Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 36

سورة يوسف

وَ دَخَلَ مَعَہُ السِّجۡنَ فَتَیٰنِ ؕ قَالَ اَحَدُہُمَاۤ اِنِّیۡۤ اَرٰىنِیۡۤ اَعۡصِرُ خَمۡرًا ۚ وَ قَالَ الۡاٰخَرُ اِنِّیۡۤ اَرٰىنِیۡۤ اَحۡمِلُ فَوۡقَ رَاۡسِیۡ خُبۡزًا تَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡہُ ؕ نَبِّئۡنَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۳۶﴾

And there entered the prison with him two young men. One of them said, "Indeed, I have seen myself [in a dream] pressing wine." The other said, "Indeed, I have seen myself carrying upon my head [some] bread, from which the birds were eating. Inform us of its interpretation; indeed, we see you to be of those who do good."

اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے ، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے ، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں ، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے ، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Two Jail Mates ask Yusuf to interpret their Dreams Allah tells: وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانَ قَالَ أَحَدُهُمَأ إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الاخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّيْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ And there entered with him two young men in the prison. One of them said: "Verily, I saw myself (in a dream) pressing wine." The other said: "Verily, I saw myself (in a dream) carrying bread on my head and birds were eating thereof." (They said): "Inform us of the interpretation of this. Verily, we think you are one of the doers of good." Qatadah said, "One of them was the king's distiller and the other was his baker." Each of these two men had a dream and asked Yusuf to interpret it for them.

جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات اتفاق سے جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے ۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام بحلث تھا ۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی ۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی ۔ سچائی ، امانت داری ، سخاوت ، خوش خلقی ، کثرت عبادت ، اللہ ترسی ، علم و عمل ، تعبیر خواب ، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ مشہور ہوگئے تھے ۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ کا تشخص تھا ۔ یہ دونوں ہی ملازم حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت ہی محبت کرنے لگے ۔ ایک دن کہنے لگے کہ حضرت ہمیں آپ سے بہت ہی محبت ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا ۔ پھوپھی کی محبت ، باپ کا پیار ، عزیز کی بیوی کی چاہت ، سب مجھے یاد ہے ۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں خمرا کے بدلے لفظ عنبا ہے ، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں ۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں ، اس نے توڑے ہیں ۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے ۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کر دیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے ۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آکر اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام سے دریافت کی تھی ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک شراب پلانے پر معمور تھا اور دوسرا نان بھائی تھا، کسی حرکت پر دونوں کو قید میں ڈال دیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں دیگر تمام قیدیوں سے ممتاز تھے علاوہ ازیں خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم اور ملکہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ان دونوں نے خواب دیکھا تو قدرتی طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف انہوں نے رجوع کیا اور کہا ہمیں آپ محسنین میں سے نظر آتے ہیں، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ محسن کے ایک معنی بعض نے یہ بھی کئے ہیں کہ خواب کی تعبیر آپ اچھی کرلیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] دو قیدیوں کا اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنا :۔ اسی زمانہ میں دو اور قیدی قید خانہ میں ڈالے گئے، ان میں ایک شاہ مصر کا نانبائی تھا اور دوسرا اس کا ساقی یعنی شراب پلانے والا تھا۔ ان دونوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے اور بقول بعض مفسرین الزام یہ تھا کہ انہوں نے ایک دعوت کے موقعہ پر صفائی کا پورا خیال نہیں رکھا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ان دونوں نے ایک ہی رات الگ الگ خواب دیکھا اور چونکہ سیدنا یوسف پورے قیدخانہ میں اپنی پاک سیرت، بلندی اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ لہذا ان قیدیوں نے اپنے اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیا۔ ساقی نے اپنا خواب یہ بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگوروں سے شراب نچوڑ رہا ہوں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا اور نانبائی نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سر پر بہت سی روٹیاں رکھی ہوئی ہیں اور پرندے ان روٹیوں کو نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اپنے اپنے خواب بیان کرکے ان سے التجا کی کہ اس کی تعبیر بتائی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ ۔۔ : ” فَتَيٰنِ “ ” فَتًی “ کی تثنیہ ہے، دو نوجوان، یہ لفظ عام طور پر غلام یا خادم پر بھی بول لیا جاتا ہے۔ یہ دونوں بادشاہ کے خاص خادم تھے، بہت جلد دونوں یوسف (علیہ السلام) کے حسن اخلاق سے متاثر اور ان سے مانوس ہوگئے۔ یوسف (علیہ السلام) کے ہر ایک کی بےلوث خدمت کرنے نے ان پر یہ حقیقت واضح کردی کہ یہ بندہ ہر ایک کی خیر خواہی اور خدمت کسی بھی معاوضے کی امید یا کسی طمع کے بغیر کرتا ہے، اسی کا نام احسان ہے اور ایسا کرنے والا محسن ہوتا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے قارون سے کہا تھا : (وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) [ القصص : ٧٧ ] ” اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی نیکی اور ہمدردی کی وجہ سے ایسا شخص خودبخود ہی ہر ایک کی نگاہ میں آجاتا ہے کہ یہ نیک اور اچھا آدمی ہے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) میں یہ صفت بطور خاص پائی جاتی تھی، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات مثلاً دوسروں کا بوجھ اٹھانا، مہمان نوازی کرنا، مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنا، لوگوں کے لیے ذریعۂ معاش تلاش اور مہیا کرنا، سچ کہنا وغیرہ کی تصدیق ہماری ماں خدیجہ (رض) نے کی اور ابوبکر (رض) کی صفات کی تصدیق ابن دغنہ نے کی۔ [ بخاری، الوحي، کیف بدء الوحي : ٣، و مناقب الأنصار، باب ہجرۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٣٩٠٥ ] یہ لوگ صرف نماز روزے ہی کے نیک نہ تھے، بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے خیر خواہ بھی تھے، یہی بندوں کے ساتھ احسان ہے۔ اب ان دونوں نے خواب دیکھا تو پوری جیل میں ان کی نگاہ صرف یوسف (علیہ السلام) پر پڑی اور انھوں نے تعبیر کے لیے انھی کو منتخب کرنے کی وجہ بھی صاف لفظوں میں بیان کردی : (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) یعنی آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیں، کیونکہ بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خواب کی تعبیر بہت اچھی کرتے ہیں، شاید اس سے پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) نے کچھ تعبیریں کی ہوں جو درست نکلی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ علم خاص طور پر دیا تھا۔ احسان کے یہ دونوں معنی بندوں پر احسان کے ہیں، ایک احسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بھی ہوتا ہے جس کا ذکر حدیث جبریل (علیہ السلام) میں ہے، فرمایا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠] ” تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ “ ہوسکتا ہے ان قیدیوں نے یوسف (علیہ السلام) کی نماز، عبادت اور ذکر الٰہی میں اللہ سے تعلق کو دیکھ کر ان کے محسن اور نیک ہونے کا یقین کرلیا ہو کہ ان کی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی اس طرح توجہ اور محویت سے عبادت کر رہا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the verses cited above is a supplementary event relat¬ing to the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . It has been repeatedly stressed that the Holy Qur’ an is no book of history, or of stories and tales. When a story or historical event is mentioned in it, the sole objective is to pro-vide some lesson, good counsel or crucial guidance on various facets of human life. In the entire Qur’ an and throughout the events relating to many prophets, it is the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) alone which has been described by the Qur’ an continuously - otherwise, it has considered it sufficient to mention some necessary part of an historical event where¬ver appropriate. If you would look at the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from the begin¬ning to the end, there are hundreds of lessons to learn, good advices to heed to and important elements of guidance to follow during various stages of human life. This supplementary story too has its graces of guid¬ance in abundance. The event as it took shape was that, despite the complete absolve¬ment of Sayyidna Yusuf علیہ السلام from the blame, and the strong establishment of his moral integrity, it was to put an end to the disgrace of people talking about them that the ` Aziz of Misr and his wife decided to send Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) to the prison for some time - which, in reality, was the fulfillment of the du&a& and wish of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، because, for him, it had become extremely difficult