Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 27

سورة يوسف

وَ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۲۷﴾

But if his shirt is torn from the back, then she has lied, and he is of the truthful."

اور اگر اس کا کرتا پیچھے کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچوں میں سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But if it be that his shirt is torn from the back, then she has told a lie and he is speaking the truth! Had Yusuf run away from her, and this is what truly happened, and she set in his pursuit, she would have held to his shirt from the back to bring him back to her, thus tearing his shirt from the back. There is a difference of opinion over the age and gender of the witness mentioned here. Abdur-Razzaq recorded that Ibn Abbas said that, وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا (and a witness of her household bore witness), "was a bearded man," meaning an adult male. Ath-Thawri reported that Jabir said that Ibn Abi Mulaykah said that Ibn Abbas said, "He was from the king's entourage." Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi, Muhammad bin Ishaq and others also said that; the witness was an adult male. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said about Allah's statement, وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا (and a witness of her household bore witness), "He was a babe in the cradle." Similar was reported from Abu Hurayrah, Hilal bin Yasaf, Al-Hasan, Sa`id bin Jubayr and Ad-Dahhak bin Muzahim, that; the witness was a young boy who lived in the Aziz's house. Ibn Jarir At-Tabari preferred this view. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] قرینہ کی شہادت :۔ لیکن سیدنا یوسف کا بیان زلیخا کے بالکل الٹ اور مبنی برحقیقت تھا۔ اب سوال یہ تھا یہ کیسے معلوم ہو کہ ان دونوں میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ؟ جب یہ بات گھر والوں میں پھیل گئی تو عزیز مصر کے خاندان سے ہی ایک آدمی کہنے لگا : ذرا یوسف کی قمیص کو تو دیکھو اگر وہ پیچھے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف آگے بھاگ رہا تھا اور زلیخا نے اسے پیچھے سے کھینچا ہے اور اس کھینچا تانی میں قمیص پھٹ گئی۔ اس صورت میں زلیخا جھوٹی ہوگی اور یوسف سچا ہوگا اور اگر قمیص آگے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف تقاضا کر رہا تھا اور زلیخا اپنی مدافعت کر رہی تھی۔ اس کھینچا تانی میں یوسف کی قمیص آگے سے پھٹ گئی۔ اس صورت میں یوسف جھوٹا ہے اور زلیخا سچی۔ یہ بات سب کو معقول معلوم ہوئی۔ اس آیت میں (وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا 26؀) 12 ۔ یوسف :26) کے الفاظ آئے ہیں یعنی زلیخا کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ حالانکہ موقعہ پر کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شہادت ایک شیر خواربچہ نے دی تھی مگر اس روایت کی سند درست نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ روایت صحیح تسلیم کی جائے تو یہ معجزہ کی صورت ہوگی اور معجزہ کی صورت میں عقلی دلیل دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تیسرے یہ کہ جس صحیح روایت میں تین شیر خوار بچوں کے بولنے کا ذکر ہے وہاں اس بچے کا ذکر مفقود ہے۔ لہذا یہ روایت ہر لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قرینہ کی شہادت تھی۔ زلیخا کے جسم یا اس کے کپڑوں پر کوئی ایسی علامت موجود نہ تھی جس سے زنا بالجبر کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔ لے دے کے ایک یہ کہ یوسف کی قمیص ہی تھی جو پھٹ گئی تھی۔ جس سے یہ قیاس کیا گیا۔ ایسی قرینہ یا موقعہ کی شہادت شرعاً معتبر ہے اور ہر عقلمند آدمی ایسی قرینہ کی شہادتوں سے نتیجہ اخذ کرسکتا ہے اور ہمارے ہاں کسی حادثہ کے موقع پر تفتیشی افسر جائے وقوع کا نقشہ مرتب کرتے ہیں جو قرینہ کی شہادت کا کام دیتے ہیں۔ قرینہ کی شہادت کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نے شراب پی ہے۔ یہ قرینہ کی شہادت ہے۔ کیونکہ اسے شراب پیتے کسی نے دیکھا نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَہُوَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ٢٧ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) چناچہ اس عورت کے خاندان میں سے ایک حاکم نے فیصلہ کیا جو کہ اس کا حقیقی یا چچازاد بھائی تھا کہ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص آگے سے پھٹی ہو تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے ہیں۔ اور اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ اپنے فرمان میں کہ اس عورت نے مجھے پھسلایا ہے سچے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) اس عادلانہ اور حکیمانہ گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس معاشرے میں بہت سی خرابیاں تھیں (جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا) وہاں اس گواہی دینے والے شخص جیسے حق گو اور انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جس نے قرابت دار ہوتے ہوئے بھی حق اور انصاف کی بات کی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. This is what was implied in the evidence: If Joseph’s shirt is torn from the front, it means that Joseph is the aggressor and she has struggled to defend her honor. But if the shirt is rent from the back, it is obvious that he must have been running away from her and she must have been tugging from behind. The circumstantial evidence implied another thing. As the witness invited the master’s attention to Prophet Joseph’s shirt only, it meant that there was no sign at all of violence on the garments of the woman, for had he been the aggressor, there must have been some signs of violence on her garments. 