Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 22

سورة يوسف

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۲۲﴾

And when Joseph reached maturity, We gave him judgment and knowledge. And thus We reward the doers of good.

جب ( یوسف ) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا بَلَغَ ... And when he attained, in reference to Prophet Yusuf, peace be upon him, ... أَشُدَّهُ ... his full manhood, sound in mind and perfect in body, ... اتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ... We gave him wisdom and knowledge, which is the Prophethood that Allah sent him with for the people he lived among, ... وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ thus We reward the doers of good. because Yusuf used to do good in the obedience of Allah the Exalted.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی نبوت یا نبوت سے قبل کی دانائی اور قوت فیصلہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] مفسرین کے قول کے مطابق آپ ١٧ سال کی عمر میں مصر پہنچے اور تین سال کے لگ بھگ عزیز مصر کے گھر میں رہے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت فیصلہ اور حکمرانی کے اصول بھی سکھا دیئے اور علم بھی عطا فرمایا۔ علم سے مراد عموماً علم وحی ہی ہوتا ہے اور ایسا علم اللہ تعالیٰ بعثت سے پہلے بھی انبیاء کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاکیزہ اور بےداغ ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا ” اَشُدَّ “ بعض اہل علم کے مطابق مفرد ہے جو جمع کے وزن پر آیا ہے۔ بعض نے فرمایا جمع ہے، مگر اس کے لفظ میں سے اس کا واحد نہیں ہے۔ بعض نے فرمایا ” شِدَّۃٌ“ کی جمع ہے، جس طرح ” نِعْمَۃٌ“ کی جمع ” أَنْعُمٌ“ ہے، یعنی اپنی پوری قوتوں اور جوانی کو پہنچ گئے۔ اسی ” بَلَغَ “ کے لفظ ہی سے بلوغت کی اصطلاح اخذ کی گئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کے آتے ہی انسان پر نیکی اور بدی لکھنے والا وہ قلم مقرر ہوجاتا ہے جو بچپن میں اس پر مقرر نہیں تھا۔ اب وہ اپنے جیسے انسان کی پیدائش کا ذریعہ بننے کے قابل ہوجاتا ہے۔ معلوم نہیں جو لوگ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی عمر کی تعیین پچیس یا تیس یا چالیس سال بیان کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ بہرحال جس قسم کی خوش حالی اور ناز و نعمت میں یوسف (علیہ السلام) کی پرورش ہو رہی تھی، اس میں یہ عمر طوفان بن کر آتی ہے، مگر ان پر اللہ کا فضل تھا جس کی وجہ سے رعونت، شہوت اور حسن و عشق کی آفات کے بجائے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم اور علم عطا فرمایا۔ ” حُکْمٌ“ اور ” حِکْمَۃٌ“ تقریباً ہم معنی ہیں، اس کا مطلب ہے ایک دوسرے کے مخالف اور ٹکرانے والے دو معاملات حق اور باطل میں سے حق کا فیصلہ کرنے کی اہلیت۔ یہ اہلیت عطا ہونے کے بعد آدمی صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں علم عطا فرمایا، یعنی نیکی و بدی کی پہچان اور وہ باتیں جاننے اور ان پر عمل کی استعداد جو عام لوگ نہیں جانتے، جس میں خواب کی تعبیر اور وہ علم بھی شامل ہے جس کا اظہار انھوں نے وزارت کی پیش کش پر خزانے کا شعبہ طلب کرنے پر کیا تھا : (اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ )[ یوسف : ٥٥ ] ” بیشک میں پوری طرح حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔ “ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ : انسان خوش حال ہو یا خستہ حال، اگر وہ نیکی اور اچھائی پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے ہی جزا دیتے ہیں، مثلاً کوئی بھی تنگ دست جو اللہ کا شکوہ کرنے اور اپنی حالت پر ناراض رہنے کے بجائے اس کی تقدیر پر شاکر ہو کر صبر کرے، اس پر خوش رہے اور غلط سمت میں قدم نہ اٹھائے تو اسے اللہ تعالیٰ ایسے ہی بدلہ دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ نوازش صرف یوسف (علیہ السلام) ہی پر نہیں تھی بلکہ احسان پر کاربند رہنے والے ہر شخص کو ایسے ہی جزا ملتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the first sentence of the second verse (22), it is said: وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا (And when he reached at the prime of his age, We gave him wis¬dom and knowledge ... ). At what age did he reach the prime of his age? In this, commentators differ. Sayyidna Ibn &Abbas, Mujahid and Qatadah رحمۃ اللہ علیہم say that his age was thirty three years. Dalhhak jw SII ,~ ~j puts it at twenty, and Hasan al-Basri (رح) at forty. However, all of them agree that the bestowing of wisdom and knowledge upon him referred to at this place means the bestowal of Nubuwwah, the station of prophethood. This also tells us that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was invested with Nubuw¬wah much later than his arrival in Egypt - and the Wahy (revelation) sent to him while he was in the depth of the well was not the Wahy (revelation) technically identified with Nubuwwah. Instead of that, it was a revelation in the literal sense which can also be sent to non-prophets - as it has appeared in the case of the mother of Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، and about Sayyidah Maryam. In the second sentence of the second verse (22), it was said: وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (and this is how We reward those good in deeds). The sense is that delivering Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from elimination and making him reach the office of power and honour was an outcome of his righteous¬ness, fear of Allah and good deeds. This was something not restricted to his person alone. In fact, whoever acts the way he did, shall receive the blessings of Allah in the same fashion.

(آیت) وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا یعنی جب پہنچ گئے یوسف (علیہ السلام) اپنی پوری قوت اور جوانی پر تو دے دیہم نے ان کو حکمت اور علم یہ قوت اور جوانی کسی عمر میں حاصل ہوئی اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ، مجاہد (رح) قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ٣٣ سال عمر تھی ضحاک (رح) نے بیس سال اور حسن بصری (رح) نے چالیس سال بتلائی ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ حکمت اور علم عطا کرنے سے مراد اس جگہ عطاء نبوت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو نبوت مصر پہنچنے کے بھی کافی عرصہ بعد ملی ہے اور کنویں کی گہرائی میں جو وحی ان کو بھیجی گئی وہ وحی نبوت نہ تھی بلکہ لغوی وحی تھی جو غیر انبیاء کو بھی بھیجی جاسکتی ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں وارد ہوا ہے، (آیت) وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ اور ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں نیک کام کرنے والوں کو مطلب یہ ہے کہ ہلاکت سے نجات دلا کر حکومت وعزت تک پہونچانا یوسف (علیہ السلام) کی نیک چلنی خدا ترسی اور اعمال صالحہ کا نتیجہ تھا یہ ان کے ساتھ مخصوص نہیں جو بھی ایسے عمل کرے گا ہمارے انعامات اسی طرح پائے گا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٢٢ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جوانی کی اصل عمر قول باری ہے ولما بلغ اشدہ اتیناہ حکما ً و علما ً اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا ۔ ایک قول کے مطابق اٹھارہ برس سے لے کر ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی قوت و طاقت کو اشد کہا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ بیس برس کے انسان کو اشد کہا جاتا ہے ۔ مجاہد کے قول کے مطابق تینتیس سالہ جوان کو اشد کہا جاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے (اشد اٹھارہ سال سے تیس سال تک کی عمر کو بولتے ہیں) تو ہم نے ان کو حکمت اور نبوت عطا فرمائی، اسی طرح ہم نیکو کاروں کو قول وفعل کے بدلے علم و حکمت کے ساتھ بدلہ دیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) حکم اور علم سے مراد نبوت ہے۔ حکم کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ علم سے مراد علم وحی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. By the use of such words as the Quran usually means, We bestowed on him Prophethood, for the Arabic word hukmun stands for both judgment and authority and ilmun stands for that knowledge which is directly revealed to the Prophets by Allah. Thus, the Arabic words of the text will mean: We gave him the power and the authority and the knowledge needed for judging rightly the affairs of the people.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :20 قرآن کی زبان میں ان الفاظ سے مراد بالعموم ” نبوت عطا کرنا “ ہوتا ہے ۔ ” حکم“ کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی ۔ پس اللہ کی طرف سے کسی بندے کو حکم عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے اسے انسانی زندگی کے معاملات میں فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی عطا کی اور اختیارات بھی تفویض فرمائے ۔ رہا ”علم“ تو اس سے مراد وہ خاص علم حقیقت ہے جو انبیاء کو وحی کے ذریعہ سے براہ راست دیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ اس آیت میں اللہ پاک نے عزیز مصر کی بیوی کے حال کی خبر دی کہ عزیز مصر کی بیوی زلیخا جس کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے اور اس کے شوہر نے تاکید کی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) کو اچھی طرح رکھنا کسی طرح کی تکلیف اس کو نہ ہونے پائے وہ عورت حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن اور جمال پر فریفتہ ہوگئی اس کا جی چاہا کہ یوسف (علیہ السلام) سے بد فعلی کرے اس لئے اس نے خوب بناؤ کیا اور بن سنور کر اپنے مکان کے ساتوں دروازے بند کر دئیے جب دیکھا کہ یوسف اس تنہائی اور دروازے بند کرنے پر بھی اس کی طرح متوجہ نہیں ہوتے تو خود اپنی زبان سے اپنے مطب کا اظہار کیا اور اپنے پاس بلایا یوسف (علیہ السلام) اس کی اس بات سے بہت ہی پریشان ہوئے اور ایک نہایت معقول عذر اس کے سامنے پیش کیا جو عورتوں کی عقل کے آگے نہایت ہی قرین قیاس بھی تھا۔ فرمایا کہ یہ بات ظلم صریح ہے یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ عزیز مصر جو میرا آقا ہے اس کے گھر میں خیانت کروں اور آقا بھی وہ جو میرا ہر طرح سے کفیل ہے مجھے اچھی طرح رکھتا ہے کسی طرح کی تکلیف نہیں ہونے دیتا مجھے بجائے فرزند کے سمجھتا ہے میں تو خدا کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں عزیز مصر میرا پرورش کرنے والا ہے تو بدفعلی کی خواہش رکھتی ہے تو نہیں جانتی کہ بدکاری ایک ظلم ہے اور ظلم کرنے والے اللہ کی بارگاہ میں کبھی فلاح نہیں پاتے۔ زنا میں غیر شخص کی عورت پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے اس لئے زنا ظلم ٹھہرایا اوپر ایک جگہ گزرچکا ہے کہ مثلاً نماز نہ پڑھنا یا روزہ نہ رکھنا یہ حق اللہ کے گناہ کہلاتے ہیں اور کسی کی عورت سے بدکاری کا کرنا یا کسی کا مال چرا لینا یہ حق العباد کے گناہ کہلاتے ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قیامت کے دن حق العباد کے گنہگاروں کی نیکیاں صاحب حق کو مل جاویں گی۔ ١ ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ حق العباد کے گناہ بغیر حق کی تلافی کے فقط توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ نیکیوں کی عین ضرورت کے وقت ایسے گنہگاروں کو نیکیوں کا نقصان پیش آوے گا اس لئے فرمایا کہ ایسے گنہگار قیامت کے دن کچھ بھلائی اور فلاں پاویں گے۔ ١ ؎ الترغی ص ٢٩٩ ج ٢ فضل فی ذکر الحساب وغیرہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ حکم دیا یعنی عقل سے مشکل باتیں حل کرتے اور علم سے مراد دین ہے۔ قرآن میں ان دونوں لفظوں سے مراد عموماً نبوت ہوتی ہے دیکھئے قصص آیت 41 ۔ (کذافی ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس میں پہلے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جو کچھ آگے قصہ میں بعض امور کی تہمت آپ کی نسبت آئے گی وہ سب غلط ہوگا کیونکہ وہ صاحب حکمت تھے جس کا حاصل ہے علم نافع یعنی علم مع العمل اور ان امور کا صدور غلط ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے گھر امور مملکت کی تربیت پاتے ہوئے نوجوان ہونا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوان رعنا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل و دانش اور امور مملکت کی جان پہچان سے نوازا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ٢٣ سال کے لگ بھگ عزیز مصر کے ہاں ٹھہرے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس عرصہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی لیاقت، دیانت اور احساس ذمہ داری سے عزیز مصر اور اس کے اہل خانہ اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ سے کیوں نہ متاثر ہوتے جبکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں پرورش پا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخصیت کو اپنا رسول بنانا چاہتا ہے وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوا کرتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے کہ جونہی یوسف جوان ہوئے تو ہم نے اسے علم و حکمت سے نوازا۔ اس فرمان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے گھر ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ علم و حکمت اور امور مملکت کے مشاہدات کیے۔ مؤرخین نے عزیز مصر کی بیوی راعیل اور زلیخا لکھا۔ لیکن قرآن مجیدنے اس کی پردہ پوشی کے لیے نام نہیں لیا۔ جب یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال اور عالم شباب کو پہنچے تو عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف کو برائی کے لیے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ نہ معلوم وہ کس کس انداز اور نخرے کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی کوشش کرتی رہی۔ جب تمام کوششوں میں ناکام ہوئی تو اس نے آخری قدم اٹھاتے ہوئے ایک دن حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کسی بہانے اپنے شب خانہ میں بلایا۔ جونہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اس جگہ پہنچے تو اس نے نامعلوم طریقے کے ساتھ اس کمرے تک پہنچنے والی راہداری اور اس کے ملحقہ کمروں کو مقفل کردیا۔ عزیز مصر کے محل کا نقشہ سمجھنے کے لیے آج کے بنگلوں اور محلات کے نقشوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جب اس نے ہر دروازہ مقفل کرلیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ہیجانی اور جذباتی انداز میں کہا کہ آجاؤ اب تو کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے بڑے ہی وقار اور حیادار لہجے میں فرماتے ہیں کہ ” اللہ کی پناہ “ یعنی اللہ مجھے بچائے۔ جس نے مجھے بہترین قیام وطعام بخشا ہے۔ میں ایسی حرکت کیونکر کرسکتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ یہاں ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑنا ہے اور بدکاری کرنا ہے۔ بدکار ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑ کر ظلم کرتا ہے۔ دوسری طرف اپنی حیا کو تار تار کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ جس سے زانی اور زانیہ دونوں کے خاندانوں کے وقار پر دھبہ لگتا ہے۔ اکثر اوقات مال ضائع ہونے کے علاوہ قتل جیسے سنگین جرائم جنم لیتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس لیے بھی اس حرکت کو ظلم قرار دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی احسان فراموشی کے علاوہ عزیز مصر کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی کہ اس نے مجھ جیسے غلام کو بیٹوں کی طرح پالا اور میں غلام ہو کر اپنے آقا کی عزت کو تار تار کروں یہ بڑا ہوگا۔ جس سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (إِنَّہٗ رَبِّیْٓ أَحْسَنَ مَثْوَایَ )[ یوسف : ٢٣] ” بیشک وہ میرا رب ہے۔ اس نے میرا ٹھکانہ اچھابنایا ہے۔ “ رب سے مراد بعض مفسرین نے عزیز مصر لیا ہے۔ کیونکہ عربی میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں جیسے رب البیت وغیرہ۔ اسی کے پیش نظر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عمومی زبان استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے رب یعنی عزیز مصر نے مجھے بہت بڑا مقام دیا ہے اگر میں اس کی اہلیہ کے ساتھ بدکاری کروں تو بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہوگا۔ دوسرے اہل علم اس معنی کی نفی کرتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے شخص کو بھی ” میرا رب “ کے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ پیغمبر کی شان اور اس کے عقیدہ کے خلاف ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو ” میرا رب “ کہہ۔ بیشک رب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن نبی کے لائق نہیں کہ وہ ” اللہ “ کے سوا کسی اور کے لیے یہ لفظ استعمال کرے۔ لہٰذا حضرت یوسف کی مراد حقیقی رب تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو صلہ عطا فرماتا ہے۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ سے بچنے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کی۔ ٤۔ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ تفسیر بالقرآن ظالم حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتا : ١۔ بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف : ٢٣) ٢۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالموں کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (العنکبوت : ٣١) ٤۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) ٥۔ ظالم کامیابی نہیں پائیں گے۔ (الانعام : ٢١) ٦۔ مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٧۔ ظالموں کا کوئی ولی اور مددگار نہیں ہوگا۔ (الشعراء : ٨) ٨۔ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش ہم رسول کی راہ اختیار کرتے۔ (الفرقان : ٢٧) ٩۔ قیامت کے دن ظالم لوگ کھلی گمراہی میں ہوں گے۔ (مریم : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یوسف کو اللہ نے یہ صلاحیت دی کہ وہ ہر معاملے میں صحیح فیصلہ کرنے ، واقعات کے نتائج وہ پہلے سے معلوم کرلیتے ، خوابوں کی تعبیر وہ بہت ہی اچھی طرح جانتے۔ تاویل احادیث اور تاویل رویا کا مفہوم عام بھی ہوسکتا ہے یعنی زندگی کے تمام معاملات کو وہ اچھی طرح سلجھاتے تھے اور یہ صلاح ان کو ان کی نیکی اور حسن سلوک کی وجہ سے دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ محسنین کو اسی طرح جزا دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ اٰتَیْنَہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا) (اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا) حکمت اور علم سے نبوت مراد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان کو بعد میں نبوت عطا کی گئی کنویں میں ہوتے ہوئے جو وحی بھیجی تھی وہ وحی نبوت نہیں تھی دل میں ڈالنے کو بھی وحی سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ سورة القصص میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے بارے میں فرمایا (وَاَوْحَیْنَا اِلٰی اُمِّ مُوْسیٰ اَنْ اَرْضِعِیْہِ ) (وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور ہم نیک کام کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں) صفت احسان بہت بڑی چیز ہے حسن نیت اور حسن عمل سے جو شخص بھی متصف ہے وہ محسن ہے احسان والوں کو اللہ تعالیٰ بلند فرماتا ہے اور انہیں ان کے احسان کا اچھا بدلہ عطا فرماتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ یہ پانچواں حال ہے ” اَشُدَّ “ کی تفسیر میں اقوال مختلف ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے تینتیس سال سے اس کی تفسیر فرمائی ہے۔ امام رازی کے نزدیک یہی راضح ہے (کبیر ج 18 ص 110) ۔ ” حُکْمًا وَّ عِلْمًا “ حکم سے نبوت اور علم سے شریعت مراد ہے یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے عن ابن عباس ان الحکم النبوۃ والعلم الشریعۃ (روح ج 3 ص 209) ۔ وقال مجاھد العقل والفہم والنبوۃ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 اور جب یوسف (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہونچا تو ہم نے اس کو حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ سے نوازا کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مصر میں عزیر نے مول لیا عزیز کہتے تھے بادشاہ کے مختار کو اس نے ہوشیار دیکھ کر غلاموں کی طرح نہ رکھا فرزند کی طرح رکھا کاروبار میں نائب ہوگا اس طرح حق تعالیٰ نے اس ملک میں ان کا قدم جمایا پھر ان کے سبب سے سارے بنی اسرائیل کو بسایا اور یہ بھی منظور تھا کہ سرداروں کی صحبت دیکھیں تاکہ رمزدو اشارہ سمجھنے کا سلیقہ کمال پکڑیں اور عمل خدائی پورا پائیں اور اللہ بناتا رہتا ہے کام یعنی بھائیوں نے چاہا کہ ان کو گرادیں اسی میں یہ چڑھ گئے حکم دیا یعنی عقل سے مشکل باتیں حل کرتے اور عمل اللہ کا دین 12