Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 15

سورة يوسف

فَلَمَّا ذَہَبُوۡا بِہٖ وَ اَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ یَّجۡعَلُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵﴾

So when they took him [out] and agreed to put him into the bottom of the well... But We inspired to him, "You will surely inform them [someday] about this affair of theirs while they do not perceive [your identity]."

پھر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹھان لیا اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں ، ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کی طرف وحی کی کہ یقیناً ( وقت آرہا ہے کہ ) تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf is thrown in a Well Allah tells: فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ ... when they took him away, Allah says that when Yusuf's brothers took him from his father, after they requested him to permit that, ... وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ ... they all agreed to throw him down to the bottom of the well, This part of the Ayah magnifies their crime, in that it mentions that they all agreed to throw him to the bottom of the well. This was their intent, yet when they took him from his father, they pretended otherwise, so that his father sends him with a good heart and feeling at ease and comfortable with his decision. It was reported that Yaqub, peace be upon him, embraced Yusuf, kissed him and supplicated to Allah for him when he sent him with his brothers. As-Suddi said that; the time spent between pretending to be well-wishers and harming Yusuf was no longer than their straying far from their father's eyes. They then started abusing Yusuf verbally, by cursing, and harming him by beating. When they reached the well that they agreed to throw him in, they tied him with rope and lowered him down. When Yusuf would beg one of them, he would smack and curse him. When he tried to hold to the sides of the well, they struck his hand and then cut the rope when he was only half the distance from the bottom of the well. He fell into the water and was submerged. However, he was able to ascend a stone that was in the well and stood on it. Allah said next, ... وَأَوْحَيْنَأ إِلَيْهِ لَتُنَبِّيَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ and We revealed to him: "Indeed, you shall (one day) inform them of this their affair, when they know (you) not." In this Ayah, Allah mentions His mercy and compassion and His compensation and relief that He sends in times of distress. Allah revealed to Yusuf, during that distressful time, in order to comfort his heart and strengthen his resolve, `Do not be saddened by what you have suffered. Surely, you will have a way out of this distress and a good end, for Allah will aid you against them, elevate your rank and raise your grade. Later on, you will remind them of what they did to you.' ... وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ when they know not. Ibn Abbas commented on this Ayah, "You will remind them of this evil action against you, while they are unaware of your identity and unable to recognize you."

بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔ سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا ۔ اور حضرت یوسف کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں ۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا ، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے ۔ ہر طرح خوش رکھیں گے ۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا ۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کردی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کر لیا ۔ باپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کردیا ۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کر دیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے ۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے ، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا ۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہوگئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلویوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا ۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی ۔ آپ تہ میں جا گرے ، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہو جائے ۔ وحی میں فرمایا گا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہوگی ۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا ۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی ۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا ۔ یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے ۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تو وہ ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے ۔ اس وقت آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا ۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے ۔ یہ کہہ رہا ہے تہارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا ۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا ۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جاکر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا ۔ اب تو یہ حیران ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں ۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بےشعوری میں جتائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 قرآن کریم نہایت اختصار کے ساتھ واقعہ بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہونگے اور پھر تو انھیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ اس طرح سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران اور پشیمان ہوجائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ الاسلام اس وقت اگرچہ بچے تھے، لیکن جو بچے، نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں، ان پر بچپن میں بھی وحی آجاتی ہے جیسے حضرت عیسیٰ و یحیٰی وغیرہ (علیہم السلام) پر آئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] چناچہ یہ برادران یوسف اپنے باپ کو چکمہ دینے اور اپنا اعتماد جمانے میں کامیاب ہوگئے اور باپ نے ان پر اعتبار کرتے ہوئے سیدنا یوسف کو دوسرے دن ان کے ہمراہ کردیا۔ یہ بہت بڑا مرحلہ تھا جو سرانجام پا گیا۔ پھر جب وہ اپنی اتفاق سے طے شدہ تجویز کے مطابق اسے ایک گمنام کنویں میں پھینکنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو صبر عطا فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے بھائیوں کو ان کے یہ کرتوت جتلاؤ گے۔ درآنحالیکہ وہ تمہیں پہچانتے بھی نہ ہوں گے اور اس نہ پہچاننے کی بھی دو وجوہ ممکن ہیں ایک یہ کہ یوسف کسی اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہوں کہ برادران یوسف کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکے کہ ان کا بھائی اس مقام پر سرفراز ہوسکتا ہے اور اس کا لباس و طرز بودو باش ان سے اس قدر مختلف اور مغائر ہوسکتی ہے، اور دوسرے یہ کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہو کہ شکل میں تبدیلی کی وجہ سے وہ انھیں پہچان بھی نہ سکیں۔ واضح رہے ( غَیٰبَتِ الجُبِّ ) کا مفہوم کسی کچے کنویں میں پانی کی سطح سے ذرا اوپر وہ چھوٹے چھوٹے طاقچے ہیں جن میں پاؤں جمائے جاسکیں اور چھوٹی موٹی چیز بھی رکھی جاسکے تاکہ کنویں کی صفائی وغیرہ کے لیے کنوئیں میں اترنے اس سے نکلنے میں سہولت رہے۔ اسی طرح کے ایک چھوٹے سے طاقچے میں بردران یوسف سیدنا یوسف کو رکھ کر واپس آگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ ۔۔ :” وَاَجْمَعُوْٓا “ باب افعال ہے، کسی کام کا مصمم عزم کرلینا، یعنی آخر وہ باپ کے کسی عذر کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے خاموش ہونے پر اسے اپنے ساتھ لے ہی گئے۔ اب یہاں قرآن کریم کا کمال اعجاز دیکھیے، فرمایا : ” پھر جب وہ اسے لے گئے اور طے کرلیا کہ اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دیں “ تو پھر کیا ہوا ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ذکر ہی نہیں فرمایا، تاکہ سننے والے خود ہی سمجھ لیں کہ قتل تک کا منصوبہ بنانے والے ان دس شیر جوانوں نے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کنویں میں پھینکنے کے وقت اور اس سے پہلے کیا سلوک کیا ہوگا۔ قرآن اشارہ کرتا ہے، پھر سمجھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے اور کچھ اس لیے بھی کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ان کا سلوک تصور میں تو آسکتا ہے، اسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ہے، یا پھر بات اتنی لمبی ہوجائے گی جو قرآن کا طریقہ نہیں۔ مفسر آلوسی نے فرمایا : ” انھیں کنویں میں پھینکنے کی کیفیت اور اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے جو کچھ کہا اور جو کچھ انھوں نے اس سے کہا، اس کے متعلق کتب تفسیر میں بہت سی روایات ہیں جنھیں سن کر پتھر بھی پانی ہوجاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کی سند پر اعتماد ہوسکتا ہو۔ “ کیونکہ ان مفسرین میں سے کوئی چشم دید بیان کرنے والا ہے ہی نہیں اور وہ عالم الغیب جو سب کچھ دیکھ رہا تھا اس نے یہ بات ہمارے خود سوچنے کے لیے بلا تفصیل چھوڑ دی ہے۔ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ ۔۔ : یعنی اس مشکل وقت میں یوسف (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے تسلی دی گئی کہ ایک ایسا وقت ہر صورت آئے گا جب تم ان بھائیوں کو ان کا یہ کام بتاؤ گے، جب کہ طویل مدت اور آج اور اس وقت کے حالات کے فرق کی وجہ سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ہم اسی بھائی سے پورا غلہ دینے اور صدقہ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جسے ہم کنویں میں پھینک کر اس سے فارغ ہوچکے تھے۔ یہاں ” لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا “ (تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا) میں ” ان کے اس کام “ کے الفاظ میں بھی ان کے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ سلوک کی لمبی و دلخراش داستان دو تین لفظوں میں سمٹی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کچھ لوگ یعقوب (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے کہ ” میں ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھاجائے گا “ ان کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں یوسف (علیہ السلام) پر گزرنے والی حالت، ان کی غلامی، عفت کی آزمائش، قید خانے کے سال، بادشاہ کے خواب کا قید سے نکلنے کا ذریعہ بننا، خوش حالی اور قحط کے سال، قید سے نکل کر قرب شاہی اور وزارت خزانہ کا حصول، یہ سب کچھ یعقوب (علیہ السلام) کو کیوں معلوم نہ ہوسکا ؟ آنکھیں غم سے سفید کیوں ہوگئیں ؟ کیا علم غیب یہی ہوتا ہے ؟ ہاں، پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ جتنی بات وحی کے ذریعے سے بتاتا ہے وہ انھیں معلوم ہوجاتی ہے، جیسے بشارت دینے والے کے مصر سے قمیص لے کر چلنے کے ساتھ ہی انھیں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگی اور قمیص آنکھوں پر ڈالنے سے بینائی واپس آگئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ یہ نہ یوسف (علیہ السلام) کے بس کی بات تھی اور نہ ان کے والد ماجد یعقوب (علیہ السلام) کے بس کی۔ اللہ تعالیٰ جتنی بات بتادے وہ معلوم، باقی کی خبر نہیں، ایسا شخص عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ غیب کی کئی باتیں ہمیں بھی رسول کے بتانے سے معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہوگئے ؟ نہیں، آسمان و زمین میں عالم الغیب صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے، جیسے فرمایا : (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) [ النمل : ٦٥ ] ” کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

From here, Al-Qurtubi concludes that the brothers had somehow To this, all brothers agreed - as stated in the ninth of the present verses (15) cited above in the following words: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِ‌هِمْ هَـٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ` So, when they went with him and were determined to put him in the bottom of a pit (which they did). And We revealed to him (Yusuf), You will (one day) tell them of this deed of theirs while they will not recognize (you).& Here, the word: وَأَوْحَيْنَا (And We revealed) is the principal clause of the preceding conditional clause: فَلَمَّا ذَهَبُوا (when they went). The letter: (and) at this place in the former is za&idah i.e. has no meaning (Qurtubi). The sense is: When the brothers did finally decide to throw Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) into the pit of the well, Allah Ta’ aa revealed to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) words of comfort for him in which he has been given the glad tidings that some time in the future he will meet his brothers and that it will be a time when he would be free of any need of help from these brothers, rather, would have an upper-hand over them. And by virtue of these changed circumstances, he would be in a position to take account of their unjust treatment meted out to their younger brother while they themselves would be unaware of the whole matter. Imam Al-Qurtubi says that there could be two possible situations in this connection: (1) That the revelation came to him after he was thrown in the pit of the well and that it was to give him comfort in that state and to give him the good news that he would be delivered soon from this ordeal. (2) That Allah Ta’ ala had, much before he was thrown into the pit of the well, oriented Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) with conditions and events he would face through a revelation in which he was also told that he would come out of this death-trap safely and that particular conditions will unravel when he would have the opportunity to admonish these brothers who would not even recognize him at that time as their own brother, Yusuf. According to Tafsir Mazhari, this revelation which came to him dur¬ing the time of his childhood was not the commonly recognized wahy or revelation sent to prophets - because, that is conferred on them at the age of forty. In fact, this was a revelation similar to that which was sent to the mother of Sayyidna Musa (علیہ السلام) . The usual channel of revelation as received by prophets started when Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had reached Egypt and attained maturity - as stated in the Qur&an: وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا (And when he reached at the prime of his age, We gave him wisdom and knowledge - 22). And Ibn Jarir, Ibn Abi Hatim and others have taken this revelation to be nothing but prophetic, though in an exceptional way, as was the case of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) who was invested with pro¬phethood during his childhood. (Mazhari) Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas رضی اللہ تعالیٰ عنہما has said: After he had reached Egypt, Allah Ta` ala had forbidden Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) through a revela¬tion that he should not report his circumstances back to his home. (Qurtubi) This was the reason why a prophet of Allah like Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did not - even after having been released from the prison and later hav¬ing the reins of the government of Egypt in his hands - make an effort to find a way through which he could have provided relief to his old and afflicted father by sending to him a message that he was safe and set. Who knows or could know the wisdom of Allah ja&lla thana&uhu hidden behind this arrangement? Perhaps, of the many considerations, it may also be His will that Sayyidna Ya` gub (علیہ السلام) be sounded out that such boundless love for someone other than Allah was not ideally fa¬vour-worthy - and that by making those