to defend his chastity while living in the home of the ` Aziz of Misr. When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) arrived at the prison, two other sen¬tenced criminals were also admitted there. One of them was the cup-bearer of the king while the other was a cook. Citing major Tafsir authorities, Ibn Kathir has written that these two were arrested on the charge that they had tried to poison the king through food or drink. The case was under investigation, therefore, they were kept in prison. When Sayyidna Yusuf علیہ السلام came into the prison, it was because of his prophetic morals, mercy and affection that he used to show concern about all of his fellow inmates and took care of them whenever needed. If anyone became sick, he would call on him and do whatever had to be done for him. For anyone he found sad or distressed, he would have appropriate words of comfort. To lift his spirits, he would gently tell him to observe patience and made the hope of freedom come alive into his heart. He would think of bringing comfort to others at the cost of his own discomfort. For whole nights he would remain engaged in the ` Ibadah (worship) of Allah Ta ala. Seeing his endearing ways, all inmates of the prison became convinced of his high spiritual status. Even the offic¬er-in-charge of the prison was impressed. He said: Had it been in my power, I would have let you go. Now, this much I can do that you will face no inconvenience here. Some Notes to Wonder About When the officer-in-charge of the prison, or some of the inmates, told Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) that they loved him very much, he said: For God&s sake, do not love me - because whenever I have been loved by anyone, I have suffered one way or the other. When I was a child, my paternal aunt loved me. As a result, I was blamed for theft. Then, my father loved me. This made me do a term of detention in a well at the hands of my brothers, then came slavery and expulsion from home country. When the wife of the ` Aziz loved me, I landed into this prison. (Ibn Kathir, Mazhari) These two prisoners who went to the prison along with Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said to him one day that they thought he was a man of piety and good deeds, therefore, they would like to ask him to give an interpre¬tation of their dream. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and some other leading authorities in Tafsir have said that they had really seen these dreams. Sayyidna ` Abdullah ibn Mas’ ud (رض) has said that there was no dream. They had simply made it up to test the spiritual excellence and veracity of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . However, one of them, that is, the royal cup-bearer, said: ` I have seen myself (in dream) pressing wine,& and the other, that is, the cook, said: ` I have seen myself carrying bread on my head of which the birds are eat¬ing.& Then, they requested him to interpret the dreams for them. Here, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) has been requested to interpret the dreams. But he, before answering this question, and following his intrin¬sic prophetic way, begins with the task of Tabligh and invitation to be¬lieve and have faith. And by following the principle of Da&wah and by act¬ing wisely, he first tried to create in their hearts a base of confidence inhim. To achieve this, he talked about his particular miracle through which he tells them about the food which they receive from their homes, or from somewhere else, and much before it arrives, he is able to tell them the kind, the taste, the quantity and the time of arrival of the food - and that the food turns out to be exactly as predicted: Injunctions and Rulings Worth pondering on are many Ahkam, Masa&il, useful lessons and elements of guidance that emerge from the verses under reference. They are as given below: 1. Consider the confinement of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) into a prison which is the notorious turf of criminals and bad characters. But, he treat¬ed them too with his characteristic good morals and social graces, as a re¬sult of which, all of them became enamoured with him. This tells us that it is the duty of reformers that they should, by dealing with sinners and criminals with compassion and concern, bring them closer, let them be-come familiar, connected, and reliant on them. Also necessary is that they should not betray any attitude of hatred or distaste for them at any step. 2. From the statement: إِنَّا نَرَ‌اكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (We see you are a man of good deeds), we find out that the interpretation of a dream should be sought particularly from persons one trusts in as righteous, good in deeds and sympathetic. 3. The third thing we learn here is about the ideal conduct of those who carry the da&wah of truth and serve people by working for their moral and social betterment. In this connection, their first duty is to bring round people created by Allah to put their trust in them through their good morals and conduct, and their intellectual and practical excel-lences - whether they have to unfold and express some of those excel¬lences, as was done by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) on this occasion when he not only talked about his miracle but also mentioned his being a member of the House of Prophets. Such a statement of personal excellence - if it is based on the intention to serve people to become better and not to prove one&s personal rank - will not be considered as the ` self-praise& which has been prohibited in the Holy Qur&an: فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ that is, do not talk about the purity of your own self. (Tafsir Mazhari) 4. Pointed to here is an important principle of communication and correction (Tabligh and Irshad). It is the duty of the carrier of a Call (Da` i) and reformer (Muslih) that he should, at all times and under all circumstances, keep his constant mission of Da&wah and Tabligh come first of all he does. In other words, if someone comes to him for someth¬ing, he should not forget his real mission - as was done by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) when these prisoners came to him to ask for an interpreta¬tion of their dreams. At that time, before answering their request for the interpretation of their dreams, he gave them the gift of right guidance through his Tabligh and Irshad. Please do not take Da&wah and Tabligh as something which takes place in a conference, or on a pulpit or stage alone. This job is done far more effectively through personal contacts and private exchanges. 5. Another aspect of this very effort of telling people what is right and seeking their betterment through it (Irshad and Islah) is: Whatever is said in this connection should be said with the strategy of wisdom in a way that it goes into the heart of the addressee. This is how it was done by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . He succeeded in showing to them that the excel¬lences he had were the direct outcome of his disengagement with disbe¬lief and adoption of Islam as his faith. After that he described the draw-backs and shortcomings of Kufr and Shirk in a soft manner which appeals to the heart. 6. Another problem resolved here is about how bad news should be handled. If, that which has to be communicated to an addressee happens to be painful or repugnant, yet it be necessary that it be disclosed, then, it should be presented before the addressee, as far as possible, in a way that it brings the least discomfort to him. This is as it was when the death of one person was destined as interpreted on the basis of his dream, but Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) kept it ambiguous. He did not make it precise and fixed by telling him that he will be the one to be hanged. (Ibn Kathir, Mazhari) 7. It will be recalled that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had sought his release from the prison when he asked the acquitted prisoner: Mention me before your master. This tells us that making someone a medium of effort in order to get out of some difficulty is not against the principle of Tawak¬kul (Trust in Allah). Another view of this problem is that Allah Ta` ala does not like His great prophets making efforts to achieve everything permissible and go on to make a human being the medium of their release. This is so because the absence of any medium between them and Allah Ta ala spells out the true identity of prophets. Perhaps, that was why this prisoner forgot about the message given by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) which made him stay in the prison for many more years. In a Hadith too, the Holy Prophet has pointed out in this direction.

خلاصہ تفسیر : اور یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی اسی زمانے میں) اور بھی دو غلام (بادشاہ کے) جیل خانے میں داخل ہوئے (جن میں ایک ساقی تھا دوسرا روٹی پکانے والا باورچی اور ان کی قید کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے کھانے میں اور شراب میں زہر ملاکر بادشاہ کو دیا ہے ان کا مقدمہ زیر تحقیق تھا اس لئے قید کر دئیے گئے انہوں نے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) میں بزرگی کے آثار پائے تو) ان میں سے ایک نے (حضرت یوسف (علیہ السلام) سے) کہا کہ میں اپنے آپ کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ (جیسے) شراب (بنانے کے لئے انگور کا شیرہ) نچوڑ رہا ہوں (اور بادشاہ کو وہ شراب پلا رہا ہوں) اور دوسرے نے کہا کہ میں اپنے کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ (جیسے) اپنے سر پر روٹیاں لئے جاتا ہوں (اور) اس میں سے پرندے (نوچ نوچ کر) کھاتے ہیں ہم کو اس خواب کی (جو ہم دونوں نے دیکھا ہے) تعبیر بتلائیے آپ ہم کو نیک آدمی معلوم ہوتے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے (جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ اعتقاد کے ساتھ میری طرف مائل ہوئے ہیں تو چاہا کہ ان کو سب سے پہلے ایمان کی دعوت دی جائے اس لئے اول اپنا نبی ہونا ایک معجزہ سے ثابت کرنے کے لئے) فرمایا کہ (دیکھو) جو کھانا تمہارے پاس آتا ہے جو کہ تم کو کھانے کے لئے (جیل خانے میں) ملتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے اس کی حقیقت تم بتلا دیا کرتا ہوں (کہ فلاں چیز آوے گی اور ایسی ایسی ہوگی اور) یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے رب نے تعلیم فرمایا ہے (یعنی مجھ کو وحی سے معلوم ہوجاتا ہے تو یہ ایک معجزہ ہے جو دلیل نبوت ہے اور اس وقت یہ معجزہ خاص طور پر اس لئے مناسب تھا کہ جس واقعہ میں قیدیوں نے تعبیر کے لئے ان کی طرف رجوع کیا وہ واقعہ بھی کھانے ہی سے متعلق تھا اثبات نبوت کے بعد آگے اثبات توحید کا مضمون بیان فرمایا کہ) میں نے تو ان لوگوں کا مذہب (پہلے ہی سے) چھوڑ رکھا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں اور میں نے اپنے ان (بزرگوار) باپ دادوں کا مذہب اختیار کر رکھا ہے ابراہیم کا اور اسحاق کا اور یعقوب کا (علیہم السلام اور اس مذہب کارکن اعظم یہ ہے کہ) ہم کو کسی طرح زیبا نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک (عبادت) قرار دیں یہ (عقیدہ توحید) ہم پر اور (دوسرے) لوگوں پر (بھی) خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے (کہ اس کی بدولت دنیا وآخرت کی فلاح ہے) لیکن اکثر لوگ (اس نعمت کا) شکر (ادا) نہیں کرتے (یعنی توحید کو اختیار نہیں کرتے) اے قیدخانہ کے رفیقو ! (ذرا سوچ کر بتلاؤ کہ عبادت کے واسطے) متفرق معبود اچھے ہیں یا ایک معبود برحق جو سب سے زبردست ہے وہ اچھا تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر صرف چند بےحقیقت ناموں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھرا لیا ہے خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں (اور) حکم خدا ہی کا ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو یہی (توحید اور عبادت صرف حق تعالیٰ کے لئے مخصوص کرنا) سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ایمان کی دعوت و تبلیغ کے بعد اب ان کے خواب کی تعبیر بتاتے ہیں کہ) اے قیدخانہ کے رفیقو ! تم میں ایک تو (جرم سے بری ہو کر) اپنے آقا کو (بدستور) شراب پلایا کرے گا اور دوسرا (مجرم قرار پاکر) سولی دیا جاوے گا اور اس کے سر کو پرندے (نوچ نوچ کر) کھاویں گے اور جس بارے میں تم پوچھتے تھے وہ اسی طرح مقدر ہوچکا (چنانچہ مقدمہ کی تنقیح کے بعد اسی طرح ہوا کہ ایک بری ثابت ہوا اور دوسرا مجرم، دونوں جیل خانہ سے بلائے گئے ایک رہائی کیلئے دوسرا سزا کے لئے) اور (جب وہ لوگ جیل خانہ سے جانے لگے تو) جس شخص پر رہائی کا گمان تھا اس سے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ کرنا (کہ ایک شخص بےقصور قید میں ہے اس نے وعدہ کرلیا) پھر اس کو اپنے آقا سے (یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھلا دیا تو (اس وجہ سے) قیدخامہ میں اور بھی چند سال ان کا رہنا ہوا، معارف و مسائل : مذکورہ آیات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کا ایک ذیلی واقعہ مذکور ہے یہ بات آپ بار بار معلوم کرچکے ہیں کہ قرآن حکیم نہ کوئی تاریخی کتاب ہے نہ قصہ کہانی کہ اس میں جو تاریخی واقعہ یا قصہ ذکر کیا جاتا ہے اس سے مقصود صرف انسان کو عبرت وموعظت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اہم ہدایات ہوتی ہیں پورے قرآن اور بیشمار انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات میں صرف ایک ہی قصہ یوسف (علیہ السلام) ایسا ہے جس کو قرآن نے مسلسل بیان کیا ہے ورنہ ہر مقام کے مناسب تاریخی واقعہ کا کوئی ضروری جزء ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، قصہ یوسف (علیہ السلام) کو اول سے آخر تک دیکھئے تو اس میں سینکڑوں عبرت وموعظت کے مواقع اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار کے لئے اہم ہدایتیں ہیں یہ ذیلی قصہ بھی بہت سی ہدایات اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، واقعہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کی براءت اور پاکی بالکل واضح ہوجانے کے باوجود عزیز مصر اور اس کی بیوی نے بدنامی کا چرچا ختم کرنے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بھیج دینے کا فیصلہ کرلیا جو درحقیقت یوسف (علیہ السلام) کی دعاء اور خواہش کی تکمیل تھی کیونکہ عزیز مصر کے گھر میں رہ کر عصمت بچانا ایک سخت مشکل معاملہ ہوگیا تھا، یوسف (علیہ السلام) جیل میں پہنچے تو ساتھ دو مجرم قیدی اور بھی داخل ہوئے ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا ابن کثیر نے بحوالہ ائمہ تفسیر لکھا ہے کہ یہ دونوں اس الزام میں گرفتار ہوئے تھے کہ انہوں نے بادشاہ کو کھانے وغیرہ میں زہر دینے کی کوشش کی تھی مقدمہ زیر تحقیق تھا اس لئے ان دونوں کو جیل میں رکھا گیا، یوسف (علیہ السلام) جیل میں داخل ہوئے تو اپنے پیغمبرانہ اخلاق اور رحمت و شفقت کے سبب سب قیدیوں کی دلداری اور خبرگیری کرتے تھے جو بیمار ہوگیا اس کی عیادت اور خدمت کرے جس کو غمگین و پریشان پایا اس کو تسلی دیتے صبر کی تلقین اور رہائی کی امید سے اس کا دل بڑھاتے تھے خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام دینے کی فکر کرتے اور رات بھر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ان کے یہ حالات دیکھ کر جیل کے سب قیدی آپ کی بزرگی کے متعقد ہوگئے جیل کا افسر بھی متأثرہوا اس نے کہا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں آپ کو چھوڑ دیتا اب اتنا ہی کرسکتا ہوں کہ آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہ پہونچے، فائدہ عجیبہ : جیل کے افسر نے یا قیدیوں میں سے بعض نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا کہ ہمیں آپ سے بہت محبت ہے تو یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خدا کے لئے مجھ سے محبت نہ کرو کیونکہ جب کسی نے مجھ سے محبت کی ہے تو مجھ پر آفت آئی ہے بچپن میں میری پھوپی کو مجھ سے محبت تھی اس کے نتیجہ میں مجھ پر چوری کا الزام لگا پھر میرے والد نے مجھ سے محبت کی تو بھائیوں کے ہاتھوں کنویں کی قید پھر غلامی اور جلاوطنی میں مبتلا ہوا عزیز کی بیوی نے مجھ سے محبت کی تو اس جیل میں پہنچا (ابن کثیر، مظہری) یہ دو قیدی جو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ جیل میں گئے تھے ایک روز انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں نیک صالح بزرگ معلوم ہوتے ہیں اس لئے آپ سے ہم اپنی خواب کی تعبیر دریافت کرنا چاہتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہ خواب انہوں نے حقیقتہ دیکھے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ خواب کچھ نہ تھا محض یوسف (علیہ السلام) کی بزرگی اور سچائی کی آزمائش کے لئے خواب بنایا تھا ، بہرحال ان میں سے ایک یعنی شاہی ساقی نے تو یہ کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں انگور سے شراب نکال رہا ہوں اور دوسرے یعنی باورچی نے کہا میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیوں کا کوئی ٹوکرا ہے اس میں سے جانور نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور درخواست کی کہ ہمیں ان دونوں خوابوں کی تعبیر بتلائیے، حضرت یوسف (علیہ السلام) سے خوابوں کی تعبیر دریافت کی جاتی ہے مگر وہ پیغمبرانہ انداز پر اس سوال کے جواب سے پہلے تبلیغ و دعوت ایمان کا کام شروع فرماتے ہیں اور اصول دعوت کے ما تحت حکمت ودانشمندی سے کام لے کر سب سے پہلے ان لوگوں کے قلوب میں اپنا اعتمادپیدا کرنے کے لئے اپنے اس معجزے کا ذکر کیا کہ تمہارے لئے جو کھانا تمہارے گھروں سے یا کسی دوسری جگہ سے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں بتلا دیتا ہوں کہ کس قسم کا کھانا اور کیسا اور کتنا اور کس وقت آئے گا اور وہ ٹھیک اسی طرح نکلتا ہے احکام ومسائل آیات مذکورہ سے بہت سے احکام و مسائل اور فوائد و ہدایات حاصل ہوتے ہیں ان میں غور کیجئے، پہلا مسئلہ : یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیل میں بھیجے گئے جو مجرموں اور بدمعاشوں کی بستی ہوتی ہے مگر یوسف (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق، حُسن معاشرت کا وہ معاملہ کیا جس سے یہ سب گرویدہ ہوگئے جس سے معلوم ہوا کہ مصلحین کے لئے لازم ہے کہ مجرموں خطاکاروں سے شفقت و ہمدردی کا معاملہ کر کے ان کو اپنے سے مانوس و مربوط کریں کسی قدم پر منافرت کا اظہار نہ ہونے دیں دوسرا مسئلہ : آیت کے جملے اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ سے یہ معلوم ہوا کہ تعبیر خواب ایسے ہی لوگوں سے دریافت کرنا چاہئے جن کے نیک صالح اور ہمدرد ہونے پر اعتماد ہو تیسرا مسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ حق کی دعوت دینے والوں اور اصلاح خلق کی خدمت کرنا چاہئے جن کے نیک، صالح اور ہمدرد ہونے پر اعتماد ہو، تیسرامسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ حق کی دعوت دینے والوں اور اصلاح خلق کی خدمت کرنے والوں کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ پہلے حسن اخلاق اور علمی وعملی کمالات کے ذریعہ خلق اللہ پر اپنا اعتماد قائم کریں خواہ اس میں ان کو کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی کرنا پڑے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے اس موقع پر اپنا معجزہ بھی ذکر کیا اور اپنا خاندان نبوت کا ایک فردہونا بھی ظاہر کیا یہ اظہار کمال اگر اصلاح خلق کی نیت سے ہو اپنی ذاتی بڑائی ثابت کرنے کے لئے نہ ہو تو یہ وہ تزکیہ نفس نہیں جسکی ممانعت قرآن کریم میں آئی ہے فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ یعنی پاک نفسی کا اظہار نہ کرو (تفسیرمظہری) چوتھا مسئلہ : تبلیغ و ارشاد کا ایک اہم اصول یہ بتلایا گیا ہے کہ داعی اور مصلح کا فرض ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اپنے وظیفہ دعوت و تبلیغ کو سب کاموں سے مقدم رکھے، کوئی اس کے پاس کسی کام کے لئے آئے وہ اپنے اصلی کام کو نہ بھولے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس قیدی تعبیر خواب دریافت کرنے کے لئے آئے تو یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر خواب کے جواب سے پہلے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ان کو رشد و ہدایت کا تحفہ عطا فرمایا یہ نہ سمجھے کہ دعوت و تبلیغ کسی جلسہ کسی منبر یا اسٹیج ہی پر ہوا کرتی ہے شخصی ملاقاتوں اور نجی مذاکروں کے ذریعہ یہ کام اس سے زیادہ مؤ ثر ہوتا ہے، پانچواں مسئلہ : بھی اسی ارشاد و اصلاح سے متعلق ہے کہ حکمت کے ساتھ وہ بات کہی جائے جو مخاطب کو دل نشین ہو سکے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے ان کو یہ دکھلایا کہ مجھے جو کوئی کمال حاصل ہوا وہ اس کا نتیجہ ہے کہ میں نے ملت کفر کو چھوڑ کر ملت اسلام کو اختیار کیا اور پھر کفر و شرک کی خرابیاں دل نشین انداز میں بیان فرمائیں چھٹامسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ جو معاملہ مخاطب کے لئے تکلیف دہ اور ناگوار ہو اس کا اظہار ضروری ہو تو مخاطب کے سامنے جہاں تک ممکن ہو ایسے انداز سے ذکر کیا جائے کہ اس کو تکلیف کم سے کم پہنچے جیسے تعبیر خواب میں ایک شخص کی ہلاکت متعین تھی مگر یوسف (علیہ السلام) نے اس کو مبہم رکھا یہ متعین کر کے نہیں کہا کہ تم سولی چڑھائے جاؤ گے (ابن کثیر، مظہری) ساتواں مسئلہ : یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی کے لئے اس قیدی سے کہا کہ جب بادشاہ کے پاس جاؤ تو میرا بھی ذکر کرنا کہ وہ بےقصور جیل میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی مصیبت سے خلاصی کے لئے کسی شخص کو کوشش کا واسطہ بنانا توکل کے خلاف نہیں۔ آٹھوں مسئلہ : یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے لئے ہر جائز کوشش بھی پسند نہیں کہ کسی انسان کو اپنی خلاصی کا ذریعہ بنائیں ان کے اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہونا ہی انبیاء (علیہم السلام) کا اصلی مقام ہے شاید اسی لئے یہ قیدی یوسف (علیہ السلام) کے اس کہنے کو بھول گیا اور ان کو مزید کئی سال جیل میں رہنا پڑا ایک حدیث میں بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ۝ ٠ۭ قَالَ اَحَدُہُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا۝ ٠ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْہُ۝ ٠ۭ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِہٖ۝ ٠ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٣٦ فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے عصر العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا ( ع ص ر ) العصر ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔ خمر أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» ( خ م ر ) الخمر ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ خبز الخُبْز معروف قال اللہ تعالی: أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزاً [يوسف/ 36] ، والخُبْزَة : ما يجعل في الملّة، والخَبْزُ : اتّخاذه، واختبزت : إذا أمرت بخبزه، والخِبَازَة صنعته، واستعیر الخبز للسّوق الشّديد، لتشبيه هيئة السّائق بالخابز . ( خ ب ز ) الخبر ۔ روٹی ۔ قرآن میں ہے : أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزاً [يوسف/ 36] کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں ۔ الخبرۃ ۔ نان کو ماج ۔ الخبر ( مصدر ض ) روٹی بنانا ۔ اختبز ۔ افتعال ) روٹی کا حکم دینا الخبازۃ نانبائی کا پیشہ ۔ استعارہ کے طور پر خبر کے معنی سخت ہنکاتے کے بھی آتے ہیں کیونکہ ہانکنے والا بھی اس طرح ہاتھ مارتا ہے جیسے روٹی بنانے والا ہے ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے قال احدھما انی ارانی اعصرخموا ً ۔ ایک روز ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں ایک قول کے مطابق فقرے میں کچھ الفاظ پوشیدہ ہیں یعنی عصیر العنیب الخمر شراب تیار کرنے کے لیے انگور کا رس اس کے لیے مائع شراب میں کشید کا عمل نہیں ہوسکتا ۔ ایک قول کے مطابق میں ایسی چیز کشید کررہا ہوں جو آخر کار شراب میں تبدیل ہوجائے گی ۔ اس چیز یعنی رس کو خمر کے نام سے موسوم کردیا ۔ اگرچہ فی الحال وہ شراب نہیں تھی ۔ یہ اطلاق مجاز کے طور پر کیا گیا ہے انگور سے شراب کی کشید اس طرح بھی درست ہے کہ انگور کو مٹکے میں ڈال کر رکھ دیاجائے یہاں تک کہ اس میں ابا ل آ جائے اور جوش مارنے لگے اس طرح انگور کے دانوں میں موجود رس شراب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس تشریح کی بنا پر شراب کے لیے شید کے الفاظ کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا ۔ ضحاک کا قول ہے کہ عربی زبان کی ایک بولی میں انگور کو شراب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قول باری ہے نبئنابتاویلہ انا نراک من المحسنین ہمیں اس کی تعبیر بتایئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں ۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) مریضوں کا علاج معالجہ کرتے ، غمزدوں کو تسلی دیتے اور عبادت الٰہی میں بڑی سرگرمی دکھاتے تھے۔ ایک قول کے مطابق آپ مظلوموں کی مدد کرتے کمزوروں کا ہاتھ بٹاتے اور بیماروں کی عیادت کرتے تھے۔ ایک قول ہے کہ آپ خوابوں کی تعبیر کے لحاظ سے محسن تھے۔ یعنی خوابوں کی بہت درست تعبیر کرتے تھے ، آپ نے اپنے ان دونوں قیدی ساتھیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بھی کی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قید کے زمانہ میں یعنی ان کے جانے کے پانچ سال بعد بادشاہ کے دو غلام بھی جیل میں داخل ہوئے، ایک ان میں سے بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا نانبائی، بادشا ان دونوں پر ناراض ہوا اور قید میں بھیج دیا ان میں سے ساقی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ میں نے خود کو خواب میں انگور کا شیرہ نچوڑتے ہوئے دیکھا ہے کہ بادشاہ کو شراب بنا کر پلا رہا ہوں، اور تفصیل خواب کی یہ ہے گویا کہ میں انگوروں کے باغ میں داخل ہوا اور وہاں ایک عمدہ انگوروں کی بیل پر نظر پڑی جس کی تین شاخیں ہیں اور ایک شاخ پر انگوروں کے خوشے لٹک رہے ہیں تو میں اس سے انگور توڑ کر نچوڑ رہا ہوں اور انھیں بادشاہ کو پلا رہا ہوں۔ یہ سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، انگور کا باغ تو تیرا سابقہ پیشہ ہے اور اس کی بیل یہ بھی تیرے سپرد وہ کام ہوگا اور اس بیل کی خوبصورتی سے تیری عزت مراد ہے اور بیل کی تین شاخیں جو ہیں تو وہ یہ کہ تو تین دن تک جیل میں رہے گا اور پھر اپنے پہلے کام پر واپس چلا جائے گا اور انگور نچور کر جو بادشاہ کو پلا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر عزت کے ساتھ بادشاہ کا ساقی بنے گا۔ اور نانبائی کہنے لگا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا کہ میں بادشاہ کے مطبخ سے نکلا ہوں اور میرے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکریاں لدی ہوئی ہیں اس پر سے پرندے نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے بہت برا خواب دیکھا ہے تمہارا پہلا پیشہ تم سے واپس لے لیا جائے گا اور تم تین دن جیل میں رہو گے، اس کے بعد بادشاہ تمہیں جیل سے نکال کر پھانسی دے گا اور پرندے تمہارا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ چناچہ ان دونوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بتانے سے پہلے کہا کہ آپ ہمیں کو ان کی تعبیر بتائیے آپ قیدیوں پر احسان کرنے والے معلوم ہوتے ہیں یا یہ کہ ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ ) جب حضرت یوسف کو جیل بھیجا گیا تو اتفاقاً اسی موقع پر دو اور قیدی بھی آپ کے ساتھ جیل میں داخل کیے گئے۔ (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ دوسرے قیدیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ اعلیٰ اخلاق اور قابل رشک کردار کے مالک ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کے سلسلے میں ضرور ہماری راہنمائی فرمائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. At the time when Prophet Joseph was sent to prison, he probably was about twenty years old. This has been inferred from two statements in the Quran and the Talmud. The Quran (Ayat 42) says that....he remained in the prison for a decade or so and the Talmud says that ...Joseph was thirty years old when he was elevated to his honorable and trustworthy position. 32. One of the two prisoners, according to the Bible, was the chief of the butlers of the king of Egypt, and the other the chief of the bakers. And according to the Talmud, they were condemned to the prison because during a feast stone grits were found in the bread and a fly in the wine. 33. The fact that two prisoners attested his righteousness shows that Prophet Joseph was held in high esteem in the prison. Otherwise there was no reason why the two should have requested him alone to interpret the dreams and paid their homage like this: We have seen that you are a righteous man. It clearly means that the events narrated in the preceding verses had reached all and sundry and the people, inside the prison and outside it, knew that he had not been guilty of any crime or sin. On the other hand, he had proved himself to be a noble soul who had come out successful in the hardest test of his piety. So much so that there was not the like of him in piety, not even among their own religious leaders in the whole country. That is why not only the prisoners but also the officers and officials of the prison looked upon him as an honorable man and had full confidence in him. The Bible confirms this: And the keeper of the prison committed to Joseph’s hand all the prisoners that were in the prison; and whatsoever they did there, he was the doer of it. The keeper of the prison looked not to anything that was under his hand. (Gen. 39: 22-23).

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :31 غالبا اس وقت جب کہ حجرت یوسف علیہ السلام قید کیے گئے ان کی عمر بیس اکیس سال سے زیادہ نہ ہوگی ۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ قید خانے سے چھوٹ کر جب وہ مصر کے فرمانروا ہوئے تو ان کی عمر تیس سال تھی ، اور قرآن کہتا ہے کہ قید خانے میں وہ بضع سنین یعنی کئی سال رہے ۔ بضع کا اطلاق عربی زبان میں دس تک کے عدد کے لیے ہوتا ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :32 یہ دو غلام جو قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ داخل ہوئے تھے ان کے متعلق بائیبل کی روایت ہے کہ ان میں سے ایک شاہ مصر کے ساقیوں کا سردار تھا اور دوسرا شاہی نان بائیوں کا افسر ۔ تلمود کا بیان ہے کہ ان دونوں کو شاہ مصر نے اس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کر کراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے ایک گلاس میں مکھی نکل آئی تھی! سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :33 اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دوقیدیوں نے آخر حضرت یوسف علیہ السلام ہی سے آکر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذر عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنِینَ ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے ، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پر ہیزگاری کا ثبوت دے چکا ہے ، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے ، حتٰی کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہلکار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے ۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ” قید خانے کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے ، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹:۲۳ ، ۲۲ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: روایات میں ہے کہ ان دونوں میں سے ایک بادشاہ کو شراب پلایا کرتا تھا، اور دوسرا اُس کا باورچی تھا، اور ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے۔ اس الزام میں ان پر مقدمہ چل رہا تھا جس کی وجہ سے انہیں قید خانے میں بھیجا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی، اور انہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر اُن سے پوچھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ یہاں اتنی بات محذوف ہے کہ جب عزیز مصر کی صلاح یوسف (علیہ السلام) کے قید کرنے پر جم گئی اور یوسف (علیہ السلام) قید خانہ میں داخل ہوئے تو دو شخص اور بھی بادشاہ مصر کے دربار کے ان کے ہمراہ قید ہوئے ایک تو بادشاہ کا ساقی تھا آب دار خانہ شاہی کا اہتمام اس کے ہاتھ میں تھا۔ بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر تھا اور دوسرا باورچی خانہ کا داروغہ تھا۔ شاہی کھانے کا انتظام اس کے سپرد تھا ان دونوں کو اہل مصر نے اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ بادشاہ کو شراب اور کھانے میں زہر دے دیں اور اس کی رشوت میں جس قدر روپیہ چاہیں ہم سے لے لیں ایک روز بادشاہ کو کھانے کے وقت کچھ شبہ پیدا ہوا دونوں سے دریافت کیا یہ کھانا اور شراب کس قسم کے ہیں۔ ساقی نے کہہ دیا کہ آپ یہ کھانا نہ کھائیں اس میں زہر ملا ہوا ہے بادشاہ نے ساقی سے کہا تو یہ شراب پی جا وہ پی گیا اسے کچھ نقصان نہ پہنچا اور باورچی سے کہا کہ تو یہ کھانا کھا جا اس نے کھانے سے انکار کیا تو وہ کھانا کسی جانور کو کھلایا گیا وہ فوراً مرگیا اس جرم میں ساقی اور نان بائی دونوں کے دونوں جیل خانہ میں بھیجے گئے۔ پانچ برس کے بعد ان دونوں نے خواب دیکھا ساقی نے یہ خواب میں دیکھا کہ میں انگور نچوڑ نچوڑ کر شراب بنا رہا ہوں اور باورچی نے یہ خواب دیکھا میں اپنے سر پر روٹیاں لئے جاتا ہوں اور جانور اسے نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) قید خانہ میں بھی ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف اور ہر وقت خدا کی عبادت کرتے رہتے تھے اور قیدیوں کے حال پر بھی بہت مہربان تھے جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کی خبر گیری کرتے اور نہایت محبت سے ان کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اسی واسطے ان دونوں نے یوسف (علیہ السلام) سے اپنا خواب بیان کیا اور کہا کہ آپ کو نیکوکار جانتے ہیں آپ ہمارے اس خواب کی تعبیر بیان کیجئے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے زیادہ سچا خواب تو سچ بولنے والے دیندار شخص کا ہوتا ہے ١ ؎ مطلب یہ ہے کہ سچ بولنے والے دیندار شخص کا دل سچ پر جما ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے دل میں جو خیال آتا ہے وہ اکثر سچا ہوتا ہے اور یوں تو کبھی کبھی بت پرستوں کا خواب بھی سچا ہوتا ہے جس طرح مثلاً یہ ساقی اور نان بائی کا خواب یا بادشاہ مصر کا خواب جس کا ذکر آگے آوے گا۔ ١ ؎ مشکوۃ ص ١٤ کتاب الایمان

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:36) ارنی۔ میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں۔ اری رؤیۃ سے مضارع واحد متکلم نون وقایہ ی واحد متکلم کی ضمیر۔ اعصر۔ میں نچوڑتا ہوں عصر یعصر (ضرب) عصر سے جس کے معنی نچوڑنے کے ہیں۔ نبئنا۔ ہمیں آگاہ کر۔ تبنئۃ (تفعیل) مصدر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم امر واحد مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی یعنی شراب قلقہ تھا۔ اور دوسرا نائبائی۔ مگر اس نے خلاف ِ عادت دیکھا کہ جن اور سر سے نوچتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کو زہر دینے کی تہمت میں قید ہوئے تھے آخر ننابائی پر ثابت ہوئی۔ (کذافی الموضح) ۔ 1 ۔ یا تو خواب کی تعبیر خوب کرتا ہے یا یہ کہ تو قیدیوں سے احسان (نیک سلوک) کرنے والا ہے۔ لفظ محسن کے یہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٦ تا ٤٢ اسرار و معارف حضرت جب جیل میں پہنچے تو آپ کا شہرہ بھی پہنچا اور قید میں مصائب میں مبتلاء لوگوں کو بھی ذوق زیارت ہوا تو آپ ان میں اپنے کمالات بیان فرماتے اور انھیں اپنی طرف متوجہ فرماتے کہ انبیاء پر تو یہ فرض ہوتا ہے کہ اپنے کمالات نبوت کا اظہار فرما کر لوگوں کو راہ حق کی طرف دعوت دیں۔ اہل اللہ کا اظہار کمالات اور ولی اللہ بھی اگر اگر اظہار فرماتے ہیں تو ان کی غرض یہی ہوتی ہے ۔ کہ صاحب حال سے اپنی شہرت کی طلب کی توقع رکھنا درست نہیں۔ صاحب مظہری (رح) نے یہاں حضرت مجددالف ثانی (رح) کی مثال دی ہے کہ آپ اظہار فرماتے تھے تو اللہ کی بیشمار مخلوق نے استفادہ کیا جبکہ ان کے خلاف باتیں کرنے والے محض جہالت میں مبتلا رہے اور آج حضرت استاذناالمکرم (رح) کی دعوت سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی بدولت روئے زمین کے تقریبا ہر ملک میں سوائے چند ایک ملکوں کے اللہ کی مخلوق کو کلب گھروں جو اخانوں شراب خانوں اور خرافات سے نکال کرمساجد کی لذتوں سے آشنا کررہی ہے اور یہ کہنا کہ تصوف کا چھپانا ضروری ہے صرف اس لحاظ سے ہے کہ ایسی باتیں جو دوسروں کی عقل سے بالا ہوں اور انھیں اس سے کسی فائدے کی امید نہ ہو بیان نہ کی جائیں نہ یہ کہ برکات کا اظہار ہی نہ کیا جائے کہ اگر یہ دین ہے تو دین کا اظہار بھی ضروری ہے اور اگر خدانخواستہ دین نہ ہو تو پھر اپنا نے کی کیا غرض۔ اہل اللہ کا مذاق اڑانا دین کے ساتھ دنیا کی تباہی کا باعث بھی ہے چنانچہ انہی دنوں دوجوان بھی جیل میں آئے مفسرین کے مطابق ایک شاہی باورچی تھا اور دوسراساقی بادشاہ کو ان پر شبہ کزرا کہ انھوں نے کھانے میں زہرملانے کی کوشش کی ہے چناچہ دونوں کو جیل بھیج کر تحقیق شروع کرادی انھوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا شہرہ سنا تو انھیں مذاق کی سوجھی اور خواب گھڑکے تعبیر لوچھنپاچاہی چناچہ حاضرخدمت ہو کر گویا ہوئے ساقی نے عرض کیا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں انگور کے چند خوشے ہیں اور شاہی پیالہ بھی ہے جو میں نے بچوڑ کر بھردیا اور بادشاہ کو پیش کیا ۔ دوسرے نے جو باورچی تھا یہ کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے سر پر کھانوں کا بھرا ہواٹوکرا ہے اور مختلف پرندے چیل کوے اس میں سے جھپٹ جھپٹ کر کھا رہے ہیں ۔ آپ کی ہم نے بہت تعریف سنی ہے کہ آپ بہت نیک پرہیزگار ہمدرد اور غریبوں کا خیال رکھنے والے بھی ہیں اور آپ کو تعبیرات کا علم بھی آتا ہے تو ازراہ کرم ہمارے خوابوں کی بھی تعبیر تو دیجئے ۔ انھوں نے فرمایا اللہ نے مجھے بہت وسیع نگاہ دی ہے اور علوم کا بیش بہاخزانہ بخشا ہے اگر تم آزمانا چاہو تو تمہارے روز مرہ کے کھا نے کی تفصیل اس کے پہنچنے کا وقت اور کھانے کے بعد اس کا اثر کیا ہوگا ؟ یہ سب تمہیں کھانا ملنے سے پہلے بتاسکتا ہوں ۔ یہ آپ نے ایسے طورہی فرمایا جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ارشاد قرآن میں ہے کہ مجھے علم ہے تم نے کیا کھایا اور گھرپہ کیا چھوڑا ہے اور فرمایا کہ میرے علوم کی بنیادیہ ہے کہ یہ سب خزانے مجھے میرے پروردگار نے عطافرمائے ہیں ان میں اللہ کریم کی عطا کے علاوہ کسی کا دخل نہیں اور اللہ نے یہ شرف میرے ایمان کی بدولت بخشا ہے کہ میں نے کفر کا ارتکاب کرنے والوں کی راہ سے کلی اجتناب کیا ہے ۔ ایمان کی شرط کفر سے بیزاری بھی ہے یعنی ایمان کفر سے بیزاری کا نام ہے نہ صرف یہ کہ اللہ کو بھی مانے اور کفر کو بھی درست خیال کرے جیسا کہ آجکل سب کو صحیح کہنے والوں کو روشن خیال کہا جاتا ہے ۔ یہ روشن خیالی درست نہیں یہ تو خیال کی تاریکی ہے کہ باطل کو بھی حق شمار کرے ہاں ! حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا روشن خیالی ہے ۔ نیر اپنا ذاتی شرف بھی بیان فرمایا کہ میں نسبا بھی خاندان نبوت کافردہوں اور عقید ہ بھی اپنے آباداجداد حضرت یعقوب حضرت اسحاق اور حضرت اور حضرت ابراہیم (علیہم السلام) کاپیروکارہوں ۔ نسب بھی تب باعث شرف ہوتا ہے جب عقیدہ درست ہو ورنہ نہیں توگویا عالی نسب ہونا بہت بڑی بات ہے اور اس نعمت پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چا ہیئے لیکن یہ تب معتبر ہوگا جب عقیدہ بھی درست ہو ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہ رہے گی نیزیہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء اچھے نامورخاندانوں سے مبعوث ہوتے ہیں کہ لوگوں کو اتباع میں عارمحسوس نہ ہو۔ ایسیہی اولیاء اللہ میں مناصب اعلیٰ خاندانوں کے لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں ۔ اور فرمایا ہمارے ایسے عالی خاندان اور نور نبوت سے منور سینہ رکھنے والوں کو تو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ کسی کو اللہ کا شریک گمان کریں ۔ اور یہ صاف ستھراعقیدہ معمولی بات نہیں یہ تو اللہ کی بہت بڑی عطا ہے جو ہم سب پر بھی یقینا ہے لیکن ساری انسانیت کے لئے بھی اس کا دروازہ کھلا ہے ۔ دعوت اور ہم اسی کی طرف تو سب کو دعوت دیتے ہیں تو اس طرح سب لوگوں پر یہ اللہ کریم کا احسان ہے لیکن اکثرلوگ ناشکر گزار ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے سے محروم ہیں یعنی ہر حال اور ہر جگہ اور ہر کام میں دین کی دعوت اصل بات ہے جسے کسی نہ کسی انداز میں کرتے رہنا چاہیئے بلکہ جلسہ وغیرہ کی نسبت نجی ملاقاتوں کی دعوت اور ان ملاقاتوں میں جو مختلف کاموں کے سلسلہ میں مختلف لوگوں سے ہوں دی نجی ملاقاتوں کی دعوت اور ان ملاقاتوں میں جو مختلف کاموں کے سلسلہ میں مختلف لوگوں سے ہوں دی جانے والی سب سے زیادہ موثرثابت ہوتی ہے۔ اب تم ہی کہوبھلا دردر کی غلامی اچھی یا ایک ہی ایسے دربار میں سوال کرنا بہتر جو اکیلا ہے اور اس کی کوئی مثال نہیں اور ہر چیز پہ قادر ومختار ہے ہر شے اس کے قبضہ قدرت میں ہے جبکہ جن بیشمار دروازوں پہ تم لوگ جبہ سائی کرتے ہو اور جن مختلف ہستیوں کو پوجتے ہو ۔ ان کا خارج میں تو کوئی وجود ہی نہیں اگر وجود ہوتا بھی تو سب مخلوق ہی تو تھے پوجنے کے لائق تو نہ تھے مگر تم تو اس حد سے بھی گزرگئے اور محض مفروضہ ناموں کی پرستش شروع کردی جن کے بارے اللہ نے تو کوئی خبر نہیں دی ۔ بس تمہارے آباواجداد نے گھڑلئے ہیں تو پتہ چلا کہ آباؤاجداد اگر اللہ کی بات ماننے والے ہوں تو ان کی پیروی قابل فخر ہے کہ وہ اللہ ہی کی پیروی ہے لیکن اگر اللہ سے ناآشنا ہوں تو محض آباؤاجداد کی بات ہونا کوئی سند نہیں ۔ اور حکم تو اللہ ہی کا جاری وساری ہے اور اسی کے ارشاد کے مطابق عمل ہی نیک عمل بھی ہے اور اس نے ہر ہر نبی کی زبان سے یہ فیصلہ صادر فرمادیا ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے یہی دین حق ہے اور یہی سیدھی راہ بھی ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس سے بیخبر ہے آؤ ! اب تمہارے خواب کی بات کریں تو اس کی تعبیر جو اللہ نے میرے دل میں ڈالی ہے وہ تو یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو پھر سے شاہی ساقی بنے گا اور دوسرا سولی دیا جائے گا۔ تا آنکہ چیل کوے اس کا دماغ نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ بات بتانے کا انداز خوبصورت ہونا چاہیئے اگر دونوں نے اپنا اپنا خواب بیان کیا اور دونوں کے خیال سے ظاہر تھا مگر کسی کو بھی پریشان کرنا مناسب نہ جانتے ہوئے آپ نے فرمایا تم میں سے ایک اپنے عہدے پر بحال ہوگا جبکہ دوسرے کو سزاملے گی ۔ گویا بات ہمیشہ سلیقہ سے کی جانا چاہیئے ۔ جب یہ تعبیر سنی تو دونوں چیخ اٹھے کہ ہم نے تو کوئی خواب نہیں دیکھا یہ تو محض آپ کو آزمانے کے لئے بات گھڑلی تھی آپ نے فرمایا اگر دیکھا ہوتا تو بھی محض خواب تھا اور گھڑلیا تو بھی بات تمہاری تھی مگر جو میں نے بتایا ہے یہ علم الٰہی کی بدولت ہے اور میں نے تمہیں وہ فیصلہ بتادیا ہے جو تمہارے لئے مقدر ہوچکا ہے تم نے جو پوچھنا چاہا اللہ کریم نے مجھے اس سے آگاہ فرما دیا اور میں نے تمہیں اس کی خبرکردی اب ایسا ہی ہو کر رہے گا تم چاہویا نہ چاہو۔ اسباب اختیار کرنا جائز ہے نیز جس کے بارے گمان تھا کہ یہ رہائی پائے گا اسے فرمایا کہ جب بادشاہ کی خدمت میں پہنچوتو میری بات بھی کرنا کہ ایک ایسا انسان جو اللہ کا بندہ ہے اور جس نے کوئی قصور نہیں کیا جیل میں بند ہے کہ اس طرح ممکن ہے جیل سے رہائی کی صورت پیدا ہو۔ گویا اسباب اختیار کرنا منع نہیں نہ صرف جائز ہے بلکہ اختیار کرنا چاہئیں ۔ ابلیس اہل اللہ کو پریشان کرنے کے حیلے کرتا ہے مگر شیطن نے اسے وہ بات ہی بھلادی کہ وہ اپنے بادشاہ کے سامنے ذکر ہی نہ کرسکا تو یہ بات ثابت ہوئی کہ ابلیس نہ صرف گمراہ کرتا ہے بلکہ اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کو پریشان کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس کے لئے ان لوگوں کو جن کے قلوب میں اس کی رسائی ہو استعمال کرتا ہے ۔ چناچہ اس کوشش کے باوجود بھی یوسف (علیہ السلام) کو کئی برس مزید جیل میں رہنا پڑا کہ ان کی جیل سے رہائی تو وقت مقررہ پر ہی ہونا تھی ہونا تھی اور وہ بات اللہ کریم ہی بہتر جانتے ہیں کہ کب کونسا کام ہوگا۔ نیز اللہ کریم نے نہ صرف ان کی رہائی بلکہ الزام سے برأت اور ایوان سلطنت تک رسائی کا اہتمام فرمارکھا تھا جو سب کچھ اپنے وقت پر ہوا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 36 تا 40 دخل داخل ہوا فتین (فتی) دونوجوان احدھما ان دونوں میں سے ایک اعصر میں نچوڑ رہا ہوں خمر شراب احمل میں اٹھاتا ہوں راسی اپنا سر خبز روٹی تاکل الطیر پرندے کھا رہے ہیں نبئنا ہمیں بتا دے تاویلہ اس کی تعبیر لا یا تیکما تم دونوں کے پاس نہیں آئے گا ترزقنہ جو رقز تمہیں دیا جاتا ہے نبات میں بتا دوں گا علمنی اس نے مجھے سکھایا ترکت میں نے چھوڑا ملۃ ملت، طریقہ یصاحبی اے میرے دونوں ساتھیوں ارباب (رب) ، مختلف پروردگار القھار زبردست اسماء نام سمیتموا تم نے نام رکھے سلطن کوئی دلیل، کوئی سند، ایاہ اسی کی القیم سیدھا، سچا تشریح : آیت نمبر 36 تا 40 بے گناہی کے باوجود جب حضرت یوسف کو نامعلوم مدت تک قید کردیا گیا تھا۔ اس دوران حضرت یوسف کا قید کے ساتھیوں کے ساتھ طرز عمل نہایت عالیٰ اور بےمثال تھا۔ حضرت یوسف تمام قیدیوں کی مزاج پرسی کرتے۔ اگر کوئی بیمار ہوجاتا تو اس کی عیادت فرماتے، کسی کو پریشان حال دیکھتے تو اس کو تسلی دیتے اور صبر و تحمل کی تلقین فرماتے۔ غرضیکہ آپ کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ نہایت دوستانہ ہوتا جس سے تمام قیدیوں میں حضرت یوسف کی عزت اور احترام اور ان کے علم وتقویٰ کا بہترین اثر مرتب ہونا شروع ہوگیا۔ اسی دوران دو نئے قیدی لائے گئے جو بادشاہ کو کھانا کھلانے اور خدمت پر مامور تھے دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں زہر ملا کر بادشاہ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ جاری تھا۔ دونوں قیدیوں نے ایک ایک خواب دیکھا حضرت یوسف کے علم وتقویٰ کی بنا پر دونوں نے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی ایک نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ وہ بادشاہ کے لئے شراب نچوڑ رہا ہے۔ دوسرے نے بتایا کہ وہ اپنے سر پر روٹیوں کا ٹو کرا رکھے ہوئے ہے اور اس سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ ان دونوں نے درخواست کی کہ اے یوسف ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دیجیے جو آپ جیسے نیکو کار ہی بتا سکتے ہیں۔ حضرت یوسف فوراً ہی جواب دے سکتے تھے لیکن آپ نے فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تمہارا کھانا تمہارے سامنے لایا جائے میں تمہیں اس مختصر مدت میں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ ان خوابوں کی تعبیر اللہ نے مجھے سکھائی ہے لیکن میں سب سے پہلے تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک ایسی قوم کو چھوڑا ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ کفر میں مبتلا تھی۔ لیکن میں نے اپنے باپ دادا کے دین کو اختیار کیا ہے۔ یہ وہی دین ہے جس پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب چلتے تھے اور وہ یہ تھا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں کیونکہ اللہ نے ہم سب پر اور تمام لوگوں پر فضل و کرم فرمایا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ حضرت یوسف نے فرمایا کہ اے میرے قید کے ساتھیو ! یہ بتاؤ کہ وہ اللہ جو ایک ہے اور ساری قوتوں کا مالک ہے وہ بہتر ہے یا وہ جو تم نے بہت سے معبود بنا رکھے ہیں۔ محض کچھ نام ہیں جو تم نے رکھ چھوڑے ہیں جن کی کوئی مضبوط دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ دلیل اور حکم تو اس اللہ کے پاس سے جس کا کائنات کے ذرے ذرے پر حکم چلتا ہے جس نے تمہیں اس بات کا کا حکم دیا ہے کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ فرمایا کہ یہی سچا دین ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ حضرت یوسف نے اس کے بعد دونوں قیدیوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتا دی جو اسی طرح ہو کر رہی۔ اس کی تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔ ان آیات کے سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں تاکہ ان آیات کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں آسکے : 1) پریشانیوں کے باوجود اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کو برے حالات میں تسلی دینا سنت پیغمبری ہے۔ جس طرح حضرت یوسف نے اپنے قید کے ساتھیوں سے اچھا اور بہتر معاملہ فرمایا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہر موقع اور ہر مشکل وقت میں صحابہ کرام کی ہمت بڑھاتے اور نہایت سادگی کے ساتھ حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ 2) اگر حضرت یوسف چاہتے تو دونوں قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر اسی وقت بتا سکتے تھے لیکن آپ نے اس موقع پر فوراً تعبیر بتانے کے بجائے پہلے اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام کی سچائی کو بتاتے ہوئے کفر اور بتوں کی مذمت کی ہے تاکہ ہر شخص اس بات کو جان لے کہ انسان کی اصل کامیابی اللہ کو ماننے میں ہے وہی شخص کامیاب ہے جس نے اللہ کے پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے صراط مستقیم پر چلنا سیکھ لیا ہے۔ وہ شخص ہزار کامیابیوں کے باوجود ناکام ہے جس نے اللہ کا راستہ چھوڑ کر غیر اللہ کا راستہ اختیار کرلیا۔ 3) حضرت یوسف نے اس پور عرصہ میں کسی پر یہ ظاہر نہیں فرمایا کہ وہ کون ہیں اور ان کا رشتہ کن انبیاء کرام سے وابستہ ہے لیکن اچانک آپ کا یہ فرمانا میں ایک ایسی قوم کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اللہ کی نافرمان تھی یقینا یہ سب کچھ آپ کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہوگا۔ چونکہ حضرت یوسف تو اس وقت اندھے کنوئیں میں پھینکے گئے تھے جو وہ بہت معصوم اور چھوٹے سے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بےبسی اور بےچارگی کے عالم میں بدکاری کے مقابلے میں جیل کو ترجیح دینا۔ حقائق جاننے اور عزیز مصر کی بیوی کے اعتراف جرم کے باوجودمصر کا حکمران طبقہ اور زعماء اپنی عورتوں کے ہاتھوں اس قدر مجبورہوا کہ انہوں نے نسوانی رائے عامہ کے خوف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) جیسے عظیم کردار کے حامل، شرم وحیا کے پیکر، دیانت و امانت کے امین اور احساس ذمہ داری کے نگہبان کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کردیا۔ جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نے سب حقائق جاننے اور دیکھنے کے باوجود ایک مدت تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بند رکھا۔ عربی شمار کے مطابق ” سنین “ کا لفظ دس سال کی مدت تک استعمال ہوتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بےگناہ اور ایک پردیسی کی حیثیت سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی جیل میں داخل ہونے والے دو جوان قیدیوں نے ان کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں۔ جنہیں پرندے نوچ رہے ہیں۔ اے یوسف ہمیں اس کی تعبیر بتائیں ؟ کیونکہ ہم آپ کو محسن سمجھتے ہیں محسن کے دو معنی ہیں۔ ١۔ نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا۔ ٢۔ لوگوں پر احسان کرنے والا۔ ان الفاظ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کے کمال و جمال کا پتا چلتا ہے کہ ایک پردیسی اور بےگناہ قیدی ہونے کے باوجود کتنے حوصلے کے ساتھ جیل کاٹتے ہوئے اپنے رب کے شکر گزار اور ساتھیوں کے کس قدر خدمت گار ہوں گے۔ حالانکہ ایک بےگناہ قیدی اپنی بےگناہی اور ظالموں کے ظلم کی وجہ سے قید میں نہایت ہی پریشان دن گزارتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) جیل میں ایسا کردار پیش کرتے ہیں کہ ان کے قید کے ساتھی ان کے صالح کردار اور حسن اخلاق کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے اور ان کے کردار اور صلاحیتوں سے متاثر اس قدر ہیں کہ ان کو انتہائی نیک، سمجھ دار اور خیرخواہ سمجھ کر ان کے سامنے اپنے خواب ذکر کرتے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ دونوں قیدی حاکم مصر کے شاہی مہمان خانے کے ملازم تھے۔ ایک باورچی خانے کا انچارج اور دوسرا حاکم مصر کے لیے مشروبات تیار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شراب یا کوئی مشروب اپنے آقا کی خدمت میں پیش کیا اس میں کرواہٹ تھی اور دوسرے کے کھانے پکانے میں کوئی نقص واقع ہوا۔ بعض اہل علم نے اسرائیلی روایات یا ان جوانوں کی قید کی سزا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندازے سے لکھا کہ انہوں نے شراب اور کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب سے ان کے زہر ملانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ اکثربادشاہ نازک مزاج اور مغضوب الغضب ہوتے ہیں۔ جو بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی پر بڑی سے بڑی سزا دینے سے نہیں چوکتے۔ بہرحال غلطی کوئی بھی ہو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کا خواب سنتے ہی فرمایا کہ قید میں تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی میں تمہارے خواب کی تعبیر بتاؤں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب محسوس کیا کہ قیدی بھائی مجھ پر اعتماد اور میرے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں تو انہوں نے اس موقعہ کر غنیمت جانتے ہوئے انہیں دین کی دعوت دی۔ یہی داعی کی شان اور بصیرت ہونی چاہیے کہ وہ موقعہ محل کے مطابق دین کی دعوت پیش کرے۔ دین کی ابتدا اور انتہا تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جواب دہی کا تصور اور عقیدۂ توحید پر ایمان لانا اور نبی کی ہدایت کے مطابق ان کے تقاضے پورے کرنا۔ چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قیدیوں کو دین سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا ملکہ، معاملہ فہمی اور اپنی جناب سے علم عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے میں نے ایسی قوم کے طرز فکر اور طریقۂ حیات کو چھوڑ دیا ہے۔ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کے روز اس کے حضور پیش ہونے کے عقیدے کا انکار کرتے ہوں۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نبی ہونے کی طرف بھی اشارہ کردیا۔ مسائل ١۔ خواب کی تعبیر، تعبیر جاننے والے سے پوچھنا چاہیے۔ ٢۔ بےدین لوگوں کی راہ نہیں اپنانی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ملت کفرو شرک کو چھوڑنے کا حکم : ١۔ میں ایسی ملت چھوڑتا ہوں جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لائے۔ (یوسف : ٣٧) ٢۔ اے پروردگار ! اس کو امن والا شہر بنا، مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٣۔ دین پر قائم رہو اور بےعلموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس : ٧٩) ٤۔ ہم نے آپ کو دین کے ایک طریقہ پر کردیا آپ اسی پر چلے جائیں اور بےعلموں کی خواہش کی پیروی نہ کریں۔ (الجاثیۃ : ١٨) ٥۔ بیوقوف ہی ملت ابراہیم سے منحرف ہوسکتا ہے۔ (البقرۃ : ١٣٠) ٦۔ کہہ دیجئے اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تم دین ابراہیم کی پیروی کرو۔ (آل عمران : ٩٥) ٧۔ ہم اس وقت اللہ پر افتراء بازی کریں گے۔ اگر ہم ملت کفر میں لوٹ آئیں۔ (الاعراف : ٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

عنقریب سیاق کلام میں یہ بات ظاہر ہوگی کہ یہ لوگ بادشاہ کے خواص اور خدام میں سے تھے۔ یہاں قرآن مجید میں حضرت یوسف کے زمانہ قید کے حالات تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے ، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ قید خانے میں آپ کی طہارت اخلاق اور نیکی اور سنجیدگی اور وقار اس قدر عام ہوگیا کہ تمام قیدیوں میں آپ ایک مثال بن گئے۔ تمام قیدیوں کے لیے معتمد اعلی بن گئے ، ان قیدیوں میں وہ لوگ بھی تھے جو شاہی عتاب کی وجہ سے قید خانے میں پڑے تھے۔ کیونکہ شاہی محل اور شاہی دربار میں دربار میں ان سے کچھ قصور سرزد ہوگئے ہوں گے۔ چناچہ ان پر عارضی طور پر عتاب وارد ہوگیا تھا۔ بہرحال قرآن واقعات قصے کو جلدی آگے بڑھانے کے لیے باقی تفصیلات ترک کردیتا ہے اور صرف دو نوجوانوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ دو نوجوان حضرت یوسف کے پاس آئے اور انہوں نے ان کے سامنے اپنے خوابوں کو پیش کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ آپ ان کی تعبیر بتائیں۔ ان لوگوں نے تعبیر خواب کے لیے حضرت یوسف کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس لیے کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ وہ سچے ، نیک عبادت گزار اور ذکر و فکر کے مالک تھے۔ قید خانے میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ، ایک روز ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں دوسرے نے کہا " میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں " دونوں نے کہا ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ موقعہ ہاتھ آگیا کہ وہ قیدیوں کے سامنے اپنا نظریہ حیات پیش کریں۔ ان کو صحیح عقیدہ دیں ، کیونکہ قیدی کے لیے یہ ممنوع نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ اچھا ہو۔ قیدیوں کی نظریاتی اور عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ لہذا حضرت یوسف ان کو تلقین کرتے ہیں کہ تمام خرابیوں کی جڑ فاسد نظام زندگی ہے جس میں حکم اور اقتدار اعلی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو۔ چناچہ وہ ان کو تلقین کرتے ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اس کرہ ارض کا رب تسلیم کرنا اصل گمراہی ہے ، اس طرح حکمران فرعون بن جاتے ہیں۔ حضرت یوسف اپنی بات کا آغاز اس موضوع سے کرتے ہیں جس میں اس کے جیل کے دونوں ساتھیوں کو دلچسپی ہے۔ لیکن ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے دلچسپی کے موضوع پر بات ذرا بعد میں آئے گی۔ اور وہ خوابوں کی صحیح تعبیر بتا دیں گے کیونکہ اس شعبے میں اللہ نے ان کو علم لدنی دیا ہے اور یہ اس لیے دیا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کرتا ہوں اور اللہ کے ساتھ میں اور میرے آباء و اجداد کسی کو شریک نہیں کرتے ، یوں حضرت یوسف ان لوگوں کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ تعبیر خواب بھی بتائیں گے اور یہ کہ حضرت یوسف کا دین بھی نہایت ہی متین دین ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جیل میں دو قیدیوں کا خواب دیکھنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے تعبیر دینے کی درخواست کرنا جیسا کہ اوپر معلوم ہوا عزیز مصر کے مشورہ دینے والوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بھجوا دیا۔ اسی موقع پر دو جوان بھی جیل میں داخل ہوئے تھے اور ان کے علاوہ پہلے سے بھی قیدی موجود تھے سیدنا حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ‘ عبادت گزار تھے خوش اخلاق تھے قیدیوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے تھے صالحین کے چہرے پر تو نور ہوتا ہی ہے پھر یہاں تو نور نبوت بھی تھا اور ظاہری حسن و جمال بھی بےمثال تھا قیدی لوگ دلدادہ ہوگئے یہاں تک کہ جیلر بھی بہت زیادہ متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر میں خود مختار ہوتا تو آپ کو جیل سے رہا کردیتا ہاں اتنا کرسکتا ہوں کہ آپ کو اچھے طریقے پر رکھوں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دوں۔ (ذکرہ البغوی فی معالم التنزیل ص ٤٢٦ ج ٢) یہ دو جوان جو نئے نئے انہیں دنوں جیل میں داخل ہوئے تھے ان کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ مصر کے کچھ لوگوں نے بادشاہ کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا تھا ان لوگوں نے ان دونوں کو استعمال کرنا چاہا ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی تھا جو اسے پینے کی چیزیں پلایا کرتا تھا اور دوسرا خباز یعنی روٹی تیار کرنے والا تھا ‘ منصوبہ بنانے والوں نے ان دونوں سے کہا کہ تم کھانے پینے کی چیزوں میں زہرملا کر بادشاہ کو کھلا پلا دو ‘ پہلے تو دونوں نے بات قبول کرلی کیونکہ رشوت کی پیش کش کی گئی تھی پھر ساقی تو منکر ہوگیا اور خباز نے رشوت قبول کرلی اور کھانے میں زہر ملا دیا ‘ جب بادشاہ کھانے بیٹھا تو ساقی نے کہا کہ آپ کھانا نہ کھائیے کیونکہ اس میں زہر ہے اور خباز نے کہا آپ پینے کی کوئی چیز نہ پیجئے کیونکہ اس میں زہر ہے ‘ بادشاہ نے ساقی سے کہا کہ تو یہ جو کچھ میرے پلانے کے لئے لایا ہے اس میں سے پی لے اس نے پی لیا تو کوئی نقصان نہ ہوا پھر بادشاہ نے خباز کو کہا کہ تو اس کھانے میں سے کھالے وہ انکاری ہوگیا پھر وہ کھانا ایک جانور کو کھلایا گیا وہ جانور کھا کر ہلاک ہوگیا بادشاہ نے ساقی اور خباز دونوں کو جیل بھجوا دیا (بھیجنا تو چاہئے تھا صرف خباز کو لیکن تحقیق وتفتیش کی ضرورت سے ساقی کو بھی بھیج دیا) ان دونوں کو فکر پڑی ہوئی تھی کہ دیکھو کیا ہوتا ہے ہماری رہائی ہوتی ہے یا جان جاتی ہے اسی اثناء میں ان میں سے ایک نے خواب دیکھا کہ وہ انگور سے شیرہ نچوڑ رہا ہے جس سے شراب بنائی جاتی ہے (یہ خواب دیکھنے والا بادشاہ کا ساقی تھا) اور دوسرے یعنی (خباز) نے یہ خواب دیکھا کہ وہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے لے جا رہا ہے اور ان روٹیوں میں سے پرندے کھاتے جا رہے ہیں ‘ دونوں نے سیدنا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنا خواب پیش کیا اور تعبیر دینے کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی یوں بھی کہا کہ آپ ہمیں اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں اندازہ یہ ہے کہ آپ کی بتائی ہوئی تعبیر درست ہوگی ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کی تعبیر بتانے کا اقرار فرما لیا لیکن پہلے توحید کی تبلیغ فرمائی۔ (من معالم التنزیل)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ یہ ساتواں حال ہے۔ اسی اثناء میں شاہ مصر ریان بن ولید اپنے باورچی اور ساقی پر ناراض ہوگیا۔ وجہ یہ تھی کہ شاہ مصر کے دشمنوں نے اسے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا اور شاہ کے باورچی اور ساقی کو رشوت دے کر کھانے اور شراب میں زہر ملا کر شاہ کو پلانے پر آمادہ کرلیا۔ بعد میں ساقی نادم ہوا اور اس نے زہر دینے سے انکار کردیا لیکن باورچی اپنے عہد پر قائم رہا۔ جب کھانا اور شراب شاہ کے سامنے حاضر کیا گیا تو ساقی نے شاہ سے کہا کہ یہ کھانا مت کھائیے کیونکہ وہ زہر آلود ہے۔ اور باورچی نے شراب کے بارے میں یہی الفاظ کہہ دئیے۔ شاہ نے دونوں کو جیل بھیج کر تحقیقات کا حکم دے یا۔ ساقی نے خواب دیکھا کہ وہ انگور نچوڑ کر شراب بنا رہا ہے اور باورچی نے خواب دیکھا کہ وہ سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہے اور پرندے روٹیاں نوچ رہے ہیں۔ دونوں نے دیکھا کہ جیل کے قیدی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اپنے خواب بیان کرتے ہیں اور وہ نہایت عمدہ تعبیر بیان فرماتے ہیں اس لیے انہوں نے بھی اپنا اپنا خواب ان کے سامنے بیان کیا اور کہا آپ بہت نیک دل اور صالح مرد معلوم ہوتے ہیں آپ ہمارے خوابوں کی بھی تعبیر بیان فرمائیں (روح و قرطبی وغیرہ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 ۔ اور یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ اتفاقا ً اور بھی دو نوجوان قید خانے میں داخل ہوئے ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنے کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں انگور سے شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں اپنے کو دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں اور ان روٹیوں میں سے پرندے نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں ۔ اے یوسف (علیہ السلام) ! ہم کو ہمارے خواب کی تعبیر بتا دیجئے ہم آپ کو نیکو کاروں میں دیکھتے ہیں۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل خانے بھیجا گیا تو اسی زمانے میں دو اور نوجوان جو بادشاہ کے غلام تھے وہ بھی ایک الزام کے ماتحت جیل خانے میں داخل کئے گئے ان دونوں میں سے ایک تو بادشاہ کو شراب پلایا کرتا تھا اور ایک بادشاہ کا نانبائی تھا جو بادشاہ کو کھانا کھلایا کرتا تھا دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے سازش کر کے بادشاہ کو کھانے میں اور شراب میں زہر دیا ہے ان دونوں کا معاملہ زیر تحقیق تھا۔ ان دونوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے معتقد ہوگئے اور ان دونوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اپنا خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس نے شراب دیکھی وہ بادشاہ کا شراب ساز تھا اور دوسرا نانبائی تھا لیکن خلاف عادت دیکھا کہ سر پر سے جانور نوچتے ہیں زہر کی تہمت میں دونوں قید تھے آخر نان بائی پر ثابت ہوئی۔ 12 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کو سن کر ان کی خوش عقیدگی کو دیکھ کر موقع کو غنیمت سمجھا کہ لائو خواب کی تعبیر سے پہلے ان کی اصلاح کر دوں اور ان کو اسلام کی خوبیاں سمجھا دوں تا کہ شاید یہ مسلمان ہوجائیں۔