Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 31

سورة يوسف

فَلَمَّا سَمِعَتۡ بِمَکۡرِہِنَّ اَرۡسَلَتۡ اِلَیۡہِنَّ وَ اَعۡتَدَتۡ لَہُنَّ مُتَّکَاً وَّ اٰتَتۡ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنۡہُنَّ سِکِّیۡنًا وَّ قَالَتِ اخۡرُجۡ عَلَیۡہِنَّ ۚ فَلَمَّا رَاَیۡنَہٗۤ اَکۡبَرۡنَہٗ وَ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ وَ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۱﴾

So when she heard of their scheming, she sent for them and prepared for them a banquet and gave each one of them a knife and said [to Joseph], "Come out before them." And when they saw him, they greatly admired him and cut their hands and said, "Perfect is Allah ! This is not a man; this is none but a noble angel."

اس نے جب ان کی اس پر فریب غیبت کا حال سنا تو انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے ایک مجلس مرتب کی اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی ۔ اور کہا اے یوسف ان کے سامنے چلے آؤ ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور زبان سے نکل گیا کہ حاشا للہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں ، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ ... (So when she heard of their accusation,) especially their statement, "indeed she loves him violently." Muhammad bin Ishaq commented, "They heard of Yusuf's beauty and wanted to see him, so they said these words in order to get a look at him. " This is when, ... أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ ... she sent for them, invited them to her house, ... وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً ... and prepared a banquet for them. Ibn Abbas, Sa'id bin Jubayr, Mujahid, Al-Hasan, As-Suddi and several others commented that; she prepared a sitting room which had couches, pillows (to recline on) and food that requires knives to cut, such as citron. This is why Allah said next, ... وَاتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا ... and she gave each one of them a knife, as a part of her plan of revenge for their plot to see Yusuf, ... وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ... and she said (to Yusuf): "Come out before them." for she had asked him to stay somewhere else in the house, ... فَلَمَّا ... Then, when, he went out and, ... رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ ... they saw him, they exalted him, they thought highly of him and were astonished at what they saw. ... وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ... and (in their astonishment) cut their hands. They started cutting their hands in amazement at his beauty, while thinking that they were cutting the citron with their knives. Therefore, they injured their hands with the knives they were holding, according to several reports of Tafsir. Others said that; after they ate and felt comfortable, and after having placed citron in front of them, giving each one of them a knife, the wife of the Aziz asked them, "Would you like to see Yusuf?" They said, "Yes." So she sent for him to come in front of them and when they saw him, they started cutting their hands. She ordered him to keep coming and going, so that they saw him from all sides, and he went back in while they were still cutting their hands. When they felt the pain, they started screaming and she said to them, "You did all this from one look at him, so how can I be blamed? ... وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَـذَا بَشَرًا إِنْ هَـذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ They said: "How perfect is Allah! No man is this! This is none other than a noble angel!" They said to her, "We do not blame you anymore after the sight that we saw." They never saw anyone like Yusuf before, for he, peace be upon him, was given half of all beauty. An authentic Hadith stated that the Messenger of Allah passed by Prophet Yusuf, during the Night of Isra' in the third heaven and commented, فَإِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْن He was given a half of all beauty. Mujahid and others said (they said): "We seek refuge from Allah, مَا هَـذَا بَشَرًا (No man is this!)" They said next, إِنْ هَـذَا إِلاإَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 زنان مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن و ملامت کو مکر سے تعبیر کیا گیا، جس کی وجہ سے بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان عورتوں کو بھی یوسف کے بےمثال حسن و جمال کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ چناچہ وہ اس پیکر حسن کو دیکھنا چاہتی تھیں چناچہ وہ اپنے اس مکر خفیہ تدبیر میں کامیاب ہوگئیں اور امرأۃ العزیز نے یہ بتلانے کے لیے کہ میں جس پر فریفتہ ہوئی ہوں، محض ایک غلام یا عام آدمی نہیں ہے بلکہ ظاہر و باطن کے ایسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے دیکھ کر نقد دل و جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہیں، لہذا ان عورتوں کی ضیافت کا اہتمام کیا اور انھیں دعوت طعام دی۔ 31۔ 2 یعنی ایسی نشست گاہیں بنائیں جن میں تکئے لگے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل بھی عربوں میں ایسی فرشی نشست گاہیں عام ہیں۔ حتی کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی ان کا اہتمام ہے۔ 31۔ 3 یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پہلے چھپائے رکھا، جب سب عورتوں نے ہاتھوں میں چھریاں پکڑ لیں تو امراۃ العزیز (زلیخا) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ 31۔ 4 یعنی حسن یوسف (علیہ السلام) کی جلوہ آرائی دیکھ کر ایک تو ان کے عظمت و جلال شان کا اعتراف کیا اور دوسرے، ان پر بےخودی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ چھریاں اپنے ہاتھوں پر چلا لیں۔ جس سے ان کے ہاتھ زخمی اور خون آلودہ ہوگئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نصف حسن دیا گیا ہے (صحیح مسلم) 31۔ 5 اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فرشتے شکل وصورت میں انسان سے بہتر یا افضل ہیں۔ کیونکہ فرشتوں کو تو انسانوں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں انسان کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں صراحت کی ہے کہ ہم نے اسے احسن تقویم بہترین انداز میں پیدا کیا ہے۔ ان عورتوں نے بشریت کی نفی محض اس لیے کی کہ انہوں نے حسن وجمال کا ایک ایسا پیکر دیکھا تھا جو انسانی شکل میں کبھی ان کی نظروں سے نہیں گزرا تھا اور انہوں نے فرشتہ اس لیے قرار دیا کہ عام انسان یہی سمجھتا ہے فرشتے ذات وصفات کے لحاظ سے ایسی شکل رکھتے ہیں جو انسانی شکل سے بالاتر ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انبیاء کی غیر معمولی خصوصیات و امتیازات کی بناء پر انھیں انسانیت سے نکال کر نورانی مخلوق قرار دینا، ہر دور کے ایسے لوگوں کا شیوہ رہا ہے جو نبوت اور اس کے مقام سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] شہر کی عورتوں کی چہ میگوئیاں اور زلیخا کو طعنے :۔ جس بات کا عزیز مصر کو خطرہ تھا وہ ہو کے رہی۔ رفتہ رفتہ یہ بات شہر کی عورتوں میں پھیل ہی گئی کہ عزیز مصر کی بیوی زلیخا اپنے غلام پر عاشق ہے۔ اس نے اسے اپنے دام تزویر میں پھنسانا چاہا تھا۔ لیکن وہ اس کے ہتھے نہیں چڑھ سکا۔ اتنی بات تو حقیقت تھی، پھر اس بات پر عورتوں کے تبصرے کرنا بالخصوص عورتوں کا ہی میدان ہے۔ وہ کئی لحاظ سے زلیخا کو مطعون کر رہی تھیں۔ ایک یہ کہ وہ اس درجہ گھٹیا عورت ہے کہ اپنے غلام پر عاشق ہوگئی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اتنی بدھو ہے کہ اگر وہ یوسف پر فریفتہ ہو ہی گئی تھی تو اسے اپنی طرف مائل بھی نہ کرسکی۔ ورنہ ایک نوجوان کو اپنی طرف مائل کرلینا ایک جوان عورت کے لیے کون سی بڑی بات ہے ؟ [٣٠] ضیافت کا اہتمام :۔ شہر کی عورتوں کی ایسی باتوں سے زلیخا کو بہت تکلیف ہوئی، تاہم وہ اپنے آپ کو اس معاملہ میں معذور سمجھتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی عورت ایسی نہیں ہوسکتی جو یوسف جیسے حسین و جمیل نوجوان کو دیکھ لے تو پھر اس پر فریفتہ نہ ہو اور دوسرے اسے یہ بھی یقین ہوچکا تھا کہ کوئی عورت خواہ کتنا ہی بن ٹھن کر یوسف کے سامنے آئے وہ اتنا عظیم اور پارسا انسان ہے کہ وہ اس کی طرف مائل نہیں ہوسکتا۔ اب انھیں دو باتوں کے تجربہ کے لیے اور باتیں بنانے والی عورتوں پر اتمام حجت اور انھیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے اس نے ایک تدبیر سوچی۔ اس نے ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا اور پھل وغیرہ مہیا کیے، اور ساتھ ہی چاقو چھریاں بھی پھل چھیلنے اور کاٹنے کے لیے رکھ دیں اور اس طرح کی باتیں بنانے والی سب عورتوں کو اس ضیافت میں بلایا۔ جب عورتیں آگئیں اور کھانے پینے میں مشغول ہوگئیں تو زلیخا نے یوسف کو اس مجلس میں بلا لیا عورتیں یوسف کا حسن و جمال دیکھ کر اس قدر محو نظارہ اور بےخود ہوگئیں کہ ان کی چھریاں پھلوں پر چلنے کی بجائے ان کے اپنے ہاتھوں پر چل گئیں اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے معراج کا واقعہ بیان کرنے کے دوران فرمایا : جب تیسرے آسمان کا دروازہ کھولا گیا تو وہاں سیدنا یوسف سے ملاقات ہوئی۔ اللہ نے حسن کا آدھا حصہ انھیں عطا کیا تھا && (مسلم، کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللہ الی السموات وفرض الصلوات) تبصرہ کرنے والی عورتوں کی شہادت :۔ پھر انہوں نے یہ بھی بچشم خود دیکھ لیا کہ ان کی ساری دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود یوسف کسی طرف نظر اٹھاکر دیکھتا بھی نہیں تو بےساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے یہ بات ناممکنات سے ہے ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کہ وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَيْهِنَّ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر اکثر بلکہ تقریباً سبھی مفسرین نے یہ کی ہے اور اس کے لیے جس تاویل کی ضرورت پڑی وہ بھی کرتے گئے ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب شہر میں اس واقعہ کی شہرت ہوئی تو عورتوں نے طعن و تشنیع اور ملامت کے تیر برسانا شروع کردیے کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو پھسلا رہی ہے اور اس کی اتنی دیوانی ہوگئی ہے جو اس کی حیثیت کے خلاف ہے۔ جب عزیز کی بیوی نے ان کی ملامت کو سنا۔ (قرآن میں لفظ ہے کہ جب اس نے ان کے مکر کو سنا۔ مکر کا سیدھا سا معنی ” فریب، سازش، خفیہ تدبیر “ ہوتا ہے، مگر ہمارے مفسرین نے اسے درست کرنے کے لیے کہا کہ وہ ظاہر تو ملامت کر رہی تھیں مگر حقیقت میں وہ یوسف کا حسن دیکھنا چاہتی تھیں، ان کے مکر سے مراد یہ ہے) خیر جب اس نے ان کی ملامت کو سنا تو اس نے ان کی ملامت کے جواب میں اپنے فعل کا جواز پیش کرنے اور اپنے بےاختیار ہوجانے کے سبب کا مشاہدہ کروانے کے لیے چند خاص عورتوں کو دعوت دی اور ان کے لیے یہ مجلس آراستہ کی۔ اب جب مجلس جوبن پر تھی، چھریوں سے گوشت اور پھل کاٹے جا رہے تھے، تو یوسف (علیہ السلام) سے کہا، ان کے سامنے آؤ۔ جب انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے حسن کو دیکھ کر ایسی بےخود ہوئیں کہ انھیں خیال ہی نہ رہا کہ ہم پھل کاٹ رہی ہیں یا اپنے ہاتھ، وہ انھیں دیکھتی ہی رہ گئیں اور چھریاں ان کے ہاتھوں پر چل گئیں، جس سے انھوں نے اپنے ہاتھ بری طرح کاٹ لیے ( َقَطَّعْنَ باب تفعیل مبالغہ کے لیے ہے) اور محویت میں انھیں درد کا احساس ہی نہیں ہوا اور کہنے لگیں، اللہ کی پناہ یہ کوئی آدمی نہیں، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے۔ (یعنی حسن میں فرشتہ قرار دیا جس طرح بدصورتی میں شیطان کہا جاتا ہے) عزیز کی بیوی نے کہا کہ پھر یہی ہے وہ جس کے متعلق تم نے مجھے ملامت کی ۔۔ عام تفاسیر کا خلاصہ یہ ہے، مگر اصل صورت واقعہ کچھ اور معلوم ہوتی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) بچے تھے، جب وہ ان کے گھر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے۔ غلام کا خدمت کے لیے اپنے آقا سے تعلق رکھنے والے تمام گھروں میں لین دین یا پیغام وغیرہ پہنچانے کے لیے عام آنا جانا ہوتا ہے۔ کئی سال بعد جب وہ پورے جوان ہوئے تو یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آیا یہ ممکن ہے کہ اتنے سالوں تک عزیز مصر کی بیوی کی اتنی قریب ترین سہیلیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا ہی نہ ہو اور عزیز کی بیوی نے انھیں دکھانے کا اہتمام اب ہی کیا ہو ؟ میں نے بیسیوں تفسیریں پڑھیں، بڑے بڑے باریک بین اہل علم جن کے علم و فضل کا یہ عاجز دل سے نہایت معترف ہے اور انھی کا خوشہ چین ہے، وہ اس سوال کے پاس سے خاموشی سے گزر گئے ہیں اور حسن یوسف سے بےخودی ہی کو ہاتھ کٹنے کا باعث قرار دیتے چلے گئے ہیں۔ البتہ چند ایک نے اس کی طرف توجہ کی ہے، انھوں نے اس کا جواب یہ تراشا ہے کہ عزیز مصر کی بیوی ہمیشہ یوسف (علیہ السلام) کو برقع پہنا کر رکھتی تھی، تاکہ کوئی انھیں دیکھ نہ لے۔ مجھے تعجب ہوا کہ بعض مفسرین نے حسن یوسف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب وہ مصر کی گلیوں میں چلتے تھے تو ان کے چہرے کے حسن اور نور کا عکس دیواروں پر پڑتا تھا۔ اب کہاں برقع اور کہاں دیواروں پر چہرے کے حسن و نور کا عکس پڑنا۔ ” ضِدَّانِ مُفْتَرِقَانِ أَیَّ تَفَرُّقٍ “ سیدھی سی بات ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کے گھر اسی لیے جگہ دی تھی کہ وہ مشورے کی مجلسوں میں خدمت کرنے والے غلام یا عزیز مصر کے بیٹے کی حیثیت سے شریک ہو کر رموز مملکت سیکھیں، فرمایا : (وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ) [ یوسف : ٢١ ] ” اور تاکہ ہم اسے باتوں کی اصل حقیقت میں سے کچھ سکھائیں۔ “ اس معاشرے میں مردوں اور عورتوں کا بےپردہ مل کر بیٹھنا معمول کی بات تھی، جس طرح آج کل مسلمانوں کی پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں اور گھروں کا حال ہوگیا ہے، غیر مسلموں کا حال تو قابل بیان ہی نہیں۔ ایسے حالات میں اتنے سال تک ان خواتین کو کوشش کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کے دیکھنے کا موقع نہ ملنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ اصل بات جو صاف نظر آرہی ہے، یہ تھی کہ جب ان چند عورتوں تک اندر کی یہ خبر کسی طرح پہنچی تو انھوں نے عزیز کی بیوی پر طعن و ملامت کی کہ اس کی نادانی دیکھو کہ اپنے غلام پر فریفتہ ہوچکی ہے اور اب تک کی مسلسل کوشش اور پھسلانے کے باوجود حصول مقصد میں ناکام ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے حسن کا اور کسی کو اپنا دیوانہ بنانے کی چالوں میں مہارت کا دعویٰ بھی کیا کہ ہمارے پاس وہ مکر ہیں کہ کوئی بھی ہمارے مکر و فریب سے بچ کر نہیں جاسکتا، ایک غلام کی کیا مجال ہے۔ ( فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ ) تو جب عزیز مصر کی بیوی نے ان کے مکر و فریب اور چالوں کا دعویٰ سنا تو انھیں دعوت دی کہ تم بھی اپنا ہنر آزما دیکھو، اگر وہ کسی ایک کو بھی دل دے بیٹھا تو میرے لیے بھی وجۂ جواز بن جائے گی۔ باقاعدہ ان کی چال کی تفصیل سن کر ہر عورت کو دعوت کے لوازمات کے ساتھ خصوصاً ایک ایک چھری بھی دی۔ اب یوسف (علیہ السلام) عزیز کی بیوی کے کہنے پر شہر کی منتخب حسیناؤں کے سامنے آئے تو ان میں سے ہر ایک نے انھیں اپنے حسن اور ناز و انداز سے متاثر کرنے کی کوشش کی۔ جب کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی تو انھوں نے بےبس عاشقوں کا آخری حربہ آزمایا کہ اگر تم نے ہمارا دل توڑا تو ہم خودکشی کرلیں گی۔ یہ ایسا مرحلہ ہوتا ہے کہ آدمی رحم کے جذبے کے ہاتھوں پھنس جاتا ہے۔ کئی لڑکیاں اسی طرح برباد ہوئیں اور کئی لڑکے بھی۔ ضروری نہیں کہ سب عورتوں نے ایسا کیا ہو، بہرحال ان میں سے کچھ نے اپنے ہاتھ بری طرح زخمی کر کے اپنی خودکشی کی دھمکی دی۔ حسن و جمال کے ساتھ عفت و حیا کے اس پی کرنے اس کی بھی پروا نہ کی تو وہ بولیں، اللہ کی پناہ ! اس شخص کے سینے میں آدمی کا دل نہیں، یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے، جو عشق و حسن کے فتنوں سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا، جسے عشق کے معاملات سے کوئی واسطہ ہی نہیں، اس پر ہماری خود کشی کا بھی کیا اثر ؟ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے ؂ عاشق نہ شدی محنت الفت نہ کشیدی کس پیش تو از قصۂ ہجراں چہ کشاید ” نہ تو عاشق ہوا، نہ تو نے عشق کی مصیبت اٹھائی۔ تیرے سامنے کوئی جدائی کا قصہ کھول کر کیا سنائے۔ “ یہ حقیقت ہے کہ فرشتوں سے تشبیہ پاک بازی میں دی جاتی ہے، حسن میں نہیں، جس طرح ایک اردو شاعر نے ڈینگ ماری ہے ؂ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں اس کی کئی دلیلیں آئندہ آیات میں آرہی ہیں، میں ان کا ترتیب وار ذکر کرتا ہوں : 1 یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی : (رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ ) [ یوسف : ٣٣ ] ” اے میرے رب ! مجھے قید خانہ اس سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ سب مجھے دعوت دے رہی ہیں۔ “ معلوم ہوا وہ عورتیں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ دعوت گناہ دینے کے لیے آئی تھیں۔ 