brothers come to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in need, the purpose may be to mildly censure him too for his conduct. At this point, Imam Al-Qurtubi and other commentators have described the event of the lowering of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) into the pit of the well. When his brothers started doing that, he clung to the outer edge of the well. They took his shirt out and tied his hands with it. At that time, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) pleaded for mercy from his brothers once again. But, once again, he got the same answer: Call those eleven stars who prostrate to you, let them help you. Then, they put him in a bucket and lowered him down into the well. When he was down as far as half the depth of the well, they cut off the rope releasing the bucket for a free fall. But, Allah being the protector of His prophet, saved him when he re¬mained unhurt as he fell into the water. There was a protruding rock close to him. Safe and sound, he sat on it. According to some narrations, a command was given to Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) who put him on the rock. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) remained in that well for three days. Hiding away from others, his brother, Yahuda, brought food and water for him every day and lowered it down to him through a bucket.

اس بات پر سب بھائیوں کا اتفاق ہوگیا جس کا بیان آیات مذکورہ میں سے تیسری آیت میں اس طرح آیا ہے (آیت) فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ یعنی جب یہ بھائی یوسف (علیہ السلام) کو جنگل میں لے گئے اور اس پر سب متفق ہوگئے کہ اس کو کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تو اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ ایک دن ایسا آئے گا جب تم اپنے بھائیوں کو ان کے اس کرتوت پر تنبیہ کرو گے اور وہ کچھ نہ جانتے ہوں گے، یہاں لفظ وَاَوْحَيْنَآ فَلَمَّا ذَهَبُوْا کی جزاء اور جواب ہے حرف واؤ اس جگہ زائد ہے (قرطبی) مطلب یہ ہے کہ بھائیوں نے مل کر کنویں میں ڈالنے کا عزم کر ہی لیا تو اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی تسلی کے لئے وحی بھیج دی جس میں کسی آئندہ زمانے میں بھائیوں سے ملاقات کی اور اس کی خوش خبری دی گئی ہے کہ اس وقت آپ ان بھائیوں سے مستغنی اور بالادست ہوں گے، جس کی وجہ سے ان کے اس ظلم و ستم پر مواخذہ کریں گے اور وہ اس سارے معاملہ سے بیخبر ہوں گے امام قرطبی نے فرمایا کہ اس کی دو صورتوں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ یہ وحی ان کو کنویں میں ڈالنے کے بعدان کی تسلی اور یہاں سے نجات کی خوش خبری دینے کے لئے آئی ہو دوسرے یہ کہ کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو پیش آنے والے حالات و واقعات سے بذریعہ وحی باخبر کردیا جس میں یہ بھی بتلا دیا کہ آپ اس ہلاکت سے سلامت رہیں گے، اور ایسے حالات پیش آئیں گے کہ آپ کو ان بھائیوں پر سرزنش کرنے کا موقع ملے گا جب کہ وہ آپ کو پہچانیں گے بھی نہیں کہ ان کے بھائی یوسف (علیہ السلام) ہیں یہ وحی حضرت یوسف (علیہ السلام) پر زمانہ طفولیت میں نازل ہوئی تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ وحی نبوت نہ تھی کیونکہ وہ چالیس سال کی عمر میں عطا ہوتی ہے بلکہ یہ وحی ایسی ہی تھی جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بذریعہ وحی مطلع کیا گیا یوسف (علیہ السلام) پر وحی نبوت کا سلسلہ مصر پہونچنے اور جوان ہونے کے بعد شروع ہواجیسا کہ ارشاد ہے (آیت) وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا اور ابن جریر، ابن ابی حاتم وغیرہ نے اس کو استثنائی طور پر وحی نبوت ہی قرار دیا ہے، جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت عطاکی گئی (مظہری) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ مصر پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اس بات سے منع کردیا تھا کہ وہ اپنے حال کی خبر اپنے گھر بھیجیں (قرطبی) یہی وجہ تھی کہ یوسف (علیہ السلام) جیسے پیغمبر خدا نے جیل سے رہائی اور ملک مصر کی حکومت ملنے کے بعد بھی کوئی ایسی صورت نہیں نکالی جس کے ذریعہ والد ضعیف کو اپنی سلامتی کی خبر دے کر مطمئن کردیتے، اللہ جل شانہ کی حکمتوں کو کون جان سکتا ہے جو اس طرز میں مخفی تھیں شاید یہ بھی منظور ہو کہ یعقوب (علیہ السلام) کو غیر اللہ کے ساتھ اتنی محبت کے ناپسند ہونے پر متنبہ کیا جائے اور یہ کہ بھائیوں کا حاجت مند بن کر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے پیش کر کے ان کے عمل کی کچھ سزا تو ان کو بھی دینا مقصود ہو، امام قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس جگہ یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالنے کا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ جب ان کو ڈالنے لگے تو وہ کنویں کی من سے چمٹ گئے بھائیوں نے ان کا کرتہ نکال کر اس سے ہاتھ باندھے، اس وقت پھر یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے رحم کی درخواست کی مگر وہی جواب ملا کہ گیارہ ستارے جو تجھے سجدہ کرتے ہیں ان کو بلا وہی تیری مدد کریں گے پھر ایک ڈول میں رکھ کر کنویں میں لٹکایا جب نصف تک پہنچنے تو اس کی رسی کاٹ دی اللہ تعالیٰ نے اپنے یوسف کی حفاظت فرمائی پانی میں گرنے کی وجہ سے کوئی چوٹ نہ آئی اور قریب ہی ایک پتھر کی چٹان نکلی ہوئی آئی صحیح سالم اس پر بیٹھ گئے بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم ہوا انہوں نے چٹان پر بٹھا دیا، یوسف (علیہ السلام) تین روز اس کنویں میں رہے ان کا بھائی یہودا دوسرے بھائیوں سے چھپ کر روزانہ ان کے لئے کھانا پانی لاتا اور ڈول کے ذریعہ ان تک پہنچا دیتا تھا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْہُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ۝ ٠ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ھٰذَا وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١٥ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے غيابة والغَيَابَةُ : منهبط من الأرض، ومنه : الغَابَةُ للأجمة، قال : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف/ 10] ، ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) الغیابۃ کے معنی نشیبی زمین کے ہیں اور اسی سے گھنے جنگل کو غابۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف/ 10] کسی کنویں کی گہرائی میں ۔۔۔۔ ایک محاورہ ہے َھم یشھدون احیانا ویتغایبون احیانا کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی چھپ جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ سبأ/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ ( وہ یونہی اندھیرے میں تیرچلاتے ہیں اور ) نگاہ وبصیرت سے اس کا ادراک نہیں کرتے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے واوحینا الیہ لتنبھنھم بامرھم ھذا وھم لا یشعرون ہم نے یوسف کو وحی کی ، کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتنانے گا ۔ یہ اپے فعل کے نتائج سے بیخبر ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس وقت حضرت یوسف انہیں ان کی یہ حرکت جتائیں گے اس وقت انہیں احساس نہیں ہوگا کہ جتانے والے یوسف ہی ہیں ۔ حسن سے بھی یہی قول منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں وحی بھیج کر نبوت عطا کردی تھی اور انہیں بتادیا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو ان کی یہ حرکت جتائیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) چناچہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لے جان کی اجازت لے کر وہ انکو جنگل میں لے گئے تو سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان کو کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیں گے۔ چناچہ انہوں نے اپنا ارادہ پورا کیا تو اس وقت ہم نے جبریل امین کو یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور بذریعہ الہام ان کو تسلی دی کہ اے یوسف تم ان کو ان کی یہ بات جتلاؤ گے اور وہ تمہیں پہچانیں گے بھی نہیں کہ تم یوسف ہو حتی کے تم خود ہی ان سے اپنا تعارف کراؤ گے اور کہ اس وقت ہم نے جو وحی بھیجی ان کے بھائیوں کو اس چیز کی قطعا کچھ خبر نہ ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ) یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہوگئے انہوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا۔ (وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہوگی کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوگا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کردی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے تم نہ صرف اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو ان کا یہ سلوک جتلا سکو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. The Arabic words “they do not perceive” may very appropriately mean three things. First, We were comforting Joseph, and his brothers were quite unaware of this that a revelation was being sent to him. Second, you will let them know of this evil act of theirs in such circumstances that they can never even imagine you to be there. Third, today they are committing an evil act, but they do not know its future consequences. There is no mention of this in the Bible and the Talmud that Allah sent a revelation to comfort Prophet Joseph at that time of his affliction. On the contrary, the Talmud says that when he was thrown into the well, Prophet Joseph wept and cried aloud and implored his brothers for mercy, as if he was no better than any other lad of the desert, who would weep and cry if he were to be thrown into a well. But the picture the Quran depicts is that of a young man, who is destined to play the part of a great personality in history.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :12 متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم یوسف علیہ السلام کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے ۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں ۔ بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی ۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی ۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے ۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: حضرت یوسف علیہ السلام اس وقت بچے تھے، روایت میں اُن کی عمر سات سال بتائی گئی ہے۔ اس لئے یہ وحی نبوّت کی وحی نہیں تھی، بلکہ یہ اُس قسم کی وحی تھی جیسی قرآنِ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ یا حضرت مریم کے لئے بیان فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کسی ذریعے سے یہ بتا دیا کہ گھبراو نہیں، ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ تمہارے آگے جھکیں گے، اور تم انہیں ان کی ساری حرکتوں کے بارے میں انہیں اس وقت سب کچھ جتلا دو گے جب یہ تمہیں ہچانتے بھی نہیں ہوں گے۔ چنانچہ آگے آیت نمبر 89 میں آ رہا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کا حاکم بننے کے بعد انہیں جتلایا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اس بات کی خبر دی کہ آخر کار یوسف کے دسوں سوتیلے بھائی ضد کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو باپ کے پاس سے لے کر چلے اور جب کچھ دور پہنچ گئے تو اپنی عداوت ان پر ظاہر کرنے لگے اور طرح طرح کی تکلیف اور ایذا یوسف (علیہ السلام) کو پہنچانے لگے۔ جب ایک بھائی ان کو مارتا تھا تو یہ دوسرے بھائی سے فریاد کرتے تھے وہ بھی مارنے لگتا تھا۔ راستہ بھر یہی حالت رہی آخر یہودا سے نہ رہا گیا اس نے کہا کہ آپس میں تو یہ بات طے ہوئی ہے کہ اس کو کنوئیں میں ڈالیں گے اب یہ کیا حرکت ہے جب یہودا نے یہ بات کہی تو یوسف کے بھائی اس ایذا رسانی سے باز آئے اور اسی پر متفق ہوئے کہ چل کر اس کو کنوئیں کی تہہ میں ڈال دیں غیابت الجب باندھیں تاکہ کنوئیں کی منڈیر وغیرہ پکڑ کر بچ نہ رہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی سے ان سے کہا کہ میرے ہاتھ تو کھول دو کنوئیں کے اندر خدا جانے کون کون سے جانور ہوں گے اور مجھے ایذا پہنچائیں گے کاٹ کھائیں گے میرے ہاتھ قابو میں رہیں گے تو میں ان جانوروں کو دفع کرسکوں گا اور میرا کرتہ بھی دے دو تاکہ میرا ستر تو ڈہنکا رہے مگر افسوس کہ یوسف (علیہ السلام) کے ان سخت دل بھائیوں نے ایک نہ سنی اور ان کو کنوئیں میں لٹکا ہی دیا جب آدھی دور تک کنوئیں میں پہنچے تو رسی کاٹ دی اور کہا کہ اسی شمس و قمر اور ستاروں کو پکارو جنہیں خواب میں دیکھا تھا وہی تمہیں کپڑا بھی دیں گے اور تمہیں اس آفت سے بچائیں گے۔ یوسف (علیہ السلام) جب کنوئیں میں گرے تو بالکل تہہ میں نہیں پہنچے۔ کنوئیں کے بیچ میں ایک پتھر تھا اس پر کھڑے ہوگئے اللہ پاک نے ان کی تسکین کے لئے ایک فرشتہ بھیج دیا۔ بعضے مفسروں کا قول ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں ایک تعویذ تھا فرشتے نے اسے کھولا یہ تعویز دراصل تعویذ نہ تھا بلکہ اس میں وہی کرتہ لپٹا ہوا تھا جو جبرائیل (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے واسطے لے کر آئے تھے اور جب نمرود نے آپ کو برہنہ کر کے آگ میں ڈلوایا تھا تو یہی کرتہ جبرئیل (علیہ السلام) ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنا گئے تھے یہ کرتہ نسلاً بعد نسل پہلے اسحاق (علیہ السلام) کے ورثہ میں آیا پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ملا حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت یوسف میں نبوت کی بو پاتے تھے اس لئے اس کرتہ کا وارث انہیں کو جان کر تعویذ کی طرح لپیٹ کر ان کے گلے میں باندھ دیا تھا یہ کرتہ اس جگہ کام آیا فرشتے نے کھول کر انہیں پہنا دیا پھر اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) پر اس وقت یہ وحی بھیجی کہ تم اپنا دل اس بات سے خوش رکھو تم انہیں ان کے کردار بد کسی وقت جتلاؤ گے اور انہیں اس بات کی مطلق خبر تک نہ ہوگی بلکہ تمہیں یہ پہچانیں گے بھی نہیں اور خدا تمہیں ان لوگوں پر فتحیاب کرے گا اور عالی رتبہ بنائے گا۔ تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر ہوگئے تھے تو قحط کے زمانے میں یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان کے پاس پہنچے اور یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا لیکن یوسف (علیہ السلام) نے انہیں شناخت کرلیا تھا اور غلہ ناپنے کا پیمانہ جو یوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ میں تھا اس کو یوسف (علیہ السلام) نے ٹھونکا اور کہا کہ یہ جام تو اس بات کی خبر دیتا ہے کہ تمہارا ایک بھائی سوتیلا اور بھی تھا اس کا یوسف نام تھا تمہارے باپ اس کو بہت پیار کرتے تھے اور اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے تم اسے باپ کے پاس سے لے جا کر گمنام کنوئیں میں ڈال آئے پھر دوبارہ اس پیمانہ کو ٹھونکا اور کہا کہ یہ پیمانہ خبر دیتا ہے کہ تم نے باپ کے پاس جا کر کہا کہ یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیا کھا گیا اور تم اس کے کرتے پر کسی جانور کا خون لگا کرلے گئے تھے تاکہ باپ تمہارے قول کی تصدیق کرلیں غرض کہ یوسف (علیہ السلام) سے اس بات کو سن کر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ایک دوسرے سے آپس میں کہنے لگے کہ یہ جام تو ہمارے حالات کی خبر دیتا ہے صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں وہ قصہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود اور اس کی قوم کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا اور جب نمرود کے روبرو اس کی دریافت شروع ہوئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تھا کہ اگر تمہارے یہ بت بولتے ہیں تو اس بڑے بت سے پوچھو اسی نے ان سب چھوٹے بتوں کو توڑا ہے ١ ؎ اور خود ثابت ہے زیادہ تفصیل اس قصے کی سورت الانبیاء میں آوے گی مگر یہاں حاصل اسی قدر ہے کہ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کے باب میں ان نمرودی لوگوں کو قائل کیا تھا اسی طرح یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پیمانہ کے بولنے کی حالت سے قائل کیا حاصل کلام یہ ہے کہ بعضی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ظاہر حال میں وہ جھوٹی نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں ان باتوں کو ذریعہ ٹھہرا کر ایک سچی بات کو نئے ڈھنگ سے ظاہر کیا جاتا ہے جس طرح یہاں یوسف (علیہ السلام) نے پیمانہ کے بولنے کو ذریعہ ٹھہرا کر ایک سچی بات اپنے بھائیوں کو جتلائی اور پیمانے کے بولنے کا یہ مطلب ٹھہرایا کہ اگر پیمانہ بولتا تو یہی سچی بات بولتا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٦ باب بدء الخلق الخ و تفسیر ابن کثیر ص ١٨٣ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:15) اجمعوا۔ وہ سب جمع ہوگئے۔ سب نے باتفاق فیصلہ کرلیا۔ سب نے پختہ ارادہ کرلیا۔ جواب لما محذوف ہے ۔ ای یجعلوہ فی غیبت الجب وفعلوا بہ ما فعلوا من الاذی۔ اوحینا الیہ۔ اور ہم نے اس پر وحی کی۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر کا مرجع حضرت یوسف ہیں ۔ یہ وحی اصطلاحی مراد نہیں بلکہ الہام کے معنی میں ہے جو غیر نبی کو یا نبی کو قبل از نبوت ہوتا رہتا ہے۔ لتنبئہم۔ تو ضرور ان کو جتائے گا۔ تو ضرور ان کو بتلائے گا۔ (باب تفعیل) مضارع بانون ثقیلہ واحد مذکر حاضر تنبئۃ اور تنبیٔ سے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (برائے برادران یوسف) ۔ وہم لا یشعرون۔ درآں حالیکہ وہ جانتے بھی نہ ہوں گے کہ تو یوسف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ تمہیں پہنچان نہ رہے ہوں گے۔ دونوں حالتوں میں تفاوت کی وجہ سے یا زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے۔ واقعہ آگے آرہا ہے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ چناچہ یہ وعدہ واقع ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں کے سپرد کرنا۔ اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا انہیں ویران اور گمنام کنویں میں پھینکنا۔ برادران جب یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اپنے ہدف کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے بالاتفاق یوسف (علیہ السلام) کو ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے غیر مستند تاریخی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جونہی یوسف (علیہ السلام) کے برادر اپنی بستی سے دور ہوئے تو انہوں نے یوسف کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ یوسف زار و قطار روتے ہوئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے بھائی کے ساتھ چمٹ جاتے مگر وہ ترس کھانے کے بجائے اپنے سے اگلے کی طرف دھکیل دیتا۔ ممکن ہے یہی کچھ ہوا ہو کیونکہ قرآن مجید کسی واقعہ کی غیر اہم جزئیات بیان نہیں کرتا۔ اس لیے سب سے بڑے اور آخری اقدام کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ انہوں نے جب یوسف کو ویران کنویں میں پھینک دیا تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وقت آئے گا کہ جو کچھ انھوں نے کیا اس کے بارے میں تم ضرور اور ہر صورت انھیں بتلاؤ گے۔ ہندو پاک کے معروف اہل قلم اور ریاست پٹیالہ کے سیشن جج قاضی سلیمان منصور پوری تفسیر سورة یوسف المسمٰی بہ الجمال والکمال میں (لَتُنَبِّءَنَّھُمْ ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا معنیٰ ہے۔ اے یوسف فکر نہ کر تو باعزت اس مصیبت سے نجات پائے گا۔ اور تجھے اعلیٰ منصب عطا کیا جائے گا۔ تیرے بھائی تیرے سامنے ذلیل ہو کر حاضر ہوں گے اور تجھے ان کے سامنے سب کچھ بیان کرنے کا موقع عنایت کیا جائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کی مملکت کا حکمران بنایا۔ قحط سالی سے تنگ آکر امداد کے لیے برادران یوسف ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف کرتے ہوئے، عزت و احترام سے نوازا۔ اس کی تفصیل آیت ٨٩ تا ٩٢ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی۔ حالانکہ اس وقت حضرت یوسف کی عمر آٹھ، نو سال یا ١٦، ١٧ سال کی بتلائی جاتی ہے۔ میرا قلبی میلان یہ ہے کہ حضرت یوسف کی عمرآٹھ یانو سال تھی۔ ١٦ تا ١٧ سال کا بچہ جوان یا جوانی کے بالکل قریب ہوتا ہے۔ بالخصوص جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر نامزد کرنا ہوتا ہے وہ صحت کے اعتبار سے اپنی عمر سے بہت زیادہ سمجھدار اور کافی حد تک جسمانی طور پر بڑا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا نہایت چھوٹی عمر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلبی طور پر اطمینان بخشا اور فکری اعتبار سے انہیں پرسکون کردیا کہ تجھے گھبرانا نہیں چاہیے۔ وقت آنے پر سب کچھ تیرے سامنے کردیا جائے گا۔ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے جو کام لینا چاہتا ہے اس کے کرنے کا اس کے دل میں القاء کردیتا ہے۔ جس کی قرآن مجید کے حوالے سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ اے انسان تیرے رب نے مکھی کی طرف وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں اور انگور کی بیلوں میں اپنا گھر بنائے پھر پھلوں سے رس چوس کر اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی ہوئی اپنے پیٹ سے مختلف رنگوں کا شہد نکالے جس میں لوگوں کے لیے شفاء رکھ دی گئی ہے۔ یقیناً اس میں غور کرنے والے لوگوں کے لیے راہنمائی کا سامان موجود ہے۔ (النحل : ٦٨ تا ٦٩) موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی (یعنی القا کیا) کہ اسے دریا میں ڈال دے، اس پر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم موسیٰ کو آپ کی طرف لوٹائیں گے۔ اور اسے نبوت سے سرفراز کریں گے۔ ( القصص : ٧) مسائل ١۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ القا کے ذریعے جسے چاہے آگاہ فرماتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہ لوگ انہیں لے کر جا رہے ہیں اس مکروہ سازش پر یہ لوگ عمل پیرا ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس بچے کے دل میں یہ بات ڈال رہا ہے کہ یہ ایک آزمائش ہے اور یہ ختم ہونے والی ہے اور یہ کہ انشاء اللہ وہ زندہ رہے گا اور اپنے غافل بھائیوں کو اس کے بارے میں خود بتائے گا۔ ان کے درمیان یہ بات طے پاگئی کہ اب یوسف کو کنوئیں میں ڈالنا ہے ، جہاں وہ ان کی نظروں سے دور رہے گا۔ اب ہر شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اس وقت یوسف پر کیا گزری ہوگی کہ یہ سب بھائی مل کر اس کمزور بچے کو کنوئیں میں ڈال رہے ہوں گ۔ جس کو اپنی موت قریب نظر آرہی ہوگی اور بھائیوں کی نظریں بدل گئی ہوں گی ، اس عالم بےبسی و بےکسی میں اب صرف اللہ کی مدد آتی ہے اور اللہ ان کے دل میں اطمینان اور سکینت ڈال دیتے ہیں کہ تم زندہ رہوگے ، ان کو بتاؤ گے کہ تم نے کیا کیا تھا ، اور ایسے حالات میں جبکہ کنوئیں میں ڈالا جانے والا یہ بچہ اب مملکت کا فرمانروا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بھائیوں کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالنا اور کرتہ پر جھوٹا خون لگا کر واپس آنا اور ان کے والد کا فرمانا کہ یہ تمہارے نفسوں نے سمجھایا ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اپنے والد کو کسی طرح سمجھا بجھا کر یوسف (علیہ السلام) کو لے گئے اور جنگل میں لے جا کر ایک اندھیرے کنویں میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا اور انہیں اس میں ڈال بھی دیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف ( علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تم ان لوگوں کو یہ بات بتلاؤ گے کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیا تھا ‘ اور وہ یہ جانیں گے بھی نہیں کہ یہ جو شخص ہمیں جتلا رہا ہے یہ وہی ہے جسے ہم نے کنویں میں ڈال دیا تھا ‘ چناچہ وہ وقت آیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا (ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جَاھِلُوْنَ ) (کیا تمہیں اس کا علم ہے جو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا جبکہ تم جاہل تھے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی آئی کہ تم انہیں ان کی یہ حرکت بتادو گے اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تسلی بھی تھی اور یہ خبر بھی تھی کہ تم اس کنویں میں سے زندہ نکلو گے اور ایسے مقام پر پہنچو گے کہ ان سے خطاب کرسکو گے۔ برادران یوسف (علیہ السلام) شام کو روتے ہوئے اپنے والد کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ابا جی ہم سب تو آپس میں دوڑ لگانے لگے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا ہمارا خیال تھا کہ اس جگہ بھیڑیا نہ آئے گا لیکن بھیڑیا آگیا اور یوسف کو کھا گیا ‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہم کیسے ہی سچے ہوں آپ یقین کرنے والے نہیں ہیں اپنی بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے انہوں نے یہ کیا کہ کنویں میں ڈالنے سے پہلے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ اتار لیا تھا اس میں کسی جانور کا خون لگا لیا تھا یہ کرتہ انہوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش کردیا کہ دیکھئے یہ یوسف کا کرتہ ہے اس میں ان کا خون لگا ہوا ہے بھیڑئیے نے چیر پھاڑ کر کے یوسف کو کھالیا اور اس کے کرتہ میں یہ خون لگ گیا ہے یہ کرتہ ہم اٹھا کرلے آئے ہیں، عیب کرنے کو بھی ہنر چاہیے کرتہ میں خون لگا لیا لیکن یہ دھیان نہ آیا کہ کرتہ پھٹ جاتا میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ بھیڑئیے نے یوسف کو نہیں کھایا بلکہ تمہارے نفسوں نے ایک بات سمجھا دی ہے اور ایک بہانہ بنا کرلے آئے ہو اور میں اب کر بھی کیا سکتا ہوں ‘ اب تو میں صبر جمیل ہی اختیار کروں گا (صبر جمیل وہ ہے جس میں کوئی حرف شکایت نہ ہو) اور تم جو کچھ بیان کر رہے ہو اس میں میں اللہ ہی سے مدد طلب کروں گا (معلوم ہوا کہ مومن بندہ مصیبت میں صبر بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” اَجْمَعُوْا “ یعنی یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں پھینکنے پر متفق ہوگئے یہ ” ذَھَبُوْا “ پر معطوف ہے اور ” لَمَّا “ کی جزاء محذوف ہے ای فعلوا بہ ما فعلوا من الاذی (مدارک ج 2 ص 164) ۔ ” وَ اَوْحَیْنَا اِلَیْہِ الخ “ حسن، مجاہد، ضحاک اور قتادہ کے نزدیک وحی نبوت مراد ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو صغر سن ہی میں نبوت مل گئی تھی۔ امام مجاہد نے ایک قول میں اور دیگر مفسرین نے وحی سے الہام مراد لیا ہے یعنی ہم نے یوسف کے دل میں یہ بات ڈال دی۔ جیسا کہ شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا ” وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ “ (قرطبی و روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 بہرحال جب وہ یوسف (علیہ السلام) کو لے گئے اور ان سب نے اس بات کا پختہ عزم کرلیا کہ اس کو کسی تاریک گمنام کنویں میں ڈال دیں چناچہ انہوں نے جو طے کیا تھا وہ کر گزرے اور ہم نے اس وقت یوسف (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ اے یوسف (علیہ السلام) تو ان بھائیوں کو ایک دن اس واقعہ سے آگاہ کرے گا اور ان کی یہ حالت ہوگی کہ وہ تجھ کو پہچانتے بھی نہ ہوں گے یعنی جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس سے لے گئے اور کنویں میں ڈالا اس وقت حضر ت یوسف (علیہ السلام) پانی سے بچ کر ایک پتھر پر جو کنویں میں ابھرا ہوا تھا اس پر بیٹھ گئے اس وقت حق تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم مغموم نہ ہو ہم تم کو یہاں سے نکال کر ایک ایسے بلند مرتبہ پر پہونچائیں گے کہ تم ان کی یہ تمام حرکات ان کو جتلائو گے اور یہ تمہاری رفعت شان کی وجہ سے تم کو پہچانتے بھی نہ ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پھر جب لے کر چلے فرمایا آگے نہ فرمایا کہ ہوا اس لئے کہ لائق بیان نہیں جو کچھ بھائیوں نے سلوک کیا راہ میں برا کہتے اور مارتے لے گئے نہ ان کے رونے پر رحم کھایا نہ فرمایا پر پھر کنوئیں میں ڈالا وہ کنارے کو پکڑ کر رہ گئے تب رسی میں باندھ کر لٹکایا آدھی دور سے چھوڑ دیا پانی میں گرے چوٹ سے بچے گوشہ میں ایک پتھر پر بیٹھ رہے اور بھائیوں نے کرتہ اتار کر ننگا ڈالا۔ تب حق تعالیٰ کی بشارت پہونچی کہ ایک وقت تو ان کو یاد دلائے گا ان کا کام 12 کہتے ہیں کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کنویں میں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو یہ دعا بھی تعلیم کی اللھم یا کاشف کل کریۃ یا مجیب کل دعوۃ یا جابر کل کسیر دیا میسر کل میسر ویا صاحب کل غریب ویا موسن کل وحید یا لا الہ الا انت سبحنک ان تجعل لی فرجاد ومخرجا وان تقذف جک فی قلبی حتی لایکون لی ھم ولا ذکر غیرک وان تحفظنی وترحمنی یا ارحم الرحمین