Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 38

سورة يوسف

وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۸﴾

And I have followed the religion of my fathers, Abraham, Isaac and Jacob. And it was not for us to associate anything with Allah . That is from the favor of Allah upon us and upon the people, but most of the people are not grateful.

میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالٰی کا یہ خاص فضل ہے ، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ ابَأيِـي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ ... And I have followed the religion of my fathers, - Ibrahim, Ishaq and Yaqub, Yusuf said, `I have avoided the way of disbelief and polytheism, and followed the way of these honorable Messengers,' may Allah's peace and blessings be on them. This, indeed, is the way of he who seeks the path of guidance and follows the way of the Messengers, all the while shunning the path of deviation. It is he whose heart Allah will guide, teaching him what he did not know beforehand. It is he whom Allah will make an Imam who is imitated in the way of righteousness, and a caller to the path of goodness. Yusuf said next, ... مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللّهِ مِن شَيْءٍ ذَلِكَ مِن فَضْلِ اللّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ ... and never could we attribute any partners whatsoever to Allah. This is from the grace of Allah to us and to mankind, this Tawhid -Monotheism-, affirming that there is no deity worthy of worship except Allah alone without partners, ... مِن فَضْلِ اللّهِ عَلَيْنَا ... is from the grace of Allah to us, He has revealed it to us and ordained it on us, ... وَعَلَى النَّاسِ ... and to mankind, to whom He has sent us as callers to Tawhid, ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ but most men thank not. they do not admit Allah's favor and blessing of sending the Messengers to them, but rather, بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ Have changed the blessings of Allah into disbelief, and caused their people to dwell in the house of destruction. (14:28)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 اجداد کو بھی آباء کہا، اس لئے کہ وہ بھی آباء ہی ہیں۔ پھر ترتیب میں جد اعلٰی (ابراہیم علیہ السلام) پھر جد اقرب (اسحاق علیہ السلام) اور پھر باپ (یعقوب علیہ السلام) کا ذکر کیا، یعنی پہلے۔ پہلی اصل، پھر دوسری اصل اور پھر تیسری اصل بیان کی۔ 38۔ 2 وہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین تعلیم اور دعوت ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ ۔۔ : پھر انھیں اپنا اور اپنے آباء کا تعارف کروایا، کیونکہ داعی کی شخصیت بھی دعوت قبول کرنے میں مددگار ہوتی ہے، چناچہ فرمایا کہ میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کی ملت اور ان کے دین کی پیروی کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کسی صورت اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک کریں، خواہ وہ آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت پری، بت ہو یا قبر، پتھر ہو یا درخت، چاند سورج ہوں یا ستارے، غرض کسی کو بھی ہم ہرگز اللہ کا شریک نہیں بنا سکتے۔ ” مَا كَانَ لَنَآ “ میں نفی کی ” كَانَ “ کے ساتھ تاکید کا یہی معنی ہے۔ نیک آباء کی پیروی سعادت ہے، جب کہ گمراہ آباء کی تقلید ضلالت ہے، جیسا کہ ان قیدیوں کو فرمایا : (اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ ) یعنی اللہ کے سوا جس کی بھی تم عبادت کرتے ہو وہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء نے رکھ لیے ہیں، ایسے آباء کی پیروی گمراہی ہے۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا۔۔ : یعنی توحید کی یہ سمجھ عطا کرنا ہم پر اللہ کے بیشمار احسانوں میں سے ایک احسان ہے۔ ” وعلی الناس “ اور لوگوں پر بھی احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے سے ان کو توحید سمجھانے کا انتظام فرمایا، لیکن اکثر لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, he declares his abhorrence for disbelief and his dis¬engagement from the community of disbelievers. Then, with it, he also stresses that he is a member of the House of Prophets and it is their Community that he adheres to and that he is a scion of the House of Ibrahim, Ishaq and Ya` qub (علیہم السلام) . We mentioned confidence a little earli¬er. Customarily, this kind of inherited nobility, a common family trait, is also a source of creating confidence in a person. After that he said: And it is not for us that we associate any partners with Allah. Then, he said that the Taufiq of following a true religion (&the favour of Allah upon us and upon all people& ) was nothing but the Fadl or grace of Allah Ta’ ala, for it was He who, by giving proper understanding, made the acceptance of truth easy on