Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 34

سورة يوسف

فَاسۡتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنۡہُ کَیۡدَہُنَّ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۴﴾

So his Lord responded to him and averted from him their plan. Indeed, He is the Hearing, the Knowing.

اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ اس سے پھیر دیئے ، یقیناً وہ سننے والا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ ... "I will feel inclined towards them and be one of the ignorant." So his Lord answered his invocation. Yusuf, peace be upon him, was immune from error by Allah's will, and He saved him from accepting the advances of the wife of the Aziz. He preferred prison, rather than accept her illicit call. This indicates the best and most perfect grade in this case, for Yusuf was youthful, beautiful and full of manhood. His master's wife was calling him to herself, and she was the wife of the Aziz of Egypt. She was also very beautiful and wealthy, as well as having a great social rank. He refused all this and preferred prison, for he feared Allah and hoped to earn His reward. ... فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ and turned away from him their plot. Verily, He is the All-Hearer, the All-Knower. It is recorded in the Two Sahihs that the Messenger of Allah said, سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَادِلٌ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ وَرَجُلَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا أَنْفَقَتْ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاه Allah will give shade to seven, on the Day when there will be no shade but His: A just ruler, a youth who has been brought up in the worship of Allah, a man whose heart is attached to the Masjid, from the time he goes out of the Masjid until he gets back to it, two persons who love each other only for Allah's sake and they meet and part in Allah's cause only, a man who gives charitable gifts so secretly that his left hand does not know what his right hand has given, a man who refuses the call of a charming woman of noble birth for illicit intercourse with her and says: "I am afraid of Allah, and a person who remembers Allah in seclusion and his eyes are then flooded with tears."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] یعنی سیدنا یوسف کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عزم و استقلال بخشا کہ کسی عورت کا ان پر جادو نہ چل سکا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ ۔۔ : اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کرکے ان سب عورتوں کا مکر و فریب اس سے ہٹا دیا، چناچہ اس کے بعد کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ کسی عورت نے انھیں پھسلانے کی کوشش کی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ جمال یوسفی پر ہیبت نبوت کی زرہ ڈال دی گئی، جیسا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی دعوت دینے کی کسی عورت کو کبھی جرأت ہی نہیں ہوئی، حالانکہ ان کے حسن و جمال کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, said in verse 34 was: فَاسْتَجَابَ لَهُ رَ‌بُّهُ فَصَرَ‌فَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ So, his Lord accepted his prayer and turned their guile away from him. Surely, He is the All-Hearing, the All-Knowing. To protect him from the guile of these women, Allah Ta ala made his own wise arrangements. Though the ` Aziz of Misr and his inner circle was already convinced of the great spiritual qualities of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) his piety, fear of Allah and chastity, but rumours of the incident had started circulating in the city. To put a check on this, they found it expedient to confine Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) into the prison for a certain pe¬riod of time so that there remains no source of any doubt in the con¬cerned family, and that the talk of the town too dies out in due course.

(آیت) فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ یعنی ان کی دعاء ان کے رب نے قبول فرما لی اور ان عورتوں کے مکر و حیلہ کو ان سے دور رکھا بیشک وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے جال سے بچانے کے لئے یہ سامان فرما دیا کہ عزیز مصر اور اس کے دوستوں کو اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کی بزرگی اور تقویٰ و طہارت کی کھلی نشانیاں دیکھ کر ان کی پاکی کا یقین ہوچکا تھا مگر شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا اس کو ختم کرنے کے لئے ان کو مصلحت اس میں نظر آئی کہ کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بند کردیا جائے تاکہ اپنے گھر میں ان شبہات کا کوئی موقع بھی باقی نہ رہے اور لوگوں کی زبانوں سے اس کا یہ چرچا بھی ختم ہو جائے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ كَيْدَہُنَّ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٤ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور عورتوں کے مکر و فریب سے ان کو دور رکھا، بیشک وہ دعاؤں کا سننے والا اور ان کی قبولیت کو جاننے والا ہے یا کہ ان عورتوں کی باتوں کا سننے والا اور ان کے داؤ پیچ کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. Allah warded off their guile from Prophet Joseph by strengthening his character in such a way as to make ineffective all their devices to ensnare him, This also implies that Allah opened the door of prison for him in order to keep him safe from their tricks and temptations.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :29 دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخشش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہو کر رہ گئیں ۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:34) استجاب۔ اس نے قبول کیا۔ اس نے مانا۔ استجابۃ (افتعال) سے جس کے معنی قبول کرنے اور ماننے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مانگے یہ قید پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی قبول فرمایا کہ ان کا فریب دفع کیا اور قید ہونا تھا قسمت میں، آدمی کو چاہیے کہ گھبرا کر اپنے حق میں برائی نہ مانگے پوری بھلائی مانگے گو کہ وہی ہوتا ہے جو قسمت میں ہوتا ہے۔ (موضح) ۔ منقول ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی کی : یوسف ( علیہ السلام) تم نے خود ہی اپنے اوپر زیادتی کی ہے کہ جیل کو پسند کیا۔ اگر تم یہ دعا کرتے کہ اللہ مجھے عافیت محبوب ہے تو تمہیں عافیت مل جاتی۔ ترمذی میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دعا کی : اللھم اسئلک الصبر “۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میاں تم نے اللہ تعالیٰ سے مصیبت کا سوال کیا ہے اب اللہ سے عافیت طلب کرو۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ نے ان کی سازشوں کو کس طرح پھیرا ، یہ کہ وہ ان سے مایوس ہوگئیں ، انہوں نے بہت سی چالیں چلیں اور تجربات کیے مگر وہ ان کے دام میں نہ آئے کہ عنقا را بلند است آشیانہ۔ یہ بھی صورت تھی کہ ان فتنہ سامانیوں کا حضرت پر اثر ہی نہ ہوتا ، اللہ سمیع وعلیم ہے وہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے ، سن رہا ہے ، یہاں آ کر حضرت یوسف زندگی کے اس دوسرے امتحان اور آزمائش میں کامیاب رہے۔ (بفضل اللہ و رحمتہ)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 پھر اس کے رب نے اس کی دعا قبول فرمالی اور ان عورتوں کے فریب اور دائوں پیچ کو حضر ت یوسف (علیہ السلام) سے دور کردیا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مانگے سے قید میں پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی قبول فرمایا کہ ان کا فریب رفع کیا اور قید ہونا تھا قسمت میں آدمی کو چاہئے کہ گھبرا کر اپنے حق میں برائی نہ مانگے پوری بھلائی مانگے کہ وہی ہوگا جو قسمت میں ہے۔