2 یوسف (علیہ السلام) نے مزید دعا کی : (ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ ) [ یوسف : ٣٣ ] ” اور اگر تو مجھ سے ان کے (مکر) فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں سے ہوجاؤں گا۔ “ معلوم ہوا وہ سب عورتیں یوسف (علیہ السلام) کو اپنے مکر و فریب میں پھنسانے کے لیے آئی تھیں نہ کہ صرف جمال یوسف کے دیدار کے لیے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) [ یوسف : ٣٤ ] ” تو اس کے رب نے اس کی دعا قبول فرمائی، اس نے اس (یوسف) سے ان (عورتوں) کا فریب ہٹا دیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے بھی اس دعوت کی کار روائی کو ان سب عورتوں کا مکر و فریب قرار دیا ہے۔ 4 یوسف (علیہ السلام) نے جب بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتائی اور بادشاہ نے انھیں بلوایا تو یوسف (علیہ السلام) نے اس کے قاصدۭ سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو : (مَا بَال النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ) [ یوسف : ٥٠ ] ” ان عورتوں کا کیا حال ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔ “ یہ آیت خصوصاً قابل غور ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ جہاں بھی عورتوں کے مکر کا ذکر ہے مراد صرف عزیز مصر کی بیوی ہے، دوسری عورتیں چونکہ اس کی ساتھی تھیں، اس لیے ان کا ذکر ساتھ آگیا۔ اب اس آیت پر غور کریں، عزیز کی بیوی نے تو ہاتھ کاٹے ہی نہیں تھے، وہ تو دوسری ہی عورتوں نے کاٹے تھے، یوسف (علیہ السلام) ان کے ہاتھ کاٹنے کو ان کا مکر و فریب قرار دے رہے ہیں۔ 5 بادشاہ نے ان تمام عورتوں کو بلا کر پوچھا : (مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ ) [ یوسف : ٥١ ] ” تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلایا ؟ “ معلوم ہوا کہ بادشاہ نے بھی ان کے ہاتھ کاٹنے کو یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال سے بےخود ہو کر ہاتھ کاٹنے کے بجائے اسے ان کی سوچی سمجھی پھسلانے کی سازش قرار دیا۔ اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ یہ تفسیر تم نے اپنے پاس سے کی ہے، تو جواب یہ ہے کہ جہاں قرآن و حدیث کی تفسیر کی کوئی نص صریح نہ ہو وہاں قرآن مجید کے عجائبات ونکات قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ویسے مجھ سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد (رح) نے یہی تفسیر کی ہے، مولانا امین احسن اصلاحی نے (ان کے تفسیر میں منہج کے تفرد سے قطع نظر) یہی تفسیر کی ہے اور تفسیر مواہب الرحمان کے مصنف علامہ امیر علی ملیح آبادی (رض) نے دوسری تفسیروں کے ساتھ یہ تفسیر بھی لکھی ہے، ان کے الفاظ ہیں : ” اور شاید کہ (عزیز کی بیوی نے) ان عورتوں سے اپنی مراد کے لیے استعانت چاہی ہو، اس طرح کہ آنحضرت (یوسف) (علیہ السلام) نے کہا تھا : (مَعَاذ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ) یعنی اپنی پرورش کرنے والے عزیز مصر کی جو رو سے بلحاظ مربی ہونے کے یہ کام نہ کریں تو یہ عورتیں طالب ہوں، پھر ان کی تلویث کے بعد کام آسان ہو۔ چناچہ بعض مفسرین نے قصہ روایت کیا کہ ان عورتوں میں ہر ایک نے زلیخا کی حیلہ گری و اشارہ سے آنحضرت (یوسف) (علیہ السلام) سے تخلیہ میں یہ خواہش ظاہر کی اور ہر طرح کی زینت و مکر اور لجاجت وحیلہ کا خاتمہ کردیا تھا اور کلام ما بعد میں اس کی طرف اشارہ بھی نکلتا ہے۔ چناچہ جب یہ صورت معاملہ نظر آئی تو یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے، یعنی وہی مجھے منظور ہے ( مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ ) اس کام سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلاتی ہیں۔ “ آیت کی یہ تفسیر اور بھی کئی مفسرین نے کی ہوگی مگر مجھے قدیم مفسرین میں سے جن بزرگوں سے یہ تفسیر ملی ہے وہ ہیں سلطان العلماء، شیخ الاسلام عز الدین ابن عبد السلام (رض) ، چناچہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے اس مرض کا واقعہ ہے کہ نماز کا وقت ہوگیا، اذان ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا : ” ابوبکر غمگین آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ “ آپ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو انھوں نے دوبارہ یہی کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری دفعہ یہی حکم دیا، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بالنَّاسِ ) [ بخاری، الأذان، باب حد المریض أن یشھد الجماعۃ : ٦٦٤ ] ” تم یوسف کے ساتھ والیاں ہو، ابوبکر سے کہو نماز پڑھائے۔ “ صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت (٦٧٩) میں ہے کہ پہلی دو دفعہ عائشہ (رض) نے یہ بات کہی تھی، تیسری بار ان کے کہنے کے مطابق حفصہ (رض) نے کہی تھی۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن احجر (رض) نے ” إِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ “ کی شرح عام مفسرین کے مطابق کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے : ” وَ وَقَعَ فِيْ أَمَالِي ابْنِ عَبْدِ السَّلَامِ أَنَّ النِّسْوَۃَ أَتَیْنَ امْرَأَۃَ الْعَزِیْزِ یُظْھِرْنَ تَعْنِیْفَھَا وَ مَقْصُوْدُھُنَّ فِي الْبَاطِنِ أَنْ یَدْعُوْنَ یُوْسُفَ إِلٰی أَنْفُسِھِنَّ “ کَذَا قَالَ وَلَیْسَ فِيْ سِیَاقِ الْآیَۃِ مَا یُسَاعِدُ مَا قَالَ “ [ فتح الباری ٢؍١٥٣، ح : ٦٦٥ ] ” ابن عبد السلام کی امالی میں آیا ہے کہ وہ عورتیں عزیز کی بیوی کے پاس آئیں، وہ ظاہر تو اس پر طعن و ملامت اور سختی کر رہی تھیں، حالانکہ ان کا مقصود باطن میں یہ تھا کہ وہ یوسف کو اپنی اپنی طرف دعوت دیں۔ “ حافظ ابن حجر (رض) فرماتے ہیں کہ ابن عبد السلام نے ایسے فرمایا، حالانکہ سیاق میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو۔ “ ظاہر ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر (رض) کو سلطان العلماء کی بات سے اتفاق نہیں، کیونکہ ان کے خیال میں سیاق ان کی موافقت نہیں کرتا، مگر اس بندۂ عاجز نے سیاق قرآن میں سے پانچ دلیلیں اسی تفسیر کے صحیح ہونے کی بیان کی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ” صَوَاحِبُ یُوْسُفَ “ بھی اس کی تائید کر رہا ہے۔ (واللہ اعلم وعلمہ اتم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Having explained the linkage of verse before the beginning of the pre-sent verses, we can now turn to the explanation of individual verses. Said in verse 32 was: فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِ‌هِنَّ أَرْ‌سَلَتْ إِلَيْهِنَّ (So, when she heard of their crafty comments, she extended an invitation to them). Here, Zulaikha refers to the talking of women as their ` makr& or craftiness - though they had obviously planned no trick against her. But, since they spoke ill about her secretly, it was identified as ` makr.& As for the expression: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً which follows immediately and has been translated as ` and arranged for them a comfortable place& is inclusive of the comfort of special pillows for hand and back rest placed there for re¬laxation. Then, it was said: وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا (and gave everyone a &knife). It means when these women came in and sat down, different foods and fruits were served, some of which needed a knife to peel and cut, there-fore, also given to each one of them was a sharp knife. The obvious pur¬pose of this was to cut fruits. But, concealed in her heart was what comes next - that is, these women will lose their senses at the sight of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and would go on to cut their hands with the knife. After having made all these arrangements, to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، who was in some other quarter of the house, Zulaikha said: وَقَالَتِ اخْرُ‌جْ عَلَيْهِنَّ (come in before them). Since, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was not aware of her vain intention, he came out into this sitting. That which happened then has been described in: فَلَمَّا رَ‌أَيْنَهُ أَكْبَرْ‌نَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ مَا هَـٰذَا بَشَرً‌ا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِ‌يمٌ So when they saw him, they found him great and [ were so bewildered that they ] cut their hands [ that is, when cutting their fruit, they saw this object of wonder, the knife uncon-sciously ran over their hand - as it occasionally happens when one&s thought is diverted to something else ] and said, &Oh God! He is no human being. He is but a noble angel.& [ by which they meant that one exuding such light can only be an angel ].&

معارف و مسائل : (آیت) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَيْهِنَّ یعنی جب زلیخا نے ان عورتوں کے مکر کا حال سنا تو ان کو ایک کھانے کی دعوت پر بلا بھیجا، یہاں ان عورتوں کے تذکرہ کرنے کو زلیخا نے مکر کہا ہے حالانکہ بظاہر انہوں نے کوئی مکر نہیں کیا تھا مگر چونکہ خفیہ خفیہ اس کی بدگوئی کرتی تھیں اس لئے اس کو مکر سے تعبیر کیا، وَاَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً یعنی ان کے لئے مسند تکیوں سے مجلس آراستہ کی وَّاٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّيْنًا یعنی جب یہ عورتیں آگئیں اور ان کے سامنے مختلف قسم کے کھانے اور پھل حاضر کئے جن میں بعض چیزیں چاقو سے تراش کر کھانے کی تھیں اس لئے ہر ایک کو ایک ایک تیز چاقو بھی دے دیا جس کا ظاہری مقصد تو پھل تراشنا تھا مگر دل میں وہ بات پوشیدہ تھی جو آگے آتی ہے کہ یہ عورتیں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر حواس باختہ ہوجائیں گی اور چاقو سے اپنے ہاتھ زخمی کرلیں گی، وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ یعنی یہ سب سامان درست کرنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے جو کسی دوسرے مکان میں تھے زلیخا نے کہا کہ ذرا باہر آجاؤ یوسف (علیہ السلام) کو چونکہ اس کی غرض فاسد معلوم نہ تھی اس لئے باہر اس مجلس میں تشریف لے آئے، فَلَمَّا رَاَيْنَهٗٓ اَكْبَرْنَهٗ وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ ۡ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا ھٰذَا بَشَرًا ۭ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْمٌ یعنی ان عورتوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے جمال سے حیران رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے یعنی پھل تراشتے وقت جب یہ حیرت انگیز واقعہ سامنے آیا چاقو ہاتھ پر چل گیا جیسا کہ دوسری طرف خیال بٹ جانے سے اکثر ایسا اتفاق ہوجاتا ہے اور کہنے لگیں کہ خدا کی پناہ یہ شخص آدمی ہرگز نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے مطلب یہ تھا کہ ایسا نورانی تو فرشتہ ہی ہوسکتا ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِہِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَيْہِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّكَاً وَّاٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِكِّيْنًا وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْہِنَّ۝ ٠ۚ فَلَمَّا رَاَيْنَہٗٓ اَكْبَرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۝ ٠ۡوَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا۝ ٠ۭ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْمٌ۝ ٣١ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں تكأ المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، ( ت ک ء ) التکاء ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔ ( سكّينا) ، اسم جامد للآلة القاطعة، وزنه فعّيل بکسر الفاء مع تشدید العین خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا ( حاشی) ، هو فعل رباعيّ مضارعه يحاشي، ورسم الألف فيه قصیرة جاء لکونها رابعة، فإذا کان حرف جرّ رسمت الألف طویلة ( حاشا) ، وهو عند آخرین اسم بمعنی تنزيها حيث ينوّن آخره، وقد يخفّف التنوین ضرورة أي حاشا۔ بالتنوین۔ وحاشا۔ من غير ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) سو جب زلیخا نے ان عورتوں کی بات سنی تو ان کو دعوت پر بلایا اور ان کے ٹیک کے لیے تکیے لگائے، جب وہ آئیں تو ان کے سامنے گوشت اور روٹی رکھی اور گوشت کات کر کھانے کے لیے ان کو ایک ایک چاقو بھی دیا کیوں کہ بغیر چاقو سے کاٹ کر اس زمانہ میں گوشت نہیں کھاتے تھے اور ان تمام کاروائیوں کے بعد زلیخا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ ذرا ان کے سامنے تو آجاؤ چناچہ جب ان ان عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا کر گھبرا گئیں اور حیران ہوگئی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کی بنا پر حیرانی اور دہشت میں چاقو سے اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں ماشاء اللہ یہ شخص آدمی ہرگز نہیں یہ تو اپنے پروردگار کا کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ ) عزیز مصر کی بیوی نے جب سنا کہ شہر میں اس کے خلاف اس طرح کے چرچے ہو رہے ہیں اور مصر کی عورتیں ایسی طعن آمیز باتیں کر رہی ہیں تو اس نے بھی جوابی کارروائی کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ اس معاشرے کے انتہائی اعلیٰ سطح کے لوگوں کی بات تھی اور اس کا چرچا بھی اسی سطح پر ہو رہا تھا۔ اسے بھی اپنے ارد گرد سب لوگوں کے کردار کا پتا تھا کہاں کیا خرابی ہے اور کس کے ہاں کتنی گندگی ہے وہ سب جانتی تھی۔ چناچہ اس نے اس اعلیٰ سوسائٹی کے اجتماعی کردار کا بھانڈا بیچ چورا ہے میں پھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ (اَرْسَلَتْ اِلَيْهِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً ) اس نے کھانے کی ایک پر تکلف تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمان عورتوں کے لیے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ (وَّاٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّيْنًا) کھانے کی چیزوں میں پھل وغیرہ بھی ہوں گے ‘ چناچہ ہر مہمان عورت کے سامنے ایک ایک چھری بھی رکھ دی گئی۔ (وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ ) عورتوں نے جب پاکیزگی اور تقدس کا پیکر ایک جوان رعنا اپنے سامنے کھڑا دیکھاتو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ سب کی سب آپ کے حسن و جمال پر ایسی فریفتہ ہوئیں کہ اپنے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے۔ ممکن ہے کسی ایک عورت کا ہاتھ تو واقعی عالم حیرت و محویت میں کٹ گیا ہو اور اس کی طرف حضرت یوسف بحیثیت خادم کے متوجہ ہوئے ہوں کہ خون صاف کر کے پٹی وغیرہ کردیں اور یہ دیکھ کر باقی سب نے بھی اپنی اپنی انگلیاں دانستہ کاٹ لی ہوں کہ اس طرح یہی التفات انہیں بھی ملے گا۔ قَطَّعَباب تفعیل ہے ‘ جس میں کسی کام کو پورے اہتمام اور ارادے سے کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. The ancient Egyptians used to place pillows and cushions in such feasts for the guests to recline. And this is confirmed by the archaeological remains in Egypt. There is no mention at all of this banquet in the Bible but it has been described in the Talmud in a way quite different from that of the Quran. Needless to say that while this narrative in the Quran is natural, life like and teaches moral lessons, the one in the Talmud lacks all these things.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :26 یعنی ایسی مجلس جس میں مہمانوں کے لیے تکیے لگے ہوئے تھے ۔ مصر کے آثار قدیمہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کی مجلسوں میں تکیوں کا استعمال بہت ہوتا تھا ۔ بائیبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے ۔ قرآن کے بیان میں جو زندگی ، جو روح ، جو فطریت اور جو اخلاقیت پائی جاتی ہے اس سے تلمود کا بیان بالکل خالی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یہ اِن عورتوں کی اس بات کو ’’مکر‘‘ شاید اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ کسی خیر خواہی کی وجہ سے یہ باتیں نہیں بنا رہی تھیں، بلکہ محض زلیخا کو بدنام کرنا مقصود تھا، اور کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کی شہرت سن کر یہ باتیں اسی لئے کی ہوں کہ زلیخا اُن کو بھی دیدار کا موقع فراہم کردے۔ 21: ان کی مہمان نوازی کے لئے پھل دسترخوان پر رکھے گئے تھے، اور چاقو انہیں کاٹنے کے لئے دیا گیا تھا۔ لیکن شاید زلیخا کو یہ اندازہ تھا کہ جب یہ عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھیں گی تو یہ چاقو بے خودی کی حالت میں خود ان کے ہاتھوں پر چل جائے گا۔ چنانچہ آگے بیان فرمایا گیا ہے کہ واقعی جب انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو ان کے حسن و جمال میں ایسی محو ہوئیں کہ بے خیالی میں چاقو ان کے ہاتھوں پر چل گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ مصر کے امیر امرا کی جن عورتوں نے زلیخا کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عشق اور محبت کا طعنہ دیا تھا اس طعنہ کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں طعنہ نہیں فرمایا مکر فرمایا ہے سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ حقیقت میں ان عورتوں کے طعنے میں یہ مکر تھا کہ وہ عورتیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صورت کو دیکھنا چاہتی تھیں اس غرض سے انہوں نے یہ حیلہ نکالا کہ زلیخا پر طعن وتشنیع شروع کی تاکہ زلیخا اس طعن وتشنیع سے گھبرا کر ان عورتوں کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صورت دکھلا دے کہ دیکھو یہ صورت عشق و محبت پیدا کرنے کے قابل ہے یا نہیں ہے اسی واسطے زلیخا نے بھی ان عورتوں کے مکر کا جواب مکر کی شکل میں دیا کہ ان عورتوں کی دعوت کی اور دعوت میں دستر خوان پر اس طرح کے میوہ جات رکھے جن کو چھری سے کاٹنے کی ضرورت پڑے اور ایسے وقت میں یوسف (علیہ السلام) کو ان عورتوں کے سامنے کیا کہ بجائے میوؤں کے چھلنے اور کاٹنے کے ان عورتوں نے اپنے ہاتھ زخمی کر ڈالے اس وقت زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ بلاشک یہ شخص آدمی نہیں فرشتہ ہے معراج کی صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نظر آئے تمام دنیا کے حسن و جمال میں سے نصف حصہ حسن و جمال کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اکثر اپنے منہ پر نقاب ڈالے رہتے تھے تاکہ غیر عورتیں ان کا حسن و جمال دیکھ کر بدنیت نہ ہوجائیں اور ہر مرد کے لئے اپنی جوانی اور خوبصورتی پر للچا کر کوئی عزت دار مالدار اور خوب صورت عورت اس شخص کو بدکاری کے لئے بلاوے اور وہ شخص فقط خدا کے خوف سے اس بدکاری سے باز رہے باقی کے چھ شخصوں میں ایک وہ شخص ہے جو منصف حاکم ہو دوسرا وہ ہے جو صالح ہو جس کی جوانی اللہ کی عبادت میں بسر ہو تیسرا وہ ہے جس کو جماعت اور مسجد کا ہر دم خیال لگا رہے چوتھا وہ ہے جو دینی غرض سے محض اللہ کے واسطے کسی سے دوستی پیدا کرے، پانچواں وہ ہے جو ایک ہاتھ سے صدقہ دیوے اور دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو چھٹا وہ ہے جو تنہائی میں خدا کے خوف سے روتا ہے۔ ١ ؎ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٩١ ج ١ باب الصدقۃ بالیمین والترغیب ص ٧٩ ج ٢ باب ترغیب من ولی شیئا من امور المسلمین الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:31) مکرھن۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان عورتوں کا مکر۔ چال۔ مکارانہ باتیں۔ (ملاحظہ ہو 3:54) الکشاف، بیضاوی، مدارک التنزیل میں مکر کو لفظ اغتیاب کا ہم معنی لکھا ہے۔ (اغتیاب بمعنی عیب گیری کرنا۔ غیبت کرنا) کیونکہ مکر بھی خفیہ ہوتا ہے اور غیبت بھی پیٹھ پیچھے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مکر بمعنی لعن و طعن طنز و تشنیع۔ ارسلت الیہن۔ ای دعتھن۔ اس عورت نے ان عورتوں کو دعوت دی۔ اعدت۔ ماضی واحد مؤنث غائب اس نے تیار کی۔ اعتاد (افعال) سے۔ عند واعتد الشیٔ۔ تیار کرنا۔ عتد یعتد الشیٔ۔ تیار ہونا۔ آمادہ ہونا۔ العتید۔ تیار۔ ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید (50:18) وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکلانے پایا۔ مگر یہ کہ اس کے آس پاس ہی ایک تاک میں لگا رہنے والا تیار ہے۔ متکأ۔ اسم ظرف مکان۔ سہارا لگانے کی جگہ ۔ جس پر ٹیک لگائی جائے۔ گاؤ تکیہ مسند وغیرہ ۔ اتکا یتکا اتکاء (افتعال) علی السریر۔ تخت پر سہارا لے کر بیٹھنا۔ توکأ علی عصاہ۔ سہارا لگانا۔ ٹیک لگانا۔ مجازا امراد کھانا ہے۔ یعنی طعام و ضیافت جس میں لوگ تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں۔ امام رازی کا قول ہے منکأسے مراد کھانے کی وہ چیز جس کو چھری سے کاٹنے کی ضرورت ہو ۔ اخرج۔ امر۔ واحد مذکر حاضر۔ خرج یخرج (نصر) خروج سے (اے یوسف ذرا) باہر تو نکل ۔ البرنہ۔ ماضی جمع مؤنث غائب ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ البار (افعال) سے ان عورتوں نے اس کو بڑا سمجھا۔ ای اعظمنہ۔ اس کو انہوں نے عظیم پایا۔ مراد یہ کہ اس کے حسن بیمثال کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔ دم بخود ہوگئیں۔ قطعن۔ انہوں نے (ہاتھ) کاٹ ڈالے۔ تقطیع (تفعیل) سے ماضی جمع مؤنث غائب مراد یہ کہ انہوں نے ہاتھ زخمی کر لئے حاش للہ۔ کلمہ تعجب۔ اصل میں حاشا للہ ہے الف کی تحفیف کے لئے گرا دیا گیا۔ ماھذا بشرا۔ میں ما نافیہ ہے اور عالمہ ہے اور لیس (فعل ناقص) کا عمل کرتا ہے یعنی خبر منصوب ہوگئی۔ قرآن حکیم میں اس کی اور مثال یہ ہے ۔ ما ہن امھاتہم (58:2) وہ عورتیں (یعنی ان کی بیویاں) ان کی مائیں نہیں ہیں۔ ما مشابہ بلیس کی اور مثال ما زید قائما۔ (زید کھڑا نہیں ہے) ای لیس زید قائما۔ ان ھذا۔ میں ان نافیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی ایک ایسی محفل جس میں ٹیک لگانے کے لئے تکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ (از ابن کثیر) ۔ 3 ۔ یعنی چھریاں دی تھین پھل کھانے کو لیکن ان کا حسن دیکھ کر ایسے بےخود ہوگئیں کہ چھریاں ہاتھوں پر چل گئیں اور وہ کٹ گئے۔ (کذافی الروح) ۔ بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہاں ” اکبرنہ ‘ کے معنی حیض آنا کے ہیں یعنی شدت شہوت کی وجہ سے انہیں حیض آنا شروع ہوگیا۔ چناچہ واحدی فرماتے ہیں کہ جب عورت کے اندر جنسی خواہش زور پکڑتی ہے تو اسے حیض آنے لگتا ہے ابو عبیدہ، طبری اور دیگر محققتین (رح) نے اسی معنی کا انکار کیا ہے کہ آفت میں یہ معنی معروف نہیں ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ضعیف ہے اور جو شاہد پیش کیا گیا ہے وہ بناوٹی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ ایسا حسن و جمال آدمی میں کب ہوتا ہے فرشتے البتہ ایسے نورانی ہوتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس نے ان عورتوں کو اپنے محل میں ایک دعوت میں بلایا ، اس دعوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعوت نہایت ہی ترقی یافتہ لوگوں کی دعوت تھی۔ ایسی ہی عورتوں کو محلات میں دعوتیں دی جاتی ہیں۔ اور نہایت ہی پر تکلف کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مشرقی روایات کے مطابق تکیہ لگا کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ چناچہ اس نے کھانے کے لیے ایسی جگہ تیار کی جہاں یہ عورتیں تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھیں۔ پھر ہر ایک کو چھری دی گئی تاکہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مصر تہذیب و تمدن کے اعتبار سے بہت ہی آگے نکل گیا تھا اور محلات میں لوگ پر تعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ ہزاروں سال قبل چھری کے استعمال کی اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی اور تمدنی لحاظ سے مصری معاشرہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ یہ عورتیں گوشت اور میوے کاٹنے میں مشغول تھیں کہ عزیزہ نے یوسف کو حک دیا کہ ذرا سامنے آؤ۔ قالت اخرج علیھن " اس نے یوسف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ "۔ فلما راینہ اکبرنہ " جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں " اس کو دیکھ کر مبہوت رہ گئیں اور ان پر دہشت طاری ہوگئی۔ و قطعن ایدیھن " اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں " اچانک دہشت زدگی کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کردئیے۔ و قلن حاش للہ " اور بےساختہ پکار اٹھیں حاشا للہ " تخلیق قدرت پر حیراں ہوکر حاشا للہ کہا جاتا ہے۔ در اصل حاشا للہ کلمہ تنزیہ اس موقعہ پر بولا جاتا ہے جہاں کسی ذات سے کسی الزام کی شدت سے نفی کی جائے۔ ما ھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم " یہ شخص انسان نہیں ہے ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے " جیسا کہ ہم نے اس سورت کے دیباچے میں کہا ، ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کے بعض تصورات مصری معاشرے میں پھیل چکے تھے۔ اب عزیز کی بیوی کو یقین ہوگیا کہ اس نے میدان مار لیا ہے ، اور اس کے خلاف باتیں بنانے والی عورتوں سے انتقام لے لیا ہے ، اور خود یہ عورتیں دہشت زدہ ، حیران بلکہ مبہوت ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب یہ عورتوں کے سامنے کھل جاتی ہے اور اپنے جنسی سکینڈل کو عورتوں کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔ اب وہ دھمکی آمیز لہجے میں اقرار کرتی ہے کہ اس شخص کو میری مرضی کے مطابق چلنا ہوگا ورنہ ۔۔ اب اس کی باتوں کا انداز اور ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ زلیخا کو جب معلوم ہوا کہ عورتیں اس کو بدنام کر رہی ہیں تو اس نے شہر کی چیدہ عورتوں کو دعوت پر بلایا تاکہ وہ ان کے سامنے اپنا عذر پیش کرسکے۔ نیز اس کا منصوبہ یہ تھا کہ کسی تدبیر سے وہ بھی یوسف (علیہ السلام) پر فریفتہ ہوجائیں اور اس کی ملامت سے باز آجائیں۔ انھا لما سمعت انھن ہلمنھا علی تلک المحبۃ المفرطۃ ارادت ابداء عذرھا فاتخذت مائدۃ ودعت جماعۃ من اکابرھن الخ (کبیر ج 18 ص 127) ۔ زلیخا نے دعوت میں چالیس منتخب عورتوں کو مدعو کیا اور نہایت اعلی سجے ہوئے کمرے میں ان کے لیے جگہ بنائی اور تکیے لگا دئیے۔ اور ہر ایک ہاتھ میں پھل وغیرہ کاٹنے کے لیے ایک ایک چھری تھما دی اور یوسف (علیہ السلام) کو اچانک ان کے کمرے میں داخل ہونے کا حکم دیا عورتوں نے جوں ہی ان کے پیکر حسن و جمال چہرے کو دیکھا حواس باختہ اور مدہوش ہوگئیں اور پھلوں کے بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ ” اَکْبَرْنَہٗ “ اعظمنہ وھبنہ۔ ابن عباس (قرطبی) یعنی انہیں دیکھ کر دہشت زدہ ہوگئیں۔ ” قُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ “ اور سب عورتیں بول اٹھیں معاذاللہ یہ تو بشر اور انسان ہے ہی نہیں یہ تو کوئی بڑا ہی معزز و مکرم فرشتہ ہے۔ ایسے حسن و جمال اور محاسن صفات کا مالک انسان نہیں ہوسکتا اس لیے لا محالہ یہ تو کوئی بڑا ہی بلند مرتبہ فرشتہ ہے۔ نفین منہ البشریۃ لغرابۃ جمالہ واثبتن لہ الملکیۃ و ؟ ؟ ؟ بھا الحکم لما رکز فی الطباع ان لا احسن من الملک الخ (مدارک ج 2 ص 169) والمقصود من ھذا اثبات الھسن العظیم المفرط لیوسف لانہ قد رکز فی النفوس ان لا شیء احسن من الملک (خازن ج 3 ص 280) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں اس سے ان کا مقصد حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عصمت و براءت کو ظاہر کرنا ہے کہ ایسا بےمثل حسن و جمال، ایسی بھر پور جوانی اور بےخطر خلوت ان حالات میں جو کوئی شخص برائی سے بچتا ہے وہ بلا شبہ فرشتہ ہے۔ لان الجمع بین الجمال الرائق والکمال الفائق والعصمۃ البالغۃ من خواص الملائکۃ (مظہری ج 5 ص 159) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 پھر جب عزیر کی بیوی نے ان عورتوں کی پُر فریب اور طعن آمیز باتیں سنیں تو ان کو کسی کے ہاتھ بلا بھیجا اور ان کے واسطے مسند بچھائی اور تکیہ لگایا اور ہر ایک کو ان میں سے ایک ایک چھری پھل کاٹنے کو دے دی جب یہ عورتیں آئیں اور کھانے میں مشغول ہوگئیں تب حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا ذران کے سامنے نکل کر آا پھر جب عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو حیران و ششد رہ گئیں اور ایسی سٹ پٹائیں کہ بجائے پھل کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بےساختہ ان عورتوں نے کہا ما شا للہ ! یہ شخص آدمی نہیں ہے ہو نہ ہو یہ تو کوئی ذی مرتبہ فرشتہ ہے۔ یعنی جب ذلیخا کو عورتوں کی یہ باتیں معلوم ہوئیں تو اس نے ان کو کھانے پر بلا بھیجا اور کھانے کی مجلس آراستہ کرکے دستر خوان پر سب چیزیں چن دیں جو چیزیں چنی گئیں ان میں پھل بھی تھے جو چاقو سے کاٹ کر کھائے جاتے ہوں گے جب عورتیں کھانے میں مشغول ہوئیں تو زلیخا نے کمرے میں سے یوسف (علیہ السلام) کو بلا لیا یوسف (علیہ السلام) آئے تو عورتیں محو حیرت ہوگئیں اور انہوں نے پھل کی جگہ چھری سے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہنے لگیں یہ آدمی نہیں ہے یہ تو کوئی ذی مرتبہ فرشتہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چھریاں دی تھیں میوہ کھانے کو ان کا حسن دیکھ کر بےحواس ہوگئیں چھری سے ہاتھ کٹ گئے 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ طعن کا جواب یوسف (علیہ السلام) کو دکھا کردیا اور ان کو مکروفریب کے لئے استعمال کرنے کی بات آگے آتی ہے۔