1. The Arabic word Quran “to read” is originally the infinitive form of the verb qara. When the infinitive form of a verb in Arabic is used as a name, it implies that that thing or person possesses the characteristics in their perfection. This Book has been named Quran to indicate that it is meant to be read by all and sundry and is to be read often and over and over again.
2. This does not mean that this Book has been sent down exclusively for the Arabs. What it means is only this: Of all the people, O Arabs, you should understand the excellence of the Quran, which is a sure proof of its being divine revelation, for it is in your own language and you have no excuse to put forward that it is in a foreign language which you do not understand.
Some people wrongly infer from this verse that this Book had been sent down for the Arabs and not for the non- Arabs; therefore, they assert, it cannot be claimed that it is the guidance for the whole mankind. But obviously this is a frivolous objection raised by those who do not understand its real significance. It is obvious that a book, though meant for universal guidance, will necessarily have to be put in words in some language so that the people speaking that language should understand its teachings and then become the means of conveying its guidance to other peoples. This is the only natural way of spreading the message of a movement on a universal scale.
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :1
قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے ۔ اس کے اصل معنی ہیں”پڑھنا“ ۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے ۔ مثلا جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ”بہادری“ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں ۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“ ( پڑھنا ) رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے ۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :2
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہل عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ ” اے اہل عرب ، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں ، تمہاری اپنی زبان میں ہیں ، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کر سکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں ، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں ، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“ ۔
بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے ، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے ، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے ۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی ، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متأثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے ، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے ۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا ۔