25a. A comparative study of the story as given in the Quran and in the Bible and the Talmud will be worthwhile. The Bible says: And she caught him by his garment, saying: Lie with me: and he left his garment in her hand and fled, and got himself out. And it came to pass, when she saw that he had left his garment in her hand, and was fled forth, that she called unto the men of her house, and spake unto them, saying: See, he hath brought in an Hebrew unto us to mock us; he came in unto me to lie with me, and I cried with a loud voice: And it came to pass, when he heard that I lifted up my voice and cried, that he left his garment with me, and fled, and got himself out. And she laid up his garment by her, until his lord came home...And it came to pass, when his master heard the words of his wife, which she spake unto him, saying: After this manner did thy servant to me; that his wrath was kindled. And Joseph’s master took him, and put him into the prison, a place where the king’s prisoners were bound. (Gen. 39: 12-16, 19-20). The clumsy manner of the above version is obvious. It appears from this that Prophet Joseph’s garment was so shaped that the whole of it fell into her hands when she tugged it. Then he ran away all naked, leaving it with her, as if to supply her with a clear proof of his own guilt. Now let us turn to the Talmud. It says: ....hearing the accusation, Potiphar commanded at once that the lad should be whipped severely. Then he carried Joseph before the judges............They ordered that the torn garment should be brought to them and upon an examination of the same, they pronounced Joseph not guilty. (The Talmud Selections, H. Polano, pp. 81-82). Obviously this version is also faulty, for it cannot be imagined that a person of such a high rank would himself take the case to a court that his own slave had tried to assault his wife criminally. Incidentally, this Quranic version of the story is a clear proof of the fact that it has no copied stories from the Israelite traditions as the pseudo-orientalists allege, but has, on the other hand, corrected them and told the real facts to the world.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :25 مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف علیہ السلام کا قمیص سامنے سے پھٹا ہو تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اقدام یوسف علیہ السلام کی جانب سے تھا اور عورت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کش مکش کر رہی تھی ۔ لیکن اگر یوسف علیہ السلام کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عورت اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور یوسف علیہ السلام اس سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا ۔ اس کے علاوہ قرینے کی ایک اور شہادت بھی اس شہادت میں چھپی ہوئی تھی ۔ وہ یہ کہ اس شاہد نے توجہ صرف یوسف علیہ السلام کے قمیص کی طرف دلائی ۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عورت کے جسم یا اس کے لباس پر تشدد کی کوئی علامت سرے سے پائی ہی نہ جاتی تھی ، حالانکہ اگر یہ مقدمہ اقدام زنا بالجبر کا ہوتا تو عورت پر اس کے کھلے آثار پائے جاتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بے گناہی عزیز مصر پر واضح کرنے کے لیے یہ انتظام فرمایا کہ خود زلیخا کے خاندان کے ایک شخص نے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ایسی علامت بتائی جس کی معقولیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ عورت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے۔ عورت نے اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور اس کشمکش میں ان کی قمیص پھٹ گئی۔ لیکن اگر وہ پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آگے بھاگ رہے تھے، زلیخا ان کا پیچھا کر کے انہیں روکنا چاہتی تھی اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کی وجہ سے قمیص پھٹ گئی۔ اول تو یہ بات ہی نہایت معقول تھی دوسرے بعض مستند احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گواہی زلیخا کے خاندان کے ایک چھوٹے سے بچے نے دی تھی جو ابھی بولنے کے قابل نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اسے بولنے کی طاقت اسی طرح عطا فرما دی تھی جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ غرض اس ناقابل انکار ثبوت کے بعد عزیز مصر کو یقین ہوگیا کہ سارا قصور اس کی بیوی کا ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) بالکل بے گناہ ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ اس عورت کا ایک ناتے دار دودھ پیتا لڑکا یہ بول اٹھا۔ (موضح) ۔ جیسا کہ مسند احمد اور مستدرک حاکم کے حوالے سے معتبر سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مرفوعاً مروی ہے۔ کہ مہد یعنی جھوٹے میں چار بچوں نے کلام کی ہے ایک تو فرعون کی بیٹی کی ماسطہ کے لڑکے نے، اور دوسرے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے شاہد نے، تیسرے مصاحب جریج نے اور چوتھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے۔ یہ حدیث حاکم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کی ہے اور لکھا ہے کہ صحیح علی شرط الشیخین مگر چار لڑکوں میں حصر محل نظر ہے کیونکہ صحیحن میں ایک اور بچے کا ذکر بھی ہے جو دودھ پی رہا تھا۔ نیز مسلم میں اصحاب اخدود کے قصہ میں مذکور ہے کہ اس بچے نے کلام کی الحاصل جھولے میں کلام کرنے والے بچوں کی تعداد علما نے گیارہ تک پہنچائی ہے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ عورت جھوٹی ہے اور وہ یوسف (علیہ السلام) سچا ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے واقعہ کو سچ سچ کہہ دیا ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اس عورت کا بھانجہ جو شیر خوار تھا اس کو کوئی گود میں لئے کھڑا تھا وہ بول اٹھا اگرچہ یہ دلیل یقینی نہ تھی صرف اس کا چھوٹی عمر میں بولنا ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صداقت کے لئے ایک دلیل تھی لیکن بچہ نے ایک ایسی بات کہی جس سے بھاگنے والے اور پیچھے سے پکڑنے والے کا اندازہ ہوسکتا تھا اور اگر یہ گواہی دینے والا کوئی بڑا آدمی تھا۔ جیسے کہ بعض نے کہا ہے تو اس نے گواہی کا بڑا اچھا پیرانہ اختیار کیا اور عمدہ اور غیر جانبدار طریقہ سے ایسی بات کہی جس نے آخری میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت کو ثابت کردیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس عورت کا ناطے دار دودھ پیتا ہوا ایک لڑکا یہ بول اٹھا 12