Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 14

سورة يوسف

قَالُوۡا لَئِنۡ اَکَلَہُ الذِّئۡبُ وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ اِنَّاۤ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿۱۴﴾

They said, " If a wolf should eat him while we are a [strong] clan, indeed, we would then be losers."

انہوں نے جواب دیا کہ ہم جیسی ( زور آور ) جماعت کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھا جائے تو ہم بالکل نکمے ہی ہوئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "If a wolf devours him, while we are an `Usbah, then surely, we are the losers. They said, `If a wolf should attack and devour him while we are all around him in a strong group, then indeed we are the losers and weak.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ باپ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اتنے بھائیوں کی موجودگی میں بھیڑیا یوسف (علیہ السلام) کو کھاجائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] اس کے جواب میں بھائیوں نے کہا کہ ہم دس جوان اور مضبوط آدمی ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی بھیڑیا تو کجا شیر کا مقابلہ کرنے اور اسے مار دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر اگر ہم یوسف (علیہ السلام) کی حفاظت نہ کرسکیں تو ہم پر لاکھ لعنت، آخر ہم اتنے گئے گزرے تو نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ ۔۔ : یعنی پھر ہماری قوت کس دن کام آئے گی، ہم دس مضبوط جوان ہیں۔ اب یعقوب (علیہ السلام) ان کے اصرار کے سامنے بےبس ہوگئے، کیونکہ اللہ کی تقدیر ہو کر رہنی تھی، جس کے واقع ہو کر رہنے میں کوئی احتیاط کام نہیں آسکتی، پھر یوسف (علیہ السلام) کو خواب میں دکھائے جانے والے ... کمال و عروج کی منزل کے راستے پر بھی روانہ ہونا تھا اور اس راستے میں نہایت کٹھن گھاٹیوں سے گزرے بغیر چارہ ہی نہیں اور نہ ان بلند مقامات پر پہنچنے والوں کے لیے راستے میں کوئی قالین یا کہکشاں بچھی ہوتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After hearing what Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) said, those brothers countered it by saying that his apprehension was strange in view of the presence of a strong group of the ten of them to protect Yusuf. If a wolf could be expected to eat up Yusuf despite their being there to guard him, it would render their very presence around him totally senseless. If so, they could not be taken as good for ... anything. Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) acting with the elegance of a great prophet he was, did not say it plainly before his children that it was they about whom he feared a foul play because, firstly it would have been a painful statement to make against all of them and, secondly, there was the dan¬ger that such a statement from the father would have increased the en-mity of the brothers to higher proportions - that is, if they somehow abandoned their idea of killing him now, they might have done so at some later occasion under some other excuse. For this reason, he allowed them to go. But, he did make sure that the brothers give him a solemn pledge that they would see that no harm comes to Yusuf. As added pre-caution, he entrusted him with his elder brother Ruebel (Rueben) or Yahuda (Judah) so that they specially take care of his needs there and see that he returns soon and safe. The brothers lifted Yusuf up on their shoulders, and kept doing so one by one. Sayyidna Yaqui followed them upto a certain distance to bid them farewell. When these people, as described by Al-Qurtubi following historical narrations, disappeared from the sight of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، the brother on whose shoulders Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was perched threw him down on the ground. He started walking by himself. But, being too small, he could not keep pace with them and tried to seek help from another brother. He remained cold. So did every brother he went to for help. They told him that he better call for help those eleven stars, the Sun and the Moon he had seen prostrating to him - they should help him. From here, Al-Qurtubi concludes that the brothers had somehow found out about the dream of Sayyidna Yusuf ill. That dream became the cause of their extreme hostility. Finally, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) appealed to Yahuda as his elder broth¬er telling him about his plight. He was weak and small and needed pro¬tection, at least for the sake of their old father to whom they had given the pledge to help him. Yahuda was moved and he told him that until he was alive, he would not let these brothers hurt him. Thus, when Allah Ta` ala put mercy in the heart of Yahuda and the ability to do what was right, he told the other brothers of his that killing someone sinless was an extremely grave sin, therefore, they should fear Allah and take the innocent child back to his father. However, to make things easy on them, they could take a pledge from him that he would not complain to him in any way about their behaviour. The brothers told Yahuda: We know what you mean. You wish to rise higher than us in the sight of our father. So, you better listen to us. If you do anything to resist our intention, we shall kill you too. When Yahuda realized that he alone could do nothing against his nine broth¬ers, he told them: Well, if you have decided to get rid of this child, then, listen to me carefully. There is an old well nearby with a lot of wild growth in it and now a home for many lethal crawlers. Put him in that well. If a snake or scorpion bites and kills him there, you shall have what you are looking for. Thus, you shall remain free of the blame of shedding his blood by your own hands. And, in case, he still remains alive, then, may be there comes a caravan this way, lowers its bucket to draw water from it and finds him instead. It is likely that they would take him away with them to some other country in which case too you would have achieved your objective.  Show more

