Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 13

سورة يوسف

قَالَ اِنِّیۡ لَیَحۡزُنُنِیۡۤ اَنۡ تَذۡہَبُوۡا بِہٖ وَ اَخَافُ اَنۡ یَّاۡکُلَہُ الذِّئۡبُ وَ اَنۡتُمۡ عَنۡہُ غٰفِلُوۡنَ ﴿۱۳﴾

[Jacob] said, "Indeed, it saddens me that you should take him, and I fear that a wolf would eat him while you are of him unaware."

۔ ( یعقوب علیہ السلام نے ) کہا اسے تمہارا لے جانا مجھے تو سخت صدمہ دے گا اور مجھے یہ بھی کھٹکا لگا رہے گا کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا کھا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ya`qub's Answer to Their Request Allah narrates to us that His Prophet Yaqub said to his children, in response to their request that he send Yusuf with them to the desert to tend their cattle, قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ ... He (Yaqub) said: "Truly, it saddens me that you should take him away. He said that it was hard on him that he be separated from Yusuf for the duration of their trip, until they came back. This demonstrates the deep love that Yaqub had for his son, because he saw in Yusuf great goodness and exalted qualities with regards to conduct and physical attractiveness associated with the rank of Prophethood. May Allah's peace and blessings be on him. Prophet Yaqub's statement next, ... وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّيْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ I fear lest a wolf should devour him, while you are careless of him. He said to them, `I fear that you might be careless with him while you are tending the cattle and shooting, then a wolf might come and eat him while you are unaware.' They heard these words from his mouth and used them in their response for what they did afterwards. They also gave a spontaneous reply for their father's statement, saying, قَالُواْ لَيِنْ أَكَلَهُ الذِّيْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ

انجانے خطرے کا اظہار نبی اللہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی اس طلب کا کہ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے جواب دیتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے اس سے بہت محبت ہے ۔ تم اسے لے جاؤ گے مجھ پر اس کی اتنی دیر کی جدائی بھی شاق گزرے گی ۔ حضرت یعقوب کی اس بڑھی ہوئی محبت کی وجہ یہ تھی کہ آپ حضرت یوسف کے چہرے پر خیر کے نشان دیکھ رہے تھے ۔ نبوت کا نور پیشانی سے ظاہر تھا ۔ اخلاق کی پاکیزگی ایک ایک بات سے عیاں تھی ۔ صورت کی خوبی ، سیرت کی اچھائی کا بیان تھی ، اللہ کی طرف سے دونوں باپ بیٹوں پر صلوۃ و سلام ہو ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تم اپنی بکریوں کے چرانے چگانے اور دوسرے کاموں میں مشغول رہو اور اللہ نہ کرے کوئی بھیڑیا آکر اس کا کام تمام کر جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ آہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اسی بات کو انہوں نے لے لیا اور دماغ میں بسا لیا کہ یہی ٹھیک عذر ہے ، یوسف کو الگ کر کے ابا کے سامنے یہی من گھڑت گھڑ دیں گے ۔ اسی وقت بات بنائی اور جواب دیا کہ ابا آپ نے کیا خوب سوچا ۔ ہماری جماعت کی جماعت قوی اور طاقتور موجود ہو اور ہمارے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے؟ بالکل ناممکن ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تو ہم سب بیکار نکمے عاجز نقصان والے ہی ہوئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] بھائیوں کے اس مطالبہ پر باپ کو ایک نامعلوم خطرہ محسوس ہوا اور خطرہ وہی تھا جس کی اطلاع آپ سیدنا یوسف کو ان کے خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں بتلاچکے تھے۔ بھائیوں کو غالباً خواب کا علم تو نہیں تھا۔ تاہم سیدنا یعقوب کا وجدان انھیں یہی بتلا رہا تھا کہ بھائیوں کی نیت بخیر معلوم نہیں ہوتی۔ چناچہ انہوں نے اپنے اس خطرہ کو ایسے الفاظ میں ظاہر کیا جس سے ان کی نیت پر شک محسوس نہ ہو اور کہا ممکن ہے تم لوگ اپنے ریوڑ کی حفاظت میں مشغول ہو اور کوئی بھیڑیا یا درندہ آکر اسے کوئی گزند پہنچا جائے اور پھاڑ کھائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ ۔۔ : یعقوب (علیہ السلام) نے نہ بھیجنے کے لیے دو عذر پیش کیے، ایک تو نہایت تاکید کے الفاظ ” اِنَّ “ اور ” لام تاکید “ کے ساتھ کہا کہ مجھے تمہارا اسے اپنے ساتھ لے جانا غمگین کرتا ہے۔ (حالانکہ یہی بات تو ان کے غصے کا باعث تھی) دوسرا یہ کہ مجھے خوف ہے کہ اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے گا۔ ساتھ ہی ان کے جذبات ٹھنڈے رکھنے کے لیے یہ کہنے کے بجائے کہ ” اور تم بیٹھے رہو گے “ یہ کہا کہ ” تم اس سے غافل ہو گے۔ “ گویا تم میرے غم اور خوف دونوں کا سامان کر رہے ہو۔ ان کو بھیڑیے کا بہانہ کرنا تھا وہی ان کے دل میں خوف آیا۔ (موضح) یا یعقوب (علیہ السلام) کے منہ سے یہ بات نکلنا تھی کہ انھوں نے اسی کا بہانہ بنا لیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) requested their father that he should send Yusuf with them on a recreational outing, Sayyidna Ya&qub (علیہ السلام) told them that he did not favour sending him out for two rea¬sons: (1) He remains uncomfortable without him in sight and (2) he ap¬prehends that, in the wilderness out there, it might so happen that they become neglectful at some time and a wolf might eat him up. The apprehension of Sayyidna Ya&qub may have been caused either due to the abundance of wolves in Canaan, or because he had seen in a dream that he is standing on top of a hill and Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is there on the slope downhill. All of a sudden ten wolves surround him and try to attack him. But, one of the wolves came forward to rescue him from the rest. Once released, Sayyidna Yusuf علیہ السلام took refuge inside the terrain. The interpretation of that dream manifested later when it turned out that the ten wolves were these ten brothers and the wolf which defended Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and saved him from being killed was his elder brother, Yahuda (Judah). And the depth of the pit was the interpreta¬tion of his hiding under the land. In a narration from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، it has been reported that Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، because of this dream, felt the danger of an unfortunate situation coming at the hands of these brothers. Thus, in fact, they were the ones he had alluded to as wolves - but, in consider¬ation of his wisdom, he did not lay the truth bare. (Qurtubi)

یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جب والد سے یہ درخواست کی کہ یوسف کو کل ہمارے ساتھ تفریح کے لئے بھیج دیجئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کو بھیجنا دو وجہ سے پسند نہیں کرتا اول تو مجھے اس نور نظر کے بغیر چین نہیں آتا دوسرے یہ خطرہ ہے کہ جنگل میں کہیں ایسا نہ کہ تمہاری غفلت کے وقت اس کو بھیڑیا کھا جائے یعقوب (علیہ السلام) کو بھیڑیئے کا خطرہ یا تو اس وجہ سے ہوا کہ کنعان میں بھیڑیوں کی کثرت تھی اور یا اس وجہ سے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ کسی پہاڑی کے اوپر ہیں اور یوسف (علیہ السلام) اس کے دامن میں نیچے ہیں اچانک دس بھیڑیوں نے ان کو گھیر لیا اور ان پر حملہ کرنا چاہا مگر ایک بھیڑئیے ہی نے مدافعت کر کے چھڑا دیا پھر یوسف (علیہ السلام) زمین کے اندرچھپ گئے، جس کی تعبیر بعد میں اس طرح ظاہر ہوئی کہ دس بھیڑئیے یہ دس بھائی تھے اور جس بھیڑئیے نے مدافعت کر کے ان کو ہلاکت سے بچایا وہ بڑے بھائی یہوداہ تھے اور زمین میں چھپ جانا کنویں کی گہرائی سے تعبیر تھی، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت میں منقول ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اس