us. But, most of the people do not appreciate this bless¬ing and do not show their gratitude for it. After having said that, he asked the same prisoners to tell him if it was better that human beings should be worshiping many gods, or was it better that one becomes a ser¬vant of one Allah alone - whose subduing power is all-dominant. Then he referred to idol worship from a different angle. He told them that their fathers and forefathers have taken some idols as their Lord. As for them, they are no more than a lot of names which they have coined on their own. They have no personal attributes which could become deserving of assigning to them the least fund of power - because all of them are inert. This is something one can see with one&s own eyes. The only other meth¬od through which they could have been taken as true objects of worship would be that Allah Ta’ ala sends down specific injunctions or command¬ments to worship them. So, in that case, even if observation and reason had not been willing to accept their godhood but, because of the Divine command, we would have left our observation and reason aside and would have obeyed the command of Allah. But, this is not there either - because Allah Ta ala did not send down any argument or proof for their worship. Instead of that, what He said was but that Law and Sovereign¬ty belonged to Allah Ta ala with no one having a right in it; and the com¬mand He gave was no other but that we should not worship anyone or anything other than Allah. Finally, he said: ` This is the only right path - which was bestowed on my forefathers by Allah Ta ala, but most of the people do not know this reality.&

اس کے بعداول کفر کی برائی اور ملت کفر سے اپنی بیزاری بیان کی اور پھر یہ بھی جتلا دیا کہ خاندان نبوت ہی کا ایک فرد اور انہی کی ملت حق کا پابند ہوں میرے آباء و اجداد ابراہیم واسحاق و یعقوب ہیں یہ خاندانی شرافت بھی عادۃ انسان کا اعتماد پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد بتلایا کہ ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کی خدائی صفات میں شریک سمجھیں پھر فرمایا کہ یہ دین حق کی توفیق ہم پر اور سب لوگوں پر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے کہ اس نے سلامت فہم عطا فرما کر قبول حق ہمارے لئے آسان کردیا مگر بہت سے لوگ اس نعمت کی قدر اور شکر نہیں کرتے پھر انہی قیدیوں سے سوال کیا کہ اچھا تم ہی بتلاؤ کہ انسان بہت سے پروردگاروں کا پرستار ہو یہ بہتر ہے کہ صرف ایک اللہ کا بندہ بنے جس کا قہر وقوت سب پر غالب ہے پھر بت پرستی کی برائی ایک دوسرے طریقہ سے یہ بتلائی کہ تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے کچھ بتوں کو اپنا پروردگار سمجھا ہوا ہے یہ تو صرف نام ہی نام کے ہیں جو تم نے گھڑ لئے ہیں نہ ان میں ذاتی صفات اس قابل ہیں کہ ان کو کسی ادنیٰ قوت و طاقت کا مالک سمجھا جائے کیونکہ وہ سب بےحس و حرکت ہیں یہ بات تو آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے دوسرا راستہ ان کے معبود حق ہونے کا یہ ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی پرستش کے لئے احکام نازل فرمائے تو اگرچہ مشاہدہ اور ظاہر عقل ان کی خدائی کو تسلیم نہ کرتے مگر حکم خداوندی کی وجہ سے ہم اپنے مشاہدہ کو چھوڑ کر اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے مگر یہاں وہ بھی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے ان کی عبادت کیلئے کوئی حجت و دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ اس نے یہی بتلایا کہ حکم اور حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا حق نہیں اور حکم یہ دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی وہ دین قیّم ہے جو میرے آباء و اجداد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا مگر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝ ٠ۭ مَا كَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللہِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللہِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٣٨ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) ہمارے لیے کسی طرح یہ مناسب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان بتوں میں سے کسی کو شریک عبادت قرار دے دیں اور یہ دین مستقیم اور نبوت واسلام جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت دی ہے یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور دوسرے لوگوں پر بھی ان کی طرف اس نے ہمیں رسول بنا کر بھیجا، یا یہ کہ مومنین پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان کو ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ) آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے ‘ جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے ‘ ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں ‘ نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غور و فکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں ‘ سب کے سب کافر اور مشرک ہیں مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات و عقائد نہیں اپنائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے ‘ بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔ (ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ) یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:38) ما کان لنا ان نشرک باللہ من شیئ۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک ٹھہرائیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت اور پری بت ہو یا قبر یا پتھر ہو یا درخت، کسی کو خدا کا سانجھی نہ ٹھہرائیں۔ (وحیدی) ۔ 4 ۔ بلکہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک گردانئے ہیں اور ان کی عبادت کرکے اپنے آپ کو ذلت کے گڑھے میں گرات ہیں۔ (وحیدی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ہمارا اس دین (توحید) پر رہنا سب لوگوں کے حق میں فضیلت ہے تاکہ ہم سے راہ سیکھیں۔ (از موضح) ۔ مطلب یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو یہ فضل و عنایت بلا واسطہ ہوتا ہے لیکن لوگوں پر نبی و کے واسطہ سے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی توحید اس مذہب کا رکن اعظم ہے۔ 3۔ کیونکہ اس کی بدولت دنیا وآخرت کی فلاح ہے۔ 4۔ یعنی توحید کی قدر اور اس کو اختیار نہیں کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیدیوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خطاب جاری ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ خوابوں کی تعبیر جاننا، اللہ اور آخرت پر ایمان لانا۔ میرے رب نے مجھے سکھلایا ہے۔ ان الفاظ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل جانے سے پہلے نبوت کے منصب پر فائز کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی دعوت کی وضاحت اور سلسلۂ نبوت کو اپنے آباء حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں ہم اس کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کریں۔ بیشک وہ جاندار ہو یا غیر جاندار۔ ” من شیءٍ “ کے الفاظ میں مردہ اور زندہ تمام شامل ہیں۔ اسی لیے میں نے اس طریقہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پہلے شرک کرتے تھے بعد میں اسے چھوڑ دیا۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے اسے قبول ہی نہیں کیا۔ عقیدۂ توحید کی فضیلت اور فرضیت کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہم لوگوں پر بڑا فضل ہے۔” الناس “ سے مراد بالخصوص انبیائے کرام (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے بعد وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید کی سمجھ اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔ پھر اتنہائی عاجزی اور حقیقت کے اظہار کے لیے فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہی کے عطا کردہ علم سے خوابوں کی تاویل اور توحید کا عقیدہ بتلا رہا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ الناس سے مراد عام لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے لوگوں کو عقیدۂ توحید کی تعلیم دے کر انسان کو اپنی چوکھٹ کے سوا ہر چوکھٹ اور درگاہ کے سامنے جھکنے سے منع کیا ہے۔ اور انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے۔ کہ وہ انتہائی بےبسی اور غلامی کی حالت میں بھی ایک سے زائد آقا گوارا نہیں کرتا لیکن جب توحید کی غیرت دب جاتی ہے تو وہ ایک خدا کے سامنے جھکنے کے بجائے بتوں، مزاروں اور غیروں کے سامنے جھکتا چلا جاتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نہایت سمجھ داری اور سوز مندی کے ساتھ عقیدۂ توحید سمجھانے اور اس کے دنیوی اور اخروی فوائد بتلانے کے بعد ان سے سوال کرتے ہیں کہ اے میرے قید کے ساتھیو ! بتلاؤ کہ مختلف خداؤں پر ایمان لانا بہتر ہے یا ایک اللہ پر جو ہر قسم کے اقتدار، اختیار اور زبردست جلالت و جبروت کا مالک ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کا دل بہلانے اور اپنی قربت کا احساس دلانے کے لیے کتناپیارا انداز اختیار فرمایا ہے کہ انہیں یہ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں کہ تم میرے قیدی ساتھی ہو۔ ذہنی قربت اور قلبی محبت پیدا کرنے کے بعد انہیں عقیدۂ توحید کا یہ فائدہ بھی بتلایا کہ اللہ واحد کے ہی اختیارات میں ہے کہ جب چاہے ظالموں کے دل موڑ دے اور ہماری رہائی عمل میں آجائے۔ اس کے سامنے کسی جابر کا جبر اور ظالم کا ظلم نہیں ٹھہر سکتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب قافلے والوں نے اٹھایا اور پھر بازار میں فروخت کیا۔ اس وقت انہیں یہ شعور اور علم تو تھا کہ میں حضرت یعقوب پیغمبرکا بیٹا حضرت اسحاق کا پوتا ہوں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ میرے پڑدادا ہیں۔ جب ان پر تہمت لگی تو اس وقت وہ تیس سال کے قریب تھے۔ بےگناہ ثابت ہونے کے باوجود انہیں جیل ڈال دیا گیا۔ مگر کسی ایک موقع پر بھی انہوں نے اپنے خاندان کا تعارف نہیں کروایا۔ لیکن جب عقیدۂ توحید بیان کرنے لگے تو اپنے بزرگوں کا تعارف کرواتے ہیں۔ اس سے پہلے تعارف نہ کروانے کی دو وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ یقینی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں اس وقت روک دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عظیم خانوادے کا فرزند ہونے کی وجہ سے خدا داد حوصلے کے سبب قافلے والوں کو اپنا تعارف کروانا مناسب نہ سمجھا۔ بیشک وہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن مستقبل میں نبی بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ تہمت لگنے کے وقت ان کی عمر تیس سال کے قریب تھی لیکن انہوں نے اپنے خاندانی حوالے سے اپنی پاک دامنی کا ثبوت دینے کے بجائے اسے حالات پر چھوڑ دیا کہ وقت آئے گا کہ قرائن اور شواہد سے ثابت ہوجائے گا کہ میرا دامن ہر اعتبار سے پاک صاف ہے۔ توحید کی دعوت دیتے وقت اپنے بزرگوں کا اس لیے تعارف کروایا کہ مصر کے لوگ بھی ان شخصیات سے بہت حد تک واقف اور ان کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس لیے ان کا نام لیتے ہیں کہ عقیدۂ توحید کو اختیار کرنے اور اس کی دعوت دینے میں، میں اکیلا نہیں بڑے بڑے انبیاء اور بزرگ اس عقیدہ کے حامل اور اس کی دعوت دیتے آرہے ہیں۔ اس وضاحت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ شرک چھوڑنے اور توحید کا عقیدہ اپنانے میں آسانی محسوس کریں۔ مسائل ١۔ سب لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ٣۔ عقیدۂ توحید در در کی ٹھوکروں اور کئی خداؤں سے نجات دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم : ١۔ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو یکسو ہے۔ (النساء : ١٢٥) ٢۔ حضرت ابراہیم کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی اطاعت کی۔ (آل عمران : ٦٨) ٣۔ سب یکسو ہوکرحضرت ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو، وہ مشرک نہیں تھے۔ (آل عمران : ٩٥) ٤۔ نبی کریم کو بھی ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا۔ (النحل : ١٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نشانات کفر بتانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) ان نوجوانوں کے سامنے نشانات ایمان بھی رکھتے ہیں ، جن پر وہ اور ان کے آباء چل رہے ہیں۔ میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم ، اسحاق ، اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک ٹھہرائیں۔ ملت اسلامیہ مکمل توحید کی ملت ہے ، اور اس میں اللہ کے ساتھ شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ توحید کی طرف ہدایت کرنا اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے۔ اور یہ فضل و کرم اس قدر عام ہے کہ ہر شخص اس کو قبول کرسکتا ہے اور حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس کا رجحان اور اس کے اصول انسان کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ اور اس کے اشارات اور براہین انسانی ماحول کے اندر بھی موجود ہیں۔ رسولوں کی ہدایات اور کتب سماوی میں اس کی تعلیمات بھی موجود ہیں لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس عمومی فضل و کرم سے اپنے آپ کو محروم رکھ رہے ہیں۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ : در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ حضرت یوسف آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں اپنی بات اتار رہے ہیں ، نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ، نہایت نرمی کے ساتھ۔ ان کے دلوں میں بات کو بٹھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات کا اظہار آہستہ آہستہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمہارے اور تمہاری قوم کے عقائد و نظریات غلط ، فاسد اور باطل ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ سوسائٹی ایک فاسد سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ اس طویل تمہید کے بعد حضرت یوسف اصل بات کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ اور میں اپنے آباء کرام حضرت ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت حنیفیہ کا پیرو اور متبع ہوں جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے جو دنیا میں اللہ کی توحید پھیلانے اور دنیا سے شرک کو مٹانے آئے تھے اس لیے ہمارے تو یہ شایانِ شان ہی نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریں۔ ” ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللہِ الخ “ یہ توحید ہم پر اور دوسرے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے مگر اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور شرک سے باز نہیں آتے یعنی ان اکثرھم لا یشکرون اللہ علی ھذہ النعم التی انعم بھا علیھم لانھم ترکوا عبادتہ و عبدوا غیرہ (خازن ج 3 ص 284) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38 ۔ اور میں نے اپنے باپ دادا جو ابراہیم (علیہ السلام) و اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) ہیں ان کے مذہب اور ان کے طریقہ کی پیروی اختیار کر رکھی ہے ہم کو یہ بات ہرگز زیبا نہیں کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک قرار دیں ۔ یہ عقیدۂ توحید ہم پر اور دوسرے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے لیکن اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ یعنی جس دین کی میں تم کو تبلیغ کر رہا ہوں یہ وہی ملت ابراہیمی اور اسلام ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہم السلام) کا مذہب تھا میں بھی اسی کا پیرو ہوں ۔ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا ہرگز زیبا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہمارا اس دین پر رہنا سب خلق کے حق میں فضل ہے ک ہم سے راہ سیکھیں۔ 12