بھائیوں نے یعقوب (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر کہا کہ آپ کا یہ خوف و خطرہ عجیب ہے ہم دس آدمیوں کی قوی جماعت اس کی حفاظت کے لئے موجود ہے اگر ہم سب کے ہوتے ہوئے اس کو بھیڑیا کھا جائے تو ہمارا تو وجود ہی بےکار ہوگیا اور پھر ہم سے کسی کام کی کیا امید کی جاسکتی ہے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی پیغمب... رانہ شان سے اولاد کے سامنے اس بات کو نہیں کھولا کہ مجھے خطرہ خود تم ہی سے ہے کہ اول تو اس سے سب اولاد کی دل شکنی تھی دوسرے باپ کے ایسا کہنے کے بعد خطرہ یہ تھا کہ بھائیوں کی دشمنی اور بڑھ جائے گی اور اس وقت چھوڑ بھی دیا تو دوسرے کسی وقت کسی بہانہ سے قتل کردیں گے اس لئے اجازت دے دی مگر بھائیوں سے مکمل عہد و پیمان لیا کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہونچنے دیں گے اور بڑے بھائی روبیل یا یہودا کو خصوصیت سے سپرد کیا کہ تم ان کی بھوک پیاس اور دوسری ضرورتوں کی پوری طرح خبرگیری کرنا اور جلد واپس لانا بھائیوں نے والد کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے مونڈھوں پر اٹھا لیا اور باری باری سب اٹھاتے رہے کچھ دور تک حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی ان کو رخصت کرنے کے لئے باہر گئے، قرطبی نے تاریخی روایات کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب یہ لوگ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تو اس وقت یوسف (علیہ السلام) جس بھائی کے مونڈھے پر تھے اس نے ان کو زمین پر پٹک دیا یوسف (علیہ السلام) پیدل چلنے لگے مگر کم عمر تھے ان کے ساتھ دوڑنے سے عاجز ہوئے تو دوسرے بھائی کی پناہ لی اس نے بھی کوئی ہمدردی نہ کی تو تیسرے چوتھے ہر بھائی سے امداد کو کہا مگر سب نے یہ جواب دیا کہ تو نے جو گیارہ ستارے اور چاند سورج اپنے آپ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے تھے ان کو پکار وہی تیری مدد کریں گے، قرطبی نے اسی وجہ سے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ بھائیوں کو کسی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب معلوم ہوگیا تھا وہ خواب ہی ان کی شدت غیظ وغضب کا سبب بنا آخر میں یوسف (علیہ السلام) نے یہودا سے کہا کہ آپ بڑے ہیں آپ میری کمزوری اور صغر سنی اور اپنے والد ضعیف کے حال پر رحم کریں اور اس عہد کو یاد کریں جو والد سے آپ نے کئے ہیں آپ نے کتنی جلدی اس عہد و پیمان کو بھلا دیا یہ سن کر یہودا کو رحم آیا اور ان سے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں یہ بھائی تجھے کوئی تکلیف نہ پہنچا سکیں گے، یہودا کے دل میں اللہ تعالیٰ نے رحمت اور صحیح عمل کی توفیق ڈال دی تو یہودا نے اپنے دوسرے بھائیوں کو خطاب کیا کہ بےگناہ کا قتل انتہائی جرم عظیم ہے خدا سے ڈرو اور اس بچہ کو اس کے والد کے پاس پہنچا دو البتہ اس سے یہ عہد لے لو کہ باپ سے تمہاری کوئی شکایت نہ کرے، بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں تمہارا کیا مطلب ہے تم یہ چاہتے ہو کہ باپ کے دل میں اپنا مرتبہ سب سے زیادہ کرلو اس لئے سن لو کہ اگر تم نے ہمارے ارادہ میں مزاحمت کی تو ہم تمہیں بھی قتل کردیں گے، یہودا نے دیکھا کہ نو بھائیوں کے مقابلہ میں تنہا کچھ نہیں کرسکتے تو کہا کہ اچھا اگر تم یہی طے کرچکے ہو کہ اس بچہ کو ضائع کرو تو میری بات سنو یہاں قریب ہی ایک پرانا کنواں ہے جس میں بہت سے جھاڑ نکل آئے ہیں، سانپ، بچھو اور طرح طرح کے موذی جانور اس میں رہتے ہیں تم اس کو کنویں میں ڈال دو اگر اس کو کسی سانپ وغیرہ نے ڈس کر ختم کردیا تو تمہاری مراد حاصل ہے اور تم اپنے ہاتھ سے اس کا خون بہانے سے بری رہے اور اگر یہ زندہ رہا تو کوئی قافلہ شاید یہاں آئے اور پانی کے لئے کنویں میں ڈول ڈالے اور یہ نکل آئے تو وہ اس کو اپنے ساتھ کسی دوسرے ملک میں پہنچادے گا اس صورت میں تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۝ ١٤ عُصْبَةُ والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، ( ع ص ب ) العصب العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک د... وسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) کیوں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک بھیڑیا ان پر حملہ آور ہو رہا ہے اسی وجہ سے انہوں نے یہ فرمایا انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ اگر ان کو بھیڑیا کھاجائے اور ہم دس لوگ ہیں تو ہم بالکل ہی گئے گزرے ہوئے یا یہ کہ ہم باپ اور بھائی کی حرمت کو چھوڑ کر بالکل گھاٹے میں پڑجائیں گے... ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ) یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے جیسے دس کڑیل جوانوں کے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھاجائے ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:14) ونحن عصبۃ (ملاحظہ ہو 12:8) حالانکہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ پھر ہمارا زور کس روز کام آئے گا۔ ہم دس مضبوط جوان ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب انہوں نے اس اندیشے کا رد کرنے کے لیے پھر نہایت ہی موثر اسلوب اختیار کیا ، کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر جتھے کے ہوتے ہوئے بھی کوئی بھیڑیا یوسف کو پھاڑ کھائے۔ یہ کیسے ممکن ہے ورنہ ہم تو بہت ہی نکمے اور خسارے میں ہوں گے۔ اس مکالمے کے نتیجے میں حضرت یعقوب اپنے تمام اندیشوں کے باوجود مجبور ہوگئے کہ و... ہ یوسف کو ان کے ساتھ چھوڑ دیں اور یوں تقدیر الٰہی کے مطابق قصے کی مزید کڑیاں ظہور پذیر ہوں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 بھائیوں نے جواب دیا کہ اگر اس کو بھیڑیا کھاجائے اور ہم پوری کی پوری جماعت موجود ہوں تو ہم تو بالکل ہی گئے گزرے ہوئے اور ہم نے سب کچھ گنوا دیا یعنی اگر ایک زور آور جماعت کی موجودگی میں ایسا غضب ہوجائے تو ہم تو اس وقت کسی گھر کے بھی نہ رہیں گے۔