خواب کی بناء پر خودان بھائیوں سے خطرہ تھا انہی کو بھیڑیا کہا تھا مگر بمصلحت پوری بات ظاہر نہیں فرمائی (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْہَبُوْا بِہٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ۝ ١٣ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ ( الذئب) ، اسم جامد للحیوان المفترس المعروف، وزنه فعل بکسر فسکون . غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) ان کے باپ نے فرمایا مجھے تمہارے ساتھ بھیجنے میں دو امر مانع ہیں، ایک تم ان کو میری نظروں سے لے جاؤ اور میں ان کو نہ دیکھ سکوں اور دوسرا یہ کہ مجھے اس چیز کا اندیشہ ہے کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جائے اور تم اپنے کھیل کود میں مصروف رہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ ) مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے پھر تم لوگ اپنی مصروفیات میں منہمک ہوجاؤ اس طرح وہ جنگل میں اکیلا رہ جائے اور کوئی بھیڑیا اسے پھاڑ کھائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی اگر کوئی اور حادثہ بھی پیش نہ آئے تو ان کا میری نظروں سے دور چلا جانا بھی میرے لیے باعث رنج ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبوب اولاد کو کسی خاص ضرورت کے بغیر جدا کرنا بھی ماں باپ کے لیے تکلیف دہ ہے۔ 8: بعض روایات میں ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بھیڑیے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر حملہ کر رہے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٤۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ جواب دیا کہ اگر تم اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ گے تو میرا جی گھبرائے گا تمہارے واپس آنے تک میں اس کے بغیر کیوں کر رہ سکتا ہوں میرے دل کو جب تک کس طرح چین آئے گا۔ اصل میں یعقوب (علیہ السلام) کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ نہایت ہی محبت تھی گھڑی بھر کی جدائی ان کی ان پر شاق گزرتی تھی کیونکہ آپ پیغمبر تھے اور یوسف (علیہ السلام) میں بھی نبوت کی بو پاتے تھے اس کے علاوہ حسن بھی اللہ پاک نے یوسف (علیہ السلام) کو ایسا ہی دے رکھا تھا جو کسی مخلوق کو خدا نے نہیں دیا چناچہ صحیح مسلم میں انس بن مالک (رض) کی روایت سے جو معراج کی حدیث ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے حسن کی تعریف فرمائی ہے ١ ؎ ناقابل اعتراض سند سے ابو سعید خدری (رض) کی بیہقی میں اور ابوہریرہ (رض) سے طبرانی میں جو ٢ ؎ روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور لوگوں کے حسن کو تارے خیال کرنا چاہیے اور یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم تو اپنی تیر اندازی اور دوا دوش میں رہو گے اور بچہ تنہا رہ جائے گا اور کوئی بھیڑیا اس کو اٹھا کرلے گیا اور کھا گیا اور تم بیخبر کے بیخبر ہی رہے تو پھر کیا ہوگا اس لئے میں تو اس کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجتا۔ باپ کی یہ بات سن کر بیٹوں نے جواب دیا کہ واہ یہ بھی آپ نے خوب فرمایا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم یوسف سے غافل رہیں علاوہ اس کے بھیڑئیے کی کیا ہستی ہے اگر ایسا ہی بھیڑیا لے جایا کرے تو ہم تو روز آئے دن خسارے اور گھاٹے میں رہیں ہماری بکریاں ہر روز ایک ایک کر کے بھیڑیا لے جائے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ باپ کے منہ سے جو کلمہ نکلا تھا اسی کو ان لوگوں نے آخر کار اپنا عذر ٹھہرایا اور یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈال کر آئے تو یہی حیلہ کیا کہ اس کو بھیڑیا کھا گیا اس واسطے حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی کو ایسی بات کی تلقین نہ کی جائے جس کو وہ بہانہ مقرر کر کے جھوٹ بولے جس طرح یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یہ بات نہیں جانتے تھے کہ انسان کو بھیڑیا کھا جایا کرتا ہے جب باپ نے ان کے سامنے یہ بات کہی کہ مجھ کو ڈر ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو کبھی بھیڑیا نہ کھائے اور تم اس سے غافل رہو اسی کو ان لوگوں نے سیکھ کر باپ کے سامنے جھوٹ بنایا اور کہا کہ اس کو تو بھیڑیا کھا گیا۔ ٣ ؎ یہ حدیث تفسیر ابو الشیخ اور تفسیر ابن مردویہ میں عبد اللہ بن عمر (رض) اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ابو مجلز کی روایت سے ہے یہ ایک جگہ گزر چکا ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں صحت روایت کی زیادہ پابندی کی ہے۔ اس لئے اس روایت کو بےاصل نہیں کہا جاسکتا ان ابو نجلز کا نام لاحق بن حمید ہے یہ ثقہ تابعی ہیں ان کی ملاقات عبد اللہ بن عمر۔ ‘ عبد اللہ بن عباس (رض) اور انس ابن مالک (رض) سے ہوئی ہے صحاح کی سب کتابوں میں ان لاحق بن حمید ابو مجلز سے روایتیں ہیں اس لئے مرسل طور پر یہ صحیح روایت ہے۔ عبد اللہ بن عمر (رض) کی اوپر کی مرفوع حدیث کو اس مرسل روایت سے ملایا جاوے تو یہ حدیث معتبر ٹھہرتی ہے۔ تابعی اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں اور صحابی کی روایت کو مرفوع۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٩١ ج ١۔ باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ١٢ و ١٩ ج ٣۔ ٣ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٤٩٢ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:13) انی لیحزننی۔ میں لام ابتدائیہ ہے۔ اس سے مضارع کے معنی حال کے لئے مختص ہوجاتے ہیں۔ جیسے انی لاطالع الجرائد میں اخبار دیکھ رہا ہوں۔ انک لتعلم ما نرید۔ تجھے خوب معلوم ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ انی لیحزننی ان تذھبوا بہ۔ بیشک مجھے غمزدہ بناتی ہے (یہ بات) کہ تم اسے لیجاؤ (اور اس طرح اسے مجھ سے جدا کر دو ) واخاف۔ اور میں ڈرتا ہوں (یہ حضرت یعقوب کا دوسرا اندیشہ تھا) ان یاکلہ الذئب کہ کہیں اسے بھیڑیا کھاجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ ان کو بھیڑئیے کا بہانہ کرنا تھا وہ ہی ان کے دل میں خوف آیا۔ (موضح) ۔ یا حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے بھیڑیے کا ذکر کرنے کی وجہ سے وہی بہانہ کرلیا۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی تمہارا لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وہ بات جو ان کے دلوں میں کینہ کی آگ دہکا رہی ہتھی کہ اباجان یوسف کو ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور کسی وقت بھی اپنے سے جدا نہیں کرتے اگرچہ ایک دن کے لیے کیوں نہ ہو۔ حالانکہ وہ اسے سیر و تفریح کے لیے لے جا رہے ہیں۔ حضرت یعقوب نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھالے جبکہ تم غافل ہو۔ در اصل وہ کینہ اور حسد کی وجہ سے اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ وہ سوچتے بھی نہ تھے کہ آخر یوسف کے قتل کے بعد وہ جواب کیا دیں گے ، لیکن حضرت یعقوب کے اس اندیشے نے ان کو عذر بتا دیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا اس کی جدائی میرے لیے باعث غم ہے نیز مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا تمہاری غفلت سے اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے بھیڑئیے کی تخصیص اس لیے کی کہ اس علاقے میں بھیڑئیے بکثرت پائے جاتے تھے۔ وخصہ بالذکر لان الارض علی ما قیل کانت مذئبۃ (روح ج 12 ص 195) ۔ ” قَالُوْا لَاِنْ اَکَلَہٗ الخ “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ اس کی جدائی مجھے غمگین کرتی ہے کہ تم اس کو میرے پاس سے لے جائو اور میں اس بات سے بھی ڈرتا ہوں کہ تم کہیں اپنے مشاغل میں اس سے غافل ہو جائو اور اس کو بھیڑیا کھاجائے یعنی بکریاں چرانے جائیں تو یوسف (علیہ السلام) کو بھی لے جائیں حضر ت یعقوب (علیہ السلام) نے جوا ب میں دو باتیں فرمائیں ایک غم اور ایک خوف یعنی غم تو اس کی اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے اور تمہارے ساتھ بھیجنے کا اور ڈر یہ کہ بچہ ہے کبھی تم اپنے کسی مشغلہ میں لگ جائو اور بھیڑیا اس کو پھاڑ کھائے۔ کہتے ہیں کہ کنعان کے جنگل میں بھیڑئیے بہت تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان کو بھیڑئیے کا بہانہ کرنا تھا وہی ان کے دل میں خیال آیا 12 یہ روشن ضمیری کی بات ہے کہ جو پیش آنے والی بات تھی وہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی