Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 30

سورة يوسف

وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳۰﴾

And women in the city said, "The wife of al-'Azeez is seeking to seduce her slave boy; he has impassioned her with love. Indeed, we see her [to be] in clear error."

اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے ( جوان ) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے ، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے ، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The News reaches Women in the City, Who also plot against Yusuf Allah states that the news of what happened between the wife of the `Aziz and Yusuf spread in the city, that is, Egypt, and people talked about it, وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ ... And women in the city said..., such as women of chiefs and princes said, while admonishing and criticizing the wife of the Aziz, ... امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ... The wife of the Aziz is seeking to seduce her (slave) young man, she is luring her servant to have sex with her, ... قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ... indeed she loves him violently; her love for him filled her heart and engulfed it, ... إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ verily, we see her in plain error. by loving him and trying to seduce him.

داستان عشق اور حسینان مصر اس داستان کی خبر شہر میں ہوئی ، چرچے ہو نے لگے ، چند شریف زادیوں نے نہایت تعجب و حقارت سے اس قصے کو دوہرایا کہ دیکھو عزیر کی بیوی ہے اور ایک غلام پر جان دے رہی ہے ، اس کی محبت کو اپنے دل میں جمائے ہوئے ہے ۔ شغف کہتے ہیں حد سے گذری ہوئی قاتل محبت کو اور شغف اس سے کم درجے کی ہوتی ہے ۔ دل کے پردوں کو عورتیں شغاف کہتی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ عزیز کی بیوی صریح غلطی میں پڑی ہوئی ہے ۔ ان غیبتوں کا پتہ عزیز کی بیوی کو بھی چل گیا ۔ یہاں لفظ مکر اس لیے بولا گیا ہے کہ بقول بعض خود ان عورتوں کا یہ فی الواقع ایک کھلا مکر تھا ۔ انہیں تو دراصل حسن یوسف کے دیدار کی تمنا تھی یہ تو صرف ایک حیلہ بنایا تھا ۔ عزیز کی بیوی بھی ان کی چال سمجھ گئی اور پھر اس میں اس نے اپنی معزوری کی مصلحت بھی دیکھی تو ان کے پاس اسی وقت بلاوا بھیج دیا کہ فلاں وقت آپ کی میرے ہاں دعوت ہے ۔ اور ایک مجلس ، محفل ، اور بیٹھک درست کر لی جس میں پھل اور میوہ بہت تھا ۔ اس نے تراش تراش کر چھیل چھیل کر کھانے کے لیے ایک ایک تیز چاقو سب کے ہاتھ میں دیدیا یہ تھا ان عورتوں کے دھوکہ کا جواب انہوں نے اعتراض کر کے جمال یوسف دیکھنا چاہا اس نے آپ کو معذور ظاہر کرنے اور ان کے مکر کو ظاہر کرنے کے لیے انہیں خود زخمی کر دیا اور خود ان ہی کے ہاتھ سے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آپ آئے ۔ انہیں اپنی مالکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار ہو سکتا تھا ؟ اسی وقت جس کمرے میں تھے وہاں سے آگئے ۔ عورتوں کی نگاہ جو آپ کے چہرے پر پڑی تو سب کی سب دہشت زدہ رہ گئیں ۔ ہیبت و جلال اور رعب حسن سے بےخود ہوگئیں اور بجائے اس کے کہ ان تیز چلنے والی چھریوں سے پھل کٹتے ان کے ہاتھ اور انگلیاں کٹنے لگیں ۔ حضرت زیدبن اسلم کہتے ہیں کہ ضیافت باقاعدہ پہلے ہو چکی تھی اب تو صرف میوے سے تواضع ہو رہی تھی ۔ میٹھے ہاتھوں میں تھے ، چاقو چل رہے تھے جو اس نے کہا یوسف کو دیکھنا چاہتی ہو؟ سب یک زبان ہو کر بول اُٹھیں ہاں ہاں ضرور ۔ اسی وقت حضرت یوسف سے کہلوا بھیجا کہ تشریف لائیے ۔ آپ آئے پھر اس نے کہا جائیے آپ چلے گئے ۔ آتے جاتے سامنے سے پیچھے سے ان سب عورتوں نے پوری طرح آپ کو دیکھا دیکھتے ہی سب سکتے میں آگئیں ہوش حواس جاتے رہے بجائے لیموں کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔ اور کوئی احساس تک نہ ہوا ہاں جب حضرت یوسف چلے گئے تب ہوش آیا اور تکلیف محسوس ہوئی ۔ تب پتہ چلا کہ بجائے پھل کے ہاٹھ کاٹ لیا ہے ۔ اس پر عزیز کی بیوی نے کہا دیکھا ایک ہی مرتبہ کے جمال نے تو تمہیں ایسا از خود رفتہ کر دیا پھر بتاؤ میرا کیا حال ہو گا عورتوں نے کہا واللہ یہ انسان نہیں ۔ یہ تو فرشتہ ہے اور فرشتہ بھی بڑے مرتبے والا ۔ آج کے بعد ہم کبھی تمہیں ملامت نہ کریں گی ۔ ان عورتوں نے حضرت یوسف جیسا تو کہاں ان کے قریب ان کے مشابہ بھی کوئی شخص نہیں دیکھا تھا ۔ آپ کو آدھا حسن قدرت نے عطا فرما رکھا تھا ۔ چنانچہ معراج کی حدیث میں ہے کہ تیسرے آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی جنہیں آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت یوسف اور آپ کی والدہ صاحبہ کو آدھا حسن قدرت کی فیاضیوں نے عنایت فرمایا تھا ۔ اور روایت میں تہائی حسن یوسف کو اور آپ کی والدہ کو دیا گیا تھا ۔ آپ کا چہرہ بجلی کی طرح روشن تھا ۔ جب کبھی کوئی عورت آپ کے پاس کسی کام کے لیے آتی تو آپ اپنا منہ ڈھک کر اس سے بات کرتے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائے اور روایت میں ہے کہ حسن کے تین حصے کئے گئے تمام لوگوں میں دو حصے تقسیم کئے گئے اور ایک حصہ صرف آپ کو اور آپ کی ماں کو دیا گیا ۔ یا جن کی دو تہائیاں ان ماں بیٹے کو ملیں اور ایک تہائی میں دنیا کے تمام لوگ اور روایت میں ہے کہ حسن کے دو حصے کئے گئے ایک حصے میں حضرت یوسف اور آپ کی والدہ حضرت سارہ اور ایک حصے میں دنیا کے اور سب لوگ ۔ سہیلی میں ہے کہ آپ کو حضرت آدم کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے کمال صورت کا نمونہ بنایا تھا اور بہت ہی حسین پیدا کیا تھا ۔ آپ کی اولاد میں آپ کا ہم پلہ کوئی نہ تھا اور حضرت یوسف کو ان کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ پس ان عورتوں نے آپ کو دیکھ کر ہی کہا کہ معاذ للہ یہ انسان نہیں ذی عزت فرشتہ ہے ۔ اب عزیز کی بیوی نے کہا بتلاؤ اب تو تم مجھے عذر والی سمجھو گی؟ اس کا جمال و کمال کیا ایسا نہیں کہ صبر و برداشت چھین لے؟ میں نے اسے ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ میرے قبضے میں نہیں آیا اب سمجھ لو کہ جہاں اس میں یہ بہترین ظاہری خوبی ہے وہاں عصمت و عفت کی یہ باطنی خوبی بھی بےنظیر ہے ۔ پھر دھمکانے لگی کہ اگر میری بات یہ نہ مانے گا تو اسے قید خانہ بھگتنا پڑے گا ۔ اور میں اس کو بہت ذلیل کروں گی ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے اس ڈھونگ سے اللہ کی پناہ طلب کی اور دعا کی کہ یا اللہ مجھے جیل خانے جانا پسند ہے مگر تو مجھے ان کے بد ارادوں سے محفوظ رکھ ایسا نہ ہو کہ میں کسی برائی میں پھنس جاؤ ۔ اے اللہ تو اگر مجھے بچا لے تب تو میں بچ سکتا ہوں ورنہ مجھ میں اتنی قوت نہیں ۔ مجھے اپنے کسی نفع نقصان کا کوئی اختیار نہیں ۔ تیری مدد اور تیرے رحم و کرم کے بغیر نہ میں کسی گناہ سے رک سکوں نہ کسی نیکی کو کر سکوں ۔ اے باری تعالیٰ میں تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں ، تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ تو مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کردے کہ میں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ کریم و قادر نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو بال بال بچا لیا ، عصمت عفت عطا فرمائی ، اپنی حفاظت میں رکھا اور برائی سے آپ بچے ہی رہے ۔ باوجود بھرپور جوانی کے باوجود بے انداز حسن و خوبی کے ، باوجود ہر طرح کے کمال کے ، جو آپ میں تھا ، آپ اپنی خواہش نفس کی بےجا تکمیل سے بچتے رہے ۔ اور اس عورت کی طرف رخ بھی نہ کیا جو رئیس زادی ہے ۔ رئیس کی بیوی ہے ، ان کی مالک ہے ، پھر بہت ہی خوبصورت ہے ، جمال کے ساتھ ہی مال بھی ہے ، ریاست بھی ہے ، وہ اپنی بات کے ماننے پر انعام و اکرام کا اور نہ ماننے پر جیل کا اور سخت سزا کا حکم سنا رہی ہے ۔ لیکن آپ کے دل میں اللہ کے خوف سمندر موجزن ہے ، آپ اپنے اس دنیوی آرام کو اور اس عیش اور لذت کو نام رب پر قربان کرتے ہیں اور قید و بند کو اس پر ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں سے بچ جائیں اور آخرت میں ثواب کے مستحق بن جائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جہیں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے سائے تلے سایہ دے گا جس دن کوئی سایہ سوا اس کے سائے کے نہ ہوگا ۔ ( ١ ) مسلمان عادل بادشاہ ( ٢ ) وہ جوان مرد و عورت جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ( ٣ ) وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو جب مسجد سے نکلے مسجد کی دھن میں رہے یہاں تک کہ پھر وہاں جائے ( ٤ ) وہ دو شخص جو آپس میں محض اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں ( ٥ ) وہ شخص جو صدقہ دیتا ہے لیکن اس پوشیدگی سے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہات کو نہیں ہوتی ( ٦ ) وہ شخص جسے کوئی جاہ و منصب والی جمال و صورت والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ( ٧ ) وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا پھر اس کی دونوں آنکھیں بہ نکلی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 جس طرح خوشبو کو پردوں سے چھپا یا نہیں جاسکتا، عشق و محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گو عزیز مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقین کی اور یقیناً آپ کی زبان مبارک پر اس کا کبھی ذکر بھی نہیں آیا ہوگا اس کے باوجود یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور زنان مصر میں اس کا چرچا عام ہوگیا، عورتیں تعجب کرنے لگیں کی عشق کرنا تھا تو کسی پیکر حسن و جمال سے کیا جاتا، یہ کیا اپنے ہی غلام پر زلیخا فریفتہ ہوگئی، یہ تو اس کی ہی نادانی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ ۔۔ : ” نِسْوَۃٌ، نِسَاءٌ“ اور ” نِسْوَانٌ“ سب ” اِمْرَأَۃٌ“ کی جمع ہیں، مگر ” اِمْرَأَۃٌ“ لفظ سے نہیں۔ (قاموس) ” نِسْوَۃٌ“ کے ” اِمْرَأَۃٌ“ کی جمع حقیقی نہ ہونے کی وجہ ہی سے فعل ” قَالَتْ نِسْوَۃٌ“ کے بجائے : ” َقَالَ نِسْوَةٌ“ آیا ہے، کیونکہ غیر حقیقی جمع ہونے کی صورت میں ایسا ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ ” نِسَاءٌ“ آیا ہے، صرف اس آیت یا اسی سورت کی آیت (٥٠) میں کل دو مرتبہ ” نِسْوَةٌ“ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ” نِسْوَۃٌ“ جمع قلت کا وزن ہے، جو تین سے دس تک استعمال ہوتا ہے، بخلاف ” نِسَاءٌ“ وغیرہ کے کہ وہ کثرت کے لیے بھی آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عزیز کی بیوی نے چند ایک خاص عورتوں ہی کو اس مجلس کی دعوت دی تھی۔ ” شَغَفَهَا “ شغاف دل کے پردے کو کہتے ہیں، یعنی دل کے پردے کے اندر داخل ہوگیا ہے۔ بعض نے شغاف کا معنی ” سویداء القلب “ (دل کا مرکز) بھی کیا ہے۔ ” تُرَاوِدُ فَتٰىهَا “ (اپنے غلام کو پھسلاتی ہے) ان عورتوں نے ماضی کا صیغہ ” رَاوَدَتْ “ (اس نے پھسلایا ہے) کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا کہ وہ اب بھی اس سے باز نہیں آتی، بلکہ پھسلاتی رہتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور چند عورتوں نے جو کہ شہر میں رہتی تھیں یہ بات کہی کہ عزیز کی بی بی اپنے غلام کو اس سے اپنا (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کے لئے پھُسلاتی ہے (کیسی کمینہ حرکت ہے کہ غلام پر گرتی ہے) اس غلام کا عشق اس کے دل میں جگہ پکڑ گیا ہے ہم تو اس کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں سو جب اس عورت نے ان عورتوں کی بدگوئی (کی خبر) سنی تو کسی کے ہاتھ ان کو بلا بھیجا (کہ تمہاری دعوت ہے) اور ان کے واسطے مسند تکیہ لگایا اور (جب وہ آئیں اور ان کے سامنے مختلف قسم کے کھانے اور پھل حاضر کئے جن میں بعض چیزیں چاقو سے تراش کر کھانے کی تھیں اس لئے) ہر ایک کو ان میں سے ایک ایک چاقو (بھی) دے دیا (جو ظاہر میں تو پھل تراشنے کا بہانہ تھا اور اصل مقصد وہ تھا جو آگے آتا ہے کہ یہ حواس باختہ ہو کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کرلیں گی) اور (یہ سب سامان درست کر کے یوسف (علیہ السلام) کو جو کسی دوسرے مکان میں تھے) کہا کہ ذرا ان کے سامنے تو آجاؤ (یوسف (علیہ السلام) یہ سمجھ کر کہ کوئی صحیح غرض ہوگی باہر آگئے) سو عورتوں نے جب انکو دیکھا تو (ان کے جمال سے) حیران رہ گئیں اور (اس حیرت میں) اپنے ہاتھ کاٹ لئے (چاقو سے پھل تراش رہی تھیں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر ایسی بدحواسی چھائی کہ چاقو ہاتھ پر چل گیا) اور کہنے لگیں حاش للہ ! یہ شخص آدمی ہرگز نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے وہ عورت بولی تو (دیکھ لو) وہ شخص یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھ کو برابھلا کہتی تھیں (کہ اپنے غلام کو چاہتی ہے) اور واقعی میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی مگر یہ پاک صاف رہا اور (پھر یوسف (علیہ السلام) کے دھمکانے اور سنانے کو کہا کہ) اگر آئندہ میرا کہنا نہ مانے گا (جیسا کہ اب تک نہیں مانا) تو بیشک جیل خانہ بھیج دیاجاوے گا اور بےعزت بھی ہوگا ( وہ عورتیں بھی یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگیں کہ تم کو اپنی محسن عورت سے ایسی بےاعتنائی مناسب نہیں جو یہ کہے اس کو ماننا چاہئے یوسف (علیہ السلام) نے (یہ باتیں سنی کہ یہ تو سب کی سب اسی کی موافقت کرنے لگیں تو حق تعالیٰ سے) دعاء کی کہ اے میرے رب جس (ناجائز) کام کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو جیل خانہ میں جانا ہی مجھ کو زیادہ پسند ہے اور اگر آپ ان کے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں گے تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانی کا کام کر بیٹھوں گا سو ان کی دعاء ان کے رب نے قبول کی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ کو ان سے دور رکھا بیشک وہ (دعاؤں کا) بڑا سننے والا (اور انکے احوال کا) خوب جاننے والا ہے (پھر یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کی) مختلف نشانیاں دیکھنے کے بعد (جن سے خود تو اس کا پورا یقین ہوگیا مگر عوام میں چرچاہو گیا تھا اس کو قطع کرنے کی غرض سے) ان لوگوں کو (یعنی عزیز اور اس کے متعلقین کو) یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ ان کو ایک وقت تک قید میں رکھیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِي الْمَدِيْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنْ نَّفْسِہٖ۝ ٠ ۚ قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا۝ ٠ۭ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٣٠ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) راود والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، ( ر و د ) الرود المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔ فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے شغف قال تعالی: شَغَفَها حُبًّا[يوسف/ 30] ، أي : أصاب شَغَافَ قلبها، أي : باطنه، عن الحسن . وقیل : وسطه، عن أبي عليّ «3» ، وهما متقاربان . ( ش غ ف ) الشغاف ۔ دل کا اندورنی حصہ ۔ قرآن میں ہے ۔ شَغَفَها حُبًّا[يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ۔ حسن نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ یوسف کی محبت اس کہے شغاف یعنی باطن قلب تک پہنچ گئی ۔ اور ابوعلی ٰ نے وسط قلب کے معنی بیان کئے ہیں اور یہ دونوں معنی ( مآل کے لحاظ سے ) تقریبا ایک ہی ہیں ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ ضَلل وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان . جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) غرض کہ زلیخا کی اس بات کی شہر میں شہرت ہوگئی اور چار عورتوں نے یعنی بادشاہ کے ساقی کی بیوی اور قید خانہ کے داروغہ کی بیوی اور صاحب مطبخ کی بیوی اور نگران کی بیوی نے کہا کہ زلیخا اپنے غلام سے ناجائز مطلب حاصل کرنے لیے اس کو پھسلاتی ہے اس کے دل میں یوسف (علیہ السلام) کا عشق جگہ پکڑ کیا ہے ہم تو اس کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں کہ اپنے غلام یوسف (علیہ السلام) سے عشق کرتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) اس کا اپنے غلام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ! یہ تو بہت ہی گھٹیا بات ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ اللہ پاک نے اس آیت میں اس بات کی خبر دی کہ باوجود اس کے عزیز مصر نے کوشش کی کہ یوسف زلیخا کا قصہ شہر میں مشہور نہ ہو مگر بحکم قضا وقدر تمام گھروں میں اس کا چرچا ہونے لگا اور ہر رئیس و آمر کی عورتیں آپس میں اس بات کا چرچا کرنے لگیں کہ عزیز مصر کی عورت زلیخا ایک جوان پر دل و جان سے فریفتہ ہے اور وہ جوان وہی ہے جس کو اس کے شوہر نے خرید کیا ہے اس کی محبت میں دیوانی ہوگئی ہے غلام کی محبت زلیخا کے تمام رگ و ریشوں میں سرایت کرگئی ہے اسے اچھا برا کچھ نہیں سوجھتا وہ بالکل بہک گئی ہے۔ دل پر ایک جھلی جو لپٹی ہوئی ہے اس کو شفاف کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ زلیخا کے دل کو یوسف کی محبت اور الفت نے گھیر لیا ہے صحیح بخاری و مسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمانداروں کے دلوں میں اللہ و رسول کی محبت دنیا کی ہر ایک چیز سے زیادہ ہونی چاہیے ١ ؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمانداروں کے دل دنیا کی چیزوں پر زیادہ مائل نہیں ہوتے اور اس کی نشانی علماء نے یہ بتلائی ہے کہ حکم الٰہی کی تعمیل اور دنیا کی کسی غرض کا مقابلہ ان کو پڑے تو پورے ایماندار لوگ حکم الٰہی کی تعمیل کو دنیا کی غرض پر مقدم رکھتے ہیں کیوں کہ اللہ و رسول کی محبت احکام شرع کی تعمیل پر منحصر ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٢ کتاب الایمان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:30) تراود۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ بلاتی ہے۔ وہ پھسلاتی ہے۔ خواہش رکھتی ہے۔ ملاحظہ ہو 12:23 اور 12:26 ۔ فتھا۔ اس کا غلام۔ مضاف مضاف الیہ۔ الفتی۔ نوجوان۔ فتاۃ۔ نوجوان عورت فتاء مصدر۔ بعدہ ہر دو فتی وفتاہ غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے۔ شغفھا۔ شغف واحد مذکر غائب۔ ماضی ۔ شغف یشغف (فتح) شغف سے۔ جس کے معنی محبت کا دل کے پردوں میں اتر جانے کے ہیں۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب وہ (آدمی) اس عورت کے دل میں اتر گیا۔ اس نے اس کو فریفتہ کرلیا۔ شغاف کے معنی پردہ دل کے ہیں قد شغفھا حبا اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرچکی ہے۔ حبا۔ بوجہ تمیز کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ کہ اپنے غلام کے عشق میں دیوانی ہو رہی ہے۔ (از بن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٠ تا ٣٥ اسرار و معارف جب کوئی بات وقوع پذیر ہوتی ہے ترکب چھپتی ہے ۔ آخر اس کی سن گن تو نکل ہی جاتی ہے چناچہ یہ بات بھی درباری امراء کی بیویوں تک پہنچی تو انھیں بہت حیرت ہوئی کہ عجیب بات ہے کہ ایک امیر کی بیوی اور خادم پہ عاشق ہوجائے یا ایک زرخرید غلام کی محبت کی اسیر ہوجائے یہ تو بہت ہی نامناسب بات ہے۔ عزیز مصر کی بیوی اور یہ کردار تو بہت ہی غلط کام ہے ۔ لیکن ایک حدتک اندر سے وہ بھی بیقرار تھیں کہ دیکھیں کہ دیکھیں تو سہی وہ حسین ہے کیساجس پر عزیز مصر کی بیوی فدہ ہوگئی ۔ لہٰذا انھوں نے اس طرح کی باتیں بنائیں کہ زلیخا سن کر خود ہی یہ چاہے گی کہ ہم بھی دیکھ سکیں تاکہ اسے طعنہ دینے سے با زرہیں ۔ اسی لئے یہاں ان کی غیبت کو مکرکہا گیا ہے کہ یہ غیبت بھی دراصل جمال یوسف کو دیکھنے کی خفیہ تدبیر تھی اور اپنا کام کرگئی کہ جب یہ بات زلیخا کو پہنچی تو اس نے ان خواتین کی دعوت کی اور گھر کو خوب سجایا نیز طرح طرح کے کھانے اور میوہ جات جمع کئے اور صرف عورتوں عورتوں کو کھا نے پہ بلایاکھا نے کی میزپر چاقوچھریاں یاچھری کانٹے بھی تھے کہ گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھاتے تھے نیز فروٹ بھی چھری سے کاٹ کر کھاتے تھے ۔ لہٰذا جب وہ دعوت میں مصروف ہوگئیں گوشت کاٹ کاٹ کر کھانے لگیں تو زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کو کھانے کے کمرے میں بلوالیا جو غالب پہلے کسی نے بھی ان میں دیکھ نہ پائے تھے اور زلیخا انہیں سب کی نگاہوں سے بچاکررکھتی تھی ۔ صاحب مظہری (رح) لکھتے ہیں کہ جس سورج کی دھوپ دیواروں پہ چمکتی ہے جمال یوسف (علیہ السلام) سے اس طرح دیواریں تک چمک اٹھتی تھیں لہٰذا جب اس کمرے میں داخل ہوئے تو سب کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور بوکھلا کر گوشت کی بجائے اپنے ہاتھ زخمی کرلئے اور پکار اٹھیں کہ اللہ قسم ! یہ ہرگز بشر نہیں ہوسکتا اور نہ اتنی روشنی کسی انسانی چہرے کی ہوسکتی ہے ہاں ! یہ کوئی بہت ہی خوبصورت فرشتہ ہے کہ وہ لوگ اللہ اور فرشتوں کے وجود کے قائل تھے مگر اپنے انداز سے مانتے تھے۔ عصمت کا تذکرہ اب زلیخابولی کہ اسی شخص کا طعنہ مجھے دے رہی ہو حالانکہ تم سے تو اس کی ایک جھلک بھی برداشت نہ ہوسکی تو سنو ! میں نے اسے دعوت گناہ دینے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی مگر یہ صاف بچ گیا ۔ یہاں بھی قرآن حکیم نے فاستعصم فرمایا عصمت نبوت کے انداز بیان فرمائے کہ بالکل پاک صاف رہا خود زلیخا تک یہ نہیں کہتی کہ انھیں بھی خیال تو تھا مگر جرأت نہ کرسکے ۔ بلکہ وہ جو مدعی ہے وہ تو اپنے جرم کا اقرار کرتی ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت بیان کرتی ہے ۔ زلیخاکا حال حیرت ہے ان پر جو آپ پر بھی ایسا خیال رکھنے کا گمان کرتے ہیں بلکہ زلیخا تو اپنی بات پر ہنوز قائم ہے اور اب تو سب عورتوں کے روبروکہہ رہی ہے کہ اسے اب بھی میری بات مانے بغیر چارہ نہ ہوگا بلکہ اگر مانے گا نہیں تو میں اسے تباہ کردوں گی اسے جیل میں سڑنا ہوگا اور ذلت ورسوائی سے عمر بسر کرنا پڑے گی۔ علماء نے زلیخا کے اسی کردار پر اعتراض فرمایا ہے کہ اسے کے نبی سے محبت نہ تھی وہ تو اپنے نفس کی غلام تھی۔ اگر خواہش پوری ہوتی نظرنہ آئے تو انھیں نقصان پہنچا نے کے درپے ہے جو بعد میں وہ کر بھی گزری تو اس اخلاق کی مالک عورت اس قابل نہیں کہ وہ کسی بھی نبی کی زوجیت کا شرف پائے حضرت نوح (علیہ السلام) یا لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کے کفر کا تذکرہ ہے کہ کفرطاری ہونے والا گنا ہ ہے ۔ عقیدے کا فساد ہے مگر عمل وکردار کا فساد نبی کے وجود سے ملحق نہیں رہ سکتا ۔ لہٰذا زلیخا کی شادی بھی یوسف (علیہ السلام) سے نہ ہوسکی اور یوں بھی جب آپ جیل سے رہا ہوئے تو وہ شادی کی عمر سے گزرچکی تھی ۔ اک زلیخا کیا کم فتنہ تھی کہ اب ساری کی ساری عورتیں جو اس مجلس میں تھیں فدا ہوگئیں اور لکیں آپ کو درغلانے خواہ زلیخا ہی کے بہانے سہی کہ اسی کی بات مان لو اس نے آپ پر کتنے احسان کتے ہیں کس نازونعمت سے پرورش کی ہے اور آپ سے کتنی محبت رکھتی ہے ورنہ مصر کی جیل شاید آپ نہ جانتے ہوں بڑی تکلیف دہ جگہ ہے کم ہی لوگ سلامت نکل پاتے ہیں کم ازکم اپنے اوپرہی رحم کھاؤانھیں بھی خیال تھا کہ جب کوئی برائی میں ملوث ہوتا ہے تو پھر زیادہ بھی کرسکتا ہے مگر عصمت نبوت کی عظمتوں کا اندازہ نہ تھا ۔ جہالت آپ نے التجا کی اے میرے رب ! اے میرے پالنے اور سنبھالنے والے پروردگار ! تیری نافرمانی سے جیل بھی محبوب ہے ۔ تیری نافرمانی مصر کی جیل سے زیادہ سخت کام ہے اور اگر تو میری حفاظت نہ فرمائے تو میں بھی آخرانسان ہوں اور یہ ملک بھر کی جیل سے زیادہ سخت کام ہے اور اگر تو میری حفاظت نہ فرمائے تو میں بھی آخرانسان ہوں اور یہ ملک بھر کی حسین عورتیں مجھے ورغلانے پہ تل گئی ہیں تیری حفاظت یعنی عصمت نبوت کے بغیر بھلا کوئی صورت بچ جانے کی ہے مجھے تو نظر نہیں آرہی اور اگر ان کی طرف میلان بھی کرتا ہوں تو یہ بہت بڑی جہالت ہوگی ۔ علماء فرماتے ہیں کہ یہاں ثابت ہے کہ مومن کا گناہ جہالت ہے ۔ اور یوسف (علیہ السلام) کو جیل جانے کا شوق نہ تھا بلکہ اللہ کی نافرمانی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت کو ہیچ سمجھا ۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ میرے بھائی یوسف پہ رحم فرمائے انھوں نے جیل کیوں طلب فرمائی اللہ سے عافیت طلب فرماتے ۔ اوکمال قال۔ لہٰذا اللہ سے کسی بھی بڑی مصیبت کے بدلے چھوٹی بھی طلب نہ کی جائے بلکہ عافیت طلب کی جانی چاہیئے جیسے حضرت عباس (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اللہ سے کس چیز کا سوال کروں ؟ فرمایا عافیت مانگیں کچھ روز بعد پھر عرض کیا اللہ سے کیا مانگوں ؟ فرمایا عافیت ! اور ایک شخص صبر کی دعامانگ رہا تھا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے لئے مصیبت لا رہے ہو جس پر صبر کروگے اللہ سے عافیت طلب کرو۔ چنانچہ رب جلیل نے انھیں ان عورتوں کے شر سے بالکل ہی دور کردیا اور ان کے ورغلانے سے پوری طرح محفوظ فرمادیا کہ عزیز مصر کو خیال گزرا جو اگرچہ آپ کے مزاج کی پاکیزگی کا معترف بھی تھا ۔ پھر بچے کے بولنے اور دلیل سے بھی تسلی ہوگئی مگر بےقصور ہونے کے باوجود آپ کا سزانہ پانا اس کی بیوی کو بدنام کردے گا آخرجب باہر چرچاہوگا تو لوگ کیا کہیں گے لہٰذا بہتریہی ہے کہ انھیں قید کردیا جائے اور لوگ انھیں بھول جائیں اگر کوئی بات کرے تو یہ خیال کرے کہ ان سے غلطی ہوئی ہزا پار ہے ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 32 نسوۃ (امراۃ کی جمع ہے) عورتیں، خواتین، المدینۃ (شہر) تراود (آمادہ کرتی ہے۔ مانگتی ہے ) فتی (نوجوان) شغفت (دیوانہ کردیا ہے۔ اس کو پھیر دیا ہے ۔ حب (محبت) انا لنری (بےشک ہم البتہ دیکھتے ہیں، دیکھتی ہیں) ضلل مبین (کھلی گمراہی میں) سمعت (اس عورت نے سنا) مکر (دھوکہ، فریب، تدبیر) ارسلت (بھیجا، بلوا بھیجا) اعتدت (تیاری کی) متکا (بیٹھنے کی جگہ، تکئے لگی جگہ اتت (دیدیا) کل واحدۃ (ہر ایک) سکین (چھری، چاقو) اخرج (نکل) راینہ (انہوں نے اس کو دیکھا) اکبرنہ (وہ عورتیں حیران رہ گئیں) قطعن (کاٹ ڈالا ان عورتوں نے ایدیھن (اپنے ہاتھ کو) قلن (ان عورتوں نے کہا ) حاش للہ (اللہ کی قسم، اللہ کی پناہ ) بشر (انسان) ملک کریم (باعزت فرشتہ ) فذلکن (پس یہی ہے تمہارا وہ ) لمتننی (تم نے مجھے ملامت کی تھی ) استعصم (وہ محفوظ رہا، وہ بچا رہا ہے ) لم یفعل (نہ کیا) ما امرہ (جو میں نے اس کو حکم دیا ہے ) لیسجنن (البتہ وہ قید کردیا جائے گا ) الصغرین (ذلیل خوار ہونے والے) تشریح آیت نمبر 30 تا 32 عزیز مصر نے حضرت یوسف سے کہا کہ وہ زلیخا کی زیادتی کو نظر انداز کردیں۔ اس نے کہا مجھے ان عورتوں کے مکر و فریب کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ حضرت یوسف نے اس واقعہ کو کسی سے بیان نہیں کیا لیکن کسی طرح یہ بات مصر کی امیر زادیوں اور بیگمات تک پہنچ ہی گئی۔ عورتوں میں اس کا چرچا شروع ہوگیا۔ بیگمات نے کہنا شروع کردیا کہ کتنے افسوس کا مقام ہے اتنے بڑے گھر کی ایک عورت اپنے ایک خوبصورت غلام کے پیچھے پڑ کر عشق و محبت میں دیوانی اور پاگل ہوچکی ہے۔ جب زلیخا کو عورتوں کے مکر و فریب کی باتوں کا علم ہوا تو اس نے شہر کی تمام بیگمات کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس نے خاص طور پر بہترین مجلس کا اہتمام کیا جس میں تکئے لگے ہوئے تھے اور پر تکلف دعوت میں بعض ایسی چیزیں رکھ دی گئیں جو چاقو سے کاٹ کر کھائی جاتی ہیں۔ عورتوں نے ہاتھوں میں چھریاں اور چاقو لئے اور پھلوں کو کاٹ کر کھانا شروع کیا۔ اسی دوران زلیخا نے حضرت یوسف کو بلا بھیجا۔ جیسے ہی حضرت یوسف ان عورتوں کے سامنے آئے وہ بیگمات تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ حضرت یوسف کو دیکھنے میں اس قدر گم ہوگئیں کہ انہوں نے پھل کاٹتے کاٹتے اپنی انگلیاں ہی زخمی کر ڈالیں۔ حضرت یوسف کے حسن و جمال نے پوری محفل میں ایک ہل چل مچا کر رکھ دی اور بیگمات سمجھ گئیں کہ ایسے حسین و جمیل انسان پر مر مٹنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ حضرت یوسف کے چلے جانے کے بعد جب ان بیگمات کو ہوش آیا تو وہ سب کہہ اٹھیں کہ واقعی یہ تو بشر نہیں ہے بلکہ کوئی حسین و جمیل فرشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ بیگمات کی محویت کو دیکھنے کے لئے بعد زلیخا نے کہنا شروع کیا کہ واقعی مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے میری طرف نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ مگر میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اس کو قید خانے بھجوا کر رہوں گی اور یہ ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا۔ زلیخا اور بیگمات مصر کی چبھتی ہوئی پر شوق نگاہوں سے حضرت یوسف بہت کچھ سمجھ گئے تھے اور انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرنا شروع کردی کہ الٰہی مجھے ان عورتوں کی مکر و فریب سے محفوظ فرما۔ مجھے جیل جانا پسند ہے لیکن میں اس بات کو گوارا نہیں کرسکتا کہ ان بیگمات کا سایہ بھی میرے اوپر پڑے۔ اس کی تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔ حضرت یوسف کا کردار اور زندگی دنیا بھر کے تمام نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے جنہوں نے بھرپور جوانی میں بھی اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے بچا کر عفت و عصمت پاکیزگی اور نزہت و عظمت کی ایک عظیم مثال قائم فرما دی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عزیز مصر کے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے باوجود بات امراء کے گھروں تک پہنچی۔ جوں جوں بات امراء کے گھرانوں میں پہنچتی گئی ہر عورت نے اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرہ کیا۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عزیز مصر کی بیوی کس قدر جذباتی اور بیوقوف ہے کہ وہ زر خرید غلام پر فریفتہ ہوچکی ہے۔ ” شَغَفَھَاحُبًّا “ کے بارے میں اہل لغت نے لکھا ہے کہ اس سے مراد دل کے اندر وہ خلا، حلقہ یا وہ ہلکی سی جھلی ہے جو دل کے اوپر دکھائی دیتی ہے۔ اس کا معنٰی دل پر محبت کی چوٹ لگنا بھی لیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی پر حضرت یوسف کی غالب ہوچکی تھی اور وہ اپنے زر خرید غلام کے ہاتھ اپنا دل ہار بیٹھی۔ جب ان باتوں کا عزیز مصر کی بیوی کو علم ہوا تو اس نے تمام عورتوں کو ایک دعوت میں مدعو کیا۔ جس میں شاندار طریقے کے ساتھ تکیے سجائے گئے اور ہر کسی کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ پھل رکھتے ہوئے ایک ایک چھری رکھ دی گئی۔ ممکن ہے اس وقت بھی چھری کانٹے سے کھانے کا رواج ہو۔ اس کے بعد عزیز مصر کی بیوی نے کسی بہانے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان عورتوں کے سامنے بلایا۔ جب یوسف (علیہ السلام) اندر آئے تو عورتوں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو خودسپردگی کے عالم میں اپنے ہاتھ زخمی کرلیے۔ اس کے ساتھ ہی بےساختہ ان کے منہ سے نکلا۔ یہ بشر نہیں بلکہ ایک معزز فرشتہ ہے۔ ان کے جذبات دیکھ کر اس عورت کو اور حوصلہ ملا۔ جس بنا پر اس نے سب کے سامنے کھل کر کہا کہ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ تم نے دیکھ لیا کہ یوں ہی نہیں میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ بچ نکلا۔ اگر اس نے اب میری حکم عدولی کی تو اسے جیل خانہ میں ڈال کر ذلیل کیا جائے گا۔ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کو دیکھتے ہی نہ صرف انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے بلکہ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و صورت سے متاثر ہو کر ایک دوسرے سے بڑھ کر فریفتہ ہو رہی تھیں۔ گویا کہ یہاں یک نہ شد دو شد سے بھی معاملہ کہیں آگے گزر چکا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس ماہ جبیں کی کیفیت یہ تھی کہ نگاہیں زمین پر گڑھی ہوئی تھیں۔ گناہ کے ماحول سے پریشان اور اللہ کے ڈر سے خوفزدہ ہو کر دل ہی دل میں اللہ کی پناہ مانگ رہے ہیں۔ اس واقعہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں مصر کے پوش محلوں اور (ہائی جینٹری) High Gentry کی اخلاقی حالت کیا تھی کہ سر عام اور کھلے الفاظ میں ایک نہیں سب بیگمات خود سپردگی کی کیفیت میں ایک غیر محرم کے سامنے نسوانی جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے پرستار انہیں روکنے ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس طرح آج یورپ، امریکہ بلکہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی یہ ماحول پیدا ہوچکا ہے جو کسی بھی معاشرے کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتا۔ حسن یوسف : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ ثُمَّ عَرَجَ بِیْٓ إِلَی السَّمَآء الثَّالِثَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ فَقِیْلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِیْلُ قِیْلَ وَمَنْ مَّعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قِیْلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوْسُفَ إِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِیْ بِخَیْرٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الاسرا ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ پھر مجھے تیسرے آسمان پر چڑھایا گیا جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا گیا کون ہے جواب ملا جبرائیل۔ پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو لینے کے لیے بھیجا گیا تھا جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں انہیں لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دروازہ کھول دیا گیا وہاں یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری کائنات کے حسن کا آدھا حصہ عطا فرمایا تھا۔ تو اس نے خوش آمدید کہا اور میرے لیے بھلائی کی دعا کی۔ “ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ ٢۔ اللہ کا نبی صورت و سیرت کے لحاظ سے اعلیٰ ترین انسان ہوتا ہے۔ ٣۔ بعض عورتیں جذبات کی خاطر اپنی عزت بھی داؤ پر لگادیتی ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حالات یہ ہیں کہ اس عورت اور اس کے اس غلام کے درمیان ابھی تک جدائی نہیں ہے۔ حالات روٹین کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں اور بڑے بڑے محلات میں حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن محلات کی دیواریں ہوتی ہیں اور دیواروں کے کان ہوتے ہیں۔ قدم اور چشم ان کے اندر ہوتے ہیں ، اندر جو کچھ ہوتا ہے ، وہ لازماً باہر آتا ہے ، خصوصا اونچے اور مراعات یافتہ طبقات کے محلات ہیں۔ ان محلات کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ لوگوں کی مجالس ، محافل میں اور زبانوں پر ہوتا ہے۔ لوگوں کی راتوں کے لیے یہ چٹ پٹا مسالہ ہوتا ہے۔ شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔ یہ کلام اور یہ چہ میگوئیاں بعینہ ایسی ہیں جیسا کہ ہر جاہلی دور میں موضوع سخن ہوتی ہیں۔ یہاں آ کر ہمیں پہلی مرتبہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت عزیز مصر کی بیوی ہے اور یہ کہ حضرت یوسف کو مصر کے جس شخص نے خریدا تھا وہ عزیز مصر تھا ، یعنی مصر کا وزیر اعظم۔ اس شخص کے نام اور اس کی بیوی کے نام کو ابھی تک مجمل رکھا گیا تھا ، اب نام اس لیے لیا گیا کہ پورا مصر اس واقعہ سے خبردار ہوگیا ہے۔ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖ ۚ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۭ اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔ یعنی عورت کا حال یہ ہے کہ وہ اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ عاشق زار بن گئی ہے۔ غلام کی محبت اس کے دل کے پردے میں اتر گئی ہے۔ شفاف اس پردے کو کہتے ہیں جس کے اندر دل لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حرکت اس عورت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ خاتون اول اور وزیر اعظم کی بیوی ہوتے ہوئے وہ عبرانی غلام پر عاشق ہوجائے جو زرخرید ہے (فتٰھا) کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ شاید اس جاہلی سوسائٹی میں فری سیکس اس قدر معیوب نہ تھا مگر عبرانی زرخرید غلام کے ساتھ زیادہ معیوب تھا۔ اب وہ بات وقوع پذیر ہوتی ہے ، جو ایسے ہی نام نہاد اونچے طبقات ہی میں وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔ یہ خود سر عورت ایک دوسرا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ جانتی ہے کہ مصری عورتوں کی مکاریوں اور پروپیگنڈے کا جواب وہ کس طرح دے گی۔ ذرا ملاحظہ ہوں اگلی آیات۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شہر کی عورتوں کا عزیز مصر کی بیوی پر طعن کرنا اور ان کا جواب دینے کے لیے عورتوں کو بلانا ‘ پھر ان کا اپنے ہاتھوں کو کاٹ لینا عزیز مصر نے تو معاملہ کو وقتی طور پر رفع دفع کردیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہہ دیا کہ اس قصے کو یہیں تک رہنے دینا آگے مت بڑھانا لیکن خبر کسی طرح شہر کی عورتوں کو پہنچ گئی وہ آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ دیکھو عزیز مصر کی بیوی کو کیا ہوا بڑے گھر کی عورت ہے لیکن اپنے غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے پھسلا رہی ہے۔ غلام اس لئے کہا کہ اس کا شوہر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید کر لایا تھا اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ اول تو یہ عورت شوہر والی ہے اسے اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف مائل ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ پھر مائل بھی ہوئی تو کس پر جو اس کے برابر کا نہیں ‘ نہ تو عمر میں برابر نہ مرتبہ میں برابر ‘ دونوں میں سے کوئی ایک برابری بھی ہوتی تو ایک بات تھی ‘ (قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا) بس جی اس غلام کی محبت تو بری طرح اس کے دل میں گھر کرگئی ہے۔ اسے اس محبت نے یہ بات سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ میں کس سے لگ رہی ہوں اور کس کی طرف مائل ہو رہی ہوں۔ (اِنَّا لَنَرٰھَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍٍ ) ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑگئی۔ عزیز مصر کی بیوی کو عورتوں کی باتیں پہنچ گئیں انہوں نے جو باتیں کی تھیں وہ اس نے سن لیں ان کی باتوں کو مکر سے تعبیر کیا کیونکہ وہ ظاہر میں تو اسے بیوقوف بنا رہی تھیں اور اندر سے ان کا جذبہ یہ تھا کہ ہم اس پر لعن طعن کریں گے تو اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے ہمیں بھی غلام کا مشاہدہ کرا دے گی (ذکرہ صاحب الروح عن البعض) بہر حال جب عزیز مصر کی بیوی کو عورتوں کی باتوں کا علم ہوا تو اس نے ان عورتوں کو بلوا بھیجا کہ وہ میرے گھر آئیں اور کچھ کھا پی لیں ان عورتوں کے بیٹھنے کے لیے اس نے عمدہ قسم کے بستر بچھا دئیے اور تکئے لگا دئیے تاکہ وہ آئیں تو تکیہ لگا کر بیٹھ جائیں جب وہ آئیں تو انہیں بٹھا دیا اور ان کے ہاتھوں میں ایک ایک چھری دے دی چھری دینے کا کیا مطلب تھا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس نے چھریوں کے ساتھ کھانے کے لیے گوشت بھی دے دیا تھا کیونکہ گوشت کو دانتوں سے نوچ کر نہیں کھاتے تھے بلکہ چھری سے کاٹتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ سنترہ کی طرح کوئی چیز کھانے کو دے دی تھی تاکہ وہ اس چھری سے کاٹ کر کھائیں اس قول کی تائید مُتَّکَاً کی قرأت سے ہوتی ہے جس کا معنی ترنج یا سنترہ کیا گیا ہے یہ قرأت عشرہ میں سے تو نہیں ہے البتہ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر اور مجاہد اور قتادہ (رض) سے نقل کی ہے قرأت شاذہ سے کسی ایک محتمل معنی کی تائید ہوسکتی ہے ‘ عین اس وقت میں جبکہ ان عورتوں کے ہاتھ میں چھریاں تھیں اور جو کچھ ان کے سامنے تھا اسے کاٹنا ہی چاہتی تھیں کہ عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو آواز دی کہ آؤ اندر سے نکلو اور ان عورتوں کے سامنے آجاؤ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) سامنے آئے تو ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر وہ عورتیں ششدر رہ گئیں اور ایسی مبہوت اور حیران ہوئیں کہ انہیں یہ بھی دھیان نہ رہا کہ ہم کیا کاٹ رہی ہیں سنترہ وغیرہ جو کچھ ان کے سامنے تھا اسے کاٹنے کی بجائے انہوں نے اپنے ہاتھ ہی کاٹ ڈالے اور کہنے لگیں کہ حاشا اللہ یہ شخص بشر نہیں ہے بلکہ یہ تو بڑے مرتبہ کا فرشتہ ہی ہے ‘ یہ ان عورتوں نے اس لئے کہا کہ فرشتے کا بےمثال حسین و جمیل ہونا ان کے یہاں معروف و مشہور تھا جیسے کہ شیطان کی بد صورتی کو سبھی جانتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ حسن و جمال عطا فرمایا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب معراج کی رات میں آسمانوں پر تشریف لے گئے تو وہاں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ملاقات کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا اذا ھو قد اعطی شطر الحسن (یعنی ان کو آدھا حسن دیا گیا ہے) ۔ (رواہ مسلم ص ٩١ ج) جب عورتیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر مبہوت ہوگئیں اور ایسی حیران ہوئیں کہ اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تو عزیز مصر کی بیوی ان عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے بول اٹھی کہ تم نے دیکھا یہ غلام کیسا ہے ؟ تم مجھے اس کے بارے میں ملامت کر رہی تھیں اب اپنا حال دیکھ لو تم تو اسے دیکھ کر اپنے ہاتھ ہی کاٹ بیٹھیں ‘ یہ بات کہہ کر اس عورت نے اپنی صفائی پیش کردی بلکہ اپنی مجبوری ظاہر کردی میں عاشق نہ ہوتی تو کیا کرتی وہ تو چیز ہی ایسی ہے جس پر فریفتہ ہوئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے عزیز مصر کی بیوی نے کہا کہ واقعی میں نے اپنا مطلب نکالنے کے لیے اسے پھسلایا تھا لیکن یہ بچ گیا اس طرح سے اس نے اس بات کا صاف اقرار کرلیا جس کا اپنے شوہر کے سامنے انکار کرچکی تھی ‘ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت بھی ظاہر کردی اور ساتھ ہی یوں بھی کہہ دیا کہ یہ ابھی میرے پھندہ سے نکلا نہیں ہے میرا تقاضا برابر جاری رہے گا اگر اس نے میری بات نہ مانی اور میرے حکم پر عمل نہ کیا تو اسے ضرور بالضرور جیل ہی میں بھیج دیا جائے گا اور اسے ضرور بالضرور ذلت اٹھانی پڑے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ یہ پندرہ احوال میں سے چھٹا حال ہے۔ زلیخا کے اس واقعہ کی خبر آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور مصر کی ہر عورت کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو برائی پر اکسانے کی کوشش کرتی ہے اور اس پر دل و جان سے فریفتہ ہوچکی ہے۔ ” قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا “ یوسف کی محبت زلیخا کے دل کے پردے کو چاک کر کے اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے۔ خرق حبہ شغاف قلبھا حتی وصل الی الفؤاد (مدارک ج 2 ص ص 168) ۔ ” لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ “۔ وہ نری بےعقل اور صریح غلطی میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 یہ واقعہ شہر میں مشہور ہوگیا اور شہر کی چند عورتوں نے آپس میں تذکرہ کیا اور یہ بات کہی کہ عزیر کی بیوی اپنے غلام سے ناجائز خواہش پوری کرنے کی غرض سے اس کو پھسلاتی ہے یوسف کا عشق اس کے دل میں پیوست ہوگیا ہے اور یوسف (علیہ السلام) کی محبت نے اس کے دل میں گھر کرلیا ہے یقینا ہم اس کو صریح غلطی میں دیکھتی ہیں۔ یعنی جب شہر میں یہ چرچا پھیلا تو کچھ عورتوں نے آپس میں اس قسم کا تذکرہ کیا کہ ہم تو عزیر کی بیوی کو کھلی غلطی میں مبتلا پاتی ہیں کہ وہ غلام پر فریفتہ ہوگئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی غلام اس قابل کیا ہوگا 12 بعض اہل تحقیق نے کہا ہے کہ یہ عورتیں بڑی چالاک تھیں ان کو اعتراض یہ تھا کہ ذلیخا کو پھسلانا بھی نہ آیا اگر ذلیخا ہمارے مشورے پر چلتی تو ہم دکھاتیں کہ کس طرح یوسف (علیہ السلام) ذلیخا کی خواہش پورش نہ کرتا۔