وقت ان پر شدید عذاب آیا اور ان کو دنیا سے مٹا دیا گیا۔ نافرمانی کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے محل، تجارتیں، عمارتیں اور تہذیب و تمدن کام آیا اور نہ کوئی ان کو عذاب الٰہی سے بچانے آیا۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان پر پچھلی قوموں کی طرح اچانک کوئی آفت یا اچانک عذاب آسکتا ہے اور یہ عذاب بھی اس قدر خاموشی سے آئے گا کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور اللہ ان کے نیچے سے زمین کو کھینچ لے گا۔ فرمایا کہ اے نبی ؐ آپ بالکل وضاحت سے کہہ دیجیے کہ سچی بات بتانا ہے اور برے انجام سے ڈرانا یہ میرا کام تھا، میں اور میرے ماننے والے اسی راستے پر ہیں جو ہمیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے کفر و شرک کی ہر ادا اور انداز سے ہمیں نفرت ہے لہٰذا جو شخص بھی اللہ کے حکم کی تعمیل میں زندگی گذارے گا کامیاب و بامراد ہوگا لیکن جس نے اللہ کی نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اللہ کے عذاب کا شکار ہوجائے اور اس کو بچانے والا کوئی نہ ہو۔ فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس بات کا اعلان کردیجیے کہ اللہ کی ذات ہر اس شرک سے پاک ہے جو انسانوں نے اس کے ساتھ شریک کر رکھے ہیں، میں اور میرے ماننے والے سب توحید خالص پر ہیں اور ہر طرح کے کفر و شرک سے دور ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں نے اہل مکہ کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس لیے سوال کرنے کو کہا کہ اگر آپ حقیقتاً نبی ہیں تو جواب دے پائیں گے۔ بصورت دیگر جھوٹے ثابت ہوں گے۔ اس واقعہ کا اختتام اس بات پر کیا جارہا ہے کہ یہ واقعہ ہی عبرت کی نشانی نہیں بلکہ زمین و آسمان اور آفاق میں بیشمار نشانیاں ان کے لیے موجود ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ رب کی ذات کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر رب ماننے کے باوجود اسے ایک الٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین میں بالخصوص مشرکین مکہ کی حالت یہ تھی کہ پہلے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دلیل مانگتے جب انھیں دلیل دی جاتی، پھر اس سے یکسر اعراض کردیتے تھے۔ جس پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لیے زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن کو دیکھنے کے باوجود ان کی طرف توجہ نہیں دیتے ہو۔ مانتے ہو کہ سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اللہ کو خالق ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت ١٠٦ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ایمان کا دعوے دار ہونے کے باوجود مشرک ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اس بات سے بےپروا ہوگئے ہیں کہ ان کو اللہ کا عذاب گھیرلے یا اچانک ان پر قیامت ٹوٹ پڑے اس حال میں کہ انہیں اس کی توقع بھی نہ ہو۔ آیت کا معنی و مفہوم : آیت سے مراد قرآن مجید کے فرمان کا کچھ حصہ عقلی یا نقلی دلیل، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے معجزات، اللہ تعالیٰ کی قدرت وسطوت کے نشانات اور پہلی اقوام کے انجام کے واقعات ہیں۔ قرآن مجید نے اہل مکہ اور رہتی دنیا تک سب انسانوں کے لیے دلائل پیش فرمائے ہیں لیکن آپ کے مخالف اس قدرہٹ دھرم اور کم ظرف تھے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اپنے کفرو شرک پر ڈٹے رہے حا لان کہ جب ان سے یہ پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے ہیں تو وہ واضح الفاظ میں کہتے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے۔ ( العنکبوت : ١٦) پھر ان سے سوال ہو تاکہ آسمان سے بارش نازل کرنے والا کون ہے ؟ ان کا جواب ہوتا صرف اللہ ہی بارش نازل کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٣ ) جب یہ پوچھا جا تاکہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دیتا ہے۔ تمہیں کان اور آنکھوں کی نعمتیں کس نے عطا فرمائیں ہیں ؟ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کون پیدا کرتا ہے ؟ کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے ؟ فوراً جواب دیتے کہ اللہ ہی یہ سب کچھ کرنے والا ہے۔ ( یونس : ٣١) اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت کا اقرار کرتے تھے اس کے باوجود مشرکین اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کو خدا کا اوتار سمجھتے۔ یہود و نصاری انبیاء ( علیہ السلام) اور بزرگوں کی ارواح کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھ کر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ مانتے اور ان کی طفیل مانگتے تھے۔ افسوس ان کی دیکھا دیکھی آج کے کروڑوں مسلمان بھی یہی عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں حالانکہ اس عقیدہ اور طریقہ عبادت کی ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا یہ بےپروا اور بےخوف ہوچکے ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب ہر طرف سے گھیرلے یا پھر ان پر اچانک قیامت برپاہو جائے۔ جن کو یہ اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کو نہ عذاب سے بچاسکتا ہے اور نہ کوئی قیامت کو ٹال سکتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار زمین و آسمان کی نشانیوں سے منہ پھیرتے ہیں۔ ٢۔ اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے عذاب سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور قیامت کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا عذاب ظالموں کو اچانک آلیتا ہے : ١۔ کیا وہ بےفکر ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب یا قیامت اچانک آلے اور انہیں پتا بھی نہ ہو۔ (یوسف : ١٠٧) ٢۔ ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بیخبر تھے۔ ( الاعراف : ٩٥ ) ٣۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ (العنکبوت : ٥٣ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ لوگ بہت سی آیات تکوینیہ پر گزرتے ہیں مگر ایمان نہیں لاتے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمانے کے بعد (جو آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے) مخاطبین کا حال بیان فرمایا کہ جن لوگوں کو توحید سے اور آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے عناد ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے بہت سی تکوینی نشانیاں دیکھتے ہیں لیکن ایمان نہیں لاتے آسمان میں نشانیاں ہیں مثلاً ستارے ہیں اور خود آسمان کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی صفت تخلیق پر دلالت کرتا ہے ‘ جس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں ‘ اسی طرح زمین اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے اور اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ‘ ان سب نشانیوں کو یہ لوگ دیکھتے ہیں سفر میں جاتے ہیں بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف نہیں آتے ‘ جب انہیں توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے شرکاء بھی تجویز کرتے ہیں یعنی ان باطل معبودوں کی بھی عبادت کرتے ہیں ‘ شرک کے ساتھ ماننا کوئی ماننا نہیں ہے یہ ماننا نہ ماننے کے برابر ہے۔ ان لوگوں کا نہ توحید پر ایمان ہے نہ آپ کی رسالت کا انہیں اقرار ہے ‘ کفر و شرک کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور بالکل اطمینان سے زندگی گزار رہے ہیں ‘ اللہ کے عذاب اور غضب سے نہیں ڈرتے کیا انہیں اس بات کا اطمینان ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ آئے گا اور کیا اچانک قیامت نہیں آسکتی ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایسا عذاب آسکتا ہے جو انہیں ہر طرف سے گھیر لے یا اچانک قیامت آجائے ‘ اور انہیں خبر بھی نہ ہو ‘ وھذا کقولہ تعالیٰ (اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّءَاتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْیَاْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ) (الآیتین) اور آخرت میں ہر کافر کے لئے دائمی عذاب ضروری ہے ہی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

89:۔ اس تفصیلی عقلی دلیل کے علاوہ زمین و آسمان کے عجائب مخلوقات اور غرائب احوال میں توحید کے بیشمار دلائل موجود ہیں جو ہر وقت ان کے سامنے رہتے ہیں مگر وہ ان میں تدبر و تفکر نہیں کرتے۔ ” وَ مَا یُؤْمِنُ الخ “: اور ان میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو مانتے ہیں مگر اس کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ شرک یہ نہیں کہ اللہ کو یا اس کی بعض صفات کو نہ مانا جائے بلکہ شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو مانتے ہوئے غیر اللہ کو اس کی صفتوں میں شریک مانا جائے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے علاوہ اللہ کے نیک بندوں (انبیاء و ملائکہ (علیہم السلام) اور اولیاء کرام) کو بھی عالم الغیب، حاضر و ناظر، کارساز، متصرف و مختار اور مستحق نذر و نیاز مانا جائے۔ اس بیماری میں آج بھی بہت سے کلمہ گو مبتلا ہیں اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔ ” یندرج فیھم کل من اقر باللہ تعالیٰ و خالقیتہ مثلا و کان مرتکبا ما یعد شرکا کیفما کان و من اولئک عبدۃ القبور الناذرون لھا المعتقدون للنفع والضر ممن اللہ تعالیٰ واعلمہ بحالہ فیھا وھم الیوم اکثر من الدود “ (روح ج 13 ص 67) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 ۔ نبوت اور قرآن کے بعد توحید کا ذکر فرمایا اور آسمان اور زمین میں خدا کی قدرت کی بہت سی ایسی نشانیاں ہیں کہ جن پر یہ لوگ گزرتے ہیں اور توجہ نہیں کرتے ، یعنی زمین و آسمان میں قدرت کے بیشمار دلائل توحید موجود ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور یہ ان کو دیکھتے ہیں مگر ان پر ذرا توجہ نہیں کرتے ، آسمان میں چاند ، سورج ، ستارے ، بارش وغیرہ۔ زمین میں حیوانات ، جمادات ، نباتات ہر چیز ان میں سے خدا کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی ہے لیکن جب کوئی غور و فکر سے کام لے تب ہدایت ہو۔