Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 21

سورة يوسف

وَ قَالَ الَّذِی اشۡتَرٰىہُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِہٖۤ اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ؕ وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ؕ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And the one from Egypt who bought him said to his wife, "Make his residence comfortable. Perhaps he will benefit us, or we will adopt him as a son." And thus, We established Joseph in the land that We might teach him the interpretation of events. And Allah is predominant over His affair, but most of the people do not know.

مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو ، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا ، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں ۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf in Egypt Allah tells: وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ ... And he (the man) from Egypt who bought him, said to his wife: Allah mentions the favors that He granted Yusuf, peace be on him, by which He made the man from Egypt who bought him, take care of him and provide him with a comfortable life. He also ordered his wife to be kind to Yusuf and had good hopes for his future, because of his firm righteous behavior. He said to his wife, ... أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ... Make his stay comfortable, maybe he will profit us or we shall adopt him as a son. The man who bought Yusuf was the minister of Egypt at the time, and his title was Aziz. Abu Ishaq narrated that Abu Ubaydah said that Abdullah bin Mas`ud said, "Three had the most insight: the Aziz of Egypt, who said to his wife, أَكْرِمِي مَثْوَاهُ (Make his stay comfortable...), the woman who said to her father, يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ (O my father! Hire him...), (28:26) Abu Bakr As-Siddiq when he appointed Umar bin Al-Khattab to be the Khalifah after him, may Allah be pleased with them both." Allah said next that just as He saved Yusuf from his brothers, ... وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الاَرْضِ ... Thus did We establish Yusuf in the land, in reference to Egypt, ... وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الاَحَادِيثِ ... that We might teach him the interpretation of events. the interpretation of dreams, according to Mujahid and As-Suddi. Allah said next, ... وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ ... And Allah has full power and control over His affairs, if He wills something, then there is no averting His decision, nor can it ever be stopped or contradicted. Rather, Allah has full power over everything and everyone else. Sa`id bin Jubayr said while commenting on Allah's statement, "He does what ever He wills." Allah said, ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ but most of men know not. meaning, have no knowledge of Allah's wisdom with regards to His creation, compassion and doing what He wills. Allah said next,

بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا ، اللہ نے اس کے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی ۔ اس نے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے ۔ یہ مصر کا وزیر تھا ۔ اس کا نام قطفیر تھا ۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا ۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا ۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا ۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی ۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا ۔ ۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا ۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں ۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ حضرت یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو ۔ دوسری وہ بچی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کر لیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے ۔ تیسرے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو سونپی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا ۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں ۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ کون روک سکتا ہے؟ کون خلاف کر سکتا ہے؟ وہ سب پر غالب ہے ۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں ۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کر چکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے ۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی ۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں واللہ اعلم

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔ 21۔ 2 یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] مصر میں جس شخص نے اس لڑکے کو خریدا وہ کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھا اور بےاولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت اور عادات و خصائل دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ لہذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج سیدنا یوسف کے سپرد کردیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت و وقار سے رکھو، یہ ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا اور کیا عجب کہ ہم اسے اپنا متبنّیٰ ہی بنالیں۔ [٢٠] تاویل الاحادیث سے مراد رموز مملکت اور اصول حکمرانی ہیں :۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو اس طرح کا باوقار مقام حاصل ہوجانا اس مستقبل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ کو پورے ملک مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی تھی۔ آپ کی سابقہ زندگی خالصتاً بدوی ماحول میں گزری تھی اور اس سابقہ زندگی میں بدوی زندگی کے محاسن اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے اللہ کی پرستش اور دینداری کے عنصر ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں آپ سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے جس واقفیت تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ آپ کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے میں میسر آگئی۔ اس آیت میں تاویل الاحادیث سے مراد یہی رموز مملکت ہیں اور اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسباب کے رخ کو موڑ دیا وہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ : قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا، البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز “ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں یوسف (علیہ السلام) کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا کوئی وزیر یا بہت بڑے عہدے پر فائز شخص تھا۔ اس کی بیوی کا نام بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہ تھا، بلکہ یہ پردہ پوشی کے بھی خلاف تھا۔ اس لیے جو لوگ اس خاتون کا نام ” زلیخا “ (زاء کے فتحہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ) یا ” راعیل “ بتاتے ہیں، ان کے پاس محض اسرائیلی روایات ہیں، کوئی پختہ دلیل نہیں اور ان کا یہ عمل ستر کے بھی خلاف ہے۔ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ : عزیز مصر نے اپنی بیوی کو یوسف (علیہ السلام) کی رہائش باعزت رکھنے اور ہر ضرورت مہیا رکھنے کی تاکید کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا اور اس کا تعلق مالک اور غلام والا ہونے کے بجائے گھر کے ایک معزز رکن کا ہونا چاہیے، بچہ نہایت ذہین اور اچھی عادات والا ہے، امید ہے ہمیں فائدہ دے گا۔ عزیز مصر مملکت کے کسی بھی شخص سے کام کروا سکتا تھا اور مطلوبہ فائدہ حاصل کرسکتا تھا مگر ماتحت نوکر جس طرح فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہایت عزت و محبت سے پالے ہوئے اپنے گھر کے ایک فرد سے جس خیر خواہی اور فائدے کی امید ہوتی ہے، دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : اس سے ظاہر ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ماں باپ، بہن بھائی یا بیٹا بیٹی منہ کے کہہ دینے سے نہیں بنتے۔ دیکھیے سورة احزاب (٤، ٥) اور مجادلہ (٢) ورنہ عزیز کی بیوی کا سگا بیٹا ہوتا تو وہ اس سے وہ معاملہ کبھی نہ کرتی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اکثر گھروں میں اللہ کی اس نافرمانی کے ایسے ہی نتائج رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت تاکید کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ ۔۔ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اس طرح یعنی عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کروا کر اور مصر کے اتنے عظیم مقام والے گھر میں باعزت رہائش دے کر ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں جگہ دی (تاکہ وہ باعزت زندگی بسر کرے) تاکہ ایک حکمران کے گھر میں رہ کر سرداروں کی مجلسیں دیکھے اور حکمرانی اور سیاست کے اسرار و رموز سیکھے، جو صحرا میں رہنے سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتے تھے اور آخر میں ان کی وجہ سے بنی اسرائیل مصر میں آ کر آباد ہوں۔ دوسری یہ کہ جیسے ہم نے اس سے پہلے یوسف کو بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح ہم نے اسے سرزمین مصر میں جگہ بخشی۔ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ :” غَلَبَ “ کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی مقابلے میں ہو۔ دیکھیے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کیا چاہتے تھے اور کنویں میں پھینکنے کے بعد اپنے خیال میں وہ کس قدر کامیاب ہوچکے تھے، مگر اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ وہ جو کرنا چاہے کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ کنویں سے نکال کر حکومت تک پہنچانا اور پھینکنے والوں کو سائل بنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کرنا اس کے ادنیٰ اشارے کا کام ہے۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر نے بدر کے موقع پر کیا خوب کہا تھا ؂ جَاءَتْ سَخِیْنَۃُ کَیْ تُغَالِبَ رَبَّھَا وَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ ” قریش اس لیے آئے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ غالب آنے کا مقابلہ کریں گے اور قسم ہے کہ اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا ہر صورت مغلوب ہو کر رہے گا۔ “ (قریش کو سخینہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ حاجیوں کی ضیافت گرم کھانے سے کرتے تھے) ۔ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی ظلم وستم کی کمی نہیں کرتے، مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے، بخلاف تھوڑے لوگوں کے، جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے غالب رہنے پر اور اس کی تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ نہ خوشی میں پھولتے ہیں نہ مصیبت میں حد سے زیادہ غم میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ کسی صورت اللہ کے حکم سے سر پھیرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Described in the previous verses was an early account of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) as to how the people from the caravan took him out of the well, and how his brothers made him out to be their escaped slave and traded him for a few dirhams. First of all, they did not know the value and station of their great brother. Secondly, their real purpose was not to make money by selling him - they wanted to remove him away from his father. Therefore, they did not stop at simply selling him because they felt the danger that the caravan may somehow leave him behind as a result of which he may somehow reach their father and tell him all about their conspiracy. So, according to a report from Tafsir authority, Mujahid, these people waited for the caravan to leave with him for Egypt. When the caravan actually departed, they went with the caravan upto a certain distance warning them on the way that he is in the habit of running away, therefore, they should not leave him free to move around, better still, they should tie him up. Thus, the caravan, unaware of the precious ` merchandise& they were carrying with them, took him in that condition as far as Egypt. (Tafsir Ibn Kathir) The part of the story as taken up onwards in the present verses shows the eloquent brevity of the Qur&an when sections of the story which can be understood independently have not been necessarily de-scribed. For instance, the trip of the caravan through various stages en-route Egypt and the actual selling of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) there. All this has been skipped. Stated from here is: وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَ‌اهُ مِن مِّصْرَ‌ لِامْرَ‌أَتِهِ أَكْرِ‌مِي مَثْوَاهُ And the one who bought him from Egypt said to his wife, &Make his stay graceful ...&. According to Tafsir al-Qurtubi, when the caravan reached Egypt and offered him for sale, people vied with each other with increasing bids which rose to gold, to musk and to silk equal to his weight. But, Allah Tahad destined this human treasure to go to the most powerful authority of the time in Egypt, the Aziz of Misr. He beat all the bids and bought Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . As we already know from the statement of the Holy Qur’ an, all these things happening were nothing accidental. Instead, they were parts of the formidable plan put into action by the most exalted Lord Himself. That Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) will be bought in Egypt by the highest of the high in that country was certainly a call of destiny. According to Ibn Ka¬thir, this man who bought Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in Egypt was what we may call the Finance Minister of Egypt. His name has been cited as Qitfir, or ` Itfir. The King of Egypt at that time was Ruiyyan ibn Usayd, an Amalkite (who, later on, embraced Islam at the hands of Sayyidna Yusuf علیہ السلام) and died as a Muslim during the lifetime of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) (Mazhari). The name of the wife of the Aziz of Egypt who had bought him has been given as Ra&eel, or Zulaikha. So, the Aziz of Misr, called Qitfir (Potiphar), instructed his wife to provide good lodging for Yusuf, not to treat him like common slaves and see that good arrange¬ments are made for him. Sayyidna Abdullah ibn Masud (رض) said: ` Three men turned out to be the best physiognomists of the world: (1) The Aziz of Misr who discov¬ered the inner excellence of Yusuf (علیہ السلام) from his outer appearance and gave those instructions to his wife; (2) the daughter of Sayyidna Shu&ayb (علیہ السلام) who told her father about Sayyidna Musa يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْ‌هُ ۖ إِنَّ خَيْرَ‌ مَنِ اسْتَأْجَرْ‌تَ الْقَوِيُّ الْأَمِي (0 my father, retain him on wages. Surely, the best one for you to employ is the one who is strong and trustworthy - 28:26); (3) The third person is Sayyidna Abu Bakr (رض) عنہ who chose Sayyidna ` Umar to be the Khalifah after the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . (Ibn Kathir) The next sentence of the verse is: وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْ‌ضِ (And thus We established Yusuf in the land ...). Given here is the good news of what would happen in the future, that is, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) who has entered the House of the Aziz of Misr at this time as a slave shall soon be the highest ranking man in the country of Egypt when the power of governance comes into his hands. In the statement which follows immediately after, that is: وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ (so that We should teach him the interpretation of events), if the letter واؤ (waw) appearing at the beginning of the sentence is taken as: عَطَف (` atf : conjunctive), a sentence will be considered as understood which will mean that ` We established Yusuf (علیہ السلام) in the land so that he brings forth peace in the world through equity and justice, works towards the economic and social betterment of the people of the country, and so that We teach him to put things right where they belong. The general sense of the later is something which is inclusive of the comprehension of Di-vine revelation, its implementation in practice, and the acquisition of all supportive areas of knowledge, and the correct interpretation of dreams as well. Verse 21 ends with the statement: وَاللَّـهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِ‌هِ (And Allah is power¬ful in (enforcing) His command ... ). In other words, it means that Allah Ta` ala is powerful and fully in control over what He wills and when He does so will, all outward chains of causes in this world start falling in line with His will - as said the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in a Hadith: ` When Allah Ta` ala intends to do something, He makes all worldly causes ready to act accordingly.& But, says the last part of the sentence: وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ that is, most of the people do not understand this reality. They have their eyes on obvious causes. These they take to be everything and keep going after them all the time. That there is the Causer of all Causes and the Holder of Absolute Power over everything is a thought they would seldom pay heed to.

