Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 32

سورة يوسف

قَالَتۡ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیۡ لُمۡتُنَّنِیۡ فِیۡہِ ؕ وَ لَقَدۡ رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ فَاسۡتَعۡصَمَ ؕ وَ لَئِنۡ لَّمۡ یَفۡعَلۡ مَاۤ اٰمُرُہٗ لَیُسۡجَنَنَّ وَ لَیَکُوۡنًا مِّنَ الصّٰغِرِیۡنَ ﴿۳۲﴾

She said, "That is the one about whom you blamed me. And I certainly sought to seduce him, but he firmly refused; and if he will not do what I order him, he will surely be imprisoned and will be of those debased."

اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا یہی ہیں جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا ، لیکن یہ بال بال بچا رہا ، اور جو کچھ میں اس سے کہہ رہی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو یقیناً یہ قید کر دیا جائے گا اور بیشک یہ بہت ہی بے عزت ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ... "This is none other than a noble angel!" She said: "This is he (the young man) about whom you did blame me..." She said these words to them so that they excuse her behavior, for a man who looks this beautiful and perfect, is worthy of being loved, she thought. She said, ... وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسَتَعْصَمَ ... and I did seek to seduce him, but he refused, (to obey me). Some scholars said that; when the women saw Yusuf's beauty, she told them about his inner beauty that they did not know of, being chaste and beautiful from the inside and outside. She then threatened him, ... وَلَيِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا امُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ And now if he refuses to obey my order, he shall certainly be cast into prison, and will be one of those who are disgraced. This is when Prophet Yusuf sought refuge with Allah from their evil and wicked plots,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 جب زلیخا نے دیکھا اس کی چال کامیاب رہی ہے اور عورتیں یوسف (علیہ السلام) کے جلوہ حسن آراء سے مد ہوش ہوگئیں تو کہنے لگی، کہ اس کی ایک جھلک سے تمہارا یہ حال ہوگیا ہے تو کیا تم اب بھی مجھے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی ؟ یہی وہ غلام ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ 32۔ 2 عورتوں کی مد ہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہوگیا اور شرم و حیا کے سارے حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] زلیخا کی دھمکی :۔ عورتوں کے یہ الفاظ دراصل زلیخا کے اس معاملہ میں سچا ہونے کا اعلان تھا۔ اب وہ ان عورتوں میں سر اٹھا کر کہنے لگی کہ بتلاؤ میں اس معاملہ میں کس قدر قصوروار تھی اور اب میں برملا کہتی ہوں کہ میں اس کے سامنے اپنا نقد دل ہار چکی ہوں اور اب میں اسے اپنی طرف مائل کرنے پر مجبور بھی کروں گی اور اگر اس نے پھر بھی میری بات کی طرف توجہ نہ دی تو میں اسے کسی دوسرے حیلے بہانے جیل بھجوا دوں گی یا اسے میری بات ماننا ہوگی یا پھر وہ ذلیل قید و بند کی مصیبت جھیلے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ ۔۔ : ” ذٰلِکُنَّ “ میں اسم اشارہ ” ذَا “ ہی ہے، جس کے ساتھ مخاطب کی ضمیر یہ دیکھ کر لگائی جاتی ہے کہ مخاطب مرد ہے یا عورت، ایک ہے یا دو یا زیادہ، مثلاً آپ ایک شخص سے مخاطب ہیں اور اسے کسی آدمی کی طرف اشارہ کر کے کچھ بتانا چاہتے ہیں تو کہیں گے : ” ذٰلِکَ الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر کسی عورت سے بات کر رہے ہوں گے تو کہیں گے : ” ذٰلِکِ الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر آپ یہی بات کہنا چاہتے ہوں اور آپ کے مخاطب دو ہوں تو کہیں گے : ” ذٰلِکُمَا الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے قید کے دو ساتھیوں سے فرمایا : (ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ ) [ یوسف : ٣٧ ] ” یہ وہ چیز ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی۔ “ یہ معنی نہیں کہ یہ دو چیزیں۔ زیر تفسیر آیت میں عزیز کی بیوی کی مخاطب کئی عورتیں تھیں، اس لیے اس نے کہا : (فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ ) اب ” ذٰلِکُنَّ “ کا معنی یہ سب عورتیں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے یہ ہے وہ شخص۔ صرف مخاطب جمع مؤنث ہونے کی وجہ سے ” ذٰلِکُنَّ “ آیا ہے۔ اگر مخاطب بہت سے آدمی ہوتے تو اسی مفہوم کے لیے ” ذٰلِکُمْ “ آتا، جیسے فرمایا : ( ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ [ البقرۃ : ٥٤ ] ” یہ چیز تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ ” فَاسْتَعْصَمَ “ سین اور تاء کے اضافے سے طلب کا معنی بھی حاصل ہوتا ہے اور مبالغے کا بھی۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” وہ صاف بچ گیا “ یا کہہ لیں ” بالکل بچ گیا۔ “ ” لَيُسْجَنَنَّ “ میں نون تاکید ثقیلہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اسے ضرور ہی قید کیا جائے گا۔ “ ” وَلَيَكُوْنًا “ یہ نون تاکید خفیفہ ہے، جسے عام طور پر لکھا جاتا ہے ” وَلَیَکُوْنَنْ “ مگر عربی رسم الخط وقف کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ نون خفیفہ وقف میں الف ہوجاتا ہے، مثلاً یہی لفظ اگر اس پر وقف کریں تو اسے ” لَیَکُوْنَنْ “ نہیں پڑھا جائے گا بلکہ ” لَیَکُوْنَا “ الف کے ساتھ پڑھا جائے، اس لیے اس نون کو الف کی شکل میں لکھا جاتا ہے، جیسا کہ ” خَبِیْرًا “ اور ” بَصِیْرًا “ وغیرہ میں نون تنوین ” خَبِیْرَنْ ، بَصِیْرَنْ “ کے بجائے الف کی شکل میں ہے کہ وقف نہ ہو تو نون پڑھو، وقف ہو تو الف پڑھو۔ سورة علق میں ” لَنَسْفَعاً “ میں بھی نون تاکید خفیفہ ہے جو الف کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے ” لَيُسْجَنَنَّ “ میں نون تاکید ثقیلہ یعنی تشدید کے ساتھ اور ” وَلَيَكُوْنًا “ میں خفیفہ یعنی جزم کے ساتھ ہونے کی توجیہ فرمائی ہے کہ ثقیلہ میں تاکید زیادہ ہوتی ہے، تو عزیز کی بیوی کے خیال میں اس کے لیے یوسف (علیہ السلام) کو قید کروانا تو یقینی تھا، مگر ان کے ذلیل ہونے کا پورا یقین اسے بھی نہ تھا، بھلا ایسے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو ذلیل کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اس نے لفظ نرم کردیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, in verse 32, it was said: قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَ‌اوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُ‌هُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِ‌ينَ ` She [ Zulaikha ] said: &So, [ see ] this is the one you blamed me for. Yes, I seduced him, but he abstained. And should he [ in fu¬ture ] not follow my command, he shall be [ surely ] imprisoned and shall be disgraced [ too ].& When Zulaikha realized that her secret lay disclosed before those women anyway, she started threatening Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) right before them. At that time, according to some commentators, all these women too started telling Sayyidna Yusuf علیہ السلام that Zulaikha was their benefactor, therefore, he should not oppose her.

(آیت) قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ ۭ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ۭ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ وہ عورت بولی کہ دیکھ لو وہ شخص یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے برا بھلا کہتی تھیں اور واقعی میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی مگر یہ پاک صاف رہا اور آئندہ یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو بیشک جیل خانے بھیجا جائے اور بےعزت بھی ہوگا، اس عورت نے جب یہ دیکھا کہ میرا راز ان عورتوں پر فاش تو ہو ہی چکا ہے اس لئے ان کے سامنے ہی یوسف (علیہ السلام) کو ڈرانے دھمکانے لگی بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس وقت یہ سب عورتیں بھی یوسف (علیہ السلام) کو کہنے لگیں کہ یہ عورت تمہاری محسن ہے اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَ۝ ٠ۭ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ۝ ٣٢ ( لمتنّ ) ، فيه إعلال بالحذف لمناسبة البناء علی السکون فهو فعل معتل أجوف حذفت عينه لذلک، وزنه فلتنّ. لوم اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . ( ل و م ) لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔ عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] سجن السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] ( س ج ن ) السجن ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔ صغر والصَّاغِرُ : الرّاضي بالمنزلة الدّنيّة، قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة/ 29] . ( ص غ ر ) الصغریہ صغر صغر وصغار ا کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں اور ذلیل اور کم مر تبہ آدمی کو جو اپنی ذلت پر قائع ہو صاغر کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) تب زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے لعن طعن کرتی ہو اور واقعی میں نے ان کو اپنی طرف دعوت دی تھی اور اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی، مگر یہ عفت وپاک دامنی کے ساتھ علیحدہ رہے اور اگر آئندہ کو میرا کہنا نہ مانے گا تو جیل بھیجا جائے گا اور بےعزت بھی ہوگا، وہ سب عورتیں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگیں کہ تمہیں اپنی محسنہ سے ایسی بےاعتنائی مناسب نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ ) اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور پھر پوری بےحیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک ؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی ! اس سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. This open demonstration of her love and declaration of her immoral designs show that the moral condition of the higher class of the Egyptian society had declined to the lowest ebb. It is quite obvious that the women whom she had invited must have been ladies belonging to the upper most stratum of the society. The very fact that she presented her beloved before them without any hesitation, in order to convince them of his beauty and youth that had urged her to fall in love with him, shows that there was nothing uncommon in this demonstration. Then these ladies did not reproach her but themselves practically demonstrated that, in those circumstances, they themselves would have done the same that she did. Above all, the hostess did not feel that it was immodest to declare openly: No doubt, I sought to seduce him and he succeeded in escaping from me. Yet I am not going to give him up. If he will not do as I bid him, he shall be cast into prison and humbled and disgraced.