خلاصہ تفسیر : (قافلہ والے یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں سے خرید کر مصر لے گئے وہاں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کردیا) اور جس شخص نے مصر میں ان کو خریدا تھا (یعنی عزیز) اس نے (ان کو اپنے گھر لا کر اپنی بیوی کے سپرد کیا اور) اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو خاطر سے رکھنا کیا عجب ہے کہ (بڑا ہو کر) ہمارے کام آوے، یا ہم اس کو بیٹا بنالیں (مشہور یہ ہے کہ یہ اس لئے کہا کہ ان کے اولاد نہ تھی) اور ہم نے (جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو اپنی خاص عنایت سے اس اندھیرے کنویں سے نجات دی) اسی طرح یوسف کو اس سر زمین (مصر) میں خوب قوت دی (مراد اس سے سلطنت ہے) اور (یہ نجات دینا اس غرض سے بھی تھا) تاکہ ہم ان کو خوابوں کی تعبیر دینا بتلا دیں (مطلب یہ تھا کہ نجات دینے کا مقصد ان کو ظاہری اور باطنی دولت سے مالامال کرنا تھا) اللہ تعالیٰ اپنے (چاہے ہوئے) کام پر غالب (اور قادر) ہے (جو چاہے کر دے) لیکن اکثر آدمی جانتے نہیں (کیونکہ اہل ایمان و یقین کم ہی ہوتے ہیں یہ مضمون قصہ کے درمیان بطور جملہ معترضہ کے اس لئے لایا گیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی موجودہ حالت یعنی غلام بن کر رہنا بظاہر کوئی اچھی حالت نہ تھی مگر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حالت چند روزہ بطور ذریعہ کے ہے اصل مقصد ان کو اونچا مقام عطا فرمانا ہے اور اس کا ذریعہ عزیز مصر کو اور اس کے گھر میں پرورش پانے کو بنایا گیا کیونکہ امراء کے گھر میں پرورش پانے سے سلیقہ و تجربہ بڑھتا ہے، امور سلطنت کا علم ہوتا ہے اسی کا بقیہ آگے یہ ہے) اور جب وہ اپنی جوانی (یعنی سن بلوغ یا کمال شباب) کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا (مراد اس سے علوم نبوت کا عطا کرنا ہے اور کنویں میں ڈالنے کے وقت جو ان کی طرف وحی بھیجنے کا ذکر پہلے آچکا ہے وہ وحی نبوت نہیں تھی بلکہ ایسی وحی تھی جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو وحی بھیجی گئی تھی) اور ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں (جو قصہ یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگانے کا آگے بیان ہوگا اس سے پہلے ان جملوں میں بتلا دیا گیا ہے کہ وہ سراسر تہمت اور جھوٹ ہوگا کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم و حکمت عطا ہو اس سے ایسے کام صادر ہو ہی نہیں سکتے آگے اس تہمت کے قصہ کا بیان ہے کہ یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کے گھر میں آرام و راحت کے ساتھ رہنے لگے) اور (اسی درمیان میں یہ ابتلاء پیش آیا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ (ان پر مفتون ہوگئی اور) ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے ان کو پھسلانے لگی اور (گھر کے) سارے دروازے بند کر دئیے اور (ان سے) کہنے لگی آجاؤ تم ہی سے کہتی ہوں یوسف (علیہ السلام) نے کہا (کہ اول تو یہ خود بڑا بھاری گناہ ہے) اللہ بچائے (دوسرے) وہ (یعنی تیرا شوہر) میرا مُربی (اور محسن) ہے کہ مجھ کو کیسی اچھی طرح رکھا (تو کیا میں اس کے ناموس میں خلل اندازی کروں) ایسے حق فراموشوں کو فلاح نہیں ہوا کرتی ( بلکہ اکثر تو دنیا ہی میں ذلیل اور پریشان ہوتے ہیں ورنہ آخرت میں تو عذاب یقینی ہے) معارف و مسائل : پچھلی آیتوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ابتدائی سرگذشت بیان ہوچکی ہے کہ قافلہ والوں نے جب ان کو کنویں سے نکال لیا تو برادران یوسف نے ان کو اپنا غلام گریختہ بنا کر تھوڑے سے درہموں میں ان کا سودا کرلیا اول تو اس لئے کہ ان کو بزرگ ہستی کی قدر معلوم نہ تھی دوسرے اس لئے کہ ان کا اصل مقصد ان سے پیسہ کمانا نہیں بلکہ باپ سے دور کردینا تھا اس لئے صرف فروخت کردینے پر بس نہیں کہ کیونکہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں قافلہ والے ان کو یہیں نہ چھوڑ جائیں اور یہ پھر کسی طرح والد کے پاس پہنچ کر ہماری سازش کا راز فاش کردے اس لئے امام تفسیر مجاھدرحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق یہ لوگ اس انتظار میں رہے کہ یہ قافلہ ان کو لے کر مصر کے لئے روانہ ہوجائے اور جب قافلہ روانہ ہوا تو کچھ دور تک قافلہ کے ساتھ چلے اور ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو اس کو بھاگ جانے کی عادت ہے کھلانہ چھوڑو بلکہ باندھ کر رکھو، اس در شہوار کی قدرو قیمت سے ناواقف قافلہ والے ان کو اسی طرح مصر تک لے گئے (تفسیر ابن کثیر ) آیات مذکورہ میں اس کے بعد کا قصہ اس طرح مذکور ہے اور قرآنی اعجاز کے ساتھ قصہ کے جتنے اجزاء خود بخود سمجھ میں آسکتے ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی مثلاً قافلہ کا مختلف منزلوں سے گذر کر مصر تک پہنچنا اور وہاں جا کر یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کرنا وغیرہ سب کو چھوڑ کر یہاں سے بیان ہوتا ہے، (آیت) وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ یعنی کہا اس شخص نے جس نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں خریدا اپنی بیوی سے کہ یوسف (علیہ السلام) کے ٹھرانے کا اچھا انتظام کرو۔ مطلب یہ ہے کہ قافلہ والوں نے ان کو مصر لے جا کر فروخت کرنے کا اعلان کیا تو تفسیر قرطبی میں ہے کہ لوگوں نے بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانا شروع کیں یہاں تک کہ یوسف (علیہ السلام) کے وزن کے برابر مشک اور اسی وزن کے ریشمی کپڑے قیمت لگ گئی یہ دولت اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کے لئے مقدر کی تھی اس نے یہ سب چیزیں قیمت میں ادا کر کے یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا، جیسا کہ پہلے ارشاد قرآنی سے معلوم ہوچکا ہے کہ یہ سب کچھ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ رب العزت کی بنائی ہوئی مستحکم تدبیر کے اجزاء ہیں مصر میں یوسف (علیہ السلام) کی خریداری کے لئے اس ملک کے سب سے بڑے عزت والے شخص کو مقدر فرمایا ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ شخص جس نے مصر میں یوسف (علیہ السلام) کو خریدا وہ ملک مصر کا وزیر خزانہ تھا جس کا نام قطفیر یا اطفیریر بتلایا جاتا ہے اور بادشاہ مصر اس زمانہ میں قوم عمالقہ کا ایک شخص ریان بن اسید تھا، (جو بعد میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ پر اسلام لایا اور مسلمان ہو کر یوسف (علیہ السلام) کی زندگی میں انتقال کر گیا (مظہری) اور عزیز مصر جس نے خریدا تھا اس کی بیوی کا نام راعیل یا زلیخا بتلایا گیا ہے عزیز مصر قطفیر نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق اپنی بیوی کو یہ ہدایت کی کہ ان کو اچھا ٹھکانا دے عام غلاموں کی طرح نہ رکھے ان کی ضروریات کا اچھا انتظام کرے، حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دنیا میں تین آدمی بڑے عقلمند اور قیافہ شناس ثابت ہوئے اول عزیز مصر جس نے ان کے کمالات کو اپنے قیافہ سے معلوم کر کے بیوی کو یہ ہدایت دی دوسرے شعیب (علیہ السلام) کی وہ صاحبزادی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے والد سے کہا (آیت) يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ یعنی اباجان ان کو ملازم رکھ لیجئے اس لئے کہ بہترین ملازم وہ شخص ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی تیسرے حضرت صدیق اکبر (رض) ہیں جنہوں نے اپنے بعد فاروق اعظم (رض) کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا (ابن کثیر) (آیت) وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡیعنی اس طرح حکومت دے دیہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین کی اس میں آئندہ آنے والے واقعہ کی بشارت یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جو عزیز مصر کے گھر میں اس وقت بحیثیت غلام داخل ہوئے ہیں عنقریب یہ ملک مصر کے سب سے بڑے آدمی ہوں گے اور حکومت کا اقتدار ان کو ملے گا، وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ یہاں شروع میں حرف واؤ کو اگر عطف کیلئے مانا جائے تو ایک جملہ اس معنی کا محذوف مانا جائے گا کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین کی حکومت اس لئے دی کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کے ذریعہ امن وامان قائم کریں اور باشندگان ملک کی راحت کا انتظام کریں اور اس لے کہ ہم ان کو باتوں کا ٹھکانے لگانا سکھا دیں باتوں کا ٹھکانے لگانا ایک ایسا عام مفہوم ہے جس میں وحی الہی کا سمجھنا اور اس کو برروئے کار لانا بھی داخل ہے اور تمام ضروری علوم کا حاصل ہونا بھی اور خوابوں کی تعبیر صحیح بھی وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِه ٖ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور قادر ہے اپنے کام پر جو اس کا ارادہ ہوتا ہے تمام عالم کے اسباب ظاہرہ اس کے مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں جیسا ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا کے سارے اسباب اسکے لئے تیار کردیتے ہیں وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اسباب ظاہرہ ہی کو کچھ سمجھ کر انہی کی فکر میں لگے رہتے ہیں مسبب الاسباب اور قادر مطلق کی طرف دھیان نہیں دیتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىہُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا۝ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۡوَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۝ ٠ۭ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٢١ مصر المِصْرُ اسم لكلّ بلد ممصور، أي : محدود، يقال : مَصَرْتُ مَصْراً. أي : بنیته، والمِصْرُ : الحدُّ ، ( م ص ر ) المصر ہر محدود شہر کو ( جس کے گرد فصیل ہو ) مصر کہتے ہیں ۔ اور مصرت مصرا دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معیم یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم معیو یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ومَكِنَات الطّيرِ ومَكُنَاتها : مقارّه، والمَكْن : بيض الضّبّ ، وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] . قال الخلیل المکان مفعل من الکون، ولکثرته في الکلام أجري مجری فعال «فقیل : تمكّن وتمسکن، نحو : تمنزل . ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔ أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ [ القصص/ 57] کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 6] اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ [ النور/ 55] اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ۔ مستحکم وپائیدار کرے گا ۔ فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں ۔ اور امکنت فلانا من فلان کے معنی کسی کو دوسرے پر قدرت دینے کے ہیں مکان و مکانہ جگہ اور حالت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ اعْمَلُوا عَلى مَكانَتِكُمْ [هود/ 93] اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ ۔ ایک قراءت میں مکانا تکم بصیغہ جمع ہے اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے : ۔ پرندوں کے گھونسلے ۔ المکن سو سماروں وغیرہ کے انڈے ۔ آیت کریمہ : ۔ وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] محفوظ انڈے ۔ خلیل کا قول ہے کہ لفظ مکان ( صیغہ ظرف ) مفعل کے وزن پر ہے اور یہ کون سے مشتق ہے پھر کثیر الاستعمال ہونے کی وجہ سے اسے فعال کا حکم دے کر اس سے تمکن وغیرہ مشتقات استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسے منزل سے تمنزل وغیرہ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

عزیز مصر کی فراست قول باری ہے وقال الذی اشتراہ من مصر لا مراتہ اکرمی مثواہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا ۔ مصر میں جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اس کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں ۔ حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ فراست کے لحاظ سے تین بہترین انسان گزرے ہیں ۔ اول عزیز مصر جب اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے یعنی یوسف کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا اسے ہم بیٹا بنالیں۔ دوم حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی جب کہ حضرت موسیٰ کے بارے میں انہوں نے اپنے والد محترم کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں غلام رکھ لیا جائے۔ سوم حضرت ابوبکر (رض) جبکہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کو خلافت کے لیے نامزد کیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) مصر میں پہنچ کر مالک بن دعر سے یوسف (علیہ السلام) کو عزیز نے جو کہ بادشاہ کا خازن اور اس کے لشکروں کا افسر تھا خرید لیا اور عزیز کا نام قطفیر تھا اور زلیخا سے کہا کہ ان کو قدرت و منزلت کے ساتھ رکھنا، ممکن ہے کہ یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو اپنا لڑکا بنا لیں، اور عزیز نے مالک بن دعر سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بیس درہم اور ایک کپڑوں کے اور ایک جوتوں کے جوڑے کے عوض خریدا تھا، اور اسی طریقہ سے ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں بادشاہت عطا کی۔ اور تاکہ ہم انھیں خوابوں کی تعبیر دینا بتائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کیے ہوئے پر خوب غالب و قادر ہے اور کسی کو اس کے ارادہ پر غلبہ وقدرت نہیں لیکن مصر والے اس چیز کو جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں یا یہ کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ پر غالب ہے

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا) وہ شخص مصر کی حکومت میں بہت اعلیٰ منصب (عزیز مصر) پر فائز تھا۔ حضرت یوسف کو بیٹا بنانے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ (وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ) اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے یوسف کو اس دور کی متمدن ترین مملکت میں پہنچا دیا اور وہاں آپ کی رہائش کا بندوبست بھی کیا تو کسی جھونپڑی میں نہیں بلکہ ملک کے ایک بہت بڑے صاحب حیثیت شخص کے گھر میں اور وہ بھی محض ایک غلام کے طور پر نہیں بلکہ خصوصی عزت و اکرام کے انداز میں۔ (وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ) یعنی عزیز مصر کے گھر میں آپ کو جگہ بنا کردینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہاں آپ کو ” معاملہ فہمی “ کی تربیت فراہم کی جائے۔ عزیز مصر کا گھر ایک طرح کا سیکریٹریٹ ہوگا جہاں آئے دن انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے ہوں گے اور قومی و بین الاقوامی نوعیت کے انتہائی اہم امور پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلے کیے جاتے ہوں گے اور حضرت یوسف کو ان تمام سرگرمیوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر آتے ہوں گے۔ اس طرح بہت اعلیٰ سطح کی تعلیم و تربیت کا ایک انتظام تھا جو حضرت یوسف کے لیے یہاں پر کردیا گیا۔ (وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کی تنفیذ پر غالب ہے وہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. According to the Bible his name was Potiphar. But the Quran mentions him merely by the title (Al-Aziz). As the Quran uses the same title for Prophet Joseph, when he rose to a high rank, it appears that the person held a high office or rank in Egypt, for the word Aziz stands for a powerful person who cannot be opposed and disobeyed. The Bible and the Talmud say that he was an officer of Pharaoh’s body guards and captain of the guard. And according to a tradition from Ibn Abbas, related by Ibn Jarir, he was the officer of the royal treasury. 17. According to the Talmud the name of his wife was Zuleikha and she is known by the same name in the Muslim traditions. As regards to the other tradition among the Muslims that Prophet Joseph married her afterwards, it is neither based on the Quran nor on the history of the Israelites. And the fact is that it is below the dignity of a Prophet to have married such a woman about whom he had personal knowledge that she was of a bad character. And this opinion is confirmed by this general statement of the Quran: Women of bad character are for men of bad character and men of bad character are for women of bad character. And the women of pure character are for men of pure character, and the men of pure character for the women of pure character. (Surah An-Noor, Ayat 26). 18. The fact that Potiphar had a very high opinion of Prophet Joseph from the very beginning is also confirmed by the Talmud and the Bible. The Talmud says that at this time Joseph was about eighteen years of age (and) Potiphar was very favorably impressed with his bearing and appearance. So he came to the conclusion that he belonged to some noble family and had been made a slave by the force of adverse circumstances. When the Midianites carried him before Potiphar, he said: He does not look like a slave and I fear he has been stolen from his country and his home. That is why Potiphar did not treat him like a slave, but put him in charge of his house and all his possessions. Likewise the Bible says: And he left all that he had in Joseph’s hand; and he knew not ought he had, save the bread which he did eat. (Gen. 39: 6). 19. This verse alludes to the special training Prophet Joseph needed at that time for the performance of the duties of the high rank to which he was destined to rise. Up to that time, he had been brought up in the desert, under the environment of a semi nomadic life of a shepherd. There was neither any settled state in Canaan and Northern Arabia nor had there been any appreciable progress in culture and civilization, for it was inhabited by different independent clans with no settled government. Thus it is obvious that the training that Prophet Joseph had received in Canaan, had equipped him with the good characteristics of nomadic life coupled with the qualities of God worship and high morality of the family of Prophet Abraham. But this was not enough to enable him to direct the affairs of Egypt, which was at that time one of the most cultured and civilized countries of the known world and required a different experience and training for the conduct of its affairs. The All Powerful Allah made arrangements for this training and sent him to the house of an officer of a very high rank in Egypt, who entrusted him with full powers over his house and estate. This enabled him to develop all those latent abilities that were needed to fulfill his destiny, and he gained the experience that was required for the efficient conduct of the affairs of the kingdom of Egypt in the years to come.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :16 بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے ۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“ کے لقب سے یاد کرتا ہے ، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحب منصب تھا ، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو ۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلوداروں ( باڈی گارڈ ) کا افسر تھا ، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :17 تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا ( Zeliha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہوا ۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح ہوا ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو ۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ ۔ بری عورتیں برے مَردوں کے لیے ہیں اور برے مرد بری عورتوں کے لیے ۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :18 تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے ۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا ، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شاید تم اسے کہیں سے چرا لائے ہو ۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل املاک کا مختار بنا دیا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ” اس نے اپنا سب کچھ یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹ - ٦ ) سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :19 حضرت یوسف علیہ السلام کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی ۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتا فوقتا ہجرت کرتے رہتے تھے ، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں ۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے ۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادہ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے ، مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک ، یعنی مصر میں ان سے جو کام لینا چاہتا تھا ، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی ، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا ۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنا دیا ۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا ۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: قرآن کریم کا خاص اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کو بیان کرتے ہوئے غیر ضروری تفصیلات کا ذکر نہیں کرتا بلکہ واقعے کے اہم حصوں کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے جن لوگوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فلسطین کے جنگل سے خریدا تھا، چاہے وہ خود قافلے والے ہوں۔ جیسا کہ اوپر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یا وہ ہوں جنہوں نے قافلے والوں سے خریدا بہر صورت وہ انہیں مصر لے گئے اور وہاں جا کر انہیں بھاری قیمت پر فروخت کیا۔ وہاں جس شخص نے خریدا، وہ مصر کا وزیر خزانہ تھا جسے اس وقت عزیز مصر کہتے تھے اس نے اپنی بیوی کو تاکید کی کہ ان کا خاص خیال رکھیں۔ بیوی کا نام روایات میں زلیخا بتایا گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٢۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے الطاف اور مہربانیوں کا حال یوسف (علیہ السلام) پر بیان کیا کہ جب وہ قافلہ جس میں یوسف (علیہ السلام) تھے مصر میں پہنچا تو مالک بن زعر نے یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا۔ عزیز لقب تھا وہاں کے وزیر کا جس کے ہاتھ میں سلطنت کے کل امور ملکی اور مالی اور فوجی کے اختیارات تھے مصر کے بادشاہ کا نام ولید بن ریان تھا اور عزیز مصر کا نام قطفیر تھا۔ عزیز مصر نے یوسف (علیہ السلام) کے ہم وزن سونا اور چاندی اور مشک اور ریشمی کپڑے دے کر یوسف (علیہ السلام) کو خرید کیا تھا جس کا وزن چار سو رطل تھا ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے اور مثقال ساڑھے چار ماشے کا اس حساب سے کل چیزوں کا وزن چار من آٹھ سیر چھ ماشہ ہوتا ہے۔ عزیز مصر نے یوسف (علیہ السلام) کو گھر میں لا کر اپنی بیوی کے سپرد کیا جس کا مشہور نام زلیخا تھا۔ ١ ؎ اور بیوی سے کہا کہ دیکھو اس لڑکے کو نہایت آرام اور راحت سے رکھو اور اس کے رہنے سہنے کے واسطے جگہ درست کر دو اس لڑکے سے بہت بڑا فائدہ ہوگا اگر ہم اس کو فروخت بھی کردیں گے تو نفع کثرت ہاتھ آئے گا۔ یا ہم اس کو بیٹا بنائیں گے تاکہ میرے حیات میں اور میرے بعد امور مملکت میں میرا قائم مقام ہو۔ عزیز مصر لاولد تھا اس لئے اس نے یوسف (علیہ السلام) کو بیٹا بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ پھر اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو فقط یہی منزلت نہیں دی کہ وہ عزیز مصر کے گھر میں رہنے سہنے لگے اور اس نے ان کو اپنا بیٹا بنانے کا ارادہ ظاہر کیا بلکہ تمام زمین مصر پر بعد کو پورا پورا اختیار ان کو دے دیا اور خواب کی تعبیر کا علم مرحمت کردیا۔ پھر یہ فرمایا کہ یوسف کے بھائیوں نے یہ چاہا تھا کہ یوسف اعلیٰ مرتبہ اور بلند درجے کو نہ پہنچے مگر اللہ جل شانہ اپنے ارادہ پر غالب ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اس کے سامنے سب عاجز ہیں اس کے علم میں جو کچھ پہلے ٹھہر چکا ہے وہ اس کو پورا کر ہی کے رہتا ہے اکثر آدمی اس بات کو نہیں جانتے اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تقدیر الٰہی رک جائے اور جو منشاء خداوند جل جلالہ کا ہے وہ نہ ہونے پائے۔ بہر حال اسی وجہ سے کہ اللہ پاک کا ارادہ پورا ہو کر رہتا ہے اور کوئی امر اس کو روک نہیں سکتا۔ زلیخا جو ایک عورت تھی اور عورتوں کی صحبت میں یوسف (علیہ السلام) کو رہ کر انہیں کے سے نشست برخاست طور طریقے اختیار کرلینے تھے مگر اللہ کے ارادہ کے موافق یوسف (علیہ السلام) اسی عقل و دانش کے خلعت سے سرفراز رہے جو ایک شخص رات دن صالحین کی صحبت میں رہ کر حاصل کرسکتا ہے۔ پھر اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ جب یوسف (علیہ السلام) جوان ہوگئے تو اللہ نے انہیں احکام شرعیہ بتا دئیے اس جگہ مفسروں کا اختلاف ہے کہ اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی کیا عمر تھی۔ بعضوں نے کہا ہے کہ اٹھارہ برس کے تھے اور کسی نے یہ بیان کیا ہے کہ پچیس برس کے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ تیس سال کے تھے کوئی یہ بھی کہتا ہے تینتیس برس کے تھے۔ بہر حال آیت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب آپ اچھی طرح بالغ ہوگئے اور آپ کے ہاتھ پیروں میں پوری قوت آگئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت عطا کی پھر اللہ پاک نے اس بات کا بیان فرمایا کہ اللہ کا یہ انعام فقط یوسف (علیہ السلام) ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ جو لوگ نیک بخت اور دیندار ہیں انہیں بھی اسی طرح کا بدلہ ملتا ہے۔ عزیز مصر نے جس رواج کے موافق یوسف (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا بنانے کو کہا تھا یہ رواج عرب میں بھی تھا اور سورت احزاب کی آیتوں سے جب تک رواج منسوخ نہیں ہوا اس وقت تک یہ رواج اسلام میں بھی جاری رہا۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ کو اپنا متبنیٰ بیٹا بنایا تھا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ صحابہ زید بن حارثہ (رض) کو زید بن محمد (رض) کہہ کر پکار نے لگے۔ ٢ ؎ مطلب اس حکم کا یہ ہے کہ بےپالک بچوں کو ان کے اصلی باپ کی ولدیت سے پکارا کرو مثلاً زید بن حارثہ (رض) کہا کرو زید بن محمد (رض) نہ کہا کرو یہی اللہ کے نزدیک انصاف کا حکم ہے جو اللہ نے تم کو دیا اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کسی رواج کی پابند نہیں۔ اسی لئے سوا شریعت محمدی کے اور شریعتوں سے بھی رواج منسوخ ہوتا رہا ہے۔ مثلاً جس طرح شریعت محمدی نے بےپاک کے رواج کو منسوخ کردیا اسی طرح دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کے رواج کو شریعت موسوی نے منسوخ ٹھہرادیا جس کی تفصیل تورات کے حصہ تکوین باب ٢٩ اور حصہ احباب باب ١٨ میں ہے حاصل کلام یہ ہے دو بہنوں کے نکاح میں رکھنے کے رواج کو جو تورات نے منسوخ کردیا اور اس کو عیسائیوں نے اپنا مذہب قرار دے لیا تو پھر لے پالک کے رواج کو اگر قرآن نے منسوخ کردیا تو یہ کیا نئی بات ہے آخر اس کو بیان تو کیا جاوے اور اس کے بیان تک ماننا پڑے گا کہ جب قرآن نے لے پالک کے رواج کو منسوخ کردیا تو نہ قرآن کو رواج کے تابع کیا جاسکتا ہے نہ منسوخ رواج کے بھروسہ پر زینب کے نکاح کی بابت کوئی اعتراض گھڑا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل زینب کے نکاح کی سورت احزاب میں آوے گی۔ ١ ؎ کسی مستند طریقے سے یہ تام ثابت نہیں ہوسکا واللہ اعلم۔ (ع۔ ١ ض) ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٥۔ ٧ ج ٢ باب قولہ ادعوہم لا بائہم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:21) اکرمی۔ اکرام (افعال) سے امر واحد مؤنث حاضر۔ تو باعزت کر۔ مثوہ۔ مثوی مضاف۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ مضاف الیہ ۔ اس کی قیام گاہ ۔ اس کا ٹھکانہ ۔ اس کی مہمانی۔ مثوی ظرف مکان مثاوی جمع۔ ٹھکانہ۔ دراز مدت تک ٹھہرنے کا مقام۔ ثوی یثوی (ضرب) ثواء وہ اقامت پذیر ہوا ۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے والنار مثوی لہم (47:12) اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اکرمی مثوہ۔ اس کے قیام کو باعزت و اکرام بنانا۔ یعنی اسے دوران قیام عزت و توقیر سے رکھنا۔ کذلک۔ کاف حرف تشبیہ۔ ذلک اسم اشارہ۔ اس طرح یعنی جس طرح ہم نے اس کو بھائیوں کے ہاتھوں قتل سے بچا کر۔ کنویں کی گہرائیوں سے نجات دلا کر اس پر احسان کیا۔ اسی طرح ہم نے اس پر اپنی کرم نوازی سے عزیز مصر کے ہاں عزت و اکرام کا ٹھکانہ دلا کر ملک مصر میں اس کے قدم جما دئیے۔ (12:21) فی الارض۔ ای فی ارض مصر۔ مصر کی سرزمین۔ مکنا۔ ماضی جمع متکلم مکن یمکن تمکین (تفعیل) ہم نے اس کو ٹھکانہ عطا کیا ہم نے اس کو جماؤ بخشا۔ تمکین دی۔ ہم نے اس کے پاؤں جما دیئے۔ ولنعلمہ لام تعلیل کے لئے۔ یعنی ہم نے یوسف کے قدم ارض مصر میں جما دئیے اور اس کو جاہ و تمکنت عطا کی کہ (اب) اسے تاویل احادیث کا علم بھی عطا کریں۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ : پھر ہم نے مصر میں لاکر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم نے اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرما ویں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز “ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا وزیراعظم تھا۔ بائیبل میں ہے کہ وہ بادشاہ کے باڈی گارڈوں کا افسر اور جیل خانوں کا منتظم تھا۔ اس کی بیوی کے نام ” زلیخا “ کا بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا البتہ بعض مفسرین نے یہ نام لکھا ہے اور وہ بھی غالباً اسرائیلی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے۔ کیونکہ یہود کے تلمود میں اس کا اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین (رح) نے اس کا نام ” راعیل “ بھی لکھا ہے۔ کما ھو مروی عن مجاھد۔ 9 ۔ یعنی جیسے اسے پہلے بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح…(شوکانی) ۔ 10 ۔ مصر میں عزیز مصر (بادشاہ کے وزیر) نے اسے خرید لیا۔ اس طرح مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قدم مضبوط ہوگئے اور ان کو امتیاز و مرتبہ حاصل ہوگیا پھر ان کی وجہ سے بنی اسرائیل وہاں آباد ہوگئے اور یہ بھی منظور تھا کہ سرداروں کی صحبت دیکھیں تارمزو اشارہ سمجھنے کا سلیقہ کمال پکڑیں اور علم خدائی پورا پاویں۔ (از موضح) ۔ 11 ۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ” اور اللہ جیت رہتا ہے “۔ یعنی بھائیوں نے چاہا کہ ان کو گرادیں اسی میں یہ چڑھ گئے۔ (موضح) ۔ 12 ۔ کہ ہر قسم کا ختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس واقعہ میں تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مصر میں یوسف ( علیہ السلام) کو غلبہ حاصل ہو مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں سے آگاہ نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢١ تا ٢٩ اسرار و معارف چنانچہ قافلہ والے اس خزانے کوے کرمصرپہنچے اور فروخت کا بہت اہتمام کیا حتی کہ شاہی محل تک شہرہ پہنچا کہ ایک غلام بکنے کو ہے جس کے حسن کی چمک سورج کو ماند کرتی ہے ۔ قافلوں کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ جس شہر میں پہنچتے قیام کرتے اور مال کی خوب شہرت کرکے ایک خاص روز فروخت کے لئے مقرر کردیتے کہ لوگ زیادہ جمع ہوں اور اچھی قیمت لگے ۔ چناچہ خوب خوب بولیاں لگیں ۔ آخرعزیز مصر نے جس کا نام قطفیر تھا خرید لیا اور آپ کے وزن کے برابر سونا مشک اور اتنا ہی ریشمی کپڑاقیمت میں ادا کردیا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ وزیر تھا اور حکمران عمالقہ میں سے تھا جس کا نام ریان بن اسید تھا۔ لیکن اگر یہ دزیر بھی تھا تو حکومت کا نظام یہی چلاتا تھا اور بادشاہ نے بھی بالآخریوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ پر بعیت کی اسلام قبول کیا اور آپ کی حیات میں انتقال کرگیا ۔ بہرحال اسے تو واقعی خوش ہونا چاہیئے تھا ۔ گھر لایا اور بیوی سے بڑے اہتمام سے رکھنے کو کہا کہ اسے عام غلاموں کی طرح نہ رکھے بلکہ اس انداز سے اس کی تربیت کرے کہ ہمارے آئندہ کے منصوبے اس کے ہاتھوں مکمل ہوں اور اس کے چہرے کے نور سے بہتری کے آثار ہویدا ہیں تو ہم آگے چل کر اسی کو اپنا متبنٰی بنالیں اور ہمارا وارث ہو کہ ان کے اولاد نہ تھی اسی خاتون کا نام زلیخا تھا اور مصر کے حسینوں کی ملکہ تھی اس نے بڑے پیار سے پرورش کی۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا ارشاد ہے کہ قیافہ شناسی میں تین آدمیوں نے کمال دکھایا۔ اول عزیز مصر جس نے یوسف (علیہ السلام) کے کمالات کا اندازہ کرلیا تھا دوم شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے رائے قائم کی تھی اور تیسرے ابوبکرصدیق رضی عنہ جنہوں نے بارخلافت کے لئے فاروق اعظم (رض) کو منتخب فرمایا۔ نیک لوگ اور خصوصاصا جب حال امور سلطنت دوسروں سے بہت بہترچلاسکتے ہیں اللہ کریم فرماتے ہیں ہم نے تو یوسف کو حکومت بخش دی اور روئے زمین پر سلطان بنادیا تاکہ انھیں نورنبوت کے ساتھ علم تعبیر رویا اور علم نظام سلطنت بھی عطاکریں کہ وہ زمین کو انصاف سے بھردیں اور اللہ کی مخلوق پر اللہ کا قانون نافذکریں ۔ تادیل احادیث سے مراد وحی بھی ہے علم تعبیر بھی ہے اور امور سلطنت بھی کہ ہر کام کو درست انداز میں اور پورے انصاف سے کیا جائے تو ثابت ہوا کہ نیک لوگوں کو یہ مشورہ کہ امور سلطنت آپ کے بس کی بات نہیں غلط ہے بلکہ صاحب حال لوگ دوسروں کی نسبت امور مملکت کو زیادہ بہترطریقے سے چلا سکتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اندھے حال لوگ دوسروں کی نسبت امور مملکت کو زیادہ بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اندھے نہیں ہوجاتے بلکہ الٰہی کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں ۔ اور بظاہر غلام بن کر بکنے والا یوسف اللہ کی قدرت سے سلطان بننے کے لئے محلات شاہی میں داخل ہورہا ہے اور اللہ کریم پہلے سے اطلاع دے رہے ہیں کہ اللہ اپنے کام پہ قادر ہے اور جو چاہے اور جب چاہے کہ سکتا ہے لیکن لوگ اندھے ہیں اسباب کے گورکھ دھندے میں الجھ کر مسبب الا سباب کی قدرت کاملہ کو فراموش کر بیٹھے ہیں لیکن یہاں عجیب بات یہ ہے کہ اس پیشگوئی اور اطلاع کے باوجود پھر کئی برس انھیں جیل میں رہنا پڑا پھر دربارشاہی میں پڑتال ہوکر بےگناہ ثابت ہوئے اور بادشاہ نے امور سلطنت میں انھیں داخل کیا اور بالآخر مسلمان ہو کر ان کا خادم بن گیا اور یوں مصر کی سلطنت ان تک پہنچی یہ سب باتیں درمیان میں ہیں میں کوئی اور رکاوٹ نہ آئے گی بلکہ ہر کام اپنے وقت پر انجام پاتا ہے ۔ علم لدنی اب مزید عطاکی باری آئی اور یوں ناز ونعم میں پل کر جب جوان ہوئے تو نبوت سے سرفراز فرمایا اور انھیں علوم سے نواز ایعنی دین ودنیا کے علوم عطافرمائے اور یہی علم لدنی ہے جو بغیر ظاہری استاد کے محض اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے کہ حصول علم کا معروف ذریعہ تعلیم وتعلیم ہے مگر انبیاء کسی انسان سے علم نہیں پاتے ۔ لہٰذاہر نبی کو اللہ کی طرف سے علم عطا ہوتا ہے اور بعض کا ملین کو باتباع نبی یہ دولت نصیب ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں میں یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ علماء ظواہر کی نسبت بہت زیادہ نکتہ رس ہوتے ہیں بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور دینی علم کے ساتھ امور دنیا اور رموذ سلطنت سے بھی بہت اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں نبوت کس عمر میں عطاہوئی ؟ اس پہ روایات مختلف ہیں کسی نے تیس بعض نے تینتیس اور بعض نے چالیس سال لکھے ہیں مگر قرآن حکیم نے صرف یہ فرمایا ہے کہ عنفوان شباب میں انھیں یہ نعمتیں نصیب ہوئیں اور جو بھی خلوص دل سے ہماری طلب رکھتے ہیں اور پورے خلوص سے اطاعت کرتے ہیں انھیں اسی طرح سے نوازا جاتا ہے کہ علوم ظاہری باطنی کے ساتھ عزت ووقار اور دولت سلطنت بھی نصیب ہوتی ہے ۔ احسان کا درجہ نصیب ہو تو علوم باطنی کے ساتھ اقتدارظاہری کا سبب بھی ہے نبوت تو وہبی ہے اور نبی ازل سے منتخب قرار پائے مگر ولایت اور علوم باطنی کے ساتھ حکومت واقتدار اللہ کے انعام کے طور پر نصیب ہوسکتا ہے اور بدکاروں کو جو اقتدار ملتا ہے وہ ان کے لئے بھی مصیبت بنتا ہے اور جن لوگوں پر وہ مسلط کئے جاتے ہیں انھیں بھی سزادینا ہی مقصود ہوتا ہے ۔ زلیخا پھسل گئی پہلے ہی یوسف تھے پھر اٹھتی جوانی اور اس پر نور نبوت کی چمک اس سب نے مل کر زلیخاکا قرار چھین لیا اور اسے نہ عمر کا خیال رہانہ اپنے مقام ومرتبے کا لحاظ بلکہ یوسف (علیہ السلام) کے پانے کی آرزو میں اندھی ہوگئی ورنہ تو حضرت اس کے زرخرید تھے پھر عمر کے اعتبار سے اس کے لئے بچوں جیسے تھے مگر یہ سب کسے یاد رہا تھا وہاں تو بس ایک آرزوتھی اور وہ یوسف کو پانے کی تھی چناچہ اس نے انھیں دعوت گناہ دے ڈالی اور بہت کوشش کی ۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ سے بہت پیار پیار کی باتیں کرتی ۔ آپ کے بالوں آنکھوں اور چہرے کے حسن کی تعریف کرتی اور اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی نیز در وازے بند کردیئے ۔ جو مفسرین کے مطابق سات تھے اور اندر کا کمرہ خوب سجایا اور بہترین بستر لگاکرکہا کہ آؤ ! میری آغوش میں آجاؤ کہ آج کا وقت تمہارا ہے ، میں نے تمہاری خاطر سب سنگھار اور اہتمام کیا ہے انھوں نے فرمایا اللہ کی پناہ ! کیسے ہوسکتا ہے تمہارا خاوند تو میرامحسن ہے اس نے تو مجھے بچپن سے لے کر اب تک میری پرورش کی ہے اور بہت ہی پیار اور عزت واحترام سے کی ہے تو کیا اس کا بدلہ میں یہ دوں کہ اس کی آبرو سے کھیلوں اور دوسرے یہ کہ اللہ نے مجھے نبوت عطافرمائی ہے اور حدو د شرعی کا علم بخشا ہے جس کی رو سے زناء بہت بڑاظلم ہے اور ظلم کا ارتکاب کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔ زلیخاکا ارادہ اور یوسف (علیہ السلام) کا پیغمبرانہ کردار اللہ کریم فرماتے ہیں کہ زلیخا نے تو یوسف کو پانے کا پکا ارادہ کرلیا اور یوسف بھی کرتے اگر اللہ کی برہان نہ دیکھ رہے ہوتے ۔ اور حضرت ابن عباس (رض) کے مطابق اللہ کی یہ برہان نبوت ہے جو نبی کو معصوم عن الخطابنا دیتی ہے اور لولا ان رابرھان ربہ کی جزا ہے۔ ھمابھا یعنی ان میں بھی طبعی طور پر میلان پیدا ہوسکتا تھا وہ بھی انسان تھے اور بطور انسان بھی اس مزاج کے کہ فطری میلان جو غیراختیاری ہے اس کا ہونا ممکن تھا۔ اگرچہ ایسا ہوتا تو بھی گناہ نہ ہوتا کہ فرشتے اور انسان میں یہی فرق ہے کہ فرشتے کو گناہ کی طرف رغبت ہی نہیں ہوسکتی مگر انسان کو فطری رغبت ہوتی ہے مگر ضبط کرتا ہے اور اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا مگر یہاں تو وہ بھی نہ ہوسکا کہ آپ اللہ کے نبی تھے اور یہ یاد رہے کہ اس واقعہ سے قبل نبوت عطافرمائے جانے کا تذکرہ موجود ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ فرماتے ہیں اس طرح ہم نے انھیں گناہ سے بھی اور ارادہ گناہ یا گناہ کی مبادیات کہ وہ ارادہ کرتے یا زلیخا سے زبانی ایسی بات کرتے جو حیاء کے خلاف ہوتی یا چھیڑچھاڑ کرتے ۔ فرمایا ہم نے نور نبوت اور عصمت نبوت عطاکرکے معمولی سے گناہ سے بھی ان کو بچالیا بلکہ گناہ اور بےحیائی کو ان سے دور کردیا یعنی وہ عصمت نبوت کی اس بلندی پہ فائز کردیئے گئے کہ گناہ کا خیال وہاں تک پہنچنے سے قاصر تھا اور تیسری بات یہ کہ وہ میرے مخلص بندوں میں سے تھے اور یہ تو شیطان نے بھی اقرار کیا تھا کہ میں لوگوں کو بہکالوں گا الا عبادک منھم المخلصین کہ تیرے مخلص بندوں کو میں بھی بہکانہ سکوں گا۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی بھول کا تذکرہ ہے تو توبہ کا ذکر بھی ہے ۔ یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے تو توبہ یا مغفرت کا ذکر بھی ہے اگر یہاں بھی ذرہ برابر خطا کا صدور ہوتا تو توبہ اور رجوع الی اللہ کا تذکرہ ہوتا ۔ ہر لغزش سے بچالینے اور عباد مخلصین میں سے ہونے کا ارشاد فرمایا جارہا ہے۔ پتہ نہیں کیوں علماء نے یہ بحث فرمائی ہے اور ھم کے مختلف درجے مقرر کرتے رہے ہیں ۔ میرے خیال کے مطابق اس سارے اہتمام کی یہاں ضرورت ہی پیش نہیں آتی اس لئے کہ رائے کی خطا اور شے ہے اور اخلاقیات یا کردار میں زناء جیسے گھناؤنے فعل کا خیال بھی نبی کی ذات کی طرف منسوب کرنا ممکن نہیں کہ انھوں نے پہلا جملہ ہی یہ ارشاد فرمایا معاذ اللہ یعنی اللہ کی پناہ گویا سن کر بھی تاب نہ لائے ۔ جب انھوں نے زلیخا کی حد سے بڑھتی ہوئی بےتابی دیکھی اور دیکھا کہ میری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہورہا تو دروازے کی طرف بھاگے جو سات تھے اور سات مقفل تھے مگر قدرت باری سے کھلتے چلے گئے ۔ توکل مفسرین نے برہان رب کے تحت لکھا ہے کہ انھیں یعقوب (علیہ السلام) نظر آئے ۔ بعض نے فرمایا کہ آیات لکھی ہوئی نظرآئیں یا اور اس طرح کی روایات سب ممکن ہیں اور ایسا ہوسکتا ہے مگر اصل بات عصمت نبوت تھی اور اللہ پر توکل کہ بھاگ تو گھڑے ہوتے اور یہی توکل ہے کہ نتائج سے بےپرواہ ہو کر اسباب سے قطع نظرجو کچھ بس میں ہوکرگزرے پھر جو اللہ کو منظور ہو وہ ظاہر ہوجائے گا اس کی فکر نہ کرے جیسے یوسف (علیہ السلام) نے مقفل دروازوں کی پرواہ نہ کی اور بھاگ کھڑے ہوئے ۔ قفل کھل کر گرتے گئے زلیخا بھی لپکی ۔ پیچھے سے کرتہ امگر آپ نے پرواہ نہ کی اور کرتہ پیچھے سے پھٹ گیا ۔ اور جیسے ہی باہر کے دروازے سے نکلے تو سامنے اس کا شوہر یعنی عزیز مصر کھڑا تھا اور دونوں اسی حال میں اس کے روبرو تھے ۔ زلیخا کا حال زلیخافورا بدل گئی اور کہنے لگی کہ ایسے آدمی کی سزاجیل کی سختی یا سخت ترین عذاب ہونا چاہیئے جو تیرے گھر میں اور تیری ہی بیوی پہ دست درازی کرے۔ تو یہاں یہ ثابت ہوا کہ زلیخاصرف اپنے نفس کی خواہش کی تکمیل میں دیوانی ہورہی تھی اسے یوسف (علیہ السلام) سے محبت نہ تھی برادران یوسف نے یوسف (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا پھر کنویں میں پھینکا بیچ کھایا مگر ایک سبب باپ کی محبت بھی تھی جسے حاصل کرنے کا طریقہ بہت بڑا گناہ تھا مگر نبی کی محبت نے انھیں توبہ کی توفیق بھی دی قتل سے بھی بچایا اور معافی بھی دلوادی کاش ! زلیخا کو بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے محبت ہوتی تو کبھی محروم نہ رہتی ۔ مگر یہاں تو محض خواہش کی تکمیل کی طلب تھی جب مشکل پڑی تو یوسف (علیہ السلام) پہ اچھال دی بھلا کوئی اپنے محبوب سے یہ سلوک کرتا ہے ؟ اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ زلیخا یوسف (علیہ السلام) کو نہ پاس کی اور نہ ان کی بیوی بنی بلکہ ان کی اہلیہ کا نام آسناتھ تھا کہ نبی کی بیوی کافر تو ہوسکتی ہے اخلاقی گناہ میں ملوث نہیں ہوسکتی۔ اپنی برأت ثابت کرنا سنت انبیا ہے اس کے الزام کی پوری سختی سے تردید فرماتے ہوئے اصل بات بیان فرمادی کہ یہ سارا کارنامہ تو اس کا تھا ۔ اس نے مجھے دعوت گناہ دی جس سے میں بھاگ رہا تھا۔ تو اللہ نے ان کا معجزہ ظاہر فرمایا اور اسی گھر میں ایک بچہ جو گہوارہ میں پڑا تھا غالبا کسی خادمہ کا ہوگا یا ان کے کسی خاندان کے فرد کا بہرحال ان میں کا تھا اللہ نے اسے گویا کردیا ۔ اب وہ صرف اتنا بھی کہہ دیتا کہ قصور زلیخا کا ہے تو بھی بہت کافی تھا مگر اس نے پھر حیکمانہ بات کی کہ اے عزیز مصر ! کرتے کو دیکھ اگر سامنے سے پھٹا ہے تو قصور یوسف کا ہے اور زلیخانے وفاع کرتے ہوئے پھاڑا ہوگا لیکن اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو قصور ذلیخا کا ہے کہ یہ بھاگ رہے تھے اور وہ پکڑناچاہتی تھی۔ یقینا جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں رب جلیل انھیں کبھی رسوا نہیں ہونے دیتے جیسے حضرت مریم کے لئے ننھے عیسیٰ (علیہ السلام) کو گویا کردیا ۔ یا نبی اسرائیل کے ایک ولی حضرت جریح پر تہمت لگی تو نوزائیدہ بچے نے برأت بیان کی یا فرعون کے سامنے ماشطہ نامی چھوٹ بچی نے بات کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے بازرکھا یہاں یوسف (علیہ السلام) کی شہادت ایک ننھے بچے نے معجزانہ طورپردی ۔ مظہری میں ہے کہ ان چار بچوں نے معجزانہ طورپرکلام کیا اور جب آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ پہ بہتان لگا یا کیا تو اللہ کریم نے کسی بچے سے شہادت دلوانے کی بجائے خود شہادت دی اور برأت بیان کی اور سورة نور میں مسلسل آیات نازل فرمائیں ۔ چناچہ عزیز مصرنے دیکھا کہ قمیض تو پیچھے سے پھٹ رہی ہے اگرچہ بچے کا معجزانہ کلام ہی کافی تھا مگر شہادت میں قرائن کا اپنا اثرہوتا ہے اور اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں تو کہنے لگا کہ زلیخا یہ تو تیرے مکر کی دلیل ہے اور یقینا جب عورت مکر کرتی ہے تو پھر وہ بہت بڑامکر کرتی ہے کہ شیطان کے مکر کو اللہ نے کمزورکہا ہے مگر یہاں عورت کا مکر کیدعظیم کہا گیا ہے نہ ہر عورت بلکہ مکار عورت بڑا ہی مکر کرسکتی ہے ۔ لہٰذا یوسف (علیہ السلام) سے درگزر کرنے کو کہا کہ آخربات پھیلے گی تو رسوائی ہوگی اسے اپنی عزت کا احساس بھی تو تھا نیزان کی دل آزاری کا پاس بھی تھا تو کہنے لگا آپ میری خاطر سے سہی درگزرفرمائے اور اے زلیخا ! تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے تمہیں توہرطرح سے معافی طلب کرنا چاہیئے یہ تمہاری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اب مجھ سے بھی یعنی شوہر سے بھی معافی چاہو اور یوسف (علیہ السلام) سے بھی جن کی بہت دل آزاری کرچکی ہومعافی طلب کرو۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 21 تا 22 اشتری ٰ (خرید لیا۔ بیچ دیا (دونوں معنی آتے ہیں) امراء ۃ (عورت ، بیوی) اکرمی (عزت سے کھ) مثواہ (ٹھکانا۔ مقام ینفعنا (وہ ہمیں فائدہ دے گا) نتخذ (ہم بنا لیں گے) ولد (بیٹا) کذلک (اسی طرح، اس طرح) مکنا (ہم نے ٹھکانا دیا۔ جما دیا ) نعلم (ہم سکھاتے ہیں ) الاحادیث (حدیث) باتیں غالب (غلبہ و قوت پانے والا) امر (کام) لایعلمون (وہ جانتے نہیں) بلغ (وہ پہنچ گیا) اشدہ (اپنی قوت کو اپنی جو این کو اتینا (ہم نے دیا) حکم (حکم۔ دانائی) علم (علم۔ جاننا) نجزی (ہم بدلہ دیتے ہیں۔ جزا دیتے ہیں المحسنین (نیک کام کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 21 تا 22 عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہی عزت سے نوازتا ہے اور وہی ذلت بھی دیتا ہے اگر عزت و ذلت انسان کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ کبھی کسی کو عزت سے نہ نوازتا بلکہ ہر ایک کو ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیتا۔ برادران یوسف نے حضرت یوسف سے حسد کیا اور ان کو اپنے والد کی نظروں سے گرانے اور دور کرنے کی تدبیریں کیں لیکن اللہ نے ان کی تدبیروں کو الٹ دیا اور حضرت یوسف کو عزت کا بہترین ٹھکانا عطا فرما دیا۔ مدین سے مصرف جانے والا قافلہ حضرت یوسف کو بازار مصر میں لے کر پہنچا تاکہ ان کو ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ مال کمال سکے۔ حضرت یوسف کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر ہر ایک نے زیادہ سے زیادہ قیمت لگانا شروع کردی یہاں تک کہ ان کے وزن کے برابر سونا، مشک اور اسی وزن کے ریشمی کپڑے تک عوض میں دینے کی بولی لگا دی گئی۔ مصر کی حکومت کا وزیر اعظم ” عزیز مصر “ ‘ جو شاہی خاندان کا سب سے بڑا اور معتمد آدمی تھا اور حکومت مصر کی فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ اس کی نگاہ حضرت یوسف پر پڑگئی کہ لوگ بڑھ چڑھ کر بولیاں لگا رہے ہیں۔ اس نے سب سے زیادہ قیمت دے کر حضرت یوسف کو خرید لیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج حضرت یوسف سے بھی ملاقات فرمائی تھی۔ فرمایا کہ حضرت یوسف اتنے حسین و جمیل ہیں کہ اللہ نے کائنات میں جتنا حسن پیدا کیا ہے اس میں سے آدھا حضرت یوسف کو عطا فرمایا ہے۔ عزیز مصرف حضرت یوسف کو لے کر اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کوئی غلام نہیں ہے اس کو عزت و احترام سے گھر میں رکھنا ۔ ممکن ہے کہ ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں بہرحال ہر اعتبار سے یہ ہمیں فائدہ ہی دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور کرم سے حضرت یوسف کو ایک باعزت گھرانے میں ٹھکانا عطا فرما دیا۔ واقعی اللہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر غلبہ وقوت رکھتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو ہانت، حکمت اور علم کی دولت سے نوازا تھا اور ان کو بات کی گہرائی تک پہنچنے اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا تھا۔ یہ حضرت یوسف کے صبر و تحمل اور نیکی کا صلہ تھا جو انہیں اللہ نے عنایت فرمایا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ نجات دینے سے مقصود یہ تھا کہ دولت ظاہری و باطنی سے مالامال کریں۔ 4۔ یہ جملہ قصہ کے درمیان میں بطور جملہ معترضہ کے آگیا تاکہ بیع وشراء کے ساتھ اول ہی سے سامعین کو معلوم ہوجائے کہ گویہ اس وقت ظاہرا ایسی ناگواری حالت میں ہیں مگر ہم نے ان کو اصل میں سلطنت رفعیہ وعلوم بدیعہ کے لیے بچایا ہے اور یہ حالتیں عارضی اور مقاصد اصلیہ کا مقدر نہیں ہیں کیونکہ ترقی سلطنت کا زینہ عزیز کے گھر کا آنا ہی ہوا اور اسی طرح علوم ووردات قلبیہ کے لیے مکار ومشاق سبب ہوجاتے ہیں پس اس اعتبار سے علوم کے فیضان میں بھی اس کو دخل ہوا اور مشترک طور پر امراء کے گھر میں پرورش پائی سلیقہ و تجربہ بڑھاتا ہے جس کی ضرورت سلطنت اور علوم دونوں میں ہے خصوص علم تعبیر میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بازار میں بکنا اور عزیز مصر کا انہیں خریدنا۔ جن اہل علم نے اس سے پہلی آیت کا یہ مفہوم لیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کرنے والے ان کے بھائی تھے۔ انھوں نے مختلف غیر مستند روایات سے ثابت کیا ہے کہ جب قافلہ والے حضرت یوسف کو بیچنے کی غرض سے بازار میں لائے۔ تو ہر خریدار ان پر اس قدر فریفتہ ہوا جس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بولی لگتے لگتے ڈھیروں درہم و دینار اور قیمتی کپڑوں کے انبار لگ گئے مگر عزیز مصر نے سب سے زیادہ بولی چکا کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا۔ آیات کے سیاق وسباق سے یہ بات زیادہ واضح ہوتی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں سے قافلے والوں نے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا تھا کیونکہ یہ لوگ بنیادی طور پر بردہ فروش نہ تھے۔ جس و جہ سے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمت بڑھانے میں زیادہ دلچسپی نہ لی۔ بہرحال حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر خرید کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ عزیز مصر کون تھا ؟ اکثر مفسرین اور مؤرخین کا خیال ہے کہ مصر کا وزیر خزانہ تھا۔ سوسائٹی کا بڑا آدمی اور حکومت کے اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خریدتے وقت پہچان گیا کہ یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں ہے بلکہ کسی بڑے خاندان کا چشم وچراغ ہے لیکن زمانے کے حوادث نے اسے منڈی کا مال بنا دیا ہے۔ اسے یہ فیصلہ کرنا اس لیے بھی آسان ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) عمر کے اعتبار سے بچہ ہونے کے باوجود اپنے حسن و جمال میں سب سے نمایاں تھے۔ اس لیے اس نے گھر جاتے ہی اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھنا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے بڑا مفید ثابت ہو یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے ہاں پہنچنا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا نتیجہ تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یوسف کو زمین میں یعنی مصر میں اچھا ٹھکانہ دیا تاکہ اسے معاملہ فہمی اور امور مملکت سکھلائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کامیاب کرنے اور ہر حکم کو نافذ کرنے پر قادر ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اللہ کی تقدیر اور اس کے احکام کی حکمت کو نہیں جانتی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں تین آدمی بڑے ہی عقلمند اور قیافہ شناس ثابت ہوئے ہیں۔ ١۔ عزیز مصر جس نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی گوہر نایاب کے طور پر پہچان لیا اور اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اس بچے کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا۔ یہ بڑا ہو کر ہمارے لیے بڑا ہی سود مند ثابت ہوگا۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر جس نے ایک مسافر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو شرم وحیا کے ساتھ ایک نظر دیکھتے ہی پہچان لیا تھا کہ یہ جوان نہایت ہی باحیا، صاحب کردار، خیر خواہ اور دیانت دار ہے۔ بعد ازاں اسی کی رائے کے نتیجے میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو آٹھ سے دس سال کے لیے اپنے گھر رکھا پھر اسی بیٹی کو ان کے نکاح میں دیا۔ ٣۔ تیسرے ” سیدنا “ صدیق اکبر (رض) ہیں۔ جنہوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا۔ جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمت کی جس کی مثال قیامت تک نہ مل سکے گی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بہتر ٹھکانہ عطا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا حکم ہر حال میں غالب ہوتا ہے : ١۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے۔ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٣۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 107 ایک نظر میں یہ سبق اس قصے کے دوسرے حلقے پر مشتمل ہے۔ اب یوسف (علیہ السلام) مصر پہنچ گئے ہیں۔ غلام کی طرح بک گئے ہیں ، لیکن جس شخص نے اسے خریدا ، اس نے دیکھ لیا کہ یہ بچہ نہایت ہی ہونہار ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ چناچہ اس نے اپنی بیوی کو ان کے بارے میں ہدایات دیں کہ یہ بچہ غیر معمولی ہے۔ یہاں سے حضرت یوسف کے خواب کی تعبیر شروع ہوتی ہے۔ لیکن بلوغ تک پہنچتے پہنچے حضرت یوسف کے لیے ایک دوسرے قسم کا امتحان ابھی باقی تھا۔ حضرت یوسف کو اللہ نے منصب رسالت کے شایان شان علم و حکمت عطا کیا ہوا تھا اور یہ آزمائش ایسی تھی کہ محض اللہ کا فضل و کرم ہی اس امتحان میں کسی کو بچا سکتا تھا۔ حضرت یوسف اعلی طبقات کے آزادانہ ماحول میں پل رہے تھے۔ ایسے طبقات بالعموم عیاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان طبقات کے اکثر نوجوان بےراہ روی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حضرت یوسف محض فضل الہی سے اس گندے ماحول سے پاک دامن بن کر نکلے ۔ ان کے لیے یہ مشقت سابقہ آزمائشوں سے کچھ کم نہ تھی۔ درس نمبر 107 تشریح آیات 21 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 34 تفسیر آیت 21: ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت کو کس نے خریدا۔ لیکن قدرے بعد میں یہ بتایا جائے گا کہ خریدار عزیز مصر ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ مصر کے اکابر میں سے تھا۔ لیکن ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ اب مصیبت اور مشقت کے دن بیت گئے اور اب ان کے لیے اچھے سے اچھے دن آنے والے ہیں اکرمی مثواہ " اس کو اچھی طرح رکھنا " مثوی ثوی سے اسم ظرف ہے یعنی رات گزارنے کی جگہ اور ٹھہرنے کی جگہ۔ اکرام مثوی سے مراد خود ان کا اکرام ہے۔ لیکن اس کے مقام اکرام کرو ، زیادہ مبالغہ ہے اس سے کہ کوئی کہے اس کا اکرام کرو۔ یعنی صرف اس کی ذات کا اکرام ہی نہیں بلکہ اس کی بجائے قیام کا بھی اکرام ہو۔ اب ایک تو اس کا جائے قیام اندھے کنویں میں تھا جو ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا اور ہر طرف مصائب ہی مصائب تھے اور اب یہاں ان کا تمکن ہے۔ عزیز مصر اپنی بیوی کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ اس بچے سے اس کی کیا امیدیں وابستہ ہیں ؟ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : بعید نہیں کہ یہ ہمارے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ جس طرح بعض روایات میں آتا ہے شاید اس کے ہاں کوئی بیٹآ نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شخص نے یہ عندیہ دیا کہ اگر یہ بچہ صاحب فراست نکلا تو اسے بیٹآ بنا لیں گے ، جس طرح حضرت یوسف کے مزاج اور طور طریقوں سے معلوم ہوتا تھا ، بعد میں وہ نہایت ہی رجل رشید ثابت ہوئے۔ اب یہاں قصے کے واقعات کو روک لیا جاتا ہے اور درمیان میں ایک مختصر سا تبصرہ آتا ہے اور بتایا جاتا ہے۔ یہ تدابیر اللہ نے اس لیے اختیار کیں تاکہ حضرت یوسف کے قدم مصر میں جم جائیں۔ اب حضرت یوسف نے اس خریدار کے دل اور اس کے خاندان میں قدم جما لیے ہیں اور ان کی ترقی کا دور شروع ہوچکا ہے اور آگے جا کر ان کو اس بلند سوسائٹی میں رکھ کر معاملہ فہمی کے مواقع فراہم ہوں گے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے تمام امور پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے منصوبے اسی طرح نافذ ہوتے ہیں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۭ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یہ کس طرح ؟ دیکھو یوسف کے بھائیوں نے ان کے خلاف کیا سازش کی اور اللہ نے ان کے لیے کیا سوچا اور اہا۔ اور اللہ نے جو چاہا وہ کامیاب رہا۔ کیونکہ اللہ کو تمام امور پر کنٹرول حاصل ہے لہذا ان کی تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں اور حضرت یوسف کے بارے میں اللہ کا منصوبہ کامیاب رہا۔ مگر اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ جو اللہ چاہتا ہے ، وہ ہوتا ہے اور لوگوں کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کا خریدنا اور اپنے گھر میں اکرام کے ساتھ رکھنا ‘ اور نبوت سے سرفراز کیا جانا جس قافلے نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں سے خرید لیا تھا وہ انہیں مصر لے گئے اور وہاں لے جا کر فروخت کردیا۔ خریدنے والا عزیز مصر تھا جو بادشاہ کا وزیر خزانہ تھا اس کے ذمہ مالیات کی دیکھ بھال تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ تک پہنچنے میں چند سال لگے اولاً عزیز مصر ہی کے گھر میں رہے ‘ عزیز مصر نے ان کو ہونہار دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا کہ اس بچہ کو اچھی طرح اکرام کے ساتھ رکھنا ‘ اس کے لیے لیٹنے بیٹھنے کی جگہ اچھی ہو اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ممکن ہے کہ آئندہ چل کر یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں (بیان کیا جاتا ہے کہ عزیز مصر لاولد تھا اس لئے اس نے یہ بات کہی) ۔ عزیز مصر کا نام بعض مفسرین نے قطفیر بتایا ہے اور اس قول کو حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس کی بیوی کا نام زلیخا مشہور ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام راعیل تھا ‘ جس شخص کو چند روز پہلے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا وہی شخص آج عزیز مصر کے گھر میں اکرام وانعام و راحت وآرام کے ساتھ رہ رہا ہے اللہ جل شانہ جسے بلند کرنا چاہے اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ (وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ) (اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سر زمین میں قوت عطا کی) ۔ عزیز مصر کے دل اور گھر میں تو ان کا مقام اور مرتبہ ہو ہی گیا تھا اس کے یہاں معزز ہونے کی وجہ سے مصر کے دوسرے لوگوں کے دل میں بھی ان کی بڑی حیثیت بن گئی تھی۔ (وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ) (اور تاکہ ہم اسے خوابوں کی تعبیر کا علم دیں) اللہ جل شانہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خوابوں کی تعبیر کا جو علم عطا فرمایا تھا وہی آگے بڑھ کر مصر کے خزانوں کا والی اور متصرف ہونے کا ذریعہ بنا (وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ ) (اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے) اللہ تعالیٰ جو چاہے کرے جس کو چاہے بلندی دے اس کے فیصلے کو کوئی ٹالنے والا نہیں ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پرورش کا اللہ تعالیٰ نے یہ سبب بنایا کہ انہیں عزیز مصر کے گھر میں رکھا ظاہری پرورش کے ساتھ امور انتظامیہ کے بارے میں بھی ان کی تربیت ہوگئی عزیز مصر خزائن مصر کا منتظم تھا بعد میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی خزائن مصر سپرد کر دئیے گئے۔ عزیز مصر کے گھر میں رہنا ہوا تو مالیات کی حفاظت اور دیکھ بھال کا طریقہ اور سلیقہ بھی سمجھ میں آگیا (وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) (اور لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے) اللہ تعالیٰ کی حکمتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ یہ چوتھا حال ہے۔ قافلے والے یوسف (علیہ السلام) کو معمولی داموں میں مصر میں بیچ کر چلے گئے۔ جس نے قافلہ والوں سے خریدا تھا اس سے شاہ مصر ریان بن ولید کے وزیر خزانہ قطفیر ملقب بعزیز نے خریدا۔ بعض نے لکھا ہے کہ عزیز مصر قطفیر نے براہ راست قافلہ والوں سے خریدا تھا۔ قال ابن عباس انما اشتراہ قطفیر وزیر ملک مصر۔ واکان ھذا العزیز الذی اشتری یوسف علی خزائن الملک (قرطبی ج 9 ص 158) ۔ عزیز مصر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید کر گھر لے گیا اور بیوی سے کہا اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور کھانے، پینے اور پہننے کو اچھا دینا ممکن ہے یہ بڑا ہو کر ہمارے کسی کام آئے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے۔ کیونکہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔ 19:۔ کاف بیان کمال کے لیے ہے۔ ” وَ لِنُعَلِّمَہٗ “ کا معطوف علیہ محذوف ہے ای لنکرمہ۔ یعنی یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے گھر عزت و اکرام کی جگہ دی تاکہ ہم اسے عزت دیں اور تاکہ اسے تعبیر رؤیا کا علم عطا کریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اور اہل مصر میں سے جس شخص نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اس کو عزت و آبرو سے رکھیو کیا عجب ہے کہ یہ ہم کو فائدہ پہونچائے اور ہم کو اس سے نفع پہونچے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور متنبی ہی کرلیں اور جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نجات دی اسی طرح یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں باعزت جگہ دی اور نیز اس لئے کنویں سے نجات دی کہ اس کو باتوں کی کل بٹھانے اور خوابوں کی تعبیر دینے کی تعلیم دیں اور خوابوں کی صحیح تعبیر دینا اس کو بتلا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کام پر پوری طرح غالب اور قادر ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ یعنی جس شخص نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا وہ عزیز مصر یعنی حکومت کا مدار المہام تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کا نام قطفیر تھا اور اس زمانہ کے بادشاہ کا نام ولید بن ریان تھا اور اس عورت یعنی عزیر مصر کی بیوی کا نام راعیل اور مشہور نام زلیخا تھا عزیز مصر نے یوسف (علیہ السلام) کو بہت بڑی قیمت دے کر خریدا تھا بیوی کے سپرد کرتے وقت یوسف (علیہ السلام) کو اس نے کہا کہ دیکھو اس کو آرام سے رکھو اور اس کے رہنے کی جگہ کو درست کردو چونکہ یہ لڑکا ہونہار معلوم ہوتا ہے اس لئے ہم کو اس سے فائدہ پہونچے گا اور امور مملکت میں میرا مشیر اور معین ہوگا یا اس کو ہم بیٹا بنالیں گے۔ بہر حال ! ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکال کر مصر میں باعزت جگہ دی اور ان کو تعبیر خواب کی تعلیم دی اور اللہ تعالیٰ اپنے چاہے ہوئے کام پر پورا پورا اختیار رکھتا ہے یعنی جو چاہتا ہے وہ پورا ہوتا ہے۔