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :27 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی ۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہوگا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی ۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوان رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی ۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا ۔ پھر شریف خواتین کی اس بھری مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہش نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی ۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بہت پرانی چیز ہے ۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اس ”روشن زمانے“ میں پائی جا رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٣٤۔ اوپر کی آیت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ عورتوں کے تذکرہ کی خبر جب زلیخا کو پہنچی تو اس نے ایک محفل آراستہ کر کے ان عورتوں کو بلایا اور فراغت طعام کے بعد ترنج اور چھری دی کہ کاٹ کاٹ کر کھائیں اور اسی اثنا میں یوسف (علیہ السلام) کو ان کے سامنے بلایا۔ یوسف (علیہ السلام) کے جمال کو دیکھ کر ساری عورتیں حیرت میں آگئیں اور اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور بےساختہ کہہ اٹھیں کہ یہ تو بشر نہیں معلوم ہوتا یہ کوئی بزرگ فرشتہ ہے اس پر یہ بات زلیخا نے کہی کہ جسے تم فرشتہ سمجھ رہی ہو اور جس کے حسن کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئیں اور کسی کے ہوش ٹھکانے نہ رہے یہ وہی شخص ہے جس پر میں بدل و جان فریفتہ ہوں اسی کی الفت میرے دل میں نقش کالحجر ہوگئی ہے جس کا چرچا تمام مصر میں پھیلا ہوا ہے اور تم نے مجھ کو ملامت کی کہ زلیخا ایک ادنی غلام پر عاشق ہے اب تمہیں انصاف سے کہو یہ شخص لائق اس کے ہے یا نہیں کہ اس کو پیار کیا جائے اور اس کی محبت کا بیج دل میں بویا جائے پھر اس بات کے جتلانے کے بعد کہ یوسف (علیہ السلام) سارے عالم میں حسین ہیں یہ بات بھی ظاہر کی کہ تم یہ نہ جاننا کہ یہ شخص فقط حسن صورت ہی رکھتا ہے نہیں جیسی اس کی صورت ہے ویسی ہی اس کی سیرت بھی ہے میں نے آپ اس سے محبت کی ابتدا کی تھی اور میں نے خود اس کو اپنی طرف بلایا تھا مگر یہ شخص راضی نہ ہوا معصوم رہا گناہ کا مرتکب نہ ہوا غرض کہ جس طرح حسن میں اپنا آپ یہ مثال ہے اسی طرح عفت و پاکبازی میں بھی بےنظیر ہے پھر زلیخا نے شرم کو بالائے طاق رکھ کر صاف صاف کہہ دیا کہ یوسف اگر میرے حکم کی تعمیل نہ کرے گا اور جو کچھ میں کہتی ہوں اسے بجا نہ لائے گا تو اس کے حق میں بہت ہی برا ہوگا یا تو ہمیشہ ہمیشہ قید میں رہے گا یا اور کسی دوسری قسم کی ذلت اس کے لئے تجویز کی جائے گی جس سے یہ نہایت ہی ذلیل ہوگا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے زلیخا کی یہ باتیں سنیں تو ان کے دل میں بہت ہی خوف پیدا ہوا کہ دیکھئے اس عورت سے کس طرح اپنی عفت و عصمت قائم رہتی ہے یہ تو کچھ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑی ہے۔ اس لئے انہوں نے خدا سے دعا کہ الٰہی عفت و عصمت کے روبرو قید کی کچھ ہستی نہیں ہیں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ قید میں رہوں اور یہ ہرگز منظور نہیں کہ میری آبرو ریزی ہو اور دامن عصمت میں گناہ کا دھبہ آئے۔ عورتیں جس کام کو مجھ سے کہتی ہیں اگرچہ اس میں کوئی ظاہری ذلت نصیب نہیں ہوتی اور قید ہوجانا ایک نہایت ہی ذلت کی بات ہے مگر میں تو اس قید کی ذلت کو پسند کرتا ہوں اور عورتوں کے کہنے پر عمل کرنا اور ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجانا ہرگز پسند نہیں کرتا پھر یوسف (علیہ السلام) نے اس اثنائے دعا میں یہ بات اپنے پروردگار سے کہی کہ اے معبود حقیقی اگر ان عورتوں کے فریب سے تو مجھے نہ بچائے گا تو ضرور میں ان کے دام میں آجاؤں گا اور جب یہ کام کروں گا تو دنیا بھر کے آدمیوں سے جاہل ٹھہروں گا۔ کیونکہ ایک شئی کی برائی کو جان کر پھر اس شئے کے کرنے پر جرأت کرنا سوائے جاہل مطلق کے اور کسی کا کام نہیں۔ بعض مفسروں نے یہاں یہ بات بھی بیان کی ہے کہ محفل میں جتنی عورتیں شریک تھیں ان سب کی سب نے باری باری سے خلوت کر کے یوسف (علیہ السلام) کو بلایا اسی واسطے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یہ کہا کہ خدایا ان عورتوں کے مکرو فریب سے بچا اور نہیں تو اگر فقط زلیخا کا خیال تھا تو بصیغہ جمع نہ فرماتے واحد کا صیغہ استعمال کرتے اور بعض مفسروں نے کہا صیغہ جمع زلیخا کی شان میں بطور تعظیم کے فرمایا تھا۔ بہرحال اللہ پاک نے یوسف (علیہ السلام) کی دعا کا حال بیان فرمایا کہ یہ بیان کیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو بچا لیا کیوں کہ وہ ہر ایک ظاہر اور پوشیدہ باتوں کا یکساں سننے والا ہے اور ہر شخص کے دلی حالات کا جاننے والا ہے صحیح بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی اور نسائی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہجرت سے پہلے وہ کعبہ کے ستون کی آڑ میں تھے تین مشرک لوگ بھی وہاں آئے اور آڑ کے سبب سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کو انہوں نے نہیں دیکھا اور آپس میں کچھ باتیں کیں۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں میں نے وہ باتیں نہیں سنیں لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں سن کر ان مشرکوں کے حق میں سورة حم سجدہ کی آیتیں نازل فرمائیں ١ ؎ ان آیتوں کی تفسیر اسی سورت میں آوے گی۔ طبرانی اور مسند بزار کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتوں کو بعضے عملوں کا حال معلوم نہ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرماوے گا کہ یہ عمل خالص دل سے نہیں کئے گئے اس واسطے ان عملوں کو بغیر ثواب کے نامہ اعمال میں سے نکال دیا جاوے۔ ٢ ؎ یہ حدیثیں ( انہ ھو السمیع العلیم) کی گویا تفسیر ہیں۔ ١ ؎ فتح الباری ص ٣٢٣ ج ٤ تفسیر سورة حم السجدہ و تفسیر ابن کثیر ٩٧ ج ٤۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢١ ج الترہیب من الریائ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:32) لمتننی۔ لمتن۔ ماضی جمع مؤنث حاضر۔ نی مفعول لوم سے (باب نصر) تم عورتوں نے مجھے ملامت کی۔ لومۃ ملامت۔ لائم ملامت کرنے والا۔ لومۃ لائم (5:54) ملامت گر کی ملامت۔ فیہ۔ جس کے بارے میں۔ ذلکن۔ ذ اسم اشارہ ۔ یہ ۔ یہی۔ کن ضمیر جمع مؤنث غائب خطاب کے لئے ہے۔ ولکن الذی۔ اے عورتوں یہی ہے وہ شخص۔ استعصم۔ اس نے بچا لیا۔ اس نے تھام لیا۔ اس نے روک لیا۔ استعصام (استفعالٌ سے ماضی ۔ واحد مذکر غائب۔ لئن لم یفعل۔ لام غیر عاملہ ہے۔ ان لم یفعل۔ اگر اس نے نہ کیا۔ ما امرہ۔ ما موصولہ ہے۔ اور ضمیر ہ کا مرجع ہے۔ ای ما امرہ بہ جس کا میں حکم دوں یا ما مصدریہ ہے۔ اور ہ ضمیر یوسف کی طرف راجع ہے۔ ای ولئن لم یفعل امری ایاہ۔ اگر اس نے میرا حکم نہ مانا۔ لیسجنن۔ لام تاکید بانون ثقیلہ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ تو وہ ضرور قید میں ڈالا جائے گا۔ لیکونا۔ لام تاکید بانون خفیفہ۔ جو بولنے میں آگیا ہے لیکن لکھا نہیں گیا۔ وہ یقینا ہوگا ۔ صاغرین۔ ذلیل و خوار۔ صغار سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بحالت جر۔ صاغر واحد صغر (کرم) صغر صغر صغار ذلیل و خوار ہونا۔ اور صگر صغر صغارۃ۔ چھوٹا ہونا۔ صغیر چھوٹا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ ان کے روبرو یہ بات کہی تا وہ بھی سمجھا دیں اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) ڈر کر قبرل کریں۔ (موضح) ۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے یہ سخت امتحان کا وقت تھا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں مصر کے اونچے طبقہ کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ عزیزِ مصر کی بیوی نے جن عورتوں کو اپنے ہاں دعوت دی وہ عام گھرانوں کی معمولی عورتیں نہ ہوں گی بلکہ امراء روسا اور بڑے افسروں کی کھاتی پیتی بیگمات ہی ہوں گی۔ دعوت کے بہانے وہ ان عورتوں کو یوسف ( علیہ السلام) کے حسن کا قاتل کرنے کے کوشش کرتی ہے پھر وہ بیگمات بھی ایسی ہی تھیں کہ انہوں نے عزیز مصر کی بیگم کو معذور سمجھا۔ یہی نہیں بلکہ عزیز مصر کی بیگم اسے برملا دھمکی دیتی ہے کہ اگر وہ اس کی خواہشات کا کھلونا نہ بنا تو اسے ذلیل ہونا پڑے گا اور جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ " عزیز کی بیوی نے کہا " دیکھ لیا ، یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں " دیکھ لیا تم نے۔ ذرا اپنی حالت کو تو دیکھ ، بتاؤ تم کیوں حیران و پریشان اور حواس باختہ ہوگئی ہو۔ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ : " بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا " اس نے مجھے اسی طرح حواس باختہ کردیا ہے ، میں نے اسے ورغلانے کی بہت کوشش کی مگر یہ بچ نکلتا ہے۔ یہ میری تمام کوششوں اور فتنہ سامانیوں کے مقابلے میں اپنے اصول پر جما ہوا ہے لیکن ۔۔۔ تعجب یہ ہے کہ اس کی مصری معاشرے میں اونچے طبقے کی یہ عورت علانیہ تمام عورتوں کے سامنے اپنے جنسی عزائم کا اظہار کر رہی ہے اور دھمکی بھی دیتی ہے۔ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ : " اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا " اب یہ عورت صنف نازک کے ورغلانے والے حربوں کے علاوہ بڑے فخر سے تشدد اور دھمکی کے ذرائع بھی استعمال کر رہی ہے۔ یہ دھمکی عورتوں کے مجمعے میں یوسف کو کھلے بندوں دی جا رہی ہے۔ اور انہی عورتوں کے سامنے جن میں سے ہر ایک اپنی فتنہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اور یہ دھمکی اسے خود اپنی مالکہ دے رہی ہے ، چناچہ ایسے نازک اور خطرناک حالات میں صرف رب تعالیٰ ہی سے مدد لی جاسکتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ زلیخان نے جب عورتوں کی فریفتگی اور وارفتگی دیکھی تو فورًا بول اٹھی کہ دیکھا یوسف کو دیکھ کر تم خود مبہوم و مدہوش ہوگئی ہو اور یہی میری قصور ہے جس پر تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ ” وَ لَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ “ اس میں شک نہیں کہ میں نے یوسف کے اسی بےمثال حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر اسے ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ ” فَاسْتَعْصَمْ “ لیکن وہ صاف بچ گیا ہے اور گناہ سے محفوظ و معصوم رہا ہے۔ یہ زلیخا کی زبان سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عصمت اور پاکدامنی کی شہادت ہے۔ ” وَ لَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ “ اب تک تو یوسف میرے کہنے میں نہیں آیا لیکن یاد رکھے اگر وہ میری بات نہیں مانے گا تو اسے قید کردیا جائے گا اور اس طرح جیل میں اسے چوروں، ڈاکوؤوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ ذلت ورسوائی برداشت کرنا پڑے گی۔ یہ زلیخا کی طرف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک دھمکی تھی کہ شاید وہ اس طرح نرم پڑجائیں مگر اللہ کے برگزیدہ پیغمبر نے قید کو گناہ پر ترجیح دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 زلیخا کہنے لگی یہی تو وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم مجھ کو ملامت کر رہی تھیں اور برا بھلا کہہ رہی تھیں اور واقعی میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اس کو پھسلایا اور پانی طرف مائل کرنا چاہا تھا مگر یہ بالکل محفوظ رہا اس نے اپنے کو بالکل پاک صاف رکھا اور جو کام میں اس سے کہہ رہی ہوں اگر آئندہ بھی اس کی تعمیل نہ کرے گا تو وہ ضرور قید کیا جائے گا اور وہ ضرور بےعزت ہوگا۔ زلیخا نے بہت سمجھداری سے بات کی پہلے تو یہ سمجھایا کہ اگر میں اس پرفریقتہ ہوئی تو کچھ دیکھ بھال کر ہوئی ہوں پھر یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامی اور اپنی ارادت کا اقرار کیا آخر میں دھمکی دی کہ جیل خانے بھیجاجائے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ان کے روبرو یہ بات کہی تاکہ وہ بھی سمجھادیں اور حضر ت یوسف (علیہ السلام) قبول کریں۔ بعض اہل تحقیق نے کہا ہے کہ سب ان عورتوں کی ملی بھگت تھی مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں یہ بات نہ تھی اور ہاتھ کاٹنے میں کوئی بنی ہوئی بات نہ تھی البتہ بعد میں جوڑ لگ گیا ہوگا اور انہوں نے بھی یوسف (علیہ السلام) کو سمجھایا ہوگا کہ آخر تمہاری آقا ہے اس کا کہنا کردو ورنہ بلاوجہ جیل خانہ جائو گے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ یہ عورتیں جیل کی دھمکی دے رہی ہیں اور مجھ پر یورش کر رہی ہیں تو وہ حضرت حق کی جانب متوجہ ہوئے۔